1/1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ یُرَغِّبُ فِي قِیَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَأْمُرَهُمْ فِیهِ بِعَزِیْمَةٍ، فَیَقُولُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ، ثُمَّ کَانَ الْأَمْرُ عَلٰی ذٰلِکَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رضی الله عنه عَلٰی ذٰلِکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ وَ هٰذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب التراویح، باب فضل من قام رمضان، 2/707، الرقم/1905، ومسلم في الصحیح، کتاب صلاة المسافرین وقصرھا، باب الترغیب في قیام رمضان وهو التراویح، 1/523، الرقم/759، والترمذي في السنن، کتاب الصوم عن رسول اللہ، باب الترغیب في قیام رمضان وما جاء فیه من الفضل، 3/171، الرقم/808، وعبد الرزاق في المصنف، 4/258، الرقم/7719
1/1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ قیامِ رمضان (تراویح) کی ترغیب دیتے تھے مگر اس کا تاکیدی حکم نہیں دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے تھے: جس نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دیے گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا وصال ہو گیا اور یہ (قیامِ رمضان کا) معاملہ اسی طرح برقرار رہا۔ پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پورے دور خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور تک یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہا۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔
2/2. عَنْ جُبَیْرِ بْنِ نُفَیْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ رَمَضَانَ، فَلَمْ یَقُمْ بِنَا شَیْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتّٰی بَقِيَ سَبْعٌ، فَقَامَ بِنَا حَتّٰی ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ، فَلَمَّا کَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ یَقُمْ بِنَا، فَلَمَّا کَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتّٰی ذَهَبَ شَطْرُ اللَّیْلِ، فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ، لَوْ نَفَّلْتَنَا قِیَامَ هٰذِهِ اللَّیْلَةِ، قَالَ: فَقَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلّٰی مَعَ الْإِمَامِ حَتّٰی یَنْصَرِفَ حُسِبَ لَهٗ قِیَامُ لَیْلَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا کَانَتِ الرَّابِعَةُ لَمْ یَقُمْ، فَلَمَّا کَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهٗ وَنِسَائَهٗ وَالنَّاسَ، فَقَامَ بِنَا حَتّٰی خَشِیْنَا أَنْ یَفُوتَنَا الْفَلَاحُ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السُّحُورُ، ثُمَّ لَمْ یَقُمْ بَقِیَّةَ الشَّهْرِ.
رَوَاهُ أَصْحَابُ سُنَنِ الْأَرْبَعَةِ وَالدَّارِمِيُّ.
أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب في قیام شهر رمضان، 2/50، الرقم/1375، والترمذي في السنن، کتاب الصوم،باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 3/1۶9، الرقم/80۶، والنسائي في السنن، کتاب السهو، باب ثواب من صلی مع الإمام حتی ینصرف، 3/83، الرقم/13۶4، وابن ماجه في السنن کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في قیام شهر رمضان، 1/420، الرقم/1327، والدارمي في السنن، 2/42، الرقم/1777
2/2۔ جبیر بن نفیر سے روایت ہے کہ حضرت ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھے تو آپ ﷺ نے اس مہینے میں کسی روز ہمارے ساتھ قیام نہ فرمایا حتی کہ سات روز باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام فرمایا پھر (اگلے دن) جب چھ روز باقی رہ گئے تھے تو بھی ہمارے ساتھ قیام نہ فرمایا۔ پھر(اگلے دن) جب رمضان المبارک کے پانچ روز باقی رہ گئے تھے تو آپ ﷺ نے آدھی رات تک ہمارے ساتھ قیام فرمایا۔ میں عرض گزار ہوا کہ یارسول اللہ! کاش اس رات آپ ہمیں اور بھی نفل پڑھا دیتے! آپ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی جب امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو فارغ ہوتے ہی اس کے لیے پوری رات کے قیام کا ثواب شمار کر لیا جاتا ہے۔ جب چار روز باقی رہ گئے تو آپ ﷺ نے قیام نہ فرمایا۔ پھر جب تین روز باقی رہ گئے تو اس رات آپ ﷺ نے اپنے گھر والوں، اپنی اَزواجِ مطہرات اور دیگر لوگوں کو جمع فرمایا اور آپ ﷺ نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یہاں تک کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں فلاح کا وقت ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ حضرت جبیر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ فلاح کیا چیز ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: سحری۔ پھر ماهِ رمضان کے باقی دنوں میں آپ ﷺ نے (ہمارے ساتھ) قیام نہ فرمایا۔
اِسے اَئمہ سنن اَربعہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved