گستاخانِ رسول … احادیث نبوی ﷺ کی روشنی میں

حصہ اول

بسم اللہ الرحمن الرحيم

1. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه يَقُولُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضی الله عنه إِلَی رَسُولِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اليمن بِذُهَيْبَةٍ فِي أدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَ أقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَ الرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أصْحَابِهِ : کُنَّا نَحْنُ أحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : ألاَ تَأمَنُوْنِي وَ أنَا أمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَ مَسَاءً، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اللہِ، اتَّقِ اللہَ، قَالَ : وَيْلَکَ أوَلَسْتُ أحَقَّ أهْلِ الأرْضِ أنْ يَتَّقِيَ اللہَ؟ قَالَ : ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوليد : يَا رَسُولَ اللہِ! ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، لَعَلَّهُ أنْ يَکُونَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ : وَ کَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أوْمَرْ أنْ أنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلاَ أشُقَّ بُطُونَهُمْ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ : إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اللہِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. وَ أظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اللہ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘

2. وَ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ زَادَ : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رضي اللہ عنه، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللہِ، ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، قَالَ : ثُمَّ أدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اللہِ. فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللہِ ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، فَقَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِی هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُونَ کِتَابَ اللہِ لَيِّنًا رَطْبًا، (وَ قَالَ : قَالَ عَمَّارَةُ : حَسِبْتُهُ) قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

الحديث رقم 2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064.

’’اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘

3. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ : يَا رَسُولَ اللہِ، اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ : ائْذَنْ لِي فَلْأضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ : لَا، إِنَّ لَهُ أصْحَابًا يَحْقِرُ أحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَنْظُرُ إِلَی نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی رِصَافِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی نَضِيِّهِ فَلاَ يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَ الدَّمَ يَخْرُجُونَ عَلَی حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَی يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ المَرْأةِ أوْ مِثْلُ البَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أبُو سَعِيْدٍ : أشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ أشْهَدُ أنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَهُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَی فَأتِيَ بِهِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، و في کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 159، الرقم : 8560.8561، 6 / 355، الرقم : 11220، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 146.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص جو کہ بنی تمیم سے تھا، نے کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔‘‘

4. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَعَثَ عَلِيٌّ رضی الله عنه وَ هُوَ بِاليمن إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتٍِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ أحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْغَزَارِيِّ وَ بَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أحَدِ بَنِي کِلَابٍ وَ بَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أحَدِ بَنِي نَبْهَانَ فَتَغَيَّظَتْ قُرَيْشٌ وَالْأنْصَارُ فَقَالُوْا : يُعْطِيْهِ صَنَادِيْدَ أهْلِ نَجْدٍ وَ يَدَعُنَا، قَالَ : إِنَّمَا أتَألَّفُهُمْ فَأقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِءُ الْجَبِيْنِ، کَثُ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اِتَّقِ اللہَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَمَنْ يُطِيْعُ اللہَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأمَنُنِي عَلَی أهْلِ الْأرْضِ، وَ لَاتَأمَنُوْنِي؟ فَسَألَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أرَاهُ خَالِدَ بْنَ الوليد فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم (وَ فِي رِوَايَةِ أبِي نُعَيْمٍ : فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اللہَ، وَ اعْدِلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأمَنُنِي أهْلُ السَّمَاءِ وَ لَا تَأمَنُوْنِي؟ فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ : أضْرِبُ رَقَبَتَهُ يَا رَسُولَ اللہِ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَذَهَبَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي، فَجَاءَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَقَالَ آخَرُ : أنَا أضْرِبُ رَقَبَتَهُ؟) فَلَمَّا وَلَّی قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُوْنَ أهْلَ الإِسْلَامِ وَ يَدْعُوْنَ أهْلَ الْأوثَانِ لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اللہ تعالي : تعرج الملائکة و الروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، و في کتاب : الأنبياء، باب : قول اللہ عزوجل : و أما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، و أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، و في کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، و في السنن الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2373، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم : 11666، 11713، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 339، الرقم : 12724، 7 / 18، الرقم : 12962، و ابن منصور في کتاب السنن، 2 / 373، الرقم : 2903، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 72، و الشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 345، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 196.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیف قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اللہ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اللہ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔‘‘

5. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أحْدَاثُ الْأسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأحْلَامِ يَقُولُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَولِ الْبَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأيْنَمَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَومَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

و أخرجه أبو عيسي الترمذي عن عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه في سننه و قال : و في الباب عن علي و أبي سعيد و أبي ذرّ رضي الله عنهم و هذا حديث حسن صحيح و قد رُوي في غير هذا الحديث : عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حَيثُ وَ صَفَ هَؤُلَاءِ الْقَومَ الَّذِينَ يقرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. إنما هم الخوارج الحروريّة و غيرهم من الخوارج.

الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، و الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4102، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم : 616، 912، 1086، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم : 37883، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، و البزار في المسند، 2 / 188، الرقم : 568، و أبو يعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، و الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم : 1049، و عبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، و الطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 168.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے بھی اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے لوگ ہوں گے۔‘‘

6. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه‘ قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُاللہِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ : اعْدِلْ يَا رَسُولَ اللہِ! قَالَ : وَ يْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ : دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ‘ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِّهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ. . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين و المعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِءَلَّا ينْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، و في کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، و في کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، و في کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ : ويلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، و نحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، و ابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم : 1083، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و الحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و قال : هذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم : 11554، 14861، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، و نحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، و الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، و أبو يعلي في المسند، 2 / 298، الرقم : 1022، و البخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم : 774.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔‘‘

7. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه يَقُولُ : بَصَرَ عَيْنِي وَ سَمِعَ أُذُنِي رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْجِعْرَانَةِ وَ فِي ثَوبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ وَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْبِضُهَا لِلنَّاسِ يُعْطِيْهِمْ، فَقَالَ رَجُلٌ : اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ؟ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : يَا رَسُولَ اللہِ، دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيْثَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَعَاذَ اللہِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَ أَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُو نُعَيْمٍ.

الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2372.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

8. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّی يَعُودَ السَّهْمُ إِلَی فُوقِهِ، قِيْلَ مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ : سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ أوْ قَالَ : التَسْبِيْدُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

وَ فِي رِوَايَةٍ : عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ : سَألْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيفٍ رضی الله عنه هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ وَ أشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ قَوْمٌ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِألْسِنَتِهِمْ لَا يَعْدُوْا تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، و أبو يعلي في المسند، 2 / 408، الرقم : 1193، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، و قال : إسناده صحيح، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390.

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے۔

اور مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔‘‘

9. عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ الْجُهْنِيِّ أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوا إِلَي الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه : أَيَّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُوْنَ القُرْآنَ لَيْسَ قِراءَتُکُمْ إِلَي قِرَاءَتِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلَي صَلاَتِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صِيَامُکُمْ إِلَي صِيَامِهِمْ بِشَيءٍ يَقْرَءُوْنَ القُرآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. . . الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم : 706، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.

’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘

10. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَکَرَ قَومًا يَکُونُونَ فِي أُمَّتِهِ يَخْرُجُونَ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ سِيْمَاهُمُ التَّحَالُقُ، قَالَ : هُمْ شَرُّالْخَلْقِ (أَوْ مِنْ أَشَرِّالْخَلْقِ) يَقْتُلُهُمْ أَدْنَی الطَّائِفَتَيْنِ إِلَی الْحَقِّ، قَالَ : فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَهُمْ مَثَلاً أَوْ قَالَ قَولاً : الرَّجُلُ يَرْمِی الرَّّمِيَّةَ (أَوْ قَالَ : الْغَرَضَ) فَيَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلاَ يَرَی بَصِيْرَةً وَيَنْظُرُ فِي النَّضِيِّ فَلاَ يَرَی بَصِيرَةً وَيَنْظُرُ فِي الْفُوقِ فَلَا يَرَی بَصِيْرَةً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 10 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، و عبداللہ بن أحمد في السنة : 2 / 622، الرقم : 1482، وقال : إسناده صحيح.

’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بد تر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔‘‘

11. عَنْ أبِي سَلَمَةَ وَ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ : أنَّهُمَا أتَيَا أبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه فَسَألاَهُ عَنِ الْحَرُوْرِيَّةِ أ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَا أدْرِي مَا الْحَرُوْرِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأمَّةِ وَ لَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أوْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ. . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، و في فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم : 4771، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064، و مالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب : ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478، و النسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم : 8089، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم : 11596، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم : 6737، و البخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم : 37920، و أبو يعلي في المسند، 2 / 430، الرقم : 1233، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 935، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 537، الرقم : 2640، و الربيع في المسند، 1 / 34، الرقم : 36.

’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

12. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اللہ عنهما عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : سَيَکُونُ فِي أمَّتِي اخْتِلَافٌ وَ فُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ وَ يُسِيْءُونَ الْفِعْلَ يَقْرَأوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ (وَ فِي رِوَايَةٍ : يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ لَا يَرْجِعُوْنَ حَتَّی يَرْتَدَّ عَلَی فُوْقِهِ هُمْ شَرُّالْخَلْقِ وَ الْخَلِيْقَةِ طُوبَی لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَ قَتَلُوهُ يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اللہِ وَ لَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيءٍ مَنْ قَاتَلَهُمْ کَانَ أوْلَی بِاللہِ مِنْهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُولَ اللہِ مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ : التَّحْلِيقُ.

وَ فِي رِوَايَةٍ : عَنْ أنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ نَحْوَهُ : سِيْمَاهُمْ التَّحْلِيْقُ وَ التَّسْبِيْدُ.

رَوَاهُ أبُودَاوُدَ وَ ابْنُ مَاجَةَ مُخْتَصْرًا وَ أحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.

الحديث رقم 12 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم : 13362، والحاکم في المستدرک، 2 / 161، الرقم : 2649، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم : 2391. 2392، و قال : إسناده صحيح، و أبو يعلي في المسند، 5 / 426، الرقم : 3117، و الطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم : 7553، و المروزي في السنة، 1 / 20، الرقم : 52.

’’حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہو گی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔

ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔‘‘

13. عَنْ شَرِيْکِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ : کُنْتُ أتَمَنَّی أنْ ألْقَی رَجُلاً مِنْ أصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أسْألُهُ عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيْتُ أبَا بَرْزَةَ فِي يَومِ عِيْدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أصْحَابِهِ فَقُلْتُ لَهُ : هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ : نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأذُنِي وَرَأيْتُهُ بِعَيْنِي أتِيَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَالٍ فَقَسَمَهُ، فَأعْطَی مَنْ عَنْ يَمِيْنِهِ وَ مَنْ عَنْ شِمَالِهِ، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَاءَهُ شَيْئًا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ فِي القِسْمَةِ، رَجُلٌ أسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أبْيَضَانِ (وزَادَ أحْمدُ : بَيْنَ عَيْنَيْهِ أثَرُ السُّجُودِ)، فَغَضِبَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْدًا، وَ قَالَ : وَاللہِ، لَا تَجِدُوْنَ بَعْدِي رَجُلًا هُوَ أعْدَلُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ : يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأنَّ هَذَا مِنْهُمْ (وَ فِي رِوَايَةٍ : قَالَ : يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ کَانَ هَذَا مِنْهُمْ هَدْيُهُمْ هَکَذَا) يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُونَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ المَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ أحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصحيح کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.

الحديث رقم 13 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 2 / 312، الرقم : 3566، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 421، والبزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم : 3846، والحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 559، الرقم : 37917، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 452، الرقم 927، والطيالسي في المسند، 1 / 124، الرقم : 923، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، و ابن القيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 1101، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188.

’’حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے دریافت کیا : کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل نے اضافہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر تھا)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید ناراض ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘

14. عَنْ أبِي سَلَمَةَ قَالَ : قُلْتُ لِأبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه : هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکَرُ فِي الْحَرُورِيَةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ يَذْکُرُ قَوْمًا يَتَعَبَّدُونَ (وَ فِي رِوَايَةِ أحْمَدٍ : يَتَعَمَّقُوْنَ فِي الدِّيْنِ) يَحْقِرُ أحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَ صَومَهُ مَعَ صَومِهِمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ أخَذَ سَهْمَهُ فَنَظَرَ فِي نَصْلِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي رِصَافِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا فَنَظَرَ فِي قِدْحِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي الْقُذَذِ فَتَمَارَی هَلْ يَرَی شَيْئًا أمْ لَا. رَوَاهُ ابْنُ ماجة وَ أحْمَدُ.

الحديث رقم 14 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 33، الرقم : 11309، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 557، الرقم : 37909.

’’ابو سلمہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ (یعنی خوارج) کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر فرمایا ہے جو خوب عبادت کرے گی (امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دین میں انتہائی پختہ نظر آئیں گے) اور (یہاں تک کہ) تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھوگے۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گی جیسے تیر شکار سے، کہ آدمی اپنے تیر کو اٹھا کر اس کے پھل کو دیکھے تو اس میں کوئی خون وغیرہ نظر نہ آئے پھر وہ تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں کوئی نشان نہ پائے پھر اس کی نوک کو دیکھے اور کوئی بھی نشان نظر نہ آئے پھر تیر کے پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نظر نہ آئے۔‘‘

15. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ وَ هُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ : ألاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا يُشِيْرُ إِلَی الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

الحديث رقم 15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : نسبة اليمن إلي إسماعيل، 3 / 1293، الرقم : 3320، و في کتاب : بدء الخلق، باب : صفة إبليس و جنوده، 3 / 1195، الرقم : 3105، و مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905، و مالک في الموطأ، کتاب : الاستئذان، باب : ما جاء في المشرق، 2 / 975، الرقم : 1757، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 73، الرقم : 5428، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 25، الرقم : 6649.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : خبردار ہو جاؤ فتنہ ادھر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہو گا۔‘‘

16. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما : أنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُسْتَقْبِلُ الْمَشْرِقِ يَقُولُ : ألَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

الحديث رقم 16 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6680، و مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2228، الرقم : 2905، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 91، الرقم : 5659، و الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 122، الرقم : 387، و المقرئ في السنن الواردة، 1 / 246، الرقم : 43.

’’حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرق کی جانب چہرہ مبارک کرکے فرما رہے تھے : خبردار ہو جاؤ کہ فتنہ اُدھر ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔‘‘

17. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما قَالَ : ذَکَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اللَهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوا : يَا رَسُولَ اللہِ، وَ فِي نَجْدِنَا؟ قَالَ : اللَهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اللَهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي يَمَنِنَا، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللہِ، وَ فِي نَجْدِنَا فَأظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : هُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَ الْفِتَنُ، وَ بِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ التِّرْمِذِيُّ وَ أحْمْدُ.

وَ قَالَ أبُو عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6681، و في کتاب : الاستسقاء، باب : ما قيل في الزلازل و الآيات، 1 / 351، الرقم : 990، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل الشام و اليمن، 5 / 733، الرقم : 3953، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 118، الرقم : 5987، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 290، الرقم : 7301، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 384، الرقم : 13422، و المقري في السنن الواردة في الفتن، 1 / 251، الرقم : 46، و المنذري في الترغيب و الترهيب، 4 / 29، الرقم : 4666.

’’حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پھر) دعا فرمائی : اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (فتنہ وہابیت) وہیں سے نکلے گا۔‘‘

18. أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب : قَولُ اللہِ تَعَالَی : (وَمَا کَانَ اللہُ لِيُضِلَّ قَومًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّی يُبَيِنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ) (التوبة، 9 : 115) وَ کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي اللہ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللہِ، وَ قَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.

و قال العسقلاني في الفتح : و صله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد اللہ بن الأشج : أنَّهُ سَألَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأی ابْنُ عُمَر فِي الْحَرُوْرِيَةِ؟ قَالَ : کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللہِ، انْطَلَقُوا إِلَی آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ.

قلت : و سنده صحيح، و قد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر رضی الله عنه في وصف الخوارج : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَ الْخَلِيْقَةِ. و عند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.

و عند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ : هُمْ شِرَارُ أمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أمَّتِي. وسنده حسن.

و عند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَ الْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَ الْخَلِيْقَةِ. و في حديث أبي سعيد رضی الله عنه عند أحمد : هُمْ شَرُّ الْبَرِيَةِ.

و فِي رواية عبيد اللہ بن أبي رافع عن علي رضي الله عنه عند مسلم : مِنْ أبْغَضِ خَلْقِ اللہِ إِلَيْهِ.

و في حديث عبد اللہ بن خباب رضي الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني : شَرُّ قَتْلَي أظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَ أقَلَّتْهُمُ الْأرْضُ. و في حديث أبي أمامة رضي الله عنه نحوه.

و عند أحمد و ابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج : شَرُّ الْخَلْقِ وَ الْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا.

و عند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه : هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ. و هذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم.

الحديث رقم 18 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب : (5) قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليقة، 2 / 750، الرقم : 1067، و في کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 749، الرقم : 1066، و أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، و النسائي في السنن، الکتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119. 120، الرقم : 4103، و ابن ماجة في السنة، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 170، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، 224، الرقم : 11133، 13362، 4 / 421، 424، 5 / 31، 176، الرقم : 21571، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 387، الرقم : 6939، و ابن أبي شيبة في المصنف،

7 / 557، 559، الرقم : 37905، 37917، و البزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم : 3846، و الحاکم في المستدرک، 2 / 167، الرقم : 2659، و الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 186، الرقم : 6142، 7 / 335، الرقم : 7660، و في المعجم الصغير، 1 / 42، الرقم : 33، و في المعجم الکبير، 5 / 19، الرقم : 4461، 8 / 266، الرقم : 8033، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 188، و أبو يعلي في المسند، 5 / 337، الرقم : 2963، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، 239، و العسقلاني في فتح الباري، 12 / 286، الرقم : 6532، و في تغليق التعليق، 5 / 259، و ابن عبد البر في التمهيد، 23 / 335.

’’امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : اللہ تعالیٰ کا فرمان : ’’اور اللہ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرمادے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔‘‘ اور (عبداللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما ان (خوارج) کو اللہ تعالیٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے۔ (کیونکہ) انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا۔‘‘

اور امام عسقلانی ’’فتح الباری‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار سے بکیر بن عبد اللہ بن اشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ تو انہوں نے فرمایا : وہ انہیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے بد ترین لوگ خیال کرتے تھے۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا۔

میں (ابن حجر عسقلانی) کہتا ہوں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور تحقیق یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری کی خوارج کے وصف والی حدیث میں ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ خَلق اور خُلق میں بدترین لوگ ہیں۔‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ہے۔

اور امام بزار کے ہاں شعبی کے طریق سے وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور ان کو میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے۔‘‘ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔

اور امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اور خُلق والے ہیں اور ان کو بہترین خَلق اور خُلق والے لوگ قتل کریں گے۔‘‘

اور امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ ’’وہ (خوارج) مخلوق میں سے سب سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘

اور امام مسلم نے عبیداللہ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ’’یہ (خوارج) اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘

اور امام طبرانی کے ہاں عبد اللہ بن خباب رضی اللہ عنہ والی حدیث، جو وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں میں ہے کہ ’’یہ بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔

اور امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابو برزہ کی حدیث کو مرفوعا خوارج کے ذکر میں بیان کرتے کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین خَلق اورخُلق والے ہیں۔‘‘ ایسا تین دفعہ فرمایا۔

اور ابن ابی شیبہ کے ہاں عمر بن اسحاق کے طریق سے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’وہ (خوارج) بد ترین مخلوق ہیں۔ ’’اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے۔‘‘

19. عَنْ أبِي غَالِبٍ قَالَ : رَأی أبُو أمَامَةَ رضی الله عنه رُءُوْسًا مَنْصُوْبَةً عَلَی دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَقَالَ أبُو أمَامَةَ رضی الله عنه : کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أدِيْمِ السَّمَاءِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوهُ ثُمَّ قًرَأ : (يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوهٌ) إِلَی آخِرِ الآيَةِ (آل عمران، 3 : 106) قُلْتُ لِأبِي أمَامَةَ : أنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَوْ لَمْ أسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أوْ مَرَّتَيْنِ أوْ ثَلَاثًا أوْ أرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ أحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

وَ قَالَ أبُوعِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اللہ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة آل عمران، 5 / 226، الرقم : 3000، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 256، الرقم : 22262، والحاکم في المستدرک، 2 / 163، الرقم : 2655، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 188، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 248، الرقم : 1279، و في المعجم الکبير، 8 / 271، الرقم : 8044، والمحاملي في الأمالي، 1 / 408، الرقم : 478.479، و عبد اللہ بن أحمد في السنة، 2 / 643، الرقم : 1542.1546، وقال : إسناده صحيح، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 189.

’’ابوغالب نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے مسجدِ دمشق کی سیڑھیوں پر (خارجیوں کے) سر نصب کئے ہوئے دیکھے تو فرمایا : جہنم کے کتے، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں۔ اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ’’جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘ ابوغالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار تک گنا، سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی بارہا سنا ہے)۔‘‘

20. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أنَّهُ کَانَ قَائِمًا عِنْدَ بِابِ عَائِشَةَ رضي اللہ عنهما فَأشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَقَالَ : الْفِتْنَةُ هَاهُنَا حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ أحْمَدُ وَ اللَّفْظُ لَهُ.

الحديث رقم 20 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الخمس، باب : ماجاء في بيوت أزواج النبي صلي الله عليه وآله وسلم و ما نسب من البيوت إليهن، 3 / 1130، الرقم : 2937، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم : 4679، و المقرئ في السنن الواردة في الفتن، 1 / 245، الرقم : 42.

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فتنہ وہاں سے ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔‘‘

21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما أنَّ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ عِنْدَ بَابِ حَفْصَةَ فَقَالَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ : الْفِتْنَةُ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ قَالَهَا مَرَّتَيْنِ أوْ ثَلَاثًَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

الحديث رقم 21 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905.

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس کھڑے ہوئے تھے۔ اپنے دست اقدس سے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فتنہ وہاں سے ہو گا جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ (کلمات) دو یا تین مرتبہ ادا فرمائے۔‘‘

22. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما : أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ يَمَنِنَا مَرَّتَيْنِ فَقَالَ رَجُلٌ : وَ فِي مَشْرِقِنَا يَا رَسُولَ اللہِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ هُنَالِکَ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَلَهَا تِسْعَةُ أَعْشَارِ الشَّرِّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 90، الرقم : 5642، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 249، الرقم : 1889، والروياني في المسند، 2 / 421، الرقم : 1433، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 57، و قال : رجال أحمد رجال عبدالرحمن بن عطاء وهو ثقة.

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں اور ہمارے یمن میں برکت عطا فرما اور ایسا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا : تو ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اور ہمارے مشرق میں (بھی برکت ہو) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہاں سے تو شیطان کا سینگ نکلے گا اور وہاں دس میں سے نو حصوں (کے برابر) شر ہو گا۔‘‘

23. عَنْ أَنَسٍ رضي اللہ عنه قَالَ : ذُکِرَ لِي أَنَّ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ : إِنَّ فِيْکُمْ قَومًا يَعْبُدُونَ وَ يَدْأَبُونَ حَتَّی يُعْجَبَ بِهِمُ النَّاسُ وَ تُعْجِبَهُمْ نُفُوسُهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصحيح.

الحديث رقم 23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 183، الرقم : 12909، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، و قال : رواه أحمد و رجاله رجال الصحيح.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے اور میں نے خود یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم میں ایسے لوگ ہوں گے جو عبادت کریں گے اور اپنی عبادت میں تندہی سے کام لیں گے یہاں تک کہ وہ لوگوں کو بھلے لگیں گے اور وہ خود بھی اپنے آپ پر اترائیں گے حالانکہ وہ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح کہ تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

24. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ رِبَاحِ الْأنْصَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ کَعْبًا رضی الله عنه يَقُولُ : لِلشَّهِيْدِ نُورٌ وَلِمَنْ قَاتَلَ الْحَرُورِيَةَ عَشْرَةُ أَنْوَارٍ (و في رواية ابن أبي شيبة : فَضْلُ ثَمَانِيَةِ أَنْوَارٍ عَلَي نُوْرِ الشُّهَدَاءِ) وَ کَانَ يَقُولُ لِجَهَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا لِلْحَرُوْرِيَةِ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَ ابْنُ أَبِي شيبة.

الحديث رقم 24 : أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 10 / 155، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 557، الرقم : 37911.

’’حضرت عبداللہ بن رباح انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ شہید کے لئے ایک نور ہو گا اور اس شخص کے لئے جو حروریہ (خوارج) کے ساتھ قتال کرے گا دس نور ہوں گے ’’اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : (دیگر) شہداء کے نور کے مقابلہ میں وہ نور آٹھ گنا زیادہ فضیلت رکھتا ہو گا۔‘‘ اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جہنم کے سات دروازے ہیں ان میں سے تین حروریہ (خوارج) کے لئے (مختص) ہیں۔

25. عَنْ حُذَيْفَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّی إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَ کَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَی مَاشَاءَ اللہُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَ نَبَذَهُ وَرَاءَ ظُهْرِهِ وَ سَعَی عَلَی جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اللہِ، أَيُهُمَا أَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ وَالْبُخَارِيُّ فِي التَّارِيْخِ، إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

الحديث رقم 25 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 1 / 282، الرقم : 81، والبزار في المسند، 7 / 220، الرقم : 2793، والبخاري في التاريخ الکبير، 4 / 301، الرقم : 2907، والطبراني عن معاذ بن جبل رضي الله عنه في المعجم الکبير، 20 / 88، الرقم : 169، و في مسند الشاميين، 2 / 254، الرقم : 1291، و ابن أبي عاصم في السنة، 1 / 24، الرقم : 43، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 188، و قال : إسناده حسن، و ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 / 266.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ ایک ایسا آدمی ہے جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ جب اس پر اس قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اللہ نے چاہا اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پس وہ اس قرآن سے دور ہو گیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگایا، راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب تھا شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا۔‘‘

26. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اللہ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہَ صلی الله عليه وآله وسلم عِنْدَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ رضي اللہ عنها يَدْعُو : الَّلهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَ بَارِکْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا وَ يَمَنِنَا ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْمَشْرِقَ فَقَالَ : مِنْ هَاهُنَا يَخْرُجُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ وَالزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ وَمِنْ هَاهُنَا الْفَدَّادُونَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

الحديث رقم 26 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 252، الرقم : 7421، و أبونعيم في المسند المستخرج، 4 / 44، الرقم : 3183.

’’حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے قریب دعا کرتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : ’’اے اللہ! ہمارے مد اور ہمارے صاع (مد اور صاع غلہ ماپنے کے دو آلے ہیں) میں برکت ڈال اور ہمارے شام اور یمن میں برکت عطا فرما، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشرق رخ ہو گئے اور فرمایا : یہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا اور (یہیں سے) زلزلے اور فتنے ظاہر ہوں گے اور یہیں سے سخت گفتار، تکبر کے ساتھ چلنے والے (لوگ ظاہر) ہوں گے۔‘‘

27. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي اللہ عنهم قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی عَدَّهَا زِيَادَةً عَلَی عَشْرَةِ مَرَّاتٍ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی يَخْرُجُ الدَّجَّالَ فِي بَقِيَتِهِمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.

الحديث رقم 27 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 198، الرقم : 6871، والحاکم في المستدرک، 4 / 533، الرقم : 8497، و ابن حماد في الفتن، 2 / 532، و ابن راشد في الجامع، 11 / 377، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 228، والاجري في الشريعة، 1 / 113، الرقم : 260.

’’حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی (صورت) میں نکلے گا وہ کاٹ دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں نکلے گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا فرمایا : ان میں جو بھی (شیطان کے) سینگ کی صورت میں ظاہر ہو گا کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل سے دجال نکلے گا۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved