مَحَبَّةُ الْأَجْسَامِ الْأَرْضِيَةِ لِلنَّبِيِّ ﷺ
{حضور ﷺ کے ساتھ زمینی اَشیا کی محبت کا بیان}
1. مَحَبَّةُ الطَّعَامِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھانے کی محبت کا بیان}
2. مَحَبَّةُ الْمَاءِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پانی کی محبت کا بیان}
3. مَحَبَّةُ التُّرَابِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ مٹی کی محبت کا بیان}
93 /1. عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: کَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ يُحَدِّثُ أَنَّ يَهُوْدِيَةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَةً ثُمَّ أَهْدَتْْهَا لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَسَلَّمَ فَأَخَذَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم الذِّرَاعَ فَأَکَلَ مِنْهَا وَأَکَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمّ قَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : ارْفَعُوْا أَيْدِيَکُمْ وَأَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی الْيَهُوْدِيَةِ فَدَعَاهَا فَقَالَ لَهَا: أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ؟ قَالَتِ الْيَهُوْدِيَةُ: مَنْ أَخْبَرَکَ؟ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي هَذَهِ فِي يَدِي الذِّرَاعُ. قَالَتْ: نَعَمْ. قَالَ: فَمَا أَرَدْتِ إِلَی ذَلِکَ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: إِنْ کَانَ نَبِيًّا فَلَمْ يَضُرَّهُ، وَإِنْ لَمْ يَکُنْ نَبِيًّا اِسْتَرَحْنَا مِنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ.
93: أخرجه أبو داود فی السنن، کتاب: الديات، باب: فيمن سقی رجلاً سماً أو أطعمه فمات، 4 /173، الرقم: 4510، والدارمی فی السنن، 1 /46، الرقم: 68، والبيهقی فی السنن، الکبری، 8 / 46.
’’ابن شہاب نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ خیبر والوں میں ایک یہودیہ عورت نے بکری کے بھنے ہوئے گوشت میں زہر ملایا اور پھر وہ گوشت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس تحفے کے طور پر بھیج دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس کی دستی لی اور اُس سے کھایا اور آپ کے صحابہ میں سے چند اور نے بھی کھایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام کو فرمایا: اپنے ہاتھ روک لو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُس عورت کے پاس ایک آدمی بھیجا جو اُسے بلا کر لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اُسے فرمایا: کیا تم نے اس گوشت میں زہر ملایا ہے؟ یہودیہ عورت نے کہا: آپ کو کس نے بتایا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اسی دستی(گوشت) نے بتایا ہے جو میرے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اُس عورت نے کہا، ہاں(میں نے زہر ملایا ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ ِاس سے تمہارا کیا ارادہ تھا؟ اس نے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو داود اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
94 /2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم ، بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ، فَقَالَ: خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا الْمِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَمَلْتُ مِنْ ذَلِکَ التَّمْرِ کَذَا وَ کَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَکُنَّا نَأْکُلُ مِنْهُ وَنُطْعِمُ، وَکَانَ لاَ يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّی کَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَص فَإِنَّهُ انْقَطَعَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
94: أخرجه الترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: مناقب لأبي هريرة رضی الله عنه، 5 /685، الرقم: 3839، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 /352، الرقم: 8613، وابن حبان فی الصحيح، 14 /467، الرقم: 6532، وابن راهويه فی المسند، 1 /75، الرقم: 3، والهيثمی فی موارد الظمآن، 1 /527، الرقم: 2150، وابن کثير فی البداية والنهاية، 6 /117، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 2 /231، والسيوطی فی الخصائص الکبری، 2 /85.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ! ان میں اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا اور میرے لیے ان میں دعائے برکت فرمائی پھر مجھے فرمایا: انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں رکھ دو اور جب انہیں لینا چاہو تو اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر لے لیا کرو اسے جھاڑنا نہیں۔ سو میں نے ان میں سے اتنے اتنے (یعنی کئی) وسق (ایک وسق دو سو چالیس کلو گرام کے برابر ہوتا ہے) کھجوریں اﷲ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیں ہم خود اس میں سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ کبھی وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوا (یعنی کھجوریں ختم نہ ہوئیں) یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ مجھ سے کہیں گر گیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے۔
95 /3. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ: لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم خَمَصًا شَدِيْدًا فَانْکَفَأْتُ إِلَی امْرَأَتِي فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَکِ شَيئٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَمَصًا شَدِيْدًا فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيْرٍ وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ فَذَبَحْتُهَا وَطَحَنَتِ الشَّعِيْرَ فَفَرَغَتْ إِلَی فَرَاغِي وَقَطَّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَتْ: لَا تَفْضَحْنِي بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَبِمَنْ مَعَهُ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيْرٍ کَانَ عِنْدَنَا فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَکَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ، إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُوْرًا فَحَيَّ هَلًا بِکُمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَا تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَکُمْ وَلَا تَخْبِزُنَّ عَجِيْنَکُمْ حَتَّی أَجِيئَ فَجِئْتُ وَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقْدُمُ النَّاسَ حَتَّی جِئْتُ امْرَأَتِي فَقَالَتْ: بِکَ وَبِکَ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِيْنًا فَبَصَقَ فِيْهِ وَبَارَکَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَی بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَکَ ثُمَّ قَالَ ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِکُمْ وَلَا تُنْزِلُوْهَا وَهُمْ أَلْفٌ فَأُقْسِمُ بِاﷲِ لَقَدْ أَکَلُوْا حَتَّی تَرَکُوْهُ وَانْحَرَفُوْا وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَغِطُّ کَمَا هِيَ وَإِنَّ عَجِيْنَنَا لَيُخْبَزُ کَمَا هُوَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
95: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب: غزوة الخندق وهي الأحزاب، 4 /1505، الرقم: 3876، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: جواز استتباعه غيره إلی دار من يثق برضاه بذلک ويتحققه تحققا تاما واستحباب الاجتماع علی الطعام، 3 /1610، الرقم: 2039، والحاکم في المستدرک، 3 /32، الرقم: 4324، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /274، الرقم: 14373، وأبو عوانة في المسند، 4 /351، الرقم: 6942، و 5 /177، الرقم: 8307، والفريابي في دلائل النبوة، 1 /49، الرقم: 17.
’’سعید بن میناء کا بیان ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب خندق کھودی جارہی تھی تو میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت بھوک لگی ہے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آکر کہنے لگا کہ کھانے کی کوئی چیز ہے؟ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سخت بھوک کی ہالت میں دیکھا ہے۔ اس نے بوری نکالی تو اس میں ایک صاع جو تھے اور ہمارے پاس بکری کا ایک بچہ تھا۔ میں نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور بیوی نے جو پیس لئے۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں بناکر انہیں ہانڈی میں ڈال دیا۔ جب میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کی خاطر جانے لگا تو بیوی نے کہا، کہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھیوں کے سامنے شرمسار نہ کرنا۔ میں نے حاضرِ خدمت ہوکر سرگوشی کے انداز میں عرض کی، یا رسول اللہ! ہم نے بکری کا ایک بچہ ذبح کیا ہے اور ہمارے پاس ایک صاع جو کا آٹا ہے پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چند حضرات کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بآواز بلند فرمایا کہ اے خندق والو! جابر نے تمہارے لئے ضیافت کا بندوبست کیا ہے لہٰذا آؤ چلو۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میرے آنے تک ہانڈی نہ اتارنا اور روٹیاں نہ پکوانا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کے آگے آگے تھے۔ جب میں گھر گیا تو بیوی نے گھبرا کر مجھ سے کہا کہ آپ نے تو میرے ساتھ وہی بات کردی جس کا خدشہ تھا۔ میں نے کہا کہ تم نے جو کچھ کہا۔ وہ میں نے عرض کردیا تھا پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آٹے میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا مانگی۔ پھر ہنڈیا میں لعاب دہن ڈالا اور دعائے برکت کی۔ اس کے بعد فرمایا کہ روٹی پکانے والی ایک اور بلا لو تاکہ میرے سامنے روٹیاں پکائے اور تمہاری ہانڈی سے گوشت نکال کر دیتی جائے اور فرمایا کہ ہانڈی کو نیچے نہ اتارنا۔ کھانے والوں کی تعداد ایک ہزار تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم، سب نے کھانا کھا لیا یہاں تک کہ سارے شکم سیر ہو کر چلے گئے اور کھانا پیچھے بھی چھوڑ گئے۔ دیکھا گیا تو ہانڈی میں اتنا ہی گوشت موجود تھا جتنا پکنے کے لئے رکھا تھا اور ہمارا آٹا بھی اتنا ہی تھا جتنا کہ پکانے سے پہلے تھا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
96 /4. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ يَقُوْلُ: قَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ضَعِيْفًا أَعْرِفُ فِيْهِ الْجُوْعَ فَهَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيئٍ قَالَتْ: نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيْرٍ ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ يَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أرْسَلَکَ أَبُوْ طَلْحَةَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: بِطَعَامٍ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم لِمَنْ مَعَهُ: قُوْمُوْا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ حَتَّی جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، قَدْ جَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ: اﷲُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُوْ طَلْحَةَ حَتَّی لَقِيَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا عِنْدَکِ فَأَتَتْ بِذَلِکَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُکَّةً فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِيْهِ مَا شَاءَ اﷲُ أَنْ يَقُوْلَ ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَکَلُوْا حَتَّی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَکَلَ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ وَشَبِعُوْا وَالْقَوْمُ سَبْعُوْنَ أَوْ ثَمَانُوْنَ رَجُلًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
96: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 /1311، الرقم: 3385، وفي کتاب: الأطعمة، باب: من أکل حتی شبع، 5 /2057، الرقم: 5066، وفي کتاب: الأيمان والنذور، باب: إذا حلف أن لا يأتدم فأکل تمرا بخبز وما يکون من الأدم، 6 /2461، الرقم: 6310، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: جواز استتباعه غيره إلی دار من يثق برضاه بذلک ويتحققه تحققا تاما واستحباب الاجتماع علی الطعام، 3 /1612، الرقم: 2040، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: 6، 5 /595، الرقم: 3630، ومالک في الموطأ، کتاب: صفة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، باب: جامع ما جاء في الطعام والشراب، 2 /927، الرقم: 1675، وابن حبان في الصحيح، 14 /469، الرقم: 6534.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ام سلیم رضي اﷲ عنہا (والدہ حضرت انس) سے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی آواز سنی ہے جس میں ضعف محسوس ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھوکے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور چند جو کی روٹیاں نکال لائیں۔ پھر اپنا ایک دوپٹہ نکالا اور اس کے ایک پلے روٹیاں لپیٹ دیں پھر روٹیاں میرے سپرد کر کے باقی دوپٹہ مجھے اُڑھا دیا اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب روانہ کر دیا۔ میں روٹیاں لے کر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مسجد میں پایا شمع رسالت کے گرد چند پروانے بھی موجود تھے۔ میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ابو طلحہ نے کھانا دے کر بھیجا ہے؟ میں عرض گزار ہوا، ہاں۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا، کھڑے ہوجاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم چل پڑے میں ان سے آگے چل دیا اور جاکر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بتادیا۔ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم لوگوں کو لے کر غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس انہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ عرض گزار ہوئیں: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ پس حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے استقبال کو نکل کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ رسول خدا کے پاس جاپہنچے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لیا اور ان کے گھر جلوہ فرما ہوگئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آو۔ انہوں نے وہی روٹیاں حاضر خدمت کردیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے ٹکڑے کرنے کا حکم فرمایا اور حضرت ام سلیم رضي اﷲ عنہانے سالن کی جگہ کپی سے سارا گھی نکال لیا۔ پھر رسول خدا نے اس پر وہی کچھ پڑھا جو خدا نے چاہا۔ پھر فرمایا کہ دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلالو۔ پس انہوں نے سیر ہوکر کھانا کھالیا اور چلے گئے۔ پھر فرمایا، دس آدمی کھانے کے لیے اور بلالو۔ چنانچہ وہ بھی سیر ہوکر چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو کھانے کے لیے اور بلالو۔ پس انہیں بلایا گیا۔ وہ بھی شکم سیر ہوکر کھاچکے اور چلے گئے۔ پھر دس آدمیوں کو بلانے کے لیے فرمایا گیا اور اسی طرح جملہ حضرات نے شکم سیر ہوکر کھانا کھا لیا۔ جملہ مہمان ستر یا اسی افراد تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
97 /5. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ثَلَاثِيْنَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْکُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِکٌ مُشْعَانٌّ طَوِيْلٌ بِغَنَمٍ يَسُوْقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : بَيْعًا أَمْ عَطِيَةً أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً قَالَ: لَا بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَی مِنْهُ شَاةً فَصُنِعَتْ وَأَمَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَی وَايْمُ اﷲِ، مَا فِي الثَّــلَاثِيْنَ وَالْمِائَةِ إِلَّا قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا إِنْ کَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَاهُ وَإِنْ کَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ فَأَکَلُوْا أَجْمَعُوْنَ وَشَبِعْنَا فَفَضَلَتْ الْقَصْعَتَانِ فَحَمَلْنَاهُ عَلَی الْبَعِيْرِ أَوْ کَمَا قَالَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
97: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الهبة وفضلها، باب: قبول الهدية من المشرکين، 2 /923، الرقم: 2475، وفي کتاب: الأطعمة، باب: من أکل حتي شبع، 5 /2058، الرقم: 5067، ومسلم في الصحيح، کتاب: الأشربة، باب: إکرام الضيف وفضل إيثاره، 3 /1626، الرقم: 2056، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /197، 198، الرقم: 1703، 1711، وأبو عوانة في المسند، 5 /204، الرقم: 8399، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 /472، الرقم: 656، والفريابي في المسند، 1 /81، الرقم: 45.
’’ حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا کہ ہم ایک سو تیس افراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ حضور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی کے پاس کھانا ہے؟ ایک آدمی کے پاس صاع کے لگ بھگ آٹا تھا، اسے وہ گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک، بکھرے ہوئے بالوں والا، دراز قد ریوڑ کو ہانکتا ہوا آ گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے بکری بیچنے یا عطیہ دینے کے لیے پوچھا، یا فرمایا کہ ہبہ۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ بیچتا ہوں، تو اس سے ایک بکری خرید لی۔ پھر اسے بنایا گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کلیجی بھوننے کا حکم فرمایا۔ خدا کی قسم ایک سو تیس افراد میں سے ایک بھی نہ بچا جس کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کلیجی میں سے حصہ نہ دیا ہو۔ اگر کوئی حاضر تھا تو اسے حصہ دے دیا گیا اور جو موجود نہ تھا اس کے لیے حصہ رکھ دیا گیا۔ پھر اسے دو برتنوں میں ڈال لیا۔ پس تمام لوگوں نے شکم سیر ہو کر کھا لیا اور دو برتنوں میں گوشت بچ رہا جو ہم نے اونٹ پر لاد لیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
98 /6. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم بِإِنَاءٍ، وَهُوَ بِالزَّوْرَاءِ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ، فَتَوَضَّأَ الْقَوْمُ. قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسٍ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: ثَـلَاثَ مِائَةٍ، أَوْ زُهَاءَ ثَـلَاثِ مِائَةٍ. وفي رواية: لَوْ کُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
98: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1309.1310، الرقم: 3379.3380،5316، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فی معجزات النبی صلی الله عليه واله وسلم ، 4 /1783، الرقم: 2279، والترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: (6)، 5 /596، الرقم: 3631، ومالک فی الموطأ، 1 /32، الرقم: 62، والشافعی فی المسند، 1 /15، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 /132، الرقم: 12370، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 /193، الرقم: 878، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 /316، الرقم: 31724.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں پانی کا ایک برتن پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم زوراء کے مقام پر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے برتن کے اندر اپنا دستِ مبارک رکھ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے پانی کے چشمے پھوٹ نکلے اور تمام لوگوں نے وضو کر لیا۔ حضرت قتادہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کتنے (لوگ) تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تین سو یا تین سو کے لگ بھگ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہم اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی سب کے لئے کافی ہوتا لیکن ہم پندرہ سو تھے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
99 /7. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا نَعُدُّ الآيَاتِ بَرَکَةً، وَأَنْتُمْ تَعُدُّوْنَهَا تَخْوِيْفًا، کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِي سَفَرٍ، فَقَلَّ الْمَاءُ، فَقَالَ: اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ. فَجَاؤُوْا بِإِنَاءٍ فِيْهِ مَاءٌ قَلِيْلٌ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الْإِنَاءِ ثُمَّ قَالَ: حَيَّ عَلَی الطَّهُوْرِ الْمُبَارَکِ، وَالْبَرَکَةُ مِنَ اﷲِ. فَلَقَدْ رَأَيْتُ الْمَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، وَلَقَدْ کُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيْحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْکَلُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
99: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1312، الرقم: 3386، والترمذی فی السنن، کتاب: المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: (6)، 5 /597، الرقم: 3633، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 /460، الرقم: 4393، وابن خزيمة فی الصحيح، 1 /102، الرقم: 204، والدارمی فی السنن، 1 /28، الرقم: 29، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 /316، الرقم: 31722، والبزار فی المسند، 4 /301، الرقم: 1978، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4 /384، الرقم: 4501، وأبويعلی فی المسند، 9 /253، الرقم: 5372، والشاشی فی المسند، 1 /358، الرقم: 346، واللالکائی فی اعتقاد أهل السنة، 4 /803، الرقم: 1479، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 1 /8، والبيهقی فی الاعتقاد، 1 /272.
’’حضرت عبداﷲ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم تو معجزات کو برکت شمار کرتے تھے تم انہیں خوف دلانے والے شمار کرتے ہو۔ ہم ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ پانی کی قلت ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کچھ بچا ہوا پانی لے آؤ، لوگوں نے ایک برتن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اس برتن میں ڈالا اور فرمایا: پاک برکت والے پانی کی طرف آؤ اور برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے (چشمہ کی طرح) پانی ابل رہا تھا۔ علاوہ ازیں ہم کھانا کھاتے وقت کھانے سے تسبیح کی آواز سنا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔
100 /8. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ: عَطِشَ النَّاسُ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم بَيْنَ يَدَيْهِ رِکْوَةٌ فَتَوَضَّأَ، فَجَهِشَ النَّاسُ نَحْوَهُ، فَقَالَ: مَالَکُمْ؟ قَالُوْا: لَيْسَ عِنْدَنَا مَاءٌ نَتَوَضَّأُ وَلَا نَشْرَبُ إِلَّا مَابَيْنَ يَدَيْکَ، فَوَضَعَ يَدَهُ فِي الرِّکْوَةِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَثُوْرُ بَيْنَ أَصَابِعِهِ کَأَمْثَالِ الْعُيُوْنِ، فَشَرِبْنَا وَتَوَضَّأْنَا قُلْتُ: کَمْ کُنْتُمْ؟ قَالَ: لَوْکُنَّا مِائَةَ أَلْفٍ لَکَفَانَا‘ کُنَّا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
100: أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1310، الرقم: 3383، وفی کتاب: المغازی، باب: غزوة الحديبية، 4 /1526، الرقم: 3921.3923، وفی کتاب: الأشربة، باب: شرب البرکة والماءِ المبارک، 5 /2135، الرقم: 5316، وفی کتاب: التفسير /الفتح، باب: إِذْ يُبَايِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ : (18)، 4 /1831، الرقم: 4560، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 /329، الرقم: 14562، وابن خزيمة فی الصحيح، 1 /65، الرقم: 125، وابن حبان فی الصحيح، 14 /480، الرقم: 6542، والدارمي في السنن، 1 /21، الرقم: 27، وأبويعلی فی المسند، 4 /82، الرقم: 2107، والبيهقی فی الاعتقاد، 1 /272، وابن جعد فی المسند، 1 /29، الرقم: 82.
’’حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے پانی کی ایک چھاگل رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس سے وضو فرمایا: لوگ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف جھپٹے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے پاس وضو کے لئے پانی ہے نہ پینے کے لئے۔ صرف یہی پانی ہے جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (یہ سن کر) دستِ مبارک چھاگل کے اندر رکھا تو فوراً چشموں کی طرح پانی انگلیوں کے درمیان سے جوش مار کر نکلنے لگا، ہم سب نے (خوب پانی) پیا اور وضو بھی کر لیا۔ (سالم راوی کہتے ہیں) میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس وقت آپ کتنے آدمی تھے؟ انہوں نے کہا: اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تب بھی وہ پانی سب کے لئے کافی ہو جاتا، جبکہ ہم تو پندرہ سو تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
101 /9. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَالْحُدَيْبِيَةُ بِئْرٌ، فَنَزَحْنَاهَا حَتَّی لَمْ نَتْرُکْ فِيْهَا قَطْرَةً، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی شَفِيْرِ الْبِئْرِ فَدَعَا بِمَاءٍ، فَمَضْمَضَ وَمَجَّ فِي الْبِئْرِ، فَمَکَثْنَا غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ اسْتَقَيْنَا حَتَّی رَوِيْنَا، وَرَوَتْ أَوْ صَدَرَتْ رَکَائِبُنَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ رَحِمَهُ اﷲُ: قَضِيَةُ نَبْعِ الْمَاءِ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ صلی الله عليه واله وسلم تَکَرَّرَتْ مِنْهُ فِي عِدَّةِ مَوْطِنٍ، فِي مَشَاهِدَ عَظِيْمَةٍ، وَوَرَدَتْ مِنْ طُرُقٍ کَثِيْرَةٍ، يُفِيْدُ مَجْمُوْعُهَا: الْعِلْمُ الْقَطْعِيُّ الْمُسْتَفَادُ مِنَ الْمُتَوَاتِرِ الْمَعْنَوِيِّ.
101: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1311، الرقم: 3384، ابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 6 /585.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ واقعہ حدیبیہ کے روز ہماری تعداد چودہ سو تھی۔ ہم حدیبیہ کے کنویں سے پانی نکالتے رہے یہاں تک کہ ہم نے اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہ چھوڑا۔ (صحابہ کرام پانی ختم ہو جانے سے پریشان ہو کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں حاضر ہوئے) سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کنویں کے منڈیر پر آ بیٹھے اور پانی طلب فرمایا: اس سے کلی فرمائی اور وہ پانی کنویں میں ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد (پانی اس قدر اوپر آ گیا کہ) ہم اس سے پانی پینے لگے، یہاں تک کہ خوب سیراب ہوئے اور ہمارے سواریوں کے جانور بھی سیراب ہو گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
’’امام قرطبی رحمہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک انگلیوں سے پانی پھوٹنے کا مسئلہ ایک سے زیادہ جگہ، اور کئی لوگوں کی موجودگی میں تکرار کے ساتھ رونما ہوا، اور بہت سارے طرق سے منقول ہوا، ان سب کا مجموعہ، علم قطعی کا فائدہ دیتا ہے، جو متواتر معنوی سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘
102 /10. عَنْ إِيَاسَ بْنِ سَلَمَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حُنَيْنًا فَلَمَّا وَاجَهنَا الْعَدُوَّ تَقَدَّمْتُ فَأَعْلُو ثَنِيَةً فَاسْتَقْبَلَنِي رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرْمِيْهِ بِسَهْمٍ فَتَوَارَی عَنِّي فَمَا دَرَيْتُ مَا صَنَعَ وَنَظَرْتُ إِلَی الْقَوْمِ فَإِذَا هُمْ قَدْ طَلَعُوْا مِنْ ثَنِيَةٍ أُخْرَی فَالْتَقَوْا هُمْ وَصَحَابَةُ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَوَلَّی صَحَابَةُ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا وَعَلَيَّ بُرْدَتَانِ مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا مُرْتَدِيًا بِالْأُخْرَی فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِي فَجَمَعْتُهُمَا جَمِيْعًا وَمَرَرْتُ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مُنْهَزِمًا وَهُوَ عَلَی بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : لَقَدْ رَأَی ابْنُ الْأَکْوَعِ فَزَعًا فَلَمَّا غَشُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم نَزَلَ عَنْ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنْ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوْهَهُمْ فَقَالَ: شَاهَتْ الْوُجُوْهُ فَمَا خَلَقَ اﷲُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْکَ الْقَبْضَةِ فَوَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ فَهَزَمَهُمْ اﷲُ عَزَّ وَجَلَّ وَقَسَمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم غَنَائِمَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.
102: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: في غزوة حنين، 3 /1402، الرقم: 1777، وابن حبان في الصحيح، 14 /451، الرقم: 6520، والروياني في المسند، 2 /253، الرقم: 1150، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /127، الرقم: 136، والحسيني في البيان والتعريف، 2 /76، الرقم: 1098، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 8 /32، والمناوي في فيض القدير، 4 /153.
’’ایاس بن سلمہ کہتے ہیں کہ میرے والد رضی اللہ عنہ نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین میں گئے، جب ہمارا دشمن کے ساتھ مقابلہ ہوا تو میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پر چڑھ گیا، دشمن کا ایک شخص سامنے سے آیا، میں نے اس کے تیر مارا، وہ چھپ گیا اور مجھ کو پتا نہ چل سکا اس نے کیا کیا، میں نے قوم کی طرف دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے چڑھ رہے تھے، ان کا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کا مقابلہ ہوا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ پشت پھیر کر بھاگے، میں بھی شکست خوردہ لوٹا، درآنحالیکہ مجھ پر دو چادریں تھیں، ایک میں نے باندھی ہوئی تھی اور دوسری اوڑھی ہوئی تھی، میرا تہبند کھل گیا تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیا اور میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے شکست خوردہ لوٹا درآنحالیکہ آپ اپنے خچر شہباء پر سوار تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ابن الاکوع خوف زدہ ہو کر دیکھ رہا ہے، جب دشمنوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خچر سے اترے اور زمین سے خاک کی ایک مٹھی اٹھا کر دشمن کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا: ان کے چہرے قبیح ہو گئے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس مٹھی سے ان کے ہر انسان کی آنکھ میں مٹی بھر دی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے، سو اللہ تعالیٰ ل نے ان کو شکست دی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کا مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
103 /11. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه في رواية طويلة قَالَ: إِنَّ رَجُـلًا کَانَ يَکْتُبُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَارْتَدَّ عَنِ الإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِکِيْنَ، وَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُکُمْ بِمُحَمَّدٍ إِنْ کُنْتُ لَأَکْتُبُ مَاشِئْتُ فَمَاتَ ذَلِکَ الرَّجُلُ فَقَالَ النَّبِيّ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ الْأَرْضَ لَمْ تَقْبَلْهُ وَقَالَ أَنَسٌ: فَأَخْبَرَنِي أَبُوْطَلْحَةَ: أَنَّهُ أَتَی الْأَرْضَ الَّتِي مَاتَ فِيْهَا فَوَجَدَهُ مَنْـبُوْذًا، فَقَالَ: مَا شَأْنُ هَذَا؟ فَقَالُوْا: دَفَنَّاهُ مِرَارًا فَلَمْ تَقْبَلْهُ الْأَرْضُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
103: أخرجه مسلم نحوه فی الصحيح، کتاب: صفات المنافقين وأحکامهم، 4 /2145، الرقم: 2781، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 /120، الرقم: 12236، 13348، والبيهقی فی السنن الصغری، 1 /568، الرقم: 1054، وعبد بن حميد فی المسند، 1 /381، الرقم: 1278، وأبو المحاسن فی معتصر المختصر، 2 /188، والخطيب التبريزي فی مشکاة المصابيح، 2 /387، الرقم: 5798.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے کتابت کیا کرتا تھا وہ اسلام سے مرتد ہو گیا اور مشرکوں سے جا کر مل گیا اور کہنے لگا: میں تم میں سب سے زیادہ محمد مصطفی کو جاننے والا ہوں۔ میں ان کے لئے جو چاہتا تھا لکھتا تھا سو وہ شخص جب مر گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اسے زمین قبول نہیں کرے گی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہیں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بتایا وہ اس جگہ آئے جہاں وہ مرا تھا تو دیکھا اس کی لاش قبر سے باہر پڑی تھی۔ پوچھا اس (لاش) کا کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اسے کئی بار دفن کیا مگر زمین نے اسے قبول نہیں کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور امام احمد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved