عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شرک سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اِن دونوں کی متقابل اقسام کو سمجھا جائے جن کو محققین نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔ وہ خطباء، مقررین اور طلباء جو اپنے علم و فن کے میدان میں طاق اور ماہر نہیں ہوتے مگر بزعمِ خویش خود کو علماء کی صف میں شمار کرتے ہیں اپنے عقائد کے باب میں فکری و اعتقادی واضحیت Clarity نہیں رکھتے۔ لہٰذا وہ بہت سے اُمور خلط ملط اور گڈ مڈ کر دیتے ہیں اور ایسی ایسی چیزوں کو زیرِ بحث لاتے ہیں جن کا تعلق نہ عقیدۂ توحید سے ہوتا ہے اور نہ شرک سے۔ ایسے لوگ خود بھی فکری اُلجھنوں میں مبتلا رہتے ہیں اور دوسروں کی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی نہیں کر سکتے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ عقائد کے باب میں صحیح تصورات کو سمجھا جائے۔ اُمتِ مسلمہ کے جو افراد بلاوجہ مسلمانوں کی واضح اکثریت سوادِ اعظم پر فتویٰ لگا کر ان کو مشرک و بدعتی گردانتے ہیں اور انہیں دائرۂ اِسلام سے بیک جنبشِ لب خارج کر دیتے ہیں اِن کے نقطۂ نظر میں توازن و اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملتِ اِسلامیہ کے اندر افتراق، انتشار اور خلفشار کی جو فضا پائی جاتی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔ آئندہ صفحات میں توحید اور شرک کی اقسام کا اجمالی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ اس سے یہ امر بخوبی نکھر کر سامنے آجائے گا کہ کسی چیز پر شرک کا اطلاق تب ہو گا جب اس کے ذریعے توحید کی اُس قسم کی نفی ہوگی جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہو۔
ائمۂ عقائد و کلام نے توحید کی مندرجہ ذیل پانچ اقسام بیان کی ہیں :
ذیل میں ان پانچوں کی مختصراً وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔
توحید فی الرُّبوبیت کو توحیدِ اثبات کہتے ہیں۔ درحقیقت توحید فی الربوبیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے واجبُ الوجود ہونے پر اور اُس کی وحدتِ مطلقہ پر ایمان لایا جائے اور اِس امر کا اقرار کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک رب اور پروردگار ہونے میں کوئی اس کا شریک نہیں۔ توحید کی یہ قسم اللہ تعالیٰ کو خالق، مالک، رازق، پروردگار اور مدبر الامور جاننے اور ماننے سے عبارت ہے۔
توحید فی الالوہیت کو توحیدِ عبادت بھی کہتے ہیں۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، صرف اسی کی ذات اِس قابل اور لائق ہے کہ اِس کی عبادت کی جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور یہ حق نہیں رکھتا کہ اُس کی پرستش کی جائے۔
جس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے واحد اور یکتا ہے اسی طرح اسماء و صفات اور افعال کے اعتبار سے بھی واحد اور یکتا ہے۔ پھر جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس بے مثل ہے اسی طرح اس کے خاص اسماء و صفات اور افعال میں بھی کوئی اس کا شریک و مثیل نہیں۔
توحید فی التحریم سے مراد یہ ہے کہ نذر یعنی منت اور تحریمات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے خاص ہیں۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ احکامِ شریعت کو مانا جائے جنہیں اُس نے بذریعہ وحی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے اُمت کو عطا کئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ احکام بھی اللہ رب العزت ہی کے عطا کردہ تصور ہوں گے کسی اور کے اقوال کو قرآن و سنت جیسی حجت نہیں مانا جائے گا۔
اِن پانچوں اقسام کے تفصیلی فہم کے لئے انکی مزید تقسیم بھی کی گئی ہے۔ جس کا اجمالی خاکہ درج ذیل ہے۔
اس کی مندرجہ ذیل دو اقسام ہیں :
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے، کوئی اس کا شریک اور ہمسر نہیں۔ اس کی بیوی نہیں، اِس کے والدین اور اولاد نہیں جیسا کہ سورہ اخلاص میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات کا خالق اور مالک بالذات ہے اور اُس کی خالقیتِ مطلقہ میں کوئی شریک نہیں۔
اِس کی مندرجہ ذیل چار اقسام ہیں :
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کا حقدار اور کوئی نہیں صرف وہی ذات ہے جو عبادت کی مستحق ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق، شہنشاہِ کل اور متصرف علی الاطلاق اور قادر بالذات ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اکیلا و تنہا حقدار ہے کہ جملہ دعائیں، التجائیں اور مناجات اُس سے کی جائیں۔ شدائد و مصائب میں صرف اور صرف اُسی پر توکل کیا جائے۔ حقیقی مستجابُ الدّعوات اُسی کی بارگاہ ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب و الشہادۃ ہے۔ اس کا علم بالذات، بالقدرت، کلی اور ’’وَلاَ يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ‘‘ کی شان کا حامل ہے۔
اس کی مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں :
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء میں کوئی شریک نہیں وہ اپنے ناموں میں بھی واحد و یکتا ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں کوئی اس کا شریک نہیں۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص افعال میں کوئی اُس کا شریک نہیں۔ وہ تدبر فی الامور میں واحد، یکتا و یگانہ ہے۔
توحید فی التحریم کی تین اقسام مندرجہ ذیل ہیں :
توحید فی التحریمات سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے متعین کئے گئے بعض مقامات، مہینے، قربانی کے جانور، نذر و نیاز، حلف اور احکام کی حلت و حرمت کو اﷲ تعالیٰ کے لئے ہی مختص سمجھا جائے۔
اللہ تعالیٰ کے لئے پیش کردہ قربانیوں اور منتوں میں توحید کا معنی یہ ہے کہ منت صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے، کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ اسی طرح نذر، صدقہ اور خیرات بطور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے کسی اور کے لئے نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے نام پر اُٹھائی جانے والی قسم اور حلف میں توحید یہ ہے کہ شرعی حلف صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے کسی اور کے لئے جائز نہیں۔ اسی پر احکامِ شرعی مرتب ہوں گے۔
توحید فی الاحکام کی دو قسمیں ہیں :
اللہ تعالیٰ کا وہ ازلی فرمان جو کائنات کو وجود میں لانے کے لئے جاری ہوا۔
اس سے مراد شارع کا وہ خطاب ہے جس سے کوئی شرعی مسئلہ معلوم ہو جائے۔
ائمۂ عقائد اور اُصولےین نے جس طرح توحید کی اقسام بیان کی ہیں اِسی طرح اِس کے مدِ مقابل شرک کی اقسام بھی بیان کی ہیں۔ توحید کی طرح شرک کی بھی پانچ اقسام مندرجہ ذیل ہیں :
اللہ تعالیٰ کے واجب الوجود ہونے اور اس کی وحدتِ مطلقہ پر ایمان نہ لانا توحیدِ ربوبیت میں شرک ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی غیر کو اُس کی عبادت میں شریک مانا جائے۔
توحید فی الاسماء و الصفات کے برعکس کسی غیر کو اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء و صفات میں شریک سمجھنا شرک فی الاسماء و الصفات ہے۔
اِس سے مراد یہ ہے کہ نذر یعنی منت اور دیگر تحریمات جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے خاص ہیں انہیں یا اِن کے مماثل تحریمات کو غیر کے لئے ثابت کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے اُمتِ مسلمہ کو جو احکام و تعلیمات عطا فرمائی ہیں وہی قابلِ عمل اور باعثِ نجات ہیں۔ اِن کے علاوہ کسی اور کے احکامات اور تعلیمات کو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت یا اس کے مثل ماننا شرک فی الاحکام کہلاتا ہے۔
درج بالا شرک کی پانچوں اقسام کی مزید تقسیم درج ذیل ہے۔
توحید فی الربوبیت کی طرح شرک فی الربوبیت کی دو قسمیں ہیں :
اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ دوسروں کو اُس کا شریک ٹھہرانا، کسی کو اُس کا ثانی و ہمسر ماننا اور اُس کے لئے بیوی، والدین اور اولاد کا عقیدہ رکھنا شرک فی الذات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو کائنات کا خالق اور مالک بالذات ماننا شرک ہے۔
توحید فی الاُلوہیت کی طرح شرک فی الالوہیت کی چار اقسام ہیں :
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو معبود ماننا شرک فی العبادۃ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو قادرِ مطلق اور حقیقی متصرف بالذات ماننا شرک فی القدرت ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے دعائیں مانگنا اور اس پر دعاؤں کے قبول یا عدمِ قبول کا یقین رکھنا اور اس پر بالذات توکل کرنا شرک فی الدعا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے سواء کسی اور کو عالم بالذات، بالقدرت اور حقیقی معنی میں محیط بالکل سمجھنا شرک فی العلم ہے۔
توحید فی الاسماء و الصفات کی طرح شرک فی الاسماء و الصفات کی تین قسمیں ہیں :
اللہ تعالیٰ کے خاص اسماء میں کسی اور کو شریک سمجھنا شرک فی الاسماء ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ دوسروں کو اُس کی خاص صفات میں شریک ٹھہرانا شرک فی الصفات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کو اُس کے خاص افعال میں شریک ٹھہرانا شرک فی الافعال ہے۔
شرک فی التحریم کی توحید فی التحریم کی طرح تین اقسام ہیں :
جو تحریمات خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہیں انہیں یا اُن کے مماثل تحریمات غیر اللہ کے لئے ثابت کرنا شرک فی التحریمات کہلاتا ہے۔
کفار و مشرکین کی طرح اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لئے منتیں ماننا، کھیتی باڑی، کاروبار اور چوپایوں کے حصے بطورِ نذر و عبادت ماننا شرک فی النذور کہلاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام کا شرعی حلف اُٹھانا اور اسکے توڑنے پر شرعاً کفارہ کو واجب سمجھنا جیسے کفار و مشرکین لات و عزی اور ھبل و منات کے لئے قسم اُٹھاتے تھے۔ یہ شرک فی الحلف کہلاتا ہے۔
توحید فی الاحکام کی طرح شرک فی الاحکام کی بھی دو قسمیں ہیں :
اللہ تعالیٰ کا وہ ازلی فرمان جو اس نے کائنات کو وجود میں لانے کے لئے جاری فرمایا اس میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی شریک سمجھنا شرک فی الحکم الکونی ہے۔
شارع یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کی طرح کسی اور کے اقوال کو قرآن و سنت جیسی حجت تسلیم کرنا شرک فی الحکم الشرعی ہے۔
توحید اور شرک کی مذکورہ بالا تقسیم کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ شرک کے ثبوت کے لئے توحید کی بالصراحت نفی لازم ہے کیونکہ شرک ایک واضح اور معین شرعی اصطلاح ہے جسے عمومی رنگ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ شرک کا حتمی اور قطعی فیصلہ کرنے کے لئے یہ تعیّن کرنا ضروری ہے کہ جس اَمر کو شرک کا نام دیا جا رہا ہے اُس کا اُلٹ عینِ توحید ہے۔ شرک کوئی ایسی ٹوپی نہیں جسے اپنی صوابدید کے مطابق جس کے سر پر چاہیں رکھ دیں۔ توحید اور شرک دو متقابل اور دو متضاد چیزیں ہیں یعنی ایک کی نفی کرنے سے دوسرے کا اِثبات ہوگا۔ شرک ثابت کرنے کے لئے توحید کی نفی کرنا ہوگی اور صرف یہی نہیں بلکہ یہ تعیّن کرنا بھی لازمی ہوگا کہ شرک کا توحید کے مقابلے میں کون سا درجہ ہے۔ آیا یہ شرک، شرک فی الربوبیت ہے یا شرک فی الالوہیت یا شرک فی التحریم۔
اگر شرک فی الربوبیت ہے تو اِس کا تعین کر کے یہ واضح کیا جائے گا کہ یہ مندرجہ ذیل اقسام میں سے شرک کی کون سی قسم ہے : شرک فی الذات ہے یا شرک فی الصفات، شرک فی الافعال ہے یا شرک فی الاسماء۔ جو شخص کسی پر شرک کا فتویٰ صادر کرے لیکن وہ مدعی، شرک کی قسم کا بالصراحت تعین نہ کرسکے کہ جس سے توحید کی کسی قسم کی نفی اور تضاد کو ثابت کیا جا سکے تو ایسے شخص کا الزامِ شرک باطل تصور کیا جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اقسامِ توحید کے باب میں عبادت کا کسی بھی معنی میں اللہ تعالیٰ کے غیر کے لئے ثبوت بلا استثناء مجازی اور حقیقی، ہر دو معنی کے اعتبار سے شرک ہے۔ البتہ مشترک صفت کا غیر اللہ کے لئے اِستعمال مجازاً جائز ہے۔ حقیقی معنی میں اُس صفت کا اِثبات صرف اللہ تعالیٰ کے لئے جائز ہے مخلوق کے لئے جائز نہیں۔ عطائی معنی میں کسی مشترک صفت کا مخلوق کے لئے ثبوت تب شرک بنتا ہے جب وہ حق، مخلوق کے لئے اُسی طرح ثابت کیا جائے جس طرح اللہ تعالیٰ کے لئے۔ یہ نکتہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ شرک کی تخصیص، شرک کی وضاحت، تعریف اور اقسام کی صحیح معرفت کی متقاضی ہے۔ جب بھی شرک کی بحث ہوگی تو توحید فی الربوبیت، توحید فی الالوہیت اور توحید فی التحریم کی نفی اور اِن کا تضاد ثابت کرنا ہوگا۔ اِن تین صورتوں کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں کہ جس سے شرک ثابت ہو سکے۔
عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شرک کو جاننے کے لئے ایمان کے باب میں الہٰیات کی مبادیات اور تکنیکی اُمور کو شرح صدر سے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ عقیدۂ توحید اور حقیقتِ شرک کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کسی چیز کا مثبت پہلو توحید اور اُس کا منفی پہلو شرک ہے مثلاً اگر ہم دن کو مثبت پہلو کہیں تو اُس کا منفی پہلو رات ہو گا۔ اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دن، ظہر اور عصر باہم متضاد چیزیں ہیں کیونکہ اِن میں تضاد کی کوئی کیفیت پائی ہی نہیں جاتی۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ رات، عشاء اور نصف شب متضاد صورتیں ہیں اِس لئے کہ اِن میں بھی تضاد نام کی کوئی چیز موجود نہیں۔
اس تناظر میں یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ کن چیزوں میں تضاد کار فرما ہے اور کن چیزوں میں نہیں جیسے :
ان مثالوں سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ دو چیزوں کی حقیقت اور ماہیت جاننے کے لیے ان کے درمیان درجہ بندی اور حد بندی کی خصوصیت کا تعیّن ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص اس سے آگاہ نہیں تو پھر کسی چیز کی حد بندی اور اس کے متضاد کو جاننا ممکن نہیں۔
اعتقادی و علمی مباحث کے ادراک کے لئے ضروری ہے کہ نفس مسئلہ کو الگ الگ کر کے اس کا تجزیہ کیا جائے لہٰذا اس خاص منہجِ تحقیق کے لئے مندرجہ ذیل اصطلاحات کو ازبر کر لینا ضروری ہے :
اس اصطلاح میں مخصوص، مقرر اور معیّن ہونے کا مفہوم پایا جاتا ہے، جیسے مطلق ہستی کے مقابلے میں کسی غیر مطلق ہستی اور وجود کا ہونا۔ ہم ایک مخصوص چیز کو زیرِ بحث لاتے ہوئے کسی موضوع، شئے یا تصور کو اپنا ہدف بنا کر اس کی تخصیص کا کوئی پیمانہ وضع کرتے ہیں۔ تعیّن کی اصطلاح ہم اس وقت استعمال کرتے ہیں جب کسی موضوع یا مضمون کے صحیح تشخص کا پتہ چلانا مقصود ہو۔
یہ اصطلاح اس وقت بروئے کار لائی جاتی ہے جب کسی چیز، خیال یا مضمون کے ان عناصرِ ترکیبی کو دریافت کرنا ضروری ہوتا ہے جو اس میں اصلاً موجود ہوں اور اس کا اطلاق اس کے تمام گوشوں اور پہلوؤں پر کیا جائے تاکہ اس کے تمام مشمولات کا احاطہ ہو سکے۔ اگر کوئی پہلو اس کے دائرے (scope) سے باہر نہ ہو تو یہ تضمنات گویا اس کے اجزاء ہیں جو اس کی جامعیت کے وصف کو تسلسل عطا کرتے ہیں۔
اس اصطلاح کے ذریعے اس امر کو دریافت کرنا مقصود ہوتا ہے کہ کسی موضوع کی صحت کے حدود کیا ہیں؟ اس کا آغاز کس مقام سے ہوتا ہے؟ اور کہاں جا کر ختم ہوتا ہے؟ اس سے آگے کن مماثل اور نئے موضوعات کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں۔ یہ حدود دراصل کسی موضوع کے معنوی اطلاقات کی صحت اور عدمِ صحت کو متعین کرنے کے ساتھ اسے ایک دائرے میں محدود کر کے کسی کمی بیشی سے محفوظ رکھتی ہیں۔
اس اصطلاح سے ہم دو مماثل چیزوں اور تصورات کے درمیان ایک حد فاصل قائم کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعے نہ صرف مثبت طریقے سے اصل موضوع کی نشان دہی ہو بلکہ دیگر مماثل موضوعات سے اسے ممتاز بھی کیا جا سکے۔ یعنی کوئی ایسی تخصیص ہونی چاہیے جو اس کے وجود کی نشان دہی کرے اور اس کے مفہوم کو دوسروں سے نمایاں کر کے اسے الگ طور پر دیکھنے کی استعداد پیدا کردے۔ یہ خصوصیت نہ صرف کسی چیز کو قطعیت کا درجہ عطا کرتی ہے بلکہ اس کے اور دوسری چیزوں کے درمیان کوئی التباس اور ابہام باقی نہیں رہنے دیتی : مثلاً مختلف انسانوں اور جانوروں میں ملتی جلتی خصوصیات پائی جاتی ہیں اور کچھ چیزوں میں غیر مماثل خصوصیات ہوتی ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ان کے درمیان خط امتیاز قائم کیا جائے اور ان کے فرق کو جاننے کا کوئی پیمانہ ہو جس سے ان میں تمیز کی جاسکے۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ دو ملتی جلتی یعنی مماثل چیزوں میںبھی کوئی نہ کوئی فرق ضرور نکل آتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مماثلت رکھنے والی دو چیزوں میں فرق معلوم کرنے کے لئے ان میں عدمِ مماثلت رکھنے والی باتوں کا پتا چلایا جائے۔ اس کی مثال دو جڑواں بہنوں سے دی جا سکتی ہے کہ گہری مشابہت و مماثلت کی بنا پر دیکھنے والا ان میں امتیاز نہیں کر پاتا لیکن ان کی ماں سے پوچھا جائے تو وہ آپ کو سینکڑوں مختلف چیزیں بتائے گی اور کہے گی کہ یہ دونوں ایک جیسی ہرگز نہیں۔ پس اگر صرف مماثلت کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس سے ذہنی انتشار جنم لے گا۔ اس لئے ان چیزوں پر بھی نظر رکھنا ضروری ہے جو عدمِ مماثلت رکھتی ہیں۔ اس طرح فکری و ذہنی خلجان سے بچا جا سکتا ہے۔ جڑواں بہنوں کی مثال کو مدِنظر رکھیں تو ماں ان کے درمیان فرق بتاتے ہوئے کہتی ہے کہ ان میں وجہِ امتیاز ان کی آنکھیں ہیں۔ ایک کی آنکھیں بڑی اور دوسری کی چھوٹی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے دانتوں کی ساخت میں بھی فرق ہے۔ ان کی عادات بھی ایک جیسی نہیں۔ ایک زیادہ چالاک ہے اور دوسری سادہ مزاج وغیرہ۔ پس اگر آپ دو علیحدہ وجود رکھنے والی حقیقتوں اور اکائیوں میں موجود عدم مماثلت رکھنے والے پہلوؤں سے آگاہ ہیں تو آپ کو ان کے درمیان پایا جانے والا فرق معلوم ہو جائے گا۔ جب تک آپ چیزوں کے امتیازی تشخص کو نہیں جانیں گے آپ کسی چیز کی تخصیص حتمی طور پر نہیں کر سکتے۔ اس لئے کسی چیز کی صحت اور عدمِ صحت کی حدود اور اس کے درست اور نادرست ہونے کے فرق کو جاننے کیلئے چیزوں کی حدود اور ممانعت کو جاننا ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر آپ کسی چیز کی تخصیص نہیں کر سکتے۔
توحید اور شرک دونوں میں بُعد المشرقین ہے۔ توحید ایک سمت میں ہے تو شرک اس کی دوسری سمت میں ہے۔ اگر کوئی توحید کی مخالف سمت میں جائے گا تبھی وہ شرک کا مرتکب ہو گا۔ یہ بڑا اہم نکتہ ہے کہ کسی چیز کو شرک Declare کرنے سے پہلے یہ تعیّن کرنا لازمی ہے کہ توحید کے کس Article، ضابطے اور درجے کی نفی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ شریعت کا یہ بنیادی تقاضا سمجھے بغیر بے دریغ شرک کا فتویٰ صادر کرتے رہتے ہیں اور اپنی فتویٰ بازی سے لوگوں کو مشرک کہنے سے ذرہ بھر نہیں ہچکچاتے۔ وہ ایک طرح سے توحید پر اجارہ داری قائم کر لیتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ شرک کوئی عمومی نہیں بلکہ خصوصی تصور(Specific Concept) ہے۔ شرک محض گناہ، بدعقیدگی اور غلط بات نہیں بلکہ کفر کا ارتکاب ہے، حتیٰ کہ بدعت کو بھی شرک کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ اگر کوئی چیز حرام ہے تب بھی آپ اسے شرک نہیں کہہ سکتے۔ شرک ہونے کے لئے لازمی ہے کہ وہ صریحاً عقیدۂ توحید کی نفی ہو۔ شرک کا مرتکب محض حرام و ناجائز کا مرتکب نہیں ہوتا بلکہ یکسر ایمان سے خارج اور کافر ہو جاتا ہے۔ شرک کا معاملہ انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ ہے۔ اسے کبھی عمومی اور معمولی انداز سے نہیں لینا چاہیے ورنہ خود عقیدۂ توحید مذاق اور کھیل بن جائے گا۔
توحید و شرک کی متقابل اقسام کا یہ اجمالی تعارف تھا، ان متقابل اقسام کا تفصیلی مطالعہ ہماری تصنیف ’’کتاب التوحید (جلد اَوّل)‘‘ میں ملاحظہ کریں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved