جواب: فرض نمازوں میں سنتِ مؤکدہ کی تعداد بارہ ہے جن میں نماز فجر کی دو، ظہر کی چھ، مغرب کی دو اور عشاء کی دو رکعات شامل ہیں جبکہ سنتِ غیر مؤکدہ کی تعداد آٹھ ہے جن میں نماز عصر کی چار اور نماز عشاء کی چار سنتیں شامل ہیں۔
جواب: سنت نمازوں کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ام المؤمنین حضرت امِّ حبیبہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَلَّی فِی یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ثِنْتَيْ عَشْرَۃَ رَکْعَۃً بُنِیَ لَهُ بَیْتٌ فِی الْجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَھَا، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْمَغْرِبِ، وَرَکْعَتَیْنِ بَعْدَ الْعِشَاءِ، وَرَکْعَتَیْنِ قَبْلَ صَـلَاةِ الْفَجْرِ.
ترمذی، السنن، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فیمن صلی فی یوم ولیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنۃ، 1: 440، رقم: 415
’’جس شخص نے دن اور رات میں (فرائض کے علاوہ) بارہ رکعات ادا کیں تو اس کے لیے جنت میں مکان بنایا جائے گا۔ (ان سنتوں کی تفصیل یہ ہے:) چار رکعت ظہر سے پہلے اور دو رکعت ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت نمازِ فجر سے پہلے۔‘‘
جواب: نفلی نماز سے مراد وہ نماز ہے جس کا پڑھنا کسی شخص پر لازم نہیں بلکہ پسندیدہ فعل ہے۔ مثلاً نمازِ تہجد، نمازِ اشراق، نمازِ چاشت، نمازِ اوّابین، تحیۃ المسجد، تحیۃ الوضوئ، نماز استخارہ، نمازِ تسبیح وغیرہ۔
جواب: جی ہاں! سنن اور نوافل گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
صَلُّوْا أَیُّهَا النَّاسُ فِی بُیُوْتِکُمْ، فَإِنَّ أَفْضَلَ الصَّـلَاةِ صَـلَاۃُ الْمَرْءِ فِي بَیْتِهِ إِلَّا الْمَکْتُوْبَۃَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الجماعۃ والإمامۃ، باب صلاۃ اللیل، 1:256، رقم: 698
’’لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ سوائے فرض نماز کے آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔‘‘
جواب: مسجد میں داخل ہو کر بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز نفل ادا کرنے کو تحیۃ المسجد کہتے ہیں۔ اوقات مکروہہ کے سوا ہر وقت پڑھ سکتے ہیں۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہئے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔‘‘
بخاری، الصحیح، کتاب المساجد، باب اذا دخل المسجد فلیرکع رکعتین، 1:170، رقم: 433
جواب: وضو کرنے کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کرنے کو تحیۃ الوضو کہتے ہیں۔ ان دو رکعتوں میں سورۃ الکافرون اورسورۃ الاخلاص پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خادم حمران بیان کرتے ہیں:
’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کے لیے پانی منگوایا اور وضو کرنا شروع کیا، پہلے اپنی ہتھیلیوں کو تین مرتبہ دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر تین بار اپنے چہرے کو دھویا، پھر دایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا پھر اسی طرح بایاں ہاتھ کہنی تک تین بار دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر دایاں پیر ٹخنوں تک تین بار دھویا، پھر اسی طرح بایاں پائوں تین بار دھویا، پھر انہوں نے کہا جس طرح میں نے وضو کیا ہے اس طرح میں نے رسول اللہ ﷺکو وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ وضو کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص میرے اس طریقہ کے مطابق وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اور دورانِ نماز سوچ بچار نہ کرے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب صفۃ الوضوء وکمالہ، 1:204۔205، رقم: 226
جواب: نمازِ تہجد کی کم از کم دو رکعات ہیں اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعات ہیں۔ بعد نمازِ عشاء بسترِ خواب پر لیٹ جائیں اور سو کر رات کے کسی بھی وقت اٹھ کر نمازِ تہجد پڑھ لیں، بہتر وقت نصف شب اور آخر شب ہے۔ تہجد کے لیے اٹھنے کا یقین ہو تو آپ عشاء کے وتر چھوڑ سکتے ہیں اس صورت میں وتر کو نماز تہجد کے ساتھ آخر میں پڑھیں یوں بشمول آٹھ نوافلِ تہجد کل گیارہ رکعات بن جائیں گی۔ رات کا اٹھنا یقینی نہ ہو تو وتر نماز عشاء کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے۔
اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ہمیشہ رات کو گیارہ رکعات پڑھتے تھے:
’’ایک رکعت کے ساتھ تمام رکعات کو طاق بنا لیتے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دائیں کروٹ لیٹ جاتے حتی کہ آپ کے پاس مؤذن آتا پھر آپ دو رکعت (سنت فجر) مختصرًا پڑھتے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب صلوۃالمسافرین، باب صلوۃ اللیل وعدد رکعات النبیﷺ فی اللیل، 1: 508، رقم: 736
تنہائی میں پڑھی جانے والی یہ نماز اللہ تعالیٰ سے مناجات اور ملاقات کا دروازہ ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں اس کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ’’حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو تمام نفل نمازوں میں سب سے زیادہ محبوب نماز، صلاةِ داؤد علیہ السلام ہے۔ وہ آدھی رات سوتے (پھر اٹھ کر) تہائی رات عبادت کرتے اور پھر چھٹے حصے میں سو جاتے۔‘‘
مسلم، الصحیح، کتاب الصیام، باب النہی عن الصوم الدھر لمن تضرر بہ او فوت بہ حقاً لم یفطر العیدین، 2: 816، رقم: 1159
جواب: نمازِ اشراق کا وقت طلوعِ آفتاب سے 20 منٹ بعد شروع ہوتا ہے۔ اسے نمازِ فجر اور صبح کے وظائف پڑھ کر اٹھنے سے پہلے اسی مقام پر ادا کرنا چاہیے۔ نماز اشراقِ کی رکعات کم از کم دو (2) اور زیادہ سے زیادہ چھ (6) ہیں۔
حدیث مبارکہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
’’حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: جو شخص صبح کی نماز باجماعت پڑھ کر طلوع آفتاب تک بیٹھا اللہ کا ذکر کرتا رہا پھر دو رکعت نماز (اشراق) ادا کی اس کے لئے کامل (و مقبول) حج و عمرہ کا ثواب ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ لفظ تامۃ ’’کامل‘‘ تین مرتبہ فرمایا۔
ترمذی، السنن، کتاب الجمع عن رسول اللهﷺ، باب ذکر من یستحب من الجلوس فی المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس، 2: 421، رقم: 586
جواب: نماز چاشت کا وقت آفتاب کے خوب طلوع ہو جانے پر شروع ہوتا ہے۔ جب طلوعِ آفتاب اور آغازِ ظہرکے درمیان کل وقت کا آدھا حصہ گزر جائے تو یہ چاشت کے لیے افضل وقت ہے۔ نماز چاشت کی کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) رکعات ہیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ چاشت کی چار رکعت پڑھتے تھے اور الله تعالیٰ جس قدر زیادہ چاہتا اتنی پڑھ لیتے تھے۔
مسلم، الصحیح، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب استحباب صلاۃ الضحی، 1: 497، رقم: 719
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص چاشت کی بارہ رکعتیں پڑھے گا الله تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الوتر، باب ما جاء فی صلاۃ الضحی، 1: 485، رقم: 473
جواب: نمازِ اوّابین مغرب اور عشاء کے درمیان پڑھنی چاہیے۔ یہ نماز کم از کم دو (2) طویل رکعات یا چھ (6) مختصر رکعات اور زیادہ سے زیادہ بیس (20) رکعات پر مشتمل ہے۔ ترمذی اور ابنِ ماجہ میںحضرت ابوہریرہ صسے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات نفل اس طرح (مسلسل) پڑھے کہ ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کرے تو اس کے لیے یہ نوافل بارہ سال کی عبادت کے برابر شمار ہوں گے۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحیح، ابواب الصلوۃ، باب ما جاء فی فضل التطوع و ست رکعات بعد المغرب، 1: 456، رقم: 435
جواب: کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ تائیدِ غیبی سے حاصل کرنے کے لئے ادا کی جانے والی دو رکعت نماز کو نماز استخارہ کہتے ہیں۔ ان دو رکعات میں سے پہلی رکعت میں سورۃ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورۃ الاخلاص پڑھے۔ پھر درج ذیل دعا پڑھے:
اَللّٰهُمَّ إِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ، وَأَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَأَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ اَللَّھُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھَذَا الْأَمْرَ … (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) … خَیْرٌ لِیْ، فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاقْدُرْهُ لِيْ وَیَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیْهِ، وَإنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ … (یہاں اپنی حاجت کا ذکر کرے) … شَرٌّ لِّيْ، فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَعَاقِبَةِ أَمْرِيْ، فَاصْرِفْهُ عَنِي وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِهِ.
بخاری، الصحیح، کتاب التطوع، باب ما جاء فی التطوع مثنی مثنی، 1: 391، رقم: 1109
’’اے اللہ! بے شک میں (اس کام میں) تجھ سے تیرے علم کی مدد سے خیر مانگتا ہوں اور (حصولِ خیر کے لیے) تجھ سے تیری قدرت کے ذریعے قدرت مانگتا ہوں اور میں تجھ سے تیرا فضل عظیم مانگتا ہوں، بے شک تو (ہر چیز پر) قادر ہے اور میں (کسی چیز پر) قادر نہیں، تو (ہر کام کے انجام کو) جانتا ہے اور میں (کچھ) نہیں جانتا اور تو تمام غیبوں کا جاننے والا ہے۔ اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام (جس کا میں ارادہ رکھتا ہوں) میرے لیے، میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے بہتر ہے تو اسے میرے لیے مقدر کر اور آسان کر پھر اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما اور اگر تیرے علم میں یہ کام میرے لیے میرے دین، میری زندگی اور میرے انجام کار کے لحاظ سے برا ہے تو اس (کام) کو مجھ سے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی عطا کر جہاں (کہیں بھی) ہو پھر مجھے اس کے ساتھ راضی کر دے۔‘‘
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا پھر اپنی حاجت بیان کرو۔
جواب: بہتر یہ ہے کہ دعا عربی میں مانگی جائے لیکن اگر کسی کو عربی میں یاد نہیں تو پھر وہ اپنی زبان میں دعا مانگ سکتا ہے چاہے تو لکھی ہوئی دعا دیکھ کر بھی پڑھ سکتا ہے۔
جواب: ’’ابووہب کہتے ہیں میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک سے تسبیحات والی نماز کے بارے میں پوچھا، آپ نے فرمایا: تکبیر کہہ کر سبحانک اللہم الخ پڑھے، پھر پندرہ مرتبہ سبحان الله والحمدﷲ ولا الہ الا الله والله اکبر کہے، پھر اعوذ بالله کہے، بسم الله پڑھے، سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھے اور پھر دس مرتبہ تسبیحات (مذکورہ بالا) کہے، رکوع میں دس مرتبہ، رکوع سے اٹھ کر دس مرتبہ، سجدہ میں دس مرتبہ، سجدہ سے اٹھ کر دس مرتبہ اور پھر دوسرے سجدہ میں دس مرتبہ یہی تسبیحات کہے، یوں چار رکعتیں پڑھے، اس طرح ہر رکعت میں پچھتر (75) تسبیحات ہوں گی، ہر رکعت کے شروع میں پندرہ مرتبہ اور پھر قرأت کے بعد دس دس مرتبہ پڑھے، اگر رات کو پڑھے تو ہر دو رکعتوں پر سلام پھیرنا مجھے پسند ہے، اگر دن کو پڑھے تو چاہے سلام پھیرے چاہے نہ پھیرے۔ ابووہب فرماتے ہیں مجھے ابورزمہ عبدالعزیز نے بتایا کہ عبداللہ بن مبارک نے فرمایا: رکوع میں پہلے سبحان ربی العظیم کہے اور سجدے میں پہلے سبحان ربی الاعلی کہے، پھر تسبیحات پڑھے۔ ابورزمہ عبدالعزیز فرماتے ہیں میں نے عبداللہ بن مبارک سے پوچھا، اگر سہو ہو جائے تو کیا سجدہ سہو میں بھی دس دس مرتبہ تسبیحات کہے، آپ نے فرمایا نہیں یہ صرف تین سو تسبیحات ہیں۔‘‘
ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الوِترِ، باب ما جاء فی صلاۃ التسبیح، 2: 348، 349، رقم: 481
جواب: حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ الله تعالیٰ سے یا مخلوق میں سے کسی سے کوئی حاجت درپیش آئے تو وہ وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرے اور پھر یہ دعا پڑھے:
لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَللَّهُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ إِثْمٍ، أَسْأَلُکَ أَنْ لَا تَدَعَ لِیْ ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا حَاجَۃً هِیَ لَکَ رِضًا إِلَّا قَضَیْتَهَا لِی.
ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ما جاء فی صلاةِ الحاجۃ، 2: 171، 172، رقم: 1384
’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ برد بار بزرگ ہے بڑے عرش کا مالک، اے اللہ تیری پاکیزگی بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، (اے اللہ!) میں تجھ سے تیری رحمت کے ذریعے بخشش کے اسباب، نیکی کی آسانی اور ہر گناہ سے سلامتی چاہتا ہوں، میرے تمام گناہ بخش دے میرے جملہ غم ختم کر دے اور میری ہر وہ حاجت جو تیری رضا مندی کے مطابق ہو پوری فرما۔‘‘
پھر اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی جس بات کی طلب ہو سوال کرے وہ اس کے لیے مقدر کر دی جاتی ہے۔
2۔ ترمذی، ابن ماجہ، احمد بن حنبل، حاکم، ابن خزیمہ، بیہقی اور طبرانی نے بروایت حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کیا ہے: حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک نابینا صحابی کو اس کی حاجت برآری کے لیے دو رکعت نماز کے بعد درج ذیل الفاظ کے ساتھ دُعا کی تلقین فرمائی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں اپنی حاجت برآری کے لیے اسی طریقے سے دو رکعت نماز کے بعد دعا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ! إِنِّی أَسَأَلُکَ وَ أَتَوَجَّهُ إِلَیْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ یَا مُحَمَّدُ! إِنِّی قَدْ تَوَجَّھْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّی فِی حَاجَتِی ھٰـذِهِ لِتُقضَی، اَللّٰھُمَّ! فَشَفِّعْهُ فِیَّ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا، باب ماجاء فی صلاۃ الحاجۃ، 2:172، رقم: 1385
’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں حضور نبی اکرمﷺ کے وسیلہ سے، اے محمدﷺ میں آپ کے وسیلے سے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں کہ پوری ہو۔ اے اللہ میرے حق میں حضور نبی اکرمﷺ کی شفاعت قبول فرما۔‘‘
جواب: کسوف کا معنی سورج گرہن اور خسوف کا معنی چاند گرہن ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں جس دن (آپ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو سورج گرہن لگا۔ لوگوں نے کہا: ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن لگا ہے۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللهِ. لَا یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَّلَا لِحَیَاتِهِ. فَإِذَا رَأْیْتُمُوْھَا فَافْزَعُوْا لِلصَّلَاةِ.
مسلم، الصحیح، کتاب الکسوف، باب صلاۃ الکسوف، 2: 619، رقم: 901
’’بے شک سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں کسی کے مرنے جینے سے ان کو گرہن نہیں لگتا پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو نماز پڑھو۔‘‘
نماز کسوف کا طریقہ
جب سورج گرہن ہو تو چاہئے کہ امام کے پیچھے دو رکعتیں پڑھے جن میں بہت لمبی قرأت ہو اور رکوع سجدے بھی خوب دیر تک ہوں، دو رکعتیں پڑھ کر قبلہ رُو بیٹھے رہیں اور سورج صاف ہونے تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔
سورج گرہن کی نماز کی نیت: نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز نفل کسوفِ شمس کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، پیچھے اس امام کے، رُخ میرا قبلہ کی طرف، اللهُ اَکْبَر۔
نمازِ خسوف کا طریقہ
چاند گرہن کے وقت بھی چاند صاف ہونے تک نماز پڑھتے رہیں، مگر علیحدہ علیحدہ اپنے گھروں میں پڑھیں، اس میں جماعت نہیں۔
چاند گرہن کی نماز کی نیت: نیت کرتا ہوں دو رکعت نماز نفل خسوف قمر کی، واسطے اللہ تعالیٰ کے، رُخ میرا قبلہ کی طرف، اللهُ اَکْبَر۔
جواب: مکروہ اوقات کے علاوہ کسی بھی وقت دو رکعت نفل نمازِ توبہ ادا کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً گناہ سرزد ہونے کے بعد اس نماز کے پڑھنے سے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو وہ وضو کر کے نماز پڑھے، اور پھر استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی:
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ یَعْلَمُوْنَo
آل عمران، 3: 135
’’اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اِصرار بھی نہیں کرتے۔‘‘
جواب: ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن ہماری دعا قبول نہیں ہوتی اس کی وجہ یہ ہے کہ جو چیز ہم مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہوتی یا اس دعا کے عوض اللہ تعالیٰ ہم سے دنیا و آخرت کی کوئی بلا ٹال دیتا ہے۔ یا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابھی اس چیز کی عطا کا وقت نہیں آیا وہ اس کو مؤخر کردیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تین سو سال بعد قبول ہوئی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی دعا مانگی جو دو ہزار سال بعد پوری ہوئی یا اس دعا کے عوض آخرت میں اجر عطا فرماتا ہے۔ یہ امور اس وقت مرتب ہوتے ہیں۔ جب بندہ مسلسل بغیر کسی گلے شکوے کے دعا کرتا رہے۔
حضرت ابراہیم بن ادہمؒ اس کا جواب بڑے حسین پیرائے میں دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ.
الغافر، 40: 60
’’تم مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔‘‘
ہم دعا کرتے ہیں مگر قبول نہیں کی جاتی اس کی وجوہات یہ ہیں:
ابن خلکان، وفیات الأعیان، 1: 442
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved