مَحَبَّةُ النَّبَاتَاتِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نباتات کی محبت کا بیان}
1. مَحَبَّةُ الْجِذْعِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھجور کے تنے کی محبت کا بیان}
2. مَحَبَّةُ الشَّجَرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم
{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ درختوں کی محبت کا بیان}
47 /1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ. فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ. فَأَتَاهُ فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
47: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة في الإسلام، 3 /1313، الرقم: 3390، وابن حبان في الصحيح، 14 /435، الرقم: 6506، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 /797، الرقم: 1469.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہجروفراق میں) گریہ و زاری کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اوراس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ پرسکون ہوگا)۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
48 /2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم خَطَبَ إِلَی عِذْقِ جِذْعٍ وَاتَّخَذُوْا لَهُ مِنْبَرًا. فَخَطَبَ عَلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ. فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فَمَسَّهُ فَسَکَنَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
48: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: فيآيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم وما قد خصه اﷲ به، 5 /594، الرقم: 3627.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کجھور کے ایک تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے پھر صحابہ کرام ث نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے منبر بنوا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب اس پر تشریف فرما ہو کر خطبہ دینے لگے تو وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اُونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
49 /3. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ يَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ. فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَهَبَ إِلَی الْمِنْبَرِ. فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاهُ فَاحْتَضَنَهُ فَسَکَنَ. فَقَالَ: لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ يَعْلَی وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
وَفِي رَوَايَةٍ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه: حَتَّی سَمِعَهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ حَتَّی أَتَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَمَسَحَهُ فَسَکَنَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ لَمْ يَأْتِهِ، لَحَنَّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
49: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 /454، الرقم: 1415، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 /26، الرقم: 108، وأبو يعلی في المسند، 6 /114، الرقم: 3384، وعبد بن حميد في المسند، 1 /396، الرقم: 1336، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 5 / 37، الرقم: 1643.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک ستون سے ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے منبر تیار ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر کی طرف تشریف لے گئے تو وہ ستون(آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے جدائی کی وجہ سے) رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینہ سے لگایا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگرمیں اسے سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، ابو یعلی اور بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت میں ہے: (ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کہنے لگے: اگر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے پاس تشریف نہ لاتے تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
50 /4. عَنْ مُبَارَکِ بْنِ فُضَالَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَی جَنْبِ خَشَبَةٍ يُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَيْهَا. فَلَمَّا کَثُرَ النَّاسُ قَالَ: ابْنُوْا لِي مِنْبَرًا. فَبَنَوْا لَهُ مِنْبَرًا لَهُ عَتَبَتَانِ. فَلَمَّا قَامَ عَلَی الْمِنْبَرِ لِيَخْطُبَ، حَنَّتِ الْخَشَبَةُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَقَالَ أَنَسٌ: وَأَنَا فِي الْمَسْجِدِ فَسَمِعْتُ الْخَشَبَةَ حَنَّتْ حَنِيْنَ الْوَلَدِ. فَمَا زَالَتْ تَحِنُّ حَتَّی نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَاحْتََضَنَهَا فَسَکَنَتْ.
قَالَ: وَکَانَ الْحَسَنُ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيْثِ بَکَی ثُمَّ قَالَ: يَا عِبَادَ اﷲِ، اَلْخَشَبَةُ تَحِنُّ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم شَوْقًا إِلَيْهِ لِمَکَانِهِ مِنَ اﷲِ. فَأَنْتُمْ أَحَقُّ أَنْ تَشْتَاقُوْا إِلَی لِقَائِهِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی.
50: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 14 /436، 437، الرقم: 6507، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 /108، 109، الرقم: 1409، وابن الجعد في المسند، 1 /466، الرقم: 3219، وأبو يعلی في المسند، 5 /142، الرقم: 2756، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 5 / 289، 230، الرقم: 6507، والهيثمي في موارد الظمان، 1 /151، الرقم: 574، والعسقلاني في فتح الباري، 6 /602، و ابن کثير في شمائل الرسول:240.
’’حضرت مبارک بن فضالہ کا بیان ہے: ہم سے حضرت حسن بصری نے بیان کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جمعہ کے دن ایک لکڑی کے ساتھ اپنی کمر کی ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ پھر جب لوگ کثرت سے آنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میرے لئے منبر تیار کرو۔ پس لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا جس کے دو درجے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خطاب فرمانے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ لکڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے فراق میں رونے لگی۔ حضرت انس ص بیان کرتے ہیں: میں اس وقت مسجد میں موجود تھا۔ میں نے اس لکڑی کو بچے کی طرح روتے ہوئے سنا۔ وہ لکڑی مسلسل روتی رہی یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے لیے منبر سے نیچے تشریف لائے اور اسے سینے سے لگایا تو وہ پرسکون ہوگئی۔
’’راوی بیان کرتے ہیں: حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ جب یہ حدیث بیان کرتے تو رو پڑتے اور فرماتے: اے اللہ کے بندو! لکڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملنے کے شوق میں اور اللہ کے حضور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقام و مرتبہ کی وجہ سے روتی ہے۔ پس تم اس بات کے زیادہ حقدار ہو کہ تم ان سے ملاقات کا اشتیاق رکھو۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان، طبرانی اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔
51 /5. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ يَقُوْمُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَی جِذْعٍ مَنْصُوْبٍ فِي الْمَسْجِدِ فَيَخْطُبُ النَّاسَ. فَجَائَهُ رُوْمِيٌّ فَقَالَ: أَلاَ أَصْنَعُ لَکَ شَيْئًا تَقْعُدُ عَلَيْهِ وَکَأَنَّکَ قَائِمٌ؟ فَصَنَعَ لَهُ مِنْبَرًا لَهُ دَرَجَتَانِ وَيَقْعُدُ عَلَی الثَّالِثَةِ. فَلَمَّا قَعَدَ نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی ذَلِکَ الْمِنْبَرِ، خَارَ الْجِذْعُ کَخُوَارِ الثَّوْرِ حَتَّی ارْتَجَّ الْمَسْجِدُ حُزْنًا عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فَنَزَلَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَالْتَزَمَهُ وَهُوَ يَخُوْرُ. فَلَمَّا الْتَزَمَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم سَکَنَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ لَمْ أَلْتَزِمْهُ لَمَا زَالَ هَکَذَا إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ، حُزْنًا عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . فأَمَرَ بِهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَدُفِنَ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
51: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب: ما أکرم النبي صلی الله عليه واله وسلم بحنين المنبر، 1 /32، الرقم: 41، ويوسف بن موسی في معتصر المختصر، 1 /9.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں نصب شدہ ایک کھجور کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑے ہو جاتے اور لوگوں سے خطاب فرماتے۔ ایک رومی صحابی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: (یارسول اﷲ!) کیا میں آپ کے لئے ایسی چیز تیار نہ کرلائوں کہ آپ اس پر بیٹھ جائیں اور یوں محسوس ہو کہ آپ قیام فرما ہیں؟ پس اس نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا۔ اس منبر کے دو درجے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تیسرے درجہ پر جلوہ افروز ہوئے۔ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم (پہلی مرتبہ) اس منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو وہ کجھور کا تنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جدائی کی وجہ سے بیل جیسی آواز نکالنے لگا یہاں تک کہ پوری مسجد اس کی آواز سے غمگین ہوگئی۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کی خاطر منبر سے نیچے تشریف لائے۔ اس کے پاس گئے اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا جبکہ وہ بلبلا رہا تھا۔ جب حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے ساتھ لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی جان ہے اگر میں اسے اپنے ساتھ نہ ملاتا تو یہ اﷲ کے رسول کے غم کی وجہ سے قیامت تک اسی طرح روتا رہتا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کے بارے میں حکم فرمایا تو اسے دفن کردیاگیا۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
52 /6. عَنْ عَمْرِو بْنِ يَخْلُوْ السَّرْحِيِّ قَالَ: قَالَ الشَّافِعِيُّ: مَا أَعْطَی اﷲُ نَبِيًّا مَا أَعْطَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم . فَقُلْتُ: أَعْطَی عِيْسَی إِحْيَاءَ الْمَوْتَی. فَقَالَ: أَعْطَی مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم حَنِيْنَ الْجِذْعِ الَّذِي کَانَ يَخْطُبُ إِلَی جَنْبِهِ حَتَّی هُيِّئَ لَهُ الْمِنْبَرُ. فَلَمَّا هُيِّئَ لَهُ الْمِنْبَرُ، حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّی سُمِعَ صَوْتُهُ. فَهَذَا أَکْبَرُ مِنْ ذَاکَ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ.
52: أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 9 /116، والبيهقي في الاعتقاد، 1 /271، 272، وفي دلائل النبوة، 6 /68، والعسقلاني في فتح الباري، 6 /603، وابن کثير في شمائل الرسول: 251.
’’حضرت عمرو بن ابی یخلو بیان کرتے ہیں: امام شافعی رحمۃ ﷲ علیہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ کسی اور نبی کو عطا نہیں فرمایا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ عطا کیا۔ انہوں نے فرمایا: حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو کھجور کا وہ تنا عطا کیا گیا ہے جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے منبر تیار کیا گیا وہ کھجور کا تنا رونے لگا یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز سنی گئی اور یہ اس سے بڑا معجزہ ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابونعیم اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
53 /7. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَقَالَ: بِمَا أَعْرِفُ أَنَّکَ نَبِيٌّ؟ قَالَ: إِنْ دَعَوْتُ هَذَا الْعِذْقَ مِنْ هَذِهِ النَّخْلَةِ، أَتَشْهَدُ أَنِيّ رَسُوْلُ اﷲِ؟ فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَجَعَلَ يَنْزِلُ مِنَ النَّخْلَةِ حَتَّی سَقَطَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم ثُمَّ قَالَ: ارْجِعْ. فَعَادَ، فَأَسْلَمَ الْأَعْرَابِيُّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
53: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في آيات إثبات نبوة النبي صلي الله عليه واله وسلم وما قد خصه اﷲ، 5 / 594، الرقم: 3628، والبخاري في التاريخ الکبير، 3 /3، الرقم: 6، والحاکم في المستدرک علی الصحيحين، 2 /676، الرقم: 4237، والطبراني في المعجم الکبير، 12 /110، الرقم: 12622، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 /538، 539، الرقم: 527، والبيهقي في الاعتقاد، 1 /48.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کیسے علم ہوگا کہ آپ نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اگر میں کھجور کے اس درخت کے اس گچھے کو بلاؤں تو کیا تو گواہی دے گا کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے بلایا تو وہ درخت سے اترنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدموں میں آگرا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: واپس چلے جاؤ۔ تو وہ واپس چلا گیا۔ اس اعرابی نے یہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے اور امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور امام حاکم بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
54 /8. عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرَی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلَی مَنَابَتِهِمَا. رَوَاهُ أَحْمَدَُ.
54: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /172، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /6.
’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کے درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے پردہ بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے پیچھے قضائے حاجت فرمائی)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دوبارہ حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
55 /9. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ الثَّقَفِيِّ رضی الله عنه قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَنَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم ، فَجَاءَتْ شَجَرَهٌ تَشُقُّ الْأَرْضَ حَتَّی غَشِيَتْهُ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَی مَکَانِهَا. فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ ذَکَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: هِيَ شَجَرَةٌ اسْتَأْذَنَتْ رَبَّهَا ل أَنْ تُسَلِّمَ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَأَذِنَ لَهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
55: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، 173، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /158، الرقم: 184، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /144، الرقم: 3430، الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5.
’’حضرت یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم روانہ ہوئے اور ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہاں محو استراحت ہو گئے۔ اتنے میں ایک درخت زمین کو چیرتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر سایہ فگن ہو گیا پھر کچھ دیر بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بیدار ہوئے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اس درخت نے اپنے رب سے اجازت طلب کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بارگاہ میں سلام عرض کرے، پس اس نے اسے اجازت دے دی۔
اس حدیث کو امام احمد اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔
56 /10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم کَأَنَّهُ يُدَاوِي وَيُعَالِجُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَقُوْلُ أَشْيَاءَ؛ هَلْ لَکَ أَنْ أُدَاوِيَکَ؟ قَالَ: فَدَعَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی اﷲِ ثُمَّ قَالَ: هَلْ لَکَ أَنْ أُرِيَکَ آيَةً؟ وَعِنْدَهُ نَخْلٌ وَشَجَرٌ. فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عِذْقًا مِنْهَا، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ وَهُوَ يَسْجُدُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَسْجُدُ، وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّی انْتَهَی إِلَيْهِ صلی الله عليه واله وسلم، فَقَامَ بَيْنَ يَدَيْهِ. ثُمَّ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : ارْجِعْ إِلَی مَکَانِکَ. فَقَالَ الْعَامِرِيُّ: وَاﷲِ، لَا أُکَذِّبُکَ بِشَيئٍ تَقُوْلُهُ أَبَدًا، ثُمَّ قَالَ: يَا ألَ عَامِرِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَاﷲِ، لَا أُکَذِّبُهُ بِشَيئٍ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.
56: أخرجه ابن حبان في الصحيح، 14 /454، الرقم: 6523، وأبو يعلی في المسند، 4 /237، الرقم: 2350، والطبراني في المعجم الکبير، 12 /100، الرقم: 12595، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 2 / 506، والهيثمي في موارد الظمان، 1 /520، الرقم: 2111، وفي مجمع الزوائد، 9 /10.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں: قبیلہ بنو عامر کا ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا۔ وہ شخص علاج معالجہ کرنے والا (حکیم) دکھائی دیتا تھا۔ پس اس نے کہا: اے محمد! آپ بہت سی (نئی) چیزیں (امورِ دین میں سے) بیان کرتے ہیں۔ (پھر اس نے ازراہ تمسخر کہا:) کیا آپ کو اس چیز کی حاجت ہے کہ میں آپ کا علاج کروں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اللہ کے دین کی دعوت دی پھر فرمایا: کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں کوئی معجزہ دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس کھجور اور کچھ اور درخت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے کھجور کی ایک شاخوں والی ٹہنی کواپنی طرف بلایا، وہ ٹہنی (کھجور سے جدا ہو کر) آپ کی طرف سجدہ کرتے اور سر اٹھاتے، سجدہ کرتے اور پھر سر اٹھاتے ہوئے بڑھی یہاں تک کہ آپ کے قریب پہنچ گئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی جگہ واپس چلی جائے۔ (یہ واقع دیکھ کر) قبیلہ بنو عامر کے اس شخص نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی شے میں بھی آپ کی تکذیب نہیں کروں گا جو آپ فرماتے ہیں۔ پھر اس نے برملا اعلان کرکے کہا: اے آلِ عامر بن صعصعہ! اللہ کی قسم! میں انہیں (یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو) آئندہ کسی چیز میں نہیں جھٹلاؤں گا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن حبان، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
57 /11. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه في رواية طويلة قَالَ: سِرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حَتَّی نَزَلَ وَادِيًا أَفْيَحَ. فَذَهَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَقْضِي حَاجَتَهُ. فَاتَّبَعْتُهُ بِإِدَاوَةٍ مِنْ مَاءٍ. فَنَظَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَلَمْ يَرَ شَيْئًا يَسْتَتِرُبِهِ فَإِذَا شَجَرَتَانِ بِشَاطِيئِ الْوَادِي. فَانْطَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی إِحْدَاهُمَا فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اﷲِ. فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَالْبَعِيْرِ الْمَخْشُوْشِ، الَّذِي يُصَانِعُ قَائِدَهُ. حَتَّی أَتَی الشَّجَرَةَ الْأُخْرَی. فَأَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا. فَقَالَ: انْقَادِي عَلَيَّ بِإِذْنِ اﷲِ فَانْقَادَتْ مَعَهُ کَذَلِکَ، حَتَّی إِذَا کَانَ بِالْمُنْصَفِ مِمَّا بَيْنَهُمَا، قَالَ: الْتَئِمَا عَلَيَّ بِإِذْنِ اﷲِ فَالْتَأَمَتَا. فَجَلَسْتُ أُحَدِّثُ نَفْسِي. فَحَانَتْ مِنِّي لَفْتَهٌ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم مُقْبِـلًا. وَإِذَا الشَّجَرَتَانِ قَدِ افْتَرَقَتَا. فَقَامَتْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا عَلَی سَاقٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : يَا جَابِرُ، هَلْ رَأَيْتَ مَقَامِي؟ قُلْتُ: نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ: فَانْطَلِقْ إِلَی الشَّجَرَتَيْنِ فَاقْطَعْ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. فَأَقْبِلْ بِهِمَا. حَتَّی إِذَا قُمْتَ مَقَامِي فَأَرْسِلْ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِکَ وَعَنْ يَسَارِک. قَالَ جَابِرٌ: فَقُمْتُ فَأَخَذْتُ حَجَرًا فَکَسَرْتُهُ وَحَسَرْتُهُ. فَانْذَلَقَ لِي. فَأَتَيْتُ الشَّجَرَتَيْنِ فَقَطَعْتُ مِنْ کُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا غُصْنًا. ثُمَّ أَقْبَلْتُ أَجُرُّهُمَا حَتَّی قُمْتُ مَقَامَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، أَرْسَلْتُ غُصْنًا عَنْ يَمِيْنِي وَغُصْنًا عَنْ يَسَارِي، ثُمَّ لَحِقْتُهُ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ فَعَمَّ ذَاکَ؟ قَالَ: إِنِّي مَرَرْتُ بِقَبْرَيْنِ يُعَذَّبَانِ. فَأَحْبَبْتُ: بِشَفَاعَتِي، أَنْ يُرَفَّهَ عَنْهُمَا مَا دَامَ الغُصْنَانِ رَطْبَيْنِ … الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ.
57: أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب: الزهد والرقائق، باب: حديث جابر الطويل، وقصة أبي اليَسَر، 4 /2306، الرقم: 3012، وابن حبان فی الصحيح، 14 /455. 456، الرقم: 6524، والبيهقی فی السنن الکبری، 1 /94، الرقم: 452، والأصبهاني فی دلائل النبوة، 1 /53.55، الرقم: 37، وابن عبد البر فی التمهيد، 1 /222، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، 2 /383، الرقم: 5885.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ (ایک غزوہ) کے سفر پر روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم ایک کشادہ وادی میں پہنچے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم رفع حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ میں پانی وغیرہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پیچھے گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے (اردگرد) دیکھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو پردہ کے لئے کوئی چیز نظر نہ آئی، وادی کے کنارے دو درخت تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان میں سے ایک درخت کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کی شاخوںمیں سے ایک شاخ پکڑی اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کے حکم سے میری اطاعت کر۔ وہ درخت اس اونٹ کی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمانبردار ہوگیا جس کی ناک میں نکیل ہو اور وہ اپنے ہانکنے والے کے تابع ہوتا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دوسرے درخت کے پاس گئے اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ پکڑ کر فرمایا: اللہ کے اذن سے میری اطاعت کر، وہ درخت بھی پہلے درخت کی طرح آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تابع ہو گیا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم دونوں درختوں کے درمیان پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں درختوں کو ملا دیا اور فرمایا: اللہ کے اذن سے جڑ جاؤ، سو وہ دونوں درخت جڑ گئے۔ میں وہاں بیٹھا اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا، میں نے اچانک دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لا رہے ہیں اور وہ دونوں درخت اپنے اپنے سابقہ اصل مقام پر کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے جابر! تم نے وہ مقام دیکھا تھا جہاں میں کھڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: جی! یا رسول اﷲ! فرمایا: ان دونوں درختوں کے پاس جاؤ اور ان میں سے ہر ایک کی ایک ایک شاخ کاٹ کر لاؤ اور جب اس جگہ پہنچو جہاں میں کھڑا تھا تو ایک شاخ اپنی دائیں جانب اور ایک شاخ اپنی بائیں جانب ڈال دینا۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں نے کھڑے ہو کر ایک پتھر توڑا اور تیز کیا، پھر میں ان درختوں کے پاس گیا اور ہر ایک سے ایک شاخ توڑی، پھر میں انہیں گھسیٹ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے کھڑے ہونے کی جگہ لایا اس جگہ ایک شاخ دائیں جانب اور ایک شاخ بائیں جانب ڈال دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے آپ کے حکم پر عمل کر دیا ہے۔ مگر اس عمل کا سبب کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اس جگہ دو قبروں کے پاس سے گزرا جن میں قبر والوں کو عذاب ہو رہا تھا، میں نے چاہا کہ میری شفاعت کے سبب جب تک وہ شاخیں سرسبز و تازہ رہیں ان کے عذاب میں کمی رہے۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
58 /12. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ: اَلسَّـلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
58: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب، باب: (6)، 5 /593، الرقم: 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب: ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 /31، الرقم: 21، والحاکم فی المستدرک، 2 /677، الرقم: 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 /134، الرقم: 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 /150، الرقم: 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 /175، الرقم: 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 /329، الرقم: 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے) عرض کرتا: {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ}۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے اس کو حسن کہا ہے جبکہ حاکم نے کہا ہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے۔
59 /13. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْطَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، فَقَالَ: هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ: أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ… قَالَ: أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَيُکُمْ وَلِيُهُ؟ قَالُوْا: أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
59: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: المناقب، باب: ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5 /590، الرقم: 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 /317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 /42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 /45، الرقم: 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 /519.
’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
60 /14. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فِي سَفَرٍ فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي: ائْتِ تِلْکَ الْأَشَائَتَيْنِ قَالَ وَکِيْعٌ: يَعْنِي النَّخْلَ الصِّغَارَ فَقُلْ لَهُمَا إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَأْمُرُکُمَا أَنْ تَجْتَمِعَا فَاجْتَمَعَتَا فَاسْتَتَرَ بِهِمَا فَقَضَی حَاجَتَهُ ثُمَّ قَالَ لِي: ائْتِهِمَا فَقُلْ لَهُمَا لِتَرْجِعْ کُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمَا إِلَی مَکَانِهَا فَقُلْتُ لَهُمَا: فَرَجَعَتَا.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
60: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب: الطهارة، باب: الارتياد للغائط والبول، 1 /122، الرقم: 339، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /321، الرقم: 31753، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /170، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /5، والکناني في مصباح الزوجة، 1 /50.
’’یعلی بن مرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حاجت کے لیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو مجھ سے فرمایا: ان دو درختوں کو بلا لاؤ ۔وکیع فرماتے ہیں کہ چھوٹے کھجور کے درختوں کو۔ مرہ کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ ایک جگہ جمع ہو جاؤ۔ وہ دونوں جمع ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کے ذریعہ پردہ فرمایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے تو مجھ سے فرمایا: جاؤ ان دونوں سے کہو کہ اپنی جگہ پر لوٹ جائیں، میں نے ان سے جاکر کہا وہ اپنی جگہ واپس چلے گئے۔‘‘
اس حدیث کو ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ کی روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved