Silsila Ta‘limat-e-Islam (5): Taharat awr Namaz (Fazail o Masail)

وضو

سوال نمبر 13: وضو کسے کہتے ہیں؟

جواب: لفظِ وُضو واؤ مضموم (ـ-ُ) کے ساتھ مصدر ہے، یعنی طہارت حاصل کرنا۔ اور واؤ مفتوح (ـ-َ) کے ساتھ وَضو اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ طہارت حاصل کی جائے، مثلاً پانی۔

سوال نمبر 14: قرآن حکیم میں وضو کی فرضیت کے بارے میں کیا حکم آیا ہے؟

جواب: قرآن حکیم میں وضو کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ.

المائدہ، 5: 6

’’اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کے لیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔‘‘

سوال نمبر 15: وضو کے کتنے فرائض ہیں؟

جواب: وضو کے چار فرائض ہیں:

  1. چہرے کا دھونا: چہرے کی گولائی، لمبائی کے حدِ طول کے لحاظ سے پیشانی کی سطح کے شروع ہونے کی جگہ سے لے کر ٹھوڑی کے نیچے تک ہے اور عرض (چوڑائی) کے لحاظ سے وہ تمام حصہ جو دونوں کانوں کی لَو کے درمیان ہے۔
  2. دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک دھونا
  3. چوتھائی سر کا مسح کرنا
  4. پاؤں کا ٹخنوں سمیت دھونا

مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرۃ والتحجیل فی الوضو، 1: 216، رقم: 246

سوال نمبر 16: وضو کے واجب ہونے کی شرائط کون سی ہیں؟

جواب: وضو کے واجب ہونے کی درج ذیل شرائط ہیں:

  1. بالغ ہو۔
  2. مسلمان ہو۔
  3. پانی کی اتنی مقدار پر قادر ہونا جو وضو کے لیے کافی ہو۔
  4. حدث (ناپاکی) کا پایا جانا، حدث سے پاک نہ ہو۔
  5. حیض و نفاس سے پاک ہو۔
  6. وقت تنگ نہ ہو۔

سوال نمبر 17: وضو کی فضیلت کیا ہے؟

جواب: مندرجہ ذیل احادیث میں وضو کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’جب کوئی مومن وضو کرتا ہے تو جس وقت چہرہ دھوتا ہے تو جیسے ہی چہرہ سے پانی گرتا ہے، یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنی آنکھوں سے کیے تھے۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو جیسے ہی ہاتھوں سے پانی کے قطرے گرتے ہیں یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے ہاتھوں سے کیے تھے اور جب وہ اپنے پاؤں کو دھوتا ہے تو جیسے ہی اس کے پاؤں سے پانی گرتا ہے یا پانی کا آخری قطرہ گرتا ہے تو اس کے وہ تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنے پاؤں سے کیے تھے، یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب خروج الخطایا مع ماء الوضو، 1: 215، رقم: 244

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تم اس حال میں اٹھو گے کہ تمہارا چہرہ اور ہاتھ، پاؤں وضو کرنے کی وجہ سے سفید اور چمک رہے ہوں گے، لہٰذا جو شخص تم میں سے طاقت رکھتا ہو وہ اپنے ہاتھوں، پاؤں اور چہرے کی سفیدی اور چمک کو زیادہ کرے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرۃ و التحجیل فی الوضو، 1: 216، رقم: 246

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺنے فرمایا: ’’میرا حوض مقامِ عدن سے لے کر ایلہ تک کے فاصلہ سے زیادہ بڑا ہے۔ اس کا پانی برف سے زیادہ سفید، شہد ملے دودھ سے زیادہ میٹھا اور اس کے برتنوں کی تعداد ستاروں سے زیادہ ہے۔ میں دوسرے لوگوں کو اس حوض سے اس طرح روکوں گا جیسے کوئی شخص اپنے حوض سے پرائے اونٹوں کو روکتا ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلِک وسلم! کیا آپ ہمیں اس دن پہچان لیں گے؟ فرمایا: ہاں تم میں ایک ایسی علامت ہے جو دوسری کسی امت میں نہیں ہوگی۔ تم جس وقت حوض پر میرے پاس آؤ گے۔ تو تمہارے چہرے اور پاؤں آثارِ وضو کی وجہ سے سفید اور چمک دار ہوں گے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب استحباب اطالۃ الغرۃ و التحجیل فی الوضو، 1: 217، رقم: 247

سوال نمبر 18: وضو کے آداب کیا ہیں؟

جواب: چودہ چیزیں آدابِ وضو میں شامل ہیں:

  1. اونچی جگہ بیٹھنا۔
  2. قبلہ رخ ہونا۔
  3. کسی اور سے مدد نہ لینا۔
  4. دنیاوی بات چیت نہ کرنا۔
  5. دل کے ارادہ اور زبان کے فعل کا جمع کرنا۔
  6. مسنون دعاؤں کا پڑھنا۔
  7. ہر عضو کے دھونے کے وقت بسم اللہ پڑھنا۔
  8. شہادت کی انگلی کو دونوں کانوں کے سوراخوں میں داخل کرنا۔
  9. تنگ انگوٹھی کا ہلانا۔
  10. داہنے ہاتھ سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا۔
  11. بائیں ہاتھ سے ناک صاف کرنا۔
  12. معذوری نہ ہونے کی صورت میں وقت آنے سے پہلے وضو کرنا۔
  13. وضو کے بعد کلمہ شہادت پڑھنا۔
  14. وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے ہو کر پینا۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَوَّضَأ فَأَحْسَنَ الْوُضُوْءَ ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ، واشَهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِیْنَ، وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِرِیْنَ، فُتِحَت لَهُ ثَمَانِیَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ یَدْخُلُ مِنْ أَیِّهَا شَآءَ.

ترمذی، الجامع الصحیح، أبواب الطھارۃ، باب ما یقال بعد الوضوئ، 1:99، رقم: 55

’’جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا پھر کہا: میں اللہ تعالیٰ کے ایک معبود ہونے کی گواہی دیتا ہوں وہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ  مجھے بہت توبہ کرنے والوں میں کردے اور مجھے پاک صاف رہنے والوں میں شامل فرما دے۔ اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس میں سے چاہے گا داخل ہوگا۔‘‘

سوال نمبر 19: وضو کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

جواب: وضو کا مسنون طریقہ حدیث نبوی کے مطابق یہ ہے:

سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے والد گرامی حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے وضو کا پانی طلب فرمایا۔ میں نے وضو کا پانی لا کر حاضر خدمت کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے وضو فرمانا شروع کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پانی میں ہاتھ ڈالنے سے قبل دونوں ہاتھوں کو تین دفعہ دھویا۔ اس کے بعد تین مرتبہ کلی فرمائی اور تین دفعہ ناک صاف فرمائی بعد ازاں آپ نے منہ کو تین دفعہ دھویا پھر آپ نے دائیں ہاتھ کو کہنی تک تین مرتبہ دھویا پھر بائیں ہاتھ کو اسی طرح دھویا پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر ایک دفعہ مسح فرمایا۔ اس کے بعد دائیں پاؤں کو ٹخنوں تک تین دفعہ دھویا پھر ایسے ہی بائیں کو اس کے بعد آپ نے کھڑے ہو کر پانی لانے کا حکم صادر فرمایا۔ میں نے برتن جس میں وضو کا بچا ہوا پانی تھا، حاضر خدمت کیا تو آپ نے کھڑے کھڑے اس سے پانی پی لیا۔ میں حیران ہوا تو پھر آپ نے مجھے دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’حیران نہ ہوں کیونکہ میں نے آپ کے نانا جان کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا جیسے تم مجھے کرتا دیکھ رہے ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ اسی طرح وضو فرماتے اور آپ وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیتے تھے۔‘‘

نسائی، السنن، کتاب الطہارۃ، باب صفۃ الوضوئ، 1: 51، 52، رقم: 95

سوال نمبر 20: وضو میں کون سی دعائیں پڑھنی چاہئیں؟

جواب: وضو میں درج ذیل دعائیں پڑھنی چاہئیں:

  • کلی کرتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اَعِنِّیْ عَلَی تِـلَاوَةِ الْقُرْآنِ وِذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! تلاوتِ قرآن، اپنے ذکر، شکر اور اچھی طرح عبادت پر میری مدد فرما۔‘‘

  • ناک میں پانی ڈالتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اَرِحْنِیْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ وَلَا تَرِحْنِیْ رَائِحَةَ النَّارِ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! مجھے جنت کی خوشبو عطا کر اور جہنم کی بدبُو سے محفوظ کر۔‘‘

  • چہرہ دھوتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ بَیِّضْ وَجْهِیْ یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! اس دن میرا چہرہ سفید رکھنا جس دن بعض چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ۔‘‘

  • دایاں بازو دھوتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اَعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِیَمِیْنِیْ وَحَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! میرا نامہ اعمال میرے دائیں ہاتھ میں دینا اور میرا حساب آسان کرنا۔‘‘

  • بایاں بازو دھوتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ لَا تُعْطِنِیْ کِتَابِیْ بِشِمَالِیْ وَلَا مِنْ وَّرَائِ ظَهْرِیْ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! میرا نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں اور پیٹھ کے پیچھے سے نہ دینا۔‘‘

  • سر کا مسح کرتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اَظِلَّنِیْ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِکَ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلُّ عَرْشِکَ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! اس دن مجھے اپنے عرش کے سائے میں رکھنا جس دن تیرے عرش کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔‘‘

  • کانوں کا مسح کرتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے کر دے جو تیری بات کو غور سے سنتے ہیں اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘

  • گردن کا مسح کرتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اَعْتِقْ رَقَبَتِی مِنَ النَّارِ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! میری گردن کو جہنم کی آگ سے آزاد رکھنا۔‘‘

  • دایاں پاؤں دھوتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ ثَبِّتْ قَدَمِیْ عَلَی الصِّرَاطِ یَوْمَ تَزِلُّ الْاَقْدَامُ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! اس دن پل صراط پر مجھے ثابت قدم رکھنا جب (کچھ لوگوں کے) قدم پھسلیں گے۔‘‘

  • بایاں پاؤں دھوتے وقت کی دعا:

بِاسْمِ اللهِ، اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ ذَنْبِیْ مَغْفُوْرًا وَسَعْیِیْ مَشْکُوْرًا وَتِجَارَتِیْ لَنْ تَبُوْرَ.

’’اللہ کے نام سے شروع، یا اللہ! میرے گناہ بخش دے، میری کوشش قبول فرما اور میری تجارت میں نقصان نہ ہو۔‘‘

سوال نمبر 21: وہ کون سے امور ہیں جن کے لیے وضو کرنا فرض ہے؟

جواب: درج ذیل امور کے لیے وضو کرنا فرض ہے:

  1. نماز پڑھنے کے لیے۔
  2. نماز جنازہ پڑھنے کے لیے۔
  3. سجدہ تلاوت کے لیے۔
  4. قرآن مجید کو چھونے کے لیے۔
  5. کعبۃ اللہ کے طواف کے لیے۔

سوال نمبر 22: نماز سے پہلے وضو کیوں ضروری ہے؟

جواب: نماز سے پہلے وضو اس لیے ضروری ہے کہ یہ حکم الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ.

المائدہ، 5: 6

’’اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کے لیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔‘‘

نماز سے پہلے وضو کی فرضیت و اہمیت احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

’’تم میں سے بغیر وضو کسی شخص کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ وضو نہ کرلے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الطھارۃ، باب وجوب الطہارۃ للصلاۃ، 1:204، رقم: 225

اس کے علاوہ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت انس بن مالک ث سے مروی ہے کہ جب سورہ توبہ کی آیت نمبر 108 نازل ہوئی:

فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَرُوْا ط وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِرِیْنَo

’’اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسندکرتے ہیں، اور اللہ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔‘‘

تو حضور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

یَا مَعْشَرَ الأنْصَارِ إِنَّ اللهَ قَدْ أَثْنَی عَلَیْکُمْ فِی الطُّهُوْرِ فَمَا طُهُوْرُکُمْ؟ قَالُوْا: نَتَوَضَّأُ لِلصَّـلَاةِ وَنَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ وَنَستَنْجِی بِالْمَاءِ، قَالَ: فَهُوَ ذَاکَ فَعَلَیْکُمُوْهُ.

ابن ماجہ، السنن، کتاب الطھارۃ وسننھا، باب الاستنجاء بالمائ، 1:205، رقم: 355

’’اے گروهِ انصار! اللہ تعالیٰ نے طہارت کے بارے میں تمہاری تعریف کی ہے تو بتاؤ تمہاری طہارت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: ہم نماز کے لیے وضو کرتے ہیں، جنابت کی حالت میں غسل کرتے ہیں اور پانی سے استنجاء کرتے ہیں۔ فرمایا: یہی تو وہ بات ہے، اسے اپنے اوپر لازم رکھو۔‘‘

مندرجہ بالا احادیث کی روشنی میں امت کا اس پر اجماع ہے کہ بغیر طہارت کے نماز پڑھنا حرام ہے، خواہ وہ طہارت وضو سے حاصل کی جائے یا تیمم سے، خواہ فرض نماز پڑھنی ہو یا نفل، سجدہ تلاوت کرنا ہو یا سجدہ شکر۔ لہٰذا نماز ایک قلعہ ہے اور وضو اس کا دروازہ۔ اگر بغیر وضو کے نماز کو حلال جانا تو یہ کفر ہوگا۔

سوال نمبر 23: ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ضروری ہے یا ایک ہی وضو سے کئی نمازیں ادا کی جاسکتی ہیں؟

جواب: ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا افضل ہے، البتہ باوضو شخص ایک ہی وضو سے کئی نمازیں ادا کر سکتا ہے، احادیثِ مبارکہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے:

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک وضو سے تمام نمازیں پڑھیں اور موزوں پر مسح کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیک وآلک وسلم! آپ نے وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے نہیں کیا تھا! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے عمر! میں نے یہ کام اِرادتاً کیا ہے۔‘‘

مسلم، الصحیح، کتاب الطہارۃ، باب جواز الصلوات کلھا بوضوء واحد، 1: 232، رقم: 277

امام بخاری نے حضرت سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے عصر کی نماز ادا فرمائی اور پھر وضو کیے بغیر مغرب کی نماز ادا فرمائی۔

مذکورہ بالا احادیث کی شرح کرتے ہوئے امام یحییٰ بن شرف نووی فرماتے ہیں کہ جب تک انسان بے وضو نہ ہو وہ متعدد فرض اور نفل نمازیں ایک وضو کے ساتھ پڑھ سکتا ہے۔

نووی، شرح صحیح مسلم، 2:178، 177

سوال نمبر 24: سائنس کی رُو سے وضو کے طبی فوائد کیا ہیں؟

جواب: نماز ہر عاقل بالغ مسلمان پر فرض ہے۔ ایک مسلمان جب دن میں پانچ بار اللہ کے حضور نماز ادا کرتا ہے تو وہ اُس سے پہلے وضو کرتا ہے جس سے اُسے بدنی طہارت حاصل ہوتی ہے۔ نماز سے پہلے وضو کرنا فرض ہے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَأَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ.

المائدۃ، 5: 6

’’اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کے لیے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لیے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)۔‘‘

وضو حفظانِ صحت کے زرّیں اُصولوں میں سے ہے۔ یہ روزمرہ زندگی میں جراثیم کے خلاف ایک بہت بڑی ڈھال ہے۔ بہت سی بیماریاں صرف جراثیموں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ یہ جراثیم ہمیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ ہوا، زمین اور ہمارے اِستعمال کی ہر چیز پر یہ موذی مسلط ہیں۔ جسمِ انسانی کی حیثیت ایک قلعے کی سی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری جلد کی ساخت کچھ ایسی تدبیر سے بنائی ہے کہ جراثیم اُس میں سے ہمارے بدن میں داخل نہیں ہو سکتے البتہ جلد پر ہو جانے والے زخم اور منہ اور ناک کے سوراخ ہر وقت جراثیم کی زد میں ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے وضو کے ذریعے نہ صرف ان سوراخوں کو بلکہ اپنے جسم کے ہر حصے کو جو عام طور پر کپڑوں میں ڈھکا ہوا نہیں ہوتا اور آسانی سے جراثیم کی آماج گاہ بن سکتا ہے، انہیں وضو کے ذریعے وقتاً فوقتاً دھوتے رہنے کا حکم فرمایا۔ انسانی جسم میں ناک اور منہ ایسے اَعضاء ہیں جن کے ذریعے جراثیم سانس اور کھانے کے ساتھ آسانی سے اِنسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں، لہٰذا گلے کی صفائی کے لیے غرارہ کرنے کا حکم دیا اور ناک کو اندر ہڈی تک گیلا کرنے کا حکم دیا۔ بعض اَوقات جراثیم ناک میں داخل ہو کر اندر کے بالوں سے چمٹ جاتے ہیں اور اگر دن میں وقتًا فوقتًا اُسے دھونے کا عمل نہ ہو تو ہم صاف ہوا سے بھرپور سانس بھی نہیں لے سکتے۔ اس کے بعد چہرے کو تین بار دھونے کی تلقین فرمائی ہے تاکہ ٹھنڈا پانی مسلسل آنکھوں پر پڑتا رہے اور آنکھیں جملہ اَمراض سے محفوظ رہیں۔ اِسی طرح بازو اور پاؤں دھونے میں بھی کئی طبی فوائد پنہاں ہیں۔ وضو ہمارے بے شمار اَمراض کا ازخود علاج کر دیتا ہے جن کے پیدا ہونے کا ہمیں اِحساس تک نہیں ہوتا۔ طہارت کے باب میں طبِ جدید جن تصورات کو واضح کرتی ہے اِسلام نے اُنہیں عملاً تصورِ طہارت میں سمو دیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved