سورۂِ اخلاص میں لفظ ’’قُل‘‘ کے بعد اسمِ ذات سے پہلے ’’ھُوَ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔ کلامِ عربی میں’’ھُوَ‘‘ ضمیر غائب کے لئے استعمال ہوتی ہے اور غائب چیز وہ ہوتی ہے جو آنکھوں کے سامنے نہ ہو جب کہ اﷲتعالیٰ کی شان یہ ہے کہ ہر وقت ہر جگہ موجود ہے۔ اس کے لئے زمان و مکاں کے فاصلے کوئی حیثیت نہیں رکھتے مثلاً اﷲ تعالیٰ نے انسان سے اپنی قربت کے متعلق ارشاد فرمایا :
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِO
’’اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیںo‘‘
ق، 50 : 16
بجا ہے کہ اﷲتعالیٰ کی ذات ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے اور ہر وقت موجود ہے لیکن اس قربت کے باوجود ہم اسے نہ دیکھ سکتے ہیں نہ چھو سکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے ادراک و محسوسات میں آ سکتا ہے۔ اس کا فوق الادراک ہونا ہی دراصل شان اُلوہیت ہے اور اس شان کے اظہار کے لئے یہاں بیانِ توحید کے آغاز میں کلمہ ’’ھُوَ‘‘ استعمال ہوا ہے۔ ذیل میں ہم اس کے استعمال کی بعض حکمتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ان حکمتوں میں ایک یہ ہے کہ غائب میں زیادہ معنویت پائی جاتی ہے اور یہ حاضر کے مقابلہ میں ’’ بُعْدِ معنوی‘‘ پر دلالت کرتا ہے۔ کلام کی فصاحت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ حاضر و موجود حقیقت کی طرف ضمیرِ غائب سے اشارہ کیا جائے۔ یہاں پر ’’ھُوَ‘‘ کا لفظ دراصل ذاتِ حق کی غیر موجودگی اور حقیقی غیوبت پر دلالت نہیں کر رہا بلکہ اس سے مراد بُعدِ معنوی ہے یعنی فہم و ادراک و شعور سے دوری اور بلندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
’’ بُعدِ معنوی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کی ذات اِتنی بلند اور عُلوشان کی حامل ہے کہ انسان کی ناقص عقل و فکر اور فہم و بصیرت اس کا ادراک نہیں کرسکتی۔ عقل و شعور اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے ’’ھُوَ‘‘ کی ضمیر غائب کا استعمال کیا گیا کیونکہ ’’ھُوَ‘‘ کی غیوبت میں ذاتِ واجب الوجود کا ماورائے عقل و ادراک ہونے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کی حقیقت کو سمجھنا انسانی فہم و ادراک سے وراء الوراء ہے۔
اِس بُعدِ معنوی، بلندی اور غیوبت کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ اِنسانی ذرائعِ علم کا مطالعہ کیا جائے اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ ذرائعِ علم یعنی حواس، عقل اور وجدان وغیرہ کا دائرہ کار کیا ہے؟ جب تک یہ معلوم نہیں ہوگا ہمیں ’’ھُوَ‘‘ ضمیر کی معنوی اہمیت کی سمجھ بھی نہیں آئے گی اور ذاتِ حق کے مافوق الادراک ہونے کا مفہوم بھی کاملاً واضح نہیں ہو گا۔ سرِدست ہم یہاں پر ذرائعِ علم اور ان کی اقسام کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں، اس موضوع پر تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’اجزائے ایمان‘‘ کا مطالعہ کیا جائے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اپنے گردو پیش کے حالات اور ماحول سے اپنا ربط و تعلق قائم رکھنے کے لئے پانچ ذرائعِ علم عطا فرمائے ہیں جن کی بدولت وہ ظاہری طبیعی دنیا (Physical world) کی حقیقتوں کو جانتا اور ان کا شعور و ادراک حاصل کرتا ہے۔ یہ حواسِ خمسہ ظاہری کہلاتے ہیں اور ان کا ارتقاء عمر بھر جاری رہتا ہے۔ حواسِ خمسہ ظاہری مندرجہ ذیل ہیں :
یہ حواس انسانی ذہن کو فقط ظاہری خام مواد مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص اور محدود دائرہ کارہے۔ یہ حواس ایک دوسرے کی جگہ نہیں لے سکتے اور اگر ان میں سے ایک بھی خراب ہوتو بقیہ دوسروں پر انحصار کرکے کسی شے کی حقیقت کو پرکھا نہیں جاسکتا۔ ان میں سے کوئی بھی حس مفقود ہوجائے تو باقی سب مل کر بھی اِس کی تلافی نہیں کر سکتے مثلاً آواز کو کان کے ذریعے، رنگوں کو آنکھ کے ذریعے، خوشبو کو ناک کے ذریعے، سرد اور گرم کو چھونے کے ذریعے اور کڑواہٹ اور میٹھاس کو زبان کے ذریعے معلوم کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس آواز کو آنکھ سے، رنگ کو ہاتھ سے اور ذائقے کو کان وغیرہ کے ذریعے معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ غرض ان پانچوں حواس کا اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔ کوئی حِس دوسرے کے قائم مقام نہیں بن سکتی یعنی اپنے دائرے سے ہٹ کر کسی چیز کے معیار اور اس کی نوعیت کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔ پس یہ امر طے شدہ ہے کہ اگر کوئی شے دنیا میں موجود ہو مگر اس کو معلوم کرنے والی خاص حس موجود نہ ہو تو پھر باقی سارے حواس بروئے کار لانے کے باوجود بھی اس کی موجودگی کا سراغ نہیں لگایا جا سکتا۔ لہٰذا ان حواسِ ظاہری کے محدود دائرہ کار کی بے بضاعتی کو بنیاد بنا کر کسی وجود کی عدم موجودگی کادعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔
اِنسان نے علوم و فنون اور جدید سائنسی حقائق کو دریافت کرنے میں بلا شبہ بہت ترقی کرلی ہے۔ لیکن اس کی یہ ساری ترقی، بلندی اور معراج پھر بھی ایک محدود دائرے کے اندر ہے۔ انسان کی پرواز وہیں تک پہنچ سکتی ہے جہاں تک اسے یہ حواسِ خمسہ لے کر جاسکتے ہیں۔ پس جب یہ ثابت ہوگیا کہ عالمِ بالا کی بہت سی حقیقتیں اور ان تک رسائی انسان کے حواس کے دائرہ ہی سے خارج ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنا کمزور انسان اور اس کا محدود دائرۂِ علم اﷲتعالیٰ کے وجود کی حقیقت کو محسوس کر سکے اور سمجھ سکے۔ اس لئے یہاں انسان کو اظہارِ عجزو درماندگی کے علاوہ چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بالآخر ان ماورائی حقیقتوں کی خبر رکھنے والے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِ نیاز خم کرنا پڑتا ہے۔ حقیقت تک رسائی کے لئے علمِ نبوت ہی مضبوط اور مستحکم رابطے کا کام دیتا ہے۔
اگر ان پانچوں حواس کو عقل کی سرپرستی اور رہنمائی حاصل نہ ہو تو یہ کسی چیز کو ٹھیک ٹھیک محسوس کرنے کے باوجود انسان کو کسی خاص نتیجے تک نہیں پہنچا سکتے۔ آنکھوں کی بصارت، کانوں کی سماعت، ہاتھوں کا لمس اور زبان کے ذائقے کا تاثر عقل پر وارد ہوتا ہے اور جب تک عقل اس سے صحیح نتائج اخذ کرکے انسانی جُستجو کی خاص نہج پر رہنمائی نہ کرے اس وقت تک وہ ادراک و احساس علم کا روپ نہیں دھار سکتا۔ کیونکہ اِنسانی جسم مکمل طور پر ایک خود کار مشین کی طرح ہے اور اِس میں دماغ کی حیثیت کمپیوٹر کی سی ہے۔ دماغ پورے جسمِ اِنسانی کو کنٹرول کرتا ہے اور اِس کو ایک نظام کے تحت مربُوط کرتا ہے نیز اِن سب میں ایک شعوری کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دماغ کو بہ منزلہ ایک کارخانہ (Factory) بنا دیا اور حواس اِس میں کل پرزوں کی طرح روبہ عمل ہیں۔ حواسِ خمسہ کا کام دماغ کے لئے معلومات کا خام مواد تیار کرنا ہے نہ کہ اِن محسوسات کو سمجھنا۔ کان بذاتِ خود یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ سنے ہوئے الفاظ کا مطلب کیا ہے، آنکھ بذاتِ خود فیصلہ نہیں کرسکتی کہ سرخ اور سبز رنگ میں کیا فرق ہے، غرض اِسی طرح دوسرے حواس کا معاملہ ہے کہ وہ خود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔
عقل اپنے اِن پانچوں حواس کی مدد سے اِن محسوسات سے صحیح نتیجہ اخذ کرتی اور بتاتی ہے کہ کانوں نے کیا سنا، ہاتھوں نے کیا پکڑا، زُبان نے کون سا ذائقہ چکھا اور آنکھ نے کیا دیکھا۔ آخری فیصلہ عقل اِنسانی صادر کرتی ہے لیکن جب ذاتِ حق کے ادراک کی بات آئے تو حواسِ خمسہ تو رہے ایک طرف، یہاں عقل بھی جواب دے جاتی ہے۔ ’’ھُوَ‘‘ میں پوشیدہ حکمت اِسی امر کی غماز ہے کہ ذاتِ حق کی حقیقت جس طرح حواس کے ادراک سے دُور ہے اِسی طرح عقلِ انسانی کے شعور و ادراک سے بھی وراء الوراء ہے۔
حواسِ ظاہری کا دائرہ کار، صرف مادی اور طبیعی دُنیا تک محدود ہونے کے باعث غیر مادی اشیاء کے ادراک سے محروم ہے۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ اِنسانی حواس کی معلوم کردہ اشیاء کو اگر عقلِ انسانی منظم اور مربوط نہ کرے تو حواسِ خمسہ سے حاصل کردہ خام مواد علم کا روپ نہیں دھار سکتا مثلاً کسی دیوانے یا پاگل اِنسان کے تمام حواس تو اپنی اپنی جگہ درست اور صحیح و سالم ہوتے ہیں مگر دماغ ٹھیک کام نہیں کر رہا ہوتا، اِس لئے اِس کے حواس اِسے کسی نتیجے پر پہنچنے نہیں دیتے۔ نتیجتاً صحیح علم وجود میں نہیں آتا اور وہ زندگی کے اعتدال سے محروم ہو جاتا ہے۔
جس طرح محسوساتِ ظاہری کے لئے اللہ تعالیٰ نے پانچ حواس تخلیق فرمائے ہیں اِسی طرح عقلِ انسانی میں باطنی سطح پر بھی پانچ حواس یا مدرکات پیدا کئے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں :
اِن پانچوں حواسِ باطنی اور مدرکات کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :
1۔ جیسے ہی انسانی عقل کا یہ گوشہ حواسِ ظاہری کے اوّلین تاثرات کو وصول (Receive) کرتا ہے وہ اِس حصہ عقل پر جا کر جذب ہو جاتے ہیں مثلاً جب ہماری آنکھ کسی چیز کو دیکھتی ہے تو اِنسانی عقل اُس حسِ مشترک کو قبول کر لیتی ہے۔ اِس کو مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ حسِ مشترک کو تالاب تصور کیا جائے اور پانچوں حواسِ ظاہری کو اُس میں پانی پہنچانے والی نہریں۔
2۔ حسِ خیال مدرکات اور محسوسات کی اُن تصاویر اور شکلوں کو جو حسِ مشترک میں پہنچتی ہیں اُن کی ظاہری صورتوں کو اپنے اندر محفوظ کر لیتی ہے مثلاً جب ہم لفظ ’’میں، بولتے ہیں تو اِس لفظ کی ظاہری صورت یعنی ’’م‘‘، ’’ی‘‘ اور ’’نون غنہ‘‘ ہے۔
3۔ حسِ واہمہ مدرکاتِ حسی کے معنی و مفہوم یعنی اُن کی باطنی شکل و صورت کا ادراک کرتی ہے اور محفوظ رکھنے کے لئے اُن تاثرات کو اُس سے اگلی حس میں منتقل کر دیتی ہے۔
4۔ حسِ حافظہ محسوسات کے مفہوم معنوی کے وجود کو اِسی طرح محفوظ کرتی ہے جس طرح اِن کی ظاہری شکل کو حسِ خیال نے محفوظ کیا تھا۔
5۔ حسِ متصرفہ کا کام یہ ہے کہ حسِ مشترکہ میں آنے والی ظاہری صورت کو قوتِ واہمہ میں حاصل ہونے والے معنی سے اور حسِ خیال میں محفوظ شکل و صورت کو قوتِ حافظہ میں محفوظ مفہوم کے ساتھ جوڑ دیتی ہے۔ اِس طرح انسان مختلف الفاظ سن کر اِن کا مفہوم سمجھنے اور اِن میں فرق کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ یہ پانچوں حصے باہم مل کر ایک دوسرے کے ممد و معاون بنتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں علم، ادراک میں بدل جاتا ہے۔ اگر حسِ مشترک موجود نہ ہو تو یہ پانچوں حواس ایک عضوِ معطل کی طرح بے بس ہو کر رہ جائیں۔ ہر حس کا دوسری حس سے گہرا تعلق ہے اور ایک دوسرے کے بغیر ناقص ہیں۔
اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حواسِ خمسہ ظاہری کے علم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے حواسِ خمسہ باطنی کے محتاج ہیں۔ جب تک حواسِ ظاہری کے مدرکات ان پانچوں حواسِ باطنی کے ذریعے ایک صحیح نتیجے تک نہ پہنچیں، اس وقت تک حواسِ ظاہری کی بنا پر محسوس کیے جانے والے تمام مادی حقائق علم کی شکل اختیار نہیں کرسکتے۔ گویا حواسِ ظاہری کسی شے کو محسوس توکرتے ہیں، اسے معلوم نہیں کرسکتے۔ دوسری طرف عقل اور اس کے حواسِ باطنی مکمل طور پر حواس ظاہری کے محتاج ہیں۔ اگر آنکھ دیکھنے سے، کان سننے سے، ناک سونگھنے سے اور زبان چکھنے سے محروم ہو تو تمام عقلی حواس مل کر بھی کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے لہٰذا جہاں حواس عقل کے محتاج ہیں وہاں خود عقل بھی حواس کی محتاج ہے۔ حواس پر ماحول کی اثر پذیری اس حد تک ہے کہ اگر کسی بچے کی پیدائش کے بعد اس کی ایسے مقام پر پرورش کی جائے جہاں کوئی آواز اس کے کان میں پڑنے نہ پائے توایسا بچہ پچاس سال کو پہنچ جانے کے باوجود نہ کچھ بول سکے گا اور نہ کچھ سمجھ سکے گا۔ اس کی وجہ فقط یہ ہے کہ ہم جو کچھ اپنی زبان سے بولتے ہیں وہ دراصل ان آوازوں کا نتیجہ ہے جو کانوں نے سنیں اور جنہیں عقل نے حافظہ کی لوح پر محفوظ کر لیا، جب کوئی شخص اپنے کان سے کچھ سن ہی نہیں سکا اور اس کی عقل الفاظ، حروف، لہجوں اور آوازوں کو محفوظ ہی نہ کر سکی تو جس طرح اس کا دماغ الفاظ کے معاملے میں سفید کاغذ کی طرح کورا رہا اسی طرح اس شخص کو اپنی کیفیات، حاجات اور خواہشات کے بیان و اظہار پر بھی قدرت حاصل نہ ہو سکی۔ یہی سبب تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانۂِ اقدس میں اہلِ عرب اپنی اولاد کی تربیت و پرورش کیلئے بدوی عورتوں کے سپرد کردیتے تھے، تاکہ وہ ان لوگوں کی خالص اور فصیح عربی زبان سن کر بولنے پر قادر ہو سکے۔
اب یہ بات طے ہو گئی کہ انسانی عقل کی پرواز صرف وہیں تک ہوتی ہے جہاں تک حواس اپنا کام کرتے ہیں لہٰذا جو حقیقت انسان کے حواسِ خمسہ ظاہری (باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامہ) کی دسترس سے باہر ہو، اس کا ادراک عقل بھی نہیں کر سکتی کیونکہ حواس کے خام مال کے بغیر عقل ایک عضوِ معطل ہے اورعقل کے بغیر سارے حواس بے کار اور بے مصرف ہیں۔
پس انسان کو عطا کردہ ذرائع ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ اس لیے حواسِ خمسہ اور عقل فعال ہونے کے باوجود انسانی زندگی کی حقیقت سے متعلق اکثر سوالات جواب طلب رہتے ہیں مثلاً یہ کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ انسان کو کس نے پیدا کیا؟ انسان کی تخلیق کیسے ہوئی؟ آغازِ کائنات کیسے ہوا؟ اوراس کا اختتام کیسے اورکب ہوگا؟ اس کائنات سے انسان کا کیا تعلق ہے؟ کائنات میں بحسن و خوبی زندگی گزارنے کے لیے کون سے قانون کی پاسداری لازمی ہے؟ کون سی چیز اچھی ہے اورکون سی بری؟ ظلم کیا ہے اور انصاف کیا؟ مرنے کے بعد انسان کا کیا ٹھکانا ہے؟ آیا موت ہر چیز کا اختتام ہے یا ایک نئی زندگی کا آغاز؟ اگر مرنے کے بعد انسان نئی زندگی میں داخل ہوتا ہے تو اس حیاتِ ثانیہ کی کیفیت کیا ہے؟ مزید یہ کہ مرنے کے بعد وہ اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہو گا یا نہیں؟
علیٰ ھذا القیاس انسانی ذہن میں پیدا ہونے والے یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کا بامقصد زندگی پر یقین رکھنے والے ہر انسان کو تسلی بخش جواب چاہیے۔ جب یہ تمام سوالات انسانی عقل پر دستک دیتے ہیں تو انسان ان کے جواب کے لیے حواسِ خمسہ میں سے ہر ایک کے دروازے پر دستک دے کر پوچھتا ہے کہ ہمارا خالق کون ہے؟ زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ہمیں مرنے کے بعد کہاں جانا ہے؟ اچھائی اور برائی کیا ہے؟ مگر انسانی حواس انتہائی درماندگی کا اظہار کرتے ہیں کہ یہ حقائق ہماری دسترس سے باہر ہیں۔ یہ مادی جسم سے ماورا ہیں ہم ان کا جواب کیسے دے سکتے ہیں؟ اس طرح انسانی حواس کی بے بسی اورعاجزی پوری طرح نمایاں ہوجاتی ہے۔
جب واضح ہوجاتا ہے کہ وہ تمام حقائق جن سے انسان کی اخلاقی و روحانی اور اعتقادی ونظریاتی زندگی تشکیل پاتی ہے، حواسِ خمسہ کی زد سے ماورا ہیں تو انسان اپنی عقل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کا دامن جھنجھوڑ کرکہتا ہے : اے میرے وجود کے لیے سرمایۂ افتخار! میری زندگی کے بنیادی حقائق سے متعلق، اب تو ہی میری راہنمائی کر! مگر عقل بھی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے : اے انسان! میں تو خود تیرے حواس کی محتاج ہوں، وہ چیز جس کا ادراک حواس نہیں کر سکتے اس کے متعلق میں کیسے فیصلہ صادر کرسکتی ہوں؟ میں تو حواس کی طرح بے بس و مجبور ہوں اور تیری کوئی راہنمائی نہیں کر سکتی لہٰذا معلوم ہوا کہ ذاتِ حق کا ادراک باطنی حواس سے بھی ممکن نہیں۔
رب تعالیٰ نے انسان کو ذریعہ علم کے طور پر ایک اورباطنی سرچشمہ بھی عطا کیا ہے جسے وجدان کہتے ہیں۔ انسانی وجدان کے بھی پانچ گوشے ہیں، جن کو لطائفِ خمسہ سے موسوم کیا جاتا ہے :
ان لطائف کے ذریعے انسان کے دل کی آنکھ بینا ہو جاتی ہے، حقائق سے پردے اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں، روح کے کان سننا شروع کر دیتے ہیں اور یوں انسانی قلب بعض ایسی حقیقتوں کا ادراک کرنے لگتا ہے جو حواس وعقل کی گرفت میں نہیں آ سکے تھے۔ لیکن انسانی وجدان کی پرواز بھی طبیعی کائنات تک محدود ہے، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :
ووراء العقل طور آخر، تنفتح فيه عين اخرٰي، فيبصر بها الغيب، وما سيکون فی المستقبل، و أموراً آخر، العقل معزول عنها.
’’اور عقل کے بعدایک اور منزل ہے جس میں باطنی آنکھ کھل جاتی ہے اس کے ذریعے غیبی حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کو دیکھا جا سکتا ہے اور ان دیگر امور کو بھی جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے۔‘‘
غزالی، المنقذ من الضلال : 54
لیکن اس وسعت کے باوجود وہ حقائق جو طبیعی کائنات کی محدودات (Limitations) سے ماوراء اور خدا کی ذات و صفات سے متعلق ہیں انسانی وجدان انہیں جانچنے اور پرکھنے سے قاصر رہتا ہے۔ جیسا کہ انسانی تخلیق اور اس کا مقصدِ تخلیق، نیز اس کی موت اور ما بعدالموت سے تعلق رکھنے والے معاملات۔ ان کے بارے میں حتمی اور قطعی علم نہ تو حواس دے سکتے ہیں، نہ عقل اور نہ ہی وجدان۔ انسان نے یکے بعد دیگرے تینوں ذرائع علم کے دروازوں پر دستک دی، مگر ہر ایک نے اسے مایوس کردیا۔ کوئی بھی ذریعہ اس کے علم کو حتمیّت اور قطعیت کا درجہ نہ دے سکا۔ چنانچہ انسان ہر طرف سے مایوس ہو کر خدا کی ذات کو پکارتا ہے اور کہتا ہے کہ اے ربِ کائنات! میں اپنی ذات، کائنات اور تیری ذات کا یقینی عرفان چاہتا ہوں مگر میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں جومجھے مطمئن کرسکے۔ اس لیے تو اپنے خزانۂ غیبی سے میرے لیے علم کا کوئی ایسا سرچشمہ پیدا کر دے، جو مجھے ان سربستہ حقائق کے بارے میں حقیقی آگاہی بخش سکے کہ فقط تیری ذات ہی ہے جہاں تمام حواس ناکام ہوجائیں، انسانی عقل خیرہ ہوجائے اور انسانی وجدان بھی نامراد لوٹ آئے، وہاں تجھ سے اس سرچشمۂ علم کے فیضان کی بھیک مانگی جا سکے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَـذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَO
’’بے شک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم (علیہ السلام) کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اﷲ ایمان لانے والوں کا مدد گار ہےo‘‘
آل عمران، 3 : 68
یہاں ھٰذَا النَّبِيُ سے تمام اکابر مفسرین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ والا صفات مراد لی ہے.
یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ اﷲ رب العزت کی ذات ہمارے حواسِ ظاہری و باطنی اور وجدان کی رسائی سے بالا تر ہے اس لئے اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اپنے لئے ’’ھُوَ‘‘ استعمال کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ان کی تعظیم کی خاطر ’’ھَذَا‘‘ فرمایا کہ اگر تم ’’ھُوَ‘‘ کی صحیح معرفت چاہتے ہو تو یہ نعمت تمہیں ’’ھَذَا‘‘ کی بارگاہ سے نصیب ہو گی۔
1. ابن جرير طبري، جامع البيان، 3 : 218
2. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 313
3. نسفي، تفسير القرآن الجليل، 3 : 224
4. سيوطي، الدر المنثور في التفسير بالماثور، 2 : 226
ترجمان حقیقت امام احمد رضا محدث بریلوی نے اسی مفہوم کو شعری قالب میں یوں ڈھالا ہے :
بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
’’گویا فاضل بریلوی نے بھی اﷲ تعالیٰ کے لئے ’’وہاں‘‘ استعمال کیا اور بارگاہِ رسالت کے لئے ’’یہاں‘‘ اور یہ عقیدہ بھی واضح کر دیا کہ ’’یہاں‘‘ کی معرفت کے بغیر ’’وہاں‘‘ کی رسائی ناممکن ہے۔‘‘
یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حواس کے ذریعے انسان کو حاصل ہونے والے علم میں بہرصورت غلطی کا احتمال باقی رہتا ہے۔ عقل غلطی کرسکتی ہے، وجدان اور کشف میں بھی سقم ہوسکتا ہے، جبکہ انسان تلاشِ حق کے لئے ایسے حتمی و قطعی علم کی جستجو اور طلب رکھتا ہے، جس میں غلطی، سقم اور خطا کا کوئی ادنیٰ سا احتمال بھی موجود نہ ہو۔
اب یہ تو عین ممکن ہے کہ زید کی آنکھ نے جو کچھ دیکھا، عمرو کی آنکھ اسے غلط ثابت کردے۔ ایک شخص کی عقل ایک دلیل سے جو نتیجہ اخذ کرے، ممکن ہے دوسرے کی سوچ اسی دلیل سے اس کے برعکس نتائج اخذ کرے۔ اسی طرح وجدان اور دیگر حواس کے فیصلوں میں بھی غلطی کا احتمال رہتا ہے لیکن علم کا وہ درجۂ کمال اور علم کی وہ ارفع حالت جہاں غلطی اور خطا کے کسی امکان اور انتشار و افتراق کی کوئی گنجائش نہ ہو اس کے حصول کا ذریعہ صرف اور صرف بارگاہِ نبوت و رسالت کی دریوزہ گری ہے، یا پھر ان اہل اﷲ سے وابستگی ہے جو اپنی ذات کو انوارِ نبوت و رسالت سے مستنیر کرچکے ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسانی حواس ہوں یا انسانی عقل، یہ سارے کے سارے ذرائع انسان کو حتمی علم مہیا نہیں کرسکتے۔ حتمی علم صرف اُسے حاصل ہوتا ہے جس نے آفتابِ نبوت کے انوار سے اپنے سینے کو منور کر لیا ہو اور یہ مقام صوفیاء اور عارفانِ حق کو نصیب ہوتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ علومِ نبوت و رسالت ہی وہ واحد ذریعہ ہیں، جن کی فراہم کردہ معلومات میں غلطی اور خطا کا کوئی احتمال باقی نہیں رہتا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ ہمیں ’’ھُوَ‘‘ کی خبر دی گئی تو وہ بالکل صحیح اور درست ہے اور اسی پر ایمان لانے میں ہمارے لئے نجات ہے۔
یہ بات ثابت ہو گئی کہ اﷲ کی ذات فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ آج تک علم و شعور کا ایسا کوئی پیمانہ دریافت ہوا نہ کبھی ہو سکتا ہے جس کے ذریعے ذاتِ حق کی معرفت ممکن ہو۔ اس ذات کی صحیح معرفت اور پہچان صرف واسطۂ رسالت سے ممکن ہے۔ لہٰذا ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ’’ھُوَ‘‘ علم بالادراک کا نہیں بلکہ ایمان بالغیب کا موضو ع ہے۔ عقل و شعور اور انسانی علوم کے ذریعے تحقیقات سے جو نتائج اخذ کئے جاتے ہیں وہ حتمی اور قطعی نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ نہ ہی یہ موضوع ان کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
یہاں قدرتی طور پر ذہن سائنس اور اس کے اکتشافات کی طرف متوجہ ہوتا ہے جہاں تک سائنس اور اس کی تحقیقات کا تعلق ہے، ان کو نظریات (Theories) کا نام تو دیا جاسکتا ہے مگر ان تحقیقات کو کائنات کے بنیادی حقائق کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ آج سائنسی تحقیق ایک بات ثابت کرتی ہے، کچھ عرصہ کے بعد دوسری تحقیق اسے غلط ثابت کردیتی ہے، آج سائنس کسی مسئلے میں ایک موقف اختیار کرتی ہے، کچھ عرصہ کے بعد نئے تجربات کے تحت سائنسدان نیا نقطۂ نظر پیش کردیتے ہیں۔ سائنسی تحقیق کا آغاز مفروضہ (Hypothesis) سے ہوتا ہے اور اس کی تصدیق تجربے (Experiment) سے ہوتی ہے، اس کے باوجود سائنس اپنے ارتقائی مراحل کے ذریعے نظریے کی منزل تک نہیں پہنچتی۔ ماہرین کے خیال میں سائنس کا اسی فی صد (80فیصد) علم غیر یقینی (Indefinite) اور ظنی (Probable) ہے۔ یہ عمرانی علوم (Social Sciences) ہوں یا قدرتی علوم (Natural Sciences)، کیمیا (Chemistry) اور طبیعات (Physics) ہو یا نباتات (Botany) اور حیوانیات (Biology)، ان سب علوم کی تحقیقات کا 70 یا 80 فیصد حصہ ابھی اقدام و خطاء (Trial & Error) کے مرحلے میں ہے۔ سائنس اپنی سینکڑوں برس کی جدوجہد کے باوجود ایسا کوئی پیمانہ دریافت نہیں کر سکی جس پر وہ اپنی معلومات اور دریافتوں کو پرکھ کر قطعی اور حتمی شکل میں سائنسی دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ بہت کم ایسی سائنسی تحقیقات ہوں گی جو حتمی قانون کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ علم جب تک حتمیت اور قطعیت کے درجے تک نہ پہنچے، اس وقت تک باکمال نہیں بن سکتا۔ گویا سارے ذرائع علوم ابھی تک اقدام وخطاء کے مرحلے میں ہیں۔ لیکن نبوت و رسالت کے تمام علوم و اکتشافات ہر قسم کی خطا اور غلطی سے منزہ ہونے کے باعث شروع سے آخر تک حتمیت و قطعیّت کی شان اختیار کئے ہوئے ہیں۔
سورۂ اخلاص کی پہلی آیہ کریمہ میں لفظ ’’اﷲ‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو باری تعالیٰ کا اسمِ ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی ایک نام اسمِ ذات کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ باقی اسماء صفات ہیں۔ جس طرح بنیادی طور پر توحید کے دو پہلو ہیں یعنی ذات کے اعتبار سے اللہ کا ایک ہونا اور صفات کے اعتبار سے یکتا اور ایک ہونا، اسی طرح اس کے اسماء کے بھی دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک نام ذاتی ہے اور کئی نام صفاتی ہیں۔ صفاتی نام سے کسی ذات کی مختلف جہتوں کا پتہ چلتا اور اس کی مختلف سمتوں کا اندازہ ہوتا ہے مثلاً اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے دو اسماء رحمٰن اور رحیم ہیں۔ یہ صفاتی نام اس کی صفتِ رحمت پر دلالت کرتے ہیں۔
جب اللہ تعالیٰ کو رحمٰن اور رحیم کہا جائے گا تو اس سے اس ذات کی صفتِ رحمت کے مختلف پہلوؤں کی نشاندہی ہو گی کہ وہ ذاتِ مہربان کس قدر رحمت فرمانے والی ہے۔ جب اس کے لئے عالم کا لفظ استعمال کیا جائے گا تو اس سے اس کی صفت علم کا پتہ چلے گا کہ اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔
جب اس کے لئے سمیع و بصیر کے الفاظ استعمال ہوں گے تو ان سے پتہ چلے گا کہ اس کی سماعت و بصیرت کی صفات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ جب اللہ تعالیٰ کو قدیر، خالق و مالک، معبود، مستعان، رب، قہار، جبار کہا جائے گا تو ان سب صفاتی اسماء سے اس کی مختلف صفتوں کی نشاندہی ہو گی۔
ہر اسمِ صفت اس ذات کی کسی نہ کسی صفت پر دلالت کرتی ہے گویا صفاتی ناموں سے اس کی صفات کا پتہ چلتا ہے جبکہ بیانِ توحید میں ذاتی نام استعمال کرنے کی حکمت یہی ہے کہ ’’اللہ‘‘ ذاتِ باری تعالیٰ کا وہ اسمِ عالی شان ہے جو کسی اور کا ہو ہی نہیں سکتا جیسے اللہ یکتا ہے اسی طرح اس ذاتِ واحد کا نام بھی شانِ یکتائی رکھتا ہے۔
اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ذاتِ حق کی معرفت سائنسی تحقیقات اور انسانی ذرائع علم سے ممکن نہیں کیونکہ وہ ذات فوق الادراک ہے۔ انسانی علوم کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔ یہ علوم جب تک دہلیزِ رسالت و نبوت پر سجدہ ریز نہ ہوں اس وقت تک ان کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا علم جس عقل و وجدان پر اعتماد کرتا ہے، ان کی پرواز محدود ہے۔ یہ سب ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتے ہیں۔ ان کے لیے اس سے آگے تاریکی ہی تاریکی ہے۔ لہٰذا معرفت باری تعالیٰ کی واحد صورت یہ ہے کہ انسان ذاتی تحقیقات اور کسی علم کی بجائے علومِ رسالت کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیک دے اور ’’ھُوَ‘‘ یعنی معرفتِ حق کی جستجو ’’ھَذَا‘‘ یعنی سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے سن کر کرے۔
سورۂ اخلاص میں احدیت کا بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌO
’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیجئے وہ اللہ ہے جو یکتا ہےo‘‘
یہاں توحید کے تصور کو اجاگر کیا گیا ہے یعنی توحید کی نسبت اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف بھی ہے اور اس کی صفات کی طرف بھی۔ ذات کی طرف توحید کی نسبت کا معنی یہ ہے کہ اس کا اس پوری کائنات ہست و بود میں کوئی شریک و سہیم نہیں۔ وہ معبود اور خالق و مالک ہونے کے اعتبار سے یکتا و یگانہ ہے چونکہ احد کے صیغے میں واحد کی نسبت زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے اس لئے ’’اَحد‘‘ کہا۔ ہرچند کہ ’’وَاحد‘‘ میں بھی اکیلا ہونے کا معنی پایا جاتا ہے لیکن ’’وَاحد‘‘ کہنے کی بجائے ’’احد‘‘ اس لئے کہا کہ کسی دوسرے کے ہونے کے تمام تر امکانات ختم ہو جائیں اور یہ وہم و گمان بھی ذہن میں نہ رہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا اس پوری کائنات میں کوئی دوسرا معبود بھی ہو سکتا ہے لہٰذا عبادت کے لائق صرف اور صرف وہ تنہا ذات ہے، وہی معبودِ برحق ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود، خدا یا واجب الوجود ہستی اور قدیم مانے، تو وہ ذاتِ الٰہی میں شرک کا مرتکب ٹھہرے گا۔
پوری دنیائے انسانیت اور مذاہبِ عالم کی تاریخ کے بالاستیعاب مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مذہب و ملت اور ہر طبقہ انسانیت میں مشرکانہ تصورات کے باوجود بھی کسی ایسی ہستی کا تصور ضرور موجود رہا ہے جس کے بارے میں وہ سب سے بلند و بالا اور کائنات کے خالق و مالک، رب الارباب اور رب کائنات ہونے کا عقیدہ رکھتے رہے ہیں۔ ہندو مذہب سے بڑھ کر مشرکانہ تصورات پر مبنی مذہب اور کوئی نہیں ہو سکتا وہ اپنے ہاتھوں سے تراشے ہوئے لاتعداد بتوں کی پوجا کا پرچار کرتا ہے۔ لیکن ان گنت خود ساختہ خداؤں کو ماننے والا یہ مذہب بھی ایک کو رب الارباب یعنی (خداؤں کا خدا) مانتا ہے۔ اسے وہ ’’پریشور‘‘ کا نام دیتا ہے۔ پریشور کو ماننے والے کسی عام دیوی دیوتا کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کرتے۔ اسی پریشور کو ہندومت میں براہما کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یجروید ہندومت کی مقدس مذہبی کتاب ہے۔ اس کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں پریشور اس براہمہ کے لئے استعمال ہوا ہے جس کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ سمندروں، ندیوں اور دریاؤں کی نہریں بھی اسے پکارتی ہیں۔
اس پریشور اور براہما کے لئے ہندو ایک خاص لفظ ’’اووم‘‘ بطور اسمِ ذات استعمال کرتے ہیں۔ ہندوؤں میں تزکیہ نفس کرنے والے جب نشست میں بیٹھ کر کسی ایسی ذات کے نام کا ورد کرتے ہیں جس کا مقابلہ کوئی دیوی دیوتا نہیں کر سکتا تو وہ مراقبہ کی حالت میں ’’اووم‘‘ کے ساتھ اس ذات کو پکارتے ہیں۔ یہ وہ لفظ ہے جسے ہندومت کی اصطلاح میں ’’اﷲ‘‘ کا ہم معنی کہا جاتا ہے۔ وہ مشرکانہ عقیدہ رکھنے والے بھی شرک کی ہزاروں آلودگیوں کے باوجود اسی کو سب سے بلند و بالا ماننے پر مجبور ہیں اور اس کو وہ نام دینے پر مجبور ہیں جو اس کے سوا کسی مصنوعی رب کا نام نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved