‘Aqida Tawhid ke Sat Arkan:

حصہ اول

مسئلہ توحید قرآن حکیم کے بنیادی اور اساسی موضوعات میں سے ہے۔ اِس مسئلے کو ثابت کرنے کے لئے اگرچہ قرآن حکیم کی متعدد آیاتِ بینات میں دلائل و براہینِ قاطعہ موجود ہیں لیکن سورۃ الاخلاص میں اللہ رب العزت نے اپنی توحید کا جو جامع تصور عطا فرمایا ہے وہ کسی اور مقام پر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کو سورۂ توحید بھی کہتے ہیں۔ اس سورہ میں توحید کے سات بنیادی ارکان بیان کئے گئے ہیں۔ اگر ان ارکانِ سبعہ کو ملا لیا جائے تو عقیدۂ توحید مکمل ہو جاتا ہے اور اگر ان میں سے کسی ایک رکن کی بھی عقیدتاً خلاف ورزی ہو جائے تو توحید باقی نہیں رہتی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO اللَّهُ الصَّمَدُO لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْO وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌO

’’(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے : وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo اللہ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر ہےo‘‘

الاخلاص، 112 : 1 - 4

اس سورت میں بیان شدہ توحید کے ارکانِ سبعہ کی تفصیل درج ذیل ہے :

  1. واسطۂ رسالت
  2. ذاتِ حق کا فوق الادراک ہونا
  3. احدیّت
  4. صمدیّت
  5. لا وَلَدیّت
  6. لا والدیّت
  7. لاکفویّت

پہلا رکنِ توحید : واسطۂ رسالت

عقیدۂ توحید کے لیے واسطۂ رسالت کی ناگزیریت

سورۂ اخلاص کا آغاز لفظِ ’’قُل‘‘ سے کیا گیا جس کا معنی ہے : ’’(اے نبیِّ مکرّم!) آپ فرما دیجئے۔‘‘ کیا فرما دیجئے؟

هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO

’’وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo‘‘

یہ مختصر مضمون جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یعنی اس کے ایک ہونے کو بیان کر رہا ہے، اس کی وحدتِ مطلقہ کا بیان ہے۔ چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر برہانِ ناطق ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا میرے پیارے! ہم چاہتے ہیں کہ توحید کا مضمون بیان کرنے کے لئے تیری زبان اِستعمال ہو۔ جو کچھ اس سے نکلے، میری ہستی پر دلالت کرے۔ میرے ایک ہونے کا مضمون اتنا بلند ہے کہ اس کی ادائیگی کا حق تیری زبان سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہ اے محبوب! مجھے تیری اُمت کو ایمان سے بہرہ ور کرنا ہے مگر اِن کا میری نسبت عقیدۂ ایمان تب متحقق ہوگا جب یہ آپ سے سن کر آپ کی بات کو سچا مان کر مجھے ایک مانیں گے۔

1۔ ’’قُل‘‘ عنوانِ رسالت ہے اور ’’هُوَ اﷲ‘‘ عنوانِ توحید

اﷲ رب العزت نے سورۂ اخلاص کی ابتداء لفظ قُلْ سے فرمائی۔ لفظِ ’’قُلْ‘‘ عنوانِ رسالت ہے جبکہ عنوانِ توحید ’’هُوَ اﷲ‘‘ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ کے ہونے کا براہِ راست علم (Direct knowledge) حاصل ہو گیا تو وہ علم ’’وحدانیت‘‘ ہے، عقیدۂ توحید نہیں۔ کیونکہ وہ علم بغیر واسطۂ رسالت کے ہے اور اس میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حوالہ ہی نہیں تھا لہٰذا وحدانیت کا تصور ایمان تب بنتا ہے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان لانے میں واسطہ و وسیلہ بنیں۔

2۔ وحدت، وحدانیت اور توحید کا مفہوم

عقیدۂ توحید کی معرفت کے لئے ایک اہم بات جو ذہن نشین کرنا ضروری ہے اور جسے بہت سے اہلِ علم نے اِس انداز میں بیان نہیں کیا، مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید، احادیثِ نبوی، ائمۂ کبار، محدثین و متکلمین، اسلاف کی تحقیقات اور مفسرین کی تفاسیر کے مطالعہ کے بعد جو بات راقم کے ذہن میں راسخ ہوئی وہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک ہونا توحید نہیں ہے، بلکہ یہ اس کی وحدت ہے۔ اس باب میں تین الفاظ اہم ہیں :

  1. وحدت
  2. وحدانیت
  3. توحید

اس اجمال کی ضروری تفصیل اِس طرح ہے :

وحدت

وحدت اکائی کو کہتے ہیں اس کا مطلب ہے اللہ کا ایک ہونا اور اللہ تعالیٰ کی وحدت، وحدتِ مطلقہ ( Absolute oneness) کہلاتی ہے۔

وحدانیت

اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے کا تصور جب نظریہ، فلسفہ اور فکر (Theory, Philosophy & Thought) میں ڈھل جاتا ہے تو اسے ’’وحدانیت‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔

توحید

توحید، نظریہ اور تصور سے بڑھ کر ایک عقیدہ ہے مگر اس کے باوجود یہ اس وقت تک ایمان نہیں بن سکتا جب تک اس کا حصول واسطۂ رسالت سے نہ ہو۔ واسطۂ رسالت سے اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا ہی وہ عقیدہ ہے جو ایمان بنتا ہے اور ہم اسی کو عقیدۂ توحید کہتے ہیں۔

3۔ واحد اور توحید کے درمیان معنوی ربط

عربی گرائمر کی رو سے لفظِ توحید باب تفعیل کا مصدر ہے اور اس کے لغوی معنیٰ ’’ایک کرنا‘‘ کے ہیں۔ اس کا مادۂ اشتقاق وَحْدَۃً ہے اور اِسی سے واحد مشتق ہے جس کے معنی ایک کے ہیں۔ ماہرینِ علم الریاضی و علم الاعداد و ہندسہ کے نزدیک نصف الاثنین واحد یعنی دو کے آدھے کو ایک کہتے ہیں۔

واحد کی اقسام

واحد کی تین قسمیں ہیں :

  1. واحدِ عددی
  2. واحد جنسی
  3. واحد نوعی

واحد عددی

الواحد نصف الاثنین یعنی دو کے آدھے کو ایک کہتے ہیں۔

واحد جنسی

علمائے مناطقہ و فلاسفہ کے نزدیک واحد جنسی اُسے کہتے ہیں جو اپنی جنس کے اعتبار سے ایک ہو مثلاً حیوان ایک جنس ہے اور جسم نامی ایک جنس ہے۔ شیر، گائے، بکری وغیرہ حیوان ہیں اور یہ تمام اپنی خاص جنس کے لحاظ سے واحد ہیں کیونکہ اِن تمام جانوروں میں حیوانیت مشترک جنس ہے لہٰذا یہ تمام جانور ایک جنس کے لحاظ سے واحد جنسی ہیں۔

واحد نوعی

علمائے مناطقہ و فلاسفہ کے نزدیک واحد نوعی وہ ہے جو اپنی نوع کے لحاظ سے ایک ہو مثلاً حیوان کی کئی انواع ہیں۔ کوئی حیوان صاہل یعنی ہنہنانے والا جانور ہے، کوئی حیوان مفترس یعنی چیرنے پھاڑنے والا جانور ہے اور کوئی حیوانِ ناطق جیسے اِنسان۔ اِس لئے اِنسان حیوا ن ناطق ہونے کی حیثیت سے اپنی نوع کا ایک فرد کہلاتا ہے۔ بیل کو جب واحدِ نوعی کہیں گے تو اُس میں شیر اور بکری وغیرہ شامل نہیں ہوں گے۔ اِس لئے کہ بیل اگرچہ حیوانیت میں دوسرے حیوانات کے ساتھ مشترک ہے مگر وہ اپنی نوع کے اعتبار سے الگ حیثیت رکھتا ہے اِس لئے وہ اپنی نوع کا فرد کہلائے گا۔

خلاصۂ کلام

مذکورہ بالا واحد کی تمام تعریفات کے مطابق اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو واحدِ عددی مانے تو مشرک ہو گا کیونکہ اُس نے واحد عددی کی تعریف کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دو کا آدھا تسلیم کیا اور اللہ تعالیٰ میں دو کے لحاظ سے وحدت کا مفہوم آیا۔ اگر کوئی اِنسان اللہ تعالیٰ کو واحد جنسی مانے تو تب بھی مشرک کہلائے گا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اِس میں اشتراکِ جنس ضروری ہے اور اللہ رب العزت اشتراکِ جنس سے پاک ہے۔ اِسی طرح کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو واحد نوعی مانے تو بھی مشرک ہو گا کیونکہ نوع کے لئے افراد کا ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ امر متحقق ہوا کہ مذکورہ بالا تمام تعریفات کے مطابق اللہ تعالیٰ کو نہ تو واحد عددی، نہ واحدِ جنسی اور نہ واحد نوعی مان سکتے ہیں کیونکہ اِس سے شرک لازم آتا ہے تو پھر لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہم مسلمان اللہ تعالیٰ کو وہ واحد مانتے ہیں جسے زُبانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا ہے اور اس کا اظہار ’’قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ‘‘ میں ہے۔

ذہن نشین کر لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ دوسرے کے اعتبار سے اُس میں مفہوم وحدت آیا ہے۔ پوری اُمت کا متفق علیہ اور مجمع علیہ عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت نہ واحد عددی ہے نہ واحد جنسی ہے اور نہ واحد نوعی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے واحد ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ واحد حقیقی ہے اور اُس کی ذات ازل سے ہی وحدتِ ذاتی سے متصف ہے اور وہ ہر قسم کے اشتراک، اشتباہ، مماثلت، تعدد، تکثر، تجزی، حلول، اتحاد، امکان، حدوث، ترکیب، تحلیل اور تبعیض سے پاک ہے اور اِن تمام عقائدِ حقہ کا اعلان زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لفظ ’’قُل‘‘سے کروایا گیا ہے۔ اس واحدِ حقیقی کو ’’اَحَد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

4۔ وحدت اور توحید میں فرق

خدا کا ایک ہونا تصورِ وحدت ہے۔ اگر زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر اپنی عقل، فہم اور سمجھ سے خدا کو ایک جانا جائے تو یہ تصورِ وحدت ہے اور زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر اﷲ تعالیٰ کو ایک مانا جائے تو یہ عقیدہ توحید ہے، اس لئے ارشاد فرمایا گیا :

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO

’’( اے نبی مکرم!) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ ان الفاظ سے پیغام دے رہے ہیں کہ میرے پیارے نبی! یوں تو جاننے والے اپنے فہم سے مجھے ایک جانتے رہیں گے لیکن آپ اپنی زبان سے فرما دیں کہ میں ایک ہوں تو ان کا یہ جاننا ان کو ایمان کی نعمت عطا کر دے گا۔ سننے والے آپ کی زبان سے سن کر اور آپ کی بات کو مان کر مجھے ایک مانیں اور ایک جانیں گے تو ان کی وحدت، توحید میں بدل جائے گی۔

5۔ لوگوں نے مظاہرِ فطرت کو معبود بنا لیا

قرآن مجید میں یہ ذکر بہ صراحت آیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں نے اپنے علم و فکر اور عقل کی بنا پر وجودِ خدا کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا تھا لہٰذا اس زمانے کے لوگ مظاہرِ فطرت کو معبود بناتے ہوئے کبھی سورج کی پوجا کرتے اور کبھی ستاروں کی پرستش کرتے تھے یعنی مظاہر پرستی کو انہوں نے اپنا شعار بنا لیا تھا۔ اس کے پیچھے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے فائدہ کا کوئی خاص تصور (concept) کارفرما ہوتا تھا۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے ان کی طرف سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جنہوں نے پیغمبرانہ بصیرت و حکمت سے لوگوں کے باطل تصورات کا رد کیا اور انہیں ذاتِ وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَإِذْ قَالَ إِبراہِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلاَلٍ مُّبِينٍO وَكَذَلِكَ نُرِي إِبراہِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَO فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لاَ أُحِبُّ الْآفِلِينَO فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَO فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَO إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَO

’’اور (یاد کیجئے) جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ آزر (جو حقیقت میں چچا تھا محاورۂ عرب میں اسے باپ کہا گیا ہے) سے کہا : کیا تم بتوں کو معبود بناتے ہو؟ بیشک میں تمہیں اور تمہاری قوم کو صریح گمراہی میں (مبتلا) دیکھتا ہوںo اور اسی طرح ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آسمانوں اور زمین کی تمام بادشاہتیں (یعنی عجائباتِ خلق) دکھائیں اور (یہ) اس لئے کہ وہ عین الیقین والوں میں ہو جائےo پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا : (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے : میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتاo پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا : (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ (بھی) غائب ہو گیا تو (اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے : اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتاo پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا : (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے : اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اﷲ کا) شریک گردانتے ہوo بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوںo‘‘

الانعام، 6 : 74 - 79

6۔ ذاتی علم اور تحقیق کی بناء پر خالق کی پہچان ایمان نہیں

تاریخ میں بڑے بڑے فلسفی گزرے ہیں جن میں سقراط (Socrates)، بقراط (Hippocrate)، ارسطو (Aristotle)، افلاطون (Plato) وغیرہ معروف ہیں جب سے فلسفہ کی تاریخ شروع ہوئی اور حقیقت (reality)، وجود (existence) وغیرہ پر فلسفیانہ بحثیں شروع ہوئیں کہ کائنات کی حقیقت اور اس کی اصل کیا ہے؟ انسان کیا ہے؟ اسی طرح سورج کے بارے میں، آسمانوں کے بارے میں، ستاروں کے بارے میں، خود کائنات (Universe) کے بارے میں اور بنی نوع انسان (human beings) کے بارے میں، سوچ بچار شروع ہوئی تو فلسفے وجود میں آنے لگے مثلاً اس وقت عقلیت کا فلسفہ (Rationalism)، حِسیّت کا فلسفہ (Empiricism) اور تنقیدیّت کا فلسفہ (Criticism) وجود میں آیا۔ اس طرح ارتقاء اور پیش رفت کے نتیجے میں مختلف فلسفے وجود میں آئے اور تصورات بنتے چلے گئے جو انسان کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ایک نتیجے پر پہنچنے میں ممد و معاون بنے۔

انہی عقلی دلائل، غور و خوض اور سوچ و بچار سے جو تفکر کا عمل (thinking process) ظہور پذیر (Develop) ہوا، اس سے استدلالی عمل (reasoning process)، اِستخراجی و اِستنباطی عمل (deductive process) سائنسی عمل (scientific process) اور منطقی عمل (logical process) کی صورت گری ہوئی اور ان تمام تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سوچ بچار کر کے انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کائنات کا ایک خالق ہے اور وہی حقیقتِ مطلقہ (absolute reality) ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب اس تصور میں میں پختگی آ گئی تو وہ عقیدہ بن گیا مگر زیادہ تر نظریہ اور فلسفہ ہی رہا۔ عقیدہ بن جانے سے بھی وہ ایمان کے درجے کو نہیں پہنچا نہ وہ عقیدہ توحید میں متشکل ہوا کیونکہ وحدت (unity) علم میں منتقل ہو کر ایک فکر تو بن گئی مگر توحید نہ بن سکی جو مذکورہ بانیانِ فلسفہ کو ایمان کی دولت سے بہرہ ور کر سکتی۔ ان کا نتیجۂ علم ایک نظریہ اور نقطۂ نظر تو بن گیا لیکن انہیں مومن نہ بنا سکا۔ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے اپنے تجربات اور فکر و تدبر سے حقیقتِ مطلقہ کا جو علم حاصل کر لیا تھا وہ محض وحدت کا علم ہی رہا، توحیدِ الوھی کا درجہ حاصل نہ کر سکا، اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ ان فلاسفہ نے بہ واسطہ رسالت و نبوت اس حقیقتِ مطلقہ یعنی خالقِ ارض و سماء اللہ عزوجل کو واحد اور یکتا نہ مانا۔ نتیجتاً وہ دولتِ ایمان سے محروم رہے۔

خلاصۂ بحث یہ ہوا کہ اللہ عزوجل کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے ایک ماننا ہی ایمان ہے۔ خواہ ذاتی علم ہو یا ماننے والا ایک سادہ سا عام انسان ہی کیوں نہ ہو اس کے برعکس اگر واسطۂ رسالت و نبوت نصیب نہ ہو اورانسان علم میں اپنے وقت کا امام ہی کیوں نہ ہو وہ علم کے ذریعے دولتِ ایمان حاصل نہیں کر سکتا اور نہ فلسفہ اسے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے میں فائدہ دے سکتا ہے۔

7۔ پیغمبر کے واسطے سے خالق کی پہچان ایمان ہے

جیسا کہ اوپر کی سطور میں واضح ہو گیا ہے کہ اگر انسان نے اپنے ذاتی علم، مشاہدے، تجربے، تجزیئے، استدلال اور سائنسی علم (scientific knowledge)، علم فلسفہ (philosophical knowledge) پر اعتماد کر کے اﷲ تعالیٰ کو ایک جانا اور مانا تو یہ فکر، نظریہ اور فلسفہ رہا اور اگر پیغمبر کی خبر پر پیغمبر کی زبان پر بن دیکھے (blind faith) اﷲ تعالیٰ کو ایک جانا اور مانا تو اس کا یہ جاننا عقیدۂ توحید اور ایمان بن گیا۔ جب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ کا نبی اور رسول ہونے کے ناطے یہ کہا کہ میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے اب خواہ کسی انسان کا اس حوالے سے کوئی علم ہے یا نہیں، قطعِ نظر اس سے جب اس نے اﷲ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مان لی اور یقین کر لیا تو اس کا عقیدۂ توحید وجود میں آ گیا۔ اس طرح اﷲ کو ایک ماننا توحید اور ایمان بن گیا۔

گویا عقیدۂ توحید تب وجود میں آتا ہے جب اﷲ تعالیٰ کے ایک ہونے کی معرفت کا ادراک زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کے درمیان مکالمہ ہوا، جسے قرآن نے ان الفاظ کے ساتھ قیامت تک محفوظ کر لیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ آبَائِكَ إِبراہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَـهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَO

’’کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کو موت آئی، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا تم میرے (انتقال کے) بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا : ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحق (علیھم السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے، اور ہم (سب) اسی کے فرماں بردار رہیں گےo‘‘

البقرة، 2 : 133

حضرت یعقوب علیہ السلام یہ سن کر خاموش اور مطمئن ہو گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو یہ پوچھ رہے تھے کہ کس کی عبادت کرو گے۔ جواب بڑا سادہ سا تھا۔ اگر وہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ اللہ کی عبادت کریں گے تو سوال کا جواب مل جاتا لیکن آپ کے صاحبزادوں نے ذاتی علم و عرفان اور معرفتِ حق کی بہ دولت یہ جواب نہیں دیا بلکہ کہا کہ ہم آپ کے اور آپ کے آباؤاجداد کے رب کی عبادت کریں گے۔ پھر کہا وہ ایک ہے اور ہم اسی کو ماننے والے ہیں۔ یہ سن کر حضرت یعقوب علیہ السلام مطمئن ہو گئے۔ اس ارشادِ باری تعالیٰ سے پتہ چلا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام بھی بیٹوں کی زبان سے یہ اطمینان کرنا چاہتے تھے کہ آیا ان کے بیٹے باری تعالیٰ کی ذات تک رسائی اپنی عقل و دانست سے حاصل کرنا چاہتے ہیں یا واسطۂ نبوت سے حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی فرد اپنی عقل پر اعتماد کرنے کی بجائے اﷲ کو اس لئے رب مانے کہ زبانِ نبوت نے اعلان کر دیا اور اس کی جبین نیاز رسالت کے سامنے جھکی رہے تو پھر اس کے بہکنے کا امکان اور شائبہ نہیں ہو گا۔

8۔ عقیدۂ توحید خود وسیلۂِ رسالت کا طالب ہے

جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ تعالیٰ کو ایک جاننے کے علم میں واسطہ اور وسیلہ نہیں بنے تب تک وہ علم محض ایک تصور تھا عقیدۂِ توحید نہیں تھا۔ فلسفہ تھا ایمان نہیں تھا، فلسفہ سے ترقی پاکر ایمان تب بنا جب اس علم کو وسیلہ رسالت نصیب ہوا۔ گویا عقیدۂِ توحید یعنی ایمان باﷲ وسیلۂ نبوت و رسالت کے بغیر وجود میں نہیں آتا۔ بالفاظ دیگر عقیدۂ توحید کا اثبات وسیلۂ رسالت سے ہوتا ہے۔ اس طرح عقیدۂِ توحید ایک ایسی مسلمہ حقیقت بن گیا کہ دنیا کی کوئی قوت اس کو رد نہیں کر سکتی۔

9۔ ایمان ذاتی علم کی بجائے خبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انحصار کا نام ہے

یہاں ایمان کے ایک اور نکتہ کو سمجھ لینا ضروری ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو اس وقت دنیا کے پاس اپنے ذرائع سے جو دستیاب علم تھا، اگر اس کی اساس پر انسان اس نتیجے تک پہنچتا کہ خدا ایک ہے اور بہ فرضِ محال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کہ دین لے کر آئے تھے، فرما دیتے کہ خدا ایک نہیں، دو یا تین ہیں تو ایمان باﷲ کے باب میں ایک خدا کی بجائے دو یا تین خداؤں کو ماننا لازم ہو جاتا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ماهِ ذوالحجہ، شہرِ مکہ اور یومِ عرفہ کے بارے میں استفسار فرمایا۔ انہوں نے اﷲ و رسولہ اعلم کہہ کر بے خبری کا عملی مظاہرہ کیا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ذہنوں میں موجود علم کے برعکس کوئی اور بات بھی کہہ دیتے تو وہ اس کو بھی مان لیتے۔ بخاری شریف کی روایت ہے :

عَنْ أبِيْ بَکْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : خَطَبَنَا النَّبِيُ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ : أَتَدْرُوْنَ أَيُ يَوْمٍ هَذَا؟ قُلْنَا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ : أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟ قُلْنَا : بَلٰی، قَالَ : أَيُ شَهْرٍ هَذَا؟ قُلْنَا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، فَقَالَ : أَلَيْسَ ذُوالْحَجَّةِ؟ قُلْنَا : بَلَی، قَالَ : أَيُ بَلَدٍ هَذَا؟ قُلْنَا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، فَسَکَتَ حَتَّی ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيْهِ بِغَيْرِ اسْمِهِ، قَالَ : أَلَيْسَتْ بِالْبَلَدَةِ الْحَرَامِ؟ قُلْنَا : بَلَی، قَالَ : فَإنَّ دِمَاءَ کُمْ، وَأَمْوَالَکُمْ، عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هَذَا، فِيْ شَهْرِکُمْ هَذَا، فِيْ بَلَدِکُمْ هَذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ، أَلاَ هَلْ بَلَغْتُ؟ قَالُوْا : نَعَمْ، قَالَ : اللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعَی مِنْ سَامِعٍ، فَلَا تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.

’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوم النحرکو ہمیں خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا : کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے جس سے ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ فرمایا : کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ کون سا شہر ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کہ اﷲ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہم سمجھنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاید اس کا کوئی اور نام لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ حرمت والا شہر نہیں ہے؟ ہم عرض گزار ہوئے کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو (پھر یہ بھی جان لو کہ) تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت تمہارے اس مہینے میں اور تمہارے اس شہر میں ہے جب تک کہ تم اپنے رب سے ملو گے (پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا) کیا میں نے پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا، ہاں۔ (تب) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا : اے اﷲ! گواہ رہنا (اور فرمایا) حاضر اسے غائب تک پہنچا دے۔ بعض اوقات وہ شخص جس تک بات پہنچائی گئی براہِ راست سننے والے سے زیادہ یاد رکھتا ہے۔ میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا۔‘‘

1. بخاری، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی، 2 : 620، رقم : 1654

(امام بخاری نے اس حدیث مبارکہ کو صحیح البخاری، کتاب العلم، رقم : 67، کتاب المغازی، رقم : 4144، کتاب الاضاحی، رقم : 5230، کتاب الفتن، رقم : 6667، اور کتاب التوحید، رقم : 7009 میں بھی بیان کیا ہے)

2. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة و المحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء و الأرض و الأموال، 3 : 1305، رقم : 1679

اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ایمان اپنے علم پر انحصار کرنے کا نام نہیں بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر پر انحصار کرنے کا نام ہے یعنی جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا اس پر اعتماد کرنے کا نام ایمان ہے۔ اگر لوگوں کا مبلغِ علم اور اطلاع اس کی مطابقت میں ہو تو علم صحیح ہے اور اگر ان کا علم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے علم سے متضاد اور غیر مطابق (inconsistent) ہو جائے تو پھر تمام ذرائع سے اکٹھا کیا ہوا علم غلط ہو گا۔

10۔ اقرارِ توحید سے قبل صدقِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اقرار

صحیح بخاری میں آیت کریمہ۔ (وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ) (1) (اور (اے حبیب مکرم!) آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو (ہمارے عذاب سے) ڈرایئے۔) کے شانِ نزول کے تحت بیان ہوا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہِ صفا پر اہلِ مکہ میں سے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے سے ایک لشکر آرہا ہے، جو تم پر حملہ کر دے گا تو کیا تم مان لو گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں نے کہا : جی ہاں! ہم مان لیں گے۔

(1) الشعراء، 26 : 214

گویا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صداقت کا اقرار اعلانِ توحید سے پہلے کروا لیا تاکہ انکار کرنے والوں پر حجت قائم رہے اور اقرار کرنے والوں کی نظر میں بھی توحید پر ایمان لانے سے قبل ذاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی اہمیت و اوّلیت واضح ہو جائے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیسے مان لو گے؟ تم نے تو وہ لشکر دیکھا ہی نہیں؟ انہوں نے کہا : آپ سچے ہیں، آپ نے کبھی غلط بات نہیں کی، آپ جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں، اس وجہ سے آپ پر ہمارا غیر متزلزل اعتماد ہے اس لیے آپ جو کچھ فرما رہے ہیں اس کو مان لیں گے۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم مجھے واقعی قابلِ اعتماد (trustworthy) سمجھتے ہو اور مجھ پر بن دیکھے بھروسہ (blind faith) رکھتے ہو تو پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اﷲ ایک ہے، اور اس نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے، اس کی وحدانیت اور ایک ہونے پر ایمان لے آؤ۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بات قبول کر لی وہ مؤمن ہو گئے اور جنہوں نے انکار کردیا وہ کافر ہو گئے۔ اس موقع پر ابولہب نے غضبناک ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کرتے ہوئے یہ الفاظ کہے تھے : اے محمد! (معاذ اﷲ! استغفر اﷲ!) تم برباد ہو جاؤ، تباہ ہو جاؤ، کیا اس بات کے لیے ہمیں جمع کیا تھا؟ اس کی اس دریدہ دہنی اور گستاخی کے جواب میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پوری سورت نازل فرما دی اور انہی الفاظ کے ساتھ اس کی مذمت کر دی، فرمایا :

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّO

’’ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے)o‘‘

اللهب، 111 : 1

11۔ مخبر کا نام رسول اور خبر کا نام توحید ہے

کوہِ صفاء پر پہلی دعوتِ توحید کا یہ سارا منظرنامہ (scenario) اس بات پر شاہدِ عادل ہے کہ ایمان کے باب میں سب سے پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قابلِ اعتماد ہونے پر ایمان لانا ناگزیر ہے۔ اس لئے لوگوں کو اﷲ کی وحدانیت کی خبر دینے سے پہلے وسیلۂ رسالت اور واسطۂ نبوت پر ایمان لانے کے لئے کہا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کلمۂ توحید کا اعلان کروایا گیا چنانچہ جب ان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان اور اعتماد قائم ہو گیا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ کے ایک ہونے کی خبر (divine news) انہیں پہنچائی۔ اس سے یہ نکتہ بھی کھلا کہ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ، وسیلہ اور واسطہ سے اﷲ کو ایک مان لیا وہ مؤمن ہو گئے اور جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات نہ مانی وہ کافر قرار پائے۔ ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کے ذریعے ہی ایمان باﷲ اور عقیدۂ توحید متحقق ہوتا ہے۔ اس لئے ہر اہلِ ایمان کا عقیدہ یہی ہونا چاہئے کہ ایمان باﷲ خود وسیلۂ رسالت کا طالب اور متقاضی ہے۔

ایک ممکنہ اعتراض کا جواب

اگر کوئی طالب کے لفظ پر اعتراض کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ طلب ارادے کو کہتے ہیں اور یہ ارادۂ الٰہی پر موقوف ہے کہ اس نے جس کو چاہا اپنا نبی اور رسول مقرر کر دیا۔ یہی طلب ہے۔ اسی لئے وہ واسطۂ نبوت اور واسطۂ رسالت کا طالب ہوتا ہے فرق یہ ہے کہ بندہ تو اپنی طلب میں محتاج ہے لیکن اللہ محتاج نہیں، قادر ہے۔ اپنی قدرت سے انبیاء کو مقرر فرماتا رہا ہے۔ لہٰذا ہمارا عقیدۂ توحید اور ایمان باللہ کی اساس اس پر قائم ہے کہ واسطۂ نبوت و رسالت ناگزیر اور اٹل (inevitable) حقیقت ہے۔

12۔ ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : عقیدۂ توحید پر قطعی شہادت ہے

قرآن مجید سے یہ بات بڑی واضحیت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ایمان باللہ اور عقیدۂ توحید بھی واسطۂِ نبوت اور وسیلۂِ رسالت کے ساتھ متحقق ہوتا ہے پھر جب مسلمان دائرہ ایمان میں داخل ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو دلائل (evidences) اللہ کی توحید کے اثبات پر قائم ہیں وہ اس عقیدے کو مزید استحکام عطا کرتے ہیں۔ توحید پر قائم کئے گئے دلائل سب کے سب ثانوی (secondry) حیثیت رکھتے ہیں یعنی وہ عقیدۂ ایمان (faith) کو مزید مضبوط (strengthen) کرنے، اس کی اعتقادی حیثیت (conviction) اور commitment کو مضبوطی و پختگی تو ضرور فراہم کرتے ہیں مگر جو حتمی، بنیادی اور قطعی شہادت ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ باقی تمام دلائل، واقعاتی دلائل (circumstantial evidences) کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ بات قانون کے طلباء اچھی طرح جانتے ہیں کہ وکیل عدالت (Court) میں جو مختلف دلائل دیتے ہیں ان کو قرائن (Circumstantial evidences) کہتے ہیں مثلاً : چور نے کسی کمرے سے چوری کی ہے مگر تالا ٹوٹا ہوا نہ ہی ہینڈل ٹوٹا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے کہیں سے چابی حاصل کرکے دروازہ کھولا۔ یہ قرائن ہیں جو آپ کو ایک نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں۔ بادی النظر میں جو بات بڑی ٹھوس (Solid) لگتی ہے وہ حقیقت میں اتنی بھی ٹھوس نہیں کیونکہ یہ امکان بھی ہے کہ رات گھر والے تالا لگانا ہی بھول گئے ہوں اور تالا لٹکا رہ گیا ہو، اس اثناء میں چور آیا، اس نے چوری کی، تالا لٹکایا اور چلا گیا تو پتہ چلا کہ قرائن (circumstantial evidences) کو شہادتوں سے رد بھی کیا جا سکتا ہے، قرائن علم میں تیقّن اور واضحیت (clarity) میں اضافہ کرتے ہیں مگر وہ بذاتِ خود عقیدۂِ توحید اور ایمان کی اساس نہیں بن سکتے۔

شہادت کی دوسری قسم قطعی شہادت (conclusive evidence) ہے اس کو قانونی اصطلاح میں براہِ راست شہادت (Direct evidence) بھی کہتے ہیں جبکہ وہ شہادت جو قرائن پر مبنی ہو بالواسطہ شہادت کہلاتی ہے۔ اللہ رب العزت کی توحید اور اس کے وجود پر بلاواسطہ، حتمی اور قطعی شہادت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہے اس لئے اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا :

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًاO

’’اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے (ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں ذاتِ حق عزوجل کی سب سے زیادہ مضبوط، کامل اور واضح) دلیلِ قاطع آ گئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف (اسی کے ساتھ قرآن کی صورت میں) واضح اور روشن نور (بھی) اتار دیا ہےo‘‘

النساء، 4 : 174

وہ دلائل جو قطعی، حتمی اور ناقابلِ تردید ہوں انہیں برہان کہتے ہیں۔ عربی لغت میں برہان کا معنی ’أَوْکَدُ الْأَدِلَّة، ہے۔ یعنی دلائل میں سب سے قوی ترین دلیل جو رد نہ کی جا سکے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت کی ذاتِ اقدس اور عقیدۂ توحید پر قطعی شہادت اور سب سے زیادہ مضبوط دلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

13۔ توحید پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی اصالۃً ہے

اﷲ تعالیٰ کے ایک ہونے کی اصل گواہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دی۔ اس پر پوری امت بغیر دیکھے گواہ بن گئی۔ کیوں؟ اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما دیا کہ اللہ ایک ہے تو موقع کے گواہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے اور ساری امت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعتماد پر گواہ بنی ہے۔ لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نائب (Vicegerent) ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ شہادت کی دو قسمیں ہیں :

  1. شہادتِ اصالت
  2. شہادتِ نیابت

جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اَشْهَدُ اَنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے تو یہ شہادت اصالۃً ہے۔ جبکہ حضور کی امت کی گواہی کو نیابۃً شہادت کا درجہ حاصل ہو گیا۔

14۔ توحید پر امت کی گواہی نیابۃً ہے

ہم جب کلمہ پڑھتے ہیں تو گویا اللہ رب العزت کے ایک ہونے کی گواہی دیتے ہیں کہ ’’أشْهَدُ أنْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے یعنی

I do give witness to Oneness of Almighty Allah

یہاں کوئی پوچھے کہ آپ کس طرح یہ گواہی دیتے ہیں جبکہ آپ نے تو دیکھا ہی نہیں۔ دیکھے بغیر گواہی کیسے ہو سکتی ہے؟ مثلاً : اگر کوئی قتل ہوا ہو اور آپ موقع واردات پر موجود نہ ہوں اور صرف اخبار میں پڑھا ہو یا کسی سے سنا ہو کہ فلاں نے اس کو قتل کیا ہے اور آپ عدالت میں پیش ہوجائیں اور کہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ فلاں کو فلاں نے قتل کیا ہے تو آپ کی اس بات کو عدالت نہیں مانے گی بلکہ عدالت آپ سے سوال کرے گی کہ کیا آپ موقع پر موجود تھے؟ کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے دیکھا ہے؟ اگر آپ کہیں کہ نہیں تو عدالت آپ کی شہادت رد کر دے گی۔ کیونکہ گواہ کا موقع پر موجود ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح جب آپ نے توحید کا مشاہدہ کیا ہی نہیں، اللہ کو دیکھا ہی نہیں بلکہ اس کے بارے میں صرف سنا ہے تو یہ آپ کا اعلان، شہادت کیسے بن گیا؟ قانون کی زبان میں یہ ساری کی ساری گواہی نیابۃً ہے۔ نیابت کا مطلب ہے کسی کا نائب مختار بننا اور کسی کے تفویض کردہ اختیار کو استعمال کرنا۔

15۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ خالق و مخلوق ہیں

اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روز قیامت اعمال و احوالِ امت کا گواہ بنایا، یوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خالق کائنات اللہ رب العزت اور اس کی مخلوق کے گواہ بن گئے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO

’’بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo‘‘

الفتح، 48 : 8

اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسل سے امت محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی بنا پر تمام سابقہ امم پر گواہ بن گئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ.

’’اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی تاکہ یہ رسولِ (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو جائیں اور تم بنی نوعِ انسان پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘

الحج، 22 : 78

16۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ انبیاء و امم ہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعتماد کر کے جب ہم نے توحیدِ باری تعالیٰ کی گواہی دی تو ہمارا یہ اعلان (Declaration)، شہادت بن گیا جس کے بارے میں قرآن مجید نے کہا :

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاO

’’پھر اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘

النساء، 4 : 41

اس آیتِ کریمہ میں روزِ قیامت کے اس منظر کی نشان دہی فرمائی جب ہر امت سے نبی لایا جائے گا جو اپنی امت پر شہید ہو گا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت آدمں سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ہر نبی کی شہادت پر گواہ ہوں گے۔ گویا تمام انبیاء علیہم السلام کی شہادت پر بھی قطعیّت (finality) کی مہر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی ہو گی جو رد نہیں ہو سکتی، اسی طرح ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَى هَـؤُلاَءِ.

’’اور (یہ) وہ دن ہو گا (جب) ہم ہر امت میں انہی میں سے خود ان پر ایک گواہ اٹھائیں گے اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو ان سب (امتوں اور پیغمبروں) پر گواہ بنا کر لائیں گے۔‘‘

النحل، 16 : 89

گویا ہر نبی شاہد الامت ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شاہدِ انبیاء و امم ہیں۔ یعنی ہر نبی صرف اپنی امت پر گواہ ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں اور امتوں پر گواہ ہیں۔ امتِ محمدی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کی بناء پر سابقہ تمام امتوں پر گواہ بن گئی۔

17۔ توحید کے باب میں واسطۂِ نبوت کا انکار کفر ہے

یہاں ایمان کے باب میں اور عقیدۂ توحید کے حوالے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے اور وسیلے سے ایمان کا متحقق ہونا واضح ہے اور یہ ثابت ہو گیا کہ ایمان کی بنیاد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ پر ہے جس پر اعتماد کر کے اگر اللہ کو ایک مانا جائے تو عقیدۂ توحید وجود میں آتا ہے۔ یہاں سے توحید کا تصور (concept) اپنی واضح شکل میں اجاگر ہوتا ہے لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ توحید کے لئے کسی وسیلہ اور واسطہ کی ضرورت نہیں ہے، انہیں جان لینا چاہئے کہ اگر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ درمیان سے ہٹا دیا جائے تو اس کے بعد کوئی مسلمان مسلمان ہی نہیں رہتا خواہ ظاہراً اس کے سارے اعمال مسلمانوں والے ہی کیوں نہ ہوں اور وہ دن رات توحید کا اقرار کرتا پھرتا ہو۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved