شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
(آل عمران، 3: 31)
حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ رب العزت نے لاتعداد شانوں اور خصائل سے نوازا ہے۔ ان شانوں میں سے تین شانیں انتہائی اعلیٰ و ارفع ہیں اور ان تین میں سے دو شانیں ایسی ہیں کہ جنھیں انسان اپنے فہم، ادراک، علم اور معرفت سے جان سکتا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ چونکہ ہر شخص کا فہم، ادراک، قابلیت، صلاحیت اور سمجھنے کی استعداد برابر نہیں، لہذا جس کے پاس جتنی استعداد، قابلیت، علم اور معرفت ہے، وہ اُسی قدر جان سکتا ہے۔ مزید یہ کہ جو شخص پھر جتنا جانتا ہے، اُتنا ہی مانتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص آقا علیہ السلام کو کم مانتا ہو تو اُس پر طعنہ زنی نہ کیا کریں کیونکہ وہ کم اِس لیے مانتا ہے کہ وہ آپ ﷺ کو جانتا کم ہے۔ جو جتنا جانے گا، وہ اُتنا ہی مانے گا۔ ہر ایک کے جاننے کی حدود ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَفَوْقَ کُلِّ ذِی عِلْمٍ عَلِیم.
(یوسف، 12: 76)
یعنی ہر علم، سمجھ اور فہم والے سے اوپر ایک علم و فہم والا ہے۔
ان تین شانوں میں سے حضور نبی اکرم ﷺ کی ایک شان ایسی ہے کہ جسے انسانوں میں سے کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ گویا آقا علیہ السلام کی دوشانیں معلوم ہیں اور ایک شان غیر معلوم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اِن تین شانوں کی تفصیل درج ذیل ہے:
حضور نبی اکرم ﷺ کی وہ شان جس کا فہم و ادراک انسان کے بس میں نہیں۔ اِس شان کا عنوان حقیقتِ محمدی ﷺ ہے۔ حقیقتِ محمدی ﷺ کا ادراک کسی انسان کو نہیں۔ یہ شان انسانی فہم، علم، عقل اور صلاحیت و استعداد کی پرواز سے ماوراء ہے۔ یہ سرِّاعظم (بہت بڑا راز ) اور غیبِ اکبر (بہت بڑا غیب) ہے۔ اُس پر فقط ایمان لایا جا سکتا ہے مگر انسانی صلاحیت کے کسی بھی پیمانے سے اس شان کو جانا نہیں جا سکتا۔ اِس غیر معلوم شان کی معرفت صرف اللہ رب العزت کو ہے، مگر اِس شان کے فیض اور خیرات کاحصہ بھی ہر کسی کو اُس کے ظرف کے مطابق ملتا ہے۔ جملہ انبیاء و رسل علیہم السلام میں سے ہر نبی کو اپنی صلاحیت، مقام و مرتبہ، شان اور خصوصیت کے حساب سے حقیقتِ محمدی ﷺ کے خزانے سے فیض ملا۔ جس نبی کو حقیقت محمدی ﷺ کے ساتھ جتنی موافقت، مناسبت اور مطابقت تھی، اُسی قدر فیض اس کے نصیب میں آیا۔
انبیاء علیہم السلام کی آمد کا سلسلہ بند کے ہوجانے کے بعد حقیقتِ محمدی ﷺ کے فیض کا دروازہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت میں اولیاء کاملین اور عرفاء و مجددین کے لیے کھل گیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اُمت کے اولیاء میں سے ہر ولی کو اس کے مرتبہ، صلاحیت اور روحانی مزاج و طبیعت کے مطابق حصہ ملتا ہے، یعنی امت کے اولیاء میں سے جسے جس قدر حقیقتِ محمدی ﷺ کے ساتھ موافقت و مطابقت حاصل ہوتی ہے، اُسی قدر اسے فیض ملتا ہے اور ملتا رہے گا۔
حقیقتِ محمدی ﷺ کا ایک معنی لوحِ محفوظ بھی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوحِ محفوظ تو اللہ رب العزت کے علم کا ایک مقام و مرتبہ ہے تو حقیقتِ محمدی ﷺ لوحِ محفوظ کیسے ہو گئی؟
اِس کو اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ حضور علیہ السلام کے اخلاق کیسے تھے؟اُنہو ں نے جواب دیا کہ
کان خلقه القرآن
’’حضور علیہ السلام کے اخلاق عین قرآن ہیں۔ ‘‘
(أحمد بن حنبل، المسند، 6: 91، الرقم: 24645)
یعنی اگر اخلاقِ محمدی ﷺ کی معرفت چاہتے ہو اور حضور نبی اکرم ﷺ کی صفات اور کمالات کو دیکھنا چاہتے ہو تو قرآن کو دیکھ لو، قرآن اخلاقِ محمدی ہے اور اخلاقِ محمدی ﷺ عینِ قرآن ہیں۔ سیدہ عائشۃ صدیقہؓ نے جب حضور نبی اکرم ﷺ کے اخلاق کو قرآن قرار دے دیا تو آپ رضی اللہ عنہا کے اِس اعلان سے قرآن کی اپنی حقیقت، وجود، شناخت اور اس کے کلامِ الہٰی ہونے کے تشخص کی نفی نہیں ہو رہی۔ قرآن تو قرآن رہا مگر اُس کی ایک الگ شان یہ بھی ظاہر ہوئی کہ وہ اخلاقِ محمدی ﷺ کا بھی عنوان بن گیا۔ پس جس طرح اخلاقِ محمدی ﷺ؛ قرآن ہے اور یہ قرار دینے سے قرآن کے اپنے وجود کی نفی نہیں ہوتی، اِسی طرح اگر حقیقتِ محمدی لوحِ محفوظ بن گئی تو اس سے لوحِ محفوظ کے اپنے وجود کی نفی نہیں ہوتی۔ لوحِ محفوظ کا وجود اپنی جگہ قائم رہا مگر اس کے ساتھ ساتھ لوحِ محفوظ کا ایک اور معنیٰ حقیقتِ محمدی ﷺ کی صورت میں بھی ظاہر ہوگیا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے قرآن؛ کتابِ الہی بھی ہے اور اخلاقِ محمدی ﷺ کی دستاویز بھی ہے۔
حقیقتِ محمدی ﷺ کے لوحِ محفوظ ہونے کا مفہوم درج ذیل آیات سے بھی واضح ہوتا ہے۔
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے کتاب مبین قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
قَدْ جَآئَکُمْ مِّنَ اللهِ نُوْرٌ وَّکِتٰبٌ مُّبِیْنٌ.
(المائدة، 5: 15)
’’بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی حضرت محمد ﷺ ) آگیا ہے اور ایک روشن کتاب (یعنی قرآن مجید)۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ کو بھی کتاب مبین قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَعِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَایَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْن.
(الانعام، 6: 59)
’’اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔‘‘
اس آیت میں ’’کتاب مبین‘‘ سے مراد ’’لوحِ محفوظ‘‘ ہے یعنی عالمِ خلق و امر کی ہر چیز کا علم اللہ نے کتابِ مبین یعنی لوحِ محفوظ میں لکھ دیا ہے۔ معلوم ہوا کہ قرآن بھی کتابِ مبین ہے اور لوحِ محفوظ بھی کتابِ مبین ہے۔
قرآن مجید ایک اور مقام پرفرماتا ہے:
بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ. فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ.
’’بلکہ یہ بڑی عظمت والا قرآن ہے۔ (جو) لوحِ محفوظ میں (لکھا ہوا) ہے۔‘‘
(البروج، 85: 21-22)
دوسرے مقام پر قرآن کہتا ہے:
فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَیٰ قَلْبِکَ بِإِذْنِ للَّہِ.
(البقرة، 2: 97)
’’کیوں کہ اس نے (تو) اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے۔‘‘
یعنی میرے محبوب ﷺ ! یہ قرآن جبرائیل لے کر نازل ہوئے اور آپ کے دل پر ثبت اور محفوظ ہوگیا۔
مذکورہ آیات پر غور کریں تو ایک مقام پر فرمایا کہ قرآن لوحِ محفوظ میں محفوظ ہے، دوسرے مقام پر فرمایا کہ قرآن قلبِ محمدی میں محفوظ ہے۔ اب کیا امر مانع ہے کہ اگر قرآن لوح میں محفوظ ہو تو مانا جائے اور قلبِ محمدی ﷺ میں محفوظ ہو تو نہ مانا جائے۔ پس معلوم ہوا جس جگہ قرآن ثبت ہے، وہی لوحِ محفوظ ہے۔ خواہ وہ عالمِ بالا کی لوحِ محفوظ ہو یا مکہ اور مدینہ میں چلتے ہوئے پیکرِ مصطفی ﷺ کی صورت میں لوحِ محفوظ ہو۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ کے پیکر کو اللہ رب العزت نے لوحِ محفوظ قرار دے دیا۔ لوحِ محفوظ کا ایک مرتبہ وہ ہے جہاں اللہ کا علم رقم ہے اور لوحِ محفوظ کا ایک مرتبہ وہ ہے جہاں اللہ رب العزت کا نور رقم ہے۔
اس حقیقتِ محمدی ﷺ کا فیض کائنات کی ابتداء سے کائنات کی انتہا تک ہر وجود کو اُس کی شان، استعداد، صلاحیت اور مرتبہ کے مطابق مل رہا ہے۔ جس نے جو بھی مرتبہ پایا، حقیقتِ محمدی ﷺ کے فیض سے پایا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اس شان کا ادراک انسانی عقل، علم اور معرفت سے ماوراء ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی وہ دو شانیں جنہیں انسان جانتا ہے یا ہر زمانے میں لوگ جانتے رہے ہیں اور ان کا فہم و ادراک انسان کو حاصل ہے، اُ ن میں سے ایک کا تعلق حضرت اُلوہیت یعنی اللہ رب العزت کے ساتھ ہے۔ یعنی حضور ﷺ کی ہستی کا یہ پہلو اللہ رب العزت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، اسے حضور علیہ السلام کی شان کا ’’متعلق بالخالق‘‘ حصہ کہیں گے۔ اس شان کا ایک ظاہری پہلو ہے اور ایک باطنی پہلو ہے، جس کی تفصیل یہ ہے:
آقا علیہ السلام کی وہ شان جس کا تعلق اللہ رب العزت کی بارگاہ سے ہے، اس کے ظاہری پہلو کا عنوان ’’نبوت ورسالت‘‘ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے والی شان کا ظاہر نبوت و رسالت ہے۔ اس شانِ نبوت کے ذریعے آپ ﷺ اللہ سے وحی، علم، احکام، حکمت اور ہدایت کو وصول کرتے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ’’متعلق بالخالق‘‘ کا باطنی پہلو آپ ﷺ کی ’’شانِ محبوبیت‘‘ ہے۔ اس شانِ محبوبیت کا عالم یہ ہے کہ اللہ رب العزت آپ ﷺ پر جتنا لطف وکرم کرتا ہے، وہ تمام محبوبیت کے پہلو سے کرتا ہے۔ وہ حضور ﷺ کو اکرام دیتا، فضیلت دیتا، عظمت دیتا، اپنی قربت دیتا، آپ کے ذکر کو رفعت دیتا، اپنے ذکر کے ساتھ حضور ﷺ کے ذکر کوجوڑتا، الغرض جتنا کرم کرتا اور آپ ﷺ کو بلندیوں پر فائز کرتا ہے۔ یہ تمام پہلو آقا علیہ السلام کی محبوبیت کے ہیں۔
معلوم ہوا کہ علم، حکمت، وحی، ہدایت، یہ سب کچھ بابِ نبوت سے آقا علیہ السلام کو ملتا جبکہ قربت، رفعت، عظمت اور فضیلت یہ ساری شانیں اور بزرگی بابِ محبوبیت کے ذریعے آپ ﷺ کو ملیں اور اس طرح یہ دونوں چیزیں آقا علیہ السلام کی ذاتِ اقدس میں جمع ہوگئیں۔
آقا علیہ السلام کی ہستی کے تیسرے پہلو اور شان کا تعلق مخلوق کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ ’’تعلق بالخلق‘‘ کی شان بھی اپنا ایک ظاہر اور ایک باطن رکھتی ہے، اس کی تفصیل یہ ہے:
شان ’’متعلق بالخلق‘‘ یعنی مخلوق کے ساتھ جُڑے ہونے کی شان کا ظاہری پہلو ’’بشریت‘‘ کہلاتا ہے۔ اِس شانِ بشریت کے ذریعے مخلوق یعنی انسان حضور نبی اکرم علیہ السلام کے ساتھ جُڑ جاتے ہیں۔ہم سب آقا علیہ السلام کے ساتھ اس بابِ بشریت کے ذریعے جُڑے ہوئے ہیں۔ اگرآقا علیہ السلام پر بشریت کا دروازہ نہ کھولا جاتا، آپ ﷺ کو شانِ بشریت عطا نہ کی جاتی اور آپ ﷺ کو بشریت کے رنگ اور پہلو سے نہ نوازا جاتا تو ہم انسان حضور علیہ السلام سے جُڑ ہی نہ سکتے۔ آقا علیہ السلام کی بشریت اِس لیے ہے کہ اس شانِ بشریت کے ذریعے سے ہی ہمیں آقا علیہ السلام کی سنت، سیرت اور اسوۂ ملتا ہے۔ اس لیے کہ اسی شانِ بشریت کی وجہ سے آپ ﷺ کی ولادت ہوئی، آپ ﷺ کھاتے پیتے، نکاح کرتے، سفر کرتے، ہجرت کی، جہاد کیا، صبر و استقامت کا اظہار کیا، وصال ہوا، الغرض آپ ﷺ کے جملہ معاملات و معمولات، اسوۂ حسنہ، آپ ﷺ کی سنت و سیرت یہ تمام کچھ ہمیں بشریتِ محمدی ﷺ کے صدقے سے ملا ہے۔ اگر بشریت کی شکل میں آپ ﷺ کا ظہور نہ ہوتا تو نہ کوئی آپ ﷺ کو دیکھ سکتا، نہ کوئی آپ ﷺ کو سن سکتا، نہ کوئی آپ ﷺ کی مجلس میں بیٹھ سکتا، نہ آپ ﷺ سے کوئی راہنمائی لے سکتا، نہ آپ ﷺ کی سنت پر کوئی عمل کر سکتا اورنہ کوئی آپ ﷺ کی اتباع کر سکتا۔ آقا علیہ السلام کی بشریت کے ساتھ جُڑے ہوئے ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کی ذات سے ہم راہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور ﷺ کو شان بشریت حضور ﷺ کے لیے عطا نہیں کی گئی بلکہ ہمارے لیے عطا کی گئی ہے تاکہ ہم مصطفی ﷺ سے جُڑسکیں۔ ہم اُنہیں دیکھ اور سن سکیں اور وہ اپنی سیرت ہمیں اُسوۂ حسنہ کی شکل میں عطا کرسکیں، جس کے بارے میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
لَّقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ لِلّٰہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ.
’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اللہ ( ﷺ کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
(الأحزاب، 33: 21)
بشر صرف دروازۂ بشریت سے ہی حضور نبی اکرم ﷺ سے جُڑ سکتا ہے، جبکہ جبرائیل علیہ السلام، ملائکہ، عالمِ ارواح، عرش اور مافوق العرش الغرض جو کچھ عالمِ نور میں ہے، وہ حضور ﷺ سے بابِ نورانیت کے ذریعے جُڑسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور آپ ﷺ کی ہستی پر دروازہ بشریت بھی کھول دیا تاکہ ہم بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب ﷺ کے ساتھ جُڑ سکیں۔پس آقا علیہ السلام بطریقِ نبوت اور بطریقِ محبوبیت جو کچھ اللہ کی بارگاہ سے وصول کرتے ہیں، وہ بطریقِ بشریت ہمیں عطا کرتے ہیں۔
اسے اس مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر ایک پرائمری کلاس کے طالب علم کو پڑھانے کے لیے بہت بڑے فلسفی، سائنسدان اور پی ایچ ڈی اُستا د کو مقرر کردیں تو استاد اور طالب علم دونوں کے ذہنی مرتبے کے فرق کی وجہ سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ استاد وہ کچھ دے نہ سکے گا جو طالب علم کی ضرورت ہے اور طالب علم استاد کی علمی و فکری اعلیٰ پائے کی باتوں کو اپنی ذہنی صلاحیت کے محدود ہونے کی وجہ سے سمجھ نہ پائے گا۔ اس لیے کہ طالب علم کے اندر بلوغ نہیں، اُس کے اندر ابھی فہم کے دروازے نہیں کھلے۔ اسے تو کوئی بچے کی طرح سمجھانے والا ہو گا تو بات سمجھ میں آئے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کو جو بات ماں سمجھا لیتی ہے، وہ باپ بھی نہیں سمجھا سکتا۔ باپ؛ باپ بن کر سمجھاتا ہے جبکہ بچے کو ماں کی ممتا سمجھاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بچہ ماں سے جُڑ جاتا ہے۔ اس لیے کہ ماں؛ بچے کی سطح کے مطابق اُس سے بات کرتی ہے۔
معلوم ہوا کہ لینے والے کی جو سطح اور صلاحیت ہوگی، اگر دینے والے میں اُسی طرح کا گوشہ ہو گا تو پھر اُس میں مناسبت و مطابقت پیدا ہوگی اور دینے والا دے سکے گا اور لینے والا لے سکے گا لیکن اگر یہ مناسبت نہیں ہے تو نہ کوئی دے سکتا ہے اور نہ کوئی لے سکتا ہے۔ اگر مناسبت کے بغیر لینا دینا ہوتاتو اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت دینے کے لیے کسی پیغمبر کو مبعوث ہی نہ کرتا بلکہ براہِ راست بندوں کو ہدایت دیتا، ہر بندے پر وحی بھیجتا اور ہر بندے پر اپنا حکم نازل کرتا۔ اس نے اپنے اور مخلوق کے درمیان میں مناسبت و مطابقت پیدا کرنے کے لیے درمیان میں ایک نبی اور رسول کا واسطہ پیدا کیا۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو جبرائیل اور نبی و رسول کے واسطے کے بغیر اپنے احکامات براہِ راست ہر بندے کو دیتا مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ کیوں؟قرآن مجید نے کہا:
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَن یُکَلِّمَهُ اللہُ.
(الشوری، 42: 51)
’’اور ہر بشر کی (یہ) مجال نہیں کہ اللہ اس سے (براہِ راست) کلام کرے۔‘‘
یعنی بشر اورانسان کے اندر اِتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس سے کلام کرے اور وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھیں۔ اُس کی ایک مثال ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں ملتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:
رَبِّ أَرِنِیٓ أَنظُرْ إِلَیْکَ.
(الأعراف، 7: 143)
’’اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں مگر ان کی درخواست پر اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ: لَنْ تَرٰنِیْ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا اور پھر ایک تجلی فرمائی، جس سے کوہِ طور راکھ ہو گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔
سمجھانا مقصود یہ ہے کہ بندہ اللہ رب العزت کی تجلیات کی حقیقت اپنے پیکرِ بشری کی وجہ سے براہِ راست دیکھ سکتا ہے، نہ سن سکتا ہے اور نہ وصول کرسکتا ہے۔ اس کے لیے اسے درمیان میں ایک واسطہ درکار ہے، یعنی ایک ایسی مشترکہ مناسبت چاہیے جس بنیاد پر لینے والا؛ دینے والے سے جُڑ سکے۔ اللہ رب العز ت نے جو کچھ دینا تھا، آقا علیہ السلام کو طریقِ نبوت و رسالت، طریقِ محبوبیت اور حقیقتِ محمدی کی شکل میں عطا کر دیا۔ اب مقصود تھا کہ یہ سب کچھ جو میں نے عطا کیا ہے، یہ اب بندوں تک بھی پہنچے۔ لہذا اس کے لیے ضروری تھا کہ اُن بندوں کی حقیقت کی مناسبت آقا علیہ السلام کی ذات کے ساتھ بھی قائم کی جائے اور آقا علیہ السلام کی ہستی میں ایک باب اور پہلو ایسا بھی رکھا جائے کہ اُس پہلو سے حضور نبی اکرم ﷺ بشر سے جُڑے ہوئے ہوں۔
جب دینے کے لیے لینے والوں کے ساتھ جُڑنا اور مطابقت ضروری ہے تو جس سے وصول کررہے ہیں، یعنی اللہ کی ذات، اس کے ساتھ بھی کوئی پہلو جُڑا ہوا ہونا ضروری ہے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ صرف بشر اور پیکرِ خاکی ہوں تو مخلوق کو تو دے لیں گے مگر اُس نور ِ حق سے کیسے لیں گے ؟جیسے دینے کے لیے لینے والوں کے ساتھ جُڑنا ضروری ہے، اُسی طرح اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے لینے کے لیے، اُس نورِ حق کے ساتھ بھی ایک مناسبت اور مطابقت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے ساتھ جُڑے تو اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنا رنگ عطاکر دیا، اپنا مظہر بنادیا، اپنے اخلاق و اوصاف ان پر چڑھا دیئے اور اپنا نور انھیں دے دیا۔ دوسری طرف جب وہ فیض انسانوں کو دینا تھا تو پھر آپ ﷺ پر بشریت کا رنگ چڑھا دیا تاکہ مولیٰ سے لے بھی سکیں اور انسانوں کو دے بھی سکیں۔ اِس طرح اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو جامع ہستی بنایا اور یہ مقام عطا کرکے اب فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
(آل عمران، 3: 31)
یعنی میں نے اپنے محبوب ﷺ کو بشریت کے رنگ میں تمہارے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ اب اِن کا اُٹھنا، بیٹھنا، جاگنا، سونا، کھانا، پینا، چلنا، مصافحہ کرنا، ملنا، تعزیت کرنا، عیادت کرنا، جنگ اور امن کے معاملات سے گزرنا، سفر اور حضر کے معاملات سے گزرنا، زخم کھانا، خون کا بہنا، علالت میں سے گزرنا، الغرض زندگی کے سارے معمولات بجالانا، یہ ساری بشری کیفیات تمہارے لیے اُن پر وارد کی ہیں تاکہ جو کچھ تمہاری زندگی میں ہونا ہے، اُس کی مناسبت حضور ﷺ کی زندگی کے ایک گوشے سے بھی ہوجائے اور تمھیں زندگی کے ہر گوشے میں حضور نبی اکرم ﷺ سے راہنمائی مل سکے۔
پس آپ ﷺ کی شانِ بشریت آپ ﷺ کا اُسوہ، سنت اور سیرت ظاہر کرنے کے لیے ہے اور اس سے جب تعلق قائم ہوتاہے تو اسے متابعت کہتے ہیں۔ معلوم ہوا بشریت وہ شان ہے جس کے ذریعے آقا علیہ السلام اپنی اُمت کے سامنے جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی شان ’’متعلق بالخلق‘‘ کا باطنی پہلو حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ عبدیت یعنی بندگی کی شان ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ جس طرح شانِ بشریت میں مخلوق کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں، اسی طرح آقا علیہ السلام عبدیت اور بندگی کی شان میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کیسے ہیں؟اسے دیکھنا ہو تو آپ ﷺ کی عبدیت کو دیکھیں اور جب یہ دیکھنا ہو کہ حضور ﷺ انسانوں کے سامنے کیسے ہیں؟ تو آپ ﷺ کے رنگِ بشریت کو دیکھیں۔ بشریت میں حضور ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتے ہیں اور عبدیت میں آقا علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔
معلوم ہوا حضور نبی اکرم ﷺ کو اللہ رب العزت کی بارگاہ سے چار طریقوں سے نور حاصل ہوا:
1۔ پہلا طریق ’’حقیقتِ محمدی ﷺ ‘‘ کا طریق ہے۔ حقیقتِ محمدی ﷺ سراسر اللہ تعالیٰ کی مظہریت، سراسر نورِ حق، غیب الغیب، غیبِ اکبر، سرِاعظم اور منبعِ فیض ہے۔
2۔ دوسرا طریق ’’نبوتِ محمدی ﷺ ‘‘ ہے
3۔تیسرا طریق ’’محبوبیتِ محمدی ﷺ ‘‘ ہے
4۔ چوتھا طریق ’’عبدیتِ محمدی ﷺ ‘‘ ہے
یہ چاروں دروازے حضور نبی اکرم ﷺ کی بشریت پر کھل رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا نور حقیقتِ محمدی ﷺ کے ذریعے بھی آقا علیہ السلام کے پیکر ِبشری اور جسمِ اطہر پر اُتر رہا ہے۔ نبوت کے طریق سے بھی نورِ حق برس رہا ہے، محبوبیت کے طریق سے بھی اللہ تعالیٰ کا نور حضور نبی اکرم ﷺ پر نچھاور ہو رہا ہے اور عبدیت کے طریق سے بھی اللہ تعالیٰ کا نور حضور نبی اکرم ﷺ پر نازل ہو رہا ہے۔گویا چاروں طرق سے اللہ تعالیٰ کا نور حضور علیہ السلام پر برس رہا ہے۔
ان چاروں طرق سے نور کی بارش کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ﷺ کی بشریت بھی سراسر نور بن گئی۔ جب حقیقتِ محمدی، نبوتِ محمدی، محبوبیتِ محمدی اور عبدیتِ محمدی کا نور بشریت پر آیا تو آپ ﷺ کی بشریت جو پہلے ہی نظافت، لطافت، طہارت اور نورانیت میں کمال پر تھی اور ہماری بشریت کی طرح کا کوئی کثیف پہلو آقا علیہ السلام کی بشریت میں نہیں تھا، تو اب ان چار ذرائع سے نورِ حق اُترا تو بشریت جو پہلے ہی نور کی مانند تھی، اسے چاروں طرق سے نورِ حق نے گھیرلیا تو بشریتِ محمدی سراسر عینِ نور ہوگئی۔
یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کو یہ شان ملی کہ آپ ﷺ کا پیکر بشری تھامگر سورج کی دھوپ میں چلنے کے باوجود سایہ نہ ہوتا۔۔۔ آپ ﷺ بشریت کا پیکر تھے مگر فضلاتِ مبارکہ مطہر تھے، جن سے خوشبو آتی۔۔۔ بشری پیکر تھا مگر پسینہ سے خوشبو آتی۔۔۔ پیکرِ بشری تھا مگر لعابِ دہن سے شفا ہوتی۔۔۔ پیکرِ بشریت تھامگر جسم پر مکھی نہ بیٹھتی، اِس لیے کہ مکھی خاکی پیکر پر بیٹھتی ہے، نوری بشریت پر نہیں بیٹھتی۔ اس طرح آقا علیہ السلام کا پیکرِ بشریت عالم ِ نور سے بھی بلند وبالا بن گیا۔
یہی وجہ ہے کہ جب معراج کی رات آپ ﷺ فوق العرش گئے تو آپ ﷺ کو جسم سمیت لے جایا گیا۔ وہاں روح جا سکتی ہے مگر بشری جسم نہیں جا سکتا تھا مگر چونکہ آپ ﷺ کا بشری جسم عالمِ نور سے زیادہ لطیف تھا بلکہ سدرۃ المنتہی سے اوپر موجود نور کی لطافت سے بھی لطیف تر جسمِ مصطفی ﷺ تھا، اس لیے فرمایا: میرے محبوب! یہ وہ مقام ہے جہاں عالمِ نور بھی رک جاتاہے، اِس مقام سے آگے جبرائیل اور فرشتوں کا نور بھی نہیں جاسکتا، مگر آپ جسمِ بشری کے ساتھ وہاں آجائیں۔ پس آپ ’’فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنَیٰ‘‘ تک اپنے بشری پیکر اور جسم کے ساتھ گئے۔
ہم آقا علیہ السلام کے ساتھ آپ ﷺ کی شانِ بشریت کے پہلو کے ذریعے جُڑتے ہیں اور آقا علیہ السلام اُس عالمِ حق کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ لہذا جو شخص آقا علیہ السلام کی زندگی سے جُڑ جائے، آپ ﷺ کے اُسوہ، اتباع اور متابعت کو اختیار کر لے تو اُس شخص کے باطن اور قلب میں بھی نور آجاتا ہے اور اُس بندے کو حسنِ کردار عطا ہوجاتا ہے۔ ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللهُ.
’’(اے حبیب!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔‘‘
(آل عمران، 3: 31)
اس آیتِ مبارکہ کا پیغام یہ ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو محبت تو یہ چاہتی ہے کہ محبوب کے ساتھ وصال ہو، محبوب سے جُڑ جاؤں، محبوب سے ملوں، اسے دیکھوں اور اس سے باتیں کروں۔ اگر یہ سب چاہتے ہو تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات کے ساتھ جُڑ جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر مجھ سے جُڑنا چاہتے ہو تو میرے محمد ﷺ کے ساتھ جُڑ جاؤ... مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے محمد ﷺ سے ملو... مجھے دیکھنا چاہتے ہو تو میرے محمد ﷺ کو دیکھو... میری بندگی چاہتے ہو تو میرے محمد ﷺ کی غلامی اختیار کرو۔ اس لیے کہ جو میرے محمد ﷺ سے جُڑ جائے گا، وہ مجھ سے جُڑ جائے گا۔ اسی طرح وہ نور جو اللہ کی بارگاہ سے چلا تھا، وہ آقا علیہ السلام کی سیرتِ طیبہ اور متابعت اختیار کرنے کی صورت میں اُمت کو مل جاتا ہے۔ گویا جو بندہ حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں آجائے، اسے نورِ حق کا فیض ملنا شروع ہوجاتا ہے۔
(جاری ہے)
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2021ء
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved