دہشت گردی اور بغاوت ایک پُرامن معاشرے کے لئے کتنی خطرناک ہے اور اس کی ممانعت کیوں کی گئی ہے؟ اِس کی وضاحت تو گزشتہ اَبواب سے بخوبی ہوجاتی ہے۔ یہاں ہم معاملے کی نوعیت و حساسیت کے پیش نظر اکابر ائمہ کے فتاویٰ اختصار کے ساتھ درج کر رہے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ چودہ سو سالہ تاریخ اسلام میں اس باب پر اُمت میں کبھی اختلاف نہیں رہا۔ ائمہ اربعہ کے بعد نمائندہ فقہاء کرام، علماء عظام کی آراء پیش کرتے ہوئے ترتیب زمانی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
دہشت گرد گروہ کے ساتھ جنگ کرنے کے حوالے سے اِمامِ اَعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ اپنی کتاب الفقہ الأبسط میں فرماتے ہیں:
فقاتل أھل البغي بالبغي لا بالکفر. وکن مع الفئۃ العادلۃ. ولا تکن مع أھل البغي. فإن کان في أھل الجماعۃ فاسدون ظالمون. فإن فیھم أیضاً صالحین یعینونک علیهم، وإن کانت الجماعۃ باغیۃ فاعتزلھم واخرج إلی غیرھم. قال الله تعالی: {اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَۃً فَتُهَاجِرُوْا فِیْهَا (النساء، 4: 97)}، {اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِo (العنکبوت، 29: 56)}
أبو حنیفہ، الفقہ الأبسط (فی العقیدۃ وعلم الکلام من أعمال الإمام محمد زاہد الکوثری)، باب فی القدر: 606، 607
’’باغی اور دہشت گرد گروہ کے ساتھ جنگ کرو اس وجہ سے نہیں کہ وہ کفر پر ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ باغی ہیں اور واجب القتل ہیں۔ وہ معاشرے میں بدامنی پھیلانے کے ذمہ دارہیں۔ ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہ معتدل فکر لوگوں کی سنگت اختیار کی جائے اور (اگر اتفاقاً ایسی نوبت آجائے تو) معاشرے کو بد امنی اور فساد سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومت کا ساتھ دیا جائے نہ کہ دہشت گرد باغیوں کا۔ فرض کریں کہ ہیئتِ اجتماعی میں جہاں کچھ لوگ اگر مفسد اور ظالم ہیں تو وہیں بعض لوگ نیکوکار بھی ہوتے ہیں۔ یہی نیک اور صالح لوگ ان گمراہ لوگوں کے خلاف آپ کی مدد کریں گے۔ بفرض محال اگر لوگوں کی اکثریت ہی مسلح بغاوت پر اتر آئے تو اہلِ حق کو چاہیے کہ وہ ان باغیوں سے علیحدگی اختیار کر لیں اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی طرف ہجرت کر جائیں جیسا کہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: {کیا اللہ کی زمین فراخ نہ تھی کہ تم اس میں (کہیں) ہجرت کر جاتے؟} اور {بے شک میری زمین کشادہ ہے سو تم میری ہی عبادت کرو۔}۔‘‘
مذہبِ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے جلیل القدر امام، ابو جعفر طحاویؒ (239- 321ھ) فرماتے ہیں:
’’ولا نری السَّیف علی أحدٍ مِنْ أمّۃِ محمدٍ إلّا من وجَب علیہ السّیف، ولا نریٰ الخروج علی أئمتنا وولاۃ أمورنا، وإن جاروا، ولا ندعو علیھم، ولا ننزع یداً من طاعتھم.
طحاوی، العقیدۃ الطحاویۃ، رقم: 71، 72
’’ہم حکومت و سلطنت کے خلاف عسکری بغاوت کوجائز نہیں سمجھتے خواہ وہ خطا کار ہی ہو۔ اور نہ ہی ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہیں۔‘‘
امام ابن ابی العز الحنفیؒ نے امام طحاوی ؒکی اسی عبارت کی شرح میں صحیح مسلم میں حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی حدیث نقل کی ہے، جس کے آخر میں حضور ﷺ کا صریح حکم ہے کہ اگر اُمراء و حکام شِرار اور لائقِ نفرت بھی ہوں، تب بھی جب تک مسلمان ہیں ان کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج جائز نہیں۔
اسی طرح حکم نبوی ﷺ ’’ولا ینزعن یداً من طاعتہ‘‘ (تم حکومت کی حاکمیت اور اتھارٹی سے ہرگز ہاتھ نہ کھینچنا) کو بھی انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے۔ اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئے امام ابن ابی العز الحنفی نے مزید لکھا ہے:
فقد دل الکتاب والسنۃ علی وجوب طاعۃ أولی الأمر ما لم یأمروا بمعصیۃٍ. فتأمل قوله تعالیٰ: {اَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم (النساء، 4: 59)} کیف قال: {اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} ولم یقل: ’’وَاَطِیْعُوا أُولِی الْاَمْرِ مِنْکُم‘‘. لأنّ أولی الأمر لا یفردون بالطاعۃ، بل یطاعون فیما هو طاعۃ الله ورسولهٖ. وأعاد الفعل مع الرسول ﷺ ، لأنّه هو معصومٌ. ’’وأولو الأمر‘‘ لا یطاع إلا فیما هو طاعۃ ﷲ ورسوله. وإما لزوم طاعتهم (وإن جاروا) فلأنه یترتب علی الخروج عن طاعتهم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورهم.
ابن أبی العز، شرح عقیدۃ الطحاوی: 282
’’کتاب و سنت کے احکامات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ حکومت وقت کی اس وقت تک اطاعت لازم ہے جب تک وہ معصیت کا حکم نہ دے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر غور کریں: ’’تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( ﷺ ) کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہل حق) صاحبانِ اَمر کی۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’تم رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ یہ نہیں فرمایا کہ ’’تم صاحبان امر کی اطاعت کرو‘‘ کیونکہ اولو الامر اطاعت کے ساتھ منفرد اور خاص نہیں ہے بلکہ ان کی اطاعت اسی معاملے میں کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے تحت ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فعلِ اطاعت کو صرف رسول ﷺ کے ساتھ دہرایا ہے کیونکہ آپ ﷺ معصوم ہیں۔ جبکہ حکام کی اطاعت اسی امر میں کی جاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت ہو۔ ہاں ان کے ظالم ہونے کے باوجود ان کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان کے مفاسد کے باعث ان کے خلاف مسلح خروج اور بغاوت، ان کی ناانصافیوں کی وجہ سے جنم لینے والی خرابیوں سے کئی گنا زیادہ خرابیوں کا باعث ہوگی (اس لئے بڑی تباہی اور نقصان سے بچنا لازم ہے)۔‘‘
دہشت گردوں کی سرکوبی کے بارے میں مالکی فقہ کی معروف کتاب المدونۃ الکبریٰ میں امام سحنون نے امام مالکؒ سے یوں روایت کیا ہے:
قال مالک فی الإباضیۃ، والحروریۃ، وأھل الأھواء کلھم أری أن یستتابوا، فإن تابوا، وإلا قتلوا. قال ابن القاسم: وقال مالک فی الحروریۃ وما أشبھھم: إنھم یقتلون إذا لم یتوبوا إذا کان الإمام عدلًا. فھذا یدلک علی أنھم إن خرجوا علی إمام عدل وھم یریدون قتالہ ویدعون إلی ما ھم علیہ دعوا إلی الجماعۃ والسنۃ، فإن أبوا قتلوا.
قال: ولقد سألت مالکا عن أھل العصبیۃ الذین کانوا بالشام، قال مالک: أری للإمام أن یدعوھم إلی الرجوع، وإلی مناصفۃ الحق بینہم، فإن رجعوا وإلا قوتلوا.
سحنون، المدونۃ الکبری، 3: 94
’’امام مالک نے (خارجیوں کے گروہ) اباضیہ، حروریہ اور اہلِاَہواء (گمراہ ٹولہ) کے بارے میں فرمایا کہ انہیں پہلے (انتہا پسندی اور دہشت گردی سے) توبہ کرنے کی دعوت دی جائے، اگر وہ توبہ کر لیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے ورنہ قتل کر دیا جائے۔ امام ابن قاسم کہتے ہیں کہ امام مالک نے حروریہ اور ان کے مثل دیگر گمراہ (دہشت گرد) گروہوں کے بارے میں فرمایا: اگر وہ اپنی تخریبی سرگرمیوں سے توبہ نہ کریں تو انہیں قتل کر دیا جائے بشرطیکہ ریاست مسلم ہو۔ یہ قول تمہیں اس بات کی رہنمائی فراہم کرتاہے کہ اگر وہ مسلمان ریاست کے خلاف بغاوت کریں اور اس کے ساتھ جنگ کا ارادہ کریں اور اس سے اپنے منشور کو قبول کرنے کا مطالبہ کریں تو انہیں پہلے مسلمانوں کی اکثریت اور قانون کے دائرے میں پلٹنے کی دعوت دی جائے، اگر وہ انکار کریں تو انہیں قتل کیا جائے۔
’’امام سحنون کہتے ہیں: میں نے امام مالکؒ سے شام کے عصبیت پسند گروہ کے بارے میں استفسارکیا تو آپ نے فرمایا: میرے خیال میں حکومت کو چاہئے کہ انہیں اپنے موقف سے رجوع کرنے اور باہمی انصاف کی دعوت دے، اگر وہ پلٹ آئیں تو ٹھیک ورنہ انہیں قتل کر دیا جائے۔‘‘
دہشت گردی اور خونریزی کی ہر دور میں شکلیں بدلتی رہی ہیں لیکن ذہنیت ایک ہی رہی ہے۔ اس کی ابتداء خوارج سے ہوئی اور پوری تاریخ اسلام میں ان کا تسلسل جاری رہا جو اب بھی ہے۔ چنانچہ تمام ائمہ کرام نے فرداً فرداً اس دہشت گردانہ رجحان اور خارجیت زدہ فکر و عمل کے خلاف فتاویٰ جاری فرمائے۔ ان ائمہ کرام میں امت کے جلیل القدر پیشوا امام شافعی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، آپ نے دہشت گردوں کے متعلق فرمایا:
ولو أن قومًا کانوا فی مصر أو صحراء فسفکوا الدماء وأخذوا الأموال، کان حکمهم کحکم قطّاع الطریق، وسواء المکابرۃ فی المصر أو الصحراء، ولو افترقا کانت المکابرۃ فی المصر أعظمھما.
شافعي، کتاب الأم، 4: 218
’’اگر کوئی شر پسند گروہ کسی شہر میں یا کسی صحرا و بیابان میںخونریز کارروائی کرے اور لوگوں سے مال واسباب چھین لے تو ان (کی سزا) کا حکم راہزنوں کی طرح ہے۔ اور لوٹ کھسوٹ اورحق تلفی شہری آبادی میں ہو یا جنگل و بیابان میں، سنگینی کے لحاظ سے برابر ہے۔ اگر انہیں جدا جدا بھی دیکھا جائے تو شہری آبادیوں میں لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری زیادہ بھیانک ہے۔‘‘
امام شافعیؒ مزید فرماتے ہیں:
فإذا دعی أھل البغی فامتنعوا من الإجابۃ فقاتلوا … فإنما أبیح قتال أھل البغی ما کانوا یقاتلون، وھم لا یکونون مقاتلین أبدا إلا مقبلین ممتنعین مریدین. فمتی زایلوا ھذہ المعانی فقد خرجوا من الحال التی أبیح بها قتالھم، وھم لا یخرجون منها أبدا إلا إلی أن تکون دماؤھم محرمۃ کھی قبل.
شافعي، کتاب الأم، 4: 218
’’جب باغی دہشت گردوں کو راہِ راست کی طرف پلٹنے کی دعوت دی جائے اور وہ اسے قبول کرنے سے گریزاں ہوں تو ان کے ساتھ جنگ کی جائے گی۔… پس باغی عناصر کے ساتھ جنگ اس وقت تک جائز ہے جب تک وہ مسلح عسکری کارروائیاں کرتے رہیں۔ وہ عسکری کارروائیاں ہمیشہ جاری نہیں رکھ سکتے بلکہ کبھی وہ سامنے آئیں گے اور کبھی ارادی طور پر مخفی (گوریلہ) سرگرمیوں میں ملوث رہیں گے۔ لہٰذا جب بھی وہ مکمل طور پر پُرامن ہو جائیں تو وہ اپنے خلاف جنگ کے جواز کی حالت سے نکل آئیں گے، اور اگر وہ عسکری کارروائیوں سے باز رہیں گے تو ان کا خون پہلے کی طر ح دوبارہ حرام ہوگا۔‘‘
فتنہ پروری، دہشت گردی اور خونریزی سے حتی الوسع بچنے کے لئے ائمہ کرام نے ہمیشہ اعتدال پسندی ضبط و تحمل اور ہم آہنگی کا درس دیا ہے۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل ؒنے خلقِ قرآن جیسے ایمانی مسئلے پر شدید دباؤ اور بے پناہ تکلیفیں حتی کہ قید و بند اور کوڑوں کی صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود عامۃ المسلمین کو حکومتِ وقت کے خلاف بغاوت پر نہیں اکسایا۔ خلقِ قرآن کا فتنہ امتِ مسلمہ کے لئے خطرناک ترین فتنوں میں سے ایک تھا جو معتزلہ کے انتہا پسندانہ عقائد کی پیداوار تھا اور اس نے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ خوارج کے فکری وارث ’’معتزلہ‘‘ ریاست کے اہم امور میں اچھی خاصی مداخلت کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور میں بغداد اور بلادِ اسلام کی بڑی بڑی شخصیات حکومتی مخالفت اور مظالم کا شکار ہوئیں جن میں خود امام احمد بن حنبل بھی شامل تھے۔ اسی فتنہ خلقِ قرآن کے سبب آپ کو کوڑے مارے گئے اور آپ کی شہادت واقع ہو گئی لیکن زندگی بھر آپ نے لوگوں کو بغاوت اور حکومت کے خلاف مسلح خروج سے روکے رکھا۔ آپ کی استقامت اور صبر و تحمل کے یہ واقعات بہت سی معروف کتب میں منقول ہیں۔ چنانچہ ابوبکر خلال نے اپنی کتاب ’’السنۃ‘‘ میں صحیح اسناد کے ساتھ اس کی تفصیل بیان کی ہے۔
حضرت ابو حارث فرماتے ہیں کہ انہوں نے امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل سے بغاوت کی اس تحریک کے متعلق پوچھا جو بغداد میں حکومت کے خلاف چل رہی تھی۔ کیونکہ بنو عباس کے حکمران معتزلہ سے متاثر ہو کر عامۃ المسلمین کے لئے مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ امام احمد بن حنبل سے جب حکومت مخالف بغاوت میں شمولیت اور سرپرستی کی درخواست کی گئی تو آپ نے جو کلمات ادا فرمائے وہ کتنے واضح اور صریح ہیں، ملاحظہ ہوں:
سُبْحَانَ اللهِ، الدِّمَائَ، الدِّمَائَ، لَا أَرَی ذَلِکَ، وَلاَ آمُرُ بِہِ، الصَّبْرُ عَلَی مَا نَحْنُ فِیہِ خَیْرٌ مِنَ الْفِتْنَۃِ یُسْفَکُ فِیهَا الدِّمَاءُ، وَیُسْتَبَاحُ فِیهَا الأَمْوَالُ، وَیُنْتَهَکُ فِیهَا الْمَحَارِمُ.
خلال، السنۃ، باب الإنکار علی من خرج علی السلطان: 132، رقم: 89
اِس روایت کی سند صحیح ہے۔
’’سبحان الله۔ خونریزی؟ خونریزی؟ میں اسے جائز نہیں سمجھتا۔ نہ میں اس کا حکم دیتا ہوں۔ ہم (حکومتی دباؤ کے نتیجے میں) جس صورت حال سے دوچار ہیں اس پر صبر کرنا اس فتنہء بغاوت سے بہتر ہے جس میں مسلمانوں کے ناحق خون بہائے جائیں، مال لوٹے جائیں اور عزتیں اور حرمتیں پامال ہوں۔‘‘
لوگوں نے پھر اصرار کیا اور کہا کہ کیا آج ہم ایک ایسے فتنہ میں مبتلاء نہیں جس کو ختم کرنے کے لئے جہاد ضروری ہو جاتا ہے؟ مخاطب کی بات سن کر آپ نے فرمایا: بلاشبہ یہ ایک فتنہ ہے جو تھوڑے دنوں میں ختم ہو جائے گا لیکن اگر اس کے مقابلے میں تلواریں نیام سے نکل آئیں تو قتل عام ہوگا اور امن اور خیر کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ لہٰذا آپ ان حالات کو صبر و تحمل کے ساتھ گزارنے کی تلقین فرماتے رہے۔
خلیفہ واثق باللہ کے عہد میں بغاوت نے جب زیادہ زور پکڑ لیا تو تمام فقہاے بغداد جمع ہو کر امام احمد بن حنبلؒ کے پاس حاضر ہوئے اور بگڑتی ہوئی صورت حال کا تذکرہ کیا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ تمام جلیل القدر علماء نے متفقہ طور پر عرض کیا کہ ہم آپ سے مشورہ کرنے آئے ہیں کیونکہ ہم تو حکومتی موقف سے تنگ آ چکے ہیں اور خلیفہ واثق باللہ کے خلاف بغاوت میں شامل ہو کر اس کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ آپ نے انہیں سمجھایا اور فرمایا کہ بلاشبہ معاملہ خطرناک ہو چکا ہے مگر آپ لوگ حکومت کی اتھارٹی اور حاکمیت کو چیلنج کرنے کا ارادہ ترک کر دیں۔ امام احمد بن حنبل نے زور دے کر فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِالنَّکِرَۃِ بِقُلُوبِکُمْ، وَلاَ تَخْلَعُوا یَدًا مِنْ طَاعَۃٍ، وَلاَ تَشُقُّوا عَصَا الْمُسْلِمِینَ، وَلاَ تَسْفِکُوا دِمَائَ کُمْ وَدِمَائَ الْمُسْلِمِینَ مَعَکُمْ، انْظُرُوا فِی عَاقِبَۃِ أَمْرِکُمْ، وَاصْبِرُوا حَتَّی یَسْتَرِیحَ بَرٌّ، أَوْ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ۔ لاَ، ہٰذَا خِلاَفُ الآثَارِ الَّتِی أُمِرْنَا فِیهَا بِالصَّبْرِ.
خلال، السنۃ، باب الإنکار علی من خرج علی السلطان: 133، رقم: 90
’’تم دل میں اس مسئلہ کو برا سمجھو لیکن حکومت وقت کی حاکمیت یعنی نظم اور اتھارٹی کو چیلنج نہ کرو اور مسلمانوں کی قوت اور وحدت کو نہ توڑو اور اپنا اور مسلمانوں کا خون مت بہاؤ اور اپنے اس معاملہ کے انجام پر غور کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ نیک آدمی کو آرام ملے یا فاسق و فاجر سے چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ اور یہ خروج ان آثار (یعنی صحابہ و تابعین کی روایات اور تعلیمات) کے خلاف ہے جن میں ہمیں ایسے حالات میں صبر کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘
اَمیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان ثوریؒ (م 161ھ) سے لوگوں نے خلیفہ ہارون الرشید کے مقابلے میں مسلح جدوجہد کے متعلق فتویٰ مانگا اور آپ کو باغیانہ تحریک میں شمولیت کی طرف متوجہ کیا لیکن آپ نے بھی لوگوں کو سمجھایا اور صبر و تحمل کے ساتھ فتنے سے دور رہنے کی تلقین فرمائی اور سائل سے کہا:
کَفَیْتُکَ هٰذَا الأَمْرَ، وَنَقَّرْتُ لَکَ عَنْهُ، اجْلِسْ فِی بَیْتِکَ.
خلال، السنۃ، باب الإنکار علی من خرج علی السلطان: 137، رقم: 96
’’میں نے تجھے اس معاملہ سے بے نیاز کر دیا ہے اور معاملے کی وضاحت کر دی ہے۔ تم اس بغاوت کی تحریک سے بالکل الگ رہو۔‘‘
اما م ماوردیؒ (م 450ھ) نے ’’الأحکام السلطانیۃ‘‘ میں باغیوں اور دہشت گر دوں کے بارے میں تفصیلی احکام بیان کئے ہیں۔ ان کا قول ہے کہ باغیوں سے جنگ کی جائے گی تا آنکہ وہ حکومت کے نظم کو تسلیم کر لیں۔ امام ماوردیؒ نے اس امر کا استنباط سورۃ الحجرات کی درج ذیل آیت نمبر 9 سے کیا ہے:
وَإنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَأَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْأُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتی تَبْغِی حَتّٰی تَفِیئَ إِلٰی أَمْرِ اللهِ فَإِنْ فَائَتْ فَأَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوْا إنَّ اللهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo
’’اور اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرادیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہورہا ہے یہاں تک کہ وہ الله کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پھر اگر وہ رجوع کر لے تو دونوں کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لو، بے شک الله انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے۔‘‘
امام ماوردیؒ نے اس آیت مبارکہ سے درج ذیل نکات اخذ کئے ہیں:
1. وفی قوله: {فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَی الْأُخْرٰی} وجهان: أحدهما بغت بالتعدی فی القتال؛ والثانی بغت بالعدول عن الصلح.
’’آیتِ مذکورہ کے الفاظ فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْأُخْرٰی کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ جنگ میں زیادتی کر کے باغی ہوجائے، دوسرا یہ کہ صلح سے رُوگردانی کر کے باغی ہو جائے۔‘‘
2. وقولہ {فَقَاتِلُوا الَّتی تَبْغِی} یعنی بالسیف ردعا عن البغی وزجرا عن المخالفۃ.
’’فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ کا مطلب یہ ہے کہ ان سے مسلح جنگ کی جائے تاکہ وہ بغاوت اور مخالفت سے باز آجائیں۔‘‘
3. وفی قولہ تعالی: {حَتَّی تَفِیئَ إِلَی أَمْرِ الله}: حتی ترجع إلی الصلح الذی أمر الله تعالٰی بہ وهو قول سعید بن جبیر.
’’حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللهِ کا حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ مفہوم بیان کیا ہے تاآنکہ اُس صلح کی جانب لوٹ آئیں جس کا اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘
4. {فَإِنْ فَآئَتْ} أی رجعت عن البغي.
ماوردی، الأحکام السلطانیۃ: 59
’’فَاِنْ فَآئَتْ کا مطلب یہ ہے کہ بغاوت ترک کر دیں۔‘‘
فقہ حنفی کے عظیم امام شمس الائمہ امام سرخسی (م 483ھ) نے باغی گروہ کی سرکوبی کو نہ صرف جائز بلکہ فرض قرار دیا ہے۔ ذیل میں امام سرخسیؒ کا فتویٰ ملاحظہ ہو:
فحینئذ یجب علی من یقوی علی القتال أن یقاتل مع إمام المسلمین الخارجین لقولہ تعالی: {فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ (الحجرات، 49: 9)} والأمر حقیقۃ للوجوب، ولأن الخارجین قصدوا أذی المسلمین وإماطۃ الأذی من أبواب الدین، وخروجھم معصیۃ ففی القیام بقتالھم نھی عن المنکر وھو فرض ولأنھم یہیجون الفتنۃ. قال ﷺ: الفتنۃ نائمۃ لعن الله من أیقظھا. فمن کان ملعونا علی لسان صاحب الشرع صلوات الله علیہ یقاتل معہ.
سرخسی، کتاب المبسوط، 10: 124
’’پس اس وقت ہر اس شخص پر جو جنگ میں شرکت کرنے کی طاقت اور قوت رکھتا ہو واجب ہوگا کہ وہ الله تعالیٰ کے اس قول کے مطابق {پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہورہا ہے} باغیوں کے خلاف مسلم حکومت کی مدد کرے۔ یہاںامر، وجوب کے لئے آیا ہے کیونکہ خروج و بغاوت کرنے والوں نے مسلمانوں کو اذیت دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اسی طرح تکلیف و اذیت کو دور کرنا دین کے امور میں سے ہے اور ان کا یہ خروج معصیت کے زمرہ میں آتا ہے۔ سو ان کے خلاف جہاد کرنا نہی عن المنکر ہے جو کہ فرض ہے اس لئے کہ وہ فتنہ کو ہوا دیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: فتنہ سویا ہوا ہوتا ہے اور الله تعالیٰ اس شخص پر لعنت بھیجے جس نے اسے جگایا۔ اور جو صاحبِ شریعت علیہ الصلاۃ والسّلام کی زبان اقدس سے ملعون قرار پا چکا اس کے خلاف جہاد کیا جانا چاہیے۔‘‘
فقہ حنفی کی مشہور کتاب بدائع الصنائع کے مصنف امام کاسانیؒ (م 587ھ) کا فتویٰ ہے کہ باغی دہشت گردوں کو فساد فی الارض کے خاتمہ کے لئے قتل کیا جانا چاہئے۔ وہ لکھتے ہیں:
ولأنهم ساعون فی الأرض بالفساد، فیقتلون دفعا للفساد علی وجه الأرض. وإن قاتلهم قبل الدعوۃ لا بأس بذلک، لأن الدعوۃ قد بلغتهم لکونهم فی دار الإسلام ومن المسلمین أیضا. ویجب علی کل من دعاه الإمام إلی قتالھم أن یجیبه إلی ذلک، ولا یسعه التخلف إذا کان عنده غنا وقدرۃ لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض، فکیف فیما ھو طاعۃ.
کاسانی، بدائع الصنائع، 7: 140
’’چونکہ وہ دہشت گردی کے مرتکب ہوتے ہیں سو انہیں دہشت گردی کے خاتمہ کی خاطر قتل کیا جائے گا۔ اور اگر حکومت انہیں (راہ راست پر آنے کی) دعوت دینے سے پہلے ہی ان کے ساتھ جنگ کرے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ دعوت انہیں پہنچ چکی ہے، وہ مسلم ملک میں ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ہر اس شخص پر واجب ہے جس کو حکومتِ وقت ان کے خلاف جنگ کرنے کی دعوت دے کہ وہ حکومت کی دعوت کو قبول کرے اور اس کے لئے جنگ سے پیچھے رہنے کی گنجائش نہیں ہے جبکہ وہ جنگ کی طاقت اور قدرت رکھتا ہو کیونکہ حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم کرنا جس میں کوئی معصیت نہ ہو فرض ہے، اور جو چیز ہو ہی معصیت سے خالی تو اس کو ماننا تو بدرجہ اولیٰ لازم ہے۔‘‘
مسلمان ریاست میں کلمہ گو لوگوں کو قتل کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کب تک جاری رکھی جانی چاہئے اس پر فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’الہدایۃ‘‘ کے مصنف امام مرغینانی (م 593ھ) فرماتے ہیں:
وإذا تغلب قوم من المسلمین علی بلد، وخرجوا من طاعۃ الإمام، دعاھم إلی العود إلی الجماعۃ، وکشف عن شبہتہم لأن علیا رضی اللہ عنہ فعل ذلک بأھل حروراء قبل قتالھم، ولأنہ أھون الأمرین ولعل الشر یندفع بہ، فیبدأ بہ ولا یبدأ بقتال حتی یبدؤہ، فإن بدؤہ قاتلهم حتی یفرق جمعھم.
مرغینانی، الھدایۃ آخرین، کتاب السیر، باب البغاۃ: 573
’’جب مسلمانوں کا کوئی گروہ کسی علاقہ پر قبضہ جمالے اور مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کر دے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں اپنی عمل داری میں آنے کی دعوت دے اور ان کے شبہات کا ازالہ کرے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل حروراء کے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے ایسا ہی کیا تھا اس لئے کہ یہ دو کاموں (جنگ اور مذاکرات) میں سے آسان کام ہے اور اس لئے بھی کہ شاید فتنہ اس سے ختم ہو جائے۔ سو اسی سے آغاز کیا جائے اورجنگ کی ابتداء نہ کی جائے یہاں تک کہ وہ اس میں پہل کریں۔ پس اگر وہ جنگ میں پہل کرتے ہوئے ہتھیار اٹھا لیں تو ان کے ساتھ خوب لڑائی کرو یہاں تک کہ ان کی جمعیت منتشر ہو جائے اور ان کی قوت کا خاتمہ ہو جائے۔‘‘
امام ابن قدامہ المقدسی (م 620ھ) نے ’’المغنی‘‘ میں ’’قتال أھل البغی‘‘ کے عنوان سے باب باندھا ہے جس میں اُنہوں نے باغیوں سے متعلق محدثین کرام کے حوالے سے یہ فتویٰ دیاہے:
وذهبت طائفۃ من أہل الحدیث إلی أنهم کفار مرتدون، حکمهم حکم المرتدین وتباح دماؤهم وأموالهم. فإن تحیزوا فی مکان وکانت لهم منعۃ وشوکۃ، صاروا أهل حرب کسائر الکفار، وإن کانوا فی قبضۃ الإمام استتابهم کاستتابۃ المرتدین۔ فإن تابوا وإلا ضربت أعناقهم، وکانت أموالهم فیئا لا یرثهم ورثتهم المسلمین.
ابن قدامۃ، المغنی، 9: 4
’’محدثینِ کرام کے ایک طبقہ کے مطابق باغی دہشت گرد کافر اور مرتد ہیں اور ان کا حکم مرتدین جیسا ہوگا، اُن کے خون اور مال کو مباح قرار دیا جائے گا۔ اگر وہ اپنے آپ کو ایک جگہ محدود کرلیں اور ان کے پاس قوت اور محفوظ پناہ گاہیں ہوں تو وہ لوگ برسر پیکار کفار کی طرح اہلِ حرب ہو جائیں گے۔ اور اگر وہ حکومتِ وقت کے دائرہ اختیار میں ہوں تو انہیں توبہ کا موقع دیا جائے گا، اگر وہ توبہ کرلیں تو ٹھیک ورنہ ان کی گردنیں اُڑا دی جائیں گی اور ان کے مال ’’مالِ فَے‘‘ شمار ہوں گے، ان کے مسلمان ورثاء ان کے وارث نہیں ہوں گے۔‘‘
امام نووی (م 676ھ) نے اپنی کتاب ’’روضۃ الطالبین‘‘ میں لکھا ہے کہ باغی دہشت گردوں کو قتل کرنا اِجماعِ صحابہ سے ثابت ہے۔ انہوں نے کہا ہے:
قال العلماء: ویجب قتال البغاۃ ولا یکفرون بالبغی، وإذا رجع الباغی إلی الطاعۃ قبلت توبتہ وترک قتالہ، وأجمعت الصحابۃ رضوان اللہ علیهم اجمعین علی قتال البغاۃ.
نووی، روضۃ الطالبین، 10: 50
’’تمام علماء نے کہا ہے: باغیوں کو قتل کرنا واجب ہے اور ان کو بغاوت کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جائے گا اور باغی اگر اطاعت کی طرف رجوع کرلے تو اُس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اس کے ساتھ جنگ ترک کر دی جائے گی۔ بغاوت کرنے والوں کے قتل پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا۔‘‘
امام نووی نے اپنی کتاب ’’روضۃ الطالبین‘‘ میں باغی دہشت گردوں کی تکفیر کے حوالے سے جمہور کا مؤقف ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وأطلق البغوی أنهم إن قاتلوا فهم فسقۃ وأصحاب بهت، فحکمهم حکم قطاع الطریق۔ فهذا ترتیب المذهب والمنصوص، وما قاله الجمهور وحکی الإمام فی تکفیر الخوارج وجهین. قال: فإن لم نکفرهم فلهم حکم المرتدین، وقیل حکم البغاۃ۔ فإن قلنا کالمرتدین لم تنفذ أحکامهم.
نووی، روضۃ الطالبین، 10: 51، 52
’’امام بغوی نے علی الااطلاق کہا ہے کہ اگر وہ جنگ کریں تو وہ فاسق اور جھوٹے لوگ ہیں۔ پس ان کا حکم ڈاکوؤں کے حکم کی طرح ہوگا۔ یہ مذہب اور نص کی ترتیب ہے، یہی جمہور نے کہا ہے۔ امام بغوی نے خوارج کی تکفیر میں بیان کیا ہے کہ اِس میں دو صورتیں ہیں۔ انہوںنے کہا ہے: اگر ہم ان کو کافر قرار نہ دیں تو ان کے لئے مرتدین کا حکم ہو گا اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ اُن پر باغیوں کا حکم عائد ہوگا۔ پھر اگر ہم اُنہیں مرتدین کی طرح کہیں تو ان کے اَحکام نافذ نہیں کئے جائیں گے۔‘‘
جان و مال کی حفاظت چونکہ حکومت وقت کا فرض ہے اس لئے امن و امان برباد کرنے اور معاشرے میں خوف و ہراس پھیلانے والوں کے خلاف مسلم حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹے تاکہ حکومتی نظم بحال ہو۔ ایسی صورت میں لوگوں پر ضروری ہے کہ وہ حکومت کی مکمل تائید کریں۔ فتاویٰ تاتارخانیۃ میں علامہ عالم بن العلاء الاندریتی الدہلوی (م 786ھ) نے یہ فتویٰ دیاہے:
یجب أن یعلم أن أھل البغي قوم من المسلمین، یخرجون علی الإمام العدل ویمتنعون عن أحکام أھل العدل، فالحکم فیھم أنھم إذا تجھزوا واجتمعوا حل لإمام أھل العدل أن یقاتلھم، وعلی کل من یقدر علی القتال أن یقوم بنصرۃ إمام أھل العدل.
اندریتي، الفتاوی التاتارخانیۃ، 4: 172
’’اس بات کا جاننا ازحد ضروری ہے کہ مسلمانوں میں سے وہ دہشت گرد اور باغی عناصر جو مسلم ریاست کے خلاف خروج یعنی مسلح جدوجہد کرتے ہیں اور عدالتی احکامات کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ جب وہ عسکری طور پر تیاری کر لیں اورمسلح کارروائی کے لئے جمع ہو جائیں تو حکومت کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ان دہشت گرد باغیوں کے خلاف جنگ و قتال کرے اور اس ملک کے ہر اس شہری پر حکومت کی اعانت وحمایت لازم ہو جاتی ہے جو کسی حوالے سے بھی جنگ کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہے۔‘‘
امام ابراہیم بن محمد عبد الله بن مفلح الحنبلی (م 884ھ) نے بھی امام نووی کی طرح دہشت گرد باغیوں کو رجوع کی دعوت نہ ماننے پر قتل کرنے کا فتویٰ دیا ہے۔
أصل من کفر أهل الحق والصحابۃ واستحل دماء المسلمین فهم بغاۃ فی قول الجماهیر، تتعین استتابتهم، فإن تابوا وإلا قتلوا علی إفسادهم لا علی کفرهم.
ابن مفلح، المبدع، 9: 160
’’دراصل جس آدمی نے اہلِ حق اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو کافر قرار دیا (جیسا کہ خوارج نے کیا) اور مسلمانوں کے خون حلال کر لیے تو جمہور کے قول کے مطابق یہ باغی ہیں۔ ان کے لیے یہ بات متعین ہے کہ اُن سے توبہ طلب کی جائے۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں توٹھیک ورنہ انہیں ان کے فساد پھیلانے کی وجہ سے قتل کردیا جائے گا نہ کہ ان کے کفر کی وجہ سے۔‘‘
وہ مزید لکھتے ہیں:
فإن فاؤوا وإلا قاتلهم وعلی رعیته معونته علی حربهم، فإن استنظروه مدۃ رجا فلا یمکن ذلک فی حقهم، فإن أبوا الرجوع وعظهم وخوفهم القتال لأن المقصود دفع شرهم لا قتلهم، فإن فاؤوا أی رجعوا إلی الطاعۃ وإلا قاتلهم أی یلزم القادر قتالهم لإجماع الصحابۃ علی ذلک.
ابن مفلح، المبدع، 9: 161
’’پھر اگر وہ باز آئیں تو درست ورنہ ان سے جنگ کی جائے گی اور ریاست کے شہریوں پر فرض ہے کہ وہ ان کے خلاف جنگ میں حکومت کی مدد کریں۔ پھر اگر یہ خوارج (یا ان کی مثل دیگر دہشت گرد گروہ) کچھ مدت کے لیے مہلت مانگیں تو ان کے حق میں یہ ممکن نہیںہے۔ پھر اگر وہ اپنی روِش سے باز آنے سے انکار کر دیں تو حکومت ان کو نصیحت کرے اور جنگ سے ڈرائے کیونکہ مقصود ان کا قتل نہیں بلکہ ان کے شر کو دور کرنا ہے۔ اگر وہ حکومت کا نظم اور اتھارٹی تسلیم کرلیں تو ٹھیک ورنہ حکومت ان کے خلاف جنگ کرے یعنی ان پر قدرت رکھنے والی حکومت پر ان کے خلاف جنگ کرنا لازم ہے کیونکہ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع ہے۔‘‘
فقہاے احناف کی جلیل القدر کتاب ’’البحر الرائق شرح کنز الدقائق‘‘ کے مصنف علامہ زین الدین بن نجیم حنفی (م 970ھ) نے دہشت گردی اور بغاوت کے احکامات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد بن محمود النسفی (710ھ) کی ’’کنز الدقائق‘‘ میں ایک قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قولہ خرج قوم مسلمون عن طاعۃ الإمام وغلبوا علی بلد دعاهم إلیه وکشف شبهتهم بأن یسألهم عن سبب خروجهم، فإن کان لظلم منه أزاله وإن قالوا الحق معنا والولایۃ لنا، فهم بغاۃ، لأن علیا رضی الله عنه فعل ذلک بأهل حروراء قبل قتالهم ولأنه أهون الأمرین. ولعل الشر یندفع به، فیبدأ به استحبابا لا وجوبا. فإن أهل العدل لو قاتلوهم من غیر دعوۃ إلی العود إلی الجماعۃ، لم یکن علیهم شیئ، لأنهم علموا ما یقاتلون علیه، فحالهم کالمرتدین وأهل الحرب بعد بلوغ الدعوۃ.
ابن نجیم، البحر الرائق، 5: 151
’’امام نسفی کا یہ کہنا کہ وہ مسلمان قوم ہیں جو مسلم حکومت کی اطاعت سے نکل آئے اور کسی شہر پر انہوںنے غلبہ حاصل کر لیا تو ان کو حاکم وقت بلائے اور ان کے شبہات کو دور کرے۔ ان سے ان کے خروج کا سبب معلوم کرے۔ اگر حاکم کی طرف سے ظلم ہو رہا ہے تو اس کا ازالہ کیا جائے۔ اگر وہ لوگ اصرار کرتے ہوئے کہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں یعنی باقی لوگ گمراہ ہیں اور حکومت کا حق صرف ہمیں حاصل ہے تو یہ باغی لوگ ہیں اور ایسے باغیوں کی سزا مرتدین کی طرح ہو گی کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہلِ حروراء کے ساتھ لڑنے سے پہلے یہی عمل کیا تھا اور اس لئے بھی کہ یہ لڑائی اور مذاکرات میں سے آسان طریقہ ہے۔ ممکن ہے کہ شر اس سے دور ہو جائے اور قتال کی نوبت نہ آنے پائے، اس لئے اسی سے ابتدا کرنا بہتر اور مستحب ہے مگر لازم نہیں۔ کیونکہ اگر مسلمان حکومت انہیں جماعت کی طرف پلٹ آنے کی دعوت نہ بھی دے اور ان سے جنگ کرے تو بھی حکومت پر شرعاً کوئی گناہ نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کو پتہ ہے کہ جنگ کس وجہ سے ہو رہی ہے۔ ان کا حال مرتدوں اور اہلِ حرب کافروں جیسا ہے جن کے پاس دعوت پہنچ چکی ہے۔‘‘
علامہ عبد الرحمن الجزیری (م 1359 ھ) ’’الفقہ علی المذاھب الأربعۃ‘‘ میں جمہور فقہاء کی تائید کرتے ہوئے شر پسندوں کے خلاف جنگ کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
لو خرج جماعۃ علی الإمام ومنعوا حقا ﷲ أو لآدمي، أو أبوا طاعتہ یریدون عزلہ، ولو کان جائرا، فیجب علی الإمام أن ینذر ھؤلاء البغاۃ، ویدعھم لطاعتہ، فإن ھم عادوا إلی الجماعۃ ترکھم، وإن لم یطیعوا أمرہ قاتلھم بالسیف.
جزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، 5: 419
’’اگر لوگوں کا ایک گروہ مسلمان حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرے اور حقوق الله یا حقوق العباد کی ادئیگی میں رکاوٹ پیدا کرے یا حکومت کی معزولی کے ارادے سے اس کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کرے خواہ یہ حکومت خطا کار ہی ہو تو حکومت وقت پر لازم ہے کہ ان سرکشوں کو انجام بد سے ڈرائے اور انہیں حکومت کی اتھارٹی اور نظم کو ماننے کی دعوت دے، پس اگر وہ مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کی حاکمیت کی طرف پلٹ آئیں تو انہیں چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کریں تو حکومت ان کے خلاف جنگ کرے۔‘‘
درج بالا فتاوی کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذاہب اربعہ کے جملہ ائمہ کبار اس بات پر متفق ہیں کہ مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں خواہ اس کی کچھ بھی تاویل کی جائے۔ ریاست کا نظم اور اتھارٹی قائم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور مسلم ریاست کے جملہ شہریوں کو مسلح بغاوت کی سرکوبی میں ریاست کی معاونت اور مدد کرنی چاہیے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved