لفظِ معجزہ کی ماہیّت، ضرورت و اہمیّت اور حقیقت کا جائزہ لینے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمِ اَسباب کے حوالے سے اِنسانی زِندگی کا کائناتی مطالعہ کرنے والے اَربابِ علم و دانش کے نزدیک ظہورِ معجزہ کی کیا حیثیت ہے اور زِندگی کے اِرتقائی سفر میں معجزہ اِعتقادی حوالوں کو کس طرح قوّتِ اِیمانی سے ہمکنار کرتا ہے! یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہئے کہ معجزہ عالمِ اَسباب کے تابع نہیں ہوتا اور نہ یہ اَسباب و عِلل کے بندھے ٹکے نظام کے تحت واقع ہوتا ہے بلکہ معجزہ کا صدُور اِن اَسباب و عِلل اور معمول کے نِظام کے برعکس ہوتا ہے۔ گویا معجزے کا وُقوع پذیر ہونا اَسباب و عِلل کا مرہونِ منّت ہوتا ہے اور نہ یہ معمول کے نِظام کے مطابق اَنبیائے کرام کے دستِ حق پرست سے ظہور میں آتا ہے۔ اَسباب و عِلل کا نظام کوئی اَٹل اور ناقابلِ منسوخ ضابطہ نہیں ہے۔ یہ تو باری تعالیٰ کی عادتِ جاریہ کا مظہر ہے۔ اِن اَسباب و عِلل کی حقیقت فقط اِتنی ہے کہ یہ اللہ ربّ العزّت کے اِرادے اور مشیّت کے مختلف مظاہر ہیں اور اُس کی قدرتِ کاملہ کے شواہد ہیں۔ خالقِ کائنات نظامِ ہستی کو ایک خاص طریقے سے چلا رہا ہے۔ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اُس کے حکم کا پابند ہے اور وہ خود کسی حوالے سے بھی کسی اَمر کا پابند نہیں کیونکہ وہ ہر چیز پر قادِر ہے، ہر چیز کا خالق ہے، ہر چیز کا مالک ہے، وہ ربُّ العالمین ہے۔ مولائے روم نے اِس حقیقت کی طرف یوں اِشارہ کیا ہے :
بیشتر اَحوال بَر سُنّت رَوَد
گاہ قُدرت خارقِ سُنّت شَوَد
دُنیا کے زیادہ تر واقعات اُنہی عاداتِ جاریہ کے مطابق ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی قدرتِ اِلٰہیہ اِس قانون کو توڑ کر اَپنی حاکمیّتِ کاملہ کا اِظہار بھی کرتی ہے۔
اَسباب و عِلل کا سائنسی حوالوں سے مطالعہ کرنے والے اَربابِ دانش و تحقیق جانتے ہیں کہ نظامِ ہستی ایک ضابطے اور اُصول کے تحت چل رہا ہے، لیکن بعض اَوقات قدرت اِن عام ضابطوں اور اُصولوں کے برخلاف اپنی مخلوقات کے لئے زِندگی کے راستوں کو آسان بھی بناتی ہے۔ ایسے میں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ آخر وہ کون ہے جس کے اِشارے پر عناصرِ فطرت اپنے فطری خواص کے برعکس کام کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً : سائنس کا ایک مسلّمہ اُصول ہے کہ حرارت سے چیزیں پھیلتی ہیں اور سردی سے سکڑتی ہیں، لیکن سمندروں کے پانی کا درجۂ حرات جب نقطۂ اِنجماد کی طرف آتا ہے تو برف بن کر سُکڑنے کی بجائے پھیل جاتا ہے۔ اگر پانی عام معمولات کے مطابق یہاں بھی برف بنتے ہوئے سُکڑ جائے تو سطحِ سمندر پر تیرنے والی برف کثیف ہو کر تہہ میں جا بیٹھے اور سُمندری مخلوقات نیچے دب کر آناً فاناً موت کی وادی میں چلی جائیں۔ قادرِ مطلق کو چونکہ اپنی اِن مخلوقات کی حیات مقصود ہے، اِس لئے یہاں فطرت کے عام اُصولوں سے اِختلاف کی راہ نکالی گئی اور پانی کو حکم دیا گیا کہ وہ ٹمپریچر کی کمی کی صورت میں 4o سینٹی گریڈ تک سکڑتا رہے مگر جونہی اُس کے مالیکیولز کا درجۂ حرارت 4o سینٹی گریڈ سے مزید گرتے ہوئے نقطۂ اِنجماد کی طرف بڑھنے لگے، زیادہ یخ مالیکیولز آس پاس کے دِیگر کم سرد مالیکیولز کی نسبت پھیلنا شروع کر دیں، ان کی کثافت (Density) کم ہو جائے اور وہ نسبتاً ہلکے ہو کر سطحِ آب کی طرف تیر آئیں۔ اور اس طرح برف بننے کا عمل سطح سے تہہ کی طرف شروع ہو، تاکہ سمندروں کی مُنجمد سطح کے نیچے آبی مخلوقات اُس خدائے وحدہ لاشریک کی حِکمت سے زِندہ و سلامت رہیں۔
اَسباب و عِلل کی گرد میں پھنس جانے اور خارقُ العادت کو قبول نہ کرنے والوں کو یہ بات ذِہن نشین رکھنی چاہئے کہ اِن اَسباب و عِلل کی ایک عِلۃُ العِلَل اور مُسبِّبُ الاسباب ہستی بھی ہے، جس کے سامنے اِن اَسباب و عِلل کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جب اُس قادرِ مطلق ہستی کا اِرادہ اور مشیّت ’’کُنْ فَیَکُوْنَ‘‘ کے ذریعہ غالب آتا ہے تو پھر اَسباب و عِلل کے متوازی ایک الگ نظام وُجود میں آتا ہے۔ اُسے برہان کا نام دیا جائے یا معجزات کا، لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ اُس خالقِ کائنات کی یہ شانِ تخلیق ہر لمحہ فروغ پذیر ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ وہ خدائے جبّار و قھّار کے اِرادہ و مشیّت کے بارے میں کوئی غلط تصوّر بھی اپنے ذِہن میں لا سکے۔
درج بالا بحث سے ہم اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ معجزے کا موازنہ اَسباب و عِلَل سے کرنا اور عادتِ جاریہ کی کسوٹی پر اُسے پرکھنا کسی بھی اِعتبار سے قرینِ قیاس نہیں۔ اِسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اَسباب و عِلَل اِس نظامِ کائنات میں جاری و ساری اَعمال اور اُن کے نتائج سے عِبارت ہیں جبکہ معجزہ اِس نظامِ کائنات کا ایک خصوصی عمل ہے جو اللہ کے نبی یا اُس کے رسول کے دستِ حق پرست پر اِذنِ اِلٰہی سے ظہور میں آتا ہے۔
ذِہن میں یہ سوال آ سکتا ہے کہ یہ اَسباب و عِلَل کیا ہیں اور نظامِ حیات میں اُن کا مقام اور اہمیّت کیا ہے؟ یہ دراصل ہمارے مُشاہدات و تجربات ہیں۔ مثلاً ہم ایک چیز کو اپنے کسی خاص عمل سے متعدّد بار گزرتے دیکھتے ہیں اور پھر یقین کر لیتے ہیں کہ تمام چیزیں اَیسے ہی وُقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ یعنی ایک ضابطے اور اُصول کے تحت۔ ۔ ۔ چونکہ وہ عمل بار بار ہمارے سامنے آتا ہے، اِس لئے وہ ہمارے شعور میں پُختہ ہوتا جاتا ہے۔ ہمیں ایک قطرۂ آب سے خون، خون سے گوشت اور پھر اُس میں رگیں، پٹھے، ہڈیاں، دِل و دِماغ، جگر اور گُردوں کے پیدا ہونے، پھر اُس میں رُوح کی آمد، بعد ازاں ایک مدّتِ معیّنہ کے بعد ایک بچے کی صورت میں پیدا ہونے پر کوئی تعجّب نہیں ہوتا، حتیٰ کہ وہ بچہ اپنے بچپن اور لڑکپن کے مراحل سے گزر کر عالمِ شباب میں داخل ہوتا ہے، جوانی کی منزلیں طے کر کے اور بڑھاپے کی دہلیز سے گزر کر لحد کی تاریکیوں میں فنا ہو جاتا ہے لیکن ذہنِ اِنسانی ذرا بھی متعجب نہیں ہوتا، اِس لئے کہ یہ عمل معمول کا عمل ہے۔ ہم بار بار اِس عمل کا مُشاہدہ کرتے ہیں۔ اِسی طرح ایک چھوٹا سا جامد دانہ ایک تناور درخت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔ اُس پر پھول آتے ہیں، پھل آتا ہے، شاخوں پر شاداب ساعتیں بسیرا کرتی ہیں پھر وہ درخت سُوکھ جاتا ہے، پتے جھڑ جاتے ہیں اور وہ اِیندھن بن کر رزقِ زمین بن جاتا ہے لیکن ہم اُس پر اِظہارِ تعجب نہیں کرتے، اِس لئے کہ ہم اِس عمل کو متعدّد بار دیکھتے ہیں اور یہ عمل ہمارے شعور کا حصہ بن جاتا ہے۔ اِس کے برعکس اگر ایک بے جان لکڑی سانپ کی شکل اِختیار کر لے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام بِن باپ کے پیدا ہوں، رات کے ایک اِنتہائی قلیل عرصے میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ حرام سے مسجدِ اَقصیٰ تک اور پھر سِدرۃ المنتہیٰ اور لامکاں سے ہو کر واپس آ جائیں تو ایسی صورت میں عقلِ اِنسانی کو اِن واقعات کی صداقت پر اِیمان لانے میں تامّل ہو گا اور وہ اِس سوچ میں پڑ جائے گی کہ ایسا کس طرح ممکن ہے! کیونکہ اِس سے پہلے ایسے واقعات مُشاہدے میں کبھی نہیں آئے۔
زِندگی کا یہ ایک عمومی دستور ہے کہ ایک چیز کو ہم بار بار دیکھتے ہیں تو وہ قصرِ اِیقان میں سما جاتی ہے۔ اِدراک و شعور اُس عمل کی تصدیق اور توثیق کر تے ہیں، لیکن جس چیز یا عمل کے بارے میں سنا ہو اور نہ اُسے روز مرّہ زِندگی میں دیکھا ہو تو جب وہ چیز یا عمل ہمارے مُشاہدے میں آتا ہے تو قُدرتی طور پر اُس عمل کو دیکھ کر ہم تصویرِ حیرت بن جاتے ہیں اور تذبذب کے عالم میں اُس عمل سے اِنکار کر دیتے ہیں حالانکہ قصور ہمارے مُشاہدے اور تجربے کا ہوتا ہے۔ اگر ایک چیز ہمارے مُشاہدے یا تجربے میں نہیں آتی تو اِس سے اُس چیز کا وُقوع یا عدم وُقوع کیسے لازم آ سکتا ہے؟ معجزے کی حقیقت بھی یہی ہے کہ اُس کی توجیہہ و تعلیل عام تجربات کی دسترس اور گرفت سے باہر ہوتی ہے۔ اِنسانی عقل اُس کا اِحاطہ نہیں کر سکتی۔ اِس لمحۂ اِستعجاب کو اِدراک و شعور اپنی گرفت میں لینے میں ناکام رہتے ہیں، اِس لئے کہ معجزہ قوانینِ فطرت کے خرق کا نام ہے۔ یہ اِنسانی زندگی کے روز مرّہ کے مُشاہدات و تجربات کے برعکس ہوتا ہے، ایسا اِس لئے ہے کہ ہمارے تجربات و مشاہدات کی بنیاد قوانینِ فطرت پر ہوتی ہے جبکہ معجزہ قوانینِ فطرت کے تابع نہیں ہوتا بلکہ اُن کے برعکس اور خِلاف ہوتا ہے۔ قوانینِ فطرت کے مطابق ایک آدمی مر جائے تو دوبارہ زِندہ نہیں ہوتا اور اگر دوبارہ زِندہ ہو جائے تو یہ قوانینِ فطرت کے برعکس ہو گا۔ قوانینِ فطرت کے برعکس ہونا ہی معجزہ ہے۔ اس کا وُقوع قلیل اور صدُور انبیاء و رُسل سے ہوتا ہے۔ عقلِ اِنسانی جسے تماثیل اور تائیدِ مسلسل کے ذریعہ کسی واقعہ، عمل یا چیز کے وُجود کا یقین آتا ہے، اور مُسلسل ایک جیسے عمل سے ایک جیسا نتیجہ پیدا ہونے کے بعد اُسے قوانینِ فطرت میں داخل کرتی ہے۔ ۔ ۔ معجزے کے معاملہ میں وہ ایسا کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ قوانینِ فطرت کے اَٹل اور قطعی ہونے کے نظریئے کو اَب جدید سائنس بھی ردّ کر چکی ہے۔ اِسلئے فکری اور نظری مباحث میں اُلجھے بغیر ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ قوانینِ فطرت کی اَصلیّت قانونِ عادت کی ہے جسے مذہبی نقطۂ نظر سے ہم ’’فطرۃ اللہ‘‘ کہتے ہیں۔
ہر آن پھیلتی اور تغیر پذیر کائنات میں ہر طرف مادّے کی رنگا رنگ صورت پذیری نظر آتی ہے۔ اِمکانات کی ایک نہیں اَن گنت دنیائیں آباد ہیں۔ نظامِ اَسباب و عِلل پوری کائنات پر محیط ہے۔ کارخانۂ قدرت میں ہر سیارہ، ہر ستارہ اور ہر کہکشاں کائناتی اُصولوں اور ضابطوں کی پابند ہے۔ کبھی کبھی اُس پابندی سے اِنحراف کی راہیں بھی نکلتی ہیں اور کائنات کے خالق کے وُجود کی گواہی دیتی ہیں۔ نظامِ اَسباب و عِلل اور اَنبیاء کے معجزات دونوں دَرحقیقت اللہ ربّ العزّت کی مَشیّت و اِرادے کے مظہر ہیں۔ قرآن نے اِس نظامِ اَسباب و عِلل کو کھول کھول کر بیان کیا ہے اور سائنسی اِنکشافات کی وضاحتاً اور صراحتاً نشاندہی کی ہے۔ مثلاً متعدّد مقامات پر فرمایا کہ آسمان سے برسنے والی بارِش، زمین سے اُگنے والی فصلوں، شاخوں پر آنے والے پھولوں اور پھلوں کے پیدا ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَّأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّكُمْ.
(البقره، 2 : 22)
اور آسمانوں کی طرف سے پانی برسایا پھر اُس کے ذرِیعے تمہارے کھانے کے لئے (اَنواع و اَقسام) کے پھل پیدا کئے۔
آج کا اِنسان خلا کی وُسعتوں میں زِندگی کے اِمکانات کا متلاشی ہے۔ اِس سلسلے میں وہ سب سے پہلے کسی سیارے پر پانی کے وُجود کی تلاش میں ہے کیونکہ جہاں پانی ہو گا وہاں ہوا بھی ہو گی اور وہاں زِندگی کے کسی نہ کسی شکل میں موجود ہونے کے اِمکانات بڑھ جاتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے :
وَاللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَابَّةٍ مِن مَّاءٍ.
(النور، 24 : 45)
اور اللہ نے ہر چلنے پھرنے والے (جاندار) کی پیدائش (کی کیمیائی اِبتداء) پانی سے فرمائی۔
پانی کے بغیر زِندگی کا کوئی تصوّر ممکن نہیں، پانی زندگی کی علامت ہے۔ اِرشادِ خداوندی ہے :
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ.
(الانبياء، 21 : 30)
اور ہم نے (زمین پر) ہر زِندہ چیز (کی زِندگی) کی نمود پانی سے کی۔
یہ کرۂ ارضی ایک بہت بڑی خِلعتِ سبز میں لپٹا ہوا ہے۔ ہر قدم شاداب ساعتوں نے پڑاؤ ڈال رکھے ہیں۔ ہر طرف سبزے کی چادر بچھی ہوئی ہے، لہلہاتی فصلیں کھڑی ہیں، وسیع و عریض علاقوں پر جنگلات پھیلے ہوئے ہیں یعنی اِس دُنیا میں نباتات کی الگ دُنیا قائم ہے۔ نباتی زِندگی کا آغاز بھی پانی ہی سے ہوا۔ اِرشاد فرمایا گیا :
هُوَ الَّذِيَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ نَبَاتَ كُلِّ شَيْءٍ.
(الانعام، 6 : 99)
اور وُہی ہے جس نے آسمان کی طرف سے پانی اُتارا۔ پھر ہم نے اُس (بارِش) سے ہر قسم کی رُوئیدگی نکالی۔
قرآن میں صراحت کے ساتھ عناصرِ فطرت اور کارکنانِ قضا و قدر کی برہمی کا ذِکر کیا گیا ہے اور اَجزاء کے پریشان ہونے کو موت کی علامت قرار دِیا گیا ہے کہ بادِصرصر اور آندھیاں اپنے ساتھ تباہی، بربادی اور ہلاکت کو لے کر چلتی ہیں۔ یہ سب نظامِ ہستی ایک عالمِ اَسباب کے تحت لگا بندھا ہے :
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا.
(حم السجده، 41 : 16)
پھر ہم نے اُن پر زور کی آندھی (اُن کے) نحوست کے دِنوں میں بھیجی (یعنی وہ دِن اُن کے حق میں منحوس ثابت ہوئے) تاکہ ہم اُنہیں دُنیا میں رُسوائی کے عذاب کا مزہ چکھائیں۔
سورہ اَحقاف میں فرمایا :
رِيحٌ فِيهَا عَذَابٌ أَلِيمٌO تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍ بِأَمْرِ رَبِّهَا.
(الاحقاف، 46 : 24، 25)
(یہ وہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہےo (یہ آئے گی اور) ہر شئے کو اپنے ربّ کے حکم سے اُکھاڑ پھینکے گی۔
سورۃ الذّاریات میں فرمایا :
إِذْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيحَ الْعَقِيمَO مَا تَذَرُ مِن شَيْءٍ أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيمِO
(الذّاريات، 51 : 41، 42)
جب ہم نے اُن پر خیر سے خالی آندھی چلائیo (وہ) جس چیز پر گزرتی اُسے ریزہ ریزہ کئے بغیر نہ چھوڑتیo
اِس وسیع و عریض کائنات میں آگ بھی ایک بہت بڑی قوّت ہے۔ آگ کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ہر چیز کو جلا دیتی ہے۔ منہ زور آندھیوں اور بپھری ہوئی سمندری موجوں کی طرح آگ اور حرارت جہاں زِندگی کی علامت ہے وہاں بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہے :
تَلْفَحُ وُجُوهَهُمُ النَّارُ.
(المومنون، 23 : 104)
اُن کے چہروں کو آگ جھلس دے گی۔
آگ عموماً لکڑی سے پیدا ہوتی ہے اور لکڑی درختوں کی صورت میں زمین کی عطا ہے :
الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا.
(يٰسين، 36 : 80)
وُہی ہے جس نے تمہارے لئے سبز درخت سے آگ پیدا کی۔
اِس نظامِ اَسباب و عِلل کے تحت قرآن نے مختلف اَشیاء کے طبعی خواص کا بھی ذِکر کیا ہے اور اُن خواص سے پیدا ہونے والے مفید نتائج کو بیان فرمایا ہے۔ مثلاً شہد میں صحت بخشنے اور بیماری دُور کرنے کی خاصیت ہے :
يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ.
(النحل، 16 : 69)
اُن کے شِکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے، (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں۔ اُس میں لوگوں کے لئے شِفاء ہے۔
پانی کی بھی خاصیّت بیان فرمائی کہ وہ پیاس بجھانے اور درخت اُگانے کے خواص رکھتا ہے :
هُوَ الَّذِي أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لَّكُم مِّنْهُ شَرَابٌ وَمِنْهُ شَجَرٌ.
(النحل، 16 : 10)
وُہی ہے جس نے تمہارے لئے آسمان کی جانب سے پانی اُتارا، اُس میں سے (کچھ) پینے کا ہے اور اُسی میں سے (کچھ) شجر کاری کا ہے۔
اِسی طرح قرآن نے فرمایا کہ اُون میں گرمی کی خاصیت پائی جاتی ہے :
فِيهَا دِفْءٌ.
(النحل، 16 : 5)
اُن میں تمہارے لئے گرم لباس ہے۔
ہماری یہ دُنیائے رنگ و بو اَسباب و عِلل کے وسیع حصارِ دِلنواز میں آباد ہے۔ مادّہ اپنی تمام تر رَعنائیوں کے ساتھ ہر طرف جلوہ گر ہے اور اپنے خالق کی حمد میں مصروف ہے۔ مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ اِسی نظامِ اَسباب و عِلل پر صریح دلیل ہیں اور اللہ ربّ العزّت کی ربوبیت اور اُلوہیت کا اِعلان کر رہی ہیں۔ یہاں ایک بات قابلِ توجہ ہے، مذکورہ بالا آیاتِ ربانی کے سیاق و سباق اور اُن کے نفسِ مضمون سے یہ چیز بخوبی آشکار ہو رہی ہے کہ اُن سب میں فعل کی نسبت خالقِ اَرض و سماوات نے خود اپنی طرف کی ہے کہ اِس نظامِ اَسباب و عِلل اور مختلف اَشیاء کے خواص کا ظہور ہماری مشیّت و اِرادہ اور حکم و اَمر سے ہو رہا ہے۔ یہ اِس لئے کہ کہیں اِنسان ظاہری عِلل و اَسباب دیکھ کر اور اَشیاء کے خواص کا مُشاہدہ کر کے علّتِ حقیقی کا اِنکار نہ کر دے اور اُن کو مُستقل بالذّات تسلیم کر کے کہیں شِرک میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اور یوں ہر چیز کھول کھول کر بیان کر دی گئی، تعلیماتِ قرآنیہ کا یہی اِمتیاز ہے کہ یہ تشکیک و اِبہام سے پاک ہوتی ہے۔
اَنبیائے کرام اور اَولیائے عِظام بھی بسا اَوقات عادتِ جاریہ اور ظاہری اَسباب و عِلل کے خِلاف اُمور کے وُقوع پر اِستعجاب کا اَظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر باری تعالیٰ اُن کے اِستعجاب کو اپنی قدرتِ مطلقہ اور مشیت سے دُور کر دیتا ہے۔
حضرت سارہ علیھا السلام کو جب بڑھاپے میں حضرت اِسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی گئی تو وہ حیران رہ گئیں۔ اُنہوں نے اِس پر تعجب اور حیرت کا اِظہار کرتے ہوئے فرمایا :
قَالَتْ يَا وَيْلَتَى أَأَلِدُ وَأَنَاْ عَجُوزٌ وَهَـذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌO
(هود، 11 : 72)
وائے حیرانی! کیا میں بچہ جنوں گی، حالانکہ میں بوڑھی (ہو چکی ہوں) اور میرے شوہر (بھی) بوڑھے ہیں۔ بیشک یہ تو بڑی عجیب چیز ہےo
بشارت دینے والے ملائکہ نے جواب میں کہا :
أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ.
(هود، 11 : 73)
کیا تم اللہ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو۔
اللہ تو قادرِ مطلق ہے۔ وہ جس اَمر کا اِرادہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ ہو جاتا ہے۔ پھر اُس کی قدرتِ کاملہ پر تعجب کیسا! ہاں عالمِ اَسباب و عِلل میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ بڑھاپے میں میاں بیوی دونوں جسمانی اِعتبار سے کمزور ہو جاتے ہیں اور اَولاد کی اُمید ناپید ہو جاتی ہے، مگر اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ مطلقہ سے کچھ بھی بعید نہیں۔ کارکنانِ قضا و قدر اُس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں۔ فرشتوں کے جواب سے حضرت سارہ علیھا السلام مطمئن ہو گئیں کہ یہ سب کچھ خالقِ روز و شب کے اَمر سے ہو گا۔
اِسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام بھی حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت سے قبل ضعیف ہو چکے تھے۔ اُن کی زوجہ مطہرہ بانجھ پن کا شکار تھیں۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو اِس صورتحال سے بخوبی آگاہی تھی کہ اُن کی زوجہ مطہرہ اَولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ ظاہری عدم اِستعداد اور اَسباب و عِلل کے موجود نہ ہونے کے باوجود وہ قدرتِ اِلٰہی اور مشیتِ اَیزدی پر کامل یقین رکھتے ہوئے بارگاہِ خداوندی میں اپنے وارِث کے لئے عرض پرداز ہوتے ہیں۔ جب حضرت زکریا علیہ السلام کو اِجابتِ دُعا کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ بتقاضائے بشریت ظاہری اَسباب و عِلل کے فقدان کو دیکھتے ہوئے تعجب کا اِظہار فرماتے ہیں۔ اَیسا ہونا اُنہیں عجیب سا لگتا ہے :
رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّاO
(مريم، 19 : 8)
اے میرے رب! میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے درآنحالیکہ میری بیوی بانجھ ہے اور میں خود بڑھاپے کے باعث (اِنتہائی ضعف میں) سُوکھ جانے کی حالت کو پہنچ گیا ہوںo
بارگاہِ خداوندی سے حضرت زکریا علیہ السلام کے اِس اِستعجاب اور حیرانی پر جواب آتا ہے :
قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِن قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًاO
(مريم، 19 : 9)
فرمایا : ’’(تعجب نہ کرو) ایسے ہی ہو گا تمہارے ربّ نے فرمایا ہے کہ یہ (لڑکا پیدا کرنا) مجھ پر آسان ہے اور بیشک میں اِس سے پہلے تمہیں بھی پیدا کر چکا ہوں، اُس حالت سے کہ تم (سِرے سے) کوئی چیز ہی نہ تھے۔
بندے کی کیا مجال کہ اپنے ربّ کی قدرتِ مطلقہ کے بارے میں کوئی غلط تصوّر بھی ذِہن میں لائے یا غبارِ اِبہام میں تشکیک کی تصویریں سجائے۔ شکوک و شبہات کی گرد لوحِ دِل پر نقشِ اِیمان و اِیقان کی ہر تصویر کو مٹا دیتی ہے۔ آیتِ مذکورہ میں عدم سے وُجود میں آنے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ اِستعجاب کیسا؟ حیرت کیسی؟ اے پیغمبر! ہم نے تمہیں بھی تو پیدا کیا ہے۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے یہ کلمات ’’قَالَ رَبُّکَ ھُوَ عَلَیَّ ھَیِّنٌ‘‘ (تمہارے ربّ نے فرمایا کہ یہ مجھ پر آسان ہے) اِنتہائی قابلِ توجہ ہیں۔ اِن اَلفاظ سے جہاں اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا اِظہار ہوتا ہے وہاں اَسباب و عِلل کے نظام کے برعکس اُس کی مشیت کے تحت ہر چیز کی تخلیق ہوتی دِکھائی گئی ہے اور اِس طرح کہ ظاہراً کوئی علت ہے اور نہ کوئی سبب۔ پھر بھی اُس چیز کو وُجود عطا کیا جاتا ہے جو باری تعالیٰ کی قدرت علیٰ الاطلاق پر ایک دلیلِ ناطق ہے۔ قصرِ اِیمان و اِیقان سے اِنحراف کا کوئی راستہ نہیں نکلتا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وِلادت باسعادت بھی ایک معجزہ ہے۔ بِن باپ کے بچے کی پیدائش اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کی مظہر ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ کو جب آپ کی پیدائش کی خوشخبری سنائی گئی تو اِنسانی فطرت کے عین مطابق اُنہوں نے اُس پر اِستعجاب کا اِظہار کیا کہ ظاہری اَسباب و عِلل کے بغیر اَیسا ہونا باعثِ تعجب اور معمول کے خِلاف ہے۔ قدرتی طور پر حضرت مریم علیھا السلام یہ اِطلاع پا کر تصویرِ حیرت بن گئیں لیکن حیرت کے اِس اِظہار میں قادرِ مطلق کی قدرتِ کاملہ کے اِنکار کا شائبہ تک موجود نہیں :
قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلاَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّاO
(مريم، 19 : 20)
(مریم نے) کہا : ’’میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ مجھے کسی اِنسان نے چُھوا تک نہیں اور نہ ہی میں بدکار ہوں‘‘ o
حضرت مریم علیہا السلام کے اِستعجاب پر خوشخبری لے کر آنے والے فرشتے نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا :
قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّاO
(مريم، 19 : 21)
(جبرئیل نے) کہا : ’’(تعجب نہ کر) ایسے ہی ہو گا (کیونکہ) تیرے ربّ نے فرمایا ہے : یہ (کام) مجھ پر آسان ہے اور (یہ اِس لئے ہو گا) تاکہ ہم اِسے لوگوں کے لئے نشانی اور اپنی جانب سے رحمت بنا دیں اور یہ اَمر (پہلے سے) طے شدہ ہے‘‘o
گویا اُس عظیم معجزے کے ظہور سے بھی مقصود بندگانِ اِستعجاب و حیرت پر خالقِ کائنات کی قدرتِ کاملہ کو اِس طرح آشکار کرنا ہے کہ ذِہنِ اِنسانی پر جمی تشکیک کی دُھول دُھل جائے اور اِیمان و اِیقان کا چہرہ نکھر آئے۔ بندہ اِیمانِ کامل کی دَولت سے سرفراز ہو اور اللہ کی یہ نشانیاں دیکھ کر اُس کے اِعتقادات میں مزید پختگی پیدا ہو اور وہ دِل و جان سے تسلیم کر لے کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ خدائے ذوالجلال کے حکم کا پابند ہے اور عناصرِ فطرت اُسی کی مشیّت کے تابع ہیں۔
جب معجزہ قدرتِ اِلہیہ کا آئینہ دار ہے اور یقیناً ہے تو معجزہ کا صدُور بھی اِذنِ اِلٰہی سے ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ کا نبی یا اُس کا رسول جب چاہے اور جیسے چاہے اُس کے ہاتھ پر معجزات کا صدُور ہوتا جائے کیونکہ معجزہ کا سبب اور علّت براہِ راست باری تعالیٰ کی مشیّت اور اِرادہ سے ہے۔ یہ اِرادہ اور مشیّت کبھی عادتِ جاریہ اور اَسباب و عِلل کے پردہ میں ظاہر ہوتا ہے اور کبھی مشیّتِ اِلٰہی اَسباب و عِلل کی بجائے کھلی نشانی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔
پہلی صورت کی مِثال طوفانِ نوح ہے، قومِ ہود کے لئے آتش فشاں پھٹ پڑا اور تباہ کن زلزلے نے اُنہیں گھیر لیا، حضرت ایوب علیہ السلام چشمے کے پانی سے صحت یاب ہو گئے، قومِ صالح کے لئے آندھی آئی، مکہ میں خوفناک قحط پڑا، غزوۂ خندق کے موقع پر زبردست آندھی چلی۔ یہ تمام واقعات ظاہری اَسباب و عِلل کے خِلاف نہیں بلکہ اِرادہ و مشیتِ اِلٰہی سے اِن چیزوں کا ظہور ہوا تاکہ اللہ کے بندے علاماتِ حق سے آشنا ہوں اور اُن کے اِیمان میں پختگی آئے۔
دُوسری صورت کی مثال مُردوں کا جی اُٹھنا، چاند کا دو ٹکڑے ہو جانا، عصا کا سانپ بن جانا اور اَنگشتِ پیمبر سے پانی کے چشمے کا جاری ہو جانا ہے۔ اِن خلافِ معمول واقعات کی توجیہہ اَسباب و عِلل سے ممکن نہیں اور نہ عادتِ جاریہ کے مطابق اِن کی تفہیم ہو سکتی ہے۔ اِس لئے کہ اُن کی علّتِ غائی اللہ ربّ العزّت کی مشیّت اور اِرادہ کے سِوا کوئی اور چیز نہیں۔ تاریخِ اَنبیاء کے اَوراق اُلٹیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اَنبیاء علیھم السلام نے بھی اپنے معجزات کے حوالے سے یہی بتایا کہ اُن کے ہاتھ سے جو خلافِ معمول واقعات کا صدُور ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف بارِی تعالیٰ کی قدرت، مشیّت اور اِذن سے ہی ہوتا ہے۔ معجزے کی حقیقی علّت اور سبب بھی یہی ہے اور یہی حقیقتِ معجزہ ہے۔ چنانچہ معجزے کے ظہور سے اِنکار اللہ ربّ العزّت کی قدرتِ مطلقہ کا اِنکار ٹھہرے گا اور اِیمان کا نور شِرک کے اندھیروں اور مُنحرف چہروں کے جنگل میں کھو جائے گا۔
اِس ساری بحث سے ہم اِس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اِس کائناتِ رنگ و بو میں اَسباب و عِلل کا نظام اللہ ربّ العزّت کی عادتِ جاریہ کے تابع ہے مگر وہ کبھی کبھی کسی حکمت و مشیّت کے تحت اپنی عادتِ جاریہ کے برعکس بھی کسی چیز کا ظہور فرماتا ہے۔ اُسی ظہور کا نام معجزہ ہے۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ معجزہ اللہ کے نبی اور رسول کے اُس فعل کو کہتے ہیں جس کی توجیہہ اَسباب و عِلل سے ممکن نہ ہو اور عقلِ اِنسانی اُس حقیقت کا کامل اِدراک کرنے سے قاصر رہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved