اسلام میں خواتین کے حقوق

کیا عورت آدھی ہے؟

اسلام کے قانون وراثت کا سرسری اور سطحی مطالعہ کرنے والوں کو یہ مغالطہ لگتا ہے کہ عورت کا مرتبہ مرد سے کمتر ہے۔ یہ مغالطہ قرآن حکیم کی درج ذیل آیت مبارکہ کی حکمت صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے :

لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ.

’’ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے۔‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11، 176

تاہم اسلام کے قانون وراثت کا بنظر غائر جائزہ اس مغالطہ کی نفی کرتا ہے۔ اسلام کا قانون وراثت عورت کے حق کی تنصیف یا تخفیف نہیں بلکہ حسن معاشرت و معیشت کے قیام کے تصور پر مبنی ہے۔ اسلام کا قانون وراثت عورت کے تقدس و عظمت کی پاسبانی کرنے والی درج ذیل حکمتوں پر مشتمل ہے :

(1) عورت کا حصہ تقسیم وراثت کی اکائی ہے

متذکرہ بالا آیت مبارکہ کے الفاظ پر غور تقسیمِ میراث کے بنیادی پیمانے کو واضح کرتا ہے۔ یہاں مرد و عورت کا حصہ وراثت بیان کرتے ہوئے عورت کے حصے کو اکائی قرار دیا گیا کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔ یہ نہیں کہا گیا کہ ایک عورت کاحصہ مرد کے نصف حصہ کے برابر ہے۔ بلکہ تقسیم میراث کے نظام میں عورت کے حصہ کو اساس اور بنیاد بنایا گیا اور پھر تمام حصوں کے تعین کے لئے اسے اکائی بنایا گیا۔ گویا میراث کی تقسیم کا سارا نظام عورت ہی کے حصہ کی اکائی کے گرد گھومتا ہے جو درحقیقت عورت کی تکریم و وقار کے اعلان کا مظہر ہے۔

(2) میراث میں حصوں کے تعین کی بنیاد جنس نہیں

چونکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی تمام ضروریات کا کفیل مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ مزید برآں عورت کے لئے روزگار اور معاشی مواقع سے ہر ممکن فائدہ اٹھانے پر کوئی پابندی بھی نہیں لگائی گئی بلکہ عورت کمانے والی بھی ہو تو تب بھی کفالت کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہوگی اور وہ اپنی کمائی خصوصی حق کے طور پر محفوظ رکھ سکتی ہے۔ اگر وہ گھریلو ضروریات کے لئے خرچ کرنا چاہے تو اس کا یہ عمل احسان ہو گا، کیونکہ یہ اس کے فرائض میں شامل نہیں جبکہ مرد کی آمدن چاہے عورت سے کم ہی کیوں نہ ہو پھر بھی کفالت کا ذمہ دار وہی ہوگا۔ اندریں حالات ذمہ داریوں کے تناسب (quantum and proportion of responsiblities) کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک متوازن، مستحکم اور معاشی عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرنے کے لئے ضروری تھا کہ مردوں کو وراثت میں زیادہ حصہ دیا جاتا تاکہ وہ اپنے اوپر عائد جملہ عائلی ذمہ داریوں سے بطور اَحسن عہدہ بر آ ہوسکیں۔ گویا عورت کا حق وراثت مرد سے نصف نہیں کیا گیا بلکہ مرد کا حقِ وراثت اس کی اضافی ذمہ داریوں کی وجہ سے بڑھا دیا گیا ہے۔ اس طرح مرد اور عورت کی معاشرتی، سماجی اور عائلی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مالی توازن قائم کر دیا گیا ہے۔

(3) مرد و عورت کی حقِ وراثت میں برابری

اسلام کے قانون وراثت میں جن رشتہ داروں کو وارث قرار دیا گیا ہے وہ تین اقسام پر مشتمل ہیں :

  1. ذوی الفروض
  2. عصبات
  3. ذوی الارحام

ذوی الفروض وہ رشتہ دار ہیں جن کے حصے مقرر کردیئے گئے ہیں اور ان کے متعلق قرآن حکیم یا احادیث مبارکہ میں واضح احکام موجود ہیں۔ ترکہ کی تقسیم کا آغازذوی الفروض سے ہوتا ہے یعنی ترکہ میں سے پہلے ذوی الفروض کو حصہ ملے گا اس کے بعد عصبات اور پھر ذوی الارحام کو۔ ذوی الفروض درج ذیل مردوں اور عورتوں پر مشتمل ہیں :

ذوی الفروض مرد :

  1. شوہر
  2. باپ
  3. اخیافی (ماں کی طرف سے) بھائی
  4. جدّ صحیح

ذوی الفروض عورتیں :

  1. بیوی
  2. ماں
  3. بیٹی
  4. پوتی
  5. سگی بہن
  6. علاتی (ماں کی طرف سے) بھائی
  7. اخیافی بہن
  8. جدّہ صحیحہ

ذوی الفروض کا چار مردوں اور آٹھ عورتوں پر مشتمل ہونا مردوں اور عورتوں کی نفسِ وراثت میں مساوی شرکت کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ ذوی الفروض میں مردوں کی تعداد سے دو گنا عورتیں شامل کی گئیں اور ان خواتین میں کچھ ایسی بھی ہیں جو شاید براہ راست متوفی کی شرعی کفالت میں نہ آتی ہوں اسکے باوجود یہاں زیادہ عورتوں کو accomodate کیا گیا۔ اس طرح فی الحقیقت تقسیمِ وراثت میں عورت اور مرد برابر ہوگئے یعنی قانونِ الٰہی میں عورت کو کسی طور بھی مرد سے کم درجہ نہیں گردانا گیا بلکہ مرد اور عورت کے حصہ وراثت کا لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ کے قانون کے تحت تعین دراصل ان پر عائد ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مناسب معاشی انتظام کا درجہ رکھتا ہے۔

(4) مرد و عورت کے مساوی حصہ کی نظیر

معاشرے میں بعض مرد و عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن پر عمر رسیدگی یا کسی اور سبب سے مالی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں رہتا یا کم از کم مرد پر عام حالات کی طرح عورت کے مقابلے میں زیادہ بوجھ نہیں ہوتا یعنی وہ دونوں یکساں مالی ذمہ داریوں کے حامل ہو جاتے ہیں۔ یہ مقام اس وقت آتا ہے جب مرنے والے کے والدین زندہ ہوں اور اس متوفی کی اولاد بھی ہو، جب اس صاحب اولاد متوفی کی وراثت تقسیم ہوگی تو اس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکہ کا 1/6 حصہ ملے گا۔

وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ.

’’اور (میت کے) ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو (برابر) ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو۔‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ہے :

وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلاَلَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ.

’’اور اگر کسی ایسے مرد یا عورت کی وراثت تقسیم کی جارہی ہو جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ کوئی اولاد اور اس کا ماں کی طرف سے ایک بھائی یا ایک بہن ہو (یعنی اَخیافی بھائی یا بہن) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے (برابر طور پر) چھٹا حصہ ہے۔‘‘

القرآن، النساء، 4 : 12

اس طرح باوجود یہ کہ وراثت کی تقسیم مرد و عورت کے مابین ہو رہی ہے، یہ برابر ہو گی۔ اگر اسلام کے نظامِ وراثت میں محض مرد ہونے کی وجہ سے عورت کے حصہ سے دو گنا قرار پایا ہوتا یا عورت کاحصہ محض عورت ہونے کی وجہ سے نصف ہوتا تو پھر اس مقام پر جب وہ ماں باپ کی حیثیت سے وراثت لے رہے ہیں یہاں بھی ان کے حصہ کا فرق برقرار رہتا جبکہ یہاں ایسا معاملہ نہیں۔

6۔ عورت کے قانونی حقوق

(1) قانونی شخصیت (legal person) ہونے کا حق

حقوق و فرائض کے تعین میں قانونی شخص کا وجود بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جدید قانون نے حقوق و فرائض کے تعین کے لئے قانونی شخص کو بنیادی قرار دیا ہے۔ Roger Cotterrell کے الفاظ میں :

The concept of the legal person or legal subject defines who or what the law will recognize as a being capable of having rights and duties.(1)

’’قانونی شخص کا تصور اس بات کی توضیح کرتا ہے کہ بطور ایک شخص کے فرد حقوق اور فرائض کی اہلیت سے بہرہ ور ہے۔‘‘

(1) Roger Cotterrell, The Sociology of Law, 2nd ed. Butterworths, London, 1992, pp. 123,124.

ایک دوسرا مفکر G. Paton لکھتا ہے :

Legal personality refers to the particular device by which the law creates or recognizes units to which it ascribes certain powers and capacities.(1)

’’قانونی شخص کا تصور قانون کو وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے قانون مخصوص اختیارات اور قانونی اہلیتوں کے تعین کے لئے بنیاد اخذ کرتا ہے۔‘‘

(1) G.Paton, Textbook of Jurisprudence, 4th ed. OUP, London, 1972, p-392.

مغربی قانونی تاریخ میں پچھلی صدی کے آغاز تک عورت کو non-person کی حیثیت حاصل رہی تھی۔ عورت کو نہ صرف باقاعدہ legal person تسلیم کیا گیا بلکہ مغربی قانونی ساز اداروں (legislatures) کے مختلف قوانین (statutes) میں مذکور "person" یا "man" کے ذیل میں بھی عورت کو کبھی شامل نہیں سمجھا گیا، (1) چونکہ مغرب میں خواتین کے قانونی شخص کو ہی تسلیم نہیں کیا گیا تھا لہٰذا مردوں کے برابر قانونی حقوق کے حصول کے لئے عورتوں کو سالہا سال تک قانونی تشخص کے حصول کی جنگ لڑنا پڑی۔ (2)

(1) W. Blackstone, Commentaries on the Laws of England, Book I, Chapter 15, p. 442.

(2) Cecilia Morgan, "An Embarrassingly and Severely Masculine Atmosphere : Women, Gender and the Legal Profession at Osgoode Hall, 1920s-1960s" (1996) 11 Canadian Journal of Law and Society 19 at 21.

اسلام نے عورت کو قانونی شخص ہونے کا مقام احکام کے اجراء کے ساتھ ہی عطا کر دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًاO

’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم ) فرمادیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقینا کھلی گمراہی میں بھٹک گیاo‘‘

القرآن، الأحزاب، 33 : 36

اس آیہ مبارکہ میں قانون الٰہی کی اطاعت و معصیت کے باب میں عورت اور مرد کا برابر ذکر کر کے یہ حقیقت واضح کر دی گئی ہے کہ عورت اور مرد کے قانونی تشخص میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی جا سکتی۔ قرآن حکیم کی کئی دیگر آیات بھی عورت کے قانونی شخص (legal person) ہونے کی بنیاد فراہم کرتی ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَى بِالْأُنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌO

’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کئے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہیے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کے لئے دردناک عذاب ہےo‘‘

القرآن، البقره، 2 : 178

يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَآؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لاَ تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعاً فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًاO

’’اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے اور مورث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مورث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مورث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مورث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہوگی) تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہےo‘‘

القرآن، النساء، 4 : 11

اسلام کی طرف سے عورت کے قانونی شخص ہونے کا اعتراف ہی اس کے قانونی، سیاسی اور معاشی حقوق کے استحقاق کی بنیاد بنا۔

(2) گواہی کا حق

گواہی کی تعریف یہ ہے کہ انسان جو دیکھے یا سنے اُسے سچ سچ بیان کر دے۔ گواہی دینا مرد پر لازم ہے اور عورتوں کو اس کا حق دیا گیا ہے۔

ارشادِ ربانی ہے :

وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ.

’’اور گواہی کو مت چھپاؤ، جو اسے چھپائے گا اس کا دل گناہ گار ہے۔‘‘

القرآن، البقره، 2 : 283

اس طرح ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :

خير الشهود من أدي شهادته قبل أن يسألها.

’’سب سے اچھے گواہ وہ ہیں جو سوال کئے جانے سے بھی پہلے گواہی دے دیں۔‘‘

ابن ماجه، السنن، کتاب الأحکام، باب الرجل عنده الشهادة، 2 : 792، رقم : 2364

اسی طرح ایک اور آیت ہے :

وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ.

’’اور بنا لو گواہ دو آدمیوں کو تم میں سے اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ بنانا پسند کرو‘‘۔

القرآن، البقره، 2 : 282

اسی طرح یہ آیت ہے :

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِّنكُمْ.

’’دو عادل آدمیوں کو گواہ بنا لو۔‘‘

القرآن، الطلاق، 65 : 2

اسی طرح یہ آیت ہے :

وَأَشْهِدُوْاْ إِذَا تَبَايَعْتُمْ.

’’اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لو۔‘‘

القرآن، البقره، 2 : 282

وہ مسائل جن میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہے

وہ مسائل جن سے مرد آگاہ نہیں ہو سکتے ان میں صرف عورت ہی کی گواہی معتبر ہوگی چاہے گواہی دینے والی ایک ہی عورت ہو :

تجوز شهادة المراة الواحد فيما لا يطلع عليه الرجال.

’’جن امور سے مرد مطلع نہیں ہوسکتے ان میں ایک عورت کی گواہی معتبر ہوگی۔‘‘

عبدالرزاق، المصنف، 7 : 484، رقم : 13978

تجوز شهادة المرأة الواحدة في الرضاع.

’’بچے کی رضاعت میں ایک عورت کی گواہی بھی معتبر ہے۔‘‘

عبدالرزاق، المصنف، 8 : 335، رقم : 15406

و يقبل في الولادة والبکارة والعيوب بالنساء في موضعٍ لا يطلع عليه الرجال شهادة امراة واحد.

’’ولادت اور عورتوں کے وہ معاملات جن سے مرد آگاہ نہیں ہوسکتے وہاں ایک عورت کی گواہی قبول کی جائے گی۔‘‘

مرغيناني، هداية، 2 : 154

ہم یہاں ان معاملات اور مسائل کو بیان کریں گے جن میں مردوں کی گواہی معتبر نہیں، بلکہ صرف عورت کی گواہی معتبر ہے ان مسائل میں علماء کا اتفاق ہے اور کوئی اختلافی رائے نہیں پائی جاتی :

(1) ولادت اور بچے کے رونے پر گواہی

اگر بچہ کی ولادت اور بچے کے رونے کے مسئلے میں کوئی نزاع واقع ہو جائے تو یہاں صرف عورت کی گواہی معتبر ہو گی مرد کی نہیں۔ اس لئے کہ یہ ان اُمور میں سے ہے جن پر اکثر اوقات مرد مطلع نہیں ہو سکتے۔ اس معاملے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائی کی تنہا گواہی جائز قرار دی ہے۔

(2) رضاعت

اسی طرح اگر رضاعت کے معاملے پر اختلاف ہو جائے اور معاملہ قاضی تک پہنچ جائے تو عورت کو یہ حق ہے کہ وہ گواہی دے کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جو عورت کے ساتھ خاص ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا موقف ہے کہ دودھ پلانے والی عورت کی تنہا گواہی قبول کی جائے گی۔ اس لئے کہ بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عقبہ بن حارث نے اُمِ یحییٰ بنت ابی اہاب سے نکاح کیا۔ تو سوداء لونڈی نے آ کر کہا کہ تم دونوں کو میں نے دودھ پلایا تھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُنہوں نے یہ مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

کيف و قد قيل ففارقها و نکحت زوجا غيره.

’’نکاح کیسے (قائم رہ سکتا ہے) اور گواہی دیدی گئی ہے۔ تو عقبہ نے ان سے علیحدگی اختیار کر لی اور بنت ابی اہاب نے کسی اور سے نکاح کر لیا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب إذا شهد شاهد، 2 : 934، رقم : 2497

(3) ماہواری پر گواہی

ماہواری (حیض) کے کسی بھی اختلاف پر بھی گواہی عورت ہی دے سکتی ہے۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق اور عزت و احترام کے اس تذکرے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی تہذیب کے اس مرحلے پر جب عورت کو جانوروں سے بھی بدتر تصور کیا جاتا تھا اور کسی عزت و تکریم کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو وہ حقوق عطا فرمائے جس سے اسے تقدس اور احترام پر مبنی سماجی و معاشرتی مقام نصیب ہوا۔ اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی یہ صرف اسلام کا عطاکردہ ضابطہ حیات ہے جہاں عورت کو تکریم اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت میسر آسکتی ہے۔

7۔ عورت کے سیاسی حقوق

(1) عورت کا ریاستی کردار

اسلام میں عورت کا کردار صرف خاندان یا معاشرے تک ہی محدود نہیں بلکہ اہلیت کی بنیاد پر عورت کو ریاستی سطح پر بھی کردار دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم میں مسلم معاشرے میں ذمہ داریوں کا تعین کرتے ہوئے مرد و خواتین دونوں کو برابر اہمیت دی گئی۔ ارشاد باری تعالی ہے :

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَـئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌO

’’اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں، وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ اد کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہےo‘‘

القرآن، التوبه، 9 : 71

اس آیت مبارکہ میں خواتین اور مردوں کو ایک دوسرے کا اس طرح مددگار ٹھہرایا گیا ہے کہ :

(الف) سماجی و معاشرتی دائرہ میں معروف کے قیام اور منکر کے خاتمے

(ب) مذہبی دائرہ میں اِقامتِ صلوٰۃ

(ج) اقتصادی دائرہ میں نظام زکوۃ کے قیام

(د) سیاسی دائرہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات کی اطاعت کے ذریعے ایک مثالی اسلامی معاشرہ تشکیل دیں۔

(2) رائے دہی کا حق

اسلام نے عورت کو ایک مکمل قانونی فرد تسلیم کرتے ہوئے سربراہ کے چناؤ، قانون سازی اور دیگر ریاستی معاملات میں مردوں کے برابر رائے دہی کا حق دیا ہے۔ عورتوں کو حق رائے دہی دینے کی انسانی، معاشرتی اور تہذیبی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب ہم عورت کے اس حق کے عالمی سطح پر اعتراف کی تاریخ کا جائزہ لیں۔ آج کا جدید معاشرہ صدیوں کی جدوجہد اور نسلی و جنسی امتیاز کی کشمکش سے گزرنے کے بعد انسانی رائے کے تقدس کے شعور کی منزل تک پہنچا ہے۔ قبل اس کے کہ صدیوں پہلے عورت کواسلام کے عطا کردہ حقِ رائے دہی کی تفصیل بیان کی جائے۔ انسانی تکریم و تقدیس کے پیش نظر ہم جدید دنیا میں عورت کے حق رائے دہی کے اعتراف کی تاریخ کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں :

(1) برطانیہ میں عورت کا حقِ رائے دہی

برطانیہ میں عورت کے حق رائے دہی کے لیے جدو جہد کا آغاز 1897ء میں Millicent Fawcett نے National Union of Women's Sufferage کے قیام سے کیا۔ یہ تحریک اس وقت زیادہ زور پکڑ گئی جب 1903میں Emmeline Pankhurst نے Women's Social and Political Union بنائی اور یہ یونین بعد میں Suffragettes کے نام سے مشہور ہوئی۔

برطانیہ کے House of Commons نے 1918ء میں 55 کے مقابلہ میں 385 ووٹوں کی اکثریت سے Representation of People Act پاس کیا جس کے مطابق 30 سال سے زائد عمر کی خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا۔ اگرچہ یہ خواتین کے حق رائے دہی کے اعتراف کا نقطۂ آغاز تھا مگر ابھی عورتوں کو مردوں کے برابر مقام نہیں دیا گیا تھا کیونکہ عام مردوں کے لیے حق رائے دہی کی اہلیت 21 سال اور مسلح افواج کے لئے 19 سال تھی۔

(2) امریکہ میں عورت کا حقِ رائے دہی

امریکہ میں 4 جولائی 1776ء کا اعلان آزادی (The Declaration of Indepedence) جدید جمہوری معاشرے کے قیام کی خشتِ اول سمجھا جاتا ہے مگر اس میں بھی عورت کو بنیادی انسانی حقوق کے قابل نہیں سمجھا گیا۔

Richard N. Current کے مطابق نو آبادیاتی معاشرے کی عورت ہر طرح کے حق سے محروم تھی :۔

In colonial society[L : 133]a married woman had had virtually no rights at all[L : 133]. The Revolution did little to change [this].(1)

’’نو آبادیاتی معاشرے میں ایک شادی شدہ عورت کے کوئی حقوق نہ تھے اور نہ ہی انقلاب آزادی سے اس میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی۔‘‘

(1) Richard N. Current et al., American History : A Survey, 7th ed. (New York : Knopf, 1987), 142.

اسی طرح جب جیفرسن (Jefferson) نے اعلان آزادی میں The people کا لفظ استعمال کیا تو اس سے مراد صرف سفید فام آزاد مرد تھے۔ (1)

(1) Lorna C. Mason et al., History of the United States, vol. 1 : Beginnings to 1877 (Boston : Houghton Mifflin, 1992), 188.

اور آج دو صدیوں بعد بھی امریکہ میں عورت مساوی آزادی و مساوات کے لئے مصروف جدوجہد ہے، (1) کیونکہ :

The Declaration... refers to "men" or "him," not to women.(2)

جان بلم کے الفاظ میں :

[Early American men] would not accept them as equals.(3)

(1) Milton C. Cummings and David Wise, Democracy Under Pressure : An Introduction to the American Political System, 7th ed. (Fort Worth : Harcourt Brace, 1993), 45.
(2) James MacGregor Burns et al., Government by the People, 15th ed. (Englewood Cliffs : Prentice Hall, 1993), 117.
(3) John M. Blum et al., The National Experience : A History of the United States, 8th ed. (Ft. Worth : Harcourt, 1993), 266.

یہی وجہ ہے کہ 1848ء میں Seneca Falls میں ہونے والے تاریخی New York Women's Right Convention کے لیے Declaration of Sentiments لکھتے ہوئے Elizabeth Cady Stanton نے اس بات پر زور دیاکہ اعلان آزادی میں عورت کے نجی اور عمومی مطالبے بھی شامل کیے جائیں۔ (1)

(1) Kerber, Women of the Republic : Intellect and Ideology in Revolutionary America (Chapel Hill : University of North Carolina Press, 1980), xii.

انیسویں صدی کی امریکہ کی عورتوں کے حقوق کی علم بردار Susan B. Anthony کو 1872ء میں صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈالنے پر گرفتار کر لیا گیا اور ایک سو ڈالر کا جرمانہ کیا گیا کیونکہ اسے قانونی طور پر حق رائے دہی حاصل نہیں تھا۔

Susan B. Anthony نے امریکی آئین کے دیباچہ کے درج ذیل مندرجات کی روشنی میں یہ موقف اختیار کیا کہ آئین کی رو سے عورت بھی ایک فرد ہے جسے تمام آئینی حقوق حاصل ہونے چاہئیں:

We, the people of the United States, in order to form a more perfect union, establish justice, insure domestic tranquillity, provide for the common defense, promote the general welfare, and secure the blessings of liberty to ourselves and our posterity, do ordain and establish this Constitution for the United States of America.

’’ہم متحدہ ریاستوں کے عوام ریاستہائے متحدہ امریکہ کے آئین کی تشکیل اور نفاذ کرتے ہیں تاکہ زیادہ مکمل یونین تشکیل دی جاسکے، انصاف قائم ہو، داخلی امن و استحکام یقینی بنایا جائے، مشترکہ دفاع مہیا ہو، فلاح عامہ کا فروغ ہو اوراپنے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے آزادی کی نعمت کا تحفظ کیا جائے۔‘‘

4 جون 1919ء کو امریکی کانگرس اور سینٹ نے امریکی آئین کا 19واں ترمیمی بل منظور کیا جس میں یہ قرار پایا :

Article IXX : "The right of citizens of the United States to vote shall not be denied or abridged by the United States or by any State on account of sex."

’’آرٹیکل 19 : کوئی ریاست یامتحدہ ریاستیں ریاستہائے متحدہ امریکہ کے شہریوں کا حق رائے دہی جنس کی بنیاد پر ختم نہیں کریں گی۔‘‘

امریکہ میں خواتین کو 1920ء تک رائے دہی کا حق حاصل نہ تھا، جب انیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی جس کے تحت یہ حق دیا گیا۔

(3) فرانس میں عورت کا حقِ رائے دہی

7 فروری 1848ء میں فرانس کی عبوری حکومت نے نئی جمہوریہ کے لیے درج ذیل تین حقوق کا لازمی اعتراف کیا :

  1. عمومی حق رائے دہی (Universal Sufferage)
  2. تعلیم (Education)
  3. روزگار (Employment)

مگر اس کے باوجود مساوی آئینی مقام حاصل کرنے کے لیے عورتوں کو کم و بیش 100 سال جدوجہد کرنا پڑی تاآنکہ 1944 میں عورتوں کو حق رائے دہی دیا گیا۔

(4) آسٹریلیا میں عورت کا حقِ رائے دہی

آسٹریلیا میں ملک گیر سطح پر خواتین کو رائے دہی کاحق 1926ء میں دیا گیا جبکہ آسٹریلوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پہلی خاتون Edith Cowan تھی جو مغربی آسٹریلیا کی قانون ساز اسمبلی کی 1921ء میں رکن منتخب ہوئی۔ آسٹریلیا میں خواتین کو بتدریج حق رائے دہی ملنے کی تاریخ درج ذیل ہے :

آسٹریلیا میں عورتوں کے سیاسی حقوق :

First Woman Elected

Right To Sit

Right to Vote

State

1959 1894 1894 South Australia
1921 1920 1899 Western Australia
1943 1902 1902 Commonwealth
1925 LA
1931 LC
1918 LA
1926 LC
1902 New South Wales
1948 1921 1903 Tasmania
1929 1918 1905 Queensland
1933 1923 1908 Victoria

عورتوں کو سب سے پہلے حق رائے دہی دینے والا ملک نیوزی لینڈ تھا جس نے 1893ء میں یہ حق تفویض کیا۔

(5) دیگر ممالک میں خواتین کے سیاسی حقوق :

First Woman Elected

Right To Sit

Right to Vote

Country

1933 1919 1893 New Zealand
1943 1902 1902 Australia
1907 1906 1906 Finland
1936 1907/1913 1907/1913 Norway
1918 1915 1915 Denmark
1918 1918 1918/1928 UK
1919 1918 1918 Germany
1920 1918 1918 Czechoslovakia
1919 1919 1919 Austria
1921 1919 1919 Canada
1918 1917 1919 Netherlands

مندرجہ بالا تفصیل سے یہ بات واضح ہے کہ آج کی جدید دنیا میں عورت کو حق رائے دہی طویل جدوجہد کے بعد بیسویں صدی میں حاصل ہوسکا جس کی مزید تائید دنیا کے 144 ممالک میں عورت کو ملنے والے حق رائے دہی کی درج ذیل تفصیل سے ہوتی ہے :

Year women received right to vote

Country

HDI Rank

1907, 1913 Norway 1
1915 Iceland 2
1861,1921 Sweden 3
1902, 1962 Australia 4
1919 Netherlands 5
1919, 1948 Belgium 6
1920, 1960 United States 7
1917, 1950 Canada 8
1945, 1947 Japan 9
1971 Switzerland 10
1915 Denmark 11
1918, 1928 Ireland 12
1918, 1928 United Kingdom 13
1906 Finland 14
1919 Luxembourg 15
1918 Austria 16
1944 France 17
1918 Germany 18
1931 Spain 19
1893 New Zealand 20
1945 Italy 21
1948 Israel 22
1931, 1976 Portugal 23
1927, 1952 Greece 24
1960 Cyprus 25
1950 Barbados 26
1947 Singapore 27
1945 Slovenia 28
1948 Korea, Rep. of 29
1920 Czech Republic 30
1947 Malta 31
1947 Argentina 32
1918 Poland 33
1948 Seychelles 34
1918 Hungary 35
1920 Slovakia 36
1932 Uruguay 37
1918 Estonia 38
1949 Costa Rica 39
1931, 1949 Chile 40
1921 Lithuania 41
1945 Croatia 42
1961, 1964 Bahamas 43
1918 Latvia 44
1951 Saint Kitts and Nevis 45
1934 Cuba 46
1919 Belarus 47
1946 Trinidad and Tobago 48
1947 Mexico 49
1951 Antigua and Barbuda 50
1937 Bulgaria 51
1941, 1946 Panama 52
1946 Macedonia, TFYR 53
1964 Libyan Arab Jamahiriya 54
1956 Mauritius 55
1918 Russian Federation 56
1954 Colombia 57
1934 Brazil 58
1954 Belize 59
1951 Dominica 60
1946 Venezuela 61
1990 Samoa - Western 62
1924 Saint Lucia 63
1929, 1946 Romania 64
1932 Thailand 65
1919 Ukraine 66
1948 Suriname 67
1944 Jamaica 68
1951 St. Vincent & Grenadines 69
1963 Fiji 70
1955 Peru 71
1961 Paraguay 72
1937 Philippines 73
1932 Maldives 74
1927 Turkmenistan 75
1918, 1921 Georgia 76
1953 Guyana 77
1951 Grenada 78
1942 Dominican Republic 79
1920 Albania 80
1929, 1967 Ecuador 81
1931  Sri Lanka 82
1921 Armenia 83
1975 Cape Verde 84
1949 China 85
1939 El Salvador 86
1962 Algeria 87
1978, 1993 Moldova, Rep. of 88
1946 Viet Nam 89
1930, 1994 South Africa 90
1938, 1952 Bolivia 91
1955 Honduras 92
1963 Equatorial Guinea 93
1924 Mongolia 94
1956 Gabon 95
1946 Guatemala 96
1955 Nicaragua 97
1974 Solomon Islands 98
1989 Namibia 99
1965 Botswana 100
1950 India 101
1975, 1980 Vanuatu 102
1954 Ghana 103
1955 Cambodia 104
1935 Myanmar 105
1964 Papua New Guinea 106
1968 Swaziland 107
1956 Comoros 108
1958 Lao People's Dem. Rep 109
1953 Bhutan 110
1965 Lesotho 111
1963 Congo 112
1945 Togo 113
1946 Cameroon 114
1951 Nepal 115
1957 Zimbabwe 116
1919, 1963 Kenya 117
1962 Uganda 118
1959 Madagascar 119
1950 Haiti 120
1960 Gambia 121
1958 Nigeria 122
1946 Djibouti 123
1955 Eritrea 124
1945 Senegal 125
1958 Guinea 126
1961 Rwanda 127
1956 Benin 128
1959 Tanzania, U. Rep. of 129
1952 Cote d'Ivoire 130
1961 Malawi 131
1962 Zambia 132
1975 Angola 133
1958 Chad 134
1977 Guinea-Bissau 135
1967 Congo, Dem. Rep. of the 136
1986 Central African Republic 137
1955 Ethiopia 138
1975 Mozambique 139
1961 Burundi 140
1956 Mali 141
1958 Burkina Faso 142
1948 Niger 143
1961 Sierra Leone 144

Notes :

1. Data refer to the year in which right to vote or stand for election on a universal and equal basis was recognized. Where two years are shown, the first refers to the first partial recognition of the right to vote or stand for election.

Source :

IPU (Inter-Parliamentary Union). 1995. Women in Parliaments 1945-1995 : A World Statistical Survey. Geneva and IPU (Inter-Parliamentary Union). 2003. Correspondence on year women received the right to vote and to stand for election and year first woman was elected or appointed to parliament. March. Geneva.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved