یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی شان اور اس کے مقام کے لائق جو خاص صفات و افعال ہیں انہیں کسی مخلوق کے لئے ثابت کرنا شرک ہے لیکن بعض اوقات صفاتِ الٰہیہ اور صفاتِ عبدیہ میں اشتراک ہوتا ہے اس لئے وہ صفات و افعال جو رب تعالیٰ کا خاصہ نہیں اور باری تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل اور اذن سے اپنے برگزیدہ بندوں کو عطا فرما کر احسان فرمایا ہے انہیں ایسی صفات و افعال سے متصف کرنا شرک نہیں۔ قرآن و حدیث میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
شفاعت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے، ارشاد فرمایا :
قُل لِّلَّهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَّهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَO
’’فرما دیجئے : سب شفاعت (کا اِذن) اللہ ہی کے اختیار میں ہے (جو اس نے اپنے مقرّبین کے لئے مخصوص کر رکھا ہے)، آسمانوں اور زمین کی سلطنت بھی اسی کی ہے، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
الزمر، 39 : 44
لیکن اﷲ رب العزت نے اپنے اذن سے شفاعت کا اختیار اپنے مقرب بندوں کو عطا کیا ہے، ارشاد فرمایا :
لاَ يَمْلِكُونَ الشَّفَاعَةَ إِلاَّ مَنِ اتَّخَذَ عِندَ الرحمٰن عَهْدًاO
’’ (اس دن) لوگ شفاعت کے مالک نہ ہوں گے سوائے ان کے جنہوں نے (خدائے) رحمٰن سے وعدہءِ (شفاعت) لے لیا ہے۔‘‘
مريم، 19 : 87
عالم بالذات رب تعالیٰ ہے، ارشادِ ربانی ہے :
قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَO
’’فرماد یجئے کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں (از خود) غیب کا علم نہیں رکھتے سوائے اللہ کے (وہ عالم بالذّات ہے) اور نہ ہی وہ یہ خبر رکھتے ہیں کہ وہ (دوبارہ زندہ کر کے) کب اٹھائے جائیں گے۔‘‘
النمل، 27 : 65
لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے رسولوں کو علم غیب عطا فرماتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللّهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ فَآمِنُواْ بِاللّهِ وَرُسُلِهِ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌO
’’اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ (اے عامۃ الناس!) تمہیں غیب پر مطلع فرما دے لیکن اللہ اپنے رسولوں سے جسے چاہے (غیب کے علم کے لئے) چن لیتا ہے، سو تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر تم ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو تمہارے لئے بڑا ثواب ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 179
دوسرے مقام پر فرمایا :
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًاO إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًاO
’’ (وہ) غیب کا جاننے والا ہے، پس وہ اپنے غیب پر کسی (عام شخص) کو مطلع نہیں فرماتاo سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (اُنہی کو مطلع علی الغیب کرتا ہے کیونکہ یہ خاصۂ نبوت اور معجزۂ رسالت ہے)، تو بے شک وہ اس (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے آگے اور پیچھے (علمِ غیب کی حفاظت کے لئے) نگہبان مقرر فرما دیتا ہےo‘‘
الجن، 72 : 26 - 27
ہدایت کا مالکِ حقیقی اﷲ تعالیٰ ہے، ارشاد فرمایا :
إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَO
’’حقیقت یہ ہے کہ جسے آپ (ہدایت پر لانا) چاہتے ہیں اسے صاحبِ ہدایت آپ خود نہیں بناتے، بلکہ (یوں ہوتا ہے کہ) جسے (آپ چاہتے ہیں اسی کو) اللہ چاہتا ہے (اور آپ کے ذریعے) صاحبِ ہدایت بنا دیتا ہے اور وہ راہِ ہدایت کی پہچان رکھنے والوں سے خوب واقف ہے (یعنی جو لوگ آپ کی چاہت کی قدر پہچانتے ہیں وہی ہدایت سے نوازے جاتے ہیں) ۔‘‘
القصص، 28 : 56
دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی ہدایت اور رسول کی ہدایت کو ایک ہی آیت میں ثابت فرمایا :
وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَنْ نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO
’’سو اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روحِ (قلوب و ارواح) کی وحی فرمائی (جو قرآن ہے)، اور آپ (وحی سے قبل اپنی ذاتی درایت و فکر سے) نہ یہ جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان (کے شرعی احکام کی تفصیلات کو ہی جانتے تھے جو بعد میں نازل اور مقرر ہوئیں) مگر ہم نے اسے نور بنا دیا۔ ہم اِس (نور) کے ذریعہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت سے نوازتے ہیں، اور بیشک آپ ہی صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت عطا فرماتے ہیں۔‘‘
الشوریٰ، 42 : 52
1۔ گمراہ ٹھہرانے کے حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِينَ كَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا صُمٌّ وَبُكْمٌ فِي الظُّلُمَاتِ مَن يَشَإِ اللّهُ يُضْلِلْهُ وَمَن يَشَأْ يَجْعَلْهُ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO
’’اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا وہ بہرے اور گونگے ہیں، تاریکیوں میں (بھٹک رہے) ہیں۔ اﷲ جسے چاہتا ہے اسے (انکارِ حق اور ضد کے باعث) گمراہ ٹھہرا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے (قبولِ حق کے باعث) سیدھی راہ پر لگا دیتا ہے۔‘‘
الانعام، 6 : 39
2۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ فَمَن يَهْدِي مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ وَمَا لَهُم مِّن نَّاصِرِينَO
’’بلکہ جن لوگوں نے ظلم کیا ہے وہ بغیر علم (و ہدایت) کے اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، پس اس شخص کو کون ہدایت دے سکتا ہے جسے اﷲ نے گمراہ ٹھہرا دیا ہو اور ان لوگوں کے لئے کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘
الروم، 30 : 29
لیکن ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ نے گمراہ کرنے کی نسبت ظالموں کی طرف فرمائی :
وَقَدْ أَضَلُّوا كَثِيرًا وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا ضَلَالًاO
’’اور واقعی انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کیا، سو (اے میرے رب!) تو (بھی ان) ظالموں کو سوائے گمراہی کے (کسی اور چیز میں) نہ بڑھا۔‘‘
نوح، 71 : 24
1۔ حقیقی عزت کا سزاوار اﷲ تعالیٰ ہے، فرمایا :
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ العِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًاO
’’ (یہ) ایسے لوگ (ہیں) جو مسلمانوں کی بجائے کافروں کو دوست بناتے ہیں۔ کیا یہ ان کے پاس عزت تلاش کرتے ہیں؟ پس عزت تو ساری اللہ (تعالیٰ) کے لئے ہے۔‘‘
النساء، 4 : 139
2. وَلاَ يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO
’’ (اے حبیبِ مکرّم!) ان کی (عناد و عداوت پر مبنی) گفتگو آپ کو غمگین نہ کرے۔ بیشک ساری عزت و غلبہ اللہ ہی کے لئے ہے (جو جسے چاہتا ہے دیتا ہے)، وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
يونس، 10 : 65
3. مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُوْلَئِكَ هُوَ يَبُورُO
’’جو شخص عزت چاہتا ہے تو اﷲ ہی کے لئے ساری عزت ہے، پاکیزہ کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور وہی نیک عمل (کے مدارج) کو بلند فرماتا ہے، اور جو لوگ بُری چالوں میں لگے رہتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کا مکر و فریب نیست و نابود ہو جائے گا۔‘‘
فاطر، 35 : 10
اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیتِ کریمہ میں عزت کی نسبت اپنی اور اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہی نہیں بلکہ سارے مؤمنین کی طرف کی ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَO
’’وہ کہتے ہیں : اگر (اب) ہم مدینہ واپس ہوئے تو (ہم) عزت والے لوگ وہاں سے ذلیل لوگوں (یعنی مسلمانوں) کو باہر نکال دیں گے، حالانکہ عزت تو صرف اللہ کے لئے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے مگر منافقین (اس حقیقت کو) جانتے نہیں ہیں۔‘‘
المنافقون، 63 : 8
1۔ یہ دونوں اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
’’بیشک اﷲ لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے والا مہربان ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 143
2۔ ایک اور مقام پر انہی الفاظ کو دہراتے ہوئے فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
’’بیشک اﷲ تمام انسانوں کے ساتھ نہایت شفقت فرمانے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘
الحج، 22 : 65
سورۃ توبہ میں یہی دونوں اسماء الحسنیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ ارشاد فرمایا :
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO
’’بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
التوبة، 9 : 128
یہ دو نام بھی اﷲ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَوْمَئِذٍ يُوَفِّيهِمُ اللَّهُ دِينَهُمُ الْحَقَّ وَيَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ الْمُبِينُO
’’اس دن اللہ انہیں ان (کے اعمال) کی پوری پوری جزا جس کے وہ صحیح حقدار ہیں دے دے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ (خود بھی) حق ہے (اور حق کو) ظاہر فرمانے والا (بھی) ہے۔‘‘
النور، 24 : 25
1۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اَلْحَقُّ الْمُبِيْنُ فرمایا :
فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِينِO
’’پس آپ اللہ پر بھروسہ کریں، بیشک آپ صریح حق پر (قائم اور فائز) ہیں۔‘‘
النمل، 27 : 79
2. كَيْفَ يَهْدِي اللّهُ قَوْمًا كَفَرُواْ بَعْدَ إِيمَانِهِمْ وَشَهِدُواْ أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَO
’’اﷲ ان لوگوں کو کیونکر ہدایت فرمائے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے حالانکہ وہ اس امر کی گواہی دے چکے تھے کہ یہ رسول سچا ہے اور ان کے پاس واضح نشانیاں بھی آ چکی تھیں، اور اﷲ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔‘‘
آل عمران، 3 : 86
3. وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُO
’’اور فرما دیجئے کہ بیشک (اب) میں ہی (عذابِ الٰہی کا) واضح و صریح ڈر سنانے والا ہوں۔‘‘
الحجر، 15 : 89
4. أَنَّى لَهُمُ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُّبِينٌO
’’اب اُن کا نصیحت ماننا کہاں (مفید) ہو سکتا ہے حالانکہ ان کے پاس واضح بیان فرمانے والے رسول آ چکے۔‘‘
الدخان، 44 : 13
اﷲ تعالیٰ نور ہے۔ ارشاد فرمایا :
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’اﷲ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔‘‘
النور، 24 : 35
اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام بھی نور رکھا چنانچہ فرمایا :
قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌO
’’بیشک تمہارے پاس اﷲ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید) ۔‘‘
المائدة، 5 : 15
اﷲ تعالیٰ کے مقدس ناموں میں ایک نام اَلشَّهِيْدُ ہے، چنانچہ فرمایا :
وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولاً وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيدًاO
’’اور (اے محبوب!) ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور (آپ کی رسالت پر) اللہ گواہی میں کافی ہے۔‘‘
النساء، 4 : 79
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام بھی اﷲ تعالیٰ نے شہید رکھا، فرمایا :
وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا.
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح ہم نے تمہیں (اعتدال والی) بہتر امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور (ہمارا یہ برگزیدہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم پر گواہ ہو۔‘‘
البقرة، 2 : 143
2۔ سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا :
فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًاO
’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گے۔‘‘
النساء، 4 : 41
اﷲ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے ایک نام اَلْکَرِيْمُ ہے جیسا کہ فرمایا :
يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِO
’’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔‘‘
الانفطار، 82 : 6
اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام بھی اَلْکَرِيْمُ رکھا۔ ارشاد فرمایا :
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيْمٍO
’’بیشک یہ (قرآن) بڑی عزت و بزرگی والے رسول کا (پڑھا ہوا) کلام ہے۔‘‘
التکوير، 81 : 19
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَنَا اَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ.
’’میں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں۔‘‘
1. ترمذي، السنن، ابواب المناقب، باب ما جاء في فضل النبي صلي الله عليه وآله وسلم،
5 : 585، رقم : 3610
2. دارمي، السنن، 1 : 39، رقم : 47
3. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 47، رقم : 117
1۔ اﷲ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک اَلْعَظِيْمُ ہے، فرمایا :
وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُO
’’وہی سب سے بلند رتبہ بڑی عظمت والا ہے۔‘‘
البقره، 2 : 255
2. لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُO
’’جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اسی کا ہے، اور وہ بلند مرتبت، بڑا با عظمت ہے۔‘‘
الشوریٰ، 42 : 4
3. فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِO
’’سو آپ اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں۔‘‘
الواقعه، 56 : 96
اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کے لئے بھی صفت ’’عظیم،، کا اثبات فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍO
’’اور بیشک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں) ۔‘‘
القلم، 68 : 4
1۔ اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اسمِ مبارک اَلْخَبِيْرُ ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُO
’’اور وہی اپنے بندوں پر غالب ہے، اور وہ بڑی حکمت والا خبر دار ہے۔‘‘
الانعام، 6 : 18
2. عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُO
’’ (وہی) ہر پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہی بڑی حکمت والا خبردار ہے۔‘‘
الانعام، 6 : 73
درجِ ذیل دو آیات میں اﷲ تعالیٰ نے پہلے اپنے باخبر ہونے کا ذکر فرمایا اور پھر متصل اگلی آیت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ’’خَبِيْر‘‘ قرار دیا، ارشاد فرمایا :
وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَى بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيرًاO الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ الرحمٰن فَاسْأَلْ بِهِ خَبِيرًاO
’’اور آپ اس (ہمیشہ) زندہ رہنے والے (رب) پر بھروسہ کیجئے جو کبھی نہیں مرے گا اور اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہئے، اور اس کا اپنے بندوں کے گناہوں سے باخبر ہونا کافی ہےo جس نے آسمانی کرّوں اور زمین کو اور اس (کائنات) کو جو ان دونوں کے درمیان ہے چھ ادوار میں پیدا فرمایا پھر وہ (حسبِ شان) عرش پر جلوہ افروز ہوا (وہ) رحمٰن ہے (اے معرفتِ حق کے طالب) تو اس کے بارے میں کسی باخبر سے پوچھ (بے خبر اسکا حال نہیں جانتے) o‘‘
الفرقان، 25 : 58 - 59
یہ بھی اﷲ تعالیٰ کے پیارے ناموں میں سے ایک نام ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌO
’’اور اللہ بڑا قدر شناس ہے بُردبار ہے۔‘‘
التغابن، 64 : 17
ایک مقام پر اپنے برگزیدہ نبی حضرت نوح علیہ السلام کی توصیف اس نام کے ساتھ فرمائی، ارشاد فرمایا :
ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًاO
’’ (اے) ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح (علیہ السلام) کے ساتھ (کشتی میں) اٹھا لیا تھا، بیشک نوح (علیہ السلام) بڑے شکر گزار بندے تھے۔‘‘
الاسراء، 17 : 3
1۔ اَلْعَلِيْمُ بھی اﷲ تعالیٰ کا مبارک اسمِ گرامی ہے، ارشاد فرمایا :
وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO
’’اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بیشک اﷲ سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
البقرة، 2 : 231
2. وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO
’’اور وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
العنکبوت، 29 : 60
اﷲ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَهَا مِن وِعَاءِ أَخِيهِ كَذَلِكَ كِدْنَا لِيُوسُفَ مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ إِلاَّ أَن يَشَاءَ اللّهُ نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مِّن نَّشَاءُ وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌO
’’پس یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائی کی بوری سے پہلے ان کی بوریوں کی تلاشی شروع کی پھر (بالآخر) اس (پیالے) کو اپنے (سگے) بھائی (بنیامین) کی بوری سے نکال لیا۔ یوں ہم نے یوسف (علیہ السلام) کو تدبیر بتائی۔ وہ اپنے بھائی کو بادشاہ (مصر) کے قانون کی رو سے (اسیر بنا کر) نہیں رکھ سکتے تھے مگر یہ کہ (جیسے) اﷲ چاہے۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں، اور ہر صاحبِ علم سے اوپر (بھی) ایک علم والا ہوتا ہے۔‘‘
يوسف، 12 : 76
الْعَلَّامُ اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ حقیقی ہے اس کے ساتھ ساتھ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے مخفی علوم کے اسرار و رموز سے نوازنے کے باعث اَلْمُعَلِّمُ بھی ہے۔ چنانچہ اپنی اسی صفت کے بارے میں ارشاد فرمایا :
وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًاO
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا کر دیا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔‘‘
النساء، 4 : 113
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کیا اور پھر اسی علمی فیض کو امت میں ان کے حسبِ حال عطا کرنے والے بن گئے اور اَلْمُعَلِّمُ کے مقام پر فائز ہوئے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَO
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
البقرة، 2 : 151
1۔ اَلْوَلِیُّ اور اَلْمَوْلٰی بھی اﷲ تعالیٰ کے مقدس اسماء الحسنیٰ میں سے ہیں، فرمایا :
وَاللّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَO
’’اور اللہ ایمان والوں کا ولی ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 68
2. بَلِ اللّهُ مَوْلاَكُمْ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَO
’’بلکہ اللہ تمہارا مولیٰ ہے، اور وہ سب سے بہتر مدد فرمانے والا ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 150
3. هُنَالِكَ تَبْلُو كُلُّ نَفْسٍ مَّا أَسْلَفَتْ وَرُدُّواْ إِلَى اللّهِ مَوْلاَهُمُ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُم مَّا كَانُواْ يَفْتَرُونَO
’’اس (دہشت ناک) مقام پر ہر شخص ان (اعمال کی حقیقت) کو جانچ لے گا جو اس نے آگے بھیجے تھے اور وہ اللہ کی جانب لوٹائے جائیں گے جو ان کا مالکِ حقیقی ہے اور ان سے وہ بہتان تراشی جاتی رہے گی جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
يونس، 10 : 30
دوسرے مقامات پر اﷲ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جبرئیل علیہ السلام اور صالحین کے لئے ثابت فرمایا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1. إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُواْ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَO
’’بیشک تمہارا (مددگار) دوست تواﷲ اور اس کا رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں۔‘‘
المائدة، 5 : 55
2. النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ.
’’یہ نبیّ (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مؤمنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں اور آپ کی ازواجِ (مطہّرات) اُن کی مائیں ہیں۔‘‘
الاحزاب، 33 : 6
3. إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌO
’’اگر تم دونوں اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو (تو تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تم دونوں کے دل (ایک ہی بات کی طرف) جھک گئے ہیں، اگر تم دونوں نے اس بات پر ایک دوسرے کی اعانت کی (تو یہ نبیء مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے باعثِ رنج ہوسکتا ہے) سو بیشک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے، اور جبریل اور صالح مؤمنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
التحريم، 66 : 4
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنَا اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ.
’’میں مؤمنوں سے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الکفالة، باب الدين، 2 : 805، رقم : 2176
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثه، 3 : 1237، رقم : 1619
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 371
اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ.
’’میں جس کا مددگار ہوں اس کے علی مددگار ہیں۔‘‘
ترمذی، السنن، 5 : 633، أبواب المناقب عن رسول صلی الله عليه وآله وسلم، باب مناقب علي بن أبي طالب رضی الله عنه، رقم : 3713
یہ اﷲ تعالیٰ کا پیارا نامِ نامی ہے، فرمایا :
1. إِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌO
’’بیشک اﷲ درگزر فرمانے والا بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘
الحج، 22 : 60
2. وَإِنَّ اللَّهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌO
’’اور بیشک اﷲ ضرور درگزر فرمانے والا بڑا بخشنے والا ہے۔‘‘
المجادلة، 58 : 2
اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف بھی اس نام کے ساتھ فرمائی ہے۔ ارشاد فرمایا :
1. خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَO
’’ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔‘‘
الاعراف، 7 : 199
2. فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحْ إِنَّ اللّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَO
’’سو آپ انہیں معاف فرما دیجئے اور درگزر فرمائیے، بیشک اﷲ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
المائدة، 5 : 13
اﷲ تعالیٰ کے پاک ناموں میں سے ایک ’’اَلْمُؤْمِنُ‘‘ ہے چنانچہ ارشاد فرمایا :
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَO
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، (حقیقی) بادشاہ ہے، ہر عیب سے پاک ہے، ہر نقص سے سالم (اور سلامتی دینے والا) ہے، امن و امان دینے والا (اور معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے والا) ہے، محافظ و نگہبان ہے، غلبہ و عزّت والا ہے، زبردست عظمت والا ہے، سلطنت و کبریائی والا ہے، اللہ ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘
الحشر، 59 : 23
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی اسی صفت مؤمن کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی :
قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِّلَّذِينَ آمَنُواْ مِنكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌO
’’فرما دیجئے : تمہارے لئے بھلائی کے کان ہیں وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان (کی باتوں) پر یقین کرتے ہیں اور تم میں سے جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لئے رحمت ہیں، اور جو لوگ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘
التوبة، 9 : 61
مسلمان مردوں کو اور عورتوں کو بھی مؤمن کہا گیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى نُورُهُم بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِم . . . .
’’ (اے حبیب!) جس دن آپ (اپنی امت کے) مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں جانب تیزی سے چل رہا ہو گا۔ ۔ ۔‘‘
الحديد، 57 : 12
ایک اور جگہ فرمایا :
مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍO
’’(تمام جہانوں کے لئے) واجب الاطاعت ہیں (کیونکہ ان کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے)، امانت دار ہیں (وحی اور زمین و آسمان کے سب اُلوہی رازوں کے حامل ہیں)۔‘‘
التکوير، 81 : 21
اﷲ تعالیٰ کا ایک اسمِ مقدس اَلْمُہَيْمِنُ ہے جس کا ایک معنی شاہد بھی ہے چنانچہ سورۃ الحشر (58 : 23) میں فرمایا اَلمُھَيْمِنُ ’’یعنی محافظ و نگہبان‘‘
دوسرے مقام پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ شاہدیت کا ذکر یوں فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO
’’اے نبیّ (مکرّم!) بیشک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
الاحزاب، 33 : 45
1۔ اﷲ تعالیٰ نے صفتِ بشارت کے ساتھ اپنی تعریف فرمائی۔ ارشاد ہوا :
أَنَّ اللّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَـى.
’’بیشک اﷲ آپ کو (فرزند) یحییٰ (علیہ السلام) کی بشارت دیتا ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 39
2. يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَانٍ وَجَنَّاتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌO
’’ان کا رب انہیں اپنی جانب سے رحمت کی اور (اپنی) رضا کی اور (ان) جنتوں کی خوشخبری دیتا ہے جن میں ان کے لئے دائمی نعمتیں ہیں۔‘‘
التوبة، 9 : 21
1۔ اﷲ رب العزت کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اسی صفت کو اپنی طرف منسوب کر کے فرمایا :
وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ
’’اور اُس رسولِ (معظّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (آمد آمد) کی بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘
الصّف، 61 : 6
2۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبشر قرار دیتے ہوئے فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO
’’اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا ہی بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 105
3. إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًاO
’’بیشک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لئے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
الفتح، 48 : 8
اﷲ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک اَلْفَتَّاحُ ہے۔ ارشاد فرمایا :
قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُO
’’فرما دیجئے : ہم سب کو ہمارا رب (روزِ قیامت) جمع فرمائے گا پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا، اور وہ خوب فیصلہ فرمانے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘
سبا، 34 : 26
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ’’اَلْفَتْحُ‘‘ قرار دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتح اور خاتم ہیں، درج ذیل آیت مبارکہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف فتح کی ابتداء کرنے والے کے ساتھ فرمائی :
إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَاءَكُمُ الْفَتْحُ.
’’ (اے کافرو!) اگر تم نے فیصلہ کن فتح مانگی تھی تو یقیناً تمہارے پاس (حق کی) فتح آ چکی۔‘‘
الانفال، 8 : 19
اﷲ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ میں سے اَ لْاَوَّلُ وَالْآخِرُ بھی ہے۔ ارشاد فرمایا :
هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO
’’وہی (سب سے) اوّل اور (سب سے) آخر ہے اور (اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے، اور وہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔‘‘
الحديد، 57 : 3
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی شانِ اولیت کے حامل اس صفت سے متصف ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًاO
’’اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور موسیٰ سے اور عیسٰی ابن مریم (علیھم السلام) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘
الاحزاب، 33 : 7
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
نَحْنُ الْآخِرُوْنَ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’روزِ قیامت ہم ہی آخر اور سابق (اوّل) ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 1 : 305، کتاب الجمعة، باب هل علي من لم يشهد الجمعة غسل من
النساء والصبيان، رقم : 856
2. مسلم، الصحيح، 2 : 585،کتاب الجمعة، باب هداية هذه الأمة ليوم الجمعة، رقم : 855
2۔ اسی طرح فرمایا :
نَحْنُ الْآخِرُوْنَ وَالْاَوَّلُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ نَحْنُ اَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ.
’’روزِ قیامت ہم ہی اوّل اور آخر ہوں گے اور ہم ہی دخول جنت میں اول ہیں۔‘‘
مسلم، الصحيح، 2 : 585، کتاب الجمعة، باب هداية هذه الامة ليوم الجمعة، رقم : 855
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أنَا اَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَ اَوَّلُ شَافِعٍ وَ اَوَّلُ مَشَفَّعٍ.
’’روزِ قیامت سب سے پہلے میری قبر شق ہو گی اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 1782، کتاب الفضائل، باب تفضيل نبينا علی جميع الخلائق، رقم : 2278
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا :
کُنْتُ اَوَّلَ النَّبِيّنَ فِی الْخَلْقِ وَ آخِرَهُمْ فِی الْبَعْثِ.
’’میں پیدائش میں تمام انبیاء سے اوّل ہوں اور بعثت میں ان کا آخر۔‘‘
دبلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 282، رقم : 4850
5. کُنْتُ اَوَّلَ النَّاسِ فِی الْخَلْقِ وَ آخِرَهُمْ فِی الْبَعْثِ.
’’میں تمام لوگوں میں بطورِ پیدائش اوّل ہوں اور بلحاظِ بعثت آخر ہوں۔‘‘
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 149
اﷲ تعالیٰ کے مبارک و مقدس ناموں میں سے ایک اَلْقَوِیُّ ہے، ارشاد فرمایا :
1. اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ العَزِيزُO
’’اللہ اپنے بندوں پر بڑا لطف و کرم فرمانے والا ہے، جسے چاہتا ہے رِزق و عطا سے نوازتا ہے اور وہ بڑی قوت والا بڑی عزت والا ہے۔‘‘
الشوریٰ، 42 : 19
2. إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُO
’’بیشک اﷲ ہی ہر ایک کا روزی رساں ہے، بڑی قوت والا ہے، زبردست مضبوط ہے۔ (اسے کسی کی مدد و تعاون کی حاجت نہیں) ۔‘‘
الذاريات، 51 : 58
اﷲتعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں فرمایا :
1. ذِي قُوَّةٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍO
’’جو (دعوتِ حق، تبلیغِ رسالت اور روحانی استعداد میں) قوت و ہمت والے ہیں (اور) مالکِ عرش کے حضور بڑی قدر و منزلت (اور جاہ و عظمت) والے ہیں۔‘‘
التکوير، 81 : 20
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بھی یہی صفت بیان فرمائی :
2. قَالَتْ إِحْدَاهُمَا يَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُO
’’ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا : اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانتدار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں) ۔‘‘
القصص، 28 : 26
3۔ عفریت جن نے بھی اپنی طرف لفظِ قوی منسوب کیا تھا :
قَالَ عِفْرِيتٌ مِّنَ الْجِنِّ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن تَقُومَ مِن مَّقَامِكَ وَإِنِّي عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ أَمِينٌO
’’ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا : میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانتدار ہوں۔‘‘
النمل، 27 : 39
اﷲ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک اَلْحَمِيْدُ ہے جس کے معنی محمود ہیں، ارشاد فرمایا :
1. إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌO
’’بیشک وہ قابلِ ستائش (ہے) بزرگی والا ہے۔‘‘
هود، 11 : 73
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا :
لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُO
’’اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، اور بیشک اﷲ ہی بے نیاز قابلِ ستائش ہے۔‘‘
الحج، 22 : 64
اﷲ رب العزت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی مقامِ محمود کی فضیلت عطا کی، ارشاد فرمایا :
عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاO
’’یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) ۔‘‘
الاسراء، 17 : 79
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اپنے اشعار میں اس طرف کیا خوب اشارہ فرمایا :
وَ شَقَّ لَه مِن اسْمِه لِيُجِلَّه
فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَ هٰذَا مُحَمَّدٌ
’’اﷲ تعالیٰ نے اپنے نام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نکالا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت ہو، پس صاحبِ عرش (اﷲ عزوجل) محمود ہے اور آپ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
اﷲ تعالیٰ کے مبارک ناموں میں سے ایک اَلْمُزَکِّیُ ہے، فرمایا :
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُزَكُّونَ أَنفُسَهُمْ بَلِ اللّهُ يُزَكِّي مَن يَشَاءُ وَلاَ يُظْلَمُونَ فَتِيلاًO
’’کیا آپ نے ایسے لوگوں کو نہیں دیکھا جو خود کو پاک ظاہر کرتے ہیں، بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک فرماتا ہے اور ان پر ایک دھاگہ کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
النساء، 4 : 49
1۔ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس صفت سے متصف کر کے فرمایا :
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَO
’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہیں میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفسًا و قلبًا) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرارِ معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔‘‘
البقرة، 2 : 151
2. لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’بیشک اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
آل عمران، 3 : 164
3. هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘
الجمعة، 62 : 2
اﷲ تعالیٰ کا ایک نامِ مبارک اَلسَّمِيْعُ ہے، ارشاد فرمایا :
1. إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO
’’بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
بنی اسرائيل، 17 : 1
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا :
إِنَّ اللّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًاO
’’بیشک اﷲ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
النساء، 4 : 58
جبکہ سورۃ الدھر میں عام فردِ بشر کو اسی صفت کے ساتھ متصف کیا، ارشاد فرمایا :
فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًاO
’’پس ہم نے اسے سننے والا دیکھنے والا بنایا ہے۔‘‘
الدهر، 76 : 2
اﷲتعالیٰ کا ایک مقدس اسم البَصِيْرُ ہے۔ اور یہ اس کی شان کے لائق ہے۔
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا بَصِيرًاO
’’ بیشک وہ اپنے بندوں سے خوب آگاہ خوب دیکھنے والا ہے‘‘
الاسراء، 17 : 96
2۔ ایک اور مقام پر فرمایا :
وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًاO
’’اور اﷲ ان کاموں کو جو تم کرتے ہو خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
الفتح، 48 : 24
جبکہ انسان بھی اپنے حسبِ حال بصیر ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1. بَلِ الْإِنسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌO
’’بلکہ اِنسان اپنے (اَحوالِ) نفس پر (خود ہی) آگاہ ہو گا۔‘‘
القيامة، 75 : 14
2۔ سورہ یوسف میں اﷲ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا :
اذْهَبُواْ بِقَمِيصِي هَـذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا.
’’میرا یہ قمیص لے جاؤ، سو اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دینا، وہ بینا ہو جائیں گے۔‘‘
يوسف، 12 : 93
3۔ پھر باری تعالیٰ نے بھی ان کے لیے لفظِ بَصِيْرارشاد فرمایا :
فَلَمَّا أَن جَاءَ الْبَشِيرُ أَلْقَاهُ عَلَى وَجْهِهِ فَارْتَدَّ بَصِيرًا.
’’پھر جب خوشخبری سنانے والا آ پہنچا اس نے وہ قمیص یعقوب (علیہ السلام) کے چہرے پر ڈال دیا تو اسی وقت ان کی بینائی لوٹ آئی۔‘‘
يوسف، 12 : 96
مذکورہ بالا صفاتِ مشترکہ کی حقیقت درج ذیل تین توضیحات میں مضمر ہے :
الغرض ایسے اشتراک سے کبھی بھی شرک لازم نہیں آتا بلکہ ان کی صحیح توجیہہ اور تطبیق کرنی چاہئے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved