عربی لغت میں ہر لفظ کا مادہ کم از کم سہ حرفی ہوتا ہے جس سے باقی الفاظ مشتق اور اخذ ہوتے ہیں۔ عربی لغت کے اعتبار سے زیارت کا معنی دیکھیں تو یہ لفظ زَارَ، يَزُوْرُ، زَورًا سے بنا ہے۔ جس کے اندر ملنے، دیکھنے، نمایاں ہونے، رغبت اور جھکاؤ کے معانی پائے جاتے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی ایک جگہ سے دوسری جگہ کسی کی ملاقات کے لئے جائے تو اس میں اس شخص یا مقام کی طرف رغبت، رحجان اور جھکاؤ بھی پایا جاتا ہے اور بوقت ملاقات رؤیت بھی ہوتی ہے اس لئے اس عمل کو زیارت بھی کہا جاتا ہے۔ ائمہِ لغت نے زَور کے درج ذیل معانی بیان کئے ہیں :
1. زَارَ، يَزُوْرُ، زَوْرًا، أي لَقِيَهُ بِزَوْرِهِ، أوْ قَصَدَ زَوْرَهُ أي وِجْهَتَهُ.
’’زَار َیزُوْرُ زَوْرًا کا معنی ہے : اس نے فلاں شخص سے ملاقات کی یا فلاں کی طرف جانے کا ارادہ کیا۔‘‘
زبيدي، تاج العروس، 6 : 477
2. زَارَ يَزُوْرُ زِيَارَة وَ زَوْرًا وَ زُوَارًا و زُوَارَةً وَمَزَارًا أتاهُ بِقَصْدِ اللقاء وُهُو مأخوذ من الزَوْرِ للصدر أو المَيْل.
’’زیارت کا معنی ہے کسی سے ملنے کے لئے آنا۔ یہ لفظ زَور سے نکلا ہے جس کا معنی ہے سینہ کی ہڈیوں کی ملنے کی جگہ یا میلان، رحجان اور رغبت۔‘‘
بطرس بستانی، محيط المحيط : 384
3۔ ’’محیط المحیط (ص : 384)‘‘ میں زیارت کا معنی یوں بھی لکھا ہے :
الزِّيارة مصدر و إسم بمعني الذهاب إلي مکان للاجتماع بأهله کزيارة الأحبة وللتبرّک بما فيه من الآثار کزيارة الأماکن.
’’لفظ زیارۃ مصدر بھی ہے اور اسم بھی۔ جس کا معنی کسی جگہ اہالیان سے ملنے کے لئے جانا جیسے دوست احباب کی ملاقات یا دوسرا معنی کسی جگہ موجود آثار سے حصول برکت کے لئے جانا جیسے مقاماتِ مقدسہ کی زیارت کے لئے جانا۔‘‘
4. لغت کی معروف کتاب ’’المصباح المنیر‘‘ میں لکھا ہے :
والزِّيارة في العرف قصد المزور! کرامًا له واستئناسا به.
’’عرفِ عام میں زیارت سے مراد کسی شخص کے ادب و احترام اور اس سے محبت کی بناء پر اس کی ملاقات کے لئے جانا۔‘‘
فيومي، المصباح المنير في غريب شرح الکبير للرافعي، 1 : 260
اسی سے مَزَار ہے۔ جس کا معنی ہے وہ جگہ جس کی زیارت کی جائے۔ ابنِ منظور افریقی لکھتے ہیں :
وَالمَزَارُ موضع الزيارة.
’’مزار سے مراد زیارت کرنے کا مقام ہے۔‘‘
ابن منظور إفريقي، لسان العرب، 4 : 333
اسی سے زَائِر بھی ہے جس کا معنی ہے : زیارت کے لئے جانے والا شخص یا ملاقاتی۔
قرآن و حدیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض ذواتِ عالیہ اور مقاماتِ مطہرہ کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی نعمت ورحمت سے نوازا ہے اور اِن کو دیگر مخلوق پر ترجیح دی ہے۔ ان بابرکت ذوات اور اماکنِ مقدسہ پر حاضری کیلئے جانا مشروع، مسنون، مندوب اور مستحب عمل ہے، عرفِ عام میں اسی کو ’’زیارت‘‘ کہا جاتا ہے۔
دینِ اسلام میں زیارت کا اس قدر جامع تصور ہے کہ ہر واجب الاحترام شخصیت، متبرک چیز اور مقام کو صرف اور صرف دیکھنا ہی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
النظر إلي الوالد عبادة، والنظر إلي الکعبة عبادة، والنظر في المصحف عبادة، والنظر إلي أخيک حباً له في اﷲ عبادة.
’’والد کی طرف دیکھنا عبادت ہے، کعبہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے، قرآن حکیم کی طرف دیکھنا عبادت ہے اور اپنے بھائی کی طرف رضائے الٰہی کے لئے محبت کی نگاہ سے دیکھنا بھی عبادت ہے۔‘‘
بيهقي، شعب الإبمان، 7 : 187، رقم : 8760
مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن کی طرف دیکھنے کو عبادت فرمایا یہ دراصل زیارت کی مختلف اقسام ہیں۔ ذیل میں ہم اس حدیث سمیت دیگر نصوص کی روشنی میں زیارت کی اقسام کا ذکر کر رہے ہیں جن میں سرِ فہرست زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں بحالتِ ایمان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنا افضل ترین عمل تھا۔ ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرنے والے خوش نصیب لوگوں کو ہی مرتبہ صحابیت پر فائز ہونے کا شرف نصیب ہوا۔ یہ اتنا عظیم شرف اور امتیاز ہے جس پر قیامت تک کوئی اور شخص فائز نہیں ہو سکتا بے شک وہ پوری زندگی عبادت و ریاضت میں کیوں نہ صرف کر دے۔ ایسے خوش نصیب شخص کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَمُسُّ النَّارُ مُسْلِمًا رَآنِي أوْ رَأَي مَنْ رَآنِي.
’’اُس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا (یعنی صحابی) یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا (یعنی تابعی)۔‘‘
(1) ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رأي النبي صلي الله عليه وآله وسلم وصحبه، 5 : 694، رقم : 3858
اسی طرح بعد ازوصال زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت پر بھی اُمتِ مسلمہ کا اِجماع ہے۔ بعض ائمہ احناف اور مالکیہ کے علاوہ دیگر اہلِ سنت وجماعت کے مکاتب و مذاہب بھی اسے بعض حالات میں واجب قرار دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضری کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ الٰہی ہے :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
النساء، 4 : 64
درجِ بالا آیتِ مبارکہ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس کا اطلاق صرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ تک تھا بلکہ جس طرح قرآن کے تمام احکام قیامت تک کے لئے ہیں اسی طرح اس آیتِ مبارکہ کا اطلاق بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مطہرہ پر قیامت تک کے لئے ہوگا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے روضۂ اَطہر کی زیارت کے حوالے سے اِرشاد فرمایا، جسے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے روایت کیا ہے :
مَنْ زَارَ قَبْرِي، وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی.
’’جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔‘‘
1. دارقطني، السنن 2 : 278
2. بيهقي، شعب الإبمان، 3 : 490، رقم : 4159، 4160
3. حکيم ترمذي، نوادر الأصول، 2 : 67
احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی قبرِ انور کی زیارت کرنے کی بڑی ترغیب دلائی ہے جس پر تفصیلی بحث اِن شاء اللہ تعالیٰ آئندہ ابواب میں کی جائے گی۔
اﷲتعالیٰ کے مقرب اور محبوب بندوں کی زیارت و ملاقات کے لئے جانا، عند اﷲ محبوب عمل ہے۔ اللہ گ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرامین سے ثابت ہے کہ صالحین کی زیارت اور ملاقات کو جانا چاہیے۔
1. قرآن مجید میں اللہ گ نے سورۃ الکھف(1) میں تفصیلاً بیان کیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت حضر علیہ السلام کی زیارت اور اُن کی صحبت سے مستفید ہونے کے لئے بھیجا گیا تھا۔ حضرت حضر علیہ السلام کا شمار اللہ جل جلالہ کے صالحین اور مقرب بندوں میں ہوتا ہے جس سبب سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اُن کے علم سے استفادہ کے لئے خصوصی طور پر بھیجا گیا۔
الکهف، 18 : 60 - 82
اولیاء وصالحین کی زیارت کرنا مسنون عمل ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ طیبہ اور فرامینِ مبارکہ سے بھی اولیاء، صالحین، کامل مؤمنین اور متقین کی زیارت کو جانا ثابت ہے۔
2. اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی کی زیارت و ملاقات محبتِ الٰہی کا باعث ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیثِ قدسی بیان کی کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے :
وَجَبَتْ مَحَبَّتِي لِلْمُتَحَابِّيْنَ فِيَّ وَلِلمُتَجَالِسِيْنَ فِيَّ وَلِلْمُتَزَاوِرِيْنَ فِيَّ وَلِلْمُتَبَاذِلِيْنَ فِيَّ.
’’میری محبت ان لوگوں کے لئے واجب ہوگئی جو صرف میرے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، میری خاطر ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں، میری رضا کے لئے ایک دوسرے کی زیارت و ملاقات کرتے ہیں اور میری رضا کے لئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔‘‘
1. مالک، الموطأ، 2 : 953، رقم : 1711
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 233، رقم : 22083
3. حضرت رزین بن حبش سے روایت ہے، کہتے ہیں :
أَتَيْنَا صَفْوَانَ بْنَ عَسَّالٍ المُرَادِيَّ، فَقَالَ : أَزَائِرِيْنَ؟ قُلْنَا : نَعَمْ فَقَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ زَارَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنَ خَاضَ فِي رِيَاضِ الْجَنَّةِ حَتّٰي يَرْجِعَ، وَمَنْ عَادَ أَخَاهُ الْمُؤْمِنُ خَاضَ فِي الْجَنَّةِ حَتّٰي يَرْجِعَ.
’’ہم حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے، وہ پوچھنے لگے : ملاقات کرنے آئے ہو؟ ہم نے کہا : جی ہاں۔ اس پر انہوں نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : جو شخص اپنے مومن بھائی کی ملاقات کو جاتا ہے وہ واپسی تک جنت کے باغوں میں (اﷲتعالیٰ کی رحمت سے) مستفید ہوتا رہتا ہے، اور(اسی طرح) جو بندہ اپنے مومن بھائی کی عیادت کے لئے جاتا ہے وہ بھی واپسی تک جنت کے باغوں میں رہتا ہے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 67، رقم : 7389
2. أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 5 : 89
3. منذري، الترغيب والترهيب، 2 : 248، رقم : 3898
زیارتِ صالحین کی مزید تفصیلات اس عنوان کے تحت آئندہ باب میں ملاحظہ فرمائیں۔
شریعتِ اسلامیہ میں مقدس مقامات کی زیارت کو جانے کی بھی اجازت ہے۔ ان بابرکت مقامات میں روئے زمین کی تمام مساجد، خصوصاً مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، مسجدِ اقصیٰ، مسجدِ قباء اور بعض مقدس اماکن مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، فلسطین، شام اور یمن شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، دیگر انبیاءِ کرام اور اولیاءِ عظام کے مقاماتِ ولادت اور وصال کی زیارت کرنا بھی از روئے شرع جائز ہے۔
ایک اسلامی معاشرے میں والدین کا مقام و مرتبہ اتنا اونچا اور بلند ہے کہ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں اپنے شکر کے ساتھ ہی والدین کے شکر کا بھی حکم دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُO
’’تو میرا (بھی) شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی۔ (تجھے) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہےo‘‘
لقمان، 31 : 14
حج اور جہاد جیسے فرائض پر بھی خدمتِ والدین کو ترجیح حاصل ہے۔ وہ اولاد نیک اور سعادت مند ہے جو اپنے والدین کی فرماں بردار ہو۔ ان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا سلوک کرے اور جنت کی مستحق ٹھہرے۔ والدین کی زیارت مندوب و مستحب عمل ہے اور ان کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں ہمیں اس امر کی ترغیب ملتی ہے کہ زیارتِ والدین عملِ خیر اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِنْ وَلَدٍ بَارٍ يَنْظُرُ إِلَي وَالِدَيْهِ نَظْرَةَ رَحْمَةٍ إِلَّا کَتَبَ اللّٰهُ بِکُلِّ نَظْرَةٍ حَجَّةً مَبْرُوْرَةً. قَالُوْا : وَإِنْ نَظَرَ کُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ؟ قَالَ : نِعَمُ اللّٰهِ أَکْبَرُ وَأَطْيَبُ.
’’کوئی بھی سعادت مند بیٹا اپنے والدین کی طرف نظرِ رحمت سے دیکھے تو اللہ تعالیٰ اُسے ہر بار دیکھنے کے بدلے مقبول حج کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیک وسلم! اگرچہ کوئی شخص ہر روز ایک سو مرتبہ والدین کی زیارت کرے (تو بھی اسے اتنا ہی اجر ملے گا)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہاں ایسا ہی ہر مرتبہ ثواب ملے گا کیونکہ) اللہ تبارک و تعالیٰ کی نعمتیں سب سے اعلیٰ اور افضل ہیں۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإبمان، 6 : 186، رقم : 7856
2. سيوطي، الدر المنثور، 5 : 264
حضرت محمد بن نعمان سے مرفوعاً مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبَوَيْهِ أَوْ أَحَدِهِمَا فِي کُلِّ جُمُعَةٍ غُفِرَ لَهُ وَ کُتِبَ بَرًّا.
’’جس شخص نے ہر جمعۃ المبارک کو اپنے والدین میں سے دونوں یا کسی ایک کی قبر کی زیارت کی تو اس کی بخشش کر دی جاتی ہے اور اس کا نام نیکوکاروں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 185
2. بيهقي، شعب الإبمان، 6 : 201
3. سيوطي، الدر المنثور، 5 : 267
کسی شخص کا اپنے اَعزّہ و اَقارب، دوست احباب اور ہمسایوں کی ملاقات اور زیارت کے لئے جانا اور ان کے مقام و مرتبہ کے مطابق ان کی عزت و احترام کرنا شرعاً مستحسن عمل ہے جو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔
1. حضرت عبداﷲ بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ يُکْثِرُ زِيَارَةَ الْأَنْصَارِ خَاصَّةً وَعَامَّةً فَکَانَ إِذَا زَارَ خَاصّةً أَتيَ الرَّجُلَ فِي مَنْزِلِهِ وَإِذَا زَارَ عَامَّةً أَتَي الْمَسْجِدَ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے خواص اور عوام کو اکثر شرفِ ملاقات بخشا کرتے تھے۔ جب کسی خاص آدمی سے ملاقات ہوتی تو اسے اپنے دولت کدے پر بلالیتے اور جب عام لوگوں سے ملاقات مقصود ہوتی تو مسجد میں تشریف لے آتے۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 398
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ عَادَ مَرِيْضًا أوْ زَارَ أَخًا لَهُ فِي اﷲِ نَادَاهُ مُنَادٍ بِأَنْ طِبْتَ، وَطَابَ مَمْشَاکَ وَتَبَوَّأْتَ مِنَ الْجَنَّةِ مَنْزِلًا.
’’جو شخص کسی بیمار کی عیادت کے لئے جائے یا محض اﷲتعالیٰ کی رضا کے لئے اپنے کسی دینی بھائی کی زیارت کے لئے جائے تو اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے، تو پاک ہو، تیرا چلنا مبارک ہو، تو نے جنت میں اپنا گھر بنا لیا۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في زيارة الأخوان، 4 : 365، رقم : 2008
2. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 490، رقم : 5521
3. بيهقي، شعب الإبمان، 6 : 403، رقم : 9026
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ أَتَي أَخَاهُ لَهُ يَزُوْرُهُ فِي اﷲِ إِلاَّ نَادَاهُ مَلَکٌ مِنَ السَّمَاءِ أَن طِبْتَ وَطَابَتْ لَکَ الْجَنَّةُ وَإِلاَّ قَالَ اﷲُ فِي مَلَکُوْتِ عَرْشِهِ (عَبْدِي) زَارَ فِيَّ، وَعَلَيَّ قِرَاهُ، فَلَمْ أَرْضَ لَهُ بِقِريٰ دُوْنَ الْجَنَّةِ.
’’جو شخص اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے کسی مسلمان بھائی کی ملاقات کے لئے جاتا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ پکارتا ہے، تو پاکیزہ ہو گیا، تجھے جنت مبارک ہو، اور اﷲتعالیٰ اپنے عرش کی بادشاہی میں ارشاد فرماتا ہے : میرا بندہ میری خاطر اپنے بھائی کی ملاقات کے لئے آیا ہے اب اس کا اعزاز و اکرام میرے ذمہ ہے۔ اس کے بدلے میں اس کے لئے جنت کے علاوہ کسی اور بدلہ پر راضی نہ ہوں گا۔‘‘
1. أبو يعلي، المسند، 7 : 166، رقم : 4140
2. مقدسي، الأحاديث المختارة، 7 : 237، رقم : 2679
3. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 247، رقم : 3890
4. أبو نعيم الأصبهاني، حلية الأولياء، 3 : 107
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَلاَ أُخْبِرُکُمْ بِرِجَالِکُمْ فِي الْجَنَّةِ؟ قُلْنَا : بَلَي يَارَسُولَ اﷲِ، قَالَ : النَّبِيُّ فِي الْجَنَّةِ، وَالصِّدِّيْقُ فِي الْجَنَّةِ، وَالشَّهِيْدُ فِي الْجَنَّةِ، وَالْمَوْلُوْدُ فِي الْجَنَّةِ. وَالرَّجُلُ يَزُوْرُ أَخَاهُ فِي نَاحِيَةِ الْمِصْرِ لَا يَزُوْرُهُ إِلاَِّﷲِ فِي الْجَنَّةِ.
’’کیا میں تمہیں جنتی لوگوں کے متعلق نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا، یار سول اﷲ ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء علیھم السلام جنت میں ہوں گے، صدیق جنت میں ہوں گے، شہید جنت میں ہوں گے، نابالغ بچے جنت میں ہوں گے اور وہ شخص جنت میں ہوگا جو محض رضائے الٰہی کے لئے اپنے مسلمان بھائی کی زیارت کے لئے شہر کے دور دراز محلے میں گیا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 206، رقم : 1743
2. بيهقي، شعب الإبمان، 6 : 494، رقم : 9028
3. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 247، رقم : 3893
5۔ حضرت ابو رُزَین العقیلی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَا أَبَا رُزَيْنٍ! إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا زَارَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، شَيَعَهُ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، يُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ يَقُوْلُوْنَ : اَللَّهُمَّ کَمَا وَصَلَهُ فِيْکَ فَصِلْهُ.
’’اے ابو رُزین جب مسلمان بندہ اپنے مسلمان بھائی کی ملاقات کو جاتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے ساتھ چلتے ہیں جو اس کے لئے (یہ) دعا کرتے ہیں : یااﷲ! جس طرح اس بندے نے تیری رضا کے لئے اپنے بھائی سے ملاقات کی تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 176، 177، رقم : 8320
2. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 248، رقم : 3894
قبور کی زیارت کرنا باعثِ اجر و ثواب اور تذکیرِ آخرت کا ذریعہ ہے۔ ائمۂِ حدیث و تفسیر نے شرح و بسط کے ساتھ اس کی مشروعیت کو بیان کیا ہے۔ ائمہ کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جمیع مسلمانوں کو خواہ مرد ہو یا عورت زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا معمول مبارک بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع کے قبرستان میں تشریف لے جاتے، انہیں سلام کہتے اور ان کے لئے مغفرت کی دعا فرما تے۔
ہم نے اپنی کتاب ’’کتاب التوحید (جلد اَوّل)‘‘ میں توحید اور شرک کی تقابلی بحث میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کسی عمل کا شرک ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ توحید کے معروف اقسام میں سے کسی کے مقابلے میں آئے ورنہ ہر عمل شرک نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ مزارات انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام کی حاضری و زیارت کو خلافِ توحید سمجھتے ہیں اور اسے شرک گردانتے ہیں حالانکہ کسی مزار کی زیارت کرنا اس بات کا صریح اعلان ہے کہ ہم کسی ایسی ہستی کی قبر کی زیارت کر رہے ہیں جو اس دنیا میں زندہ نہ رہا۔ اﷲ عزوجل کی ذات موت سے پاک ہے۔ وہ حيّ و قیّوم ہے۔ وہ ازل سے ہے ابد تک رہے گا۔ اس ذاتِ قادر و قیوم کے بارے میں موت کا تصور بھی ممکن نہیں۔
اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
اﷲُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْحَيُ الْقَيُوْمُ.
’’اﷲ، اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہ) ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 2
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ہی اس لائق ہے کہ ہمیشہ زندہ رہنا اس کی خاص صفت ہے۔ مخلوق میں سے کوئی اس صفت سے متصف نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی کسی اور کے لئے اس طرح کی صفات کا اثبات کرے گا تو یقیناً شرک کا مرتکب ہو گا۔ فوت شدہ شخص اپنے تقویٰ طہارت اور للہیت کی وجہ سے صالح بزرگ تو ہوسکتا ہے لیکن خدا اور معبود نہیں۔
مسلمانوں کا اپنے فوت شدگان کی قبروں کی زیارت کے لئے جانا وہاں ان کے لئے دعا اور فاتحہ کرنا دراصل اس چیز کا اقرار ہے کہ یہ خدا نہیں تھے۔ اسی طرح سیدالعالمین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ عالیہ کی حاضری بھی اس چیز کا ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے محبوب نبی ہیں، اس کے شریک نہیں۔
آئندہ ابواب میں ہم اِن شاء اﷲ تبارک وتعالیٰ زیارتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، زیارتِ اولیاء و صالحین اور زیارتِ قبور پر تفصیلی بحث کرنے کے ساتھ ساتھ اِن پر وارد ہونے والے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات بھی دیں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved