یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اِسلام اَمنِ عالم کا داعی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ماننے والوں کو قدم قدم پر تحمل و برداشت اور اِعتدال و توازن کی تلقین کرتا ہے۔ اِسلام میں ایک مسلمان کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی قدر و قیمت اور حرمت و تقدس کس قدر ہے؟ یہ جاننے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس فرمان ذی شان پر غور کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طواف کی حالت میں کعبہ معظمہ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’(اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، (تیری ان تمام عظمتوں کے باوجود) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ اسی طرح دوسرے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک مومن کے قتل کو پوری دنیا کی تباہی وبربادی سے بھی زیادہ افسوس ناک اور بڑا قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا کم نقصان دہ ہے۔‘‘
جمہور مسلمانوں پر شرک و بدعت کے فتوے لگا کر ان کے خون کو مباح قرار دینے والے دہشت گردوں کے اَحوال و ظروف، مجالست و مصاحبت اور نفسیات کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اُمت کی اجتماعی دانش، جدید عصری علوم اور اَفکارِ تازہ سے عدمِ اِستفادہ کی وجہ سے اُن کی ذہنی و فکری تربیت نہایت ہی تنگ نظری کے ماحول میں ہوئی ہے۔ اِنتہا پسندی اِسی تنگ نظری کا نتیجہ ہے جو اِنسان کو جارحیت پر اُکساتی ہے اور پھر جارحیت کا منطقی نتیجہ دہشت گردی (terrorism) کی بھیانک صورت میں رُونما ہوتا ہے۔ مسلمانوں کو بلا وجہ قصداً قتل کرنے والے ایسے ظالم و سفاک لوگوں کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا (اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا) فرما کر ان کی درد ناک سزا کی شدّت و حدّت میں کئی گنا اضافہ کردیا۔
کتنے اَفسوس کا مقام ہے کہ دنیا کو اِحترامِ آدمیت، حرمتِ انسانیت اور محبت و یگانگت کا درس دینے والے مسلمان آج خود نفرت و تصادم، اِفتراق و اِنتشار اور جبر و تشدد کا شکار ہیں۔ دین کے ناقص اور ادھورے فہم کی وجہ سے آج حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ محض فکری و نظریاتی اور اِعتقادی اختلاف کی وجہ سے اپنے مخالفین کو قتل کرنا اور ان کے مال و جان کو تلف کرنا باعثِ اجر و ثواب سمجھا جانے لگا ہے۔زیر نظر کتابچہ میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدّ ظلّہ العالی نے اسی خطرناک فکری مغالطے کے اِزالے کی کامیاب اور قابل تحسین کوشش کی ہے۔ یہ کتابچہ حضرت شیخ الاسلام مدّ ظلّہ العالی کے دہشت گردی کے خلاف ضخیم تاریخی فتوے کا ایک اہم باب ہے جس میں آپ نے مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حرمت بیان کرتے ہوئے اِسلام اور جہاد کے نام پر خونِ مسلم سے ہولی کھیلنے والوں کے سفاک چہروں کو ناقابلِ تردید دلائل سے بے نقاب کیا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ عزوجل مسلمانوں کو باہمی اِتحاد و اِتفاق، محبت و رواداری اور بھائی چارے کی توفیق عطا فرمائے اور جسدِ ملت کو کَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کا عملی پیکر بنائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
(محمد اَفضل قادری)
سینیئر رِیسرچ اسکالر، فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
13 رمضان المبارک، 1431ھ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved