فتنہء خوارج

خوارج کی تکفیر اور وجوب قتل پر ائمۂ دین کی تصریحات

مسلح بغاوت اور دہشت گردی کرنے والے خوراج کی تکفیر سے متعلق علماء کی دو آراء ہیں، لیکن ان کے قتل پر کوئی اِختلاف نہیں ہے کیونکہ اس کا حکم صریح خود حضور نبی اکرم ﷺ نے دیا ہے، جس کے بعد کسی مسلمان کے لئے اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ درج ذیل اِرشادِ نبوی ﷺ اور اسی طرح کے کئی دیگر فرامین نبوت پہلے بیان ہوچکے ہیں جو ان کے خاتمہ پر نص ہیں:

لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی اليمن قبل حجة الوداع، 4: 1581، رقم: 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2: 743، رقم: 1064

’’اگر میں انہیں پالوں تو ضرور بالضرور قومِ ثمود کی طرح قتل کر ڈالوں گا۔‘‘

اور آپ ﷺ کا یہ ارشاد گرامی بھی قتل خوارج کے باب میں قطعی اور صریح ہے:

فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ.

نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7: 119، رقم: 4103

’’پس تم جہاں کہیں بھی انہیں پاؤ تو (ریاستی سطح پر ان کے ساتھ جنگ کرکے) انہیں قتل کر ڈالو۔‘‘

امام بخاری نے الصحيح میں باب ہی اس عنوان سے قائم کیا ہے:

’’باب قتل الخوارج والملحدین بعد اقامۃ الحجۃ علیہم (خوارج اور ملحدین پر حجت قائم کرنے کے بعد ان کو قتل کرنے کا باب)۔‘‘

بخاری، الصحيح، کتاب إستتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب (5)، 6: 2539

اِمام مسلم نے بھی الصحيح میں درج ذیل عنوان سے یہ باب قائم کیا ہے:

’’باب التحریض علی قتل الخوارج (خوارج کو قتل کرنے پر تاکیدی ترغیب کا باب)۔‘‘

مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب (48)، 2: 746

امام نووی ’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں لکھتے ہیں:

قوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’فإذا لقيتموهم فاقتلوهم، فإن فی قتلهم أجرا‘‘ هذا تصريح بوجوب قتال الخوارج والبغاة وهو إجماع العلماء. قال القاضی: أجمع العلماء علی أن الخوارج وأشباههم من أهل البدع والبغی متی خرجوا علی الإمام وخالفوا رأی الجماعة، وشقوا العصا وجب قتالهم بعد إنذارهم والإعتذار إليهم.

وهذا کله ما لم يکفروا ببدعتهم فان کانت البدعة مما يکفرون به جرت عليهم أحکام المرتدين، وأما البغاة الذين لا يکفرون فيرثون ويورثون ودمهم فی حال القتال هدر، وکذا أموالهم التی تتلف فی القتال.

نووی، شرح صحيح مسلم، 7: 169، 170

’’حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ۔ ’’اگر تم انہیں ملو تو ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں قتل کر دو کہ یقینا ان کو قتل کرنے میں اجر ہے‘‘ ۔ خوارج اور باغی دہشت گردوں کے ساتھ جنگ کے واجب ہونے پر صراحت ہے اور اسی پر علماء کا اجماع ہے۔ قاضی ابو بکر بن عربی نے فرمایا: تمام علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ خوارج اور ان جیسے دیگر اہلِ بدعت دہشت گرد، اگر حکومت وقت کے خلاف خروج کریں، اجتماعی رائے کی مخالفت کریں اور ہتھیار اٹھا لیں تو ان کو ڈرانے اور راہ راست پر لانے کے لئے سمجھانے کے بعد ان سے قتال واجب ہے۔

’’یہ سب کچھ اس وقت تک ہے جب تک وہ اپنی بدعات کے سبب کافر قرار نہ دیے جائیں۔ لیکن اگر ان کے کرتوت ایسے ہوں جن کی بناء پر انہیں کافر قرار دیا گیا ہے تو ان پر مرتدین کے احکام لاگو ہوں گے۔ البتہ وہ باغی جن کو کافر قرار نہیں دیا گیا تو وہ خود بھی وارث بنیں گے اور دوسرے بھی ان کے وارث بنیں گے البتہ حالت جنگ میں ان کا خون رائیگاں جائے گا اور ان کے اموال پر بھی کوئی ضمان نہیں ہوگی۔‘‘

قاضی عیاض ’’الشفا (834 ۔ 836)‘‘ میں فرماتے ہیں:

وَاخْتَلَفَ قَوْلُ مَالِکٍ وَأَصْحَابِهِ فِی ذَلِکَ، وَلَمْ يَخْتَلِفُوا فِی قِتَالِهِمْ إِذَا تَحَيَّزُوا فِئَةً، وَأَنَّهُمْ يُسْتَتَابُونَ، فَإِنْ تَابُوا وَإِلَّا قُتِلُوا. وَإِنَّمَا اخْتَلَفُوا فِی الْمُنْفَرِدِ مِنْهُمْ. وَهَذَا قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمَوَّازِ فِی الْخَوَارِجِ، وَعَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ الْمَاجِشُونِ، وَقَوْلُ سُحْنُونٍ. وَبِهِ فُسِّرَ قَوْلُ مَالِکٍ فِی الْمُوَطَّأ، وَمَا رَوَاهُ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ: يُسْتَتَابُونَ، فَإِنْ تَابُوا وَإِلَّا قُتِلُوا. وَقَالَ عِيسَی عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ: فَإِنْ تَابُوا وَإِلَّا قُتِلُوا، وَمِثْلُهُ لَهُ فِی الْمَبْسُوطِ قَالَ: وَهُمْ مُسْلِمُونَ، وَإِنَّمَا قُتِلُوا لِرَأْيِهِمُ السُّوءِ، وَبِهَذَا عَمِلَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ. وَابْنُ حَبِيبٍ، وَغَيْرُهُ مِنْ أَصْحَابِنَا يَرَی تَکْفِيرَهُمْ.

’’خوارج کے بارے میں امام مالک اور ان کے تلامذہ کا قول اگر چہ مختلف ہے مگر ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر وہ جماعت سے علیحدگی اختیار کریں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی، اور وہ اس طرح کہ پہلے انہیں توبہ کرنے کی دعوت دی جائے گی، اگر وہ توبہ کر لیں تو بہت خوب ورنہ انہیں قتل کیا جائے گا۔ البتہ اختلاف ان میں سے صرف ایک فرد کے حکم کے بارے میں ہے، اگر وہ اکیلا ہو (تو کیا کیا جائے)؟ خوارج کے بارے میں یہ قول محمد بن الموّاز، عبدالمالک بن الماجشون اور امام سحنون کا ہے۔ اور یہ قول موطا میں امام مالک کے قول اور آپ سے مروی حضرت عمر بن عبد العزیزکی روایت (ان سے توبہ کے لئے کہا جائے، اگر وہ توبہ کر لیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کیا جائے) کی وضاحت کرتا ہے۔ امام عیسيٰ، امام ابن القاسم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں: اگر وہ توبہ کر لیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کر دیا جائے۔ اور ان سے مروی اسی طرح کی روایت المبسوط میں بھی ہے۔ فرمایا: یہ اصلاً مسلمان تھے، مگر انہیں فتنہ و شرارت پر مبنی موقف رکھنے کی وجہ سے قتل کیا جائے گا اور عمر بن عبدالعزیز اور ابن حبیب نے بھی ان کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے۔ ان کے علاوہ ہمارے بہت سے مقتدر اکابر ان کے بارے میں تکفیر کا موقف رکھتے ہیں۔‘‘

قاضی عیاض مزید فرماتے ہیں:

وَقَوْلُهُ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْخَوَارِجِ: هُمْ مِنْ شَرِّ الْبَرِيَّةِ، وَهَذِهِ صِفَةُ الْکُفَّارِ. وَقَالَ: شَرُّ قَبِيلٍ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، طُوبَی لِمَنْ قَتَلَهُمْ أَوْ قَتَلُوهُ. وَقَالَ: فَإِذَا وَجَدْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ قَتْلَ عَادٍ. وَظَاهِرُ هَذَا الْکُفْرِ لَا سَيِّمَا مَعَ تَشْبِيهِهِمْ بِعَادٍ، فَيَحْتَجُّ بِهِ مَنْ يَرَی تَکْفِيرَهُمْ، فَيَقُولُ لَهُ الْآخَرُ: إِنَّمَا ذَلِکَ مِنْ قَتْلِهِمْ لِخُرُوجِهِمْ عَلَی الْمُسْلِمِينَ، وَبَغْيِهِمْ عَلَيْهِمْ بِدَلِيلِهِ مِنَ الْحَدِيثِ نَفْسِهِ: يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ، فَقَتْلُهُمْ هَاهُنَا حَدٌّ لَا کُفْرٌ. وَذِکْرُ عَادٍ تَشْبِيهٌ لِلْقَتْلِ وَحِلِّهِ لَا لِلْمَقْتُولِ، وَلَيْسَ کُلُّ مَنْ حُکِمَ بِقَتْلِهِ يُحْکَمُ بِکُفْرِهِ. وَکَذَلِکَ قَوْلُهُ: يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُودُونَ إِلَيْهِ حَتَّی يَعُودَ السَّهْمُ عَلَی فُوقِهِ. وَبِقَوْلِهِ: سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ يَدُلُّ عَلَی أَنَّهُ لَمْ يَتَعَلَّقْ مِنَ الْإِسْلَامِ بِشَيْءٍ.

قاضی عياض، الشفا: 842، 843

’’اور حضور ﷺ کا خوارج کے بارے میں ارشاد گرامی کہ ’’وہ بد ترین مخلوق ہیں‘‘ یہ صرف کفار کی صفت ہے۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ آسمان کے نیچے بد ترین گروہ ہیں۔ اُس شخص کے لئے خوش خبری ہے جس نے انہیں قتل کیا یا جسے انہوں نے قتل کر دیا۔‘‘ نیز آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’پس اگر تم اُنہیں پاؤ تو (اُن کے خلاف کارروائی کرکے) اُنہیں قومِ عاد کی طرح قتل کر دو۔‘‘ ان تمام ارشادات گرامی سے بظاہر خوارج کا کفر ثابت ہوتا ہے، بالخصوص جب ان کو قومِ عاد سے تشبیہ دی گئی۔ پس جو شخص ان کو کافر قرار دیتا ہے وہ اِسی ارشادِ نبوی ﷺ کے ظاہر سے دلیل اور حجت پکڑتا ہے۔ جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ خوارج کے قتل کا حکم اُن کے مسلمانوں کے خلاف خروج اور بغاوت کی وجہ سے ہے جس کی دلیل اس حدیث مبارکہ میں فی نفسہ موجود ہے کہ ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے۔‘‘ پس یہاں ان کے قتل کا حکم بطورِ حد ہے نہ کہ بوجہِ کفر؛ اور قوم عاد کا ذکر، قتل اور ان کے مباح الدم ہونے کے لئے تشبیہ کے طور پر ہے مقتول کے لئے نہیں۔ اور یہ کہ جس کے بھی قتل کا حکم دیا جاتا ہے وہ صرف اس کے کفر کی وجہ سے ہی نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد گرامی (بھی تکفیر کے قول کی دلیل) ہے کہ ’’وہ دین اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین اسلام کی طرف اس وقت تک واپس نہیں لوٹیں گے جب تک کہ تیر اپنی کمان میں واپس نہیں آجاتا۔‘‘ اور حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی ’’وہ گوبر اور خون سے آگے نکل گیا‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس شخص کا دینِ اسلام کے ساتھ کچھ بھی تعلق قائم نہ رہا۔‘‘

تکفیر خوارج سے متعلق دو معروف اَقوال پر ائمہ کے فتاويٰ

ائمہ حدیث و تفسیر اور فقہائے کرام نے خوارج کی تکفیر پر بحث و تحقیق کرتے ہوئے بالعموم دو نقطہ ہائے نظر پیش کیے ہیں اور بیشتر ائمہ نے دونوں میں سے اپنے اپنے دلائل کے مطابق کسی ایک یا دونوں کو بھی اختیار کیا ہے۔ ذیل میں ہم ان دو اقوال کی تقسیم سے متعلق علامہ ابن تیمیہ کا موقف بیان کر رہے ہیں۔ بعد ازاں بالترتیب دونوں اقوال کے مؤیدین کا الگ الگ ذکر کریں گے۔ وہ دو اقوال کیا ہیں؟ آئیے! علامہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں پہلے یہ سمجھ لیتے ہیں۔

علامہ ابن تیمیہ اپنے فتاويٰ میں لکھتے ہیں:

فَإِنَّ الْأُمَّةَ مُتَّفِقُونَ عَلٰی ذَمِّ الْخَوَارِجِ وَتَضْلِيلِهِمْ وَإِنَّمَا تَنَازَعُوا فِی تَکْفِيرِهِمْ عَلَی قَوْلَيْنِ مَشْهُورَيْنِ فِی مَذْهَبِ مَالِکٍ وَأَحْمَد. وَفِی مَذْهَبِ الشَّافِعِیِّ أَيْضًا نِزَاعٌ فِی کُفْرِهِمْ وَلِهَذَا کَانَ فِيهِمْ قَوْلاَنِ: أَحَدُهُمَا: أَنَّهُمْ کُفَّارٌ کَالْمُرْتَدِّينَ، وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ مِنْهُمْ، اُسْتُتِيبَ فَإِنْ تَابَ وَإِلَّا قُتِلَ. وَالثَّانِی: أَنَّهُمْ بُغَاةٌ (وَلَا خِلَافَ فِي جَوَازِ قَتْلِهِمْ کَمَا ذُکِرَ مِنْ قَبْلِ).

ابن تيميه، مجموع فتاوی، 28: 518

’’بے شک تمام امت محمدیہ خوارج کی مذمت کرنے اور ان کو گمراہ قرار دینے پر متفق ہے۔ البتہ ان کی تکفیر کے حوالے سے مالکیہ، حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس پر دو قول مشہور ہیں: پہلا قول یہ ہے کہ وہ مرتدین (باغیانِ دین) کی طرح کافر ہیں۔ (لہٰذا انہیں آغاز فتنہ کے وقت ہی قتل کرنا اور ان کے بھگوڑوں کا تعاقب کرنا جائز ہے۔) ان میں سے جس پر قابو پا لیا جائے اسے توبہ کرنے کے لئے کہا جائے، اگر وہ توبہ کرلے تو چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کر دیا جائے۔ قول ثانی یہ ہے کہ وہ باغی ہیں (مگر انہیں قتل کرنے کے جواز میں کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے)۔‘‘

پہلا قول: خوارج پر حکمِ تکفیر کا اِطلاق

اَئمہ اُمت کی ایک بڑی تعداد خوارج کو کافر قرار دیتی ہے۔ اس قول کے قائلین صحاح ستہ میں خوارج کے بارے میں وارد ہونے والی کثیر احادیث سے استدلال کرتے ہیں، جنہیں ہم گزشتہ صفحات میں تفصیلاً ذکر کر چکے ہیں۔ یہاں ہم اختصار کے پیش نظر صرف دو احادیث درج کرنے پر اکتفا کریں گے:

1۔ حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

يَأتِی فِی آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ، لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ قَتْلَهُمْ أَجْرٌ لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الإسلام، 3: 1321، رقم: 4315
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2: 476، رقم: 1066

’’آخری زمانہ میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو کم عقل اور ناپختہ ذہن کے ہوں گے۔ ان کی زبانوں پر قرآن و حدیث کا کلام ہوگا لیکن وہ دین اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کا ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا۔ تم انہیں جہاں بھی پاؤ (تو اُن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے انہیں) قتل کر دو کیونکہ ان کو قتل کرنے والا قیامت کے روز اجر و ثواب پائے گا۔‘‘

یہاں حضور نبی اکرم ﷺ کا انہیں قتل کر دینے کا شدید تاکیدی حکم اور اس پر اجر کا اعلان صراحتاً ان کے کفر پر دلالت کرتا ہے۔

2۔ سفیان بن عیینہ کے طریق سے ابو غالب سے مروی ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

شَرُّ قَتْلَی قُتِلُوا تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، وَخَيْرُ قَتِيلٍ مَنْ قَتَلُوا کِلَابُ أَهْلِ النَّارِ، قَدْ کَانَ هَؤُلَاءِ مُسْلِمِينَ فَصَارُوا کُفَّارًا.

ابن ماجه، السنن، المقدمة، 1: 62، رقم: 176

’’یہ خوارج آسمان کے نیچے قتل کیے جانے والوں میں بدترین مقتول ہیں اور بہترین مقتول وہ ہیں جنہیں اہل دوزخ کے (ان) کتوں نے قتل کیا۔ یہ لوگ (بغاوت اور دہشت گردی سے) پہلے مسلمان تھے مگر (اپنے اس خروج کی وجہ سے) کافر ہوگئے۔‘‘

اِس حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ انتہائی قابل غور ہیں کہ وہ خوارج پہلے مسلمان تھے لیکن بعد ازاں اپنے خود ساختہ باطل عقائد و نظریات کے باعث کافر ہوگئے۔

اسی طرح یہ ارشاد گرامی کہ ’’بے شک یہ شخص اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دین اسلام سے اس طرح خارج ہو جائیں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے‘‘ بھی صراحتاً ان کے کفر پر دلالت کرتا ہے۔

ذیل میں خوارج کے کفر کے قائل چند اَئمہ کرام کے فتاويٰ ملاحظہ کریں:

(1) امام بخاری

تمام مسالک و مذاہب کے متفقہ امام فی الحدیث امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ (م 256ھ) نے الصحيح میں باقاعدہ ترجمۃ الباب قائم کرکے خوارج کا کفر ثابت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اس مقام پر فرماتے ہیں:

جملة من العلماء الذين قالوا بتکفير الخوارج کالبخاري حيث قرنهم بالمرتدين والملحدين وأفرد عنهم المتأولين بترجمة قال فيها: باب من ترک قِتال الخوارج للتألف ولئلا ينفرَ الناسُ عنه.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 313

’’وہ تمام علماء جنہوں نے خوارج کو کافر قرار دیا ہے جس طرح امام بخاری کہ انہوں نے انہیں مرتدین اور ملحدین کے زمرے میں شمار کیا ہے اور تاویل کرنے والوں کو ایک ترجمۃ الباب کے ذریعے الگ بیان کیا ہے، جس کا عنوان رکھا ہے: ’’جس نے خوارج کے ساتھ جنگ کو ساتھ ملانے کی امید پر یا اِس لیے ترک کر دیا تاکہ لوگ اس سے دور نہ ہو جائیں۔‘‘

اس واضح تفریق سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ خوارج بلاشبہ مرتدین کی طرح کافر ہیں اور متاوّلین (یعنی تاویل کرنے والوں) کا حکم ان سے مختلف ہے۔

(2) امام ابن جریر الطبری

جلیل القدر مفسر قرآن اور مؤرّخ امام ابن جریر طبری (م310ھ) خوارج کے بارے میں بیان کرتے ہیں:

إنه لا يجوز قتال الخوارج وقتلهم إلا بعد إقامة الحجة عليهم، بدعائهم إلی الرجوع إلی الحق، والإعذار إليهم، وإلی ذلک أشار البخاري في الترجمة بالآية المذکورة فيها، واستدل به لمن قال بتکفير الخوارج، وهو مقتضی صنيع البخاري، حيث قرنهم بالملحدين، وأفرد عنهم المتأوّلين بترجمة.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 299

’’خوارج کے ساتھ جنگ اور اُن کا قتل اس وقت تک جائز نہیں جب تک انہیں حق کی طرف رجوع کرنے کی دعوت دے کر اور عذر پیش کرنے کا موقع فراہم کر کے ان پر حجت قائم نہ کر دی جائے۔ امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں اسی طرف اشارہ کیا ہے، اور اس کے ذریعے اس شخص کے لئے استدلال مہیا کیا ہے جس نے خوارج کی تکفیر کا قول اپنایا ہے۔ اور یہ امام بخاری کے اِس قول کو اختیار کرنے کا تقاضا بھی ہے کیونکہ آپ نے اُن (خوارج) کو مرتدین و ملحدین کے ساتھ ملایا ہے اور تاویل کرنے والوں کو ان سے الگ رکھا ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی امام طبری کا موقف مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

وممن جنح إلی بعض هذا البحث: الطبري في تهذيبه، فقال بعد أن سرد أحاديث الباب: فيه الردّ علی قول من قال: لا يخرج أحد من الإسلام من أهل القبلة بعد استحقاقه حکمه، إلّا بقصد الخروج منه عالماً، فإنه مبطل لقوله في الحديث: ’’يقولون الحق، ويقرؤون القرآن، ويمرقون من الإسلام، ولا يتعلقون منه بشيء.‘‘

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 300

’’اور امام طبری نے ’’تہذیب الآثار‘‘ میں اس باب کی احادیث بیان کرنے کے بعد اس قول کا ردّ کیا ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کوئی بھی شخص اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے خارج نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ وہ دانستہ طور پر اسلام سے خروج کا ارادہ کرے۔ کیوں کہ یہ تو حضور ﷺ کے اس ارشاد گرامی کو باطل قرار دینا ہے۔ حدیثِ نبوی ﷺ میں ہے: ’’وہ حق کہیں گے اور قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر اسلام سے نکل جائیں گے اور وہ اسلام کے ساتھ کچھ بھی تعلق نہ رکھتے ہوں گے۔‘‘

(3) امام محمد بن محمد الغزالی

حجۃ الاسلام امام ابو حامد محمد بن محمد الغزالی (م505ھ) اور امام رافعی بھی خوارج کے ایک گروہ کے کفر کے قائل ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے بیان کیا ہے:

وقال الغزالی فی الوسيط: تبعا لغيره فی حکم الخوارج وجهان أحدهما: أنه کحکم أهل الردة، والثانی: أنه کحکم أهل البغی، ورجح الرافعی الأول.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 285

’’اور امام غزالی نے ’’الوسیط‘‘ میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی اتباع میں خوارج کے حکم کے بارے میں دو صورتیں بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کا حکم مرتدین کے حکم کی طرح ہے؛ اور دوسری یہ کہ ان کا حکم باغیوں کے حکم کی طرح ہے اور رافعی نے پہلی صورت کو ترجیح دی ہے۔‘‘

(4) قاضی ابو بکر بن العربی المالکی

قاضی ابو بکر محمد بن عبد اللہ بن العربی الاندلسی المالکی (م543ھ) کا شمار اندلس کے نام ور ائمہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے امام غزالی جیسے اجل علماء سے علم حاصل کیا۔ قاضی ابو بکر بن العربی نے عارضۃ الاحوذی کے نام سے جامع الترمذی کی شرح لکھی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی بیان کرتے ہیں کہ آپ بھی خوارج کی تکفیر کے قائل تھے:

وَبِذَلِکَ صَرَّحَ الْقَاضِی أَبُو بَکْر بْن الْعَرَبِیّ فِی شَرْح التِّرْمِذِیّ فَقَالَ: الصحيح أَنَّهُمْ کُفَّار لِقَوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم: ’’يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَام‘‘ وَلِقَوْلِهِ: ’’لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْل عَاد‘‘، وَفِی لَفْظ ’’قَتْل ثَمُود‘‘، وَکُلّ مِنْهُمَا إِنَّمَا هَلَکَ بِالْکُفْرِ، وَبِقَوْلِهِ: ’’هُمْ شَرُّ الْخَلْق‘‘ وَلَا يُوصَف بِذَلِکَ إِلَّا الْکُفَّار، وَلِقَوْلِهِ: ’’إِنَّهُمْ أَبْغَضُ الْخَلْق إِلَی الله تَعَالَی‘‘، وَلِحُکْمِهِمْ عَلَی کُلّ مَنْ خَالَفَ مُعْتَقَدهمْ بِالْکُفْرِ وَالتَّخْلِيد فِی النَّار فَکَانُوا هُمْ أَحَقَّ بِالِاسْمِ مِنْهُمْ.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 299

’’اس کے بارے میں قاضی ابوبکر بن عربی نے ترمذی کی شرح میں تصریح کی ہے۔ آپ نے فرمایا: صحیح یہ ہے کہ بے شک وہ (خوارج) ارشادات نبوی کی بناء پر کافر ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ’’وہ دینِ اسلام سے نکل جائیں گے۔‘‘ نیز ان کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں انہیں ضرور بالضرور قتل عاد کی طرح قتل کردیتا۔‘‘ اور ایک روایت میں ’’قتلِ عاد‘‘ کی جگہ ’’قتلِ ثمود‘‘ کے الفاظ ہیں۔ اور قومِ عاد و ثمود دونوں میں سے ہر ایک قوم کفر کی وجہ سے ہی ہلاک ہوئی۔ اور حضور نبی اکرم ﷺ کے اِس ارشادِ گرامی ’’وہ تمام مخلوق میں بد ترین لوگ ہیں‘‘ کی وجہ سے بھی خوارج کافر ہیں کہ اِس صفت سے صرف کافروں کو موصوف کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’یقینا وہ (خوارج) الله تبارک و تعاليٰ کے ہاں مبغوض ترین لوگ ہیں۔‘‘ مذکورہ بالا ارشادتِ نبوی ﷺ کے ساتھ ساتھ وہ اِس بناء پر بھی کافر ہیں کہ اُنہوں نے ہر اُس شخص پر کفر اور دائمی جہنمی ہونے کا حکم لگایا جس نے بھی ان کے اعتقادات کی مخالفت کی۔ لہٰذا دوسروں کی نسبت وہ خوارج خود کافر کا نام (title) دیے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔‘‘

(5) قاضی عیاض المالکی

حضور نبی اکرم ﷺ کے فضائل و مناقب کے بیان پر مشتمل اپنی نوعیت کی منفرد اور مقبول و ثقہ ترین کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفی ﷺ کے مصنف قاضی عیاض الیحصبی المالکی (م544ھ) کا شمار بھی ان ائمہ کرام میں ہوتا ہے جو خوارج کی تکفیر کے قائل تھے۔ آپ صحیح مسلم کی شرح اکمال المعلم بفوائد مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کے ضمن میں مِنْ اور فِي کے الفاظ پر بحث کرتے ہوئے خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں:

قال بعض شيوخنا: قال أبو سعيد الخدری رضی الله عنه: سمعت رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم يقول: ’’يخرج فی هذه الأمة . ولم يقل منها. قوم تحقِرون صلاتکم مع صلاتهم.‘‘ قال الإمام (المازری ونقله النووی أيضا) هذا من أدل الشواهد علی سعة فقه الصحابة رضی الله عنهم وتحريرهم الألفاظ وفرقهم بين مدلولاتها الخفية، لأن لفظة من تقتضی کونهم من الأمة لا کفارا بخلاف فی، وفی تنبيه الخدری علی التفريق بين ’’فی‘‘ و ’’من‘‘ إشارة حسنة إلی القول بتکفير الخوارج لأنه أفهم بأنه لما لم يقل منها، دل علی أنهم ليسوا من أمة محمد (صلی الله عليه وآله وسلم) وإن کان قد روی أبو ذر بعد هذا فقال: قال (صلی الله عليه وآله وسلم): ’’إن من بعدی من أمتی، أو سيکون من بعدی من أمتی‘‘ . وفی رواية علي رضی الله عنه: ’’يخرج من أمتي.‘‘

قاضی عياض، إکمال المعلم بفوائد مسلم، 3: 612

’’ہمارے بعض مشائخ نے فرمایا ہے: ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کہ انہوں نے رسول الله ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ’’اس امت میں ۔ اور یہ نہیں فرمایا کہ اِس اُمت سے ۔ ایک قوم ظاہر ہوگی کہ تم اپنی نمازوں کو ان کی نمازوں کے مقابلے میں حقیر سمجھو گے۔‘‘ امام (مازری) نے کہا (جسے امام نووی نے بھی نقل کیا ہے): یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فقہی وسعتوں، الفاظ کے چناؤ اور الفاظ کے مدلولاتِ خفیہ کے درمیان فرق و امتیاز کرنے کی صلاحیتوں پر دلالت کرنے والے شواہد میں سے اعليٰ ترین دلیل ہے۔ کیونکہ مِنْ کا لفظ ان خوارج کے اس امت میں سے ہونے کا تقاضا کرتا ہے، اُن کے کافر ہونے کا نہیں؛ بخلاف فِيْ کے (کہ کلمہ فِيْ میں خوارج کے اس امت کا حصہ ہونے کا تقاضا موجود نہیں)۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے فِيْ اور مِنْ کے درمیان فرق پر تنبیہ کرنے میں خوارج کو کافر قرار دینے کے قول کی طرف اچھا اشارہ ہے کہ آپ نے یہ بات سمجھا دی کہ حضور ﷺ نے ’’مِنْھَا‘‘ نہیں فرمایا۔ یہ نکتہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ خوارج امت محمدیہ میں شامل نہیں رہے تھے (بلکہ امتِ محمدیہ سے بالکل خارج ہو گئے تھے)۔ اگرچہ اس کے بعد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک میرے بعد میری امت سے یا عنقریب میرے بعد میری امت سے (ایک قوم نکلے گی)‘‘ اور روایت علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں کہ میری اُمت سے (ایک قوم) نکلے گی۔‘‘

سو دونوں روایتوں میں حافظ ابن حجر عسقلانی نے بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

ويجمع بينه وبين حديث أبی سعيد بأن المراد بالأمة فی حديث أبی سعيد أمة الإجابة، وفی رواية غيره أمة الدعوة.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 289

’’اس روایت اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کو اس طرح جمع کیا جائے گا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں امت سے مراد امتِ اجابت ہے اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں امت سے مراد امتِ دعوت ہے۔‘‘

یاد رہے کہ امتِ اجابت سے مراد امتِ مسلمہ ہے جبکہ امتِ دعوت کا اطلاق جمیع عالمِ انسانیت پر ہوتا ہے جس کی طرف حضور نبی اکرم ﷺ دعوت لے کر مبعوث ہوئے خواہ انہوں نے آپ ﷺ کا کلمہ پڑھا یا نہ پڑھا۔ اسی نکتہ کی تصریح حافظ عسقلانی سے پہلے امام نووی بھی کر چکے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:

فيه إشارة من أبی سعيد إلی تکفير الخوارج وأنهم من غير هذه الأمة، وفی حديث الخوارج من أخباره عليه السلام عن الغيوب ما يعظم موقعه، منها: إشارته (صلی الله عليه وآله وسلم) إلی ما يکون بعده من إختلاف الأمة فی تکفيرهم.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 289

’’اس حدیث میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرف سے خوارج کی تکفیر کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ خوارج اس امت مسلمہ میں شامل نہیں ہیں۔ نیز خوارج کے بارے میں وارد حدیث میں آپ ﷺ کا غیب کی خبریں دینا بھی موجود ہے۔ اور اُن غیب کی خبروں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعد میں خوارج کو کافر قرار دینے میں بھی اُمت میں اختلاف ہوگا۔‘‘

(6) امام ابو العباس القرطبی

امام ضیاء الدین ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم الانصاری القرطبی المالکی (م656ھ) کا شمار قرطبہ کے معروف ائمہ میں ہوتا ہے۔ آپ نے کثیر کتب تصنیف کیں، جن میں صحیح مسلم کی شرح المفھم لما اشکل من تلخیص کتاب مسلم کے نام سے تالیف کی ہے۔ اِسی شرح میں آپ خوارج کے کفر کے بارے میں فرماتے ہیں:

قول القائل فی قسمة النبی صلی الله عليه وآله وسلم: ’’هذه قسمة ما أريد بها وجه الله، أو: ما عدل فيها‘‘؛ قول جاهل بحال النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، غليظ الطبع، حريص، منافق. وکان حقه أن يُقتل؛ لأنه آذی رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، وقد قال الله تعالی: ﴿وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ﴾(1)، فالعذاب فی الدنيا هو: القتل، لکن لم يقتله النبی صلی الله عليه وآله وسلم للمعنی الذی قاله، وهو من حديث جابر: ’’لا يتحدّث الناس: أن محمدًا يقتل أصحابه‘‘، ولهذه العلة امتنع النبی صلی الله عليه وآله وسلم من قتل المنافقين، مع علمه بأعيان کثير منهم، وبنفاقهم. وقد أُمِنت تلک العلة بعد رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، فلا نفاق بعده، وإنما هو الزندقة، وهذا هو الحق والصواب.(2)

(1) التوبة، 9: 61
(2) قرطبی، المفهم، 3: 107

’’حضورنبی اکرم ﷺ کے مالِ غنیمت تقسیم فرمانے کے بارے میں اعتراض کرنے والے کا یہ قول کہ ’’یہ تقسیم ایسی ہے جس سے الله کی رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا،‘‘ یا یہ کہ ’’آپ ﷺ نے اس میں عدل نہیں کیا‘‘ آپ ﷺ کی شانِ اقدس سے ناواقف اور بے خبر گستاخ شخص کا قول ہے جو غلیظ الطبع، لالچی اور منافق تھا۔ وہ مستحق تھا کہ اُسے قتل کر دیا جاتا کیونکہ اس نے رسول الله ﷺ کو اذیت پہنچائی تھی۔ الله رب العزت کا ارشاد ہے: (اور جو لوگ رسول اللہ ( ﷺ ) کو (اپنی بد عقیدگی، بد گمانی اور بدزبانی کے ذریعے) اذیت پہنچاتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے)۔ پس اُن کے لئے دنیا میں عذاب تو اُن کا قتل ہے لیکن حضورنبی اکرم ﷺ نے ایک خاص وجہ سے اسے قتل کرنے کا حکم نہیں فرمایا جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے: ’’تاکہ لوگ باتیں نہ کرتے پھریں کہ محمد ﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کر دیتے ہیں۔‘‘ اور اسی سبب سے آپ ﷺ منافقین کو قتل کرنے سے بھی رُکے رہے (کیونکہ یہ اسلام کا اوائل دور تھا)، حالانکہ آپ ﷺ ان کی شخصیات اور ان کے نفاق کو خوب جانتے تھے اور یہ علت رسول الله ﷺ کے بعد اس لئے ختم ہوگئی کہ آپ ﷺ کے بعد نفاق نہیں رہا (جو منافق رہے وہ کافر کہلائے)؛ البتہ یہ بے دینی ہے اور گمراہی ہے۔ یہی موقف درست ہے۔‘‘

قرآن حکیم کی صریح نص کے بموجب حضور نبی اکرم ﷺ کو اذیت دینا کافرانہ فعل ہے۔ ائمہ کرام کا ایک طبقہ اِسی بناء پر خوارج کے کافر ہونے کا قائل ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس میں امام ابو العباس القرطبی نے بھی اپنا استدلال اِسی اساس پر قائم کیا ہے۔

امام ابو العباس القرطبی خوارج کے کفر کو مزید واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

قوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’لئن أدرکتهم لأقتلنهم قتل عاد‘‘، وفی الأخری: ’’قتل ثمود‘‘، ومعنی هذا: لئن أدرکهم ليقتلنهم قتلاً عامًا؛ بحيث لا يبقی منهم أحدًا فی وقت واحد، لا يؤخر قتل بعضهم عن بعض، ولا يقيل أحدًا منهم، کما فعل الله بعاد؛ حيث أهلکهم بالريح العقيم، وبثمود حيث أهلکهم بالصيحة. قلت: ومقصود هذا التمثيل: أن هذه الطائفة خرجت من دين الإسلام، ولم يتعلَّق بها منه شیء، کما خرج هذا السهم من هذه المرمية، الذی لشدَّة النزع، وسرعة السهم، سبق خروجُه خروج الدم، بحيث لا يتعلق به شیء ظاهر، کما قال: سبق الفرث والدم. وبظاهر هذا التشبيه تمسّک من حکم بتکفيرهم من أئمتنا، وقد توقف فی تکفيرهم کثير من العلماء لقوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’فيتماری فی الفوق‘‘، وهذا يقضی بأنه يشک فی أمرهم فيتوقف فيهم، وکأن القول الأول أی بالتکفير، أظهر من الحديث.

(2) قرطبی، المفهم، 3: 110

’’حضورنبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اگر میں انہیں پالوں تو ضرور بالضرور قومِ عاد کی طرح قتل کر کے ان کا کلی خاتمہ کر دوں۔‘‘ اور دوسری روایت میں ’’قومِ ثمود کی طرح قتل‘‘ کرنے کے الفاظ ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر آپ ﷺ انہیں پالیتے تو ہر صورت ان کا قتلِ عام فرماتے کہ ایک وقت میں ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑتے۔ ان میں سے کسی کے قتل کو مؤخر فرماتے نہ ان میں سے کسی کو مہلت دیتے جیسا کہ الله رب العزت نے قوم عاد کے ساتھ کیا کہ انہیں شدید ہوا کے ذریعے ہلاک کردیا اور قومِ ثمود کو سخت آواز کے ذریعے تباہ و برباد کردیا۔ میں کہتا ہوں: اس تمثیل کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ گروہ خوارج دینِ اسلام سے خارج ہو گیا اور اس کے ساتھ دینِ اسلام میں سے کسی چیز کا بھی کوئی تعلق باقی نہ رہا جس طرح تیر اپنے شکار سے نکل گیا۔ اس کے نکلنے کی شدت اور سرعت ایسی تھی کہ اس کا خروج (باہر نکلنا) خون کے نکلنے پر اس طرح سبقت لے گیا کہ اس تیر پر کوئی چیز ظاہراً لگی نہ رہی، جیسا کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ تیر گوبر اور خون پر سبقت لے گیا۔‘‘ اور ہمارے ائمہ کرام میں سے جس نے خوارج پر کفر کا حکم لگایا ہے اس نے اس تشبیہ کے ظاہر سے دلیل پکڑی ہے۔ اور بہت سے علماء نے حضور ﷺ کے اس ارشادِ گرامی ۔ فیتماری في الفوق ۔ کی وجہ سے انہیں کافر قرار دینے میں توقف اختیار کیا ہے کہ یہ ان کے بارے میں شک کا تقاضا کرتا ہے، اس لئے ان کی تکفیر کے بارے میں توقف اختیار کیا جائے گا۔ مگر حدیث کی رُو سے پہلا قول ۔ یعنی ان کے کافر ہونے کا قول ۔ سب سے ظاہر اور واضح ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی امام ابو العباس القرطبی کے حوالے سے فرماتے ہیں:

يؤيّد القول بتکفيرهم التمثيل المذکور في حديث أبي سعيد، فإن ظاهر مقصوده أنهم خرجوا من الإسلام، ولم يتعلقوا منه بشيء، کما خرج السهم من الرمية لسرعته وقوة راميه، بحيث لم يتعلق من الرمية بشيء.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 300

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں مذکورہ تمثیل خوارج کی تکفیر کے قول کی تائید کرتی ہے کیونکہ اس حدیث میں حضور ﷺ کا ظاہری مقصود یہی ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہوگئے اور ان کا اسلام کے ساتھ کچھ بھی تعلق باقی نہ رہا جیسا کہ تیر اپنی سرعت اور پھینکنے والے کی قوت کی وجہ سے شکار سے اس تیزی سے پار نکل گیا کہ شکار (کے خون وغیرہ) سے اس پر کچھ نہ لگ سکا۔‘‘

(7) علامہ ابن تیمیہ

علامہ ابن تیمیہ (م728ھ) خوارج کے کفر کے قائل ہیں۔ آپ خوارج کے ظہور، عقائد و نظریات، ان کے ظاہری تدیّن و تشرع، ان کے خروج عن الدین اور ان سے قتال کے حکم پر لکھتے ہیں:

والمقصود هنا أن الخوارج ظهروا في الفتنة، وکفروا عثمان وعليا رضي الله عنهما ومن والاهما. . . . وکانوا کما وصفهم النبي صلی الله عليه وآله وسلم . يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان. وکانوا أعظم الناس صلاةً وصيامًا وقراء ةً کما قال النبي صلی الله عليه وآله وسلم: يحقُرُ أحدُکُم صلاته مع صلاتِهِم، وصيامَهُ مع صِيَامِهِم، وقراء تَهُ مع قراء تِهِم، يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم؛ يمرقون من الإسلام کما يمرق السهم من الرمية. ومروقهم منه خروجهم باستحلالهم دماء المسلمين وأموالهم. فإنه قد ثبت عنه في الصحيح أنه قال: المُسْلِمُ مَن سَلِمَ المُسْلِمُون مِن لِسَانِه وَيَدِهِ. . . . وهم بسطوا في المسلمين أيديهم وألسنتهم فخرجوا منه (أي من الإسلام).

ابن تيمية، النبوات: 225

’’یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خوارج کا ظہور (مسلمانوں کو کافر سمجھنے اور ان کے خون کو حلال جاننے کے) فتنہ سے ہوا۔ ان خارجیوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اَحباب پر کفر کا فتويٰ لگایا۔ ۔ ۔ ۔ ان میں وہ اَوصاف من و عن پائے جاتے تھے جو حضور نبی اکرم ﷺ نے ان کے بارے میں بیان فرمائے تھے۔ وہ مسلمانوں سے جنگ کرتے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیتے۔ (بظاہر) وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر نمازی، روزے دار اور (خوش اِلحانی سے) تلاوتِ قرآن کرنے والے تھے۔ جیسا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے (ان کے بارے میں مزید) فرمایا: تم (صحابہ) میں سے ہر کوئی اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلے میں، اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں اور اپنی تلاوت کو ان کی تلاوت کے مقابلے میں حقیر جانے گا۔ وہ (روانی سے) قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے خون / جان و مال کو حلال قرار دینے سے ہی دین سے باہر نکل گئے۔ احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘ ۔ ۔ ۔ اور انہوں نے چونکہ مسلمانوں پر (مسلح بغاوت کی صورت میں) دست درازی کی اور (ان کی تکفیر کی صورت میں) زبان درازی کی؛ اس وجہ سے وہ دینِ اسلام سے خارج ہوگئے۔‘‘

(8) امام تقی الدین السبکی

امام تقی الدین ابو الحسن علی بن عبد الکافی السبکی (م756ھ) کا شمار اَجل ائمہ و محققین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کے بیان پر مشتمل احادیث و آثار کا معروف مجموعہ شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام ﷺ کے نام سے ترتیب دیا۔ آپ نے اپنے فتاوی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو کافر قرار دینے کی بنیاد پر اپنا استدلال قائم کرتے ہوئے خوارج کو کافر قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:

وَمِمَّنْ جَنَحَ إِلَی ذَلِکَ مِنْ أَئِمَّة الْمُتَأَخِّرِينَ الشَّيْخ تَقِیّ الدِّين السُّبْکِیّ فَقَالَ فِی فَتَاوِيه: اِحْتَجَّ مَنْ کَفَّرَ الْخَوَارِج وَغُلَاة الرَّوَافِض بِتَکْفِيرِهِمْ أَعْلَام الصَّحَابَة لِتَضَمُّنِهِ تَکْذِيب النَّبِیّ صَلَّی اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِی شَهَادَته لَهُمْ بِالْجَنَّةِ، قَالَ: وَهُوَ عِنْدِی اِحْتِجَاج صَحِيح.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 299، 300

’’اور وہ ائمہ متاخرین جنہوں نے خوارج کے کافر ہونے کا قول اختیار کیا ان میں امام سبکی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہیں۔ پس آپ نے فتاويٰ میں فرمایا: ’’جن لوگوں نے خوارج اور غالی روافض کو کافر قرار دیا انہوں نے ان کے کفر کے لئے اس بات کو دلیل اور حجت بنایا کہ ان لوگوں نے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیا۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دینا حضورنبی اکرم ﷺ کی تکذیب کے مترادف ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے جنت کی بشارت دی تھی۔ امام تقی الدین السبکی نے فرمایا: میرے نزدیک (خوارج کے کافر ہونے پر) یہ دلیل پکڑنا بالکل صحیح اور درست ہے۔‘‘

یہاں یہ نکتہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ’’خارجی (ثابت) ہونے کے لیے اَصلاً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر ضروری نہیں۔‘‘ تکفیرِ صحابہ کو خوارج کے صرف اُس پہلے گروہ نے اختیار کیا تھا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خروج کیا۔ اس کی تصریح ابن عابدین شامی نے یوں کی ہے:

ويکفرون أصحاب نبينا صلی الله عليه وآله وسلم ، علمت أن هذا غير شرط فی مسمی الخوارج، بل هو بيان لمن خرجوا علی سيدنا علی رضی الله عنه، وإلا فيکفی فيهم اعتقادهم کفر من خرجوا عليه.

ابن عابدين شامی، رد المحتار، باب البغاة، 4: 262

’’اور یہ (خوارج) ہمارے نبی مکرم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں۔ اور میرے علم کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر خارجی ہونے کے لیے شرط نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا بیان ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تھی، وگرنہ ان کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہی کافی ہے کہ جس کے خلاف بغاوت کریں اسے کافر جانیں۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانوں کے خوارج تکفیر صحابہ نہ بھی کریں تو عامۃ المسلمین کو کافر قرار دینے اور دیگر علامات کی وجہ سے خوارج کہلاتے ہیں۔

(9) امام شاطبی المالکی

امام شاطبی (م790ھ) خوارج کے بارے میں اپنا موقف یوں واضح کرتے ہیں:

ألا تری أن الخوارج کيف خرجوا عن الدين کما يخرج السهم من الصيد المرمی؟ لأن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم وصفهم بأنهم يقرأون القرآن لا يجاوز تراقيهم، أنهم لا يتفقهون به حتی يصل إلی قلوبهم. . . . فإنه إذا عرف الرجل فيما نزلت الآية، أو السورة عرف مخرجها وتأويلها وما قصد بها، . . . وإذا جهل فيما أنزلت احتمل النظر فيها أوجها. . . . وليس عندهم من الرسوخ في العلم، ما يهديهم إلی الصواب أو يقف بهم دون اقتحام حمی المشکلات. فلم يکن بد من الأخذ ببادی الرأي أو التأويل بالتخرص الذي لا يغني من الحق شيئا إذ لا دليل عليه من الشريعة فضلوا وأضلوا.

ومما يوضح ذلک ما خرجه ابن وهب عن بکير أنه سأل نافعا: کيف رأی ابن عمر في الحرورية؟ قال: يراهم شرار خلق الله، إنهم انطلقوا إلی آيات أنزلت في الکفار فجعلوها علی المؤمنين. فسر سعيد بن جبير من ذالک، فقال: مما يتبع الحرورية من المتشابه قول الله تعالی: ﴿وَمَنْ لَّمْ يَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللهُ فَاُولٰئِکَ هُمُ الْکٰفِرُوْنَ﴾.(1) ويقرنون معها: ﴿ثُمَّ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُوْنَ﴾.(2) رأو الإمام يحکم بغير الحق. قالوا: قد کفر ومن کفر عدل بربه فقد أشرک فهذه الأمة مشرکون، فيخرجون، فيقتلون، ما رأيت لأنهم يتأولون هذه الآية. فهذا معنی الرأي الذي نبه عليه ابن عباس وهو الناشئ عن الجهل بالمعنی الذي نزل فيه القرآن. وقال نافع: إن ابن عمر کان إذا سئل عن الحرورية، قال: يکفرون المسلمين ويستحلون دماء هم وأموالهم.(3)

(1) المائدة، 5: 44
(2) الأنعام، 6: 1
(3) شاطبي، الاعتصام، 4: 182. 184

’’کیا آپ نہیں دیکھتے کہ خوارج دین سے کیسے خارج ہو گئے جیسے تیر اپنے شکار سے باہر نکل جاتا ہے کیونکہ رسول الله ﷺ نے خود ان کا وصف بیان فرمایا کہ وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر وہ قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ وہ اس قرآن کی تلاوت کے ذریعے دین میں تفقہ اور سمجھ بوجھ حاصل نہیں کرتے تاکہ قرآن ان کے دل و دماغ تک پہنچ جائے۔ ۔ ۔ ۔ جب انسان (قرآنی علم اور تفقہ کے ذریعے) آیت اور سورت کا شانِ نزول جان لیتا ہے تو اسے اس کا مخرج، تاویل اور مقصود بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر جب وہ شخص آیات کے شانِ نزول سے ہی ناواقف ہو تو اس آیت یا سورۃ میں غور و فکر کرنا اس کے لئے کئی توجیہات کا امکان پیدا کر دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ وہ لوگ (خوارج) علم میں اتنے راسخ نہیں ہوتے کہ علمی رسوخ انہیں درست سمت میں لے جائے یا انہیں مشکلات میں پھنسنے سے بچا لے۔ پس پھر ان کے پاس بادی الرائے یا من گھڑت تاویل کے سوا چارہ نہیں ہوتا جو حق سے کسی بات کا اسے فائدہ نہیں دیتی کیونکہ اس پر شریعت میں سے کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ پس وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

’’اور اس مسئلہ کی وضاحت وہ حدیث کرتی ہے جس کو ابن وہب نے بکیر سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے حضرت نافع سے پوچھا کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ انہوں نے فرمایا: آپ رضی اللہ عنہ انہیں بدترین مخلوق گردانتے تھے کیوں کہ انہوں نے ان آیات کو جو کفار کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، مومنین پر چسپاں کر دیا۔ حضرت سعید بن جبیر نے اس کی وضاحت کی اور فرمایا: اور ان متشابہ آیات میں سے جن کی پیروی (کا دعويٰ) حروریہ (خوارج) کرتے ہیں، ایک آیت یہ بھی ہے: (اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیںo)۔ اور اس کے ساتھ یہ آیت بھی ملاتے ہیں: (پھر وہ کافر لوگ (معبودانِ باطلہ کو) اپنے رب کے برابر ٹھہراتے ہیں)۔ انہوں نے حاکمِ وقت کو دیکھا کہ وہ حق کے مطابق حکومت نہیں کر رہا ہے تو انہوں نے کہا: اس نے کفر کیا ہے اور جس نے کفر کا ارتکاب کیا اس نے اپنے رب سے منہ موڑ لیا اور شرک کیا۔ پس (ان کے نزدیک ان کے سوا) پوری امت مشرک قرار پائی۔ پھر وہ مسلح بغاوت اور خروج کا راستہ اختیار کرتے ہیں اور ساری اُمت کو قتل کرتے پھرتے ہیں کیونکہ وہ اس آیت کی من مانی تاویل کرتے ہیں۔ پس یہ اس رائے کا معنی ہے جس پر حضرت ابن عباس نے متنبہ کیا تھا اور یہ قرآن کے ان معانی سے ناواقفیت کی بنا پر ہے جن کے لئے قرآن نازل ہوا۔ حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب حروریہ (خوارج) کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے: یہ مسلمانوں کو کافر گردانتے ہیں اور ان کے خون اور اموال کو حلال قرار دیتے ہیں۔‘‘

(10) امام ابن البزاز الکردری الحنفی

نویں صدی ہجری کے معروف حنفی امام حافظ الدین ابن البزاز الکردری (م827ھ) خوارج کے کفر پر درج ذیل فتويٰ دیتے ہیں:

يجب إکفار الخوارج في إکفارهم جميع الأمة سواهم.

ابن البزاز، الفتاوٰی البزازية علی هامش الفتاوٰی العالمگيرية، 6: 318

’’خارجیوں کو کافر کہنا واجب ہے اس لیے کہ وہ اپنے سوا تمام امت مسلمہ کو کافر کہتے ہیں۔‘‘

(11) امام بدر الدین العینی الحنفی

خوارج کے بارے میں امام بخاری کی روایت کردہ حدیث کی شرح میں خوارج کے کفر کا استدلال کرتے ہوئے امام بدر الدین عینی (م855ھ) عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں:

قوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’يمرقون من الدين‘‘، من المروق وهو الخروج. يقال: مرق من الدين مروقا خرج منه ببدعته وضلالته. وفی رواية سويد بن غفلة عند النسائی والطبری: ’’يمرقون من الإسلام.‘‘

عينی، عمدة القاری، 24: 84، 86

’’حضورنبی اکرم ﷺ کا ارشادِ گرامی يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ، اَلْمَرُوْقَ سے ہے اور اِس سے مراد اَلْخرُوْج (یعنی مسلح جد و جہد اور بغاوت) ہی ہے۔ لغت میں کہا جاتا ہے: مَرَقَ مِنَ الدِّيْنِ مَرُوْقًا أَيْ خَرَجَ مِنْهِ بِبِدْعَتِهِ وَضَلَالَتِهِ (مروق من الدین کا معنی ہے: وہ اپنی بدعت و گمراہی کی وجہ سے دین سے خارج ہو گیا)۔‘‘

(12) امام احمد بن محمد القسطلانی

امام ابو العباس احمد بن محمد القسطلانی رحمۃ اللہ علیہ (م923ھ) خوارج کے بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت کردہ حدیث کی شرح میں خوارج کا کفر یوں واضح کرتے ہیں:

’’يخرج فی هذه الأمة‘‘ المحمدية، ولم يقل ’’منها‘‘ فيه ضبط للرواية وتحرير لمواقع الألفاظ وإشعار بأنهم ليسوا من هذه الأمة. فظاهره أنه يری إکفارهم لکن فی مسلم من حديث أبی ذر: ’’سيکون بعدی من أمتی قوم‘‘ فيجمع بينه وبين حديث أبی سعيد بأن المراد فی حديث أبی سعيد بالأمة أمة الاجابة، وفي غيره أمة الدعوة.

قسطلانی، إرشاد الساری، 10: 85، 86

’’(آپ ﷺ نے فرمایا: ) ’’اِس اُمت (محمدیہ) میں نکلیں گے،‘‘ یہ نہیں فرمایا: ’’اِس اُمت سے نکلیں گے۔‘‘ اِس کے اِستعمال میں ضبط روایت بھی ہے اور الفاظ کو مناسب اور موزوں مواقع پر تحریر کرنے کی دلیل بھی۔ نیز اس بات کا شعور دلانا بھی مقصود ہے کہ مسلح بغاوت کرنے والے لوگ اس امت محمدیہ علی صاحبھا الصلواۃ والسلام میں سے نہیں ہیں۔ پس اس حدیث کا ظاہر تو یہ ہے کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ان باغی دہشت گردوں کو کافر قرار دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ لیکن صحیح مسلم میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں سَيَکُوْنُ بَعْدِيْ مِنْ أُمَّتِيْ قَوْمٌ میں فِيْ کی بجائے مِنْ استعمال کیا گیا ہے تو اس حدیث اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے درمیان اِس طرح تطبیق کی جائے گی کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ’’امت‘‘ سے مراد امت اجابت ہے جبکہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں امت سے مراد امت دعوت ہے۔‘‘

سو کلمۂ ’’مِنْ‘‘ کے ساتھ وارد ہونے والی روایات کا خوارج کے خارج اَز اسلام ہونے سے کوئی تعارض نہیں رہتا۔

(13) ملا علی القاری

ملا علی قاری (م1014ھ) مشکاۃ المصابیح کی شرح مرقاۃ المفاتیح میں خوارج کے بارے میں لکھتے ہیں:

ويحتمل أن يقال لهم شبه بأهل الحق لغلوهم فی تکفير أهل المعصية، ولکنهم أهل الباطل لمخالفتهم الإجماع.

ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 7: 107

’’اور اِس اَمر کا احتمال ہے کہ گنہگاروں کی تکفیر میں غلو اور شدت کے باعث (ان کی ظاہری دین داری سے دھوکہ کھا کر) کوئی شخص انہیں اہلِ حق میں شمار کرنے لگے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِجماعِ اُمت کی مخالفت کے سبب خوارج کا شمار اہل باطل میں ہی ہوتا ہے۔‘‘

(14) شیح عبد الحق محدث دہلوی

امام الہند حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (م1052ھ) مشکاۃ المصابیح کی شرح اشعۃ اللمعات میں خوارج کے بارے میں لکھتے ہیں:

پس بدرستی کہ در کشتن ایشان مزد و ثواب ست، ہر کسے را کہ بکشد ایشان را تا روز قیامت۔ مراد خوارج اند و قصۂ خروج ایشان از طاعت امام و کشتن امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ایشان را مشہور ست و مذہب ایشان آنست کہ بندہ بارتکاب کبیرہ بلکہ صغیرہ ہم کافر گردد۔

شيخ عبد الحق محدث دهلوی، اشعة اللمعات، 3: 254

’’درست موقف یہی ہے کہ قیامت تک ہر دور میں (ریاستی سطح پر) خوارج (کے خلاف کارروائی کرکے ان) کو قتل کرنے میں اجر و ثواب ہے۔ احادیث میں اس جماعت سے مراد خوارج ہیں۔ ان کے مسلم ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرکے اور اُس کی نظم سے نکل جانے اور امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا ریاستی سطح پر ان سے قتال کرکے انہیں ختم کرنے کا واقعہ مشہور ہے۔ ان خوارج کا مذہب یہ ہے کہ انسان نہ صرف گناہ کبیرہ بلکہ گناہ صغیرہ کے ارتکاب سے بھی کافر ہوجاتا ہے۔‘‘

(15) شاہ عبد العزیز محدث دہلوی

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (م1229ھ) تکفیرِ خوارج کو متفق علیہ قرار دیتے ہیں:

محارب حضرت مرتضٰی اگر از راہ عداوت وبغض ست نزد علماء اہل سنت کافر است بالاجماع، وہمیں ست مذہب ایشاں در حق خوارج۔

عبد العزيز محدث دهلوی، تحفه اثنا عشرية: 795

’’حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے جنگ کرنے والا اگر ان سے عداوت و بغض کی وجہ سے کرتاہے تو اہلِ سنت کے نزدیک بالاجماع وہ کافر ہے؛ اور خوارج سے متعلق ان کا مذہب بھی یہی ہے۔‘‘

(16) امام ابن عابدین شامی

فقہ حنفی کے معروف امام ابن عابدین شامی (م1306ھ) ردّ المحتار میں لکھتے ہیں:

ويکفرون أصحاب نبينا صلی الله عليه وآله وسلم ، علمت أن هذا غير شرط فی مسمی الخوارج، بل هو بيان لمن خرجوا علی سيدنا علی رضی الله عنه، وإلا فيکفی فيهم اعتقادهم کفر من خرجوا عليه. . . . حکم الخوارج عند جمهور الفقهاء والمحدثين حکم البغاة، وذهب بعض المحدثين إلی کفرهم.

ابن عابدين شامی، رد المحتار، باب البغاة، 4: 262

’’اور یہ (خوارج) ہمارے نبی مکرم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے ہیں۔ اور میرے علم کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر خارجی ہونے کے لیے شرط نہیں بلکہ یہ ان لوگوں کا بیان ہے جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کی تھی، وگرنہ ان کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہی کافی ہے کہ جس کے خلاف بغاوت کریں اسے کافر جانیں۔۔ ۔ ۔ جمہور فقہاء اور محدثین کے نزدیک خوارج پر باغیوں کا حکم صادر ہوگا، جب کہ بعض محدثین نے ان پر کفر کا فتويٰ بھی لگایا ہے۔‘‘

(17) علامہ عبد الرحمان مبارک پوری

برصغیر کے معروف عالم دین علامہ عبد الرحمان مبارک پوری (م1353ھ) بھی خوارج کو اہل بدعت اور باغی قرار دیتے ہیں۔ تحفۃ الاحوذی میں محدثین کے ایک گروہ کا خوارج کے کافر ہونے کا قول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’إنما هم الخوارج‘‘ جمع خارجة وهم قوم مبتدعون، سموا بذلک لخروجهم عن الدين وخروجهم علی خيار المسلمين. وممن ذهب إلی تکفيرهم أيضا الحسن بن محمد بن علی. ورواية عن الإمام الشافعی ورواية عن الإمام مالک وطائفة من أهل الحديث.

مبارک پوری، تحفة الأحوذی، 6: 354

’’بے شک وہ خوارج ہیں جو خَارجَۃ کی جمع ہے۔ اور یہ اہل بدعت لوگ تھے، ان کے دینِ اسلام سے خروج اور بہترین مسلمانوں (یعنی صحابہ کرام و تابعین عظام رضی اللہ عنہم) کے خلاف مسلح بغاوت اور دہشت گردی کی راہ اختیار کرنے کی وجہ سے ان کا یہ نام (خوارج) رکھا گیا۔ اور ان لوگوں میں ۔ جو ان خوارج کو کافر قرار دیتے ہیں ۔ حسن بن محمد بن علی بھی ہیں اور امام شافعی اور امام مالک سے بھی ایک روایت یہی ہے۔ اور محدثین کے ایک گروہ کا قول بھی یہی ہے۔‘‘

دوسرا قول: خوارج پر حکم بغاوت کا اطلاق

مندرجہ بالا سطور میں خوارج پر ارتداد کے حکم کے سبب حکمِ تکفیر کا اطلاق کرنے والے ائمہ کرام کے فتاويٰ جات آپ نے ملاحظہ فرمائے ہیں۔ بعض لوگ احتیاطاً ان کو مرتد اور کافر قرار دینے کی بجائے باغی کے زمرے میں شمار کرلیتے ہیں۔

خوارج کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ وہ باغی ہیں اور ان پر باغیوں کا حکم لگا کر حد جاری کرتے ہوئے قتل کیا جائے گا۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے ائمہ کرام کی ایک تعداد خوارج کی تکفیر کی بجائے ان کو باغی قرار دے کر واجب القتل گردانتی ہے۔ یاد رہے کہ خوارج کی تکفیر کے قائلین ان کی بغاوت کے بھی قائل ہیں۔ لہٰذا جس طرح خوارج کے واجب القتل ہونے پر امت کا اجماع ہے اُسی طرح کا اجماع خوارج کے باغی ہونے پر بھی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہ انہیں کافر سمجھا جائے یا باغی، ان کے واجب القتل ہونے پر کسی کے ہاں بھی اختلاف نہیں ہے۔

خوارج کے باغی ہونے کے حکم کی تصریح امام ابن قدامہ المقدسی المغنی میں فرماتے ہیں:

الْخَوَارِجُ الَّذِينَ يُکَفِّرُونَ بِالذَّنْبِ، وَيُکَفِّرُونَ عُثْمَانَ وَعَلِيًّا وَطَلْحَةَ وَالزُّبَيْرَ، وَکَثِيرًا مِنَ الصَّحَابَةِ، وَيَسْتَحِلُّونَ دِمَاءَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمْوَالَهُمْ، إلَّا مَنْ خَرَجَ مَعَهُمْ، فَظَاهِرُ قَوْلِ الْفُقَهَاءِ مِنْ أَصْحَابِنَا الْمُتَأَخِّرِينَ أَنَّهُمْ بُغَاةٌ، حُکْمُهُمْ حُکْمَ الْبُغَاةِ وَلَا خِلَافَ فِی قَتْلِهِمْ فَإِنَّهُ حُکْمٌ مَنْصُوْصٌ عَلَيْهِ بِأَمْرِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَهَذَا قَوْلُ أَبِی حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِیِّ، وَجَمْهُورِ الْفُقَهَاءِ، وَکَثِيرٍ مِّنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ.

ابن قدامة، المغنی، 9: 4

’’خوارج وہ ہیں جو گناہ کی بناء پر لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر گردانتے ہیں۔ مسلمانوں کے خون اور ان کے اموال کو حلال قرار دیتے ہیں سوائے اس شخص کے جو ان کے ساتھ مل کر خروج کرتے ہوئے مسلح بغاوت کرے۔ پس ہمارے متاخرین اصحاب میں سے فقہاء کے قول کا ظاہر یہ ہے کہ خوارج باغی ہیں اور ان پر بغاوت کا حکم لگایا جائے گا۔ یہی قول امام ابو حنیفہ، امام شافعی، جمہور فقہاء اور محدثین میں کثیر لوگوں کا ہے۔‘‘

اب ذیل میں چند جلیل القدر ائمہ کرام کے فتاويٰ پیش کئے جا رہے ہیں جن کے نزدیک خوارج باغی گروہ ہیں اور واجب القتل ہیں اور ان کی بغاوت کی سرکوبی ریاست کی ذمہ داری ہے، کوئی شخص انفرادی سطح پر ان خوارج کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے کا مجاز نہیں چاہے نیک مقصد کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔

(1) امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ

امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ (م 150ھ) خوارج کو باغی اور واجب القتل سمجھتے تھے۔ اس سلسلے میں امام ابو مطیع اور امام اعظم رضی اللہ عنہ کے مابین ہونے والا مکالمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

عن أبي مطيع، قال: قلت لأبي حنيفة: ما تقول في الخوارج المحکمة؟ قال: هم أخبث الخوارج. قلت له: أنکفرهم؟ قال: لا. ولکن نقاتلهم علی ما قاتلهم الأئمة من أهل الخير: علي وعمر بن عبد العزيز. قلت: فإن الخوارج يکبرون ويصلُّون ويتلون القرآن. قال: أما تذکر حديث أبي أمامة رضی الله عنه حين دخل مسجد دمشق، فقال لأبي غالب الحمصي: هؤلاء کلاب أهل النار، هؤلاء کلاب أهل النار، وهم شر قتلی تحت أديم السماء. (ثم ذکر حديثا طويلا.) قال له: أشيء تقوله برأيک أم سمعته من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قال: إني لو لم أسمعه منه إلا مرة أو مرتين أو ثلاث مرات إلی سبع مرات لما حدثتکموه.

أبو حنيفه، الفقه الأبسط (فی العقيدة وعلم الکلام من أعمال الإمام محمد زاهد الکوثری)، باب فی القدر: 603، 604

’’ابو مطیع روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے امام اعظم سے عرض کیا: آپ محکم (یعنی صریح اور مسلّمہ) خارجیوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ امام اعظم نے فرمایا: وہ بدترین لوگ ہیں۔ میں نے کہا: کیا ہم ان کی تکفیر کریں؟ فرمایا: نہیں۔ لیکن ہم ان کے ساتھ اُسی طریقے پر جنگ کریں گے جیسے ائمہ اہلِ خیر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن العزیز رضی اللہ عنہ وغیرھما نے ان کے ساتھ قتال کیا۔ میں نے کہا: خوارج تو اللہ تعاليٰ کی کبریائی بیان کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور تلاوتِ قرآن بھی کرتے ہیں۔ امام اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ کو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث یاد نہیں؟ جب وہ جامع دمشق میں داخل ہوئے تو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ابو غالب حمصی سے کہا: اے ابو غالب! یہ خوارج اہلِ دوزخ کے کتے ہیں، یہ اہلِ دوزخ کے کتے ہیں، اور یہ آسمان کی نیچے بدترین مقتول ہیں۔ (پھر آپ نے طویل حدیث بیان کی۔) ابو غالب نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: آپ یہ سب باتیں اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں یا آپ نے یہ ارشادات حضور نبی اکرم ﷺ سے سنے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: اگر میں نے ان کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ سے ایک، دو، تین، یا سات بار بھی سنا ہوتا تو میں تم سے بیان نہ کرتا (بلکہ میں نے بے شمار مرتبہ یہ کلمات سنے ہیں) تو تمہیں بیان کر رہا ہوں۔‘‘

(2) امام شمس الدین السرخسی

فقہ حنفی کے معروف امام شمس الدین السرخسی (م483ھ) خوارج کو نہ صرف باغی قرار دیتے ہیں بلکہ مسلم ریاست کے لیے ان کے خلاف غیر مسلموں سے مدد لینے کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا فتويٰ ہے کہ:

ولا بأس بأن يستعين أهل العدل بقوم من أهل البغی وأهل الذمة علی الخوارج . . . لأنهم يقاتلون لإعزاز الدين.

سرخسی، المبسوط، باب الخوارج، 10: 134

’’مسلم حکومت کا خوارج کے خلاف باغیوں اور غیر مسلم شہریوں سے مدد لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ۔ ۔ کیوں کہ وہ کلمہ حق کی سربلندی کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔‘‘

(3) حافظ ابن حجر عسقلانی

حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) حدیثِ مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

في الحديث الکف عن قتل من يعتقد الخروج علی الإمام ما لم ينصب لذلک حرباً، أو يستعد لذلک، لقوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’فإذا خرجوا فاقتلوهم.‘‘ وحکی الطبري الإجماع علی ذلک في حق من لا يکفر باعتقاده، وأسند عن عمر بن عبد العزيز أنه کتب في الخوارج بالکف عنهم ما لم يسفکوا دما حراماً، أو يأخذوا مالاً، فإن فعلوا فقاتلوهم، ولو کانوا ولدي. ومن طريق ابن جريج: قلت لعطاء: ما يحلّ لي قتال الخوارج؟ قال: إذا قطعوا السبيل، وأخافوا الأمن. وأسند الطبري عن الحسن: أنه سئل عن رجل کان يري رأي الخوارج ولم يخرج، فقال: العمل أملک بالناس من الرأي.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 299

’’حدیث میں ایسے شخص کو، جو حکومت کے خلاف بغاوت کا نظریہ رکھتا ہے، قتل نہ کرنے کا حکم صرف اُس وقت تک ہے جب تک کہ وہ اپنے نظریے کی خاطر مسلح جد و جہد کا آغاز نہ کرے یا اس کے لئے تیار نہ ہو جائے۔ یہ حکم حضور نبی اکرم ﷺ کے اِس ارشاد کی بناء پر ہے کہ اگر وہ (مسلح) خروج و بغاوت کریں تو انہیں قتل کر دو۔ امام طبری نے ایسے شخص کے حق میں، جس کی اس کے عقیدہ و نظریہ کی بنا پر تکفیر نہیں کی جاتی، اجماع امت نقل کیا ہے اور حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی نسبت کہا ہے کہ انہوں نے خوارج کے بارے میں یہ حکم نامہ ارسال کیا تھا کہ ان کے ساتھ اس وقت تک جنگ نہ کی جائے جب تک کہ وہ ناحق خون نہ بہائیں یا مال نہ چھین لیں۔ پھر اگر وہ ایسا کرنے لگیں تو ان کے ساتھ ریاستی سطح پر جنگ کرو اگرچہ وہ میری اولاد ہی کیوں نہ ہو۔ اور ابن جریج کے طریق سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عطا سے کہا: کون سی چیز میرے لئے خوارج کے ساتھ جنگ کرنا حلال کرتی ہے؟ تو انہوں نے کہا: جب وہ راہزنی کریں اور امن عامہ کے خاتمہ کا خوف پیدا کر دیں۔ اور امام طبری نے امام حسن سے سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ان سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو خوارج کی رائے تو رکھتا ہے مگر مسلح بغاوت میں شریک نہیں ہوتا تو آپ نے فرمایا: عوام کے لیے عمل کی اہمیت رائے سے زیادہ ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی خوارج کے باغی اور اہلِ فسق ہونے کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وَذَهَبَ أَکْثَرُ أَهْل الْأُصُول مِنْ أَهْل السُّنَّة إِلَی أَنَّ الْخَوَارِج فُسَّاق. إِنَّمَا فُسِّقُوا بِتَکْفِيرِهِمِ الْمُسْلِمِينَ مُسْتَنِدِينَ إِلَی تَاْوِيل فَاسِد وَجَرَّهُمْ ذَلِکَ إِلَی اسْتِبَاحَة دِمَاء مُخَالِفِيهِمْ وَأَمْوَالهمْ وَالشَّهَادَة عَلَيْهِمْ بِالْکُفْرِ وَالشِّرْک. روی الخلال فی السنة بإسناده، فقال: أَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ مُوسَی، أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللهِ (أي أحمد بن محمد بن حنبل) قِيلَ لَهُ: أَکَفَرَ الْخَوَارِجُ؟ قَالَ: هُمْ مَارِقَةٌ، قِيلَ: أَکُفَّارٌ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ مَارِقَةٌ مَرَقُوا مِنَ الدِّينِ(1).(2)

(1) خلال، السنة، باب الإنکار علی من خرج علی السلطان: 145، رقم: 111
(2) عسقلانی، فتح الباری، 12: 300

’’اہلِ سنت میں سے اکثر اہلِ اُصول نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ خوارج فاسق لوگ ہیں اور ان کو فاسق اس لئے قرار دیا گیا کہ انہوں نے فاسد تاویل سے استناد کرتے ہوئے مسلمانوں کو کافر قرار دیا اور اس فاسد تاویل نے انہیں اپنے مخالفین کے خون اور مال کو مباح قرار دینے اور ان پر کفر و شرک کا فتويٰ لگانے تک پہنچا دیا۔ امام خلال نے اپنی سند کے ساتھ السنۃ میں یوسف بن موسيٰ سے روایت کیا ہے: حضرت ابو عبد اللہ (یعنی امام احمد بن حنبل) سے عرض کیا گیا: کیا خوارج کافر ہیں؟ انہوں نے فرمایا: یہ دین سے خارج ہو جانے والے لوگ ہیں۔ پھر کہا گیا کہ کیا یہ کافر ہیں؟ تو انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ وہ باغی ہیں جو دین سے خارج ہوگئے۔‘‘

(4) امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ (م1340ھ) خوارج سے متعلق اپنا موقف یوں بیان کرتے ہیں:

’’اہل نہروان جو مولا علی کرم الله تعالی وجہہ الکریم کی تکفیر کرکے بغاوت پر آمادہ ہوئے وہ یقیناً فسّاق، فجّار، طاغی و باغی تھے اور ایک نئے فرقہ کے ساعی و ساتھی تھے جو خوارج کے نام سے موسوم ہوا اور اُمّت میں نئے فتنے اب تک اسی کے دم سے پھیل رہے ہیں۔‘‘

احمد رضا خان، العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ، 29: 363

خوارج کے وجوبِ قتل پر اَئمہ حدیث کے دلائل

گزشتہ صفحات میں ساری بحث کا مرکزی نقطہ یہ رہا ہے کہ خوارج پر کفر کا اطلاق ہوتا ہے یا بغاوت کا۔ تاہم ہر دو صورتوں میں ان سے قتال اور ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ ذیل میں چند مزید حوالہ جات اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے پیش کئے جا رہے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خوارج کے ساتھ جنگ کرکے ریاستی سطح پر ان کا خاتمہ واجب ہے۔

خوارج کے قتل کے وجوب کی تائید حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے جسے ابو غالب نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے مسجد دمشق کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہوکر خوارج کے بارے میں فرمایا:

کِلَابُ النَّارِ، شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ، خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ. ثُمَّ قًرَأَ: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾(2) إِلَی آخِرِ الآيَةِ. قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوْهُ. قال الترمذی: هذا حديث حسن.(2)

(1) آل عمران، 3: 106
(2) 1. ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5: 226، رقم: 3000
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 256، رقم: 22262

’’یہ خوارج جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہیں اور وہ شخص بہترین شہید ہے جسے اِنہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: (جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے)۔ ابو غالب کہتے ہیں: میں نے حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: کیا آپ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: اگر میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار بھی سنا ہوتا تو ہرگز تم سے بیان نہ کرتا (یعنی سات بار نہیں بلکہ اس سے زیادہ مرتبہ سنا ہے)۔‘‘ امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

امام احمد اور ابن ماجہ نے اعمش کے طریق سے حضرت ابن ابی اوفيٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الخوارج کلاب النار.

1. ابن ماجه، السنن، المقدمة، 1: 61، رقم: 173
2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 355

’’خوارج جہنم کے کتے ہیں۔‘‘

سفیان بن عیینہ کے طریق سے ابو غالب سے مروی ہے کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

شَرُّ قَتْلَی قُتِلُوا تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ، وَخَيْرُ قَتِيلٍ مَنْ قَتَلُوا کِلَابُ أَهْلِ النَّارِ، قَدْ کَانَ هَؤُلَاءِ مُسْلِمِينَ، فَصَارُوا کُفَّارًا.

ابن ماجه، السنن، المقدمة، 1: 62، رقم: 176

’’یہ خوارج بدترین مقتول ہیں جنہیں آسمان کے نیچے قتل کیا گیا اور بہترین شہید وہ ہیں جنہیں اَہلِ دوزخ کے (ان) کتوں نے قتل کیا۔ یہ لوگ (بغاوت اور دہشت گردی سے پہلے) مسلمان تھے مگر (اس خروج کی وجہ سے) کافر ہو گئے۔‘‘

ابو غالب کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو امامہ سے پوچھا کہ اے ابو اُمامہ! یہ جو کچھ آپ نے فرمایا، کیا یہ آپ کی اپنی رائے ہے؟ تو حضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (نہیں) بلکہ (یہ سب کچھ) ارشادِ نبوی ہے جسے میں نے آپ ﷺ سے براہِ راست سنا ہے۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے ان دہشت گرد خارجیوں کے متعلق یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ یہ گروہ ہر صدی اور ہر زمانے میں قیامِ قیامت اور خروج دجال تک نکلتے رہیں گے جیسا کہ اس حدیث رسول ﷺ میں آیا ہے، جسے امام احمد، نسائی، بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے:

عَنْ شَرِيْکِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: ’’قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ . وفي رواية: قَالَ: يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ کَانَ هَذَا مِنْهُمْ هَدْيُهُمْ هَکَذَا . يَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.

1. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7: 119، رقم: 4103
2. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 421
3. حاکم، المستدرک، 2: 160، رقم: 2647
4. ابن أبي شيبة، المصنف، 7: 559، رقم: 37917

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں ایک قوم خروج کرے گی، گویا یہ (خارجی) شخص بھی انہی میں سے ہے۔‘‘ ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مشرق کی سمت سے کچھ لوگ خروج (یعنی مسلح دہشت گردی) کریں گے گویا یہ (خارجی) شخص بھی انہی میں سے ہے جن کے طور طریقے اِسی طرح کے ہوں گے۔‘‘ ۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دینِ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے (تیزی کے ساتھ) نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سر منڈے ہوں گے۔ یہ لوگ ہر دور میں نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ مل کر مسلح قتال میں حصہ لے گا۔ سو تم (جس دور میں بھی) اِن سے مقابلہ کرو تو انہیں قتل کر دینا (کہ) یہ تمام لوگ بدترین مخلوق ہیں اور بدترین کرتُوتوں کے حامل ہیں۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يَنْشَأُ نَشْءٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، کُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ.

ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب فی ذکر الخوارج، 1: 61، رقم: 174

’’ایک نسل پیدا ہوگی جو قرآن مجید کی تلاوت کرے گی مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ (ہر دور میں) جب کبھی اس خصلت کے لوگ خروج (یعنی مسلح بغاوت) کریں تو اُنہیں (فوجی آپریشن کے ذریعہ) جڑ سے کاٹ دیا جائے۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما ہی روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو بیس سے زائد مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:

کُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ أَکْثَرَ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً حَتَّی يَخْرُجَ فِی عِرَاضِهِمُ الدَّجَّالُ.

ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب فی ذکر الخوارج، 1: 61، رقم: 174

’’جب کبھی بھی اس خصلت کے لوگ خروج کریں تو انہیں جڑ سے کاٹ دیا جائے یہاں تک کہ (ان کا آخری گروہ) دجال کی معیت میں نکلے گا۔‘‘

اس حدیث کی تخریج امام ابن ماجہ نے کی ہے اور امام کنانی نے فرمایا: اس کی سند صحیح ہے اور اس کے تمام راویوں کو امام بخاری نے قابلِ حجت مانا ہے۔

کنانی، مصباح الزجاجة، 1: 26، رقم: 65

(1) قاضی عیاض المالکی

خوارج کے وجوب قتل کے بارے میں قاضی عیاض (م544ھ) صحیح مسلم کی شرح اکمال المعلم میں فرماتے ہیں:

أجمع العلماء علی أن الخوارج وأشباهَهم من أهل البدع والبغی متی خرجوا وخالفوا رأی الجماعة، وشقوا عصا المسلمين، ونصبوا راية الخلاف؛ أن قتالهم واجب بعد إنذارهم والإعذار إليهم، قال الله تعالی: ﴿فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰی تَفِيْئَ اِلٰی اَمْرِ اللهِ﴾.(1) . . . وهذا إذا کان بغيهم لأجل بدعة يکفرون بها، وإن کان بغيهم لغير ذلک لعصبية، أو طلب رئاسة دون بدعة؛ فلا يحکم فی هؤلاء حکم الکفار بوجه، وحکمهم حکم أهل البغی.(2)

(1) الحجرات، 49: 9
(2) قاضی عياض، إکمال المعلم، 3: 613، 614

’’تمام علماء کا اس بات پراجماع ہے کہ خوارج اور ان کی طرح کے دیگر اہلِ بدعت اور باغی و دہشت گرد گروہ جب مسلمانوں کی جمعیت یعنی ہیئت حاکمہ کے خلاف مسلح کارروائی کریں، ان کی رائے کی مخالفت کریں، مسلمانوں کی قوت کو پارہ پارہ کریں اور ان کے خلاف علم بغاوت بلند کریں تو ان کو ڈرانے اور سمجھانے کے بعد ان سے قتال واجب ہے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: (تو اُس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے)۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اس وقت ہے جب ان کی بغاوت کسی ایسی بدعت کی وجہ سے ہو جس کی بناء پر ان کی تکفیر لازم آئے۔ اور اگر ان کی بغاوت اس کے علاوہ کسی عصبیت یا طلب جاہ و منصب کے لئے ہو تو ایسے لوگوں پر کفار کا حکم نہیں لگایا جائے گا بلکہ ان پراہل بغاوت کے حکم کا اِطلاق ہوگا (مگر اس صورت میں بھی اِتمامِ حجت کے بعد ان سے قتال واجب ہوگا)۔‘‘

(2) امام ابن ہبیرہ الحنبلی

خوارج کے واجب القتل ہونے کے بارے میں ابن ہبیرہ الحنبلی (م 587ھ) کا موقف یہ ہے:

وفي الحديث أن قتال الخوارج أولی من قتال المشرکين، والحکمة فيه: أن في قتالهم حفظ رأس مال الإسلام، وفي قتال أهل الشرک طلب الربح، وحفظ رأس المال أولی.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 5: 157

’’حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ خوارج سے قتال مشرکوں سے قتال کی نسبت زیادہ اَجر والا اور اَفضل ہے اور اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کے قتال میں اسلام کے سرمایہ کی حفاظت ہے اور اہلِ شرک کے قتال میں نفع کی طلب ہے اور اصل زر کی حفاظت افضل ہوتی ہے۔‘‘

(3) علامہ ابن تیمیہ

علامہ ابن تیمیہ (م728ھ) کا بھی موقف یہ ہے کہ خوارج کا قلع قمع کرنے کے لیے ان سے جنگ کرنا بالاتفاق جائز ہے:

فکان قتالهم ثابتا بالسنة الصحيحة الصريحة، وباتفاق الصحابة. . . . والبغاة المأمور بقتالهم: هم الذين بغوا بعد الاقتتال، وامتنعوا من الإصلاح المأمور به؛ فصاروا بغاة مقاتلين. والبغاة إذا ابتدأوا بالقتال جاز قتالهم بالاتفاق؛ کما يجوز قتال الغواة قطاع الطريق إذا قاتلوا باتفاق الناس.

ابن تيمية، النبوات: 223، 225

’’پس ان کے ساتھ قتال سنّتِ صحیحہ و صریحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بالاتفاق ثابت ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ باغی جن سے قتال کا حکم دیا گیا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں سے مقاتلہ کے بعد بغاوت اور صلح سے رُوگردانی اختیار کی، سو وہی لوگ باغی اور قاتلین ٹھہرے ہیں۔ اور باغی جب باقاعدہ قتال کی ابتداء کر دیں تو ان کے خلاف جنگ بالاتفاق جائز ہو جاتی ہے بالکل اُسی طرح جس طرح گمراہ اور راہزنوںسے؛ کہ جب وہ قتل و غارت گری شروع کر دیں تو بالاتفاق ان کے خلاف مسلح کارروائی جائز ہو جاتی ہے۔‘‘

علامہ ابن تیمیہ کے ان فتاويٰ سے ان کا موقف دو ٹوک الفاظ میں ثابت ہوجاتا ہے کہ خوارج کی سرکوبی اور خاتمہ ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

(4) حافظ ابن حجر عسقلانی

حافظ ابن حجر عسقلانی (م851ھ) حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان مبارک یمرقون من الدین کے حوالے سے لکھتے ہیں:

فی رواية أبی إسحاق عن سويد بن غفلة عند النسائی والطبری ’’يمرقون من الإسلام‘‘. وکذا في حديث بن عمر في الباب وعند النسائی من رواية طارق بن زياد عن علی ’’يمرقون من الحق‘‘ وبقوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’فأينما لقيتموهم فاقتلوهم، فإن فی قتلهم أجرا لمن قتلهم يوم القيامة.‘‘

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 288

’’امام نسائی کے ہاں سوید بن غفلہ کے طریق سے ابو اسحاق کی روایت میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ بیان کیا گیا ہے۔ امام طبری نے يَمْرُقُوْنَ مِنَ الْاِسْلَامِ کے کلمات ذکر کئے ہیں اور اسی طرح خوارج کے باب میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے مروی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔ اور امام نسائی کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی طارق بن زیاد کی روایت میں يَمْرُقُوْنَ مِنَ الْحَقِّ کے کلمات آئے ہیں۔ اور حضور ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’پس تم جہاں کہیں اُن سے ملو تو (ریاستی سطح پر اُن کے خلاف کارروائی کرکے) انہیں قتل کر دو، کیونکہ ان کو قتل کرنے والے شخص کے لئے قیامت کے دن اجر (عظیم) ہوگا۔‘‘

خارجی دہشت گردوں سے جنگ کرنے والے فوجیوں کے لیے اجر عظیم

خوارج سے جنگ پر بحث کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی مزید لکھتے ہیں:

فی رواية زيد بن وهب: ’’لو يعلم الجيش الذين يصيبونهم ما قضی لهم علی لسان نبيهم لنکلوا عن العمل‘‘. وأخرج أحمد نحو هذا الحديث عن علی وزاد فی آخره: ’’قتالهم حق علی کل مسلم‘‘. وقوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’صلاتکم مع صلاتهم‘‘. زاد في رواية الزهری عن أبی سلمة کما فی الباب بعده ’’وصيامکم مع صيامهم‘‘. وفی رواية عاصم بن شميخ عن أبی سعيد: ’’تحقرون أعمالکم مع أعمالهم‘‘، ووصف عاصم أصحاب نجدة الحروری بأنهم ’’يصومون النهار ويقومون الليل ويأخذون الصدقات علی السنة‘‘ أخرجه الطبری.

ومثله عنده من رواية يحيی بن أبی کثير عن أبی سلمة. وفی رواية محمد بن عمرو عن أبی سلمة عنده ’’يتعبدون يحقر أحدکم صلاته وصيامه مع صلاتهم وصيامهم‘‘. ومثله من رواية أنس عن أبی سعيد وزاد فی رواية الأسود بن العلاء عن أبی سلمة ’’وأعمالکم مع أعمالهم‘‘. وفی رواية سلمة بن کهيل عن زيد بن وهب عن علی: ’’ليست قراء تکم إلی قراء تهم شيئا ولا صلاتکم إلی صلاتهم شيئا‘‘. أخرجه مسلم والطبری وعنده من طريق سليمان التيمی عن أنس ’’ذکر لی عن رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم ، قال: ’’إن فيکم قوما يدأبون ويعملون حتی يعجبوا الناس وتعجبهم أنفسهم‘‘. ومن طريق حفص بن أخی أنس عن عمه بلفظ ’’يتعمقون فی الدين‘‘. وفی حديث بن عباس عند الطبرانی فی قصة مناظرته للخوارج قال: ’’فأتيتهم فدخلت علی قوم لم أر أشد اجتهادا منهم أيديهم کأنها ثفن الإبل ووجوههم معلمة من آثار السجود‘‘. وأخرج بن أبی شيبة عن بن عباس رضی الله عنه أنه ذُکِرَ عنده الخوارج واجتهادهم فی العبادة، فقال: ليسوا أشد اجتهادا من الرهبان.

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12: 288، 289

’’زید بن وہب کی روایت میں ہے: ’’خوارج کے ساتھ جنگ کرکے انہیں قتل کرنے والی مسلمان فوج (muslim army) اگر جان لیتی کہ ان کے لئے اپنے نبی ﷺ کی زبان سے کس قدر اعليٰ اور بلند مقام کا فیصلہ کر دیا گیا ہے تو وہ باقی سارے کام چھوڑ کر صرف (خوارج سے جنگ کرنے کا) یہی عمل اختیار کر لیتی۔‘‘ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے اسی طرح کی حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرکے اس کے آخر میں یہ اضافہ بھی ذکر کیا ہے: قِتَالُهُمْ حَقٌّ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ یعنی ان باغی دہشت گردوں کے خلاف ریاستی سطح پر کی جانے والی کارروائی میں حصہ لینا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (یہاں پر یہ جاننا ضروری ہے کہ ان کی ظاہری دین داری کو دیکھ کر ان سے قتال اور ان کے خاتمہ میں پس و پیش نہ کیا جائے کیونکہ) حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی امام زہری کی روایت میں وَصِيَامَکُمْ مَعَ صِيَامِهِمْ کے الفاظ کا اضافہ ہے۔ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی عاصم بن شمیخ کی روایت میں تَحْقِرُوْنَ اَعْمَالَکُمْ اِلٰی اَعْمَالِهِمْ ہے اور عاصم نے اَصحابِ نجد کو الحروری کہا کہ ’’وہ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو قیام کرتے اور سنت کے مطابق صدقات وصول کرتے تھے۔‘‘ اس کو امام طبری نے روایت کیا اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے یحیيٰ بن کثیر کی اسی طرح کی روایت بھی انہوں نے بیان فرمائی ہے۔

’’امام طبری کے ہاں حضرت ابوسلمہ سے مروی محمد بن عمرو کی روایت میں ہے: ’’خوارج اتنی کثرت سے عبادت کریں گے کہ تم میں سے ہر کوئی اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلے میں حقیر اور کم تر سمجھے گا۔‘‘ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے۔ اور حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی اسو د بن علاء کی روایت میں اَعْمَالَکُمْ مَعَ اَعْمَالِهِمْ کا اضافہ ہے۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی زید بن وہب کی روایت میں ہے: ’’تمہاری تلاوت ان کی تلاوت کے مقابلے میں اور تمہاری نماز ان کی نماز کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی۔‘‘ اس کو امام مسلم اور امام طبری نے روایت کیا ہے۔ اور امام طبری کے ہاں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی سلیمان تیمی کے طریق سے بھی روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے سامنے رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی بیان کیا گیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: بے شک تم میں ایک ایسی قوم ہوگی جو (بظاہر نیک اعمال) میں بہت مشقت اٹھائیں گے اور اتنے زیادہ اعمال کریں گے کہ لوگوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیں گے اور وہ آپ اپنے (اعمال) پر عُجب کا اظہار کریں گے۔‘‘ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حفص کے طریق سے اپنے چچا (یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ) سے مروی حدیث میں يَتَعَمَّقُوْنَ فِی الدِّيْنِ (بظاہر وہ دین میں بہت پختگی اور شدت رکھتے ہوں گے یعنی extremist ہوں گے) کے کلمات ہیں۔ امام طبرانی کے ہاں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما کے خوارج کے ساتھ مناظرہ کے قصے پر مبنی روایت میں مذکور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’پس میں ان (خوارج) کے پاس پہنچا تو میں ایسی قوم پر داخل ہوا جن سے بڑھ کر محنت و ریاضت کرنے والے ہاتھ میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ان کے ہاتھ (مشقت کی وجہ سے) ایسے سخت تھے جیسے اونٹوں کے گھٹنے اور ان کے چہرے سجدوں کے آثار سے نشان زدہ تھے۔‘‘ ابن ابی شیبہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے عبادت و ریاضت میں خوارج کی محنت و مشقت کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’راہب‘‘ بھی تو اعمال میں اُن سے زیادہ مشقت اٹھانے والے تھے۔‘‘

خوارِج کے بارے میں علامہ انور شاہ کاشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی کا موقف

خوارج اور اس طرح کے مسلح بغاوت کرنے والے دیگر گروہوں کی تکفیر اور ان کے قتل کے حکم کے بارے میں برصغیر پاک و ہند کے دیوبند مکتبہ فکر کے دو جید علمائے کرام علامہ انور شاہ کاشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی مفصل کلام کیا ہے جو ’’فتح الملھم (5: 153۔157)‘‘ میں موجود ہے۔ ذیل میں ان کی مفصل تحقیق میں سے صرف وہ حصہ نقل کیا جاتا ہے جو اُن کی اپنی رائے اور فتويٰ پر مشتمل ہے۔ ورنہ جن احادیث اور ائمہ و محدثین کی تصریحات کو انہوں نے بطور استشہاد و استدلال بیان کیا ہے، ہم وہ تمام حوالہ جات پہلے ہی اصل مصادر سے مختلف مقامات پر درج کر چکے ہیں۔

علامہ شبیر احمد عثمانی نے خوارج پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اس کا عنوان ہی یہ رکھا ہے:

بحث شريف يتعلق بتکفير الخوارج وغيرهم من أهل الأهواء والملحدين، وهل يقاتلون؟ ومتي يقاتلون؟

’’خوارج اور دیگر اہل اہواء اور ملحدین کی تکفیر سے متعلق بحث اور یہ کہ کیا ان کے ساتھ قتال کیا جائے گا؟ اور کب کیا جائے گا؟‘‘

اِس کے بعد اُنہوں نے حافظ ابن حجر عسقلانی کا اقتباس نقل کیا ہے، جس کے مطابق خوارج اہل فسق، باغی اور واجب القتل ہیں، کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:

فإذا خرجوا فاقتلوهم.

’’پس جب وہ ریاست کے خلاف بغاوت کریں تو انہیں قتل کر ڈالو۔‘‘

نیز معاً بعد امام طبری کا قول نقل کیا ہے جس میں اُنہوں نے اَحادیث مبارکہ۔ هم شر الخلق؛ يمرقون من الإسلام؛ لأقتلنهم قتل عاد. سے مستنبط کیا ہے کہ خوارج دین اسلام سے خارج ہیں اور ان سے قتال واجب ہے۔

اِسی طرح انہوں نے قاضی عیاض، امام ابو العباس القرطبی اور امام تقی الدین السبکی کا تکفیرِ خوارج کا موقف بھی اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔

علامہ انور شاہ کشمیری نہایت واضح الفاظ میں خوارج کی تکفیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:

والحق أن حديث المروق يدل علی أنَّ المارقة أقرب إلی الکفر من الإيمان، ومن أصرح ما وجدت فيه ما عند ابن ماجه عن أبي أُمامة: ’’قد کان هؤلاء مسلمين، فصاروا کفَّاراً، قلت: يا أبا أمامة، هذا شيء تقوله؟ قال: بل سمعته من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم .‘‘ قال الحافظ محمد بن إبراهيم اليماني في ’’إيثار الحق‘‘ (ص: 421): وإسناده حسن. وحسنه الترمذي مختصراً.

شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 154

’’حق یہ ہے کہ حدیث المروق اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ المارقۃ یعنی دین سے نکلنے والے ایمان کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہیں اور اس بارے میں جو کچھ میں نے ذخیرہ احادیث میں پایا اس میں سب سے زیادہ صریح ابن ماجہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جس میں انہوں نے فرمایا: یہ خوارج پہلے مسلمان تھے، پھر کافر ہوگئے۔ تو حضرت ابو غالب نے پوچھا: اے ابو امامہ! یہ بات آپ اپنی طرف سے کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: (نہیں) بلکہ میں نے رسول الله ﷺ سے یہ ارشاد گرامی سنا ہے۔ حافظ محمد بن ابراہیم یمانی نے ’’ایثار الحق (ص: 421)‘‘ میں فرمایا ہے: اس کی اسناد حسن ہیں اور امام ترمذی نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔‘‘

علامہ شبیر احمد عثمانی احادیث مبارکہ کی روشنی میں خوارج کے واجب القتل ہونے پر اپنا موقف یوں لکھتے ہیں:

ويؤيّد القول المذکور الأمر بقتلهم مع ما تقدم من حديث ابن مسعود: ’’لا يحل قتل امرئ مسلم إلّا بإحدی ثلاث‘‘ وفيه: ’’التارک لدينه: المفارق للجماعة‘‘ وورد في بعض الروايات الصحيحة: ’’المارق من الدين، التارک للجماعة.‘‘

شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 154

’’حضور ﷺ کا ان کے قتل کا حکم دینا بھی اسی قولِ مذکور کی تائید کرتا ہے، اس کے باوجود کہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جو پہلے بیان کی گئی کہ ’’کسی مسلمان آدمی کا قتل حلال نہیں سوائے تین میں سے کسی ایک صورت کے۔‘‘ سو اس حدیث میں ہے کہ ’’جو اپنے دین کے خلاف بغاوت کرنے والا ہو اور جو مسلمانوں کی جماعت سے جدا ہونے والا ہو‘‘ اور بعض صحیح روایات میں آیا ہے کہ ’’دین سے نکلنے والا اور مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑنے والا ہو۔‘‘

اِس کے بعد علامہ شبیر احمد عثمانی خوارج کو قتل کرنے کے جواز پر حنابلہ کا موقف بیان کرتے ہوئے اپنی رائے یوں دیتے ہیں:

الظاهر عندي درايةً وروايةً قول أهل الحديث، أما روايةً: فقوله صلی الله عليه وآله وسلم: ’’فأين لقيتموهم فاقتلوهم‘‘ وأما قول علي رضی الله عنه: فمعناه أن الإنکار علی الإمام والطعن فيه لا يوجب قتلاً، حتی ينزع يده من الطاعة، فيکون باغياً، أو قاطع الطريق.

شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 155

’’میرے نزدیک روایتاً اور درایتاً ائمہ حدیث کا قول واضح ہے۔ رہا حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد فأين لقيتموهم فاقتلوهم، اور حضرت حضرت علی رضی اللہ عنہم کا یہ (مذکورہ بالا) قول، تو اس کا معنی یہ ہے کے حکمران کا انکار اور اس پر طعنہ زنی قتل کو واجب نہیں کرتے، جب تک کہ وہ حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار نہ کر دے اور باغی یا راہ زن نہ ہو جائے۔‘‘

آخر میں علامہ شبیر احمد عثمانی بحث کو سمیٹتے ہوئے اپنا اور علامہ انور شاہ کشمیری کا موقف دہراتے ہیں:

وقال في موضع آخر من رسالته بعد سرد الأحاديث: ’’فخرج من هذه الأحاديث بهذا الوجه وجه من کفرهم من أهل الحديث، وقد نسبه ’’السندي رحمه الله علی سنن النسائي‘‘ إليهم، وهو قول فحل، وکذا نسبه في ’’فتح القدير‘‘ إليهم، وخرج عدم الفرق بين الجحُود والتأويل في القطعيات. والله سبحانه و تعالی أعلم. وخرج أن الکفر قد يلزم من حيث لا يدري، مع ما يحقر أحدکم صلاته، وصيامه مع صلاتهم وصيامهم، وأعماله مع أعمالهم، وليست قراء ته إلی قراء تهم شيئاً، فخذ هذه الجمل النبوية أصلاً في مسألة التکفير، فهي کأحرف القرآن، کلها شاف کاف.

شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5: 156

’’اور آپ نے اپنے مقالے میں کسی ایک مقام پر ان احادیث کو بیان کرنے کے بعد لکھا ہے: پس ان احادیث سے اس توجیہ کے ساتھ ائمہ حدیث کا بیان کردہ وہ سبب مستنبط ہوتا ہے جنہوں نے ان (خوارج) کو کافر قرار دیا۔ اسی طرح امام سندی نے سنن نسائی پر اپنے حاشیہ میں بھی کفر کو ان کی طرف منسوب کیا ہے، اور یہ ایک مضبوط قول ہے۔ اسی طرح انہوں نے ’’فتح القدیر‘‘ میں کفر کو انہی کی طرف منسوب کیا ہے۔ یاد رہے کہ قطعی عقائد میں تاویل اور جحود (انکار) کے درمیان فرق کا نہ ہونا بھی انہی احادیث سے مستنبط ہوتا ہے، اور الله تعاليٰ بہتر علم رکھنے والا ہے۔ اور یہ چیز بھی مستنبط ہوتی ہے کہ کفر کبھی کبھی اس طرح لازم آجاتا ہے جس کا پتہ بھی نہیں چلتا، اس کے باوجود کہ جن کی نماز کے ساتھ تم میں سے ہر کوئی اپنی نماز کو حقیر جانتا ہے اور جن کے روزوں کے ساتھ اپنے روزے کو حقیر جانتا ہے اور جن کے اعمال کے ساتھ اپنے اعمال کو حقیر جانتا ہے اور جن کی قراء ت کے مقابلہ میں اس کی قراء ت کچھ بھی نہیں۔ پس اس مسئلہ تکفیر میں حضور نبی اکرم ﷺ کے یہ جملے قرآن کے حروف کی طرح حکم صادر کرنے میں کافی و شافی ہیں۔‘‘

گویا علامہ انور شاہ کاشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی مفصل تحقیق سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان کے نزدیک بھی خوارج اور ان کی راہ پر چلنے والے لوگ دین سے خارج ہیں۔ کیونکہ انہوں نے دینی تعلیمات کو مسخ کیا اور دین میں نئی نئی بدعات ایجاد کی ہیں اور ان خیالات اور اَعمال کو دین قرار دے دیا جن کا حضور نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے قول و عمل سے کوئی تعلق نہیں۔

غور کیا جائے تو آج اسلام کے نام پر جو انتہاء پسندی اور دہشت گردی ہو رہی ہے اس کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ موجودہ دور میں لوگوں کا قتل عام، عورتوں اور بچوں کی بہیمانہ ہلاکت، جہاد کا معنی و مفہوم، شرعی شرائط اور تقاضے سمجھے بغیر اسے ہر ایک پر واجب قرار دے دینا، مردوں کو قبروں سے نکال کر ان کی بے حرمتی کرنا، صالحین کے مقابر کو تباہ کرنا، مساجد اور عبادت گاہیں مسمار کرنا اور اپنے مخالف نظریات کے حامل عامۃ المسلمین پر کفر و شرک کے فتوے لگانا اور مسلم و غیر مسلم پر امن انسانی آبادیوں کو تباہ و برباد کرنا اور خودکش حملوں کے ذریعے انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنانا (یہ سب کچھ) خوارج کے نظریات اور کردار کا ہی تسلسل ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved