13/1. عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ رضی اللہ عنها، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ صَلّٰی ذَاتَ لَیْلَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلّٰی بِصَلَاتِهٖ نَاسٌ، ثُمَّ صَلّٰی مِنَ الْقَابِلَةِ فَکَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ رَسُولُ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَیْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ وَلَمْ یَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَیْکُمْ إِلَّا أَنِّي خَشِیتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ، وَذٰلِکَ فِي رَمَضَانَ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 1: 380، الرقم: 1077، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب في قیام رمضان وهو التراویح، 1: 524، الرقم: 761 (177)، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شھر رمضان، 2: 49، الرقم: 1373، والنسائي في السنن، کتاب قیام اللیل وتطوع النھار، باب قیام شھر رمضان، 3: 202، الرقم: 1604، وأحمد بن حنبل في المسند، 6: 177، الرقم: 25485، وابن حبان في الصحیح، 6: 283، الرقم: 2542، والبیھقی في السنن الکبری، 2: 492، الرقم: 4377۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات حضور نبی اکرم ﷺ نے مسجد میں نمازِ (تراویح) پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ ﷺ نے اگلی رات نمازِ (تراویح) پڑھی تو لوگ اور زیادہ ہو گئے۔ پھر تیسری یا چوتھی رات بھی لوگ اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ ﷺ ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمایا: تمہارا عمل میں نے دیکھا لیکن مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف یہ خوف مانع تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے۔ یہ رمضان المبارک کا واقعہ ہے۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
فَلَمْ یَذْکُرِ الْإِمَامُ الْبُخَارِيُّ عَدَدَ صَلَاةِ التَّرَاوِیْحِ فِي صَحِیْحِهٖ بَلْ صَرَّحَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلَانِيُّ فِي هٰذَا الْأَمْرِ وَقَالَ فِي ’’التَّلْخِیْصِ‘‘: أَنَّهٗ ﷺ صَلّٰی بِالنَّاسِ عِشْرِیْنَ رَکْعَۃً لَیْلَتَیْنِ، فَلَمَّا کَانَ فِي اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ اجْتَمَعَ النَّاسُ فَلَمْ یَخْرُجْ إِلَیْهِمْ، ثُمَّ قَالَ مِنَ الْغَدِ: خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَـلَا تُطِیْقُوْهَا.
العسقلاني، تلخیص الحبیر، 2: 21، الرقم: 540
امام بخاری نے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نمازِ تراویح کا عدد بیان نہیں کیا مگر حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حوالے سے صراحت کے ساتھ ’التلخیص‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو دونوں راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی، جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ ﷺ ان کی طرف (حجرۂ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر آپ ﷺ نے صبح کے وقت ارشاد فرمایا: مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم اس کی طاقت نہ رکھو۔
14/2. عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَجَ لَیْلَۃً مِنْ جَوْفِ اللَّیْلِ فَصَلّٰی فِي الْمَسْجِدِ، وَصَلّٰی رِجَالٌ بِصَلَاتِهٖ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَاجْتَمَعَ أَکْثَرُ مِنْهُمْ فَصَلّٰی فَصَلَّوْا مَعَهٗ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَکَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَصَلّٰی فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهٖ، فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَۃُ الرَّابِعَۃُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهٖ حَتّٰی خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْحِ، فَلَمَّا قَضَی الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَی النَّاسِ فَتَشَهَدَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهٗ لَمْ یَخْفَ عَلَيَّ مَکَانُکُمْ، وَلٰـکِنِّي خَشِیتُ أَنْ تُفْتَرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا، فَتُوُفِّيَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَالْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2: 708، الرقم: 1908، وأیضاً في کتاب الجمعة، باب من قال في الخطبة بعد الثناء أما بعد، 1: 313، الرقم: 882، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب في قیام رمضان وهو التراویح، 1: 524، الرقم: 761، وأحمد بن حنبل في المسند، 6: 169، الرقم: 25401، وابن خزیمة في الصحیح، 2: 172، الرقم: 1128، وابن حبان في الصحیح، 1: 353، الرقم: 141، وابن راھویه في المسند، 2: 304، الرقم: 827، وابن حبان في الصحیح، 6: 284، الرقم: 2543، والبیهقي في السنن الکبری، 2: 493، الرقم: 4378.
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ ﷺ نصف شب کے وقت باہر تشریف لائے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے اور بہت سے لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ صبح کے وقت لوگوں نے اس کا چرچا کیا تو دوسرے روز اور زیادہ لوگوں نے آپ ﷺ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے مزید چرچا کیا۔ چنانچہ مسجد میں حاضرین کی تعداد تیسری رات اور بڑھ گئی۔ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے نماز پڑھی تو (کثیر تعداد میں) لوگوں نے آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب چوتھی رات آئی تو نمازی مسجد میں سما نہیں رہے تھے یہاں تک کہ آپ ﷺ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نمازِ فجر پڑھ چکے تو لوگوں کی جانب متوجہ ہو کر شہادتِ توحید و رسالت کے بعد فرمایا: اما بعد! تمہاری موجودگی مجھ سے پوشیدہ نہیں تھی لیکن میں تم پر نمازِ تراویح فرض ہو جانے اور تمہارے اس (فرض کی ادائیگی) سے عاجز آجانے سے ڈر گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال تک معاملہ اسی طرح رہا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
15/3. عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ عَنْ أَبِي ذَرٍّ ﷺ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فَلَمْ یُصَلِّ بِنَا، حَتّٰی بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتّٰی ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ، وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتّٰی ذَهَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ، فَقُلْنَا لَهٗ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِیَّةَ لَیْلَتِنَا هٰذِهٖ؟ فَقَالَ: إِنَّهٗ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ کُتِبَ لَهٗ قِیَامُ لَیْلَةٍ، ثُمَّ لَمْ یُصَلِّ بِنَا حَتّٰی بَقِيَ ثَـلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلّٰی بِنَا فِي الثَّالِثَةِ، وَدَعَا أَهْلَهٗ وَنِسَائَهٗ، فَقَامَ بِنَا حَتّٰی تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ، قُلْتُ لَهٗ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ.
رَوَاهُ أَبُو دَاوٗدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَابْنُ أَبِي شَیْبَةَ وَابْنُ خُزَیْمَةَ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ. وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ، فَرَآی بَعْضُهُمْ أَنْ یُصَلِّيَ إِحْدٰی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَۃً مَعَ الْوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَالْعَمَلُ عَلٰی هٰذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِینَةِ. وَأَکْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلٰی مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَیْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ عِشْرِینَ رَکْعَۃً. وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَکِ وَالشَّافِعِيِّ. وَقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهٰکَذَا أَدْرَکْتُ بِبَلَدِنَا بِمَکَّةَ یُصَلُّونَ عِشْرِینَ رَکْعَۃً. وَقَالَ أَحْمَدُ: رُوِيَ فِي هٰذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ یُقْضَ فِیهِ بِشَيْئٍ. وَقَالَ إِسْحَاقُ: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدٰی وَأَرْبَعِینَ رَکْعَۃً عَلٰی مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ. وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَکِ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ یُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهٗ إِذَا کَانَ قَارِئًا. وَفِي الْبَابِ عَنْ عَائِشَةَ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِیرٍ وَابْنِ عَبَّاسٍ رضوان اللہ علیہم اجمعین.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شھر رمضان، 2: 50، الرقم: 1375، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في قیام شھر رمضان، 3: 169-170، الرقم: 806، والنسائي في السنن، کتاب السھو، باب ثواب من صلی مع الإمام حتی ینصرف، 3: 83، الرقم: 1364، وأیضاً في کتاب قیام اللیل وتطوع النھار، باب قیام شھر رمضان، 3: 202، الرقم: 1605، وابن ماجہ في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیھا، باب ما جاء في قیام شھر رمضان، 1: 420، الرقم: 1327، وابن أبي شیبة في المصنف، 2: 164، الرقم: 7695، وابن خزیمة في الصحیح، 3: 337، الرقم: 2206، وجعفر بن محمد الفریابي في کتاب الصیام: 117، الرقم: 153.
ضرت جبیربن نفیر سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر ﷺ فرماتے ہیں: ہم نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ روزے رکھے لیکن آپ ﷺ نے ہمیں نمازِ (تراویح) نہ پڑھائی، جب رمضان کے سات دن باقی رہ گئے (یعنی 23 ویں رات آئی) تو آپ ﷺ ہمیں (نماز پڑھانے کے لیے) کھڑے ہوئے یہاں تک کہ تہائی رات گزر گئی، پھر چوبیسویں رات قیام نہ فرمایا اور پچیسویں رات کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ نصف رات گزر گئی۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش آپ رات کا بقیہ حصہ بھی ہمیں نماز پڑھاتے (ہمارے لیے باعثِ سعادت ہوتا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص امام کے ہمراہ (نماز کے لیے) سلام پھیرنے تک کھڑا ہو اس کے لیے پوری رات قیام (کا ثواب) لکھا جاتا ہے، پھر آپ نے نمازِ تراویح نہ پڑھائی یہاں تک کہ تین دن باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے ستائیسویں شب کو نماز پڑھائی، آپ ﷺ نے اپنے اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کو بھی بلایا، آپ ﷺ نے اتنی لمبی نماز پڑھائی کہ ہمیں فلاح (کے چھوٹ جانے) کا خوف ہوا۔ (جبیر بن نفیر کہتے ہیں)میں نے حضرت ابو ذر ﷺ سے پوچھا: فلاح کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: سحری۔
اِسے امام ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن ابی شیبہ اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ مذکورہ الفاظ ترمذی کے ہیں۔
امام ترمذی نے اِسے روایت کرنے کے بعد لکھا ہے: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ علماء کا قیامِ رمضان (یعنی تراویح) میں اختلاف ہے۔ بعض علماء کے نزدیک وتروں کے ساتھ 41 رکعات ہیں۔ یہ قول اہلِ مدینہ کا ہے اور اسی پر مدینہ منورہ والوں کا عمل ہے (کیونکہ وہ نمازِ تراویح میں ہر چار رکعت کے بعد یعنی ہر ترویحہ کے وقفہ میں چار رکعت نوافل اضافتاً ادا کرتے ہیں، جس سے کل 36 رکعات بن جاتی ہیں یعنی 20 رکعت تراویح اور 16 رکعت مزید نوافل۔ پھر 3 وتر، اور 2 نفل بعد میں ادا کرنے سے 41 رکعات بنتی ہیں)۔ اکثر اہلِ علم حضرت علی، حضرت عمر اور ان کے علاوہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی بیس رکعات تراویح کے موقف پر قائم ہیں۔ امام سفیان ثوری، عبد اللہ بن مبارک اور امام شافعی اسی کے قائل ہیں۔ امام شافعی فرماتے ہیں: میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ والوں کو اسی طرح بیس رکعت تراویح پڑھتے ہوئے پایا ہے۔ (یعنی اہل مکہ بھی 20 رکعات تراویح ہی پڑھتے ہیں، مگر وہ ہر ترویحہ میں 4 نوافل پڑھنے کی بجائے کعبۃ اللہ کا طواف کرلیتے ہیں، اس طرح ان کی نماز 20 رکعت ہی رہتی ہے۔) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: اس بارے میں مختلف روایات ہیں اور اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ امام اسحاق فرماتے ہیں: ہم اکتالیس رکعات پسند کرتے ہیں جس طرح کہ حضرت اُبی بن کعب ﷺ سے مروی ہے۔ امام (عبد اللہ) بن مبارک، احمد بن حنبل اور اسحاق نے جماعت کے ساتھ تراویح کو پسند فرمایا ہے لیکن امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر نمازی قاری ہو تو علیحدہ پڑھے۔ اس باب میں حضرت عائشہ، نعمان بن بشیر اور (عبد اللہ) بن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال بھی ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved