حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شہداء اور صالحین کی قبور پر تشریف لے جا کر دعا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کا بھی یہ معمول رہا۔ جس سے ثابت ہوا کہ اولیاء کی قبور پر جانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کی سنت ہے۔ ائمہِ حدیث و تفسیر مثلاً امام عبدالرزاق، امام طبری، امام سیوطی اور امام ابنِ کثیر وغیرہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے تھے۔ امام عبدالرزاق (م 211ھ) نے بیان کیا ہے :
عن محمد بن إبراهيم قَالَ کَانَ النَّبِي صلي الله عليه وآله وسلم يَأْتِي قُبُوْرَ الشُّهَدَاءِ عِنْدَ رَأسِ الْحَوْلِ فَيَقُوْلُ : السَّلاَمُ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَي الدَّارِ. قَالَ وَکَانَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ يَفْعَلُوْنَ ذَلِکَ.
’’حضرت محمد بن ابراہیم التیمی سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال کے آغاز میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے : تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے صلہ میں آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ روای نے کہا : حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 3 : 573
2. عيني، عمدة القاري، 8 : 70
امام طبری (م 310ھ) نے اسی روایت کو اپنی تفسیر ’’جامع البیان فی تفسیر القرآن (13 : 142)‘‘ میں، امام سیوطی (م 911ھ) نے اپنی تفسیر (الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور (4 : 641)‘‘ میں اور امام ابنِ کثیر (م 774ھ) نے ’’تفسیر القرآن العظیم (2 : 512)‘‘ میں بیان کیا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رضي الله عنه بَعْدَ وَفَاةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعُمَرَ : انْطَلِقْ بِنَا إِلَي أمِّ أَيْمَنَ نَزُوْرُهَا کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَزُوْرُهَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : چلو حضرت اُم ایمن کی زیارت کرکے آئیں جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، فضائل الصحابة، باب من فضائل أم أيمن، 4 : 1907، رقم : 2454
2. ابن ماجة، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه، 1 : 523، رقم : 1635
3. أبو يعلي، المسند، 1 : 71، رقم : 69
مذکورہ حدیث کی شرح میں امام نووی (م 676ھ) لکھتے ہیں :
فيه زيارة الصّالحين وفضلها وزيارة الصّالح لمن هو دونه، وزيارة الإنسان لمن کان صديقه يزوره، ولأهل ود صديقه، وزيارة جماعة من الرّجال للمرأة الصّالحة وسماع کلامها، واستصحاب العالم والکبير صاحباً له في الزّيارة والعيادة ونحوهما، والبکاء حزناً علي فراق الصّالحين والأصحاب وإن کانوا قد انتقلوا إلي أفضل مما کانوا عليه، واﷲ أعلم.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں صالحین کی زیارت اور اس کی فضیلت کا بیان ہے۔ اسی طرح کسی صالح شخص کا (مقام و مرتبہ کے لحاظ سے) اپنے سے کم درجہ شخص کی ملاقات کے لیے جانا، کسی انسان کا اپنے دوست احباب کی زیارت کرنا، مردوں کا باجماعت کسی نیک اور صالح خاتون کی ملاقات اور اس کی گفتگو سننا، اسی طرح کسی عالم اور بزرگ کا اپنے دوست کو زیارت و ملاقات اور عیادت وغیرہ کے لئے اپنے ساتھ لے جانا، صالحین اور دوست و احباب کی مفارقت پر غمگین ہونا اور رونا اگرچہ وہ اونچے درجے کی طرف منتقل ہوگئے ہوں (بھی اس حدیثِ مبارکہ سے) ثابت ہے۔‘‘
نووي، شرح النووي علي صحيح مسلم، 16 : 9. 10
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ عالیہ میں اولیاء، صالحین اور کامل مومنین کی زیارت کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ جن میں سے چند فرامینِ مبارکہ درج کئے جاتے ہیں۔
امام بخاری اور دیگر ائمہِ حدیث و تفسیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے فرمایا :
مَا يَمْنَعُکَ أَنْ تَزُوْرَنَا أَکْثَرَ مِمَّا تَزُوْرُنَا فَنَزَلَتْ (وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأمْرِ رَبِّکَ لَه مَا بَيْنَ أَيْدِيْنَا وَمَا خَلْفَنَا).
’’جتنی بار تم ہماری زیارت کو آتے ہو؟ تم اس سے زیادہ میرے پاس کیوں نہیں آتے؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (اور جبرئیل میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہو کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر (زمین پر) نہیں اتر سکتے اور جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے درمیان ہے (سب) اسی کا ہے۔‘‘ (مریم، 19 : 64)
1. بخاري، الصحيح، کتاب التفسير، باب وما نتنزل إلا بأمر ربک، 4 : 1760، رقم : 4454
2. ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة مريم، 5 : 316، رقم : 3158
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 231، رقم : 2043
4. نسائي، السن الکبريٰ، 6 : 394، رقم : 11319
5. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 33، رقم : 12385
اس محبت کے جذبات سے لبریز حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو اپنی زیارت کے لئے بار بار آنے کی خواہش کی تاکہ محبوبِ حقیقی کے پیغام کو دیکھ دیکھ کر دیدۂ و دل کو قرار حاصل ہوتا رہے۔ اس سے ائمہ نے یہ نکتہ اخذ کیا ہے کہ کسی صالح شخص کا اپنے نیک صالح دوستوں کو اپنی ملاقات و زیارت کے لئے بلانا بھی جائز و ثابت ہے۔
امام نووی نے اپنی کتاب المجموع میں مذکورہ حدیث سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے :
ويستحب أن يطلب من صاحبه الصالح أن يزوره وأن يزوره أکثر من زيارته لحديث ابن عباس.
’’یہ بات مستحب ہے کہ کوئی شخص اپنے صالح دوست سے اس بات کا تقاضا کرے کہ وہ جتنی بار اس کی زیارت و ملاقات کے لئے آتا ہے اس سے زیادہ مرتبہ آئے اور یہ بات حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے ثابت ہے۔‘‘
نووي، المجموع، 4 : 518
1. حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّينَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَزَاوِرِينَ فِيَّ، وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ.
’’میری محبت واجب ہو گئی : میری خاطر آپس میں محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے۔‘‘
1. مالک، الموطأ، 2 : 953، رقم : 171
2. ابن حبان، الصحيح، 2 : 335، رقم : 575
3. حاکم، المستدرک، 4 : 186، رقم : 7314
اس حدیث کو امام مالک نے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
2۔ حضرت ادریس خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد دمشق میں داخل ہوا تو اچانک میں نے ایک خوبصورت چمکتے ہوئے دانتوں والا نوجوان دیکھا جس کے ساتھ کچھ لوگ تھے (ایک روایت میں ہے : اس نوجوان کے ساتھ بیس صحابہ اور ایک روایت میں تیس صحابہ تھے) جب وہ کسی چیز میں اختلاف کرتے تو اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اس کے اقوال سے مدد لیتے۔ میں نے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا :
هَذَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی الله عنه، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ هَجَّرْتُ، فَوَجَدْتُهُ قَدْ سَبَقَنِي بِالتَّهْجِيرِ، وَوَجَدْتُهُ يُصَلِّي، قَالَ : فَانْتَظَرْتُهُ حَتَّي قَضَي صَلَاتَهُ، ثُمَّ جِئْتُهُ، مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ قُلْتُ : وَاﷲِ إِنِّي لَأحِبُّکَِللّٰهِ، فَقَالَ : أَاﷲِ؟ فَقُلْتُ : أَاﷲِ، فَقَالَ : أَاﷲِ؟ فَقُلْتُ : أَاﷲِ، فَقَالَ أَاﷲِ؟ فَقُلْتُ : أَاﷲِ، فَأَخَذَ بَحَبْوِ رِدَائِي. (وفي رواية : بِحَبْوَتَي رِدَائِي) فَجَذَبَنِي إِلَيْهِ، وَقَالَ : أَبْشِرْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : قَالَ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَي : وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتًزَاوِرِيْنَ فِيَّ، وَالْمُتَبَاذِلِينَ فِيَّ.
’’یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں، جب اگلا دن ہوا تو میں جلدی سے مسجد پہنچا وہاں میں نے اس نوجوان کو خود سے پہلے وہاں پہنچا ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ آپ کہتے ہیں : میں نے ان کا انتظار کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے۔ پھر میں ان کے پاس ان کے سامنے سے آیا۔ میں نے انہیں سلام کیا، اور پھر عرض کیا : خدا کی قسم! میں آپ سے اللہ تعالیٰ کے واسطے محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا : کیا واقعی اللہ تعالیٰ کے لیے؟ میں نے کہا : ہاں اﷲتعالیٰ کے لیے۔ انہوں نے پھر پوچھا : اللہ تعالیٰ کے لیے؟ میں نے کہا : ہاں اﷲتعالیٰ کے لیے۔ انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑا (اور ایک روایت میں ہے میری چادر کے دونوں کنارے پکڑے) اور مجھے اپنی طرف کھینچ کرفرمایا : تمہیں خوشخبری ہو، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر آپس میں بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہے۔‘‘
1. مالک، الموطأ، 2 : 953، رقم : 1711
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 233، رقم : 22083
3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 335، رقم : 575
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرُفًا تُرَي ظَوَاهرُهَا مِنْ بَوَاطِنِهَا، وَبَوَاطِنِهَا مِنْ ظَوَاهرِهَا أَعَدَّهَا اﷲُ لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيْهِ وَالْمُتَزَاوِرِيْنَ فِيْهِ وَالْمُتَبَاذِلِيْنَ فِيْهِ.
’’جنت کے اندر کئی قیام گاہیں ایسی ہیں جن کی بیرونی زیب و زینت اندر سے اور اندرونی خوبصورتی باہر سے دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ اﷲتعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے تیار فرمائے ہیں جو اﷲتعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں، اُسی کی خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور اسی کی خوشنودی کے لئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 193، رقم : 3903
2. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 248، رقم : 3896
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 278
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَنَّ رَجُلاً زَارَ أَخًا لَهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرٰي، فَأَرْصَدَ اﷲُ لَهُ عَلَي مَدْرَجَتِهِ مَلَکاً، فَلَمَّا أَتَي عَلَيْهِ قَالَ : أَيْنَ تَرِيْدُ؟ قَالَ : أَُرِيْد أَخًا لِي فِي هَذِهِ الْقَرْيَةِ، قَالَ : هَلْ لَکَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ : لَا، غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اﷲِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ : فَإِنِّي رَسُوْلُ اﷲِ بِأَنَّ اﷲَ قَدْ أَحَبَّکَ کَمَا أَحْبَبْتَهُ فِيْهِ.
’’ایک شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملنے کسی دوسرے گاؤں چلا گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ اس کے انتظار میں بٹھا دیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو فرشتہ نے پوچھا، تیرا ارادہ کہاں جانے کا ہے؟ اس نے جواب دیا : اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتہ نے پوچھا، کیا تم نے اس پر کوئی احسان کیا تھا جس کا بدلہ حاصل کرنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ مجھے اس سے صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت ہے۔ تب اس فرشتہ نے کہا : میں تمہارے پاس اﷲتعالیٰ کا یہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کرتے ہو اسی طرح اﷲ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة، باب في فضل الحب في اﷲ، 4 : 1988، رقم : 2567
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 408، رقم : 9280
3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 331، رقم : 572
امام نووي (م 676ھ) لکھتے ہیں :
وفيه فضيلة زيارة الصّالحين والأصحاب.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں زیارتِ صالحین اور دوست احباب کی ملاقات کی فضیلت کا بیان ہے۔‘‘
نووي، شرح النووي علي صحيح مسلم، 16 : 124
1۔ ائمہِ احناف میں سے علامہ عبدالرحمٰن عمادی حنفی نے زیارتِ صالحین کو مقبولِ بارگاہ عمل قرار دیا ہے، لکھتے ہیں :
إن زيارة الصالحين من أقرب القربات وهي لاستمطار سحائب البرکات ومن الأمور المجرّبات وقد أمرنا بالتّعرّض للنفحات ولا شک أن مواطنهم من أکبر مظنات إجابة الدعوات.
’’بے شک صالحین کی زیارت بلند درجہ باعث ثواب عمل ہے۔ یہ ان آزمودہ اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ برکات کی بارش ہوتی ہے۔ ہمیں (ان کی برکات کے) عطیات کو حاصل کرنے کا حکم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی قیام گاہیں قبولیتِ دُعا کے لئے مجرب جگہیں تصور کی جاتی ہیں۔‘‘
عمادي، الروضة الريا فيمن دفن بداريا، 1 : 55
یاد رہے کہ علامہ عمادی نے مذکورہ کتاب دمشق کی ایک بستی ’’داریا‘‘ میں مدفون صالحین کے بارے میں لکھی ہے اور بیان کیا ہے کہ کن کن مقبولِ بارگاہ ہستیوں کے یہاں مزارات ہیں۔ اسی بستی ’’داریا‘‘ کی نسبت سے علماء اپنے ناموں کے ساتھ دارانی لکھتے ہیں۔
2۔ علامہ ابن الحاج الفاسی المالکی (م 737ھ) نے اپنی مشہور تصنیف ’’المدخل‘‘ میں زیارتِ قبور کے احکام حُسنِ ترتیب کے ساتھ تفصیل سے لکھے ہیں۔ زیارتِ اولیاء و صالحین کے حوالے سے انہوں نے لکھا ہے :
وينبغي له أن لا يخلي نفسه من زيارة الأولياء والصّالحين الذين برؤيتهم، تحي القلوب الميتة، کما تحي الأرض، بوابل المطر فتنشرح بهم الصدور الصلبة، و تهون برؤيتهم الأمور الصعبة، اذ هم وقوف علي باب الکريم المنّان، فلا يردّ قاصدهم ولا يخيب مجالسهم ولا معارفهم ولا محبهم. اذ هم باب اﷲ المفتوح لعباده، ومن کان کذالک فتعين المبادرة إلي رؤيتهم، واغتنام برکتهم ولأنه برؤية بعض هؤلاء يحصل له من الفهم والحفظ وغيرهما ما قد يعجز الواصف عن وصفه، ولأجل هذا المعني تري کثيراً ممن اتصف بما ذکر له البرکة العظيمة في علمه و في حاله فلا يخلي نفسه من هذا الخير العظيم لکن بشرط أن يکون محافظاً علي اتّباع السّنّة في ذلک کله.
’’متعلم کے لئے ضروری ہے کہ ان اولیاء و صالحین کی زیارت سے اپنے آپ کو علیحدہ نہ کرے جن کی زیارت سے مُردہ دل اس طرح زندہ ہوتے ہیں جس طرح زمین موسلادھار بارش سے زندہ ہوتی ہے۔ ان کی زیارت سے پتھر دل نرم و کشادہ ہوتے ہیں۔ ان کی زیارت کی برکت سے مشکل اُمور آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اﷲتعالیٰ جو کریم اور منان ہے اس کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں۔ وہ ان کے ارادوں کو رد نہیں فرماتا اور ان کے ہم مجلس، ان کی پہچان رکھنے والوں اور ان سے محبت کرنے والوں کو ناکام و نامراد نہیں کرتا۔ اس لئے کہ وہ اﷲتعالیٰ کا بابِ رحمت ہیں جو اس کے بندوں کے لئے کھلا رہتا ہے۔ پس جو بندۂ خدا ایسی صفات سے متصف ہو اس کی زیارت اور اس کی برکت سے مستفیض ہونے کے لئے جلدی کرنی چاہیے کیونکہ ان میں بعض ہستیوں کی زیارت کرنے والے کو ایسا فہم، برکت اور حافظہ نصیب ہوتا ہے کہ بیان کرنے سے باہر ہے۔ اسی معنی کی بدولت آپ بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کہ ان کو علم و حال میں کثیر برکت ملی۔ اس نعمت کی قدر کرنے والا خود کو اس عظیم خیرو برکت سے علیحدہ نہیں کرتا لیکن شرط یہ ہے کہ جس کی زیارت کی جائے وہ ان تمام اُمور میں سنت کا محافظ اور تابع شریعت ہو۔‘‘
ابن الحاج، المدخل، 2 : 139
3۔ علامہ ابن الحاج نے امام ابو عبداﷲ بن نعمان کی کتاب’’سفینۃ النجاء لاھل الالتجاء‘‘ جس میں انہوں نے شیخ ابی النجار کی کرامات کا بیان کیا ہے، کے حوالے سے لکھا ہے :
أن زيارة قبور الصّالحين محبوبة لأجل التّبرّک مع الاعتبار فإن برکة الصّالحين جارية بعد مماتهم کما کانت في حياتهم والدّعاء عند قبور الصّالحين والتشفع بهم معمول به عند علمائنا المحققين من أئمة الدين، انتهي.
’’حصولِ برکت کے لیے قبورِ صالحین کی زیارت مستحب عمل ہے کیونکہ صالحین کی برکات جس طرح ان کی زندگی میں فیض رساں ہوتی ہے اسی طرح ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے اور صالحین کی قبروں کے پاس دعا کرنا اور ان سے شفاعت طلب کرنا ائمۂ دین اور علماءِ محققین کا معمول رہا ہے۔‘‘
ابن الحاج، المدخل، 2 : 255
4۔ اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن الحاج نے لکھا ہے :
من کانت له حاجة فليذهب إليهم وليتوسّل بهم بقوله عليه الصلاة والسلام (لا يشد الرحال إلا لثلاثة مساجد المسجد الحرام ومسجدي والمسجد الأقصي) انتهي. وقد قال الإمام الجليل أبو حامد الغزالي في کتاب آداب السفر من کتاب الإحياء له ماهذا نصه. القسم الثاني وهو أن يسافر لأجل العبادة، إما لجهاد أو حج إلي أن قال : ويدخل في جملته زيارة قبور الأنبياء وقبور الصّحابة والتّابعين وسائر العلماء والأولياء وکل من يتبرّک بمشاهدته في حياته يتبرّک بزيارته بعد وفاته. ويجوز شدّ الرحال لهذا الغرض ولا يمنع من هذا، قوله صلي الله عليه وآله وسلم : (لاتشدّ الرِحال إلا لثلاثة مساجد المسجد الحرام ومسجدي والمسجد الأقصي) لأن ذلک في المساجد لأنها متماثلة بعد هذه المساجد والا فلا فرق بين زيارة الأنبياء، والأولياء، والعلماء في أصل الفضل، وإن کان يتفاوت في الدرجات تفاوتاً عظيماً بحسب اختلاف درجاتهم عند اﷲ عزوجل. اﷲ تعالٰي أعلم.
’’جس شخص کو کوئی حاجت درپیش ہو اسے چاہے کہ وہ صالحین کی قبروں اور ان کے مقابر پر جائے اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ پیش کرے۔ یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی طرف جانے کے لئے سامانِ سفر نہ باندھا جائے، مسجدِ حرام، میری مسجد اور مسجدِ اقصیٰ، امام غزالی نے احیاء العلوم کے آدابِ سفر میں بیان کیا ہے کہ عبادات کے لیے سفر کیا جائے مثلاً جہاد اور حج کے لیے اور اس کے بعد فرمایا کہ اس میں انبیاء علیھم السلام، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور تمام علماء اور اولیاء اﷲ کی قبروں کے لیے سفر کرنا بھی اس عملِ خیر میں شامل ہے اور ہر وہ شخص جس کی زیارت اور اس سے برکت حاصل کرنے کے لیے اس کی زندگی میں سفر کرنا جائز ہے۔ اس کی موت کے بعد اس کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا بھی جائز ہے حدیث مبارکہ کہ’’ ان تین مساجد کے سوا کسی اور مسجد کی زیارت کے لیے سامان سفرنہ باندھا جائے‘‘ میں اس مقصد کے لیے سفر کی ممانعت نہیں، کیونکہ یہ حکم زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے مساجد کی طرف سفر کرنے سے متعلق ہے ان تینوں مساجد کے علاوہ دیگر تمام مسجدیں ثواب میں برابر ہیں۔ ورنہ (اگر ہر سفر کو ناجائز قرار دیا جائے) تو انبیاء علیھم السلام اولیاء اﷲ اور علماء کی زیارت میں اصلاً کوئی فضلیت باقی نہیں رہے گی اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کے مقام و مرتبہ میں ان کے درجات کے مطابق بہت بڑا فرق ہے۔‘‘
ابن الحاج، المدخل، 2 : 255، 256
علامہ ابن الحاج ہی نے انبیاء علیھم السلام کی قبورِ مقدسہ کی زیارت کا بھی طریقہ بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وأما عظيم جناب الأنبياء والرّسل صلوات اﷲ وسلامه عليهم أجمعين، فيأتي إليهم الزائر ويتعين عليه قصدهم من الأماکن البعيدة، فإذا جاء إليهم فليتصف بالذل، والانکسار، والمسکنة والفقر، والفاقة، والحاجة، والاضطرار، والخضوع، ويحضر قلبه، وخاطره إليهم، وإلي مشاهدتهم بعين قلبه، لا بعين بصره، لأنهم، لا يبلون ولا يتغيرون، ثم يثني علي اﷲ تعالٰي بما هو أهله، ثم يصلي عليهم ويترضي عن أصحابهم، ثم يترحم علي التّابعين لهم بإحسان إلي يوم الدين، ثم يتوسّل إلي اﷲ تعالٰي بهم في قضاء مآربه، ومغفرة ذنوبه، ويسغيث بهم، ويطلب حوائجه منهم، ويجزم بالإجابة ببرکتهم، ويقوي حسن ظنه في ذلک فإنهم باب اﷲ المفتوح. وجرت سنته سبحانه وتعالٰي في قضاء الحوائج علي أيديهم، وبسببهم، ومن عجز عن الوصول إليهم فليرسل بالسّلام عليهم ويذکر ما يحتاج إليه من حوائجه ومغفرة ذنوبه، وستر عيوبه إلي غير ذلک، فإنهم السادة الکرام، والکرام لا يردّون من سألهم، ولا من توسّل بهم، ولا من قصدهم، ولا من لجأ إليهم.
’’جہاں تک انبیاء و رسل کرام علیہم السلام کی عظیم بارگاہوں میں حاضری کا تعلق ہے تو ان عظیم مقامات مقدسہ کے آداب یہ ہیں کہ زائر مسافت بعیدہ سے ان کی زیارت کا ارادہ کرکے چلے۔ جب ان کے مزار پر پہنچے تو انتہائی عاجزی وانکساری، فقر و فاقہ اور نہایت خضوع اور خشوع کے ساتھ آئے۔ حضورِ قلب کے ساتھ حاضر ہو اور سر کی آنکھ سے ان کا مشاہدہ نہ کرے بلکہ دل کی آنکھ سے انہیں دیکھے کیونکہ ان کے مبارک اجسام بوسیدہ ہوتے ہیں نہ متغیر. پھر اﷲتعالیٰ کی ایسی ثناء کرے جو اس کی شان کے لائق ہے۔ پھر اُن (انبیاء علیہم السلام) پر صلوات بھیجے پھر ان کی تمام اصحاب اور قیامت تک ان کے تمام تابعین کے لیے رضوان اور رحمت کی دعا کرے، پھر اپنی حاجات کی تکمیل اور اپنے گناہوں کی مغفرت کے لیے اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ پیش کرے پھر ان سے شفاعت طلب کرے اور اپنی حاجات ان پر پیش کرے اور ان کی برکت سے دعا کی قبولیت پر یقین رکھے۔ اس باب میں اپنا حسنِ ظن قوی رکھے کیونکہ انبیاء علیھم السلام (رحمتِ) باری تعالیٰ کا کھلا ہوا دروازہ ہیں اور یہ ہمیشہ سنتِ الٰہیہ ہے کہ وہ اپنے نبیوں کے ہاتھوں سے اور ان کے واسطے اور سبب سے اپنے بندوں کی حاجات کو پورا فرماتا ہے۔ جو شخص انبیاء علیھم السلام کے مزاراتِ مقدسہ تک نہ پہنچ سکے وہ ان کی بارگاہ میں سلام بھیجے اور اپنی حاجات اور اپنے گناہوں کی مغفرت اور اپنے عیوب کی پردہ پوشی کے لیے ان سے شفاعت کی درخواست کرے گا اﷲتعالیٰ اس کی درخواست کو شرفِ قبولیت سے نوازے گا کیونکہ وہ صاحبِ کرم بزرگ ہستیاں ہیں اور جو شخص کریموں سے سوال کرتا ہے یا ان کی پناہ میں آتا ہے یا ان کا ارادہ کرتا ہے یا ان کا وسیلہ پیش کرتا ہے وہ اس کی درخواست کو مسترد نہیں کرتے۔‘‘
ابن الحاج، المدخل، 2 : 258
قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک جمہور امتِ مسلمہ کایہی معمول رہا ہے کہ وہ صالحین کی زیارت کو جاتے ہیں اور اگر وہ وصال فرما گئے ہوں تو پھر ان کے مزارات پر فیوضات و برکات کے حصول کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ آج تک کسی نے اس عملِ صالح کو ناجائز و حرام قرار نہیں دیا کیونکہ یہ عمل اصلاً مشروع ہے نسبتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے، اکابر ائمہ و بزرگانِ دین کا معمول ہے۔ ائمہ حدیث نے بھی اس کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔
ائمہءِ مؤرخین اور اہلِ سیر نے علماء کے پسندیدہ اور صالح معمولات کے بیان کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے۔ جس سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اسلاف، صالحین کی زیارت کو ہمیشہ سے ایک پسندیدہ اور مقبول بارگاہ عمل سمجھتے رہے۔ ورنہ کس طرح وہ اپنے گونا گوں علمی تدریسی مشاغل میں سے بطورِ خاص سفر کے لئے وقت نکال سکتے۔ چند ایک معمولات درج ذیل ہیں۔
امام شمس الدین سخاوی (متوفی 902ھ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
وجعل علي قبره قبة فهو يزار ويتبرک به.
’’اُن کی قبر مبارک پر قبہ بنایا گیا، اس کی زیارت کی جاتی ہے اور اس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
شمس الدين سخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، 1 : 307
خطیب بغدادی (463ھ) اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے۔ خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی 150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
إنّي لأتبرّک بأبي حنيفة، وأجيء إلي قبره في کلّ يوم. يعني زائرًا. فإذا عُرضت لي حاجة صلّيت رکعتين، وجئتُ إلي قبره، و سألت اﷲ تعالي الحاجة عنده، فما تبعد عنّي حتي تقضي.
’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔‘‘
1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123
2. ابن حجر هيتمي، الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم : 94
3. ابن عابدين شامي، رد المحتار علي الدر المختار، 1 : 41
4. زاهد الکوثري، مقالات الکوثري : 381
غور کیا جائے تو یہ بڑا ہی ایمان افروز واقعہ ہے ایک تو اس میں جلیل القدر امام کی دوسرے امام کی قبر پر حاضری اور مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا ثبوت ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایسے متبرک مقامات پر اﷲتعالیٰ کی رحمت برستی ہے۔ لہٰذا یہاں دعا کی قبولیت بھی جلدی ہوجاتی ہے۔
اکابر کا معمول تھا کہ وہ زیارات کے لئے جایا کرتے تھے خواہ کتنی مسافت طے کرکے آنا پڑے۔ علامہ ابنِ مفلح نے اپنی کتاب ’’المقصد الارشد (1 : 193)‘‘ میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ محمد بن یوسف الفریابی کی زیارت کے لئے سفر کرکے ملک شام گئے تھے۔
مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) حضرت امام علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قد زرته مراراً کثيرة، وما حلّت بي شدّة في وقت مقامي بطوس، وزرت قبر علي بن موسي الرضا صلوات اﷲ علي جده وعليه، ودعوت اﷲ تعالي إزالتها عنّي إلا استجيب لي، وزالت عنّي تلک الشدّة وهذا شئ جرّبته مراراً فوجدته کذلک، أماتنا اﷲ علي محبة المصطفي وأهل بيته صلي اﷲ وسلم عليه وعليهم أجمعين.
’’میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم اور آپ کے اہلِ بیت صلی اﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے۔‘‘
ابن أبي حاتم رازي، کتاب الثقات، 8 : 457، رقم : 14411
امام ابو القاسم ابن ہبۃ اﷲ (م 571ھ) نے لکھا ہے :
عن أبي الفرج الهندبائي يقول : کنت أزور قبر أحمد بن حنبل فترکته مدة، فرأيت في المنام قائلاً يقول لي : لم ترکت زيارة قبر إمام السنة.
’’ابو الفراج ہندبائی نے بیان کیا ہے : میں اکثر امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی قبر کی زیارت کیا کرتا تھا پس ایک عرصہ تک میں نے زیارت کرنا چھوڑ دیا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے : تو نے امام السنۃ (امام احمد بن حنبل) کی قبر کی زیارت کو کیوں ترک کیا؟‘‘
ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 5 : 333
اس سے معلوم ہوا کہ یہ ایک مستحسن عمل تھا جب انہوں نے چھوڑ دیا تو انہیں بذریعہ خواب ترغیب دی گئی کہ اس کو ترک نہ کیا جائے۔
امام ذہبی (748ھ) نے امیر المؤمنین فی الحديث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (256ھ) کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے، لکھتے ہیں :
ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی۔ اسی اثناء اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا :
أري أن تخرج ويخرج الناس معک إلي قبر الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، وقبره بخرتنک، ونستسقي عنده فعسي اﷲ أن يسقينا. قال : فقال القاضي : نعم، ما رأيت. فخرج القاضي والناس معه، واستسقي القاضي بالناس، وبکي الناس عند القبر وتشفعوا بصاحبه. فأرسل اﷲ تعالي السماء بماء عظيم غزير، أقام الناس من أجله بخرتنک سبعة أيام أو نحوها لا يستطيع أحد الوصول إلي سمرقند من کثرة المطر وغزارته، وبين خرتنک وسمرقند نحو ثلاثة أميال.
’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کر دے۔ قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے سو قاضی نے لوگوں کو ساتھ مل کر بارش طلب کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) کثیر وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 12 : 469
خطیب بغدادی نے حضرت بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے بارے میں لکھا ہے کہ بڑے بڑے مشائخ ان کی زیارت کے لئے حاضر ہوتے تھے وہ لکھتے ہیں :
أخبرنا إسماعيل بن أحمد الحيري أخبرنا أبو عبد الرحمن السلمي قال : فتح الموصلي کان من کبار مشايخ الموصل، وکان يحضر زيارة بشر الحافي.
’’اسماعیل بن احمد الحیری نے ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بیان کیا ہے، انہوں نے کہا : حضرت فتح موصلی اکابر مشائخِ موصل میں سے تھے، وہ بِشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لئے بغداد حاضر ہوئے تھے۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 381
امام ابنِ عساکر نے زیارتِ صالحین کی ترغیب پر ایک ایمان افروز واقعہ ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں :
سمعت والدي أبا محمد الحسن بن هبة اﷲ يحکي أنه خرج ذات يوم لزيارة قبر بلال رضي الله عنه فوجد امرأة أعجمية وهي تبکي عند قبره، فقال البعض : من يحسن بالفارسية، سلها عن سبب بکائها، فقالت : قبر من هذا الذي إلي جنب قبر بلال؟ فقلت : هذا قبر أبي بکر الشهر زوري، وهذا قبر أبيه أبي إسحاق، أحدهما بين يديه والآخر خلفه، فقالت : کيف قد زرت قبر بلال مرة ثم خرجت إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وجاورت بها فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في النوم، وهو يقول لي : زرت قبر بلال وما زرت جاره؟ فرجعت من المدينة لزيارته أو کما قال.
’’میرے والد گرامی ابو محمد الحسن بن ہبۃ اﷲ نے مجھے اپنا واقعہ بیان کیا کہ وہ ایک دن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبرِ مبارک کی زیارت کے لئے گئے تو وہاں انہوں نے قبر کے پاس ایک عجمی عورت کو روتے ہوئے پایا۔ وہاں موجود بعض لوگوں نے کہا کہ جو اچھی طرح فارسی جانتا ہو وہ اس خاتون سے پوچھے کہ اس کے رونے کا سبب کیا ہے؟ جب اس سے پوچھا گیا تو اس عورت نے دریافت کیا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کے پہلوں میں یہ دوسری قبر کس کی ہے؟ میں نے کہا : یہ قبر ابوبکر شہروزی کی ہے اور دوسری ان کے والد ابو اسحاق کی ہے۔ ایک بالکل سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کے سامنے ہے اور دوسری اس کے پیچھے۔ اس عورت نے کہا : میں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کی، پھر میں زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے چلی گئی اور (جب) قبرِ انور کے پاس گئی تو میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : تُو نے بلال رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت تو کی مگر اس کے قریب موجود دوسری قبر کی زیارت نہ کی؟ لہٰذا اب میں (رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکوے کا ازالہ کرنے کے لئے) مدینہ منورہ سے اس قبر کی زیارت کے لئے آئی ہوں۔‘‘
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 54 : 226
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ والوں کی زیارت اللہ رب العزت کے حبیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں پسندیدہ اور بابرکت عمل ہے اور جو عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں پسندیدہ اور محبوب ہو وہ رب العالمین کی بارگاہ میں محبوب ہوتا ہے۔ قبورِ صالحین کی زیارت کا عمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اس قدر پسندیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زائرہ کو اِن کی زیارت ترک پر تنبیہ فرمائی۔
علامہ محمد بن ابو يعلي حنبلی (متوفی 521ھ) ’’طبقات الحنابلۃ (2 : 63)‘‘ میں صوفی زاہد علی بن محمد بن بشار کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ جب اُن کاوصال ہوا تو
دفن بالعقبة قريباً من النجمي، وقبره الآن ظاهر يتبرک الناس بزيارته.
’’انہیں نجمی کے قریب گھاٹی میں دفن کیاگیا، اب اُن کی قبر مشہور و معروف ہے، لوگ اس کی زیارت سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘
امام ذہبی (م 748 ھ) نے تذکرۃ الحفاظ میں امام ابو الحسن علی بن احمد الشافعی کے حوالے سے لکھا ہے :
المحدث أحد الأئمة الزهاد قطع أوقاته في العبادة والعلم والکتابة والدرس والطلب حتي مکن اﷲ منزلته في القلوب وأحبه الخاص والعام حتي کان يقصده الکبار للزيارة والتبرک.
’’وہ محدّث ان پرہیزگار ائمہ میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی زندگی عبادت، حدیثِ علم، کتاب، درس و تدریس اور طلب علم میں صرف کی یہاں تک کہ اﷲتعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں ان کامقام و مرتبہ بلند کر دیا اور عوام اور خواص نے ان سے محبت کی حتیٰ کہ اکابر ائمہ ان کی زیارت اور ان سے حصولِ تبرک کے لئے دور دراز سے سفر کرکے آتے۔‘‘
ذهبي، تذکره الحفاظ، 4 : 1361
ہم نے چند ایک واقعات کا ذکر بطورِ نمونہ کر دیا ہے، اگر ہم کتبِ تواریخ اور اسماء الرجال کا عمیق نظر سے مطالعہ کریں تو بیسیوں ایسے واقعات ہیں جن میں ائمہ دین کا معمول بتایا گیا ہے کہ وہ اکابر صالحین کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے۔ اکابر ائمہ اور اسلاف نے کبھی بھی اس عمل کو خلافِ شریعت قرار نہیں دیا۔
شرط یہ ہے کہ جس ہستی کی زیارت کی جائے وہ صالح ہو اور اس زیارت سے زائر کا مقصد بھی حصولِ رضائے الٰہی ہو۔ گزشتہ صفحات میں احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہوا کہ محض رضائے الٰہی کی خاطر ملاقات و زیارت اور باہم محبت و الفت کرنا باعثِ اَجر و ثواب ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اُمت کے اس عمل کو ناجائز قرار دے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ خود قرآن و سنت کی تعلیمات سے آگاہ نہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved