یہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اوّل تا آخر محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ ان کی اسی طاقت نے انہیں ہر طوفان سے ٹکرانے اور ہر مشکل سے سرخرو ہونے کا ہنر سکھایا۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔ اُن کی محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عالم تھا کہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے ہی اپنی بھوک پیاس کو بجھا لیتے تھے اور حالتِ نماز میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تَکتے رہتے تھے۔
کتبِ احادیث و سیر میں متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ یہ واقعات اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی کی حرارت پاتے تھے۔ انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔
ذیل میں اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جائے گا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرہ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے۔ پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسبِ معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجرہ مبارک سے مسجدِ نبوی میں جھانک کر گویا اپنے غلاموں کو صدیق کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ کر اظہارِ اطمینان فرما رہے تھے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :
فکشف النبي صلي الله عليه وآله وسلم ستر الحجرة، ينظرإلينا وهو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسّم.
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ (ہم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی تو یوں لگا) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور کھلا ہوا قرآن ہو، پھر مسکرائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1
: 240، رقم : 648
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر،
1 : 315، رقم : 419
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الجنائز، باب في ذکر مرض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم، 1 : 519، رقم : 1624
4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 163
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فنکص أبوبکر علي عقبيه ليصل الصف، وظنّ أن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم خارج إلي الصلوٰة.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 : 240، رقم : 648
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 75، رقم : 4825
3. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433
ان پرکیف لمحات کی منظر کشی رِوایت میں یوں کی گئی ہے :
فلما وضح وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم ما نظرنا منظرًا کان أعجب إلينا من وجه النبي صلي الله عليه وآله وسلم حين وضح لنا.
’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأذان، باب أهل العلم والفضل أحق بالإمامة، 1 : 241، رقم : 649
2. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر،
1 : 315، رقم : 419
3. ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 372، رقم : 1488
مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :
فبهتنا ونحن في الصلوة، من فرح بخروج النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر، 1 : 315، رقم : 419
علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے :
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت صحابہ کرام کے لئے اتنی بڑی قوت اور سعادت تھی کہ یہ بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بھی بنتی تھی۔ چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد قلب ونظر میں اترنے والے کیف کے سامنے بھوک و پیاس کے احساس کی کیا حیثیت تھی؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ
لا يخرج فيها و لا يلقاه فيها أحد.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کرتا۔‘‘
دراصل ہوا یوں تھا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ سفر اور یارِ غار سے پوچھا :
ما جاء بک يا أبا بکر؟
’’اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟‘‘
اس وفا شعار پیکرِ عجزو نیاز نے ازراہِ مروّت عرض کیا :
خرجت ألقي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وأنظر في وجهه و التسليم عليه.
’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبیء رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :
ما جاء بک يا عمر؟
’’اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟‘‘
شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے حسبِ معمول لگی لپٹی کے بغیر عرض کی :
الجوع، يا رسول اﷲ.
’’یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب الزهد، باب في معيشة أصحاب النبي صلي الله عليه
وآله وسلم، 4 : 583، رقم : 2369
2. ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 312، رقم : 373
3. حاکم، المستدرک، 4 : 145، رقم : 7178
شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :
لعل عمر رضي الله عنه جاء ليتسلي بالنظر في وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کما کان يصنع أهل مصر في زمن يوسف عليه السلام، و لعل هذا المعني کان مقصود أبي بکر رضي الله عنه و قد أدي بالطف وجه کأنه خرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لما ظهر عليه بنور النبوة أن أبابکر طالب ملاقاته، وخرج أبوبکر لما ظهر عليه بنور الولاية أنه صلي الله عليه وآله وسلم خرج في هذا الوقت لانجاح مطلوبه.
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر مزاج شناس نبوت نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نورِ نبوت کی وجہ سے ان کا مدعا بھی آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کیوں طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔‘‘
شمائل الترمذي : 27، حاشيه : 3
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں جاں نثاروں کی حالت سے باخبر ہونے پر اپنی زیارت کے طفیل ان کی بھوک ختم فرما دی۔ یہ واقعہ باہمی محبت میں اخلاص اور معراج کا منفرد انداز لیے ہوئے ہے۔
کائنات کا سارا حسن و جمال نبیء آخر الزماں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں سمٹ آیاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے مشرف ہونے والا ہر شخص جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح کھو جاتا کہ کسی کو آنکھ جھپکنے کا یارا بھی نہ ہوتا اور نگاہیں اٹھی کی اٹھی رہ جاتیں۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :
کان رجل عند النبي صلي الله عليه وآله وسلم ينظر إليه لا يطرف.
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے چہرۂ انور) کو (اِس طرح ٹکٹکی باندھ کر) دیکھتا رہتا کہ وہ اپنی آنکھ تک نہ جھپکتا۔‘‘
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس جاں نثار صحابی کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا :
ما بالک؟
’’اِس ( طرح دیکھنے) کا سبب کیا ہے؟‘‘
اس عاشقِ رسول صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
بأبي و أمي! أتمتع من النظر إليک.
’’میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 566
2. قسطلاني، المواهب اللدنية، 2 : 94
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خودسپردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال میں اس طرح کھو جاتے کہ دنیا کی ہر شے سے بے نیاز ہو جاتے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کس طرح چہرۂ نبوت کے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک پسند و دلبستگی کا کیا معیار تھا؟ اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار سے متعلق درج ذیل روایت سے بخوبی ہو جائے گا :
ایک مرتبہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : خوشبو، نیک خاتون اور نماز جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے بھی تین ہی چیزیں پسند ہیں :
النظر إلي وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وإنفاق مالي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وأن يکون ابنتي تحت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے عقد میں آنا۔‘‘
ابن حجر، منبهات : 21 - 22
صدیقِ باوفا رضی اللہ عنہ کو سفرِ ہجرت میں رفاقتِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول ہونے کے شرفِ لازوال سے مشرف ہوئے۔ ان جلیل القدر شخصیات کو صحابہ رضی اللہ عنھم کی عظیم جماعت میں کئی دیگر حوالوں سے بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کان يخرج علي أصحابه من المهاجرين والأنصار، وهم جلوس وفيهم أبوبکر وعمر، فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلا أبوبکر وعمر، فإنهما کانا ينظران إليه وينظر إليهما ويتبسّمان إليه ويتبسّم إليهما.
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ کرتا، البتہ ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو مسلسل دیکھتے رہتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کو دیکھتے، یہ دونوں حضرات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر کليهما، 5 : 612، رقم : 3668
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 150
3. طيالسي، المسند، 1 : 275، رقم : 2064
یوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو اور تمنا ہر صحابی رسول کے دل میں اس طرح بسی ہوئی تھی کہ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ اس سے خالی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سکون کی دولت نصیب ہوتی اور معرفتِ الٰہی کے دریچے ان پر روشن ہو جاتے۔ اُن کے دل کی دھڑکن میں زیارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس درجہ سما گئی تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار میسر نہ آتا تو وہ بے قرار ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت گزرتی تھی اس کے بارے میں وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض گزاری :
إني إذا رأيتک طابت نفسي و قرّت عيني، فأنبئني عن کل شئ، قال : کل خلق اﷲ من الماء.
’’جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں (تو تمام غم بھول جاتا ہوں اور) دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس مجھے تمام اشیاء (کائنات کی تخلیق) کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘
1. احمد بن حبنل، المسند، 2 : 323
2. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 176، رقم : 7278
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ہر کوئی فنا فی الرسول کے مقام پر فائز تھا اُن کا جینا مرنا، عبادت ریاضت، جہاد تبلیغ سب کچھ ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسوب تھا۔ اس لئے وہ اپنے آقا و مولا سے ایک لمحہ کی جدائی گوارا نہ کرتے تھے اور ہر لمحہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت میں مست و بے خود رہتے۔
گزشتہ فصل میں مذکور واقعات سے ثابت ہوا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صبح و شام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت اور دیدار سے اپنے مضطرب قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہے اُن کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا رہتی تھی کہ اُن کا محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی اُن سے جدا نہ ہو پس جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی کیفیاتِ محبت کا والہانہ اظہار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ میں ہوا، اسی طرح بعد از وصال بھی وہ دیوانہ وار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دیتے اور اس حاضری میں بھی ان کی کیفیات دیدنی ہوتیں۔ یعنی ادبِ بارگاہِ رسالت کے ساتھ ساتھ محبت اور عشق کی تمام تر بے قراریاں، جذب وشوق اور کیفیتِ فراق اور غمِ ہجر کی لذتیں ان کے ایمان کو جلا بخشتی تھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کی زیارت کے حوالہ سے صحابہ کرام کے ان ہی کیفیاتِ شوق پر مبنی معمولات درج ذیل ہیں :
حضرت کعب الاحبار کے قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا :
هل لک أن تسيرمعي إلي المدينة فنزور قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم وتتمتع بزيارته، فقلت نعم يا أمير المؤمنين.
’’کیا آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے میرے ساتھ مدینہ منورہ چلیں گے؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’جی! امیر المؤمنین۔‘‘
پھر جب حضرت کعب الاحبار اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے بارگاہِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری دی اور سلام عرض کیا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مدفن مبارک پر کھڑے ہوکر اُن کی خدمت میں سلام عرض کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی۔
1. واقدي، فتوح الشام، 1 : 244
2. هيتمي، الجوهر المنظم : 27. 28
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا معمول تھا کہ آپ اکثر روضہ مبارک پر حاضر ہوا کرتی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں :
کُنْتُ أَدْخُلُ بَيْتِي الَّذِي دُفِنَ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ أَبِي، فَاَضَعُ ثَوْبِي فَأَقُوْلُ إنَّمَا هُوَ زَوْجِي وَأَبِي، فَلَمَّا دُفِنَ عُمَرُ مَعَهُمْ فَوَ اﷲِ مَا دَخَلْتُ اِلَّا وَ أَنَا مَشْدُوْدَة عَلَيَ ثِيَابِي حَيَائً مِنْ عُمَرَ.
’’میں اس مکان میں جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میرے والد گرامی مدفون ہیں جب داخل ہوتی تو یہ خیال کرکے اپنی چادر (جسے بطور برقع اوڑھتی وہ) اتار دیتی کہ یہ میرے شوہرِ نامدار اور والدِ گرامی ہی تو ہیں لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ دفن کر دیا گیا تو اللہ کی قسم میں عمر رضی اللہ عنہ سے حیاء کی وجہ سے بغیر کپڑا لپیٹے کبھی داخل نہ ہوئی۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 202
2. حاکم، المستدرک، 3 : 61، رقم : 4402
3. مقريزي، اِمتاعُ الاسماع، 14 : 607
اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا روضۂ اقدس پر حاضری کا ہمیشہ معمول تھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو قحط سالی کے خاتمے کے لئے قبرِ انور پر حاضر ہو کر توسل کرنے کی تلقین فرمائی۔ امام دارِمی صحیح اِسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
قُحِطَ أهل الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا فَشَکَوْا إِلَي عائشۃ ، فَقَالَتْ : انْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَاجْعَلُوْا مِنْهُ کِوًي إلَي السَّمَاءِ، حَتَّي لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ : فَفَعَلُوْا فَمُطِرْنَا مَطَرًا حَتَّي نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الْاِبِلُ حَتَّي تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ ’’عَامَ الْفَتْقِ‘‘.
’’ایک مرتبہ مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دِگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک روشندان آسمان کی طرف کھولو تاکہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ اتنی زور دار بارش ہوئی جس کی وجہ سے خوب سبزہ اُگ آیا اور اُونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ پس اُس سال کا نام ہی ’’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
1. دارمي، السنن، 1 : 56، رقم : 92
2. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفيٰ : 817. 818، رقم : 1534
3. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 128
ثابت ہوا کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک کو وسیلہ بنانے کی ہدایت فرمائی، جس سے اُن پر طاری شدید قحط ختم ہو گیا، اور موسلا دھار بارش نے ہر طرف بہار کا سماں پیدا کر دیا۔ جہاں انسانوں کو غذا ملی وہاں جانوروں کو چارا ملا، اِس بارش نے اہلِ مدینہ کو اتنا پر بہار اور خوشحال بنا دیا کہ انہوں نے اس پورے سال کو ’عام الفتق (سبزہ اور کشادگی کا سال)‘ کے نام سے یاد کیا۔
بعض لوگوں نے اس رِوایت پر اعتراضات کئے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی سند کمزور ہے لہٰذا یہ روایت بطورِ دلیل پیش نہیں کی جا سکتی لیکن مستند علماء نے اِسے قبول کیا ہے اور بہت سی ایسی اسناد سے استشہاد کیا ہے جو اس جیسی ہیں یا اس سے کم مضبوط ہیں۔ لہٰذا اس روایت کو بطورِ دلیل لیا جائے گا کیونکہ امام نسائی کا مسلک یہ ہے کہ جب تک تمام محدّثین ایک راوی کی حدیث کے ترک پر متفق نہ ہوں، اس کی حدیث ترک نہ کی جائے۔
(1) عسقلاني، شرح نخبة الفکر في مصطلح أهل الأثر :
233ایک اور اعتراض اس روایت پر یہ کیا جاتا ہے کہ یہ موقوف ہے یعنی صرف صحابیہ تک پہنچتی ہے، اور یہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا قول ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان نہیں ہے۔ اس لئے اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ تک اس کی اسناد صحیح بھی ہوں تو یہ دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ یہ ذاتی رائے پر مبنی ہے اور بعض اوقات صحابہ کی ذاتی رائے صحیح ہوتی ہے اور بعض اوقات اس میں صحت کا معیار کمزور بھی ہوتا ہے، لہٰذا ہم اس پر عمل کرنے کے پابند نہیں۔
اس بے بنیاد اعتراض کا سادہ لفظوں میں جواب یہ ہے کہ نہ صرف اس روایت کی اسناد صحیح اور مستند ہیں بلکہ کسی بھی صحابی نے نہ تو حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا کے تجویز کردہ عمل پر اعتراض کیا اور نہ ہی ایسا کوئی اعتراض مروی ہے جس طرح حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں اس آدمی پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا جو قبرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر بارش کے لیے دعا کرتا ہے۔ یہ روایتیں صحابہ کا اجماع ظاہر کرتی ہیں اور ایسا اجماع بہر طور مقبول ہوتا ہے۔ کوئی شخص اس عمل کوناجائز یا بدعت نہیں کہہ سکتا کہ جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے سکوت نے جائز یا مستحب قرار دیا ہو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی پیروی کے لزوم کے بارے میں امام شافعی فرماتے ہیں :
رأيهم لنا خير من رأينا لأنفسنا.
’’ہمارے لیے ان کی رائے ہمارے بارے میں ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے۔‘‘
ابن قيم، أعلام الموقعين عن ربّ العالمين، 2 : 186
علامہ ابنِ تیمیہ نے اس روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور حضرت عائشۃ رضی اﷲ عنہا کی پوری زندگی میں روضۂ اقدس کی چھت میں اس طرح کا کوئی سوراخ موجود نہیں تھا۔ یہ اعتراض کمزور ہے کیونکہ امام دارمی اور ان کے بعد آنے والے اَئمہ و علماء اس طرح کی تفصیل متاخرین سے زیادہ بہتر جانتے تھے۔ مثال کے طور پر مدنی محدّث و مؤرخ امام علی بن احمد سمہودی نے علامہ ابنِ تیمیہ کے اعتراض کا ردّ اور امام دارمی کی تصدیق کرتے ہوئے ’’وفاء الوفاء (2 : 560)‘‘ میں لکھا ہے :
’’زین المراغی نے کہا : ’جان لیجئے کہ مدینہ کے لوگوں کی آج کے دن تک یہ سنت ہے کہ وہ قحط کے زمانہ میں روضۂ رسول کے گنبد کی تہہ میں قبلہ رُخ ایک کھڑکی کھولتے اگرچہ قبر مبارک اور آسمان کے درمیان چھت حائل رہتی۔ میں کہتا ہوں کہ ہمارے دور میں بھی مقصورہ شریف، جس نے روضہ مبارک کو گھیر رکھا ہے، کا باب المواجہ یعنی چہرۂ اقدس کی جانب کھلنے والا دروازہ کھول دیا جاتا ہے اور لوگ وہاں (دعا کے لیے) جمع ہوتے ہیں۔‘‘
سمهودي، وفاء الوفاء، 2 : 560
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسُّل سے دعا کرنے کا معمول عثمانی ترکوں کے زمانے یعنی بیسویں صدی کے اوائل دور تک رائج رہا، وہ یوں کہ کہ جب قحط ہوتا اور بارش نہ ہوتی تو اہلِ مدینہ کسی کم عمر سید زادہ کو وضو کروا کر اوپر چڑھاتے اور وہ بچہ اس رسی کو کھینچتا جوقبرِ انور کے اوپر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے فرمان کے مطابق سوراخ کے ڈھکنے کو بند کرنے کے لئے لٹکائی ہوئی تھی۔ اس طرح جب قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا تو بارانِ رحمت کا نزول ہوتا۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ جب بھی سفر سے واپس لوٹتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضری دیتے اور عرض کرتے :
السّلام عليک يا رسول اﷲ! السّلام عليک يا أبا بکر! السّلام عليک يا أبتاه!
’’اے اللہ کے (پیارے) رسول! آپ پر سلامتی ہو، اے ابوبکر! آپ پر سلامتی ہو، اے ابا جان! آپ پر سلامتی ہو۔‘‘
1. عبدالرزاق، المصنف، 3 : 576، رقم : 6724
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 3 : 28، رقم : 11793
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 245، رقم : 10051
قاضی عیاض نے ’’الشفاء (2 : 671)‘‘ میں جو روایت نقل کی ہے اس میں ہے کہ حضرت نافع رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو سو (100) سے زائد مرتبہ قبرِ انور پر حاضری دیتے ہوئے دیکھا، اور مقریزی نے بھی ’’اِمتاع الاسماع (14 : 618)‘‘ میں یہی نقل کیا ہے۔ ابن الحاج مالکی نے ’’المدخل (1 : 261)‘‘ میں اِس کی تائید کی ہے۔ علاوہ ازیں ابنِ حجر مکی نے ’’الجوہر المنظم (ص : 28)‘‘ اور زرقانی نے ’’شرح المواہب اللدنیۃ (12 : 198)‘‘ میں اس روایت کو نقل کیا ہے۔
حضرت عبداﷲ بن دینار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا کہ جب سفر سے واپس لوٹتے تو مسجدِ (نبوی) میں داخل ہوتے اور یوں سلام عرض کرتے :
السّلام عليک يا رسول اﷲ! السّلام علي أبي بکر! السّلام علي أبي.
’’اے اللہ کے (پیارے) رسول! آپ پر سلام ہو، ابوبکر پر سلام ہو (اور) میرے والد پر بھی سلام ہو۔‘‘
اس کے بعد حضرت عبداﷲ بن عمر دو رکعات نماز ادا فرماتے۔
1. ابن إسحاق أزدي، فضل الصّلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم : 90. 91، رقم : 97 - 98
2. ابن حجر عسقلانی نے ’’المطالب العالیۃ (1 : 371، رقم : 1250)‘‘ میں عمر بن محمد کی اپنے والد سے نقل کردہ روایت بیان کی ہے اور اس کی اسناد صحیح ہیں۔
حضرت ابو اُمامہ بیان کرتے ہیں :
رَأيتُ أنَس بن مَالِک أتي قَبْر النَّبي صلي الله عليه وآله وسلم فوقف فرفع يديه حتي ظننتُ أنه افتتح الصّلاة فسلّم علي النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم ثم انصرف.
’’میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر آتے دیکھا، انہوں نے (وہاں آ کر) توقف کیا، اپنے ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ شاید میں نے گمان کیا کہ وہ نماز ادا کرنے لگے ہیں۔ پھر انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کیا، اور واپس چلے آئے۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 491، رقم : 4164
2. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 671
3. مقريزي، اِمتاع الأسماع، 14 : 618
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم فقط بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام عرض کرنے کا شرف حاصل کرنے کے لئے بھی مسجدِ نبوی میں آتے تھے۔
امام محمد بن منکدر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو روضۂِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے :
هاهنا تسکب العبرات، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا بَيْنَ قَبْرِيْ وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں (فراقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : میری قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ بہشت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 491، رقم : 4163
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 389
3. أبو يعلي، المسند، 2 : 190، رقم : 1778
عاشقِ مصطفیٰ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد یہ خیال کرکے شہرِ دلبر. . . مدینہ منورہ. . . سے شام چلے گئے کہ جب یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا! حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا :
ما هذه الجفوة، يا بلال؟ أما آن لک أن تزورني؟ يا بلال!.
’’اے بلال! یہ فرقت کیوں ہے؟ اے بلال! کیا وہ وقت ابھی نہیں آیا کہ تم ہم سے ملاقات کرو؟‘‘
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے۔ خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو حکم سمجھا اور مدینے کی طرف رختِ سفر باندھا، اُفتاں و خیزاں روضۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ملنے لگے۔
1. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 39
2. ابن حجر مکي، الجوهر المنظم : 27
3. ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 358
4. ابن عساکر، تاريخ مدينة دمشق، 7 : 137
5. شوکاني، نيل الأوطار، 5 : 180
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے۔ مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کر رہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا :
نَعَمْ، جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ لَمْ آتِ الْحَجَرَ.
’’ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں اﷲ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422
2. حاکم، المستدرک، 4 : 560، رقم : 8571
3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999
امام احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ امام حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ امام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
یزید بن ابی سعید المقبری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا۔ جب میں نے انہیں الوداع کہا تو انہوں نے فرمایا : مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے، پھر فرمایا :
إذا أتيت المدينة ستري قبر النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فأقرئه منّي السّلام.
’’جب آپ مدینہ منورہ حاضر ہوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ مبارک پر حاضری دے کر میری طرف سے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں) سلام (کا تحفہ و نذرانہ) پیش کر دیجئے گا۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 492، رقم : 4166 - 4167
2. قاضي عياض، الشفاء، 2 : 670
3. مقريزي، إِمتاع الأسماع، 14 : 618
4. ابن حاج، المدخل، 1 : 261
5. قسطلاني، المواهب اللدنية، 4 : 573
ایک دوسری روایت میں ہے :
کان عمر بن عبد العزيز يوجه بالبريد قاصدًا إلي المدينة ليقري عنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کا معمول تھا کہ آپ ایک قاصد کو شام سے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی طرف سے درود و سلام کا ہدیہ پیش کرنے کے لیے بھیجا کرتے تھے۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 491، 492، رقم : 4166
2. ابن حاج، المدخل، 1 : 261
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس ایک صحابیہ آئی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں گھائل تھی۔ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کرنے کی درخواست کی۔ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کے وقت وہ عورت اِتنا روئی کہ اُس نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
1. قسطلاني، المواهب اللدنية، 4 : 581
2. زرقاني، شرح المواهب اللدنية، 12 : 196
درج بالا علمی تحقیق سے ثابت ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں اور بعد از وصال صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے لئے حاضری دیا کرتے تھے۔ اُن کا حاضری دینے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ وہ آقا علیہ السلام کی حیات اور بعد از وصال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوضات و برکات سے مستفید ہوں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے بعد جمیع امتِ مسلمہ کا بھی یہ معمول رہا ہے کہ وہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اطہر پر حاضری دینے کو اپنے لئے باعثِ سعادت و خوش بختی سمجھتی ہے۔
قبرِ انور کی زیارت کی شرعی حیثیت پر اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ کئی ائمہِ احناف کے نزدیک واجب ہے جبکہ ائمہِ مالکیہ کے نزدیک قطعی طور پرواجب ہے۔ اُن کے علاوہ دیگر اہلِ سنت کے مکاتب و مذاہب بھی اُسے واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم یوں فرمایا ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
النساء، 4 : 64
اس آیتِ کریمہ کو فقط سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات پر محمول کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، نصِ قرآنی کا غلط اِطلاق اور قرآن فہمی سے ناآشنائی کی دلیل ہے۔ مذکورہ بالا آیت کی تفسیر کرتے ہوئے محدّثین و مفسرین نے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضری کو مطلق قرار دیا ہے۔ حافظ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں :
يُرشد تعالي العصاة والمُذنبين إذا وقع منهم الخطأ والعصيان أن يأتوا إلي الرسول صلي الله عليه وآله وسلم، فيستغفروا اﷲ عنده، ويسألوه أن يغفر لهم، فإنهم إذا فعلوا ذٰلک تاب اﷲ عليهم ورحمهم وغفر لهم، ولهذا قال : ﴿لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد ذکر جماعة منهم الشيخ أبومنصور الصبّاغ في کتابه الشامل ’الحکاية المشهورة، عن العتبي، قال : کنتُ جالساً عند قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فجاء أعرابي فقال : السلام عليک يارسول اﷲ! سمعتُ اﷲ يقول : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾ وقد جئتُکَ مستغفراً لذنبي مستشفعاً بکَ إلي ربي. ثم أنشأ يقول :
يا خير من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طيبهن القاع و الأکم
نفسي الفداء لقبر أنت ساکنه
فيه العفاف وفيه الجود والکرم
ثُم انصرف الأعرابيّ، فغلبتني عيني، فرأيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم في النوم، فقال : يا عتبي! الحق الأعرابيّ، فبشره أن اﷲ قد غفر له.
’’اللہ تعالیٰ نے عاصیوں اور خطاکاروں کو ہدایت فرمائی ہے کہ جب ان سے خطائیں اور گناہ سرزد ہوجائیں تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرنا چاہئے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی عرض کرنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیک وسلم ہمارے لئے دعا فرمائیں جب وہ ایسا کریں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی طرف رجوع فرمائے گا، انہیں بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا۔ اِسی لئے فرمایا گیا : لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا (تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے)۔ یہ روایت بہت سوں نے بیان کی ہے جن میں سے ابو منصور صباغ نے اپنی کتاب ’الحکایات المشہورۃ‘ میں لکھا ہے : عُتبی کا بیان ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا : ’’السّلام علیکَ یا رسول اﷲ! میں نے سنا ہے کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اُن کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘ میں آپ صلی اﷲ علیک و سلم کی خدمت میں اپنے گناہوں پر استغفار کرتے ہوئے اور آپ کو اپنے رب کے سامنے اپنا سفارشی بناتے ہوئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘ پھر اس نے یہ اشعار پڑھے :
(اے مدفون لوگوں میں سب سے بہتر ہستی! جن کی وجہ سے میدان اور ٹیلے اچھے ہو گئے، میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم رونق افروز ہیں، جس میں بخشش اور جود و کرم جلوہ افروز ہے۔ )
پھر اعرابی تو لوٹ گیا اور مجھے نیند آگئی، میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے فرما رہے تھے : عُتبی! اعرابی حق کہہ رہا ہے، پس تو جا اور اُسے خوش خبری سنا دے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 519 - 520
اعرابی کا مذکورہ بالا مشہور واقعہ درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے :
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 495، 496، رقم : 4178
2. ابن قدامة، المغني، 3 : 298
3. نووي، کتاب الأذکار : 92، 93
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 46. 47
5. مقريزي، إمتاع الأسماع، 14 : 615
اِمام قرطبی نے اپنی معروف تفسیر ’’الجامع لاحکام القرآن (5 : 265 ۔ 266)‘‘ میں عتبیکی روایت سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یوں بیان کیا ہے :
روي أبو صادق عن علي، قال : قدِم علينا أعرابيّ بعد ما دفّنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثلاثة أيام، فرمي بنفسه علي قبر رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، وحَثَا علي رأسه من ترابه، فقال : قلتَ يا رسول اﷲ! فسمعنا قولک، و وَعَيْتَ عن اﷲ فوعينا عنک، وکان فيما أنزل اﷲ عليک : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ﴾ الآية، وقد ظلمتُ نفسي، وجئتُکَ تستغفر لي. فنودي من القبر أنه قد غفر لک.
’’ابو صادق نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہمارے سامنے ایک دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد مدینہ منورہ آیا۔ اس نے فرطِ غم سے اپنے آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر گرا لیا۔ قبر انور کی مٹی اپنے اوپر ڈالی اورعرض کیا : اے اللہ کے رسول! صلی اﷲ علیک وسلم آپ نے فرمایا اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کا قول مبارک سنا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلمنے اللہ سے احکامات لئے اور ہم نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے احکام لئے اور اُنہی میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ’’وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ ۔ ۔ ۔ (اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے۔ ۔ ۔)۔‘‘ میں نے بھی اپنے اوپر ظلم کیا ہے، آپ صلی اﷲ علیک وسلم میرے لیے اِستغفار فرما دیں۔ اعرابی کی اِس (عاجزانہ اور محبت بھری) التجاء پر اُسے قبر سے ندا دی گئی : ’’بیشک تمہاری مغفرت ہو گئی ہے۔‘‘
قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 5 : 265
عتبیٰ کی اس روایت پر اکابر محدّثینِ کرام نے اعتماد کیا ہے۔ امام نووی نے اسے اپنی معروف کتاب ’’الایضاح‘‘ کے چھٹے باب (ص : 454، 455) میں، شیخ ابوالفرج بن قدامہ نے اپنی تصنیف ’’الشرح الکبير (3 : 495)‘‘ میں اور شیخ منصور بن یونس بہوتی نے اپنی کتاب ’’کشاف القناع (5 : 30)‘‘، جو مذہب حنبلی کی مشہور کتاب ہے، میں اسے نقل کیا ہے۔ علاوہ ازیں تمام مذاہب کے اجل ائمہ و علماء کا عُتبی کی روایت کے مطابق دیہاتی کا روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر مغفرت طلب کرنا ان کی کتابوں میں زیارۃِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا مناسکِ حج کے ذیل میں بیان ہواہے۔ جن میں امام ابنِ کثیر، امام نووی، امام قرطبی، امام ابنِ قدامہ، امام سبکی، امام سیوطی، امام زرقانی سمیت کئی ائمہ شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان اکابر محدّثین و مفسرینِ کرام نے کفر اور گمراہی کو نقل کیا ہے؟ یا (معاذ اﷲ) وہ بات نقل کی ہے جو بت پرستی یا قبر پرستی کی غماز ہے؟ اگر ایسا تسلیم کر لیا جائے تو پھر کس امام کو معتبر اور کس کتاب کو ثقہ و مستند مانا جائے گا؟
لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بعد اَز وصال اُمت کے لئے اِستغفار فرمانا ممکن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمت کے حق میں انتہائی شفیق و رحیم ہونا نصوصِ قرآن و سنت سے ثابت اور متحقق ہے تو یہ امر قطعًا و حتماً معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد اَز وصال بھی روضۂ مبارک پر حاضرِ خدمت ہونے والوں کو محروم نہیں فرماتے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَ مَنْ يَخْرُجْ مِنْم بَيْتِه مُهَاجِرًا إِلَي اﷲِ وَ رَسُوْلِه ثُمَّ يُدْرِکْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُه عَلَي اﷲِ.
’’اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی طرف ہجرت کرتے ہوئے نکلے، پھر اسے (راستے میں ہی) موت آپکڑے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہو گیا۔‘‘
النساء، 4 : 100
آیتِ مقدسہ کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال کے بعد جو شخص اپنے نہاں خانہ دل میں گنبد خضراء کے جلوؤں کو سمیٹنے کی نیت سے سفر اختیار کرتا ہے اس پر بھی اسی ہجرت الی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِطلاق ہوتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اَز رَہِ شان و فضیلت کہیں اپنے روضۂ اَقدس، کہیں اپنے مسکن مبارک اور کہیں اپنے منبرِ اَقدس کی زیارت کی ترغیب دی ہے۔ اس شان و فضیلت کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اُمت میں اِن مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کا شوق اور رغبت پیدا ہو۔ ذیل میں قبرِ انور کی فضیلت بزبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کریں۔
1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَي حَوْضِي.
’’میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے، اور( روزِقیامت ) میرا منبر میرے حوضِ (کوثر ) پر ہو گا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل ما بين القبر والمنبر، 1 : 399، رقم : 1138
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب ما بين القبر والمنبر، 2 : 1011 رقم : 1391
2۔ ابو صالح ذکوان سمان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے :
مِنْبَرِي هَذَا عَلَي تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ، وَمَا بَيْنِ حُجْرَتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.
’’میرا یہ منبر جنت کی نہروں میں سے ایک نہر (کوثر کے کنارے ) پر (نصب) ہو گا اور میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 534
3. محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما کو روضۂ اَطہر کے پاس روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے : یہی وہ جگہ ہے جہاں (محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں) آنسو بہائے جاتے ہیں۔ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
مَا بَيْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَة مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ.
’’میری قبر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 491، رقم : 4163
4۔ اُم المؤمنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
قَوَائِمُ مِنْبَرِي رَوَاتِبُ فِي الْجَنَّةِ.
’’میرے اس منبر کے پائے جنت میں پیوست ہیں۔‘‘
1. نسائي، السنن الکبريٰ، 1 : 257، رقم : 775
2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 289
3. عبد الرّزاق، المصنف، 3 : 182، رقم : 5242
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِمام بخاری اور اِمام مسلم جیسے اَجل ائمہِ حدیث نے اپنی کتب میں روضۂ اَطہر اور منبر مبارک کی درمیانی جگہ کی فضیلت سے متعلق اَحادیث بیان کرتے ہوئے اُس کا عنوان اِس طرح قائم کیا ہے :
اِن اَحادیثِ مبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قبرِ انور کی نشاندہی کرتے ہوئے خود فرما دیا کہ میری قبرِ اَنور میری اَزواجِ مطہرات کے گھروں میں ہے، لہٰذا مَا بَيْنَ بَيْتِي کے الفاظ میں معناً قبرِ اَنور مراد ہے، جبکہ قبرِ اَنور کا ذکر لفظاً (مَا بَيْنَ قَبْرِي) بھی آیا ہے، اور اُن کی زیارت کے لئے جانا ایسا ہے جیسے کوئی شخص جنت میں جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک زیارتِ قبر انور کی نیت سے سفر کرنا اُمتِ مسلمہ کا پسندیدہ اور محبوب عمل رہا ہے۔ ایسا محبوب عمل جس کی ادائیگی تو کجا اس کی محض یاد بھی موجب برکت و سعادت ہے۔
خود سید العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاداتِ گرامی میں روضۂ اقدس کی زیارت کی ترغیب دی اور زائر کے لئے شفاعت کا وعدہ فرمایا :
1. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے روضۂ اَطہر کی زیارت کے حوالے سے اِرشاد فرمایا، جسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے روایت کیا ہے :
مَنْ زَارَ قَبْرِي، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِي.
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
1. دارقطني، السنن، 2 : 278
2. حکيم ترمذي، نوادر الأصول، 2 : 67
3. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 490، رقم : 4159، 4160
4۔ ذہبی نے ’’میزان الاعتدال (6 : 567)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ نے مرفوعاً روایت کیا ہے اور ابنِ خزیمہ نے ’مختصر المختصر‘ میں نقل کیا ہے۔
ایک دوسری روایت میں ’حلّت لہ شفاعتي‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ امام نبہانی رحمۃ اللہ علیہ ’’شواہد الحق فی الاستغاثہ بسید الخلق (ص : 77)‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ائمہِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی چند اِسناد بیان کرنے اور جرح و تعدیل کے بعد فرماتے ہیں :
’’مذکورہ حدیث حسن کا درجہ رکھتی ہے۔ جن احادیث میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب دی گئی ہے ان کی تعداد دس سے بھی زیادہ ہے، اِن احادیث سے مذکورہ حدیث کو تقویت ملتی ہے اور اِسے حسن سے صحیح کا درجہ مل جاتاہے۔‘‘
سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 3، 11
عبد الحق اِشبیلی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ امام سیوطی نے ’’مناہل الصفا فی تخریج احادیث الشفا (ص : 71)‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۔ شیخ محمود سعید ممدوح ’’رفع المنارہ (ص : 318)‘‘ میں اس حدیث پر بڑی مفصل تحقیق کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور قواعدِ حدیث بھی اِسی رائے پردلالت کرتے ہیں۔
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے زائر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت متحقق اور لازم ہوگئی یعنی اللہ تعالیٰ سے زائر کی معافی و درگزر کی سفارش کرنا لازم ہو گیا۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ زَارَنِي بِالْمَدِيْنَةِ مُحْتَسِبًا کُنْتُ لَهُ شَهِيْدًا وَشَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’جس شخص نے خلوصِ نیت سے مدینہ منورہ حاضر ہوکر میری زیارت کا شرف حاصل کیا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 490، رقم : 4157
2. سبکي، شفاء السقام في زيارة خيرالأنام : 28
3. مقريزي، إمتاع الأسماع، 14 : 614
عسقلانی نے تلخیص الحبیر (2 : 267)‘ میں اسے مرفوع کہا ہے۔
3. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ جَاءَ نِي زَائِرًا لَا يَعْمَلُهُ حَاجَةً إِلَّا زِيَارَتِي، کَانَ حَقًّا عَلَيُ أَنْ أَکُوْنَ لَهُ شَفِيْعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
’’جو بغیر کسی حاجت کے صرف میری زیارت کے لیے آیا اُس کا مجھ پر حق ہے کہ میں روزِ قیامت اُس کی شفاعت کروں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 225، رقم : 13149
2. طبراني، المعجم الأوسط، 5 : 275، 276، رقم : 4543
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 2
4۔ ذہبی نے ’’میزان الاعتدال (6 : 415)‘‘ میں اسے مرفوع کہا ہے۔
ابن السکن نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’السنن الصحاح ماثورۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کے خطبہ میں اس کتاب میں نقل کردہ روایات کو بالاجماعِ ائمہ حدیث کے نزدیک صحیح قرار دیا ہے۔ اِس حدیثِ مبارکہ کو اُنہوں نے ’’کتاب الحج‘‘ میں باب ثواب من زار قبر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی نقل کیا ہے۔
4. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہادئ برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
مَنْ زَارَ قَبْرِي، أَوْ قَالَ : مَنْ زَارَنِي کُنْتُ لَهُ شَفِيْعًا أَوْشَهِيْدًا، وَ مَنْ مَاتَ فِي أَحَدِ الْحَرَمَيْنِ بَعَثَهُ اﷲُ مِنَ الآمِنِيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَة.
’’جس نے میری قبر (یا راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) میری زیارت کی میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا اور جو کوئی دو حرموں میں سے کسی ایک میں فوت ہوا اللہ تعالیٰ اُسے روزِ قیامت ایمان والوں کے ساتھ اٹھائے گا۔‘‘
1. طيالسي، المسند، 12، 13، رقم : 65
2. دارقطني، السنن، 2 : 278
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 245، رقم : 10053
5. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے :
مَنْ حَجَّ فَزَارَ قَبْرِي بَعَدَ وَفَاتِي، فَکَأَنَّمَا زَارَنِي فِيْ حَيَاتِي.
’’جس نے حج کیا پھر میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اُس نے میری زندگی میں میری زیارت کی۔‘‘
1. دارقطني، السنن، 2 : 278
2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 310، رقم : 13497
3. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 223، رقم : 3400
4. خطیب تبریزی نے ’’مشکوٰۃ المصابیح (2 : 128، کتاب المناسک، رقم : 2756)‘‘ میں اسے مرفوع حدیث قرار دیا ہے۔
جو لوگ اپنے باطل عقیدے کی بناء پر حدیث ’’لا تشدّ الرّحال‘‘ سے غلط استدلال کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کے ساتھ ساتھ انبیاء و صالحین کے مزارات کی زیارت سے منع کرتے ہیں اور اسے (معاذ اللہ) سفر معصیت و گناہ اور شرک قرار دیتے ہیں وہ بلاشبہ صریح غلطی پر ہیں۔ صحیح عقیدہ وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے جس کا ذکر گزشتہ صفحات میں ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے عمل سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی حاضری بلند درجہ باعث ثواب اعمال میں سے ہے۔ نیز قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہلِ اسلام کا یہ معمول ہے کہ وہ ذوق و شوق سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے لئے جاتے ہیں اور اسے دنیاو ما فیہا سے بڑھ کر عظیم سعادت و خوش بختی سمجھتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اَقدس ہے :
مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ وَ لَمْ يَزُرْنِي فَقَدْ جَفَانِي.
’’جس نے بیت اللہ کا حج کیا اور میری (قبرِ اَنور کی) زیارت نہ کی تو اس نے میرے ساتھ جفا کی۔‘‘
1. سبکي، شفاء السقام في زيارة خيرالأنام : 21
2. ابن حجر مکي، الجوهر المنظم : 28
3. نبهاني، شواهد الحق في الاستغاثة بسيد الخلق : 82
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان بڑا واضح ہے۔ اِس میں اُمتِ مسلمہ کے لئے کڑی تنبیہ بھی ہے کہ جس مسلمان نے حج کی سعادت حاصل کی مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری نہ دی اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جفا کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف و کرم سے محروم ہوا جبکہ زائرِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شفاعت کا منفرد اعزاز نصیب ہوگا۔ اس حوالے سے اِمام سبکی ’’شفاء السقام فی زیارۃ خیرالانام (ص : 11)‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’روضۂ اقدس کی زیارت کرنے والے عشاق کو وہ شفاعت نصیب ہوگی جو دوسروں کے حصہ میں نہیں آئے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زائرینِ قبرِ اَنور ایک خاص شفاعت کے مستحق قرار دیئے جائیں گے اور اُنہیں بالخصوص یہ منفرد اِعزاز حاصل ہو گا۔ اس سے یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کی زیارت کی برکت کے باعث شفاعت کے حقدار ٹھہرنے والے عمومی افراد میں زائر کا شامل ہونا واجب ہوجاتا ہے۔ بشارت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زائر حالتِ اِیمان پر اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گا۔ یہاں اس اَمر کی وضاحت ضروری ہے کہ فرشتے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے مقرب بندے بھی شفاعت کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کے شرف سے مشرف ہونے والوں کا اعزاز یہ ہے کہ خود آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کی شفاعت فرمائیں گے۔‘‘
آقائے دو جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اقدس کائناتِ ہست و بود کا سب سے بلند درجہ متبرک مقام ہے۔ کیوں نہ ہو کہ وہ اللہ رب العزت کے محبوب ترین مطہر و مقدس نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے مدفن ہے۔ گنبدِ خضراء وہ مبہطِ انوارِ الٰہیہ ہے جہاں قدسیانِ فلک صبح و شام 70، 70 ہزار کی تعداد میں حاضری کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ایک مومن صادق کے دل میں ہر وقت یہ تمنا مچلتی ہے کہ کاش! مجھے اس بارگاہ بے کس پناہ میں حاضری کی سعادت نصیب ہو جائے۔ خاکِ طیبہ کو آنکھوں کا سرمہ بنانے اور وہاں کی پاکیزہ فضاؤں میں سانس لینے کی آرزو قرونِ اولیٰ سے لے کر آج کے دن تک ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امتی کے دل میں رہی ہے۔ جمہور ائمۂِ فقہاء کے نزدیک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت محبوب مستحسن اور موجب رحمت و سعادت عمل ہے، اس پر اتفاق ہے۔
1. علامہ ابنِ ہمام رحمۃ اللہ علیہ (م 681ھ) لکھتے ہیں :
قال مشائخنا رحمهم اﷲ تعاليٰ : من أفضل المندوبات وفي مناسک الفارسي و شرح المختار أنها قريبة من الوجوب لمن له سعة.
’’ہمارے مشائخ کرام نے کہا : زیارتِ روضۂِ اطہر علی صاحبھا الصّلاۃ والسلام بلند درجہ مستحب عمل ہے۔ مناسک الفارسی، اور شرح المختار، میں لکھا ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت شخص کے لیے (زیارتِ روضۂِ اقدس کا درجہ) وجوب کے قریب ہے۔‘‘
ابن همام، فتح القدير، 3 : 179
2۔ علامہ ابنِ ہمام ہی نے لکھا ہے :
والأولي فيما يقع عند العبد الضعيف تجريد النّيّة لزيارة قبر النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’بندۂ ضعیف (ابن ھمام) کے نزدیک محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور کی زیارت کی نیت کرنا بھی اولیٰ ہے۔‘‘
ابن همام، شرح فتح القدير، 2 : 180
3. علامہ ابن قدامہ حنبلی (م 620) نے فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’’الکافی‘‘ اور ’’المغنی‘‘ میں لکھا ہے :
ويستحبّ زيارة قبر النّبي صلي الله عليه وآله وسلم وصاحَبيه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں صحابہ کرام (حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما) کی مبارک قبروں کی زیارت مستحب ہے۔‘‘
1. ابن قدامة المقدسي، الکافي، 1 : 457
2. ابن قدامة، المغني، 3 : 297
علامہ ابن قدامہ نے اپنے مذکورہ قول کے ثبوت میں زیارتِ قبرِ انور کی ترغیب میں احادیثِ مبارکہ کا ذکر کیا ہے۔ زیارت قبر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے سفر ان کے نزدیک امر مباح اور جائز ہے۔
ابن قدامه، المغني، 2 : 52
4۔ عارفِ کامل حضرت ملا جامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول کیا ہے کہ انہوں نے حج کے بعد محض زیارتِ قبر انور کے لیے الگ سفر اختیار کیا تاکہ اس سفر کا مقصد زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کچھ نہ ہو۔
ائمۂ احناف کے نزدیک روضۂ انور کی نیت سے سفر کرنا افضل عمل ہے۔
ابن قدامه، المغني، 2 : 52
5۔ علامہ طحطاوی نے لکھا ہے :
الأولي في الزيارة تجريد النّية لزيارة قبره صلي الله عليه وآله وسلم.
’’زیارتِ قبر انور کے لیے بہتر یہ ہے کہ محض حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کی زیارت کی نیت کی جائے۔‘‘
طحطاوي، حاشية علي مراقي الفلاح، 1 : 486
6. علامہ ابنِ عابدین شامی نے لکھا ہے :
قال في شرح اللباب وقد روي الحسن عن أبي حنيفة أنه إذا کان الحجّ فرضاً فالأحسن للحاج أن يبدأ بالحج ثم يثني بالزيارة وإن بدا بالزيارة جاز.
’’شرح اللباب میں ہے حضرت حسن نے امام ابو حنیفہ سے روایت کیا ہے کہ زائر حرمین شریفین اگر فرض حج کی ادائیگی کر رہا ہو تو حج سے ابتداء کرے اس لیے کہ فرض درجہ کے لحاظ سے غیر فرض پر مقدم ہوتا ہے۔ بعد ازاں زیارتِ روضۂ اقدس کی الگ نیت کرے اور اگر اس نے زیارتِ قبرِ انور سے ابتداء کی ہے تو یہ بھی جائز اور درست ہے۔‘‘
ابن عابدين، حاشية ابن عابدين، 2 : 627
وہ اس بات کی وجہ یہ لکھتے ہیں :
إذ يجوز تقديم النّفل علي الفرض إذا لم يخش الفوت بالإجماع.
’’کیونکہ نفل کا فرض پر مقدم کرنا جبکہ فرض کے فوت ہونے کا خوف نہ ہو شرعاً جائز ہے۔‘‘
ابن عابدين، حاشية ابن عابدين، 2 : 627
مذکورہ بالا اختیار اس صورت میں ہے جب زائر کا گذر مدینہ منورہ سے نہ ہو۔ اگر اس کا گذر مدینہ طیبہ اور روضۂ انور کے قرب سے ہو تو پھر زیارتِ روضۂِ انور ناگزیر ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی نے لکھا ہے :
فإن مرّ بالمدينة کأهل الشام بدأ بالزّيارة لا محالة لأن ترکها مع قربها يعدّ من القساوة والشّقاوة وتکون الزيارة حينئذ بمنزلة الوسيلة وفي مرتبة السنة القبلية للصّلاة.
’’اور اگر زائرِ حرمین کا گزر ہی قرب مدینہ منورہ سے ہو جیسے ملک شام کے لوگوں کے لئے تو اسے بہرصورت زیارت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی ابتدا کرنی ہو گی، کیونکہ زائر کا اس کے قرب سے گزرنے کے باوجود اس کی زیارت کو ترک کرنا بد بختی اور قساوتِ قلبی کی دلیل ہے۔ اس صورت میں زیارت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسیلہ بنے گی اور اس کا یہ عمل درجۂ ادائیگی میں ایسا ہے جیسے فرض نماز سے پہلے سنت نماز کی ادائیگی۔‘‘
ابن عابدين، حاشية ابن عابدين، 2 : 627
1۔ ابن الحاج مالکی اپنی کتاب ’’المدخل‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’جب زائرِ مدینہ مکہ معظمہ سے زیارتِ نبوی کی نیت سے نکلے تو اُس کی ساری توجہ زیارتِ نبوی اور مسجدِ نبوی میں ادائیگیء نماز کی طرف ہو، لیکن ان مقاصدِ جلیلہ کے ساتھ دیگر مقاصد کو شامل نہ کرے کیونکہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متبوع ہیں تابع نہیں۔ اُنہی کی ذاتِ اقدس سفر کا مرکز و محور ہے، جب شہرِمدینہ میں داخلہ کی سعادت حاصل ہو تو بہتر یہی ہے کہ مدینہ منورہ سے باہر مسافروں کے اُترنے کا جو مقام مقرر ہے اُسی مقام پر اُترے اور جب شہرِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخلہ کا وقت آئے تو غسل اور وضو کرے، اچھی سے اچھی پوشاک پہنے، نوافل ادا کرے، توبہ کی تجدید کرے اور پیدل چلتا ہوا اندر داخل ہو کر تصویرِ عجز بن جائے کہ وہ شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربارِ اقدس میں حاضری کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
’’تاریخ بتاتی ہے کہ جب وفدِ عبدالقیس بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا تو وفد کے اراکین بے تابی سے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر جا گرے اور شمعِ رسالت کے گرد پروانہ وار رقص کرنے لگے، جبکہ اُن کے سردار نے وقار کامظاہرہ کیا، پہلے غُسل کیا، عمدہ لباس زیب تن کیا اور پھر بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر ہدیۂ سلام پیش کیا۔ اِس پر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے اندر دو عادتیں ایسی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک پسندیدہ ہیں، وہ ’حلم‘ اور ’حوصلہ‘ ہیں۔‘‘
2۔ سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’الغنیۃ لطالبي طریق الحق‘‘ میں زیارت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بھی تفصیل سے بیان کئے ہیں۔ اِختصار کے ساتھ ذیل میں ان آداب کا ذکر کیا جا رہا ہے :
’’زائرِ مدینہ بارگاہِ نبوی میں اِستغاثہ پیش کرے، اللہ کی بارگاہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلۂ جلیلہ سے دعاکرے۔ الوداعی زیارت کے وقت (یوں) سلامِ شوق پیش کرے : ’الوداع، یا رسولَ اﷲ! الوداع‘ اللہ کی بارگاہ میں اپنی حاجات پیش کرنے کے بعد اپنی حاضری کی قبولیت کی بھی دعا مانگے اور التجا کرے کہ مولا! یہ زیارت آخری نہ ہو۔‘‘
3۔ امام نووی نے اپنی کتاب ’’الایضاح (ص : 446)‘‘ کے باب ششم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اَطہر کی زیارت کے آداب بالتفصیل ذکر کئے ہیں۔
4۔ کمال الدین بن ہمام حنفی نے ’’فتح القدیر‘‘ میں ’کتاب الحج‘ کے آخر میں (3 : 94) اِس موضوع پر تفصیلی بحث کی ہے۔
5۔ اِمام ابنِ قیم نے اپنے شہرۂ آفاق ’’القصیدۃ النونیۃ‘‘ میں زیارتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آداب بیان کئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں :
فإذا أتينا المسجد النبوي
صلينا التحية أولا ثنتان
(جب ہم مسجدِ نبوی میں حاضر ہوں تو سب سے پہلے دو رکعت نمازِ تحیۃ المسجد ادا کریں۔)
ثم انثنينا للزيارة نقصد القبر
الشريف ولو علي الأجفان
(پھر روضۂ اَنور کی زیارت کا قصد کریں، چاہے پلکوں پر چل کر ہی حاضری کا شرف کیوں نہ حاصل کرنا پڑے۔)
فنقوم دون القبر وقفة خاضع
متذلل في السر والإعلان
(پھر باطناً و ظاہراً اِنتہائی عاجزی و اِنکساری کے ساتھ (حضوری کی تمام تر کیفیتوں میں ڈوب کر) قبرِ اَنور کے پاس کھڑے ہوں۔)
فکأنه فی القبر حيّ ناطق
فالواقفون نواکس الأذقان
(یہ اِحساس دل میں جاگزیں رہے کہ حضورا اپنی قبرِ اَنور میں زندہ ہیں اور کلام فرماتے ہیں، پس (وہاں) کھڑے ہونے والوں کا سر (اَدباً و تعظیماً) جھکا رہے۔ )
ملکتهم تلک المهابة فاعترت
تلک القوآئم کثرة الرجفان
(بارگاہِ نبوی میں یوں کھڑے ہوں کہ رُعبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پاؤں تھرتھر کانپ رہے ہوں۔)
وتفجرت تلک العيون بمائها
و لطالما غاضت علي الأزمان
(اور آنکھیں بارگاہِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اَشکِ مسلسل کا نذرانہ پیش کرتی رہیں، اور وہ طویل زمانوں کی مسافت طے کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کھو جائیں۔)
و أتي المسلم بالسلام بهيبة
و وقار ذي علم و ذي إيمان
(پھر مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وقار و اَدب کے ساتھ ہدیۂ سلام پیش کرتے ہوئے آئے جیسا کہ صاحبانِ ایمان اور صاحبانِ علم کا شیوہ ہے۔)
لم يرفع الأصوات حول ضريحه
کلا! و لم يسجد علي الأذقان
(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اَنور کے قریب آواز بھی بلند نہ کرے، خبردار! اور نہ ہی سجدہ ریز ہو۔)
من أفضل الأعمال هاتيکالزيا
رة وهي يوم الحشر في الميزان
(یہی زیارت افضل اعمال میں سے ہے اور روزِ حشر اسے میزانِ حسنات میں رکھا جائے گا۔ )
6. شیخ عبد الحق محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ’’ما ثبت من السنۃ (ص : 114. 116)‘‘ میں زیارتِ قبرِ اَنور کے آداب بالتفصیل ذکر کئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :
’’زائر کو چاہئے کہ گھر سے روانہ ہوتے وقت مدینہ منورہ کی جانب متوجہ ہو اور راستہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت سے درود شریف پڑھے، کیونکہ اس راہ کے مسافر کے لئے فرض عبادات کے بعد درود شریف پڑھنا ہی افضل ترین عبادت ہے۔ جب زائر مدینہ منورہ کا کوئی درخت دیکھے یا اُسے حرم پاک نظر آئے تو بے اِنتہا درود شریف پڑھے، دِل میں اﷲ تعالیٰ سے دُعا مانگے کہ روضۂ انور کی زیارت بابرکت سے اُسے فائدہ ہو اور دُنیا و آخرت میں سعادت مندی حاصل ہو۔ اُسے چاہئے کہ زبان سے یہ کہے :
اَللّٰهُمَّ! إِنَّ هذا حَرَمَ رَسُوْلِکَ، فَاجْعَلْهُ لِي وِقَايَةً مِّنَ النَّارِ وَ اَمَاناً مِّنَ الْعَذَابِ وَ سُوءِ الْحِسَابِ.
’’اے اللہ! یہ تیرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حرم محترم ہے، اِسے میرے لئے آتشِ دوزخ سے پناہ گاہ بنا دے، عذابِ آخرت اور برے حساب سے محفوظ رکھنے والا اور جائے اَمن بنا دے۔‘‘
’’مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے غسل کرنا، عمدہ کپڑے پہننا، خوشبو لگانا اور سہولت کے ساتھ جتنا ہو سکے صدقہ کرنا مستحب ہے۔ زائر مدینہ منورہ میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھے :
بِسْمِ اﷲِ وَ عَلٰي مِلَّةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّي مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَاناً نَّصِيْرًا.
’’اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں اور میں اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملت پر ہوں۔ اے اﷲ! مجھے مقامِ صداقت میں داخل فرما اور صداقت کے مقام پر مجھے نکال، اور مجھے اپنی جانب سے مددگار غلبہ و قوت عطا فرما۔‘‘
جب وہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازہ پر پہنچے تو اپنا داہنا پاؤں دروازہ میں رکھ کر یہ دُعا پڑھے :
اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِی ذُنُوْبِيْ وَ افْتَحْ لِی أَبْوَابَ رَحْمَتِکَ وَ فَضْلِکَ.
’’اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما دے اور مجھ پر اپنے فضل و کرم کے دروازے کھول دے۔‘‘
’’زائر جب روضۂ اَقدس کا رُخ کرے تو حتی المقدور کوشش کرے کہ تحیۃ المسجد (کے نوافل) مُصلیء نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ادا کرے۔ اگر ممکن نہ ہو تو روضۂ اقدس کے کسی حصہ میں یا مسجدِ نبوی میں کسی مقام پر نماز تحیۃ المسجد پڑھے اور پھر بقعۂ مبارک تک پہنچنے سے پہلے سجدۂ شکر ادا کرے (بعض علماء نماز و تلاوت کے علاوہ سجدہ شکر بجا لانے کے بارے میں مختلف الرائے ہیں). اس کے بعد قبولِ زیارت کی دُعا کے ساتھ مزید نعمتوں کے حصول کی بھی دُعا کرے۔ پھر روضۂ اقدس کے پاس اس طرح حاضری دے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کی طرف منہ کرے اور قبلہ کی جانب پیٹھ کرکے کھڑا ہو۔ روضۂ مبارک کی جالی کو نہ چھوئے اور اِسے بوسہ بھی نہ دے، کیونکہ یہ دونوں کام اور اس کے علاوہ دوسری حرکتیں جاہلوں اور نا واقفوں کے طور طریق ہیں، اور سلف صالحین کا یہ طرزِ عمل کبھی نہیں رہا۔ نیز زائر کے لئے لازمی ہے کہ ادباً جالی سے چپک کر کھڑا نہ ہو بلکہ جالی سے تین یا چار ہاتھ پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں اِنتہائی خشوع و خضوع (و عاجزی اِنکساری) کے ساتھ پر سکون انداز میں پست آواز میں عرض کرے :
اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا سَيِّدَ الْمُرْسَلِيْنَ! اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا خَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ! اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا قَائِدَ الغُرِّ الْمُحَجَّلِيْنَ! اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا مَنْ اَرْسَلَهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ! اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ وَ عَلٰي أَهْلِ بَيْتِکَ وَ أَزْوَاجِکَ وَ أَصْحَابِکَ أَجْمَعِيْنَ! اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُهَا النَّبِيُ وَ رَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُه! أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَ أَشْهَدُ أَنَّکَ عَبْدُه وَ رَسُوْلُه، وَ أَمِيْنُه وَ خَيْرَتُه مِنْ خَلْقِه، وَ أَشْهَدُ أَنَّکَ بَلَّغْتَ الرِّسَالَةَ وَ أَدَّيْتَ الْأَمَانَةَ، وَ جَاهَدْتَ فِي سَبِيْلِ اﷲِ حَقَّ جِهَادِه وَ عَبَدْتَ رَبَّکَ حَتيّٰ أَتَاکَ الْيَقِيْنُ، فَجَزَاکَ اﷲُ عَنَّا يَا رَسُوْلَ اﷲِ أَفْضَلَ مَا جَزيٰ نَبِياًّ عَنْ أمَّتِه.
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰي آلِ سَيِّدِنَا مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آٰلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، وَ بَارِکْ عَلٰی سَيِّدِنَا مَحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰي إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰي آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّکَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ.
اَللّٰهُمَّ! إِنَّکَ قُلْتَ وَ قَوْلُکَ الَحَقُّ : ﴿وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَّلَمُوْا أَنْفُسَهُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اﷲَ تَوَّابًا رَّحِيْمًا﴾.
’’اے رسولوں کے سردار! آپ پر سلام ہو، اے سب انبیاء سے آخر میں آنے والے! آپ پر سلام ہو، اے درخشاں حسینوں کے قائد و رہبر! آپ پر سلام ہو، اے وہ رسول جسے اﷲ تعالیٰ نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا! آپ پر سلام ہو، آپ کے اہلِ بیت، اَزواجِ مطہرات اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر سلام ہو، اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اﷲ کی رحمتیں، برکتیں نازل ہوتی رہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے بندے، اُس کے رسول، اُس کے امین اور اُس کی مخلوقات میں بہترین و برگزیدہ ہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے رِسالت کی تبلیغ فرمائی، حقِ اَمانت ادا کیا، اﷲ کی راہ میں پوری طرح حقِ جہاد ادا فرمایا، اور آپ نے (اپنی شان کے لائق) مقامِ یقین (یعنی اِنشراحِ کامل نصیب ہونے یا لمحۂ وِصالِ حق) ملنے تک اپنے پروردگار کی عبادت کی۔ ہماری اِستدعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو وہ بہترین جزا مرحمت فرمائے جو کسی نبی کو اس کی اُمت کی طرف سے جزا دیتا ہے۔
’’اے اﷲ! ہمارے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُن کی آل پر رحمتیں نازل فرما، جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کی آل کو نوازا۔ بے شک تو ہی لائقِ حمد (اور) بزرگ و برتر ہے۔ اے اللہ! ہمارے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر برکتیں نازل فرما جیسی کہ تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد پر برکتیں نازل فرمائیں، یقیناً تو ہی لائقِ حمد (اور) بزرگ و برتر ہے۔
’’اے اﷲ! تو نے ہی فرمایا ہے اور تیرا یہ فرمان بالکل صحیح ہے : ’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
اِس کے بعد زائر یہ دعا کرے :
اَللّٰهُمَّ! قَدْ سَمِعْنَا قَوْلَکَ وَأَطَعْنَا أَمْرَکَ وَقَصَدْنَا نَبِيَکَ مُسْتَشْفِعِيْنَ بِه إِلَيْکَ مِنْ ذُنُوْبِنَا، اَللّٰهُمَّ! فَتُبْ عَلَيْنَا وَاسْعَدْنَا بِزِيَارِتِه وَادْخِلْنَا فِي شَفَاعَتِه، وَقَدْ جِئْنَاکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ ظَالِمِيْنَ أَنْفُسَنَا مُسْتَغْفِرِيْنَ لِذُنُوْبِنَا، وَقَدْ سَمَّاکَ اﷲُ تَعَالٰي بِالرَّءُوْفِ الرَّحِيْمِ، فَاشْفَعْ لِمَنْ جَاءَکَ ظَالِمًا لِنَفْسِه مُعْتَرِفًا بِذَنْبِه تَائِبًا إِلَي رَبِّه.
’’اے اﷲ! ہم نے تیرا فرمان سنا اور تیرے احکام کی تعمیل میں تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارگاہ میں حاضر ہیں، جو تیری بارگاہ میں ہمارے گناہوں کی شفاعت کریں گے۔ اے اﷲ! ہم پر رحم و کرم فرما اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی برکت سے خوش بخت بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت ہمیں نصیب فرما۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و سلم! ہم آپ کی بارگاہ میں اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہوئے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے حاضر ہوئے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو رَءُوْفٌ رَّحِيْم بنایا ہے۔ پس وہ جو اپنی جان پر ظلم کر کے اپنے رب کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اِقرار کر کے اُس سے معافی مانگتے ہوئے آپ کے حضور حاضر ہوا اُس کی شفاعت فرمائیے۔‘‘
’’علاوہ اَزیں زائر پر لازم ہے کہ وہ اپنے والدین، اَعزاء و اَحباب وغیرہ کے لئے بھی دُعا مانگے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ہر دُعا قبول ہوتی ہے۔‘‘
اَئمہ و علماء کرام نے زیارتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بے شمار فضائل و برکات اور فوائد بیان کئے ہیں اور کتبِ فقہ، مناسکِ حج اور کتبِ مناقب و خصائص میں سیر حاصل بحث کی ہے۔ اِن کتب میں مکمل یا جزوی طور پر اَبواب کی صورت میں زیارتِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحکام، فضائل اور آداب جمع ہیں۔ جن سے قارئین مزید اِستفادہ کرسکتے ہیں۔ ہم ان کتب کو درج ذیل چار حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں :
وہ اَئمہ و محدثین کرام جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کے فضائل و برکات بیان کئے، اس کے حق میں فتاویٰ دیئے اور اِس موضوع پر کتب لکھیں وہ مندرجہ ذیل ہیں :
اِن کتب میں زیارتِ روضۂ اَقدس کے موضوع پر اَبواب ہیں :
وہ مسئلہ زیارت میں لکھتے ہیں کہ قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنا سُنت ہے، قرآن و سنت فعلِ صحابہ، اجماع، عرفِ عام اور قیاس سے ثابت شدہ ہے۔
شمع رسالت کے پروانوں کا رقصِ مستانہ آج بھی جاری ہے، جاں نثاروں کے والہانہ عشق و محبت کاجذبہ آج بھی زندہ و تابندہ ہے بلکہ عشاقِ مصطفیٰ نے اس جذبۂ جاں نثاری کو ایک تحریک بنا دیا ہے۔ بعد اَز وِصال بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے لے کر لمحۂ موجود تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ اَطہر مرجعِ خلائق بنا ہوا ہے، درِ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر لمحہ صلِ علیٰ کے سرمدی پھولوں کی بہار دِلوں کے غنچے کھلاتی رہتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کا در آج بھی کھلا ہے اور قیامت تک کُھلا رہے گا۔ اگر آج کا انسان امن، سکون اور عافیت کی تلاش میں ہے اور اُفقِ عالم پر دائمی امن کی بشارتیں تحریر کرنے کا داعی ہے تو اُسے دہلیزِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرجھک جانا ہو گا، اس لئے کہ گنبدِ خضرا کو اپنی سوچوں کا مرکز و محور بنائے بغیر باغِ طیبہ کے شاداب موسموں اور مخمور ساعتوں کو اپنے ویران آنگن کا مقدر نہیں بنایا جا سکتا، امن کی خیرات اسی در سے ملے گی، اس لئے کہ ذہنوں کی تہذیب و تطہیر کا شعور اُسی دَرِ پاک کی عطائے دلنواز ہے۔
جیسا کہ اوپر تصریح ہو چکی ہے کہ جان نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دربارِ نبوی کی زیارت کا حد درجہ اشتیاق رکھتے ہیں اور خاکِ طیبہ کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتے ہیں، بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ
خاکِ طیبہ از دو عالم خوشتر است
آں خنک شہرے کہ آں جا دلبرست
لیکن بعض نادان لوگ سید العالمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں حاضری کی نیت سے جانے کو بھی (معاذ اﷲ) شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایسا عقیدہ بے دینی اور جہالت پر مبنی ہے۔ صحیح عقیدہ وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ باطل عقیدہ رکھنے والوں کا محلِ اِستدلال حدیث کی غلط تعبیر ہے۔ ذیل میں ہم اس روایت کی صحیح تشریح و تعبیر اَجل اَئمہ حدیث کے اَقوال کی روشنی میں پیش کریں گے، جس سے حدیث پاک کا صحیح مفہوم و مدعا واضح ہو جائے گا :
1. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إلَّا إلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الرَّسُوْلِ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَسْجِدِ الْأَقْصٰي.
’’مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب فضل الصلاة في مسجد مکة والمدينة، 1 : 398، رقم
: 1132
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب لاتشد الرحال إلا إلي ثلاثة مساجد، 2 : 1014، رقم
: 1397
3. نسائي، السنن، کتاب المساجد، باب ما تشد الرحال إليه من المساجد، 2 : 29، 30،
رقم : 700
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے :
لَا تُعْمَلُ الْمَطِيُ إِلَّا إِلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ.
’’(زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) تین مساجد کے سوا کسی مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے : مسجدِ حرام، میری مسجد اور مسجد بیت المقدس۔‘‘
بعض کتب میں مسجد بیت المقدس کی جگہ مسجد ایلیاء کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
1. نسائي، السنن، کتاب الجمعة، باب ذکر الساعة التي يستجاب فيها الدعاء يوم
الجمعة، 3 : 79، رقم : 1430
2. نسائي، السنن الکبريٰ، 1 : 540، رقم : 1754
3. مالک، الموطأ، 1 : 109، رقم : 241
3. طبرانی نے ’’المعجم الاوسط (6 : 51، 52، رقم : 5106)‘‘ میں یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے :
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : مَسْجِدِ الخَيْفِ، وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ، مَسْجِدِي هَذَا.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین مسجدوں یعنی مسجدِ خیف، مسجدِ حرام اور میری اِس مسجد کے سوا کسی (اور مسجد) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘
طبرانی کہتے ہیں کہ کلثوم بن جبر سے یہ حدیث حماد بن سلمہ کے سوا کسی نے روایت نہیں کی اور اِس حدیث کے سوا کسی اور حدیثِ شَدُ الرِّحال میں مسجدِ خیف کا ذکر بھی نہیں ہے۔
4. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اِن الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے :
وَ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَي، وَمَسْجِدِيْ.
’’تین مسجدوں یعنی مسجدِ خیف، مسجدِ حرام اور میری مسجد کے سوا کسی (اور مسجد ) کی طرف (زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجمعة، باب مسجد بيت المقدس، 1 : 400، رقم : 1139
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب سفر المرأة مع محرم إلي حج وغيره، 2 : 976،
رقم : 1338
3. ترمذي، السنن، کتاب الصلاة، باب ما جاء في أي المساجد أفضل، 1 : 358، رقم : 326
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا اِرشادات کو بنیاد بنا کر بعض لوگ انبیاء و صالحین کے قبور کی زیارت حتیٰ کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اَطہر کی بہ غرضِ زیارت حاضری کو بھی ناجائز اور (معاذ اﷲ) شرک گردانتے ہیں۔ جبکہ اکابر علمائے ربانیین اور محدّثین و مفسرینِ کرام نے اِس اِستدلال کو غلط اور کج فہمی قرار دیا ہے۔ اُنہوں نے اپنی معتبر کتب میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ اس حدیث کا صحیح مطلب بیان کیا ہے۔ اِس کی روشنی میں دین کا معمولی سا فہم رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ جو لوگ اس حدیث مبارکہ سے استدلال کرتے ہوئے اَنبیاء و صالحین کے مزارات کی زیارت کے سفر سے منع کرتے ہیں اور اِسے سفرِ معصیت و گناہ کہتے ہیں وہ بلاشبہ صریح غلطی پر ہیں اور اُن کا اِستدلال کسی بھی طرح لائقِ التفات نہیں۔
1۔ ان احادیثِ مبارکہ میں اِستثناء کے حوالے سے دو اَقوال ہیں :
ایک یہ کہ اِستثناء مطلق یعنی عمومیت پر مبنی ہو۔ جس سے ہر قسم کا سفر ناجائز قرار پائے گا اور یہ بات خلافِ عقل و خلافِ شرع ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اِستثناء مقید ہو یعنی محض مساجد سے مختص ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کا زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے سوائے اِن تین مساجد کے کسی اور مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے اور یہی قول صحیح ہے۔
2. حدیثِ مبارکہ میں لا تُشَدُّ الرِّحال کے فوراً بعد الا الی ثلاثۃ مساجد مذکور ہے۔ اہلِ لغت کے معروف اُسلوب کے مطابق جس جملہ میں مستثنیٰ (جسے اِستثناء حاصل ہو) اور مستثنیٰ منہ (جس سے اِستثناء کیا گیا ہو) دونوں پائے جاتے ہوں تو نحوی قاعدہ یہ ہے کہ مستثنیٰ حرفِ اِستثناء کے بعد اور مستثنیٰ منہ حرفِ اِستثناء سے پہلے ہوگا اور وُجوداً یا تقدیراً مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ دونوں کا پایا جانا ضروری ہو گا۔
مذکورہ حدیث میں ’إِلاَّ‘ حرفِ اِستثناء ہے، ’ثلاثۃ مساجد ‘ مستثنیٰ ہے۔ قاعدہ کی رُو سے ’إِلاَّ‘ کے بعد ثلاثۃ مساجد تو مذکور ہے لیکن مستثنیٰ منہ مذکور نہیں، جو ’إِلاَّ‘ سے پہلے پایا جانا تھا لہٰذا جہاں ایسی صورت ہو کہ مستثنیٰ مذکور ہو مگر مستثنیٰ منہ کا لفظی ذکر نہ ہو تو وہاں مستثنیٰ منہ مقدّر مانا جائے گا۔ اِس صورت میں مقدّر مستثنیٰ منہ کے تعین کے تین اِحتمالات ہو سکتے ہیں :
اِس حدیث سے سفرِ زیارت کی ممانعت کا اِستدلال کرنے والوں کے مسلک کے مطابق اگر مستثنیٰ منہ لفظ ’قبر‘ کو فرض کریں تو حدیث کی عبارت تقدیری اِس طرح ہوگی : لَا تُشَدُّ الرِّحال الی قبر الا الی ثلاثۃ مساجد ’’سوائے تین مساجد کے کسی قبر کی طرف رَختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘ یہاں لفظ ’قبر‘ ایسی بے بنیاد تعبیر ہے جو نہ سیاقِ کلام کے مطابق ہے اور نہ ہی اُسلوبِ بیان و زباں کے لائق. عربی زبان سے تھوڑی سی واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ غیر معتبر اور غیر معقول اُسلوب قبول نہیں کرسکتا، چہ جائیکہ اِس کی نسبت اَفصحُ العرب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کی جائے لہٰذا ضابطہ کے خلاف لفظ ’قبر‘ کو مستثنیٰ منہ بنانا ہرگز درست نہیں۔
اگر ’مکان‘ کو مستثنیٰ منہ فرض کیا جائے تو حدیث کی عبارت تقدیری یوں ہوگی :
لَا تُشَدُّ الرِّحال الی مکان الا الی ثلاثۃ مساجد (سوائے تین مساجد کے کسی اور مقام کی طرف رَختِ سفر نہ باندھا جائے)۔ اِس کا مطلب یہ ہو گا کہ تعلیم، تجارت اور کسی بھی کارِ خیر کے لئے سفر کرنا ممنوع ہے، حالانکہ اِن اُمورِ خیر کے لئے سفر کی ممانعت باطل اور غیر معقول ہے۔ مطلق سفر کی کہیں بھی ممانعت نہیں اور نہ ہی ایسا کوئی مفہوم حدیث مذکور کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہ مفہوم نہ صرف غیر شرعی ہو گا بلکہ بے شمار احکام اسلامی اور مصالح دینی سے متصادم ہو گا۔ سو یہ صورت تقدیری بھی قبول نہیں کی جا سکتی، اس لئے کہ
درج ذیل مقاصد کے لئے آج بھی سفر کیا جاتا ہے :
اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتنے ہی سفر ہیں جو ہم روزانہ کرتے ہیں۔ اگر ہر سفر ممنوع قرار دیا جائے تو زندگی کا نظام معطل ہو کر رہ جائے گا، جو کہ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔
یہ اِستثناء مفرغ ہے۔ اس میں مستثنیٰ اور مستثنیٰ منہ کا جنسِ واحد سے ہونا ضروری ہوتاہے، جیسا کہ کلامِ عرب میں ہے :
ما جاء نی الا زید (میرے پاس سوائے زید کے کوئی نہیں آیا)۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ میرے پاس سوائے زید کے کوئی شخص یا انسان نہیں آیا۔ اگر پرندہ یا کوئی جانور آیا ہو تو کلام غلط نہ ہوگا کیونکہ مستثنیٰ منہ پرندہ یا جانور نہیں بلکہ انسان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زید بھی انسان ہے، اس لئے ایک ہی جنس سے ہونے کی وجہ سے مفہوم واضح اور درست ہو جائے گا لہٰذا درست بات یہی ہے کہ اِس حدیث میں بھی عربی کے اُسلوب اور قاعدہ کی رُو سے تقدیر لفظ ’مسجد‘ ہی ہو، یعنی جسے مستثنیٰ ٹھہرایا جا رہا ہے مستثنیٰ منہ بھی وہی جنس ہو۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر جواز کے لئے اِستثناء مساجد کا کیا جا رہا ہے تو ممانعت بھی بقیہ مساجد ہی کی طرف منسوب ہوگی، نہ کہ دیگر اُمور اور مقاصد کی طرف۔ پس اب حدیث کی تقدیراً عبارت یوں ہوگی :
لَا تُشَدُّ الرِّحال إلي مسجد إلّا إلي ثلاثة مساجد.
’’سوائے تین مساجد کے کسی اور مسجد کی طرف (ثواب کی زیادتی کی نیت سے) رختِ سفر نہ باندھا جائے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرشاد کا واضح مطلب یہ ہے کہ مسجدِ حرام، مسجدِ اقصیٰ اور مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے کی فضلیت چونکہ زیادہ ہے اور باقی مساجد نماز پڑھنے کی فضیلت اور ثواب میں برابر ہیں اس لئے ان تینوں مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد میں ثواب کی زیادتی کی نیت سے سفر کی زحمت برداشت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس جگہ زیادتی ثواب پر کوئی شرعی دلیل مذکور نہیں۔
متذکرہ بالا احادیث کا صحیح مطلب اجل ائمہِ حدیث نے بیان کیا ہے اور اس پر اپنی تحقیق کی ہے۔
ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک مدینہ طیبہ مخلص مؤمنین کا مرجع رہا ہے اور تاقیامت رہے گا۔ اس حوالے سے قاضی عیاض (544ھ) نے اس حدیثِ مبارکہ کی بڑی ایمان افروز تشریح کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان مدینہ کی طرف لوٹے گا۔ امام نووی اور دیگر شارحین حدیث نے ان کا قول نقل کیا ہے۔ شرح نووی میں ہے :
قال القاضي : وقوله صلي الله عليه وآله وسلم : وهو يأرز إلي المدينة، معناه : أن الإبمان أولاً وآخراً هذه الصفة، لأنه في أول الإسلام کان کل من خلص إيمانه وصحّ إسلامه أتي المدينة، إمّا مهاجراً مستوطناً، وإما متشوقاً إلي رؤية رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ومتعلماً منه، ومتقربا. ثم بعده هکذا في زمن الخلفاء کذلک، ولأخذ سيرة العدل منهم والاقتداء بجمهور الصحابة رضوان اﷲ عليهم فيها. ثم من بعدهم من العلماء الذين کانوا سرج الوقت وأئمة الهديٰ، لأخذ السنن المنتشرة بها عنهم. فکان کل ثابت الإبمان منشرح الصدر به يرحل إليها. ثم بعد ذلک في کل وقت إلي زماننا لزيارة قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم والتبرک بمشاهده، وآثاره، وآثار أصحابه الکرام. فلا يأتيها إلا مؤمن. هذا کلام القاضي. واﷲ أعلم بالصواب.
’’قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی کے ایمان مدینہ طیبہ کی طرف لوٹے گا، کا معنی ہے کہ ایمان کی ابتداء میں یہ صفت تھی اور آخر زمانہ میں بھی یہی صفت رہے گی کیونکہ ابتدائے اسلام میں ہر وہ شخص جس کا ایمان خالص ہوتا اور اسلام صحیح ہوتا، وہ مدینہ طیبہ آتا یا تو مہاجر بن کر مدینہ طیبہ کو اپنا وطن بناتا اور یا دیدارِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شوق میں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قربت کے حصول کے لیے۔ بعد ازاں خلفاء راشدین کے دور میں بھی اہلِ ایمان کا یہی معمول رہا تاکہ وہ ان سے عدل کا درس لیں اور جمہور صحابہ کا اقتداء بھی یہیں پر ہوتا تھا۔ پھر دورِ خلافت کے بعد وہ علماء جو اپنے وقت کے چراغ اور ہدایت کے امام تھے ان سے بکھری ہوئی سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخذ کرنے کیلئے اہلِ ایمان آتے رہے۔ پس ہر مومن جو ایمان پر ثابت قدم تھا اور جسے شرح صدر نصیب تھا وہ مدینہ طيّبہ کی طرف سفر کرتا۔ پھر ان علماء کے دور کے بعد آج تک ہر دور میں لوگ قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشاہد آثار اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کے لئے آتے رہے، پس مدینہ طيّبہ وہی شخص آتا ہے جو سچا مومن ہوتا ہے۔‘‘
نووي، شرح النووي، 2 : 177
شارحِ صحیح مسلم امام نووی (م 676ھ) نے بھی اس حدیث کی تفصیلی شرح لکھی ہے۔ لا تُشَدُّ الرِّحال کا درست معنی و مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فيه بيان عظيم فضيلة هذه المساجد الثلاثة ومزيتها علي غيرها لکونها مساجد الأنبياء صلوات اﷲ وسلامه عليهم، ولفضل الصّلاة فيها.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں ان تین مساجد کی فضیلت اور دنیا کی دیگر مساجد پر درجہ میں ان کی برتری کا بیان ہے کیونکہ یہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی مساجد ہیں اور اس وجہ سے کہ ان میں نماز پڑھنے کا ثواب اور فضیلت زیادہ ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 9 : 106
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ بعض علماء نے ان مساجد کے علاوہ قبورِ صالحین پر جانے میں الگ الگ آراء کا اظہار کیا ہے :
والصحيح عند أصحابنا، وهو الذي اختاره إمام الحرمين والمحققون أنه لا يحرم ولا يکره. قالوا : والمراد، أن الفضيلة التامة إنما هي في شدّ الرحال إلي هذة الثلاثة خاصة. واﷲ أعلم.
’’ہمارے اصحاب (یعنی شوافع) کے نزدیک صحیح مؤقف یہ ہے جسے امام الحرمین (ابو المعالی عبد الملک الجوینی) اور دیگر محققین ائمہ نے اختیار کیا وہ یہ کہ زیارتِ قبور حرام ہے نہ مکروہ، انہوں نے کہا اس حدیث کا صحیح مطلب یہ ہے کہ ثواب کے لیے سفر اختیار کرنے میں مکمل فضیلت ان تین مساجد کے ساتھ خاص ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 9 : 106
ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے :
وفي هذا الحديث فضيلة هذه المساجد الثلاثة وفضيلة شدّ الرحال إليها لأن معناه عند جمهور العلماء لا فضيلة في شدّ الرحال إلي مسجد غيرها.
’’اس حدیث میں ان مساجد کی فضیلت اور اس کی طرف سفر کی فضیلت کا بیان ہے اسی لیے جمہور ائمہ کے نزدیک ان مساجد کے علاوہ دوسری مساجد کی طرف رختِ سفر باندھنے میں کوئی فضیلت نہیں۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 9 : 168
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام سبکی (756ھ) رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے :
وقال السبکي الکبير : ليس في الأرض بقعة لها فضل لذاتها حتي تشدّ الرحال إليها غير البلاد الثلاثة، ومرادي بالفضل : ما شهد الشرع باعتباره و رتّب عليه حکمًا شرعيا وأماّ غيرها من البلاد فلا تشد إليها لذاتها بل لزيارة، أو جهاد، أو علم، أو نحو ذلک من المندوبات، أو المباحات. قال : وقد التبس ذلک علي بعضهم، فزعم أن شد الرحال إلي الزيارة لمن في غير الثلاثة داخل في المنع وهو خطأ لأن الاستثناء إنما يکون من جنس المستثني منه فمعني الحديث لا تشدّ الرحال إلي مسجد من المساجد أو إلي مکان من الأمکنة لأجل ذلک المکان إلا إلي الثلاثة المذکورة وشدّ الرحال إلي زيارة، أو طلب علم، ليس إلي المکان، بل إلي من في ذلک المکان. واﷲ أعلم.
’’عالمِ اجل علامہ کبیر سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : روئے زمین پر کوئی ایسا خطہ نہیں جسے ایسی ذاتی فضیلت حاصل ہو جس کی وجہ سے اس کی طرف سفر کیا جائے، سوائے ان تین جگہوں کے۔ فضیلت و شرف سے میری مراد وہ فضیلت ہے جیسے شریعت نے مقرر کیا ہے اور جس پر شرعی حکم مرتب ہوتا ہے اور جہاں تک ان تین جگہوں کے علاوہ دیگر مقامات کی بات ہے تو ان کے لیے فضیلت کے باعث سفر نہیں کیا جائے گا، بلکہ سفر کی وجہ ملاقات یا جہاد یا حصولِ علم یا اس طرح دیگر مستحب و مباح امور کا سر انجام دیا جانا ہو گا۔ علامہ سبکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا : بعض لوگوں کو اس حدیثِ مبارکہ سے مغالطہ ہوا پس انہوں نے سمجھا کہ شاید ان تین مقامات کے علاوہ کہیں اور سفر کے لئے جانا حکمِ ممانعت میں داخل ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ قاعدہ کی رو سے استثناء یا تو جنس ’مستثنیٰ منہ‘ سے ہوتا ہے پس اس صورت میں حدیثِ مبارکہ کا معنی ہو گا مساجد میں سے کسی مسجد کی طرف سفر نہ کیا جائے یا مقامات میں سے کسی مقام کی طرف ذاتی فضیلت کی وجہ سے سفر نہ کیا جائے سوائے مذکورہ تین مقامات کے۔ پس زیارت و ملاقات یا طلبِ علم کے لیے کسی جگہ کا سفر اس جگہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس جگہ میں رہنے والے کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 66
حافظ ابنِ حجر عسقلانی (م 852ھ) فتح الباری شرح صحیح البخاري میں اس حدیث پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
أن المراد حکم المساجد فقط. وأنه لا تشدّ الرحال إلي مسجد من المساجد فيه غير هذه الثلاثة وأما قصد غير المساجد لزيارة صالح أو قريب أو صاحب أو طلب علم أو تجارة أو نزهة فلا يدخل في النهي، ويؤيده ماروي أحمد من طريق شهر بن حوشب قال سمعت أبا سعيد وذکرت عنده الصلاة في الطور فقال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لا ينبغي للمصلي أن يشد رحاله إلي مسجد تبتغي فيه الصلاة غير المسجد الحرام والمسجد الأقصي و مسجدي.
’’لا تشد الرحال سے فقط مساجد مراد ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز (کا زیادہ ثواب حاصل کرنے) کے لیے ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف رختِ سفر نہ باندھا جائے اور جہاں تک کسی صالح بزرگ یا عزیز رشتہ دار یا دوست کی زیارت و ملاقات کا تعلق ہے یا حصولِ علم، تجارت اور تفریح کے لیے سفر اختیار کرنا یہ حکمِ نہی میں داخل نہیں۔ اس بات کی تائید مسند احمد بن حنبل میں شہر بن حوشب کے طریق پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ہے انہوں نے کہا میں نے حضرت ابو سعید خدری سے سنا جبکہ میں نے ان کے سامنے کوۃِ طور پر نماز پڑھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے بیان کیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی نمازی کو زیادہ حصولِ ثواب کی نیت سے کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرنا نہ چاہیے سوائے مسجدِ حرام، مسجدِ اقصی اور میری مسجد (مسجد نبوی) کے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 65
بعض لوگ حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب قول کو ممانعتِ سفرِ زیارت پر بطورِ دلیل پیش کرتے ہیں جس میں انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری کیلئے زیارت کے لفظ کو ناپسند کیا۔ ائمہِ حدیث فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حد درجہ ادب و احترام کرتے تھے، محبت اور تعظیم و توقیرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کا درجہ دیگر ائمہ کرام سے بڑھ کر ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کو نسبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا و مافيھا سے بڑھ کر عزیز تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ کو مدینہ طیبہ میں قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں موت کی آرزو تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ نے ساری زندگی فرض حج کے علاوہ کبھی مدینہ طیبہ سے باہر سفر نہ کیا، اس اندیشہ کے تحت کہ کہیں مسکنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دورِ حیات مستعار چھن نہ جائے جبکہ مدینہ طیبہ کے ادب و احترام کا یہ عالم تھا کہ آپ رضی اللہ عنہ کبھی بھی شہرِ مدینہ میں سواری نہیں کرتے تھے۔ علامہ ابنِ ھمام حنفی لکھتے ہیں :
کان مالک رحمه اﷲ و رضي عنه لا يرکب في طرق المدينة، وکان يقول : أستحي من اﷲ تعالي أن أطأ تربة فيها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مدینہ منورہ کے راستوں پر سواری پر سوار نہیں ہوتے تھے اور (اس کی وجہ یہ بیان) فرماتے تھے مجھے اللہ تعالیٰ سے حیا آتی ہے کہ میں اس مقدس مٹی پر سوار ہو کر چلوں جس کے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسدِ اطہر ہے۔‘‘
ابن همام، شرح فتح القدير، 3 : 180
پس آپ جیسے صاحبِ محبت امام سے اس بات کی توقع بعید ہے کہ انہوں نے زیارت کو ناپسند فرمایا ہو۔ دراصل ان کے نزدیک درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری پر لفظِ زیارت کا اطلاق خلافِ ادب ہے۔ کیونکہ عام قبروں کے لیے لفظِ زیارت استعمال ہوتا ہے جس میں مسلمان مُردوں کو فائدہ ہوتا ہے اور اس میں زائر کو اختیار ہوتا ہے چاہے زیارت کرے چاہے نہ کرے جبکہ مالکیہ کے نزدیک درِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری واجب ہے۔ اس لیے وہ اس کو عام زیارت کی طرح امرِ مباح نہیں گردانتے۔ لہٰذا امام مالک رحمہ اﷲ کے قول میں ممانعتِ زیارت کا شائبہ نہیں کیونکہ ان کا عقیدہ و عمل ہمارے سامنے ہے اور وہی قابلِ ترجیح ہے۔
امام ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی فرماتے ہیں :
ما نقل عن مالک : أنه کره أن يقول زرت قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم. وقد أجاب عنه المحققون من أصحابه : بأنه کره اللفظ أدباً، لا أصل الزيارة. فإنها من أفضل الأعمال، وأجل القربات الموصلة إلي ذي الجلال، وأن مشروعيتها محل إجماع بلانزاع. واﷲ الهادي إلي الصواب.
’’یہ جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ وہ اس بات کو ناپسند کرتے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کی۔ اس قول کا جواب امام مالک کے مقلدین محقق ائمہ کرام نے یہ دیا ہے کہ وہ ادبًا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کے لیے لفظِ ’’زیارت‘‘ کا اطلاق نا پسند فرماتے تھے نہ کہ سرے سے زیارت کا انکار کرتے تھے۔ کیونکہ زیارتِ روضۂ اطہر ان افضل اعمال اور بلند درجہ عبادات میں سے ہے جس کے ذریعہ رب ذوالجلال تک رسائی ہوتی ہے جبکہ زیارتِ روضۂ اقدس کی مشروعیت اجماع سے ثابت ہے جس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اللہ تعالیٰ صحیح بات کی طرف ہدایت فرمانے والا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 66
وہ مزید لکھتے ہیں :
قال بعض المحققين : قوله، إلا إلي ثلاثة مساجد، المستثني منه محذوف. فأما أن يقدر عاماً، فيصير، لا تشد الرحال إلي مکان في أي أمر کان إلا إلي الثلاثة، أو أخص، من ذلک لا سبيل إلي الأوّل، لإفضائه إلي سد باب السفر، للتجارة وصلة الرحم، وطلب العلم، وغيرها. فتعين الثاني. والأولي أن يقدر ماهو أکثر مناسبة، وهو : لا تشد الرحال إلي مسجد للصّلاة فيه إلا إلي الثلاثة، فيبطل بذلک قول من منع شدّ الرحال إلي زيارة القبر الشريف وغيره من قبور الصّالحين. واﷲ أعلم.
’’بعض محققین نے جو یہ کہا : اِلَّا الٰی ثَلَاثَۃ مَسَاجِدَ میں ’مستثنیٰ منہ‘ محذوف ہے۔ پس یہاں یا تو مقدر عام مانیں گے اس صورت میں عبارت یوں ہو گی ’’لا تشد الرحال الی مکان فی ای امر کان الا الی ثلاثۃ‘‘ کسی بھی مقصد کے لیے ان تین مساجد کے علاوہ کہیں اور سفر کے لیے رختِ سفر نہ باندھا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہاں ’مستثنیٰ منہ‘ مقدر خاص مانیں گے۔ پہلی صورت تو ہو ہی نہیں سکتی اس لیے کہ اس سے تجارت، صلہ رحمی اور طلبِ علم وغیرہ کے لیے تمام اسفار کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ پس لازماً دوسری صورت کا تعيّن کرنا پڑے گا اور بہتر یہ ہے کہ اس ’مستثنیٰ منہ‘ کو مقدر مانا جائے جس کی ’مستثنیٰ‘ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مناسبت ہو اور وہ اس طرح ہے کہ ’’لا تشد الرحال الی مسجد للصلاۃ فیہ الا الی الثلاثہ‘‘ (یعنی کسی بھی مسجد کی طرف نماز پڑھنے کی غرض سے رختِ سفر نہ باندھا جائے سوائے ان تینوں کے) اور اس سے اس شخص کا قول باطل ہو گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور اور اس کے علاوہ صالحین کی قبور کی طرف سفر کرنے سے منع کرتا ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري، 3 : 66
علامہ بدر الدین عینی (م 855 ھ) نے عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں لکھا ہے :
فإن قيل فعلي هذا يلزم أن لا يجوز السفر إلي مکان غير المستثني، حتي لا يجوز السفر لزيارة إبراهيم الخليل صلوات اﷲ تعالي وسلامه عليه ونحوه. لأن المستثني منه في المفرغ لا بد أن يقدر أعم العام. وأجيب بأن المراد بأعم العام ما يناسب المستثني نوعًا ووصفًا، کما إذا قلت : ما رأيت إلا زيدًا، کان تقديره : ما رأيت رجلًا أو أحدًا إلا زيدًا. لا : ما رأيت شيئًا أو حيوانًا إلا زيدا. فههنا تقديره : لا تشدّ إلي مسجد إلَّا إلي ثلاثة.
’’اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس حدیثِ مبارکہ سے یہ لازم آ رہا ہے کہ مستثنیٰ کے علاوہ کسی اور جگہ کی طرف سفر جائز ہی نہیں حتی کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور دیگر انبیاء کرام کے مقابر کی طرف کیونکہ مستثنیٰ منہ مفرغ کے لیے لازم ہے کہ اس کا مقدر عام ہو۔ میری طرف سے اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں عام سے مراد وہ عام ہے جو ازروئے نوع اور صفت مستثنیٰ کے مناسب ہے جیسے مَا رَاَيْتُ اِلَّا زِيْدًا کی تقدیر عبارت یوں ہو گی مَا رَايْتُ رَجُلًا اَو احدًا اِلَّا زیدًا یہ عبارت نہیں ہو گی کہ مَا رَایتُ شَيْئًا او حَیوَْانًا الا زَيْدًا پس اس حدیث مبارکہ میں تقدیر عبارت یوں ہو گی لَا تشد الرحال الی مسجد الا الی ثلاثۃ۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 7 : 253
وہ مزید لکھتے ہیں :
وأوّل بعضهم معني الحديث علي وجه آخر، وهو أن لا يرحل في الاعتکاف إلا إلي هذه الثلاثة، فقد ذهب بعض السلف إلي أن الاعتکاف لا يصحّ إلا فيها، دون سائر المساجد، وقال شيخنا زين الدين من أحسن محامل هذا الحديث : أن المراد منه حکم المساجد فقط، وأنه لا يشد الرحل إلي مسجد من المساجد غير هذه الثلاثة. فأمّا قصد غير المساجد من الرحلة في طلب العلم، وفي التجارة، والتترة، وزيارة الصالحين، والمشاهد، وزيارة الإخوان، ونحو ذلک فليس داخلاً في النهي. وقد ورد ذلک مصرحاً به في بعض طرق الحديث.
’’بعض علماء نے اس حدیث کی تاویل ایک اور طریقے سے کی ہے وہ اس طرح کہ کوئی شخص اعتکاف کے لیے مساجد ثلاثہ کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف بطور نذر سفر نہ کرے۔ بعض سلف کا قول ہے اعتکاف کی نذر مساجد ثلاثہ کے علاوہ کسی اور مسجد میں جائز نہیں۔ ہمارے شیخ حضرت زین الدین فرماتے ہیں اس حدیث کا صحیح ترین مفہوم یہ ہے کہ اس سے مراد صرف مساجد کا حکم ہے یعنی ان مساجد ثلاثہ کے علاوہ کسی دوسری مسجد کی طرف (زیادہ ثواب کی نیت سے) سفر نہ کیا جائے اور جہاں تک ان مساجد کے علاوہ کسی اور جگہ حصولِ علم، تجارت، سیر و سیاحت صالحین اور مقابر کی زیارت اور دوستوں کی ملاقات کی نیت سے سفر کرنا اور اس طرح کے دوسرے اسفار اس نہی میں داخل نہیں اور بعض روایتوں میں تو یہ چیز صراحت کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 7 : 254
علامہ عینی نے مزید لکھا ہے :
فإن قلت : ما الجمع بين قوله في الحديث الصحيح لا تشدّ الرحال إلا إلي ثلاثة مساجد و بين کونه کان يأتي مسجد قباء راکباً؟ قلت : قباء ليس مما تشدّ إليه الرِّحال فلا يتناوله الحديث المذکور.
’’اگر کوئی اعتراض کرے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی، تشد الرحال الا الی ثلاثہ مساجد کہ رختِ سفر نہ باندھا جائے سوائے ان تین مساجد کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ قباء سواری پر تشریف لیجاتے تھے‘‘ دونوں میں تطبیق کیسی ہو گی تو اس کے جواب میں، مَیں کہتا ہوں کہ مسجد قبا ان مساجد میں سے نہیں جن کی طرف سفر کیا جاتا ہے پس یہ حدیث مذکور میں شامل ہی نہیں۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 7 : 260
امام سیوطی (متوفی911ھ) لکھتے ہیں :
والصحيح عند إمام الحرمين وغيره من الشافعية : أنه لا يحرم. وأجابوا عن الحديث بأجوبة، منها : أن المراد أن الفضيلة التامة في شد الرحال إلي هذه المساجد بخلاف غيره فإنه جائز. ومنها أن المراد أنه لا تشد الرحال إلي مسجد من المساجد للصلاة فيه غير هذه. وأما قصد زيارة قبر صالح و نحوها فلا يدخل تحت النهي، ويؤيده ما في مسند أحمد قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لا ينبغي للمصلي أن يشد رحاله إلي مسجد غير المسجد الحرام، والمسجد الأقصي، ومسجدي. انتهي.
’’شوافع میں سے امام الحرمین (ابو المعالی عبدالملک الجوینی النیشا پوری) وغیرہ کے نزدیک صحیح مؤقف یہ ہے کہ قبورِ صالحین کی طرف سفر کرنا حرام نہیں اور ان ائمہ نے اس حدیث کے کئی جواب دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں فضیلت سے مراد ان مساجد ثلاثہ کی طرف شدِّ رحال کی فضیلت تامہ ہے جبکہ کسی دوسری جگہ کی طرف محض سفر جائز ہے، دوسرا جواب یہ کہ اس سے مراد ہے ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کی طرف زیادہ حصولِ ثواب کی خاطر، نماز پڑھنے کے لیے سفر نہ کیا جائے۔ لیکن کسی بزرگ صالح کی قبر اور اس طرح دیگر کام کے لیے اسفار نہی میں داخل نہیں، اس کی تائید مسند احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی مسجد میں (زیادہ حصول ثواب کی خاطر) نماز ادا کرنے کی غرض سے سواری تیار نہ کی جائے سوائے مسجدِ حرام مسجدِ اقصی اور میری اس مسجد کے۔‘‘
سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 102
اس حدیث کی مزید وضاحت میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ (1014ھ) فرماتے ہیں :
الرّحال، جمع رحلة، وهو کور البعير. والمراد نفي فضيلة شدّها ومربطها إلا ثلاثة مساجد، قيل : نفي معناه نهي. أي لا تشدّ الرّحال إلي غيرها، لأن ما سوي الثلاثة متساو في الرتبة غير متفاوت في الفضيلة، وکان الترحّل إليه ضائعاً عيشاً وفي شرح مسلم للنووي، قال أبو محمد : يحرم شدّ الرّحال إلي غير الثلاثة وهو غلط. وفي الإحياء ذهب بعض العلماء إلي الاستدلال به علي المنع من الرحلة لزيارة المشاهد، وقبور العلماء، والصالحين وما تبين إلي أن الأمر کذلک بل الزيارة مأمور بها بخبر : کنت نهيتکم عن زيارة القبور ألا فزوروها. والحديث إنما ورد نهياً عن الشدّ بغير المساجد لتماثلها بل لا بلد إلا وفيها مسجد. فلا معني للرحلة إلي مسجد آخر. وأما المشاهد فلا تساوي بل برکة زيارتها علي قدر درجاتهم عند اﷲ، ثم ليت شعري هل يمنع ذلک القائل شدّ الرحال لقبور الأنبياء کإبراهيم وموسيٰ ويحيٰي والمنع من ذلک في غاية الإحالة، وإذا جوّز ذلک لقبور الأنبياء والأولياء في معناهم فلا يبعد أن يکون ذلک من أغراض الرحلة کما أن زيارة العلماء في الحياة من المقاصد.
’’اس حدیث مبارکہ میں رِحال، رِحْلَۃ کی جمع ہے جس کا معنی اونٹ پر سامان باندھنا ہے، اور اس سے مراد مساجدِ ثلاثہ کے علاوہ دوسری مساجد کی طرف سفر کی فضیلت کی نفی ہے اور بعض نے یہ کہا ہے کہ یہاں نفی بمعنی نہی ہے یعنی (زیادہ حصول ثواب کے لیے) ان مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کی طرف سفر اختیار نہ کیا جائے کیونکہ ان مساجد کے علاوہ تمام مساجد درجۂِ ثواب میں برابر ہیں۔ باعتبارِ فضیلت کسی میں کوئی کمی بیشی نہیں، اس لئے ان کی طرف (زیادہ ثواب کے لیے نماز کی غرض سے) سفر بے فائدہ ہے۔ شرح مسلم نووی میں لکھا ہے کہ ابو محمد جوینی نے جو یہ کہا کہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد کی طرف سفر حرام ہے یہ غلط ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں۔ بعض علماء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے مشاہد اور علماء صلحاء کے مقابر کی زیارت سے منع کیا ہے لیکن میں اس حدیث کا مفہوم یہ سمجھا ہوں کہ اس میں مقابر و مشاہد کی زیارت کا حکم دیا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ’’میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا اب تمہیں اس کی اجازت ہے، اور حدیث شد رحال میں دیگر مساجد کی طرف زیادہ ثواب کے حصول کے لئے سفر کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ ان تین مساجد کے علاوہ دیگر مساجد ثواب میں برابر ہیں، بلکہ دنیا میں کوئی آبادی ایسی نہیں جہاں مسجد نہ ہو لہٰذا کوئی شخص دوسری مسجد کی طرف محض ادائیگی نماز کیلئے کیوں جائے گا۔ تاہم زیادہ ثواب کے لئے کسی اور مسجد کی طرف سفر نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن مشاہد اور مقابر درجہ میں برابر نہیں بلکہ ان کی زیارت کی فضیلت و برکت ان کے اندر مدفون حضرات کے ان درجات پر موقوف ہے جو بارگاہِ الٰہی میں انہیں حاصل ہیں۔ افسوس کہ بعض لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی طرف شد رجال سے بھی منع کرتے ہیں۔ قبور کی طرف سفر سے روکنا بڑے تعجب کی بات ہے اور جب اولیاء علماء اور صلحاء کرام کے مقابر کی طرف سفر کرنا جائز ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ سفر کے اغراض میں یہ (بھی علماء کرام کے مقابر) شامل ہوں جیسا کہ علماء کرام کی زیارت ان کی زندگی میں باعثِ ثواب ہے۔‘‘
علي القاري، مرقاة المفاتيح، 2 : 190
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (1052ھ) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ میں حدیث لَا تُشَدُّ الرِّحال کی تشریح میں لکھتے ہیں:
وگفت بندۂ مسکین کاتبِ حروف عبدالحق بن سیف الدین عفا اﷲ عنہ اناکہ مقصودِ بیان
اہتمامِ شانِ این سہ بقعہ وسفر کردن بجانب آنہاست کہ متبرک مقامات است یعنی اگر سفر
کنند بایں سہ مسجد کنند و بغیر آن گرانی مشقت کشیدن نمی کنند نہ آنکہ سفر بجز این
موضع درست نبا شد مصرع۔
دل اگر بار کشد باز بکاری باری
’’بندۂ مسکین راقمِ حروف عبدالحق بن سیف الدین عفا اﷲ عنہ کہتا ہے، ہو سکتا ہے کہ
حدیثِ مبارکہ میں ارشاد نبوی سے مقصود ان تین مقامات مقدسہ کی شان کی عظمت اور ان
کی جانب سفر کرنا ہو کیونکہ یہ تین مقامات سب سے بڑھ کر بابرکت ہیں یعنی اگر سفر
مطلوب ہو تو ان تین مساجد کی طرف سفر کرنا چاہیے اور لوگ ان مقامات کے علاوہ کسی
اور مقام کی طرف سفر کی مشقت برداشت نہیں کرتے۔ حدیثِ مبارکہ کا یہ مطلب نہیں کہ ان
تین مقامات کے علاوہ کسی اور طرف سفر کرنا جائز ہی نہیں مصرع۔
دل اگر بوجھ اٹھانا چاہے تو کسی صحیح مقصد و کام کیلئے اٹھانا چاہیے۔‘‘
عبدالحق، أشعة اللمعات، 1 : 324
امام زرقانی (م 1122ھ) نے مؤطاء کی شرح میں لکھا ہے :
استثناء مفرغ أي إلي موضع للصلاة فيه إلا هذه الثلاثة، وليس المراد أنه لا يسافر أصلاً إلا لها.
’’اس حدیث میں استثناء مفرغ ہے یعنی کسی بھی جگہ ادائیگی نماز کے لیے سوائے ان تین مساجد کے رخت سفر نہ باندھا جائے حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ بالکل سفر ہی نہ کیا جائے سوائے ان تین مقامات کے۔‘‘
زرقاني، شرح الموطا، 1 : 320
اجل ائمہ و شارحینِ حدیث کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ حدیث کا لا تشد الرحال صرف ثواب کی نیت سے دیگر مساجد کی طرف سفر کرنے کو مستلزم ہے۔ رہا دیگر مقاصد کے لیے سفر تووہ جائز ہے کیونکہ اگر ممانعتِ سفر کے قائلین کا قول مان لیا جائے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا میں کسی بھی جگہ حتی کہ اولیاء کرام کے مزارات اور دیگر نیک مقاصد کے لیے سفر حرام ہے تو اس صورت میں انسانی زندگی اجیرن ہو جائے گی اور انسان عضو معطل بن کر رہ جائے گا وہ اپنی آبادی سے باہر کبھی بھی نہ جا سکے گا نہ حصولِ علم، نہ تجارت، نہ عیادت و ملاقات اور نہ اشاعتِ دین کے لیے حتی کہ ان تین مساجد کی فضیلت عامہ کے تعین کے بغیر کسی دوسری مسجد میں نماز پڑھنا بھی اس قول کے مطابق ممنوع ٹھہر جائے گا۔ حالانکہ محسن انسانیت حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود سفر فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام اشاعت دین کے لئے دنیا کے گوشے گوشے تک پہنچے۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حصولِ علم کے لئے دور دراز مقامات تک سفر کی ترغیب دی تو معلوم ہوا کہ حدیث کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں کہ دنیا میں کہیں بھی سفر نہ کیا جائے بلکہ اس حدیث کا صحیح معنی و مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں جتنی مسجدیں ہیں ان میں سے صرف یہ تین مساجد ایسی ہیں کہ جنہیں فضیلت تامہ حاصل ہے۔ ان میں نماز پڑھنے کی زیادہ فضیلت اور ثواب ہے مثلاً
دنیا کی دیگر مساجد کو یہ فضیلت حاصل نہیں تو حدیثِ مبارکہ کا صاف مطلب یہ ہوا کہ اگر ایک شخص کو اپنے محلہ اور آبادی کی مسجد میں وہی ثواب ملے گا جو دنیا کی دیگر مساجد میں ملتا ہے تو اس تصور کے ساتھ کہ شاید فلاں مسجد میں اس مسجد سے زیادہ ثواب ملے گا سفر کرنا بے فائدہ ہے۔ اگر ادائیگی نماز کا زیادہ ثواب حاصل کرنے کا ارادہ ہو تو پھر حدیث میں مذکورہ مقامات کی طرف ہی سفر کرے اور جہاں تک مطلقًا سفر کی بات ہے تو گزشتہ صفحات میں ائمہ حدیث اور فقہاء کے صحیح اقوال اور تشریحات سے ثابت ہوا کہ جائز ہے عام سفر کی کہیں بھی ممانعت اور حرمت نہیں۔
درج بالا مؤقف کی تصریح و تائید خود اِرشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتی ہے :
1. لَا يَنْبَغِي لِلْمَطِي أَنْ تَشَدَّ رِحَالُهَ إِلَي مَسْجِدٍ يَنْبَغِي فِيْهِ الصَّلَاةُ، غَيْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَ الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي، وَ مَسْجِدِي هَذَا.
’’کسی مسجد میں (زیادہ ثواب کے حصول کے لئے) نماز ادا کرنے کی غرض سے سفر کے لئے سواری تیار نہ کی جائے، سوائے مسجدِ حرام، مسجدِ اَقصیٰ اور میری اِس مسجد کے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 34، 64
2. أبو يعلي، المسند، 2 : 489، رقم : 1326
3. طحاوي، مشکل ا لآثار، 1 : 243
4۔ امام ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد (4 : 3)‘‘ میں اِس حدیث کے نفسِ مضمون کو حسن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’الصحيح‘ میں اِسی طرح ہے۔
اِس حدیث میں مستثنیٰ منہ صریحاً مذکور ہے جو کہ ’مسجد‘ ہے لہٰذا شرحُ الحديث بالحديث کے بعد اب کوئی جواز باقی نہیں رہتا کہ کوئی شخص خواہ مخواہ اپنی طرف سے کسی ایسے لفظ کو مستثنیٰ منہ قرار دے جو نہ تو عربی لغت کے اُسلوب کے مطابق درست ہے اور نہ فصاحت و بلاغتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائق ہے، بلکہ خود توضیحِ نبوت کے بھی خلاف ہے۔
ثانیاً حدیثِ مذکور میں واضح الفاظ میں فرمایا گیا ہے کہ نماز ادا کرنے کی غرض سے سفر نہ کیا جائے، جس کا مطلب لامحالہ یہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی اور مقصد کے لئے سفر کیا جا سکتا ہے۔
2۔ اِس کی مزید وضاحت اِس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہو جاتی ہے :
لَا تُشَدُّ رِحَالُ الْمَطِيِّ إِلَي مَسْجِدٍ يُذْکَرُ اﷲ فِيْهِ إِلَّا إِلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْمَدِيْنَةِ، وَبَيْتِ الْمَقْدَسِ.
’’اللہ کا ذکر کرنے کی نیت سے کسی مسجد کی طرف رختِ سفر نہ باندھا جائے، سوائے اِن تین مساجد کے : مسجدِ حرام، مسجدِ مدینہ اور بیت المقدس۔‘‘
أبو يعلي، المسند، 2 : 489، رقم : 1326
اِس حدیثِ مبارکہ میں واضح الفاظ میں تین مسجدوں کے علاوہ اس نیت سے کسی اور مسجد کی طرف اس نیت کے تحت سفر کرنے سے منع فرمایا گیا ہے کہ اُس میں اللہ کا ذکر کرکے زیادہ ثواب حاصل کیا جائے۔
3۔ اِس کی تصریح و تائید اِس حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ہوتی ہے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّمَا يُسَافَرُ إِلَي ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : مَسْجِدِ الْکَعْبَةِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ إيْلِيَاءَ.
’’(زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے) صرف اِن تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے : مسجدِ کعبہ، میری مسجد اور مسجدِ ایلیاء (بیت المقدس)۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب لا تشد الرحال إلا إلي ثلاثة مساجد، 2 : 1015، رقم
: 1397
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 244، رقم : 10044
3. أيضاً، دلائل النبوة، 2 : 545
اس حدیثِ مبارکہ میں اُسلوبِ اِستثناء بیان نہیں کیا گیا بلکہ اُسلوبِ حصر اِختیار کیا گیا ہے۔ پچھلی احادیث میں چونکہ اُسلوبِ استثناء تھا اِس لئے یہ اَمر زیرِ بحث تھا کہ مستثنیٰ منہ کیا ہے، جبکہ اِس حدیثِ مبارکہ میں اِستثناء کا اُسلوب ہی نہیں۔ لہٰذا یہ بیانِ حصر ہماری پوری بحث کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ اِس میں حصر صرف مساجد کا ہے اور باقی مساجد کی طرف سفر کرنے سے منع نہیں فرمایا گیا۔
4. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے طریقِ حصر پر مشتمل ایک اور حدیث اِن الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے :
إنما تُضْرَبُ أکبَادُ الْمَطِيّ إِلَی ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : اَلْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصٰي.
’’صرف تین مساجد کی طرف سفر کے لئے سواری تیار کی جائے : مسجدِ حرام، میری یہ مسجد اور مسجدِ اقصیٰ۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 276، 277، رقم : 2159
2. أبو يعلي، المسند، 11 : 435، رقم : 6558
3. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 378، رقم : 2811
طبرانی کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہے اور ابويعلي کی بیان کردہ روایت کے رِجال ثقہ ہیں۔
اِن احادیثِ مبارکہ سے صراحت ہو گئی کہ تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد، مقام، شہر یا جگہ کی طرف اجر و ثواب کی نیت کے بغیر سفر کرنا ہرگز ممنوع نہیں اور نہ ہی شَدُّ الرِّحال والی حدیث کا موضوع ہے۔
اِن مساجد میں ادا کی جانے والی نمازوں پر ملنے والے غیر معمولی اَجر و ثواب کے حوالے سے بھی متعدّد احادیث وارد ہیں۔
5۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
صَلَاة فِيْ مَسْجِدِي أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاة فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْمَا سِوَاهُ.
’’میری مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مساجد میں ایک ہزار نمازیں (ادا کرنے) سے افضل ہے سوائے مسجد حرام کے، اور مسجد حرام میں (ادا کی ہوئی) ایک نماز (دوسری مساجد میں ادا کردہ) ایک لاکھ نمازوں سے بہتر ہے۔‘‘
ابن ماجة، السنن، کتاب اِقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الصلاة في المسجد الحرام و المسجد النبوي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 : 186، رقم : 1406
یہ حدیث صحیح ہے، اس کی اِسناد صحیح اور رِجال ثقہ ہیں۔
6. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
صَلَاةُ الرَّجُلِ. . . فِي الْمَسْجِدِ الْأَقْصٰي بِخَمْسِيْنَ أَلْفَ صَلَاةٍ، وَصَلَاتُهُ فِي مَسْجِدِي بِخَمْسِيْنَ ألْفَ صَلَاةٍ، وَصَلَاة فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ بِمِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ.
’’جو شخص مسجدِ اقصیٰ اور میری مسجد میں نماز پڑھے اُسے پچاس ہزار نمازوں کا اور جو مسجدِ حرام میں نماز پڑھے اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في الصلاة في
المسجد الحرام ومسجد النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 : 190، 191، رقم : 1413
2. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 7، رقم : 7004
اس فصل کو خلاصتہً دو اہم نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے :
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجِ بالا تائیدی ارشاداتِ عالیہ سے ثابت ہوا کہ لَا تُشَدُّ الرِّحَال والی احادیث کا مطلب تضاعفِ ثواب ہے یعنی زیادہ ثواب کے حصول کی نیت سے سفر کرنا صرف اِن ہی تین مساجد کی طرف جائز ہے جبکہ اِس غرض سے اُن کے علاوہ روئے زمین کی کسی اور مسجد کی طرف اس نیت سے سفر کرنا جائز نہیں۔
2. اس حدیثِ مبارکہ کا صحیح معنی و مفہوم اُن اجل ائمہِ حدیث نے بیان کیا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج و اشاعت کے لیے وقف کیے رکھی اور تحصیلِ حدیث میں اتنی محنت کی کہ درجۂ حفاظ میں شامل ہو گئے۔ ایسے تمام ائمہ کرام کی رائے مفہوم حدیث کی وضاحت میں سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ان کی مستند رائے کی موجودگی میں کسی اور کی ذاتی اور غیر مناسب رائے کی طرف التفات کی ہرگز ضرورت نہیں رہتی۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ لَا تُشَدُّ الرِّحال میں صرف اسی سفر کی ممانعت ہے جو اِن تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد میں نماز کے زیادہ ثواب کی نیت سے ہو، اگر کوئی شخص کسی اور جائز نیت سے یا فقط زیارت کے لئے کسی متبرک مقام یا ہستی کی زیارت کو جائے تو وہ ہرگز اس حدیث میں شامل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قبرِ انور کی طرف زیارت کی خصوصی توجہ دلائی نیز اولیاء و صالحین کی قبور پر جا کر امت کے لئے اپنی سنت مقرر فرما دی جس پر اِن شاء اللہ تعالیٰ آئندہ صفحات میں تفصیلی بحث ہو گی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved