’’اَﷲُ الصَّمَد‘‘ کا معنی ذات کی نسبت سے یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اوّل سے آخر تک از خود موجود ہے۔ وہ بے نیاز اور سب پر فائق ہے جبکہ ہر شئے اپنے وجود کے لئے اﷲ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا باقی جو کوئی بھی کائنات میں موجود ہے اس کے وجود میں آنے کا سبب خدا کی ذات ہے اور ہر کسی کا موجود ہونا اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔ جب ہر کسی کا وجود اللہ رب العزت کا محتاج ٹھہرا تو اس کی صفات اور کمالات بھی محتاج ہوں گے جبکہ یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ وجود میں کسی کا محتاج ہے اور نہ صفات و کمالات میں کسی کا محتاج ہے۔ مخلوق میں ہرکوئی اپنے وجود میں بھی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے اور اپنی صفات و کمالات میں بھی اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔
چنانچہ اس فرق کے تناظر میں ہمارا عقیدہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے لیکن وہ اپنے زندہ ہونے میں کسی کا محتاج نہیں ہے۔ دوسری طرف ہم بھی زندہ ہیں لیکن ہم اپنی زندگی کے لئے اس کی بخشی ہوئی حیات کے محتاج ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کلام کرتا ہے لیکن اس کی صفتِ کلام کسی کی حاجت مند نہیں۔ ہم بھی کلام کرتے ہیں لیکن ہمارا متکلم ہونا اس صاحبِ کلام کا محتاج ہے۔ وہ بصیر ہے لیکن اس کا بصیر ہونا کسی کا محتاج نہیں۔ ہم بھی دیکھتے ہیں لیکن ہمارا دیکھنا اس کا محتاج ہے۔ وہ سمیع ہے بغیر حاجت کے، ہم سمیع ہیں اس کی حاجت کی بناء پر۔ وہ علیم و شہید ہے بغیر حاجت کے اور ہم علیم و شہید ہیں اس کے محتاج ہونے کے سبب سے، وہ رحیم، کریم، جواد اور رؤوف ہے بغیر حاجت کے لیکن ہم ہر معاملے میں اس کے محتاج ہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی صفات ہیں وہ بغیر حاجت کے ہیں اور ہماری جملہ صفات اس کی عطا سے ہیں۔ اب اگر ہم خدا کو اس کی ذات کی بناء پر رؤوف مانیں اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی عطا کی بناء پر رؤوف مانیں تو ایسا عقیدہ رکھنا ہر گز شرک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اللہ کو کریم، شہید، علیم، قدیر اور صمد بالذات ماننا اور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کریم، شہید اور علیم، اللہ کا محتاج جان کرماننا شرک نہ ہو گا۔
کچھ صفات صاحبِ صفت یعنی صفت پیدا کرنے والے میں بھی ہوتی ہیں اور دوسروں میں بھی (بطورِ عطا) ہوتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات اس کے حال اور شان کے مطابق ہوتی ہیں جبکہ دوسروں میں ان کے حسبِ حال ہوتی ہیں۔ ایسی صفات جو اللہ تعالیٰ کا خاصہ نہیں ہیں بلکہ مشترک ہیں ان کا مخلوق کے لئے ان کے حسبِ حال اثبات شرک نہیں ہو گا مثلاً
1۔ اللہ دیکھنے والا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
’’بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘
الاسراء، 17 : 1
لیکن قرآن مجید میں انسان کو بھی سمیع و بصیر کہا گیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاO
’’پس ہم نے اسے (ترتیب سے) سننے والا (پھر) دیکھنے والا بنایا ہےo‘‘
الدهر، 76 : 2
2۔ اللہ کی شان ہے کہ وہ رؤُف رحیم ہے، ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
’’بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہےo‘‘
البقره، 2 : 143
اور قرآن مجید میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا :
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیںo‘‘
التوبه، 9 : 128
3۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌO
’’بے شک اللہ ہر چیز کا مشاہدہ فرما رہا ہےo‘‘
الحج، 22 : 17
اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت فرمایا :
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاO
’’پھر اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘
النساء، 4 : 41
فرمایا : اے محبوب! قیامت کا وہ کیا منظر ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک شہید اٹھائیں گے اور اس کی شہادت اس کی امت تک محدود ہو گی لیکن جب تمام محدود شہادتوں والے شہید (گواہ) ایک ایک کرکے گزر جائیں گے تو پھر آخر میں محبوب تجھے سب گواہوں پر ایسا گواہ بنائیں گے کہ کائنات کی ہر شئے اوّل سے آخر تک تیری شہادت پر موقوف ہو گی، اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا.
’’اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تم پر گواہ ہو۔‘‘
البقرة، 2 : 143
اللہ بھی شہید ہے بندے بھی شہید ہیں۔ اللہ بھی رؤُف ہے بندے بھی رؤُف ہیں۔ اللہ بھی رحیم ہے بندے بھی رحیم ہیں۔ اللہ بھی کریم ہے بندے بھی کریم ہیں۔ اللہ بھی کلام کرتا ہے اور اس کے بندے بھی کلام کرتے ہیں۔ جس طرح ارشاد فرمایا :
4. وَکَلَّمَ اﷲُ مُوْسٰی تَکْلِيْمًاo
’’اور اللہ نے موسٰی (علیہ السلام) سے (بلاواسطہ) گفتگو (بھی) فرمائیo‘‘
النساء، 4 : 164
اللہ رب العزت نے موسٰی علیہ السلام سے کلام کیا اور موسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا۔ یہ صفاتِ مشترکہ ہیں لیکن اَلْحَمْد سے وَالنَّاس تک پورے قرآن میں کوئی ایسا مقام نہیں جہاں اس کے معبود ہونے کا ذکر ہے وہیں اس کے ساتھ کسی بندے کو بھی معبود کہا گیا ہو۔ اللہ خالق ہے۔ وہ عدم سے کائنات کو وجود میں لانے والا ہے۔ وہ موت و حیات کا مالک ہے لیکن یہ سب کچھ کسی بندے کے بارے میں نہیں کہا گیا۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ ازروئے قرآن معبود ہونا اس کی غیر مشترک اختصاصی صفت ہے اور یہی قرآن بیان کر رہا ہے جبکہ سمیع و بصیر ہونا اس کی صفتِ مشترک ہے معبود ہونے میں کوئی اس کا شریک، سہیم اور ساجھی نہیں جبکہ سمیع و بصیر، رؤوف رحیم اور شہید جیسی صفات میں خالق کے ساتھ اس کے بندوں کا بھی ذکر ہے۔ اس کا جواب بڑا سادہ ہے اور وہ یہ کہ صفات کی ما ہیئت میں فرق ہے۔ وہ صفت جو صرف اللہ تعالیٰ میں پائی جائے اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور میں کسی حال میں بھی نہ پائی جائے اس کو ’’خاصۂ الُوہیت‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ صفت مشترکہ جو اللہ تعالیٰ میں اس کی شان اُلوہیت کے اعتبار سے اور بندے میں اس کی شانِ عبدیت کے اعتبار سے پائی جائے اس کو محض صفت کہا جائے گا خاصۂ اُلوہیت نہیں کہا جائے گا۔ جب اللہ رب العزت کی ذاتِ وحدہ لاشریک ٹھہری تو خاصہ صرف اور صرف اسی کے لئے مختص ٹھہرا۔ اس کے سوا کسی اور کے لئے ثابت نہیں لہٰذا جو کوئی اللہ رب العزت کے سوا کسی اور کو ایک لمحہ کے لئے بھی معبود کا درجہ دے وہ کافر اور مشرک ہے، خواہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہی سے ایسا اعتقاد کیوں نہ رکھے۔
لہٰذا مسلمانوں کا یہ مسلّمہ عقیدہ ہے کہ لمحہ بھر کے لئے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معبود سمجھنا کفر و شرک ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان صفات سے متصف کرنا جو اﷲ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں اس کا تصور کرنا بھی کفر و شرک ہے کیونکہ یہ صفات خاصۂ الُوہیت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کی نسبت ہر مسلمان کاعقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ نہیں کیا جا سکتا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کی جاسکتی ہے۔ پس ان دو چیزوں میں یہ فرق ٹھہرا کہ کچھ صفات ایسی ہیں جو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے خاص ہیں۔ کسی اور کے لئے نہیں اور کچھ صفات ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے غیر کے لئے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے اس کی شان کے لائق ہیں اور غیر کے لئے اس کی شان کے لائق ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہم عبادت کرتے ہیں جو کمال درجے کی تعظیم ہے جبکہ اپنے والدین کی بھی تعظیم کرتے ہیں لیکن عبادت میں والدین کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔ (عبادت اور تعظیم میں فرق پر تفصیلی بحث ہماری کتاب ’’کتاب التوحید (جلد دوم)‘‘ باب توحید اور تعظیم میں ملاحظہ کریں جو الگ بھی شائع ہوچکا ہے)۔
سورۂِ اخلاص کی آیت نمبر 3 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَمْ يَلِدْ. ’’نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے۔‘‘
پیدا ہونے والے کو بیٹا یا بیٹی کہتے ہیں جو باپ کا جزو ہوتے ہیں۔ بیٹے سے جزئیت ثابت ہوتی ہے اور کُل کا کچھ نہ کچھ اثر جزو میں آتا ہے۔ اگر خدا کا (معاذ اﷲ) کوئی بیٹا ہوتا تو پوری نہ سہی کچھ نہ کچھ خدائی اس میں بھی آ جاتی کیونکہ بیٹا ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ اس کی اُلوہیت کے اوصاف اس میں کسی حد تک منتقل ہو جائیں۔ سورۂ اخلاص کی اس آیت مبارکہ میں اس چیز کی مکمل نفی کی گئی ہے۔
فرشتوں کے بارے میں یہودی یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ وہ اللہ کے بیٹے ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ.
’’اور یہود نے کہا : عزیر (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ نے کہا : مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں۔‘‘
التوبة، 9 : 30
یہود و نصاریٰ کے عقیدے کا رد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ اقدس سے کرایا گیا۔ ارشاد فرمایا :
قُلْ إِن كَانَ لِلرَّحْمَنِ وَلَدٌ فَأَنَا أَوَّلُ الْعَابِدِينَO
’’فرما دیجئے کہ اگر (بفرضِ محال) رحمان کے (ہاں) کوئی لڑکا ہوتا (یا اولاد ہوتی) تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرنے والا ہوتاo‘‘
الزخرف، 43 : 81
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہلوایا گیا کہ اے یہود و نصاریٰ! تم جھوٹ بولتے ہو کہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے۔ اگر اللہ کا کوئی بیٹا ہوتا تو وہ یقینًا عبادت کے لائق ہوتا اور میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں ہوتا کیونکہ سب سے پہلا عبادت گزار اس کائنات میں مجھے بنایا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ إِنَّ صَلاَتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَO لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَO
’’فرما دیجئے کہ بے شک میری نماز اور میرا حج و قربانی (سمیت سب بندگی) اور میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہےo اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں(جمیع مخلوقات میں) سب سے پہلا مسلمان ہوںo‘‘
الانعام، 6 : 162 - 163
قرآن نے اﷲ تعالیٰ کا بیٹا نہ ہونے پر یہ دلیل دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا ہو اور بیٹا ہو کر بھی خدا نہ ہو تو اس کی خدائی پر حرف آتا ہے۔ اسی طرح اگر بیٹا ہو کر خدا ہو تو بھی اس کی خدائی میں شرک واقع ہوتا ہے اس لئے بیٹے سے پاک ہونے کا قطعی اعلان ہوا تاکہ نہ خدائی پر حرف آئے اور نہ خدائی میں شرک لازم آئے۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی جزو ہونا یا اس کا بیٹا ہونا اور اس کے نور کے براہِ راست پرتو سے تخلیق میں آنے میں بنیادی فرق ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے جب انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اللہ نے سب سے پہلے کسے پیدا فرمایا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا :
إن اﷲ خلق قبل الأشياء نور نبيک من نوره.
’’بیشک اللہ نے تمام مخلوق سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، باب فی تخليق نور محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 18
2. قسطلاني، المواهب اللدنية، 1 : 9
3. حلبي، السيرة الحلبية، 1 : 31
اس حدیثِ مبارکہ کے معنی و مفہوم سے بعض لوگ التباس اور مغالطہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ’’نور نبیک من نورہ‘‘ کے کلمات جزئیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں حالانکہ یہ ایک مغالطہ آفرینی ہے۔ ’’لا والدیت‘‘ اور مذکورہ حدیث دو الگ الگ چیزیں ہیں ان کا آپس میں التباس اور شائبہ پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ نور سے تخلیق مراد ہے، جزئیت ہرگز نہیں، جزئیت عقیدۂ باطل ہے۔
اس کا مطلب نہ تولد ہے اور نہ خدا کا جزو ہونا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اﷲ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نور کا جزو ٹھہرایا بلکہ اپنے نور سے پیدا فرمانے کا معنی حدیث مذکورہ کے مطابق یہ ہے کہ اپنے نور کے براہِ راست فیض سے اﷲ نے تیرے نبی کے نور کو پیدا فرمایا۔ اس معنی کی تصریح مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی نشرالطیب کے پہلے باب نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں مذکورہ بالا حدیث کے تحت یہی کی ہے کہ ’’تیرے نبی کا نور اپنے نور کے براہِ راست فیض کے پرتو سے پیدا فرمایا۔‘‘
سورۂ اخلاص کی آیت نمبر 3 میں فرمایا :
وَلَمْ يُولَدْO ’’اور نہ وہ کسی سے پیدا ہواo‘‘
جب اس کی طرح کوئی نہیں ہے تو اس کی کوئی اصل کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی اﷲ تعالیٰ کا پیدا کرنے والا بھی ہے تو پھر وہ اللہ تعالیٰ پر بھی فائق ہو گا کیونکہ باپ بیٹے پر تقدمِ زمانی اور وجود میں لانے کا سبب ہونے کی بنا پر بھی فائق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کوئی باپ نہیں ہے اس لئے خدا پر نہ کوئی فائق ہے اور نہ مقدم۔ بیٹا اپنے وجود میں آنے کے لئے باپ کا محتاج ہوتا ہے جبکہ خدا کسی کا محتاج نہیں اور ہر کوئی اس کا محتاج ہے۔ اس سورۂِ توحید میں پیدائش اور ولادت کا ذکر دو طرح سے بیٹے کے طور پر اور باپ کے طور پر ہوا کہ نہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا۔ اگر کسی کی طرف ولادت منسوب ہو جائے، خواہ ولادت دینا ہو یا ولادت پانا، تو وہ سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن خدا نہیں ہو سکتا کیونکہ جو خدا ہوتا ہے وہ نہ پیدا ہوتا ہے اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوتا ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی امت نے ان کے معجزات کو دیکھا، جیسے مردوں کو زندہ کرنا، کوڑھوں کو شفایاب کرنا، مادرزاد نابینا کو صحت مند اور توانا بنانا، ان معجزات اور تصرفات و کمالات کو دیکھ کر امت نے انہیں خدا کے مقام پر فائز کر دیا۔ صاف ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات، معجزاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ نہیں رکھتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات تو ان تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات پر حاوی ہیں جن کی امتوں نے ان کے کمالات دیکھ کر ان کی نسبت خدائی کا دعویٰ کر دیا۔
امتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ اس نے اس امت کو یہ شعور عطا کیا کہ وہ قیامت تک ربیع الاول کے مہینے میں اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشی میں جشن مسرت مناتی ہے۔ حزم و احتیاط کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو ’’بعد از خدا بزرگ توئی‘‘ کے حق دار ہیں، خدا نہیں بلکہ اللہ کے پیدا کردہ برگزیدہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں کیونکہ جو پیدا ہوتا ہے وہ خدا نہیں ہوتا تو گویا میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا اعلانِ توحید ہے اور نصاریٰ کے برعکس امتِ مسلمہ کا یہ عمل دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہر شرک کے تصور کو جڑ سے اکھاڑ دینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد نہ منانے سے شرک کا شائبہ ہو سکتا تھا کہ امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کیوں نہیں مناتی۔ کہیں کوئی یہ تو نہیں سمجھتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا نہیں ہوئے لہٰذا واضح ہوا کہ ولادت منانا شرک نہیں بلکہ ردِ شرک کا اجتماعی اعلان ہے۔
وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO
’’اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘
اس کا کوئی ہمسر اور ہم پلہ نہیں، نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے۔ وہ اپنی تمام صفتوں میں یکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی صمد ہے نہ کوئی احد، (کوئی اللہ کے سوا) لَمْ يَلِدْ ہے اور لَمْ يُوْلَدْ، وہ سلسلۂ تولید و تولُّد سے یکسر پاک ہے۔ کوئی واجب الوجود ہے اور نہ کوئی واجب الارادہ، ان ساری صفتوں میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے اور ہر کوئی اس کا محتاج اور تابع ہے۔ اس کا کوئی شریک، ہم پلہ اور کفو نہیں۔
سورۂ اخلاص میں بیان کردہ سات ارکان کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایک ماننا عقیدۂ توحید ہے اور ان سات ارکان میں سے کسی ایک رکن کا بھی انکار اور اس سورت میں بیان کردہ صفات کو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے ثابت کرنا شرک ہے۔ لیکن جن جائز امور سے اس سورت میں منع نہیں کیا گیا وہ اپنی جگہ حق ہیں۔ ان جائز امور کو شرک بنانا اور توحید کو توحید کے تقاضوں سے نکالنا افراط و تفریط کا شکار ہونے کے مترادف ہے۔ اس لئے دین اور شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تقاضا یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کے تمام طبقات توحید اور ردِ شرک کے مسئلہ میں افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اعتدال و میانہ روی کی راہ کو اپنا شعار بنائیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved