گناہوں کے دو درجات ہیں:
1۔ الصغائر - یعنی چھوٹے گناہ
2۔ الکبائر - یعنی بڑے گناہ
ان سے مراد وہ چھوٹے گناہ ہیں جو بے احتیاطی کی وجہ سے سرزد ہوتے ہیں مثلاً کسی کی بے ادبی، کسی کی معمولی حق تلفی، بری خواہشات یا برے خیالات کا دل میں کروٹ لینا وغیرہ۔ یہ ایسے کم درجہ کے گناہ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے عذاب کی وعید نہیں فرمائی البتہ وہ عتاب فرماتا ہے، سرزنش کرتا ہے، تھوڑی سی سزا دیتا ہے تاکہ اُس کا بندہ اِسی مقام پر سنبھل جائے اور اُن پر اصرار کرکے اتنا بے حجاب نہ ہو جائے کہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر بیٹھے۔
امام ابو طالب مکی ’قوت القلوب (1: 383)‘ میں فرماتے ہیں: یہ خیالات ہی ہیں جن سے وسوسہ کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ جب وسوسے کثرت سے آنے لگیں تو شیطان کے لئے بندے کو مائل کرنے اور گناہ کو مزیّن کرکے اُس پر آمادہ کرنے کی راہ کھل جاتی ہے۔ اس طرح ایک تائب کے لئے یہ بڑی نقصان دہ اور خطرناک بات ہے کہ اس مقام پر اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سرزنش نہ آئے تو وہ اسے معمولی خطا سمجھے اور ہلاکت کے گہرے گڑھے میں جا گرے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کی یہ توصیف فرمائی ہے کہ وہ پے در پے گناہ نہیں کرتے اور اگر گناہ ہو جائے تو نادم ہو کر فوراً نیکی کے کام سر انجام دیتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
وَیَدْرَئُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ.
القصص، 28: 54
اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں۔
اس سے مراد وہ سب امور ہیں جن کے کرنے کی اللہ اور اس کے رسول کریم ﷺ نے سختی سے ممانعت فرمائی ہے۔ ان کے کرنے والوں کے لئے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے اور لعنت کی ہے۔ ان میں سے چند یہ ہیں: ناحق قتل، زنا کاری، شراب نوشی، چوری، ڈاکہ زنی، دھوکا دہی، غیبت، بددیانتی، ملاوٹ، والدین کے ساتھ زیادتی وغیرہ۔ یہ سب بڑے گناہ ہیں۔
سب گناہوں سے توبہ کرنا خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے طریقت کی راہ میں پہلا قدم ہے۔ گناہوں کو ترک کرنا خوفِ الٰہی کے سبب ہوتا ہے اس لیے توبہ کا محرک عذاب و عتاب ٹھہرا، یعنی بندے کے دل میں یہ بات گھر کر جائے کہ اگر اس نے توبہ نہ کی تو اسے عذاب اور غیض و غضب کا مستحق ٹھہرایا جائے گا۔
سچی توبہ کی ابتداء برے دوستوں کی مجلس سے الگ رہنے سے ہوتی ہے کیونکہ وہی اُسے اِس ارادہ سے باز رہنے پر اکساتے ہیں اور ارادہ کے درست ہونے میں شکوک پیدا کرتے ہیں۔ چنانچہ توبہ کے ارادے کی تکمیل اُسی وقت ممکن ہے جب انسان برے لوگوں کی سنگت یعنی صحبتِ بد سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ توبہ کے محرک یعنی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے خوف کو ہمیشہ پیش نظر رکھے۔ اسی سے طالب کے دل پر بُرے اعمال کی حقیقت منکشف ہوتی ہے اور وہ ممنوعہ افعال سے رک جاتا ہے۔ یوں تمام نفسانی اور شہوانی خواہشات توفیقِ ایزدی سے اس کے دل سے دور ہو جاتی ہیں۔
سچی توبہ کے باب میں یہ امر پیش نظر رہے کہ توبہ کے سلسلے میں مختلف شرائط، آداب، مراحل اور محرکات جن کا گزشتہ صفحات میں ذکر کیا گیا، گناہگاروں کے لئے تو ضروری ہیں لیکن اللہ قادر مطلق ہے اور معافی دینے میں ان سے بے نیاز ہے۔ وہ چاہے تو سچے دل سے اس کی طرف رجوع کرنے والے کے پہلے ہی قدم پر اُس کی ساری زندگی کے گناہ معاف کر دے اور شفقت فرماتے ہوئے غیر معمولی کرم نوازی فرمائے۔ اِس ضمن میں حضرت مولانا روم نے اپنی مثنوی میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو بڑا ایمان افروز ہے:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ایک سارنگی بجانے والے نے اپنی جوانی میں جب اس کی آواز سریلی تھی اور انگلیاں خوب ساز بجاتی تھیں، خوب شہرت اور دولت کمائی۔ ہر پیر و جوان اس کے ساز اور آواز کا دل دادہ تھا۔ لیکن جب بڑھاپے کا زمانہ آیا تو جسمانی اعضاء اور آواز میں جوانی جیسی تاثیر اور کشش نہ رہی۔ اب نہ انگلیاں ساز بجا سکتی تھیں نہ آواز باقی رہی۔ اب اس کی مکروہ آواز کو کون سنتا؟ جب فاقہ کشی کی نوبت آپہنچی تو وہ خود سے کہنے لگا: اب جب میری سارنگی کوئی نہیں سنتا، میں اُسے صرف اللہ کے لئے بجاؤں گا اور اپنے راگ صرف مولا کو ہی سناؤں گا۔ وہ مدینہ پاک سے باہر قبرستان میں پہنچ گیا اور اپنا راگ اور ساز اللہ تعالیٰ کو سنانے لگا۔ اُس نے کہا: اے خدا! تو نے مجھے بہت مہلت دی لیکن میں نے ستر سال مسلسل گناہ ہی کئے۔ اے خدا! تو نے ایک دن بھی عطا واپس نہیں لی۔ روتے روتے غش کھا کر ایک قبر پر گر پڑا۔ اُدھر دوپہر کا وقت تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شدید نیند محسوس ہوئی۔ خیال آیا کہ یہ کوئی اللہ تعالیٰ کا امر معلوم ہوتا ہے۔ جونہی نیند کے لئے لیٹے، خواب میں حکم دیا گیا کہ ہمارا ایک دوست قبرستان میں پڑا ہے۔ اُسے سات سو درہم پہنچاؤ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نیند سے بیدار ہوئے۔ بیت المال سے سات سو درہم لئے اور اللہ کے دوست کی تلاش میں چل پڑے۔ قبرستان کے مسلسل تین چکر لگائے۔ سوائے ایک بوڑھے سارنگی بجانے والے کے کوئی نظر نہ آیا۔ پہلے سوچا یہ تو اللہ کا دوست نہیں ہو سکتا لیکن جب کوئی دوسرا نہ ملا تو بڑے ادب سے اس کے قریب بیٹھ گئے۔ اچانک آپ رضی اللہ عنہ کو چھینک آئی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ دل میں کہنے لگا: ’اے اللہ! تو نے تو مجھے محتسب کے حوالے کر دیا‘۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی کیفیت کو سمجھ گئے۔ فرمانے لگے: ’ڈرو مت، مجھے اللہ تعالیٰ نے تیری خدمت کے لئے بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ نے تیری خصلت کی تعریف کی ہے اور تجھے سلام کہا ہے‘۔ اور سات سو درہم اس کے حوالے کئے۔ اس پر سارنگی بجانے والا بوڑھا بے اختیار روتے ہوئے کہنے لگا: ’اے بے مثال خدا! یہ سارنگی ہی میرا پردہ تھی جس نے ستر سال میرا خون پیا‘۔ سارنگی کو زمین پر دے مارا اور ریزہ ریزہ کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’تیرا یہ رونا خوش بختی کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف تیری ایک توبہ نے تیری کایا پلٹ دی‘۔
جلال الدین رومی، مثنوی: 25-26
اس واقعہ کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ توبہ کے سلسلے میں ہمیں اپنا جائزہ لیتے ہوئے اندازہ کرنا چاہیے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں؟ یہ توبہ کا پہلا زینہ ہے اور ہماری یہ حالت ہے کہ ہم اس تک رسائی سے بھی بہت دور ہیں۔ یہ سوال ہمیں چونکا دینے کے لئے کافی ہے کہ کیا ہمارا شمار اللہ تعالیٰ کے اُن عام بندوں میں بھی ہوتا ہے جو عذابِ جہنم کے خوف سے بارگاهِ الٰہی میں رجوع کر لیتے ہیں؟ یا ابھی تک ہم اس توفیق سے بھی محروم ہیں۔
ہر فعل کو کرنے اور ہر کام کو انجام دینے کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔ ہر فعل کے پیچھے جو جذبہ اور سبب فاعل کو اس کی تحریک دیتا ہے اُسے محرِّک کہتے ہیں۔ محرِّکات کی تعداد چار ہے:
بنیادی طور پر توبہ اپنے گناہوں سے نادم اور شرمندہ ہو کر آئندہ زندگی میں ان سے باز رہنے کے مصمم عزم کے ساتھ بارگاهِ صمدیت میں متوجہ ہونے کا نام ہے۔ تاہم محرکات و مراتب کے حوالے سے توبہ کی مختلف اقسام ہیں۔
توبہ کی اقسام کے ضمن میں عرفاء کے ہاں مختلف اقوال ہیں۔ تاہم تمام اقوال و آراء کو سامنے رکھیں تو مجموعی طور پر اس کی چار قسمیں ہیں جو حسب ذیل ہیں:
ذیل میں توبہ کی اِن اَقسام کی ترتیب وار تفصیل بیان کی جاتی ہے تاکہ دل میں اِس سفر کا شوق پیدا ہو اور جب سفر اللہ کی توفیق سے شروع ہو جائے تو پھر مختلف منازل کا شوق اُسے تکمیلِ سفر تک آمادۂ عمل رکھے۔
نصوح در اصل نصح سے مشتق ہے جس کے معنیٰ ہیں؛ ’خالص اللہ کے لئے‘۔ توبۂ نصوح کا مطلب یہ ہے کہ محض اللہ تعالیٰ کی خاطر گناہوں اور بداعمالیوں سے توبہ کرنا۔ انسان پہلے خواہشِ نفس کی خاطر گناہوں کا ارتکاب کر رہا تھا، اب جب خواہشِ نفس سے ہٹ کر قلبِ سلیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گیا تو اس کا یہ رجوع کرنا توبۃ النصوح کہلایا۔ یہ عام مومنین کی توبہ ہے جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا:
1. یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا.
التحریم، 66: 8
اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو۔
2۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
النور، 24: 31
اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ۔
حضرت ذو النون مصری کے نزدیک یہ توبہ عام آدمی کے گناہوں سے تائب ہونے سے عبارت ہے۔ امام ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں: یہ مومنین کی ایسی صفت ہے جس کے تحت انسان تمام شہوات سے نادم ہو کر اللہ رب العزت کی طرف یوں لوٹ آتا ہے کہ کبھی دوبارہ اُس گناہ کی طرف رخ بھی نہیں کرتا جس کے باعث ندامت اٹھانی پڑے۔ اِس توبہ کا محرِّک رضائے الٰہی کا حصول اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کا خوف ہوتا ہے جس کے زیرِاثر بندہ گناہوں سے بچنے کے لئے تائب ہوتا ہے۔
یہ توبۂ نصوح سے اگلے درجہ کی توبہ ہے۔ اس توبہ کا محرک طلبِ اجر و ثواب ہے۔ بندہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو۔ اس مقام پر بندہ صغائر اور کبائر گناہوں سے تو اللہ کی توفیق سے پہلے ہی پاک ہو چکا ہوتا ہے، اس لئے عذاب کا خطرہ تومحسوس نہیں کرتا، اب وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے مزید عنایات اور بخششوں کا طالب ہوتا ہے۔ حضرت سید علی بن عثمان ہجویری کے قول کے مطابق انابت اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور مقربانِ خاص کا مقام ہے۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِo
ق، 50: 33
جو (خدائے) رحمان سے بِن دیکھے ڈرتا رہا اور (اللہ کی بارگاہ میں) رجوع واِنابت والا دِل لے کر حاضر ہوا۔
علی بن عثمان ہجویری، کشف المحجوب: 429
یہ خواص کی توبہ ہے جو توبۃ النصوح کے بعد کا درجہ ہے۔ یہ وہ خاص بندے ہیں جو عبادت و ریاضت اور مجاہدہ و مشاہدہ کے بعد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ بندگانِ خاص مولیٰ کی بندگی کی لذتوں اور حلاوتوں سے سرشار ہوتے ہیں۔ یہ معافی اور گناہوں سے تو پہلے ہی پاک ہو چکے ہوتے ہیں تاہم جب کبھی یادِ الٰہی سے غافل ہوتے ہیں تو یہی غفلت اُن کا گناہ قرار پاتی ہے۔ لهٰذا اُن کی توبہ اس غفلت سے ہوتی ہے۔
شیخ ذوالنون مصری فرماتے ہیں:
تَوْبَۃُ الْعَوَامِ مِنَ الذُّنُوْبِ وَتَوْبَۃُ الْخَوَاصِ مِنَ الْغَفْلَةِ.
قشیری، الرسالۃ، 1: 212
عام لوگوں کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی توبہ غفلت سے ہوتی ہے۔
یہ توبۂ انابت سے بھی اونچے درجہ کی توبہ ہے۔ اس مقام پر بندے کی توبہ کا محرک نہ تو خوف عذاب ہوتا ہے اور نہ طلبِ ثواب بلکہ توبہ استجابت میں یہ خیال محرک ہوتا ہے کہ میں بندہ ہو کر گناہ اور ظلم کا مرتکب ہو رہا ہوں حالانکہ وہ تو میری شہ رگ سے بھی قریب تر ہے۔ جیسے وہ خود فرماتا ہے:
1۔ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِo
ق، 50: 16
اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے احساسِ قرب کے بالمقابل بندہ جب اپنی کوتاہیوں پر غور کرتا ہے تو ندامت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے۔ اس احساس سے اُسے مالک حقیقی کی طرف رجوع کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
2۔ درج ذیل آیت مبارکہ اس مقام کو بیان کر رہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌط اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَo
البقرۃ، 2: 186
اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راهِ (مراد) پا جائیں۔
بلاشبہ اللہ رب العزت ہر پکارنے والے کی التجا کو سماعت فرما کر دستگیری فرماتا ہے۔ قرآن حکیم میں سورۃ الانبیاء میں علو مرتبت انبیائے کرام علیہم السلام کی نداؤں، التجاؤں اور پھر ان پر اپنی پیار بھری عنایات اور کرم نوازیوں کا ذکر محبت بھرے انداز میں یوں کیا گیا ہے کہ حوصلہ پا کر گنہگار کا دستِ سوال اللہ تعالیٰ کے حضور اٹھ جاتا ہے۔
3۔ حضرت ایوب علیہ السلام کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے:
وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادیٰ رَبَّهٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَکَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَیْنٰهُ اَھْلَهٗ وَمِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْریٰ لِلْعٰبِدِیْنَo
الأنبیاء، 21: 83-84
اور ایوب ( علیہ السلام کا قصّہ یاد کریں) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف چھو رہی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیے) یہ ہماری طرف سے خاص رحمت اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت ہے (کہ اللہ صبر و شکر کا اجر کیسے دیتا ہے)۔
4۔ وَاِسْمٰعِیْلَ وَاِدْرِیْسَ وَذَا الْکِفْلِ ط کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَo وَاَدْخَلْنٰهُمْ فِیْ رَحْمَتِنَا ط اِنَّهُمْ مِّنَ الصّٰـلِحِیْنَo
الأنبیاء، 21: 85۔86
اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل (علیہم السلام کو بھی یاد فرمائیں)، یہ سب صابر لوگ تھے۔ اور ہم نے انہیں اپنے (دامنِ) رحمت میں داخل فرمایا۔ بے شک وہ نیکو کاروں میں سے تھے۔
5۔ وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْهِ فَنَادیٰ فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ لا وَنَجَّیْنٰهُ مِنَ الغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَo
الأنبیاء، 21: 87-88
اور ذوالنون (مچھلی کے پیٹ والے نبی علیہ السلام کو بھی یاد فرمائیے) جب وہ (اپنی قوم پر) غضب ناک ہو کر چل دیے پس انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ ہم ان پر (اس سفر میں) کوئی تنگی نہیں کریں گے پھر انہوں نے (دریا، رات اور مچھلی کے پیٹ کی تہہ در تہہ) تاریکیوں میں (پھنس کر) پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تیری ذات پاک ہے، بے شک میں ہی (اپنی جان پر) زیادتی کرنے والوں میں سے تھا۔ پس ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں غم سے نجات بخشی، اور اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔
6۔ وَزَکَرِیَّـآ اِذْ نَادیٰ رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَo فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ وَوَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰی وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ط اِنَّهُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ط وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo
الأنبیاء، 21: 89-90
اور زکریا ( علیہ السلام کو بھی یاد کریں) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا: اے میرے رب! مجھے اکیلا مت چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔ تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحییٰ ( علیہ السلام ) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجزو نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بندہ جب قرب کے مقام پر متمکن ہو جاتا ہے تو اس کے قلب و روح میں یہ خیال غالب آ جاتا ہے کہ میں گناہ کرتا ہوں مگر میرا رب میرے گناہ کے باوجود لطف و احسان فرماتا ہے۔ اس لطف و احسان سے اسے اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے، اس حیا کے نتیجے میں توبہ کرنا توبۂ استحیاء ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مقبول ترین بندوں کی توبہ ہے۔
بعض عارفوں نے توبہ استجابت اور توبہ استحیاء کو توبہ انابت کے درجہ میں رکھا ہے۔ اس توبہ کا حامل اوّاب کہلاتا ہے۔ سید علی بن عثمان ہجویری کشف المحجوب میں توبہ ومتعلقات کے باب میں بیان کرتے ہیں کہ یہ انبیاء و مرسلین کا مقام ہے، جیسا کہ فرمایا گیا:
نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّهٗٓ اَوَّابٌo
ص، 38: 30
وہ کیا خوب بندہ تھا، بے شک وہ بڑی کثرت سے توبہ کرنے والا ہے۔
پہلے درجہ کے توبہ کرنے والے کو تائب کہتے ہیں۔ اس کی شان یہ ہے کہ وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ جب پہلے درجہ کی توبہ کی برکات کا یہ حال ہے تو توبۂ انابت کے حامل عبدِ منیب پر اللہ تعالیٰ کی نوازشات کا کیا حال ہوگا! تیسرے اور چوتھے درجہ کی توبہ کے حاملین کو اوّاب کہتے ہیں۔ جب تائب کا یہ حال ہے کہ کوئی گناہ اس کے نامۂ اعمال میں نہیں رہتے۔ جب وہ منیب ہوا تو اللہ تعالیٰ کی نوازشات اور عنایات کا مستحق ٹھہرا۔ اب اوّاب ان سب سے بلند درجہ کا مستحق ہے جو ہر دم رب العزت کے قرب کی جنتوں میں مولیٰ کی حضوری کا شرف پاتا ہے۔ بلاشبہ یہ مرتبہ انبیاء و رسل علیہم السلام کا ہے۔
اس درجہ کے حامل وہ بندگانِ خدا ہیں جن کے دلوں میں ماسوا اللہ کا خیال تک نہیں آتا۔ ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی محبت کے چراغ ان کے دل میں جگمگاتے رہتے ہیں۔ مولیٰ کی طلب اور آرزو کے سوا وہ کسی طلب کے روادار نہیں ہوتے۔ اس باب میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ سالک کو کبھی نہیں بھولنی چاہئے:
کَمْ مِنْ تَائِبٍ یَرِدُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ یَظُنُّ أَنَّهٗ تَائِبٌ وَلَیْسَ بِتَائِبٍ لِأَنَّهٗ لَمْ یُحْکِمْ أَبْوَابَ التَّوْبَةِ.
بیهقی، شعب الإیمان، 5: 436، رقم: 7179
قیامت کے دن بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو خود کو تائب سمجھ کر آئیں گے مگر ان کی توبہ قبول نہیں ہوئی ہوگی اس لئے کہ انہوں نے توبہ کے دروازے کو (شرمندگی) سے مستحکم نہیں کیا ہو گا۔
اس حدیث مبارکہ میں توبہ کے دروازے کو مستحکم کرنے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے توبہ کے بعد گناہ نہ کرنے کا عزم نہیں کیا ہوگا۔ اپنی طاقت کی حد تک مظالم کو دفع نہیں کیا ہوگا۔ بعض امور کے لئے انہوں نے معافی مانگنے کو ضروری نہیں سمجھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کو وہ آسان بات سمجھتے ہوں گے۔
چنانچہ گناہوں کو بھول جانا اور معمولی گناہوں کے لئے توبہ کو ضروری نہ سمجھنا انتہائی خطرناک اَمر ہے۔ تائب کو چاہیے کہ کبھی بھی نفس کے محاسبے سے غفلت نہ کرے اور موت سے پہلے ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع رکھے۔
عوام کی توبہ خواص اور عرفاء کی توبہ سے مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ اس لئے عرفاء نے بندوں کے درجات کو سامنے رکھتے ہوئے توبہ کی تقسیم کی ہے۔ بعض عرفاء نے جن میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی بھی شامل ہیں، اپنے حال کے مطابق توبہ کی تین اقسام یوں بیان کی ہیں:
عام بندے گناہ سے نادم ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں۔ اس توبہ کے نتیجے میں بندے کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خِیَارُکُمْ کُلُّ مُفْتَنٍ تَوَّابٍ.
تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں توبہ کرے۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ: اللّٰھُمَّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي. فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ، ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: عَبْدِي، أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ، وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي. فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ. اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ.
ایک بندے نے گناہ کیا اور کہا: اے اللہ! میرے گناہ بخش دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ پھر دوبارہ وہ بندہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرا گناہ معاف کر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ وہ بندہ پھر گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرے گناہ کو معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے۔ تم جو چاہو عمل کرو، میں نے تمہاری مغفرت کر دی۔
عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے۔ بندے شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آ کر اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں اور ان سے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ ان گناہوں سے توبہ کر کے بندہ ان گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ گناہوں سے توبہ کرنا عوام کی توبہ کہلاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے خواص ایسے صالح بندے ہوتے ہیں کہ گناہوں سے تو وہ پہلے ہی پاک ہوتے ہیں لیکن جو لمحہ مولیٰ کی یاد سے غفلت میں گزر جائے اس لمحے کو گناہ تصور کر کے توبہ کے خواستگار ہوتے ہیں۔ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو اپنے پنجابی شعر میں کیا خوب بیان کرتے ہیں:
جو دَم غافل سو دَم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھو
سنیا سخن گیاں کھلا اَکھیں، اَساں چت مولا ول لایا ھو
چنانچہ وہ اللہ رب العزت کی یاد اور ذکر سے غفلت میں گزری ہر ساعت کو لمحۂ کفر گردانتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے طلبگار رہتے ہیں۔
وہ طالبانِ مولیٰ جو ماسوائے اللہ ہر کسی کے خیال کو گناہ تصور کرتے ہوئے اللہتعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں، اخص الخواص کی توبہ کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی توبہ کا محرک نہ تو گناہ کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی غفلت کا احساس بلکہ اللہ کے سوا ہر غیر کے خیال سے بھی توبہ کرتے ہیں۔ یہ اللہ کے ایسے بندے ہیں کہ دنیا اور مافیہا کی ہر محبت سے تائب ہو چکے ہوتے ہیں۔ نفس کی غفلتیں ان پر غالب نہیں آتیں۔ محبوبِ حقیقی کی محبت کے سوا ہر محبت کو کفر گردانتے ہیں۔ اُن کی اس توبہ کے باعث انہیں محبوبین کے مقام پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ ذیل میں اللہ کے دو محبوب بندوں کے احوال بیان کئے جاتے ہیں تاکہ اخص الخواص کی توبہ کی حقیقت سمجھ میں آسکے۔
حضرت ابراہیم بن ادھم نے جب اللہ تعالیٰ کی محبت میں بلخ کی سلطنت کو خیر باد کہا تو اس وقت آپ کا بیٹا بہت کم عمر تھا۔ وہ جب جوان ہوا تو حج کے لئے مکہ معظمہ پہنچا۔ حضرت ابراہیم بن ادھم بھی اتفاق سے ان دنوں حج کے لئے پہنچے ہوئے تھے۔ دورانِ طواف آپ کی نظر اپنے لڑکے پر پڑی تو محبتِ پدری نے جوش مارا اور بے ساختہ نگاہیں بیٹے کے چہرے پر جم گئیں۔ اس کی کم سنی کا زمانہ یاد آگیا۔ اتنی لمبی جدائی کے بعد اچانک ملاقات نے بے قابو کر دیا۔ محبت سے بے تاب ہو کر بیٹے سے لپٹ گئے اور روتے روتے بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو روانگی کے لئے اٹھے۔ بیٹے نے روک لیا۔ آپ نے آسمان کی طرف چہرہ اٹھایا اور عرض کیا: أَغِثْنِي (اے اللہ! میری مدد فرما)۔ یہ کہنا تھا کہ آپ کا صاحبزادہ زمین پر گر پڑا اور وفات پا گیا۔ ارادت مندوں نے عرض کیا: حضرت! یہ سب کیا ہے؟ فرمانے لگے: جب بچے کو پدری شفقت کے غلبہ میں شوق و محبت میں گلے سے لگایا تو ندا آئی: ہم سے دوستی کے بعد دوسرے کو دوست رکھتا ہے؟ یہ سن کر میں نے مولیٰ کے حضور عرض کیا: مولیٰ! توبہ کرتا ہوں، اب یا تو اس بیٹے کی جان لے لے یا پھر مجھے موت دے دے۔ چنانچہ یہ دعا بیٹے کے حق میں قبول ہو گئی۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیاء: 58
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اہلِ قرب محبت کے کس مقام پر فائز ہوتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ اس کے قرب والے کسی غیر کی محبت کا خیال بھی دل میں لائیں، چاہے وہ اس کا خونی رشتہ ہی کیوں نہ ہو۔
پردہ نشینوں کی مخدومہ، سوختۂ عشقِ الٰہی حضرت رابعہ بصری ریاضت و معرفت میں ممتاز زمانہ تھیں۔ یہ قربِ الٰہی کی مکین تھیں۔ ایک دفعہ سخت بخار میں مبتلا ہو گئیں۔ طویل عرصہ تک صاحبِ فراش رہیں۔ عقیدت مندوں نے عرض کیا: مائی صاحبہ! علاج کیوں نہیں کرواتیں؟ آپ خاموش رہیں۔ ایک بار اللہ کے مقرب ولی کے استفسار پر فرمایا: یہ بخار بطور سزا نازل ہوا ہے کیونکہ ایک بار دل میں جنت کی خواہش کر بیٹھی تو مولیٰ نے فرمایا: محبت کا دعویٰ ہم سے اور طلب جنت کی! مولیٰ نے عتاب فرمایا، تب سے بیمار پڑی ہوں۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الأولیاء: 46
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اخص الخواص کا معاملہ حق تعالیٰ کے حضور بالکل مختلف ہوتا ہے حتیٰ کہ جنت کو بھی اللہ تعالیٰ کا غیر سمجھا جاتا ہے۔
بعض عرفاء نے سفر توبہ کی ایک تقسیم روحانی ثقاہت و پختگی کے اعتبار سے بھی کی ہے۔ اس کی تین اقسام ہیں:
یہ عام گناہ گار بندے کی توبہ کا سفر ہے۔ بندے نے گناہ کیا خواہ وہ صغیرہ تھا یا کبیرہ، پھر اپنے کئے پر پشیمان ہوا، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور تائب ہوا۔ اُس کا یہ سفر خطا سے ثواب کی طرف ہوا۔
تصوف کی کتب میں تحریر تائبین کے بے شمار واقعات قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ کبھی تو بندہ اللہ کی توفیق سے خود ہی اپنے گناہوں سے پریشان ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی کا طلب گار ہوتا ہے لیکن بسا اوقات اہل اللہ نے اللہ کی توفیق سے توبہ کی راہ میں بعض بندوں کی ایسی رہنمائی فرمائی کہ وہ اپنے وقت کے صاحبانِ ولایت قرار پائے۔ ایسے واقعات بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہوتا ہے کہ قارئین کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر اللہ تعالیٰ کی معاف کر دینے والی عظیم صفت سے بہرہ مند ہو کر توشہ آخرت جمع کرنے کی سعادت حاصل کر سکیں۔ اس ضمن میں ایک بادشاہ کا حضرت مالک بن دینار کے ہاتھوں تائب ہونے کا واقعہ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت مالک بن دینار ایک روز فقیرانہ لباس پہنے ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ اچانک دیکھا ایک کنیز بڑی سج دھج اور جاہ و حشمت سے اپنی خادماؤں کے ہمراہ چلی جا رہی ہے۔ آپ نے اُس کنیز کو آواز دی اور پوچھا: کیا تیرا مالک تجھے بیچتا ہے۔ وہ تمسخرانہ لہجے میں ہنسی اور کہنے لگی کہ اگر وہ بیچ بھی دے تو تجھ جیسا مفلس فقیر کیسے خریدے گا؟ حضرت مالک بن دینار نے فرمایا: بہتر طریقے سے خرید سکتا ہوں۔ وہ ہنس پڑی اور دل لگی کرتے ہوئے ایک خادمہ سے کہا: اسے بھی بادشاہ کے پاس لے چلو۔ وہ دراصل بادشاهِ وقت کی خاص لونڈی تھی۔ سارا ماجرہ بادشاہ کے گوش گزار کیا۔ بادشاہ نے کہا: فقیر کو میرے سامنے پیش کرو۔ پوچھا: اے فقیر! اگر میں بیچنے کا ارادہ کر لوں تو اس کی کتنی قیمت دے سکتے ہو؟ حضرت مالک بن دینار فرمانے لگے: یہی کجھور کی سڑی ہوئی گٹھلی ہی تو اس کی قیمت ہے۔ میں تو اس سے کہیں اعلیٰ کنیز خرید سکتا ہوں۔ بادشاہ ہنس پڑا۔ دل لگی کرتے ہوئے کہنے لگا: اتنی کم قیمت لگانے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں! آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، اس سودے میں تو عیب ہی عیب ہیں۔ بادشاہ نے کہا: وہ کیا عیب ہیں؟ ذرا میں بھی تو سنوں۔ حضرت مالک بن دینار فرمانے لگے کہ یہ روزانہ منہ نہ دھوئے تو چہرہ پراگندہ ہو جاتا ہے۔ تیل نہ لگائے، کنگھی چوٹی نہ کرے تو بال غبار آلودہ اور بدنما لگتے ہیں۔ خوشبو نہ لگائے تو بدبو آنے لگتی ہے۔ اس کی عمر زیادہ ہو جائے تو تیرے جیسے عاشق اسے چھوڑ جاتے ہیں۔ اس میں غلاظتیں بھی ہیں اور نجاستیں بھی۔ رنج و الم کا شکار بھی ہوتی ہے۔ یہ تو چند ظاہری عیب بیان کئے ہیں۔ ذرا باطنی حال بھی سن لو۔ بے وفا بھی بہت ہے۔ آج اگر تیری وفادار ہے، کل اگر تو نہ ہوا تو کسی دوسرے کی وفادار ہو گی۔ اسی طرح اُس سے بھی اظہارِ محبت کرے گی جس طرح آج تجھ سے ملتی ہے۔ اس کا اعتبار بھی نہیں۔ میرے پاس اس سے کم قیمت پر کہیں بہترین کنیزیں ہیں۔ اس لئے اس کی کم قیمت لگائی۔ بادشاہ نے کہا: اچھا، تم مجھے اپنی کنیزوں کی خوبیاں سناؤ۔ آپ فرمانے لگے: میرے پاس ایسی کنیزیں ہیں جو کافور اور کستوری کی آمیزش سے بنی ہوئی ہیں۔ مشک اور زعفران کے پانیوں میں پلی ہیں۔ تسنیم کے پانیوں میں نہاتی ہیں۔ اگر وہ اپنا لعابِ دہن کھارے کنوؤں میں ڈال دیں تو ان کا پانی شہد کی طرح شیریں اور خوش ذائقہ ہو جائے۔ اگر اپنی کلائی سورج کے سامنے کھول دیں تو وہ شرمندہ ہو جائے۔ اگر دنیا کی تاریکی پر اُن کا حسن ظاہر ہو جائے تو ساری دنیا شرق تا غرب روشن ہو جائے۔ پھر یہ دوستی نبھانے والی ہیں۔ بے وفا بھی نہیں۔ اب بتاؤ تمہاری کنیز اچھی ہے یا میری کنیزیں! اس نے کہا: کنیزیں تو پھر تمہاری ہی اچھی ہیں لیکن ذرا اُن کی قیمت تو بتاؤ؟ آپ نے کہا: وہ بہت سستی ہیں۔ بس رات کے اندھیرے میں دو رکعت نماز اور مولیٰ کی یاد میں کچھ لمحات کی آہ و زاری۔ یہ سن کر بادشاہ کی حالت غیر ہو گئی۔ اپنا شاہانہ لباس پھاڑ ڈالا اور حضرت مالک بن دینارؓ کے گلے لگ کر رونے لگا۔ کہنے لگا: اے فقیر! میری بخشش کی کوئی سبیل ہے؟ آپ نے فرمایا: جس مغالطے اور گھمنڈ میں گرفتار ہے اس سے باہر نکل آ۔ اُس نے تمام غلام اور کنیزیں آزاد کر دیں۔ جائیداد اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی۔ تخت چھوڑا، ٹاٹ کا لباس پہن لیا، کنیز نے جب یہ دیکھا تو کہنے لگی: اگر امیری میں تیری ساتھی تھی تو اب غریبی میں بھی تیری ساتھی بنتی ہوں۔ بادشاہ عارف کامل ہوا اورکنیز بھی عارفہ کاملہ ہوئی۔ اپنی باقی زندگی اللہ تعالیٰ کی یاد، آہ و بکا اور گریہ و زاری میں بسر کی۔ ان کے کامل رجوع نے انہیں وہ مقام عطا فرمایا جس کا رجوع سے پہلے کی زندگی کے حوالے سے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ توبہ کے سفر کا اگلہ مرحلہ ہے۔ اس میں بندہ اپنے ارادے، اختیار اور طلب سے بھی تائب ہو جاتا ہے۔ یہ اہل ہمت اور خاص بندگانِ خدا کا مقام ہے۔ اس کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے ملتا ہے، جب کوہ طور پر آپ علیہ السلام نے عرض کیا:
قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ.
الأعراف، 7: 143
اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں۔
جواب آیا:
لَنْ تَرٰنِیْ وَلٰـکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَهٗ فَسَوْفَ تَرَانِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّهٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَهٗ دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا ج فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ.
الأعراف، 7: 143
تم مجھے (براهِ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو۔ پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کر لو گے۔ پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ انوار سے) اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ( علیہ السلام ) بے ہوش ہوکر گرپڑا۔ پھر جب اسے افاقہ ہوا تو عرض کیا: تیری ذات پاک ہے میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔
جب حق تعالیٰ کے جلوۂ حسن کی تجلی منعکس ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پڑی تو آپ علیہ السلام تاب نہ لاتے ہوئے بے ہوش ہو گئے۔ ہوش میں آنے کے بعد جو کہا: تُبْتُ إلَیْکَ (میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں) تو یہ توبہ نہ گناہ سے تھی نہ غفلت سے بلکہ یہ توبہ دراصل اپنی ذات کی ہر طلب اور خواہش و اختیار سے دستبردار ہونے کا اقرار تھا۔ اس مقام پر بندہ اپنی ذات کے حوالے سے یوں تائب ہوتا ہے کہ مولیٰ اُسے جس حال میں رکھے وہ خوش رہتا ہے۔ یہ رضائے تام کا مقام ہے جہاں بندہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے۔
توبہ کا یہ سفر عبدِ کامل کا مقام ہے۔ اس مقام پر بندے کا چلنا پھرنا اور کلام و سکوت سب کچھ اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ کامل بندگی کا حامل شخص جب توبہ کرتا ہے تو یہ توبہ خودی سے خدا تک ہوتی ہے۔
1۔ ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo
النجم، 53: 3-4
اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔
2۔ پھر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی.
الأنفال، 8: 17
اور (اے حبیب محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔
3۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ.
الفتح، 48: 10
(اے حبیب!) بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔
یہ اس عبدِ کامل، حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ہے جو اپنے ارادے اور اختیار سے پہلے ہی تائب ہو چکے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنے ظاہر و باطن کو اپنے ربّ کے ایسے سپرد کیا کہ آپ ﷺ کے ظاہر میں بھی اللہ تعالیٰ کا ہی رنگ ہے اور باطن میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کا رنگ۔ اس کمال پر پہنچ کر یہ بندۂ کامل جب دن میں ایک سو مرتبہ توبہ طلب کرتا ہے تو ان کی یہ توبہ انہیں کس مقام تک لے جائے گی۔ یہ مقامِ مصطفی ﷺ ہے جس کی حقیقت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّهُ لَیُغَانُّ عَلٰی قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ فِي الیَوْمِ مِائَةَ مَرَّۃٍ.
میرے دل پر کبھی پردہ آ جاتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
گناہ سے ثواب، درستگی سے پختگی اور پھر خودی سے خدا تک رجوع کو اس تقسیم میں شامل کیا گیا ہے۔ گناہ گار اپنے گناہ کی بخشش اور مغفرت کے لیے توبہ کرتا ہے، عرفاء جو پہلے ہی درست ہی ہوتے ہیں لیکن اپنے مقام پر پختگی کے لیے توبہ کرتے ہیں اور سب سے اہم درجہ اپنی ذات کی نفی کر کے خدا کے حضور تک رسائی ہے۔ اس مقام پر بندہ اپنی ذات ختم کر لیتا ہے اور خدا کی رضا میں ہی راضی رہتا ہے۔ دوسری طرف خدا بھی اس مقام کے حامل اپنے بندے پر اپنی نوازشات اور عنایات کی بارش کر دیتا ہے۔
یوں تو توبہ کہنے کو ایک لفظ ہے لیکن درحقیقت یہ اتنا بڑا عمل ہے کہ صدقِ دل سے کی گئی توبہ انسان کو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی طہارت و پاکیزگی عطا کرتی ہے جس کے نتیجے میںتائب کے ہر عمل سے خاص نور پیدا ہوتا ہے اور یہی بندگی کا کمال ہے۔
علمائے راسخین نے گناہوں کے حوالے سے توبہ کے تین درجے بیان کیے ہیں تاکہ ہر شخص اپنا اپنا تعین کر سکے کہ وہ کس مقام پر کھڑا ہے۔ نفس اور شیطان جو ہمہ وقت انسان کو گمراہ کرنے کے در پے ہیں، ان کے حملے اس قدر پیچ درپیچ اور غیر محسوس ہوتے ہیںکہ علمائے حق اور عرفاء کی مدد کے بغیر ایک عام مسلمان نہ تو اپنے گناہوں سے کماحقہ آگاہ ہو سکتاہے اور نہ ہی وہ ان کے تدارک کے لیے کوئی کوشش بروئے کار لا سکتا ہے۔ توبہ کے درج ذیل تینوں درجات کی مزید چودہ اقسام ہیں جو ہر درجہ کی توبہ کے ذیل میںبیان کی گئی ہیں۔
یہ درجہ ایسے کبائر گناہوں کی توبہ سے متعلق ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اور جن کے ارتکاب پر عذاب کی سخت وعید آئی ہے۔ کبائر سے توبہ کی پہلی قسم جسمانی اعضاء سے سرزد ہونے والے گناہوں سے توبہ ہے۔
توبہ کی پہلی قسم ان گناہوں سے متعلق ہے جن کا ارتکاب انسان کے جسمانی اعضاء کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ چنانچہ توبہ کی ابتداء جسمانی اعضاء سے سرزد ہونے والے گناہوں کے ترک کر دینے سے ہوتی ہے۔ انسانی جسم کے سات اعضاء انسان کے لئے کبائر یا پھر کبیرہ گناہوں کا سبب بنتے ہیں۔ ان اعضاء میں آنکھ، کان، زبان، ہاتھ، پاؤں، پیٹ اور شرم گاہ شامل ہیں۔ ہر عضو کی ایک حد ہے۔ چنانچہ ان تمام اعضاء کو اپنی حدود سے تجاوز کرنے سے روکنا دین کی حفاظت کا اولین تقاضا ہے۔ انسان کے اعضائے باطنی کی اصلاح بھی انہیں اعضائے ظاہری کی حفاظت پر موقوف ہے۔ اب ان اعضاء جسمانی کے حوالے سے کچھ تفصیل ملاحظہ کریں۔
اسلامی تعلیمات میں گناہ کو ظلم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ یَعْلَمُوْنَo
آل عمران، 3: 135
اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔
ظلم انسان اپنے آپ پر خود بھی کر سکتا ہے اور دوسروں پر بھی۔ دوسروں کی حق تلفی ظلم کے زمرے میں آتی ہے۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد فرمایا:
وَمَا ظَلَمُوْنَا وَلٰـکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَo
البقرۃ، 2: 57
سو انہوں نے (نافرمانی اور ناشکری کر کے) ہمارا کچھ نہیں بگاڑا مگر اپنی ہی جانوں پر ظلم کرتے رہے۔
اللہ تعالیٰ کی متعین کردہ حدود سے تجاوز گناہ ہے اور اسی کو ظلم بھی کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهٗ.
الطلاق، 65: 1
اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بے شک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے۔
قرآن مجید میں جہاں ظلم کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں اس کا علاج بھی تجویز کر دیا ہے۔ اس کا علاج توبہ اور نیکی ہے جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا م بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
النمل، 27: 11
مگر جس نے ظلم کیا پھر برائی کے بعد (اسے) نیکی سے بدل دیا تو بے شک میں بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہوں۔
قرآن حکیم میں جا بجا ظلم و ناانصافی کی ممانعت پر آیات کا نزول اس اَمر کی شہادت ہے کہ یہ غضبِ الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہو کر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ ظالم کے ظلم پر سزا کو اس نے عموماً حشر تک اٹھا رکھا ہے لیکن کبھی کبھی خالق و مالک ہونے کے حوالے سے اپنی قدرت کی نشانیوں کا ظہور بھی فرماتا ہے۔ قرآن حکیم میں فرعون و قارون اور دیگر ظالم قوموں کی تباہی کے واقعات کا بیان پڑھ کر بھی اگر انسان ظلم سے باز نہ آئے تو یہ اس کی ازلی بدبختی ہے۔ ہم اللہ رب العزت کے حضور معافی کے خواستگار ہیں۔
1۔ ارشادِ رب العزت ہے:
وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
المائدۃ، 5: 2
اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَی الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَیَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط اُوْلٰٓـئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo
الشوریٰ، 42: 42
بس (ملامت و گرفت کی) راہ صرف اُن کے خلاف ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی و فساد پھیلاتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
قرآن حکیم میں تہدید کے لئے جو آیات مقدسہ وارد ہوئی ہیں ان کے مخاطب دیگر غلط کاروں کے علاوہ ناحق امور انجام دینے والے لوگ بھی شامل ہیں، فرمایا گیا:
3۔ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللهُ بِهٖ عِبَادَهٗ ط یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِo
الزمر، 39: 16
اے میرے بندو! بس مجھ سے ڈرتے رہو۔
4۔ اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَo
السجدۃ، 32: 22
بے شک ہم مُجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں۔
5۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہوا:
اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًیo
القیامۃ، 75: 36
کیا اِنسان یہ خیال کرتا ہے کہ اُسے بے کار (بغیر حساب و کتاب کے) چھوڑ دیا جائے گا۔
ان آیات مقدسہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ انسان کے ہاتھوں سرزد ہونے والے تمام امور کے بارے میں مکمل پوچھ گچھ کی جائے گی اور نتیجتاً اچھے یا برے انجام سے سابقہ پڑے گا۔ ایک جگہ اس سے بھی زیاہ واضح اور سخت حکم دیا گیا:
6۔ وَیُحَذِّرُکُمُ اللهُ نَفْسَهٗ.
آل عمران، 3: 30
اور اللہ تمہیں اپنی ذات (کے غضب) سے ڈراتا ہے۔
یہ ترہیب اور خوف اس لئے ہے کہ انسان دوسروں پر ظلم اور جبر کے ہاتھ کھولنے سے قبل یہ سوچ لے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہو کر اس پر کہیں بڑھ کر گرفت فرمانے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم میں بے شمار مقامات پر بار بار انسان کو آنے والے دن کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے تاہم نفسِ مضمون کے حوالے سے اس قدر بیان ہی کافی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو درد دل کے واسطے پیدا کیا گیا۔ اگر محض عبادت و اطاعت ہی مقصود ہوتی تو اس کے لئے اس کے حضور سربسجود ہونے کے لئے بے حد و حساب فرشتے اور آسمانی مخلوق موجود ہے۔ بقول میر دردؔ:
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
دین اسلام سراسر امن و آتشی اور پیار و محبت کا پیغام ہے۔ انسان چاہے تو اس پر عمل پیرا ہو کر دنیا میں ہی جنت کا سماں پیدا کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی ملاحظہ ہو کہ دین کے فہم سے عاری نام نہاد علماء فرقہ واریت اور دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر بے گناہ مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں اور پھر اپنے اس قبیح، مکروہ اور گھناؤنے افعالِ حرام کے بدلے جنت کے بھی امیدوار ہیں، ایسے ہی بدبخت لوگوں کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:
7۔ وَهُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا.
الکہف، 18: 104
اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم بڑے اچھے کام انجام دے رہے ہیں۔
اسلام کیا ہے اور مسلمان کون ہیں؟ احادیث مبارکہ میں اس پر تفصیلی تعلیمات موجود ہیں۔ چند احادیث مبارکہ یہاں بیان کی جا رہی ہیں۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهٖ وَیَدِهٖ.
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔
2۔ حضرت عبد اللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إِنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، أيُّ المُسْلِمِیْن خَیْرٌ؟ قَالَ: مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهٖ وَیَدِهٖ.
ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کون سا مسلمان افضل ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
اس موضوع پر دیگر کئی احادیث مبارکہ موجود ہیں لیکن مضمون کی طوالت کے پیش نظر انہی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اگر ہم دین پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہو جائیں تو یہ خطہ ارضی جنت نظیر ہو جائے۔ بلاشبہ دین اسلام سراسر امن و سلامتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی روح کو سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے۔
آنکھ تمام فتنوں کی جڑ ہے۔ بیشتر حرام اُمور کی ابتداء اسی کے ذریعے ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آنکھ کے افعال سے انسان غافل نہ ہو۔ عرفاء نے نزدیک آنکھ جن گناہوں کا ارتکاب کرتی ہے اُن سے بچنے کے لئے اِسے تین امور سے بچانا ہو گا۔ اس طرح آنکھ کی حد تک توبہ کا دائرہ مکمل ہو جائے گا۔ ایک یہ کہ غیر محرم کو شہوت کی نظر سے نہ دیکھے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور تیسرے یہ کہ دوسرے مسلمان کا عیب نہ دیکھے۔
اَب قدرے تفصیل سے ان تینوں اُمور پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالتے ہیں۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ کس طرح آنکھ بالواسطہ یا بلا واسطہ ان گناہوں کے ارتکاب کا باعث بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ.
النور، 24: 30
آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں۔
اس آیت کریمہ میں آدابِ بصارت کا بیان ہے۔ مومنوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں کہ اِسی میں پاکیزگی، طہارت اور تقویٰ مضمر ہے۔ نگاہوں کے غیر محرم کی طرف اٹھنے سے گناہ کی راہ کا دروازہ کھلتا ہے۔ اگر ان کے آزادانہ استعمال پر بر وقت پابندی نہ لگائی جائے تو یہ حرام چیزوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔ نفس اور شیطان اس کے اس قبیح فعل کو ایسا خوش نما اور مرغوب بنا کر دکھاتے ہیں کہ بندہ کے لئے پھر اس سے واپسی محال بلکہ ناممکن ہو جاتی ہے اور دل لذتِ گناہ کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ گناہ کی خوش نمائی آنکھ سے دل میں داخل ہوتی ہے، پھر خیال پر چھا جاتی ہے اور ان تینوں کی موافقت سے ارادے تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔ ہمارے ارد گرد سینکڑوں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ نگاہوں کے سحر میں خرمن ایمان برباد ہو گیا اورانسان اخلاقی بدحالی کا شکار ہو کرذلیل و رسوا اور بربادہو گیا۔
حضرت امام غزالی اپنی تصنیف ’منہاج العابدین‘ میں اس ضمن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک قول لائے ہیں۔ آپ نے فرمایا:
إِیَّاکُمْ وَالنَّظْرَةَ فَإِنَّھَا تَزْرَعُ فِي الْقَلْبِ الشَّھْوَةَ کَفٰی بِھَا لِصَاحِبِھَا فِتْنَۃٌ.
غزالی، منہاج العابدین: 70
نظرِ حرام سے اپنے آپ کو بچائے رکھو کیونکہ وہ دل میں ایسی شہوت پیدا کرتی ہے کہ انسان کے لئے فتنہ اور آزمائش کا باعث بنتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بصارت کی حفاظت کے ضمن میں ارشاد فرمایا:
النَّظْرَۃُ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ إِبْلِیْسَ مَسْمُوْمَۃٌ، فَمَنْ تَرَکَهَا مِنْ خَوْفِ اللهِ أَثَابَهٗ جَلَّ وَعَزَّ إِیْمَانًا یَجِدُ حَلَاوَتَهٗ فِی قَلْبِهٖ.
(غیر محرم کی طرف) نظر ڈالنا شیطان کے زہر آلود تیروں میںسے ایک تیر ہے۔ جو اس تیرِ نظر کے استعمال کو اللہ کے خوف سے ترک کر دے گا اللہ تعالیٰ اُسے ایسا ایمان عطا فرمائے گا جس کی حلاوت و چاشنی وہ اپنے دل میں پائے گا۔
عبادت میں حلاوت و سرور اللہ تعالیٰ کی توفیقِ خاص کے بغیر ممکن نہیں۔ جدید دور میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، انٹرنیٹ، شو بزنس اور کیبل نیٹ ورک کے ذریعے عریانی اور فحاشی دیکھنا جسے انٹرٹینمنٹ کا نام دیا جاتا ہے، غارت گرِ ایمان بن کر ہمارے گھروں میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کے باعث اب نظرِ حرام اور دیدار بازی کو چنداں معیوب تصور نہیں کیا جاتا، بلکہ اس معاملے میں احکامِ الٰہی اور فرامینِ رسول ﷺ کی طرف متوجہ کرنے والوں کی تضحیک کی جاتی ہے، انہیں جدید دور کے تقاضوں سے بے خبر اور بے بہرہ ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور ان کی باقاعدہ مزاحمت کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں گناہوں اور جرائم کا گراف خوفناک حد تک بلند ہو چکا ہے۔ اِن حالات میں ایک اہل ایمان کا خود کو اُن اَفعالِ بد سے بچا لینا جن کی ابتداء آنکھ کی بے باکی سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ کو اِس قدر محبوب ہے کہ اس کی جزاء میں اُسے اپنی محبت و سرور جیسی عظیم نعمت کی خوش خبری دی ہے جو زاہدین کا مقام ہے۔
علمائے راسخین نے غیر محرم عورت کی تصویر دیکھنا بھی نظر بازی کے زمرے میں رکھا ہے۔ دیدار بازی اور نظرِ حرام کے مصائب لا تعداد ہیں۔ اگر شروع میں ہی اس کا تدارک نہ کیا جائے تو پھر اس کے فساد و آزار کے باعث انجامِ بد سے بچنا ممکن نہیں رہتا۔ ’نظارے‘ کی یہ دلدل ایک خطرناک دلدل ہے۔ جو اِس میں ایک بار پھسل گیا، اُس کے لئے اِس سے باہر نکلنے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ اِسی لئے ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں کیونکہ نظرِ حرام ہی دل میں شہوت و وساوس پیدا کرکے فتنہ اور آزمائش کا باعث بنتی ہے۔ حفاظتِ نظر کے حوالے سے حکم دیا گیا ہے کہ اچانک نظر پڑنے پر نظر کو پھیر لیا جائے۔ حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَا عَلِيُّ، لَا تُتْبِعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَإِنَّ لَکَ الْأُولٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْآخِرَۃُ.
اے علی! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو کیونکہ تمہارے لیے پہلی نظر ہے، دوسری نظر نہیں۔
اسی ضمن میں حضرت اسامہ بن زید اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا تَرَکْتُ بَعْدِي فِي النَّاسِ فِتْنَۃً أَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النساء.
میں نے اپنے بعد کے لوگوں میں مردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔
بلاشبہ امت مسلمہ کی بدحالی اور ذلت و رسوائی کے جملہ اسباب میں سے ایک اہم سبب یہی عورت کا فتنہ ہے جو اولاً نظر حرام سے جنم لیتا ہے۔
اگر وہ شے جس پر نظر پڑی حرام نہ ہو بلکہ مباح اور حلال ہو تو بھی باعثِ آزار ہے کہ نفس بندے کو فضول چیزوں میں الجھا کر رکھ دے گا۔ انسان چونکہ طبعاً حریص واقع ہوا ہے اِس لئے دنیا میں غرق اہلِ ثروت کی شان و شوکت اور رہن سہن سے متاثر ہو کر اس کا تقویٰ کی راہ سے بھٹک کر ہو سِ دنیا میں مبتلا ہونے کا بڑا احتمال ہوتا ہے۔ دنیاوی مال و متاع اور زیب و زینت کی طرف نگاہیں نہ اٹھانے کا حکم قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وَلَا تَمُدَّنَ عیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِهٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا.
طٰهٰ، 20: 131
اور آپ دنیوی زندگی میں زیب و آرائش کی ان چیزوں کی طرف حیرت و تعجب کی نگاہ نہ فرمائیں جو ہم نے (کافر دنیاداروں کے) بعض طبقات کو (عارضی) لطف اندوزی کے لیے دے رکھی ہیں۔
خواہشِ نفس کس قدر بڑا فتنہ ہے، اِس کا ذکر خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے:
اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَهٗ ھَوٰهُ.
الفرقان، 25: 43
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے۔
دوسری چیز جس سے بچنا از حد ضروری ہے وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہے۔ دوسرے کو حقیر دیکھنا، اُس کو خود سے کم تر جاننا ہے۔ اِسی سے تکبر جنم لیتا ہے جو سخت ترین گناہ ہے۔ اِس سے انسان عجز و انکساری جیسی عظیم نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِی قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ کِبْرٍ.
جس کے دل میں ذرہ بھر بھی غرور و تکبر ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
یہ تکبر ہی تھا جس نے ابلیس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ذلیل و رسوا کر کے نکلوا دیا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
لَا تَحَاسَدُوْا، وَلَا تَنَاجَشُوْا، وَلَا تَبَاغَضُوْا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَلَا یَبِعْ بَعْضُکُمْ عَلَی بَیْعِ بَعْضٍ، وَکُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُهٗ وَلَا یَخْذُلُهٗ وَلَا یَحْقِرُهٗ، التَّقْوَی هَاهُنَا، وَیُشِیرُ إِلَی صَدْرِهٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنْ الشَّرِّ أَنْ یَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهٗ وَمَالُهٗ وَعِرْضُهٗ.
ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، تناجش نہ کرو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، کسی کی بیع پر بیع نہ کرو، اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ، مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہ کرے نہ اس کو رسوا کرے، نہ حقیر جانے، حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین بار فرمایا: تقویٰ یہاں ہے، کسی شخص کی بُرائی کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو برا جانے، ایک مسلمان کے خون، اس کے مال اور اس کی عزت کی حرمت مکمل طور پر واجب ہے۔
خودی پسندی اتنا بڑا متحان ہے کہ خود پسند اور متکبر کو حضور نبی اکرم ﷺ نے قتل کرنے کا حکم خود ارشاد فرمایا تھا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبادت گزاری اور مجاہدہ نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں یہاں تک ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کر کے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) وہ شخص یہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقینا اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آکر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اسے فرمایا: میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (کہ سچ بتانا) جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ ان لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا، اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔
تیسری چیز جس سے آنکھ کو بچانا از حد ضروری ہے وہ یہ ہے کہ بندہ دوسروں کے عیب دیکھنے میں کوشاں نہ ہو۔ دوسروں میں عیب تلاش کرنا بڑا گناہ ہے۔ یہ بھی ہمارا بہت بڑا معاشرتی المیہ ہے کہ ہمیں اپنے سوا دیگر سب میں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں۔ ہمارے ایک دوسرے کے درمیان لڑائی جھگڑے کا سب سے بڑا سبب یہی ہے۔ بعض لوگ اِسے تنقید کا نام دیتے ہیں اور تنقید کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اِسی سے اختلافات جنم لیتے ہیں جو بڑھتے بڑھتے فتنہ و فساد کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ عیب جوئی کا سب سے پہلا شکار خود عیب جُو ہوتا ہے کہ دوسروں کے عیب تلاش کرتے کرتے اس کی آنکھیں اپنے عیب دیکھنے سے اندھی ہو جاتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ وَلَا تَجَسَّسُوْا (الحجرات، 49: 12) کے تحت مفسرین کرام نے لکھا ہے:
لَا یَبْحَثُ أَحَدُکُمْ عَنْ عَیْبِ أَخِیْهِ.
کسی مسلمان بھائی میں عیب نہ دیکھو۔
عیب جوئی کس قدر برا فعل ہے کہ ولید بن مغیرہ نے جب حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں گستاخی کی تو اس پر غضبِ الٰہی بھڑک اٹھا، جواباً اللہ تعالیٰ نے اس کے دس رذائل بیان کئے جن میں سے ایک عیب یوں بیان فرمایا:
هَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِیْمٍo
القلم، 68: 11
(جو) طعنہ زَن، عیب جوُ (ہے اور) لوگوں میں فساد انگیزی کے لیے چغل خوری کرتا پھرتا ہے۔
اہلِ طریقت اس کے برعکس سالک کو اپنے عیب دیکھنے کی تلقین کرتے ہیں جو اصلاحِ احوال کی طرف پہلا قدم ہے۔ اپنے عیوب پر نظر رکھنے سے بندہ ایک طرف جہاں تکبر سے بچ جاتا ہے تو دوسری طرف دوسروں کی عیب جوئی کے گناہ سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو ہماری آنکھیں مجموعی طور پر ان تینوں امور میں ہمہ وقت مصروف نظر آتی ہیں لیکن اِس وقت سب سے بڑا شیطانی حملہ جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ مرد و زن کے مخلوط بے حیائی کے ماحول سے بچ بھی جائیں تو ٹیلی ویژن چینل اس سے بڑھ کر شیطنت کے مظاہرے عریانی و فحاشی کی صورت میں گھر گھر مہیا کرتے نظر آتے ہیں جس سے خصوصی طور پر نئی نسل بڑی سرعت سے اسلامی اخلاقی قدروں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت کا درد رکھنے والے خواہ وہ حکمران ہوں، علماء و دانشور ہوں یا والدین و اساتذہ، اِس فتنے کے مضر اثرات کو سمجھیں جس نے ہمارے معاشرتی اخلاقی رویوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس ضمن میں اسلام کے عظیم فکری سرمایہ کی اشاعت، پرچار اور اسے نظامِ تعلیم و تربیت کا حصہ بنانے سے ہی نیچی نظروں کا حیا آمیز معاشرہ بحال کیا جاسکتا ہے۔
جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے فحش باتیں گانوں اور مکالمات کی شکل میں کانوں کے ذریعے نوجوان نسل کی اخلاقی بدحالی کا باعث بن رہی ہیں۔ کان کو لغو اور فضول باتوں سے بچانا از حد ضروری ہے۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ خواہشِ نفس سے سننے والا بھی کلام کرنے کے ساتھ شریک ہوتا ہے یعنی کلام کے گناہ و ثواب میں سماعت کرنے والا بھی برابر کا حصہ دار ہوتا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ بری، غلط اور جھوٹی باتیں سننے سے دل یکسو نہیں رہتا۔ اس سے مختلف وساوس دل میں جنم لیتے ہیں اور نتیجے کے طور پر دوسروں کے بارے میں بے جا بدگمانی پیدا ہو جاتی ہے، یا گناہ کی رغبت سر اٹھاتی ہے، اطاعت نفس وجود میں آتی ہے اور پریشان خیالی کے پیدا ہونے سے باطنی طہارت پراگندگی کا شکار ہوتی ہے اور عبادت میں رکاوٹ پڑتی ہے۔
عرفاء بیان کرتے ہیں کہ جس طرح اچھا اور پاکیزہ کلام ایمان کی تازگی کا باعث بنتا ہے اسی طرح برے کلام کی سماعت ایمان کے زوال کا باعث بنتی ہے جس کے نتیجے میں دل پراگندہ خیالی اور وساوس کا محل بن جاتا ہے۔ اس لیے قلب کو برے خیالات سے پاک رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے کان کو بری باتوں کے سننے سے روکا جائے۔ قرآن حکیم میں تو بیہودہ اور جھوٹ بات سے اجتناب کا واضح حکم موجود ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرo
الحج، 22: 30
اور جھوٹی بات سے پرہیز کیا کرو۔
کئی مقامات پر اہلِ ایمان کی یہ خوبی بیان کی گئی ہے کہ وہ بے مقصد بات کرنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ جنت کی زندگی کے حوالے سے کلامِ الٰہی میں فرمایا گیا ہے کہ وہاں بیہودہ بات سننے کو نہیں ملے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنo
المومنون، 23: 3
اور جو بیہودہ باتوں سے (ہر وقت) کنارہ کش رہتے ہیں۔
وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ۔
القصص، 28: 55
اورجب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا وَّلَا کِذَّابًاo
النبا، 78: 35
وہاں یہ (لوگ) نہ کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ (ایک دوسرے کو) جھٹلانا (ہوگا)۔
فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍo لاَّ تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃًo
الغاشیۃ، 88: 10-11
عالی شان جنت میں (قیام پذیر) ہوں گے۔ اس میں کوئی لغوبات نہ سنیں گے (جیسے اہلِ باطل ان سے دنیا میں کیا کرتے تھے)۔
یہ ہے اہلِ ایمان کی شان کہ ان کے حواس ہر قسم کی بیہودگی سے محفوظ رہتے ہیں اور رہیں گے۔ دنیا ہو یا آخرت کا گھر، ان کے کان کچھ لغو نہ سنتے ہیں اور نہ سنیں گے۔ ان کی سماعتیں اور بصارتیں صرف نورِ ایمان سے منور ہوتی ہیں۔ مگر طاغوتی دور میں دیکھنے اور سننے کے اعمال پر شیطان غالب ہے۔ کانوں میں پڑنے والی آوازوں میں اخلاق سوزی کا زہر رچا ہوتا ہے۔ عشقیہ ڈراموں کے ڈائیلاگ اور فلموں کے فحش گانے اس دور کا سب سے بڑا شیطانی فتنہ ہے۔ اس میں سوچ بچار کرنے والوں کے لئے فکر کرنے کا بڑا سامان ہے۔ آج کل تو موبائل فون کا ناجائز استعمال سماعت کے ذریعے بے راہ روی کی وہ آگ بھڑکاتا ہے جس سے انسانی شخصیت کی اخلاقیات کی عمارت جل کر خاکستر ہو جاتی ہے۔ اس آگ نے اب تک لاکھوں گھرانوں کی عزت و آبرو کو جلا کر راکھ کر دیا ہے اور یہ ایسی تند و تیز ہوا ہے جو جنگل کی اس آگ کو بھڑکاتے چلے جا رہی ہے۔ شہوانی گفتگو ہوتی ہے، جذبات کو ہوا ملتی ہے اور بات ملاقات اور بے حیائی کے اعمال تک پہنچ جاتی ہے۔ والدین کو خبر ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو اس وقت جب بچے لُٹیا ڈبو چکے ہوتے ہیں۔
بلاتحقیق بات سن کر آگے پھیلانا اور کانوں کو دوسرے کے خلاف سننے کے لئے چوری چھپے مصروف رکھنا بھی کان کے گناہ کے زمرہ میں آتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَo
الحجرات، 49: 6
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق (شخص) کوئی خبر لائے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں (ناحق) تکلیف پہنچا بیٹھو، پھر تم اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔
انسان بسا اوقات سیاق و سباق کے بغیر ادھوری اور غیر واضح بات کسی سے سن کر بدگمانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر یہ سلسلہ ایک کان سے دوسرے کان کے ذریعے پھیلتا پھیلتا اچھی خاصی ہنگامہ آرائی کا باعث بن جاتا ہے۔ بدگمانی کے اس ماحول سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ خبردار کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًاo
بنی اسرائیل، 17: 36
بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی۔
کسی شخص نے کوئی غیر واضح مشتبہ اڑتی اڑتی بات سنی، پھر بلا تحقیق خبر کے طور پر آگے پھیلا دی تو ایسا شخص خواہش نفس کا شکار ہو کر گناہ کا مرتکب ٹھہرا۔ وہ یقینا گناہ گار ہوا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
کَفَی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ.
انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا (ہی) کافی ہے کہ جو کچھ اس نے سنا (بغیر تحقیق کے) اسے آگے بیان کر دیا۔
اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی پوشیدہ باتوں کو پھیلانا اور مسلمانوں کی پردہ کشائی کرنا سخت ناپسندیدہ فعل اور گناہ ہے۔ سنی سنائی بلا تحقیق خبروں کی اشاعت اس دور کا بہت بڑا المیہ ہے جس سے بڑی معاشرتی بربادیاں جنم لیتی ہیں۔ مسلمانوں کو ایسی باتوں کی ترویج سے منع کیا گیا ہے۔ انسان کو اپنی یہ عادت بنا لینی چاہئے کہ بلاتحقیق بات کرنے والے شخص کی خبر باقاعدہ سننے سے اجتناب کرے اور اگر نہ چاہتے ہوئے کوئی خبر کان میں پڑ جائے تو اسے آگے پھیلانے میں حصہ دار نہ بنے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے کانوں کے اس گناہ پر معافی کے خواستگار ہیں۔
زبان کے گناہوں میں جھوٹ بولنا، بدکلامی کرنا، جھگڑنا، وعدہ خلافی، غیبت کرنا اور بے ہودہ گوئی وغیرہ شامل ہیں۔ جھوٹ سب گناہوں کی جڑ ہے۔ اگر کوئی انسان محض جھوٹ نہ بولنے کا عہد کر لے تو اس کے باقی گناہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ ایفائے عہد کے بارے میں بار بار تاکید کی گئی ہے۔ اگر وعدہ پورا کرنا ممکن نظر نہ آتا ہو تو بہتر ہے کہ وعدہ ہی نہ کیا جائے تاکہ بعد میں رسوائی اور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور اگر وعدہ کر لیا ہے تو پھر اُسے ہر حال میں پورا کیا جائے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے:
وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِ ج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo
بنی اسرائیل، 17: 34
اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ گچھ ہو گی۔
زبان کا دوسرا بڑا گناہ غیبت کرنا ہے۔ غیبت سے مراد کسی شخص کے ایسے عیب کو اس کی عدم موجودگی میں بیان کرنا جو اس شخص میں موجود تو ہو لیکن خدشہ ہو کہ اگر اُس کے سامنے اس کا اظہار کیا گیا تو وہ اسے نا پسند کرے گا۔ غیبت کرنا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا ط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَکَرِهْتُمُوْهُo
الحجرات، 49: 12
اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو، کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھائے، سو تم اس سے نفرت کرتے ہو۔
غیبت کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے تنبیہہ فرمائی ہے کہ:
اَلْغِیْبَۃُ أَشَدُّ مِنَ الزِّنٰی.
غیبت، بدکاری سے بھی زیادہ شدید گناہ ہے۔
بد قسمتی سے ہم محض مزہ لینے کی خاطر دوسروں کے عیب بیان کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ہماری معاشرتی زندگی خطرناک حد تک اس گناہ کبیرہ کی مرتکب ہو رہی ہے۔ افسوس! زبان کی معمولی سے لذت کی خاطر انسان جہنم کا ایندھن بننا گوارہ کر لیتا ہے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے: رب ذوالجلال کی قسم! غیبت پیٹ میں لقمہ پہنچنے سے بھی تیز تر مومن کے دین میں رخنہ ڈال دیتی ہے۔
غزالی، إحیاء علوم الدین، 3: 143
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَکَلَ لَحْمَ أَخِیهِ فِی الدُّنْیَا، قُرِّبَ إِلَیْهِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَیُقَالُ لَهُ: کُلْهُ حَیًّا کَمَا أَکَلْتَهُ مَیِّتًا، فَیَأْکُلُهُ، وَیَکْلَحُ وَیَصِیحُ.
جو دنیا میں اپنے بھائی کا گوشت کھاتا ہے قیامت کے دن اس کے سامنے مردہ بھائی کا گوشت رکھا جائے گا اور کہا جائے گا جسے تو زندہ کھاتا تھا اب اُسے مردہ بھی کھا اور وہ کھائے گا، تیوری چڑھائے گا اور چیخیں مارے گا۔
امام غزالی حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث مقدسہ سے اخذ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الْغِیْبَۃُ أَشَدُّ مِنْ ثِلَاثِیْنَ زَنْیَۃً فِي الْإِسْلَامِ.
غزالی، بدایۃ الھدایۃ: 111
غیبت کرنا تیس مرتبہ بدکاری سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔
مروی ہے کہ قیامت کے دن بندے کا اعمال نامہ جب لایا جائے گا تو وہ اس میں اپنی کوئی نیکی نہیں دیکھے گا۔ وہ کہے گا میری نماز، میرا روزہ اور عبادت کہاں گئی۔ جواب ملے گا، لوگوں کی غیبت کرنے کی وجہ سے تمہارے اعمال رائیگاں ہو گئے۔ اسی طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک دوسرے شخص کو اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا اور وہ اس میں ایسی نیکیاں دیکھے گا جو اس نے کبھی نہ کی تھیں، تو بتایا جائے گا کہ یہ ان غیبتوںکے عوض میں ملی ہیں جو دوسروں نے تیرے بارے میں کیں اور تجھے معلوم بھی نہ تھا۔
زبان کے جملہ گناہوں میں ایک بڑا گناہ انسان کا دوغلہ پن ہے جس پر سخت وعید آئی ہے۔ دوغلے انسان کی گویا دو زبانیں ہوتی ہیں جسے وہ فسادِ خلق کے لیے استعمال کرتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ شَرَّ النَّاسِ ذُو الْوَجْهَیْنِ الَّذِی یَأْتِی هٰؤُلَائِ بِوَجْہٍ وَهٰؤُلَاءِ بِوَجْہٍ.
دوغلہ آدمی برے لوگوں میں سے ہے جو ایک کے منہ پر کچھ کہتا ہے اور دوسرے کے منہ پر کچھ۔
یہ ہمارا عمومی معاشرتی رویہ ہے کہ ہم بیک وقت ظالم و مظلوم دونوں سے اپنا تعلق اور نباہ برقرار رکھتے ہیں تاکہ ہمارے اپنے ذاتی مفادات کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ گویا:
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
ہمارے اسی دوغلے پن کے باعث حق و باطل گڈ مڈ ہو کر رہ گیا ہے۔ یہ حدیث مبارکہ ہمارے اسی دوغلے پن پر واضح وعید کی حیثیت رکھتی ہے۔
زبان بظاہر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے لیکن درحقیقت اس کا تصرّف موجودات کی دنیا میں بے حد و حساب ہے۔ کسی کی مخالفت پر اتر آئے تو اسے ذلیل و رسوا کر کے رکھ دے اور اگر کسی کی حمایت و محبت کے لئے بول پڑے تو اس کی برائیوں کو بھی نیکیاں بنا کر پیش کر دے۔ اس کے رنج و آزار کی کوئی حد نہیں جبکہ قلب اور دیگر اعضاء کی جسمانی درستگی کا انحصار بھی زیادہ تر زبان کی درستگی پر ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ کُلَّهَا تُکَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُوْلُ: اتَّقِ اللهَ فِیْنَا، فَإِنَّمَا نَحْنُ بِکَ، فَإِنِ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنِ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا.
جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے تمام اعضاء جھک کر زبان سے کہتے ہیں: (اے زبان!) ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر کیوں کہ ہم تجھ سے متعلق ہیں (یعنی ہماری سلامتی کا انحصار تجھ پر ہے)۔ اگر تو سیدھی رہے گی (یعنی بولنے میں احتیاط کرے گی) تو ہم بھی سیدھے (یعنی محفوظ) رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی (یعنی بولنے میں احتیاط نہیں برتے گی) تو ہم بھی ٹیڑھے (یعنی غیر محفوظ) ہوجائیں گے۔
کیا زبان کی جملہ آفتوں سے بچنا ممکن ہے؟ عرفاء نے اس سلسلے میں ایک ہی علاج تجویز کیا ہے کہ بلا ضرورت بات نہ کی جائے اور زیادہ تر خاموشی کو اختیار کیا جائے کیونکہ اگر اس پر اعتماد اور بھروسہ کر لیا تو پھر یہ رکنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ علاج بھی درحقیقت احادیث رسول ﷺ سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہے فرمایا:
لَا تُکْثِرُوا الْکَلَامَ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللهِ فَإِنَّ کَثْرَةَ الْکَلَامِ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللهِ قَسْوَۃٌ لِلْقَلْبِ وَإِنَّ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ اللهِ الْقَلْبُ الْقَاسِی.
ترمذی، السنن،کتاب الزھد، باب 61، 4: 607، رقم: 2411
اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ گفتگو نہ کرو کیونکہ ذکر الٰہی کے بغیر کثرت کلام دل کی سختی (کا باعث ہے) اور سخت دل انسان اللہ تعالیٰ سے بہت دور ہے۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوا جو حضرت سفیان بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا:
یَا رَسُولَ اللهِ، حَدِّثْنِی بِأَمْرٍ أَعْتَصِمُ بِهٖ، قَالَ: قُلْ رَبِّیَ اللهُ ثُمَّ اسْتَقِمْ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، مَا أَخْوَفُ مَا تَخَافُ عَلَیَّ؟ فَأَخَذَ بِلِسَانِ نَفْسِهٖ، ثُمَّ قَالَ: هٰذَا.
یا رسول اللہ! مجھے ایسا کام بتائیں جسے میں مضبوطی سے پکڑے رکھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو میرا رب اللہ ہے پھر اس پر ثابت قدم رہو۔ میں نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے لئے خطرناک چیز کیا ہے؟ آپ ﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر فرمایا: یہ ہے۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے فرمایا: کیا میں تمہیں تمام امور کا سردار، ستون اور کوہان کی بلندی نہ بتا دوں؟ میں نے عرض کیا: ہاں، یارسول اللہ! ضرور بتائیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تمام اعمال کا سردار اسلام ہے۔ ستون نماز ہے اور کوہان کی بلندی جہاد ہے۔ پھر فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذَلِکَ کُلِّهِ؟ قُلْتُ: بَلَی یَا نَبِيَّ اللهِ! فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ، قَالَ: کُفَّ عَلَیْکَ هَذَا، فَقُلْتُ: یَا نَبِيَّ اللهِ! وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِهِ، فَقَالَ: ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ! وَهَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَی وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَی مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِم.
کیا تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جس سے ان سب کا استحکام (وابستہ) ہے؟ میں نے عرض کیا: ہاں، کیوں نہیں، ضرور بتائیے یا رسول اللہ! راوی فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے زبانِ مبارک کو پکڑ کر فرمایا: اسے روک رکھو۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا گفتگو کے بارے میں بھی ہمارا مواخذہ ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! تجھے تیری ماں روئے، لوگوں کو جہنم میں منہ کے بل گھٹنوں کے بل گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (گفتگو) کے سوا اور کیا ہے؟
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّ عُمَرَ اطَّلَعَ عَلَی أَبِي بَکْرٍ وَهُوَ یَمُدُّ لِسَانَهٗ، فَقَالَ: مَا تَصْنَعُ یَا خَلِیْفَةَ رَسُوْلِ اللهِ! فَقَالَ: إِنَّ هَذَا أَوْرَدَنِي الْمَوَارِدَ. إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: لَیْسَ شَیْئٌ مِنَ الْجَسَدِ إِلاَّ وَهُوَ یَشْکُوْ ذَرِبَ اللِّسَانِ.
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ اپنے زبان پکڑ کر کھینچ رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے خلیفۂ رسول آپ کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے: اس نے بہت سے (غلط) کام کروائے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جسم کا ہر عضو زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔
زبان کے گناہوں میں سے فحش گوئی، دروغ گوئی، جھوٹا وعدہ، خوشامد، غیبت اور چغلی وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام گناہوں کا واحد حل توبہ و استغفار ہے۔
گناہوں کے حوالے سے قرآن مجید میں ہاتھوں کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا گیا ہے۔ کفار کو یہ کہتے ہوئے کہ اگر تم سچے ہو تو موت کی آرزو کرو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًا م بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ ط وَاللهُ عَلِیْمٌ م بِالظّٰلِمِیْنo
البقرۃ، 2: 95
وہ ہرگز کبھی بھی اس کی آرزو نہیں کریں گے ان گناہوں (اور مَظالِم) کے باعث جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں۔
اور پھر فرمایا:
وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَةِ۔
البقرة، 2: 195
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ــ
ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُم.
آل عمران، 3: 182
یہ ان اعمال کا بدلہ ہے جو تمہارے ہاتھ خود آگے بھیج چکے ہیں۔
ایسے کئی مقامات پر قرآن مجید میں ہاتھوں کا تذکرہ ہے تاکہ انسان کو سمجھایا جائے کہ اپنے ہاتھوں کو گناہ آلود نہ کرے۔ کیونکہ اس کے یہی ہاتھ اور پاؤں یومِ حساب اس کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے:
یَوْمَ تَشْهَدُ عَلَیْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَاَیْدِیْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنo
النور، 24: 24
جس دن (خود) ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں انہی کے خلاف گواہی دیں گے کہ جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔
انسان اپنے جملہ امور انجام دینے میں ہاتھوں کو استعمال کرتا ہے۔ انہی سے جسمانی اذیت دیتا ہے، قتل و غارت گری کرتا ہے خواہ وہ خود کرے یا کسی کو ایسا کرنے کا اشارہ کرے۔ اسی طرح قلم کے ذریعے ہاتھ ہی ظلم و ناانصافی پر مبنی غیر منصفانہ فیصلے کرتا ہے یا انتظامی اختیار استعمال کرتے ہوئے مخالفین کے جانی و مالی نقصانات کے احکام جاری کرتا ہے۔ مخالف کی عزت و ناموس کو مجروح کرنے کے لئے الزام تراشی اور تہمت پر مبنی لٹریچر شائع کرنے کا مکروہ دھندا بھی ہاتھ ہی سرانجام دیتے ہیں۔ ہاتھ کی اہمیت کا اندازہ ایک اپاہج سے لگایا جا سکتا ہے جو ہاتھوں سے معذور ہو۔
قیامت کے روز ہر انسانی عضو بندے کے خلاف اس کے برے فعل کی شہادت دے گا، جس پر اس کی بخشش کا دار ومدار ہوگا۔ پاؤں سے بھی سوال کیا جائے گا۔ بہتر ہے غلط مجلس میں جانے یا غلط کام سر انجام دینے سے ابھی اجتناب کر لیا جائے تاکہ کل یومِ حساب شرمندگی اور پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ انسان کے قدم کبھی بھی اس طرف نہ اٹھنے پائیں جس کی طرف باز رہنے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے حکم فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْهُ مَسْئُوْلًاo
بنی اسرائیل، 17: 36
بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہو گی۔
نفسِ انسانی انسان کو اپنی خواہشات کے جال میں پھنسا کر گمراہی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہی آنکھ، کان اور دل ہی تو ہیں جن کے ذریعے لذت انگیز نظارے اور مسحور کن آوازیں انسان کے دل میں اتر کر جذبۂ و خیال کو اپنا قیدی بنا لیتے ہیں اور پھر انسان اپنے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔ اسی لئے اللہ رب العزت نے کھل کر وارننگ دی ہے کہ اگر تم نفس کی پیروی سے باز نہ آئے تو انہی حواس سے پوچھا جائے گا۔ جب یہ سچی گواہی دے دیں گے پھر انسان کے لئے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو گا اور جہنم کی آگ اس کا مقدر ہو گا۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے عمومی طور پر ہر عضو بدن سے پوچھ گچھ کرنے کا بیان کیا ہے۔ پھر سورۂ یٰسین میں ہاتھ اور پاؤں کا باقاعدہ نام لے کر ذکر فرمایا کہ قیامت کے دن وہ اُن اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ وَتُکَلِّمُنَـآ اَیْدِیْھِمْ وَتَشْھَدُ اَرْجُلُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
یٰس، 36: 65
آج ہم اُن کے مونہوں پر مُہر لگادیں گے اور اُن کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور اُن کے پاؤں اُن اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے۔
شیخ فرید الدین عطار ’تذکرۃ الاولیائ‘ میں امام سفیان ثوری کے نام کے ساتھ ثوری لکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے مسجد میں رکھ دیا تو ندا آئی، اے ثور! مسجد میں یہ گستاخی کیوں کی۔ آپ غلبۂ خوف سے غش کھا کر گر پڑے۔ اُسی دن سے آپ کا نام ثوری مشہور ہوگیا۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الأولیاء: 20
ثور عربی لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے بیل، یعنی جانور جیسا کام کیوں کیا؟ حقیقت یہ ہے کہ قیامت کے دن انسان کے ہر عضو سے اس کے کئے گئے فعل کی بابت پوچھ گچھ ہو گی۔ جب ہونٹوں پر مہر لگا کر زبان بند کر دی جائے گی اور ہمارا ہر عضو خود ہمارے خلاف گواہ ہوگا تو بہتر ہے کہ بندہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھے کیونکہ بقول میر تقی:
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگهِ شیشہ گری کا
انسان پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر جائز و ناجائز کی تمیز بھول چکا ہے۔ وہ بددیانتی، دھوکا دہی، رشوت، لوٹ مار اور نا انصافی کے ذریعے دوزخ پیٹ کی آگ سے بھر رہا ہے۔ تاجر، ڈاکٹر، دُکان دار، ملازم پیشہ، مزدور غرضیکہ معاشرے کا کوئی ایسا طبقہ نہیں (الا ما شاء اللہ) جہاں سب ایک دوسرے کو نہ لوٹ رہے ہوں۔ یہی ہماری معاشی و معاشرتی بے سکونی کی بڑی وجہ ہے۔
پیٹ جملہ جسمانی قوتوں کا مرکز ہے۔ اس لیے کمزوری و طاقت، عفت و پاکدامنی، سرکشی و نافرمانی کے ظہور میں پیٹ کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ آدابِ بندگی بجا لانے کے ضمن میں حلال غذا کے استعمال اور حرام و مشتبہ غذا سے بچنے کا انحصار زیادہ تر پیٹ پر ہے۔ قرآن حکیم میں حرام مال کھانے پر سخت وعید آئی ہے۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا ط وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا.
النساء، 4: 10
بے شک جو لوگ یتیموں کے مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں نری آگ بھرتے ہیں، اور وہ جلد ہی دہکتی ہوئی آگ میں جا گریں گے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے بھی حرام مال کھانے والے کو سخت وعید سنائی ہے۔ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ النَّارُ أَوْلٰی بِهٖ.
حرام مال اور حرام غذا سے پرورش پانے والا گوشت جنت میں داخل نہیں ہوگا بلکہ نارِ جہنم کا زیادہ مستحق ہے۔
حرام کھانے والا شخص حق تعالیٰ کی بارگاہ میں مردود ہونے کے باعث سخت ترین عذاب کا مستحق ہو گا۔ اس لئے اس کی کسی بھی عبادت کو قبول نہیں کیا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے شخص سے عبادت و اطاعت کی توفیق ہی سلب کر لی جاتی ہے۔ اس لیے عوام کی توبہ یہ ہے کہ وہ حرام کھانے سے بچیں۔
حرام سے مراد وہ چیز ہے جس کا کسی دوسرے کی ملکیت ہونا یقینی طور پر معلوم اور ثابت ہو تو شرعاً اس کا استعمال جائز نہیں ہو گا۔ اگر ایسی چیز کا کسی غیر سے منسوب ہونا یقینی نہ ہو لیکن غالب گمان یہ ہو کہ یہ کسی دوسرے کی ہے تو وہ مشتبہ ہے۔ جہاں تک تحفہ قبول کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں تحقیق ضروری ہے۔ اگر اس میں کوئی شک ہو تو ایسا تحفہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاملاتِ زندگی میں حرام و حلال یوں گڈمڈ ہوکر رہ گیا ہے کہ اس کی تمیز ختم ہو کر رہ گئی ہے حالانکہ دنیا کا مال فی نفسهٖ آزمائش کا گھر ہے جس سے غرور و تکبر جنم لیتا ہے۔ اس کا ضرورت سے زیادہ استعمال ناپسندیدہ فعل ہے۔ قرآن حکیم میں اس بارے میں بڑا واضح ارشاد ہے:
اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰـوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَۃٌ وَّتَفَاخُرٌ م بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ ط کَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَھِیْجُ فَتَرٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَکُوْنُ حُطَامًا ط وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَّمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانٌ ط وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo
الحدید، 57: 20
جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خودستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اسکی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لیے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لیے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اہل تصوف تو حلال ذرائع سے پیٹ بھرنے کو بھی گناہ خیال کرتے ہیں۔ امام ابو القاسم قشیری نے ’الرسالۃ (ص: 141)‘ کے نزدیک پیٹ کو بھوکا رکھ کر صبر کرنے کا ذکر قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ.
البقرۃ، 2: 155
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے۔
اس آیت کے آخر میں صبر کرنے والوں کو بشارت دی گئی ہے:
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo
البقرۃ، 2: 155
اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔
جو آزمائش میں پورا اترا یعنی خوف کے ساتھ پیٹ کی خواہش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے بھوک برداشت کی اور صبر سے کام لیا تو ایسے لوگوں کے لئے اچھے اجر کی بشارت دی۔ اسی طرح رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ کَانَ بِهِمْ خَصَاصَۃٌ.
الحشر، 59: 9
اور اپنی جانوں پر انہیں ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود اِنہیں شدید حاجت ہی ہو۔
یہاں بھی پیٹ کو بھوک میں مبتلا کر کے کھانے کے سلسلے میں دوسروں کی مدد کرنے کا بیان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ارباب طریقت نے پیٹ کو بھرنے سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ ارکانِ مجاہدہ میں سے ایک ہے۔
حضرت یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں:
لَوْ أَنَّ الْجُوْعَ یُبَاعُ فِی السُّوْقِ لَمَا کَانَ یَنْبَغِيْ لِطُلَّابِ الْآخِرَةِ إِذَا دَخَلُوْا السُّوْقَ أَنْ یَشْتَرُوْا غَیْرَهٗ.
قشیری، الرسالۃ: 141
اگر بھوک کوئی ایسی چیز ہوتی جو بازار سے خریدی جاسکتی تو آخرت کے طالبین جب بھی بازار میں داخل ہوتے تو یہ مناسب نہ سمجھتے کہ اس کے سوا کسی اور چیز کو خریدتے۔
حضرت سہل بن عبد اللہ نے فرمایا:
لَمَّا خَلَقَ اللهُ تَعَالَی الدُّنْیَا جَعَلَ فِی الشَّبْعِ: الْمَعْصِیَةَ وَالْجَهْلَ، وَجَعَلَ فِی الْجُوْعِ: الْعِلْمَ وَالْحِکْمَةَ.
جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا تو پیٹ بھر کر کھانے میں معصیت اور جہالت کو رکھ دیا اور بھوک میں علم اور حکمت کو۔
خواص نے پیٹ کو بھرنے سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ جب انہوں نے بھوک کی عادت ڈالی تو انہیں اس کے باعث حکمت کے چشمے نصیب ہوئے۔ چنانچہ عوام کی توبہ پیٹ کو رزقِ حرام سے بچانے کا نام ہے اور بلاشبہ اس دور میں یہ ایک انتہائی مشکل عمل ہے جبکہ خواص کے لئے رزقِ حلال سے بھی بھوک رکھ کر کھانے میں توبہ کا عمل پوشیدہ ہے کیونکہ وہ اہل تقویٰ ہیں۔ ان کا زہد ان سے ایسے ہی عمل کا متقاضی ہے۔
مغربی اور یورپی اقوام کے نزدیک بدکاری ایک ناقابل گرفت ذاتی فعل ہے۔ اس فعل کو جرم ثابت کرنے والی واحد چیز ’جبر‘ ہے۔ اگر فریقین باہم راضی ہوں تو پھر یہ قابلِ گرفت جرم نہیں۔ ان کے اس مجرمانہ رویے نے وہاں فحاشی کا ایک بازار گرم کر دیا ہے اور اب اپنے اس نقطہ نظر کو ساری دنیا میں عملاً رائج کرنے کے شیطانی عزم کی تکمیل کی خاطر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکٹرانک میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہیں اس پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔ بدقسمتی سے مسلمان حکمرانوں کا ذاتی کردار بھی الا ما شا اللہ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں، حالانکہ احکامِ قرآنی اس جرم کے بارے میں بڑے واضح ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّهُ کَانَ فَاحِشَةً ط وَسَآءَ سَبِیْلاًo
الإسراء، 17: 32
اور تم زنا (بدکاری) کے قریب بھی مت جانا بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے، اور بہت ہی بری راہ ہے۔
اس قبیح فعل پر حدود جیسی کڑی سزا کے نفاذ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ جرم شرعاً اور اخلاقاً کس قدر مذموم، گھناؤنا اور برا ہے۔ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اس کے علم میں تھا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب یہ جرم عام ہو جائے گا اور شیطان کے پیروکار اس کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کریں گے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آج سے چودہ سو سال قبل نزول قرآن کے وقت ہی حکم دے دیا تھا کہ خبردار! ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کے لئے سزا کے حوالے سے تمہارے دل میں کوئی نرم گوشہ پیدا نہ ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَۃٍص وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللهِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِج وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِـفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَo
النور، 24: 2
بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوںمیں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جب کہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر اللہ کے دین (کے حکم کے اِجرائ) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہیے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہیے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو۔
خود حضور نبی اکرم ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں اُن مسلمان مرد و زن پر باقاعدہ حدود نافذ کی گئیں جن سے یہ فعل سرزد ہو گیا تھا۔ حضرت سہیل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ یَضْمَنَ لِي مَا بَیْنَ لَحْیَیْهِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْهِ أَضْمَنَ لَهُ الْجَنَّةَ.
جو مجھے اپنے دونوںجبڑوں کے درمیان(یعنی اپنی زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان (یعنی اپنی شرم گاہ کی حفاظت) کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
فحاشی و عریانی کا طوفان عالمی سطح پر غارت گرِ کردار بن کر کیبل اور انٹرنیٹ وغیرہ کی شکل میں ہر گھر میں دعوت گناہ دے رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں بدکاری و بے حیائی کس قدر تیزی سے معاشرے کو اخلاقی تباہی کے گڑھے میں لے جا رہی ہے اس کا اندازہ روز مرہ کے اخبارات میں شائع خبروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ مقدس رشتوں کی پامالی سے ہمارا معاشرتی اخلاقی رویہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ انفرادی سطح پر جہاں والدین کو اپنی جوان نسل کی اخلاقی تربیت کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے وہاں حکومتی اداروں کو شرم و حیا کے اسلامی تصورات کی اشاعت کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بارے میں واضح طور پر خبردار کیا ہے، فرمانِ الٰہی ہے:
وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰـفِظُوْنَo
المومنون، 23: 5
اور جو (دائماً) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فواحش کو، خواہ کوئی چھپ کے کی گئی ہوں یا کھلے عام، حرام قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ.
الأعراف، 7: 33
میرے ربّ نے (تو) صرف بے حیائی کی باتوں کو حرام کیا ہے جو ان میں سے ظاہر ہوں اور جو پوشیدہ ہوں (سب کو)۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا أَحَدَ أَغْیَرُ مِنَ اللهِ وَلِذٰلِکَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ.
اللہ تعالیٰ سے زیادہ غیرت والا کوئی نہیں اِسی لیے اُس نے ظاہری اور باطنی فواحش (بے حیائی کے کاموں) کو حرام فرما دیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ یَغَارُ وَغَیْرَۃُ اللهِ أَنْ یَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ اللهُ.
اللہ تعالیٰ غیرت فرماتا ہے؛ اور اللہ تعالیٰ اس پر غیرت فرماتا ہے کہ کوئی مومن اُس فعل کا مرتکب ہو جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔
إِنَّ اللهَ یَغَارُ وَإِنَّ المُؤمِنَ یَغَارُ وغَیْرَۃُ اللہ أَنْ یَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ عَلَیْهِ.
اللہ کو غیرت آتی ہے اور مومن کو بھی غیرت آتی ہے۔ اللہ کو غیرت اس وقت آتی ہے جب مومن ایسے کام کرتا ہے جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
بدکاری جیسے قبیح اور حرام فعل پر سخت ترین سزا کے اجراء کا باعث یہی غیرت الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَھُمْ ط اِنَّ اللهَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَo
النور، 24: 30
آپ مومن مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو یہ انجام دے رہے ہیں۔
اس آیہ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو پاکیزہ زندگی اختیار کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے اور حکم بھی دیا ہے۔ اہل طریقت نے عارفوں کے بارے کہا ہے کہ ان کے قلوب میں کسی فحش خیال کا گزرنا ایسا ہے جیسے عوام سے اِس برے فعل کا سرزد ہو جانا۔
التوبۃ عن ذنوب القلوب یعنی توبہ کی دوسری قسم دل کے گناہوں سے متعلق ہے۔ انسانی دل دیگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کے علاوہ چار قسم کے مہلک گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے۔ یعنی حسد، ریا، غرور و تکبر اور حبِ دنیا۔ ان مہلک گناہوں کی علیحدہ علیحدہ کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے تاکہ ان کی ہلاکت انگیزیوں سے آگاہ ہو کر بندہ اُن سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب مکرم ﷺ کے احکام اس ضمن میں بڑے واضح ہیں جن کی اطاعت میں ہماری نجات مضمر ہے۔
حسد ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب روز مرہ زندگی میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حسد سے مراد ایسا جذبہ ہے جس میں انسان کسی دوسرے انسان کو عنایت ہونے والی نعمت کے بارے میں اپنے اندر جلن محسوس کرتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ اس نعمت کا اُس شخص سے زیادہ وہ خود حقدار تھا، یہ اُس کے حصے میں کیوں چلی گئی۔ جن افرادِ معاشرہ کو اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے جاہ و منصب، عزت و شہرت، مال و دولت، طاقت و صحت، آل و اولاد وغیرہ جیسی نعمتیں عطا ہو جاتی ہیں لوگ اُن سے حسد کرنے لگتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ سب کچھ اُسے کس نے دیا ہے؟ یقینا اللہ تعالیٰ نے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حسد کرنے والا کس کی عطا پر ناراض ہو رہا ہے؟ واضح بات ہے کہ حاسد اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتراض کر رہا ہے اور یوں وہ اللہ رب العزت کے فیصلوں کا منکر ہو رہا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ حسد کی بنا پر وہ اس شخص کے خلاف بلا وجہ معاندانہ رویہ اختیار کر لیتا ہے جس کا مقصد اسے پریشان کرنا، نقصان پہنچانا اور ناکام کرنا ہوتا ہے۔ یوں حاسد معاشرے میں عداوت، شرپسندی اور فساد کا موجب بن جاتا ہے۔ حسد کے عمل کی وجہ سے اس کی بدبختی ملاحظہ کیجئے کہ حاسد دنیا میں حسد کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور موت کے بعد دوزخ کی آگ میں اس کا ٹھکانا ہو گا۔
قرآن حکیم میں واضح طور پر حسد کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ حسد سے انتہاپسند رویہ جنم لیتا ہے، حاسد کے دل میں حسد کی وجہ بغض، کینہ، غصہ انتقام اور اذیت پسندی کے جذبات کھولتے رہتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی طبع میں تحمل، بردباری، میانہ روی، رواداری اور انصاف پسندی کا فقدان ہو جاتا ہے اور اس کے ہر عمل سے تنگدلی اور تنگ نظری کا اظہار ہوتا ہے۔ اسی لئے ہمارے معاشرتی تنازعات کی بڑی وجہ حسد ہی ہے۔ جو دل حسد سے پاک رہا وہ بلاشبہ نجات پا گیا۔
1۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِهٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ.
النساء، 4: 32
اور تم اس چیز کی تمنا نہ کیا کرو جس میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا:
اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ۔
النساء، 4: 54
کیا یہ (یہود) لوگوں (سے ان نعمتوں) پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا فرمائی ہیں۔
3۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے حاسد کے رد میں فرمایا:
نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا.
الزخرف، 43: 32
ہم ان کے درمیان دنیوی زندگی میں ان کے (اسبابِ) معیشت کو تقسیم کرتے ہیں۔
4۔ حسد کرنے والا اللہ کے فیصلوں اور مخلوق میں نعمتوں کی تقسیم پر اعتراض کرتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
مَا یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَیَّ وَمَآ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِo
ق، 50: 29
میری بارگاہ میں فرمان بدلانہیں جاتا اور نہ ہی میں بندوں پر ظلم کرنے والا ہوں۔
حسد سے انسانی ذات پر مرتب ہونے والے نقصانات اور اس سے معاشرے میں پیدا ہونے والے اَن گنت مسائل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اس سے اپنی پناہ حاصل کرنے کی ہدایت فرمائی جو قرآنِ حکیم کی سورۃ الفلق میں بیان فرمائی گئی ہے۔
5۔ سورہ الفلق کی آخری آیت ہے جس میں پناہ مانگی جا رہی ہے:
وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَo
الفلق، 113: 5
اور ہر حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔
احادیث رسول ﷺ میں حسد کے نقصانات کا ذکر بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کے باعث پہلی متعدد قومیں ہلاک کر دی گئیں۔ انسان کو حسد سے کبھی بے خبر نہیں ہونا چاہئے۔ جونہی محسوس کرے کہ اس کے دل میں دوسروں کے خلاف حسد جنم لے رہا ہے تو اس سے محفوظ رہنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہوئے اس سے بچنے کی کوشش کرے۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الْحَسَدَ یَأْکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَأْکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ.
حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے۔
حاسد جو حرکتیں کرتا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے جیسے اُسے ناراض رہنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ دوسروں پر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں پر جلتا ہے۔
2۔ حدیث قدسی میں حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اَلْحَاسِدُ عَدُوٌّ لِنِعْمَتِیْ.
حاسد میری (عطا کردہ) نعمت کا دشمن ہے۔
3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَبَاغَضُوا وَلَا تَحَاسَدُوا وَلَا تَدَبَرُوْا وَکُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَـلَاثَةِ أَیَّامٍ.
نہ قطع تعلق کرو، نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو، نہ ایک دوسرے سے بغض و عداوت رکھو اور نہ آپس میں حسد کرو۔ اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔
حسد میں ایک شخص دوسرے کے لئے زوالِ نعمت کا طالب ہوتا ہے کہ یہ اس سے چھن کر اُسے مل جائے جبکہ اس کے برعکس رشک بھی ایک جذبہ ہے کہ کسی کے نیک کام کو دیکھ کر خواہش کرے کہ میں بھی ایسے نیک اعمال بجا لاؤں۔ یہ محمود فعل ہے۔
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَیْنِ رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَھُوَ یَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّیْلِ وَ آنَاءَ النَّھَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ: لَیْتَنِي أُوْتِیتُ مِثْلَ مَا أُوْتِيَ فُـلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا یَعْمَلُ. وَ رَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَھُوَ یُهْلِکُهُ فِي الْحَقِّ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَیْتَنِي أُوْتِیْتُ مِثْلَ مَا أُوْتِيَ فُـلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا یَعْمَلُ.
حسد (رشک) تو بس دو آدمیوں سے ہی کرنا جائز ہے۔ پہلا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن (پڑھنا و سمجھنا) سکھایا تو وہ رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت کرتا ہے اس کا پڑوسی اسے قرآن پڑھتے ہوئے سنتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے کہ کاش مجھے بھی اس کی مثل قرآن عطا کیا جاتا تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال بخشا ہے اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کرتا ہے۔ دوسرا شخص اسے دیکھ کر کہتا ہے کاش مجھے بھی اتنا مال ملتا جتنا اسے ملا ہے تو میں بھی اسی طرح عمل کرتا جس طرح یہ کرتا ہے۔
ریا کا جذبہ انسانی دل میں خود پسندی کے باعث جنم لیتا ہے۔ ایک انسان عبادت کرتا ہے، صدقہ خیرات کرتا ہے، لوگوں کی بھلائی کے کام کرتا ہے اور اس کی غرض فقط یہ ہوتی ہے کہ خالق و مالک اس سے راضی ہو جائے۔ وہ اپنے مالک کی رضا کے لئے اس کے احکامات پر عمل کرتا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی سرورکار نہیں ہوتا کہ لوگ اس کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں، بلکہ وہ اسے لوگوں سے پوشیدہ رکھنا چاہتا ہے۔ ایسے اعمال کا اجر اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، لیکن اگر یہ سب کچھ لوگوں کو دکھانے اور ان کی نظروں میں نیک، پارسا اور معتبر نظر آنے کی غرض سے کرے تو یہ ریا ہے۔
جو شخص معاشرے میں قابلِ عزت، نیک و پارسا، معزز و معتبر نظر آنے کے لئے نیک اعمال کرتا ہے وہ دراصل ریاکاری کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ ایسے اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کی زبان پر اپنی تعریف سننے کے لیے کئے جاتے ہیں۔ ریاکاری کے لئے کیا گیا ہر بڑے سے بڑا عمل حتیٰ کہ شہادت جیسا عظیم الشان عمل بھی ضائع ہو جاتا ہے۔
1۔ قرآن حکیم میں ان نمازیوں پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے جو اپنی عبادت محض دکھلاوے کے لئے کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہوا:
اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُوْنَo
الماعون، 107: 6
وہ لوگ (عبادت میں) دکھلاوا کرتے ہیں (کیوں کہ وہ خالق کی رسمی بندگی بجا لاتے ہیں اور پسی ہوئی مخلوق سے بے پرواہی برت رہے ہیں)۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاھِھِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ ط وَاللهُ اَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُوْنَo
آل عمران، 3: 167
وہ اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں، اور اللہ (اُن باتوں) کو خوب جانتا ہے جو وہ چھپا رہے ہیں۔
3۔ ایک اور مقام پر یوں ارشاد فرمایا:
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَی الصَّلٰوةِ قَامُوْا کُسَالٰی لا یُرَآئُوْنَ النَّاسَ وَلاَ یَذْکُرُوْنَ اللهَ اِلاَّ قَلِیلاًo مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ ق صلے لَآ اِلٰی هٰٓؤُلَآءِ وَلَآ اِلٰی هٰٓؤُلَآءِ.
النساء، 4: 142
اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو سستی کے ساتھ (محض) لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کویاد (بھی) نہیں کرتے مگر تھوڑا۔ اس (کفر اور ایمان) کے درمیان تذبذب میں ہیں نہ ان (کافروں) کی طرف ہیں اور نہ ان (مومنوں) کی طرف ہیں۔
4۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِ اجْھَرُوْا بِهٖ ط اِنَّهٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِo
ملک، 67: 13
اور تم لوگ اپنی بات چھپا کر کہو یا اُسے بلند آواز میں کہو، یقینا وہ سینوں کی (چھپی) باتوں کو (بھی) خوب جانتا ہے۔
مذکورہ بالا آیات قرآنی میں ریاکاری کی مختلف جہتوں کو بیان کیا گیا ہے جو ایک انسان دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے اختیار کرتا ہے۔ یہ آیات مبارکہ قول و فعل کے تضادات کو بھی بیان کر رہی ہیں جو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک سارے معاشرے کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں اور فی الواقع قومی سطح پر ہمارے اخلاقی انحطاط کی یہی بڑی وجہ ہے۔ ریاکاری کی ایک انتہائی بُری شکل یہ بھی ہے کہ دوسروں کو نیکی اور صالحیت کے وعظ و تلقین دیتا نہ تھکے حالانکہ ذاتی حوالے سے اُس کا اِن امور سے دور کا واسطہ ہی نہ ہو۔ اسی دوہری شخصیت کے ہاتھوں مسلمان امت نے انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک بے پناہ نقصان اٹھایا ہے۔ ایسی دوغلی شخصیت کے حامل فرد سے جہاں ایک عام مسلمان اپنی جمع پونجی سے محروم ہوا وہاں ایسے مکار اور جھوٹے حکمرانوں کے ہاتھوں عوام آزادی جیسی نعمت سے محروم ہوئے۔
5۔ اس دوہرے پن پر اللہ تعالیٰ نے سخت بیزاری کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo
الصف، 61: 2
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔
6۔ قرآن حکیم کی درج ذیل آیہ کریمہ میں بھی اس عمل کو شرک سے تعبیر کیا گیا ہے:
فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلاَ یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖٓ اَحَدًاo
الکہف، 18: 110
پس جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی امید رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔
حقیقت یہ ہے ہر وہ کام جو دوسروں کی نگاہ میں معزز و پرہیز گار بننے کے لئے کیا جائے، ریا اور دکھلاوہ ہیں۔ معاشرے میں سخی کہلانے اور عزت پانے کے لئے جو بھی عمل ہو خواہ وہ صدقہ ہو، خیرات ہو، حج ہو یا جہاد سب دکھلاوہ ہو گا۔ ریا سے پاک صرف وہ عمل ہو گا جو محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے سرانجام دیا جائے۔ جب بھی کسی عمل میں ریا کا عمل دخل ہو گیا وہ عمل شرک کہلائے گا۔
1۔ حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ. قَالُوْا: وَمَا الشِّرْکُ الْأَصْغَرُ، یَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: الرِّیَائُ۔ یَقُوْلُ اللهُ تعالیٰ لَهُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِذَا جُزِيَ النَّاسُ بِأَعْمَالِهِمِ، اذْهَبُوْا إِلَی الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُرَائُوْنَ فِي الدُّنْیَا، فَانْظُرُوْا هَلْ تَجِدُوْنَ عِنْدَهُمْ جَزَاءً.
مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا تمہارے بارے میں خطرہ ہے وہ شرک اصغر ہے؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری (شرکِ اَصغر ہے)۔ جب قیامت کے دن لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جا رہا ہوگا تو اللہ تعالیٰ ان (ریاکار بندوں) سے فرمائے گا: جاؤ اُن لوگوں کے پاس، جن کے لیے تم دنیا میں دکھلاوا کیا کرتے تھے۔ پھر دیکھو کیا اُن سے (اپنے عملوں کی) کوئی جزاء پاتے ہو!
2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایک دن دجال کا تذکرہ کر رہے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺ گھر میں تشریف لائے اور فرمایا:
أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِمَا هُوَ أَخْوَفُ عَلَیْکُمْ عِنْدِي مِنْ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، قَالَ: قُلْنَا: بَلَی، فَقَالَ: الشِّرْکُ الْخَفِيُّ، أَنْ یَقُومَ الرَّجُلُ یُصَلِّي، فَیُزَیِّنُ صَلَاتَهٗ لِمَا یَرَی مِنْ نَظَرِ رَجُلٍ.
کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا مجھے تم پر دجال سے زیادہ ڈر ہے ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ شرکِ خفی ہے۔ آدمی کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے اور بہت ہی عمدہ طریقہ سے تاکہ لوگ اس کی نماز کو دیکھیں۔
عملِ عبادت صرف ذات باری تعالیٰ کے لئے مخصوص ہے اوریہ ذاتِ الوہیت کا حق ہے۔ جب کسی بندے نے عبادت کے عمل میں ریا کاری کی تو وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو پس پشت ڈال کر اپنی کسی ذاتی غرض کی تکمیل کے لئے اُس کی مخلوق کی رضا کو اپنا مقصود و مطلوب بنا کر شرک کا مرتکب ہوگیا۔ شرک صرف چاند، سورج اور دیگر مظاہرِ فطرت کو پوجنے کا نام نہیں بلکہ اپنی خواہشات کے پیش نظر لوگوں کی نظروں میں خود کو اچھا ظاہر کرنا بھی شرک ہے۔ اس حقیقت کی مزید وضاحت حدیث مبارکہ میں بھی ملتی ہے۔
3۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلٰی أُمَّتِي الإِشْرَاکُ بِاللهِ، أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَقُوْلُ یَعْبُدُوْنَ شَمْسًا، وَلَا قَمَرًا، وَلَا وَثَنًا، وَلٰـکِنْ أَعْمَالًا لِغَیْرِ اللهِ وَشَهْوَۃً خَفِیَّۃً.
مجھے اپنی اُمت پر سب سے زیادہ خوف شرک کا ہے۔ (آپ ﷺ نے فرمایا: ) میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج، چاند اور بتوں کی عبادت کرنے لگیں گے، بلکہ وہ غیر اللہ کے لیے عمل (یعنی ریاکاری) کریں گے اور خفیہ طور پر خواہشاتِ نفس کی پیروی کریں گے۔
4۔ ریاکاری سے ہر عمل حتیٰ کہ شہادت جیسا عظیم الشان عمل بھی ضائع ہو جاتا ہے۔ حضرت شفی اصجی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ جب وہ مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک آدمی کے گرد کچھ لوگ جمع ہیں۔ انہوں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان کے قریب ہو گیا یہاں تک کہ ان کے بالکل سامنے بیٹھ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے۔ جب خاموش ہوئے اور تنہا رہ گئے تو میں نے عرض کیا: میں آپ سے بحق فلاں و فلاں عرض کرتا ہوں کہ مجھے کوئی حدیث سنائیں جسے آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، سمجھا اور جان لیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اچھا، میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جسے میں نے رسول اکرم ﷺ سے سنا۔ سمجھا اور جانا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ سسکیاں لینے لگے حتی کہ بیہوش ہوگئے۔ ہم نے تھوڑی دیر انتظار کیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہوا تو فرمایا: میں تمہیں ایک حدیث بیان کرتا ہوں جسے حضور نبی اکرم ﷺ نے اس مقام پر مجھے بیان فرمایا تھا جہاں ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا آدمی نہ تھا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ سسکیاں لینے لگے حتی کہ بیہوش ہوگئے۔ جب ہوش آیا تو منہ پونچھا اور فرمایا: میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں جسے حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے اس مقام پر بیان فرمایا جہاں ہم دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سسکیاں لینے لگے حتی کہ بیہوش ہو کر منہ کے بل جھک گئے۔ میں نے کافی دیر تک آپ رضی اللہ عنہ کو سہارا دیا۔ پھر جب ہوش آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ یَنْزِلُ إِلَی الْعِبَادِ لِیَقْضِيَ بَیْنَهُمْ وَکُلُّ أُمَّۃٍ جَاثِیَۃٌ فَأَوَّلُ مَنْ یَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ وَرَجُلٌ قُتِلَ فِي سَبِیْلِ اللهِ وَرَجُلٌ کَثِیْرُ الْمَالِ، فَیَقُولُ اللهُ لِلْقَارِیِٔ: أَلَمْ أُعَلَّمْکَ مَا أَنْزَلْتُ عَلٰی رَسُولِي؟ قَالَ: بَلٰی، یَا رَبِّ. قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِیْمَا عُلِّمْتَ؟ قَالَ: کُنْتُ أَقُوْمُ بِهٖ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّهَارِ. فَیَقُوْلُ اللهُ لَهٗ: کَذَبْتَ. وَتَقُوْلُ لَهُ الْمَلَائِکَۃُ: کَذَبْتَ. وَیَقُوْلُ اللهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ إِنَّ فُـلَانًا قَارِیٌٔ، فَقَدْ قِیْلَ ذَاکَ. وَیُؤْتَی بِصَاحِبِ الْمَالِ، فَیَقُوْلُ اللهُ لَهٗ: أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَیْکَ حَتّٰی لَمْ أَدَعْکَ تَحْتَاجُ إِلٰی أَحَدٍ؟ قَالَ: بَلٰی، یَا رَبِّ. قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِیْمَا آتَیْتُکَ؟ قَالَ: کُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ، وَأَتَصَدَّقُ. فَیَقُوْلُ اللهُ لَهٗ: کَذَبْتَ. وَتَقُوْلُ لَهُ الْمَلَائِکَۃُ: کَذَبْتَ. وَیَقُوْلُ اللهُ تَعَالٰی: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُـلَانٌ جَوَادٌ، فَقَدْ قِیْلَ ذَاکَ. وَیُؤْتَی بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِیلِ اللهِ، فَیَقُوْلُ اللهُ لَهٗ: فِي مَاذَا قُتِلْتَ؟ فَیَقُوْلُ: أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِي سَبِیْلِکَ فَقَاتَلْتُ حَتّٰی قُتِلْتُ. فَیَقُوْلُ اللهُ تَعَالٰی لَهٗ: کَذَبْتَ. وَتَقُوْلُ لَهُ الْمَلَائِکَۃُ: کَذَبْتَ. وَیَقُوْلُ اللهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ یُقَالَ فُـلَانٌ جَرِئٌ، فَقَدْ قِیْلَ ذَاکَ. ثُمَّ ضَرَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ عَلٰی رُکْبَتِي. فَقَالَ: یَا أَبَا هُرَیْرَةَ، أُولٰئِکَ الثَّـلَاثَۃُ أَوَّلُ خَلْقِ اللهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ بندوں کی طرف متوجہ ہوگا تاکہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے۔ تمام امتیں گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوں گی۔ سب سے پہلے تین آدمیوں کو بلایا جائے گا: (1) جس نے قرآن یاد کیا ہوگا، (2) جو اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیا گیا ہوگا اور (3) زیادہ مال دار شخص۔ اللہ تعالیٰ اس قاری سے فرمائے گا: کیا میں نے تمہیں وہ کلام نہیں سکھایا جسے میں نے اپنے رسول ﷺ پر اتارا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں، میرے پروردگار۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں رات دن اس کی تلاوت کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا۔ فرشتے بھی کہیں گے: تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو چاہتا تھا کہ کہا جائے فلاں شخص قاری ہے، تو تجھے کہا گیا۔ دولت مند کو لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے میں نے (مال میں اتنی) وسعت نہ دی کہ تجھے کسی کا محتاج نہ رکھا؟ وہ عرض کرے گا: ہاں، میرے پروردگار۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میری دی ہوئی دولت سے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں قربت داروں سے صلہ رحمی کرتا اور خیرات کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے۔ فرشتے بھی کہیں گے: تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ (مزید) فرمائے گا: تو چاہتا تھا کہ کہا جائے فلاں شخص بڑا سخی ہے، سو ایسا کہا جا چکا۔ (پھر) شہید کو لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو کس لئے قتل ہوا؟ وہ کہے گا: تو نے مجھے اپنے راستے میں جہاد کا حکم دیا پس میں نے لڑائی کی حتی کہ شہید ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا۔ فرشتے بھی کہیں گے: تو جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیری نیت یہ تھی کہ لوگ کہیں فلاں شخص بڑا بہادر ہے، پس یہ بات کہی گئی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دستِ مبارک میرے زانو پر مارتے ہوئے فرمایا: اے ابوہریرہ! اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے پہلے ان ہی تین آدمیوں سے جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔
5۔ حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ دعا مانگا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ طَهِّرْ قَلْبِي مِنَ النِّفَاقِ، وَعَمَلِي مِنَ الرِّیَاءِ، وَلِسَانِي مِنَ الْکَذِبِ، وَعَیْنِي مِنَ الْخِیَانَةِ؛ فإنَّکَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ.
یا اللہ! میرے دل کو منافقت سے، عمل کو ریا کاری سے، زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے پاک رکھ۔ بے شک تو آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے رازوں کو جانتا ہے۔
توبہ کے باب میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ عوام، خواص اور اخص الخواص کی توبہ میں فرق ہوتا ہے۔ عوام کی توبہ گناہ سے، خواص کی غفلت سے اور خاص الخواص کی توبہ اللہ کے سوا کسی دوسری طرف میلان سے ہوتی ہے۔ اسی طرح گناہوں میں سے بعض کبائر اور بعض صغائر میں شمار ہوتے ہیں۔ بعض گناہوں کا تعلق انسانی اعضا سے ہوتا ہے اور بعض کا تعلق قلبی کیفیات سے ہوتا ہے۔ ہر طرح کے گناہ کی گرفت ہو گی اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہر وقت اللہ رب العزت سے توبہ کی درخواست کرتے رہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved