(1) اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِيْنَ اُوْتُوْا نَصِيْبًا مِّنَ الْکِتٰبِ یُدْعَوْنَ اِلٰی کِتٰبِ اللهِ لِیَحْکُمَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِيْقٌ مِّنْھُمْ وَھُمْ مُّعْرِضُوْنَo ذٰلِکَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلآَّ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ص وَغَرَّهُمْ فِيْ دِيْنِهِمْ مَّا کَانُوْا یَفْتَرُونَo فَکَيْفَ اِذَا جَمَعْنٰهُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَيْبَ فِيْهِ قف وَوُفِّیَتْ کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا یُظْلَمُوْنَo (آل عمران، 3/ 23-25)
کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (علمِ) کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا وہ کتابِ الٰہی کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ (کتاب) ان کے درمیان (نزاعات کا) فیصلہ کر دے تو پھر ان میں سے ایک طبقہ منہ پھیر لیتا ہے اور وہ روگردانی کرنے والے ہی ہیںo یہ (روگردانی کی جرأت) اس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے سوا دوزخ کی آگ مس نہیں کرے گی، اور وہ (اللہ پر) جو بہتان باندھتے رہتے ہیں اس نے ان کو اپنے دین کے بارے میں فریب میں مبتلا کر دیا ہےo سو کیا حال ہوگا جب ہم ان کو اس دن جس (کے بپا ہونے) میں کوئی شک نہیں جمع کریں گے، اور جس جان نے جو کچھ بھی (اعمال میں سے) کمایا ہوگا اسے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گاo
(2) وَ مَنْ يَّبْتَغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ یُّـقْبَلَ مِنْهُ ج وَھُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَo (آل عمران، 3/ 85)
اور جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا، اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگاo
(3) وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْم بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهٗ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِهٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآءَتْ مَصِيْرًاo
(النساء، 4/ 115)
اور جو شخص رسول ( ﷺ ) کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس پر ہدایت کی راہ واضح ہو چکی اور مسلمانوں کی راہ سے جدا راہ کی پیروی کرے تو ہم اسے اسی (گمراہی) کی طرف پھیرے رکھیں گے جدھر وہ (خود) پھر گیا ہے اور (بالآخر) اسے دوزخ میں ڈالیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہےo
(4) اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِيْنَ یُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo (المائدۃ، 5/ 33)
بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo
(5) وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ ج فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَاِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَآ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَo وَلَوْ اَنَّھُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰهُمُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ لا وَقَالُوْا حَسْبُنَا اللهُ سَیُؤْتِيْنَا اللهُ مِنْ فَضْلِهٖ وَرَسُوْلُهٗٓ لا اِنَّآ اِلَی اللهِ رَاغِبُوْنَo (التوبۃ، 9/ 58-59)
اور ان ہی میں سے بعض ایسے ہیں جو صدقات (کی تقسیم) میں آپ پر طعنہ زنی کرتے ہیں، پھر اگر انہیں ان (صدقات) میں سے کچھ دے دیا جائے تو وہ راضی ہو جائیں اور اگر انہیں اس میں سے کچھ نہ دیا جائے تو وہ فوراً خفا ہو جاتے ہیںo اور کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ لوگ اس پر راضی ہو جاتے جو ان کو اللہ اور اس کے رسول ( ﷺ ) نے عطا فرمایا تھا اور کہتے کہ ہمیں اللہ کافی ہے۔ عنقریب ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اس کا رسول ( ﷺ مزید) عطا فرمائے گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف راغب ہیں (اور رسول ﷺ اسی کا واسطہ اور وسیلہ ہے، اس کا دینا بھی اللہ ہی کا دینا ہے۔ اگر یہ عقیدہ رکھتے اور طعنہ زنی نہ کرتے تو یہ بہتر ہوتا)o
(6) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللهَ عَلٰی حَرْفٍ ج فَاِنْ اَصَابَهٗ خَيْرُ نِاطْمَاَنَّ بِهٖ ج وَاِنْ اَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انقَلَبَ عَلٰی وَجْھِهٖ ج قف خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةَ ط ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِيْنُo (الحج، 22/ 11)
اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو (بالکل دین کے) کنارے پر (رہ کر) اللہ کی عبادت کرتا ہے پس اگر اسے کوئی (دنیاوی) بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اس (دین) سے مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر اسے کوئی آزمائش پہنچتی ہے تو اپنے منہ کے بل (دین سے) پلٹ جاتا ہے، اس نے دنیا میں (بھی) نقصان اٹھایا اور آخرت میں (بھی)، یہی تو واضح (طور پر) بڑا خسارہ ہےo
(7) وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِيْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّهٗ ج اِنِّيْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِيْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْهِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَo (المؤمن، 40/ 26)
اور (اپنی سرکشی اور ظلم و اِستبداد سے بے شعور) فرعون بولا: مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کر دوں اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو بلا لے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا ملک (مصر) میں فساد پھیلا دے گاo
(8) وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الحَیٰوةُ الدُّنْیَا وَذَکِّرْ بِهٖٓ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌم بِمَا کَسَبَتْ ق صلے لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اللهِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِيْعٌ ج وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّایُؤْخَذْ مِنْهَا ط اُولٰٓئِکَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا ج لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌم بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَo (الانعام، 6/ 70)
اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھئے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنالیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کیے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کردی جائے (پھر) اس کے لیے اللہ کے سوانہ کوئی مدد گار ہوگا اور نہ کوئی سفارشی اور اگر وہ (جان اپنے گناہوں کا) پورا پورا بدلہ (یعنی معاوضہ) بھی دے تو (بھی) اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے کے بدلے ہلاکت میں ڈال دیے گئے ان کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا پینا ہے اور دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ کفر کیا کرتے تھےo
24۔ عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: سَیَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَھَاءُ الْأَحْـلَامِ یَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، لاَ یُجَاوِزُ إِيْمَانُھُمْ حَنَاجِرَھُمْ، یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوْھُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِھِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔
وأخرجہ أبو عیسی الترمذي عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه فِي السُّنَنِ وَقَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ وَأَبِي سَعِيْدٍ وَأَبِي ذَرٍّ رضي الله عنهم وَھٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ ھٰذَا الْحَدِيْثِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ حَيْثُ وَصَفَ ھٰؤُلَاءِ الْقَوْمَ الَّذِيْنَ یَقرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ۔ إِنَّمَا ھُمُ الْخَوَارِجِ الْحُرَوْرِيَّةِ وَغَيْرِھِمْ مِنَ الْخَوَارِجِ۔
24: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب قتل الخوارج والملحدین بعد إقامۃ الحجۃ علیھم، 6/ 2539، الرقم/ 6531، ومسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی قتل الخوارج، 2/ 746، الرقم/ 1066، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 81، 113، 131، الرقم/ 616، 912، 1086، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب في صفۃ المارقۃ، 4/ 481، الرقم/ 2188، والنسائي في السنن، کتاب تحریم الدم، باب من شھر سیفہ ثم وضعہ في الناس، 7/ 119، الرقم/ 4102، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب في ذکر الخوارج، 1/ 59، الرقم/ 168۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، سو تم انہیں جہاں کہیں پائو تو قتل کر دینا کیوں کہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام ابو عیسیٰ ترمذی نے اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا: یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوںگے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ وہ خوارج کے ہی دیگر گروہوں پر مشتمل لوگ ہوں گے۔
وَفِي رِوَایَةِ زَيْدِ بْنِ وَھْبٍ الْجُھْنِيِّ أَنَّهٗ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوْا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوْا إِلَی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه : أَيَّھَا النَّاسُ، إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ: یَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِراءَتُکُمْ إِلٰی قِرَاءَ تِھِمْ بِشَيئٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلٰی صَلَاتِھِمْ بِشَيئٍ وَلَا صِیَامُکُمْ إِلٰی صِیَامِھِمْ بِشَيئٍ یَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ یَحْسِبُوْنَ أَنَّهٗ لَھُمْ، وَھُوَ عَلَيْھِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُھُمْ تَرَاقِیَھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا یَمْرُقُ السَّھْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ۔ (1)
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ۔
(1) أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الزکاۃ باب التحریض علی قتل الخوارج، 2/ 748، الرقم/ 1066، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 91، الرقم/ 706، وأبو داود في السنن، کتاب السنۃ، باب في قتال الخوارج، 4/ 244، الرقم/ 4768، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 163، الرقم/ 8571، وعبد الرزاق في المصنف، 10/ 147، والبزار في المسند، 2/ 197، الرقم/ 581۔
ایک روایت میں زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لیے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہو گی وہ ایسا (خوب صورت) قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہو گی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لیے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لیے مضر ہو گا، نماز ان کے گلے سے نیچے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
اس حدیث امام مسلم، اَحمد، ابو داود، نسائی اور عبد الرزاق نے روایت کیا ہے۔
25۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ قَالَ: سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ یُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ وَیُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ یَقْرَأُوْنَ الْقُرْآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَھُمْ یَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّھْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ لَا یَرْجِعُوْنَ حَتّٰی یَرْتَدَّ عَلٰی فُوْقِهٖ ھُمْ شَرُّالْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ طُوْبٰی لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوْهُ یَدْعُوْنَ إِلٰی کِتَابِ اللهِ وَلَيْسُوْا مِنْهُ فِي شَيئٍ مَنْ قَاتَلَهُمْ کَانَ أَوْلٰی بِاللهِ مِنْھُمْ قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا سِيْمَاھُمْ؟ قَالَ: التَّحْلِيْقُ۔
وَفِي رِوَایَةِ أَنَسٍ رضي الله عنه : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ نَحْوَهٗ: سِيْمَاھُمْ التَّحْلِيْقُ وَالتَّسْبِيْدُ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَابْنُ مَاجَہ مُخْتَصْرًا وَالْحَاکِمُ۔
25: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 224، الرقم/ 13362، وأبوداود في السنن، کتاب السنۃ، باب في قتال الخوارج، 4/ 243، الرقم/ 4765، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب في ذکر الخوارج، 1/ 60، الرقم/ 169، والحاکم في المستدرک، 2/ 161، الرقم/ 2649۔
حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عنقریب میری امت میں اختلاف اور گروہ بندی ہوگی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ جس کے لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح خارج ہوجائیں گے، جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اور اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ لوگوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کی نشانی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سر منڈوانا۔
ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح فرمایا: ان کی نشانی سر منڈانا اور اکثر منڈائے رکھنا ہے۔ ‘‘
اس حدیث کو امام اَحمد، ابو داود نے مذکورہ الفاظ میں، ابن ماجہ نے اختصار سے اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
26۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : فَیَبْقٰی شِرَارُ النَّاسِ فِي خِفَّةِ الطَّيْرِ، وَأَحْـلَامِ السِّبَاعِ، لَا یَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا یُنْکِرُوْنَ مُنْکَرًا۔
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔
26: أخرجہ مسلم فس الصحیح، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب في خروج الدجال ومکثہ في الأرض، 4/ 2258-2259، الرقم/ 2940، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 166، الرقم/ 6555، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 501، الرقم/ 11629، وابن حبان في الصحیح، 16/ 349-350، الرقم/ 7353۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (ایک وقت ایسا بھی آئے گا) کہ دنیا میں برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو چڑیوں کی طرح جلد باز، بے عقل اور درندہ صفت ہوں گے، وہ نہ تو کسی نیک کام کو نیکی سمجھیں گے اور نہ کسی برے کام کو برائی۔
اس حدیث کو امام مسلم، اَحمد، نسائی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ عَنْهُ قال: لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یَأْخُذَ اللهُ شَرِيْطَتَهٗ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ فَیَبْقٰی فِيْھَا عُجَاجَةٌ لَا یَعْرِفُوْنَ مَعْرُوْفًا وَلَا یَنْکُرُوْنَ مُنْکِرًا۔ (1)
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهٗ رِجَالُ الصَّحِيْحِ۔
(1) أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 2/ 210، الرقم/ 6964، والحاکم في المستدرک، 4/ 481، الرقم/ 8341، وذکرہ الھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 13۔
ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کو زمین والوں سے چھین لے گا، (یعنی اہل دنیا اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں سے محروم ہو جائیں گے) پھر زمین پر خیر سے بے بہرہ لوگ رہ جائیں گے جو کسی نیکی کو نیکی سمجھیں گے اور نہ کسی برائی کو برائی۔
اس حدیث کو امام اَحمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری اور مسلم کو شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
27۔ عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّمَا أَخَافُ عَلٰی أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّيْنَ، وَإِذَا وُضِعَ فِي أُمَّتِي السَّيْفُ لَمْ یُرْفَعْ عَنْهُمْ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَةِ۔
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: وَهٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔
27: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 278، 284، الرقم/ 22447-22448، 22505، وأبو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، 4/ 109، الرقم/ 4343، والترمذي في السنن، کتاب القتن، باب ما جاء في الأئمۃ المضلّین، 4/ 504، الرقم/ 2229، والدارمي في السنن، 1/ 80، الرقم/ 209، وأیضًا، 2/ 401، الرقم/ 2752، وابن حبان في الصحیح، 15/ 109-110، الرقم/ 6714۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے نام نہاد لیڈروں کا ڈر ہے، جب میری امت میں ایک بار تلوار چل گئی تو قیامت تک نہیں رک سکے گی۔
اس حدیث کو امام اَحمد، ابو داود، ترمذی، دارمی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وَفِي رِوَایَةٍ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَيْسَ أَشَدُّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلٰی أُمَّتِي الشَّيْطَانَ وَلاَ الدَّجَّالَ، وَلٰـکِنَّ أَشَدُّ مَا أَتَّقِي عَلَيْهِمُ الأَئِمَّةَ الْمُضِلِّيْنَ۔ (1)
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْمُقْرِئ وَاللَّفْظُ لَهٗ۔
(1) أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 145، الرقم/ 21335، والمقرئ في السنن الواردۃ في الفتن، 1/ 273، الرقم/ 58۔
ایک روایت کے الفاظ ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی امت پر شیطان یا دجال (کے غلبہ) کا اتنا خوف نہیں ہے۔ جتنا مجھے گمراہ کرنے والے (نام نہاد) لیڈروں کا خدشہ ہے۔
اس حدیث کو امام اَحمد اور مقرئ نے مذکورہ الفاظ میں نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved