فلسفہ معراج النبی ﷺ

سورۂ والنجم کی روشنی میں واقعہ معراج

منبعِ علم و دانش قرآن مجید فرقان حمید میں واقعۂ معراج تین الگ الگ مقامات پر بیان ہوا ہے۔ سورۃ النجم میں سفر معراج کا ذکر جمیل قدرے تفصیل سے ہوا ہے۔ فرمایا :

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىOمَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىOوَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىOإِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىOعَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىOذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَىOوَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَىOثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىOفَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىOفَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO

(النجم، 53 : 1 - 10)

قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترےo تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo ان کو بڑی قوّتوں و الے (رب) نے (براہِ راست) علمِ (کامل) سے نوازاo جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایاo اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)o پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہو گیا)o پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (اللہ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائیo

اللہ ربّ العزت نے ان آیات مقدسہ کے آغاز میں قسم اٹھائی ہے اور یقیناً ربّ العالمین کا قسم اٹھانا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ ایک غیر معمولی واقعہ کی تمہید کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ خالق کائنات کا کسی واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے قسم اٹھانا اس بات کی بھی دلیل ہے کہ جو واقعہ بیان کیا جا رہا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور جس ہستی معظم کے بارے میں یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے، وہ ہستی کن عظمتوں اور رفعتوں کی حامل ہے! اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے رحیم و کریم کسی وقیع معاملے کا انکشاف فرما رہے ہیں۔ اس غیر معمولی اہتمام کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بندوں پر یہ آشکار کرنا بھی مقصود ہے کہ اس معجزۂمعراج کو اپنی ناقص عقل کی کسوٹی پر نہ پرکھیں بلکہ اس خالق ارض و سماوات کی قدرت کاملہ کا مظہر جان کر دل و جان سے قبول کر لیں۔ فرمایا : قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے۔ مذکورہ آیات کی پہلی آیت میں ’’نجم‘‘ اور ’’ھوی‘‘ کے الفاظ معنی خیز بھی ہیں اور ہمیں غور و تدبر کی دعوت بھی دے رہے ہیں۔

لفظ نَجْم کا مفہوم

عربی لغت میں نجم کا لفظ متعدد معانی میں استعمال ہوا ہے :

لفظِ نَجْم کا پہلا معنی

یہ لفظ عربی زبان و ادب میں کبھی اسم کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا استعمال بطور مصدر عمل میں لایا جاتا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر لفظ نجم بطور اسم استعمال ہو تو اس کا ایک معنی یہ لیا جائے گا کہ کسی چیز کی اصل، مبداء، Root اور Range مثلا ً کسی درخت کی جڑ، جو ایک تناور درخت کی اصل ہوتی ہے۔ جس جگہ سے کوئی چشمہ پھوٹے اس جگہ کو بھی نجم کہا جاتا ہے۔ چشمہ سب کو سیراب کرتا ہے۔ سنگلاخ چٹانوں کو بھی شاداب موسموں کی نوید دیتا ہے۔

فن حدیث میں لفظ نجم استعمال ہوتا ہے۔ یہ اس حدیث کے لئے آتا ہے جو اپنا اصل نہ رکھتی ہو، یعنی بے بنیاد اور من گھڑت ہو مثلاً جب یہ کہا جائے کہ ھذا الحدیث لا نجم لہ تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔ یہ بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔

لفظ نجم کا دوسرا معنی

آیتِ مذکورہ میں نجم سے مراد حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ ’’قسم ہے ستارے کی جب وہ اترے‘‘ معراج کی شب عظمت کا تاج کس رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر سجایا گیا، کھلے آسمانوں کی سیر کرائی گئی۔ ظاہر ہے یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تھی اور خدا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ستارے سے تشبیہہ دے رہا ہے۔ ستارا جو روشنی کی علامت ہے، ستارہ جو حرکت اور زندگی کا استعارہ ہے۔ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

النجم انه محمد.

(روح المعانی، 14 : 45)
(تفسير المظهری، 9 : 103)

نجم سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

لفظ نجم کا تیسرا معنی

ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلب اطہر ہے، وہ قلب مقدس جس پر اس عظیم سفر کی جزئیات رقم ہوئیں۔ اگر یہ معنی لیا جائے تو بھی مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی ٹھہرتی ہے۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پہلا معنی۔ ۔ ۔ اصلِ کائنات

اکثر محدثین و مفسرین نے نجم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو ہی لیا ہے۔ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر کبیر‘‘ میں، علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’روح المعانی‘‘ میں، امام خازن رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تفسیر خازن‘‘ اور نبہان بقلی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’عرائس البیان‘‘ میں نجم کے اسی مفہوم کو اعتماد و اعتبار کی سند عطا کی ہے۔ ان کے علاوہ دیگر متعدد ائمہ تفسیر نے بھی نجم سے مراد سیاح لامکاں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہی لی ہے۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ نجم کی شرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

’’خدا کی ذات بابرکات نے کنائے اور اشارے کے پیرائے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رخشندہ و تابندہ ذات کی قسم کھائی اور فرمایا : قسم ہے اے محبوب! کہ تو اصل ہے‘‘۔

(المفردات : 483)

بعض ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصل اور جڑ ہیں تو یہ کس چیز کی اصل یا جڑ ہیں! جب ہم قرآن سے اس سوال کا جواب پوچھتے ہیں تو قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ وہ کسی شئے کا نام نہیں لیتا بلکہ مطلقاً کہتا ہے ’’والنجم‘‘۔ قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اگر کہہ دیا جائے کہ بندہ فلاں چیز کی اصل اور منبع ہے تو یہ اصل اور منبع ہونا اس چیز کے ساتھ مختص ہو کر رہ جائے گا۔ اس اصل اور منبع کو دوسری چیزوں کا اصل اور منبع ہونے کا درجہ حاصل نہ ہو سکے گا اور اگر کسی چیز کا نام نہ لیا جائے تو اس سے مراد ہر ہر چیز کی اصل و منبع ہوتا ہے۔ ربّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لے کر انہیں محدود کرنا پسند نہیں فرمایا۔ اس لئے ذات سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی شئے سے مختص نہیں کیا گیا۔ جن و انس، شمس و قمر، شجر و حجر، برگ و ثمر، نباتات و جمادات، حور و غلمان، غرض کائنات ہست و بود کا وجود و ظہور سب کچھ تاجدارِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ کے توسل اور تصدق ہی سے قائم ہے۔ محبوب اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ سورج ہوتا اور نہ یہ چاند ستارے۔ اس آیت مقدسہ میں نجم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مراد لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقصود کائنات ٹھہرایا جا رہا ہے۔ اس کائنات رنگ و بو میں صرف دو وجود ہیں :

  1. اللہ۔ ۔ ۔ کہ وہ خالق کائنات ہے۔
  2. ما سوا اللہ۔ ۔ ۔ اللہ کے سوا باقی سب کچھ یعنی تمام مخلوقات اور اشیاء اور اجسام فلکی وغیرہ

اللہ کی اصل اور جڑ کا تصور بھی شرک ہے۔ چونکہ اللہ کی اصل کا ہونا تو ممکن نہیں اس لئے اصل و جڑ مخلوقات ہی ہو سکتی ہیں۔ انسان اشرف المخلوقات ہے اور پھر تمام مخلوقات میں سب سے افضل و برتر حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ گویا اللہ کے سوا اس کائنات رنگ و بو کی ہر چیز کی اصل یا جڑ آقائے نامدار حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ قسم ہے اے محبوب! تیری کہ میرے سوا اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے یا بعد میں ہو گا، محبوب تو ان سب کی اصل ہے۔ یہ سب کچھ تیرے قدموں کی خیرات ہی تو ہے۔

یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اصل کے مقابلے میں ہر شئے فرع ہوتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے فرمایا : قسم ہے محبوب تیری کہ تو اصل ہے، اس کائنات رنگ و بو کا مرکز و منبع ہے۔ معلوم ہوا کہ اصل فقط محبوب ربّ کریم ہیں اور باقی ساری کائنات آپ کی فرع ہے۔ خالق کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی فرع کو انسانی شکل عطا کر دی، کسی کو جنات کا روپ دے دیا، کسی کو ملائکہ بنا دیا، کسی کو شجر و حجر کا درجہ دے دیا، کسی کو شمس و قمر بنا دیا، کسی کو آسمان اور کسی کو زمین کا وجود بخش دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی فرع کو تحت الثریٰ و کسی کو عرش معلی بنا دیا۔

سب کچھ تمہارے واسطے پیدا کیا گیا
سب غایتوں کی غایتِ اولیٰ تمہی تو ہو

تصویر کائنات کا مرکزی خیال

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کائنات رنگ و بو کا مرکزی نقطہ ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے وجود کائنات کا مبداء ہیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات بابرکات لولاک لما کے مصداق تمام کائنات کی اصل ہیں، اسی لئے آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روح کائنات بھی کہتے ہیں۔ آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرم کا سائبان کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔ یہ چشمۂ فیض ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ کائنات ارض و سماوات میں موجود ہر شئے اپنے وجود کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے دھوون کی محتاج ہے، سلطان بحر و بر کے نقش کف پا کے تصدق کی مرہون منت ہے، اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت تو اس وقت ہو چکی تھی جب عالم رنگ و بو ابھی تخلیق نہیں کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے قدموں کے صدقے اس عالم ہست وبود کو خلعت وجود سے نوازا گیا۔

تصویرِ کائنات کا وہ مرکزی خیال
لوحِ جہاں پہ عظمتِ یزداں کہیں جسے

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

اول ما خلق الله نوری ومن نوری خلق کل شئ.

(تفسير روح البيان، 2 : 370)

سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔ پھر میرے نور سے ہر چیز کو بنایا۔

مذکورہ حدیث مقدسہ کا مطلب یہ ہے کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ میری ذات براہ راست اللہ ربّ العزت کے نور سے اکتساب فیض کر رہی ہے جبکہ یہ ساری کائنات، اس کائنات کا ذرہ ذرہ، یہ تمام اجسام فلکی، چرند پرند، ملائکہ، جنات، شجر وحجر، شمس و قمر، غرض کائنات کی ہر شئے میرے نور سے فیض یاب ہو رہی ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمایا :

يارسول الله! بابی انت و امی، اخبرنی عن اول شئ خلقه الله تعالی قبل الاشياء، قال : يا جابر ان الله تعالی قد خلق قبل الاشياء نور نبيک من نوره، فجعل ذلک النور يدور بالقدرة حيث شاء الله، ولم يکن فی ذلک الوقت لوح و لاقلم و لا جنة و لا نار و لا ملک و لا سماء و لا ارض و لا شمس و لا قمر و لا جن و لا انس، فلما اراد الله تعالی ان يخلق الخلق قسم ذلک النور اربعة اجزاء، فخلق من الجزء الاول القلم و من الثانی اللوح و من الثالث العرش، ثم قسم الجزء الرابع اربعة، فخلق من الاول حملة العرش ومن الثانی الکرسی والثالث باقی الملائکة، ثم قسم الرابع الاربعة اجزاء، فخلق من الاول السموت و من الثانی الارضين و من الثالث الجنة والنار. . .

(المواهب اللدنيه، 1 : 9)
(السيرة الحلبيه، 1 : 50)
(زرقاني علي المواهب، 1 : 46)

یارسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں مجھے بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کیا چیز پیدا فرمائی؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جابر! بے شک اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا۔ پھر وہ نور مشیت ایزدی کے مطابق جہاں چاہتا سیرکرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم، جنت تھی نہ دوزخ، فرشتہ تھا نہ آسمان، نہ زمین تھی، سورج تھا نہ چاند، جن تھا نہ انسان۔ جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ مخلوقات کو پیدا کرے تو اس نور کو چار حصوں میں تقسیم کر دیا۔ پہلے حصے سے قلم بنایا دوسرے سے لوح، تیسرے سے عرش اور چوتھے کو پھر چار حصوں میں تقسم کیا، پہلے حصہ سے عرش اٹھانے والے فرشتے بنائے، دوسرے سے کرسی اور تیسرے سے باقی فرشتے بنائے، پھر چوتھے حصے کو مزید چار حصوں میں تقسیم کر دیا، پہلے سے آسمان بنائے، دوسرے سے زمین اور تیسرے سے جنت و دوزخ۔ ۔ ۔

کثیر ائمہ کرام جن میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں شامل ہیں، نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔ اسی بنا پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبداء کائنات کہا جاتا ہے۔ آپ ہی وجہ تکوین عالم ہیں۔ کائنات کا سارا حسن، حسن محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ایک جھلک ہے۔ پھولوں میں خوشبو انہی کے نقش قدم کا فیضان ہے، ستاروں میں روشنی انہی کے وجود مسعود کا پرتو ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو سورج کو خلعت نور عطا ہی نہ ہوتی بلکہ سرے سے اس کا وجود ہی نہ ہوتا۔

ھوی کا لفظ النجم کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو چونکہ ھوی میں ظہور کا معنی پایا جاتا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہو گا :

اے محبوب! قسم ہے تیری کہ تو اصل کائنات ہے اور قسم ہے تیری کہ تیرا نور مخفی تھا۔ جب میں نے چاہا تو منصہ شہود پر ظاہر ہو گیا۔

(روح المعانی، 14 : 45)

اگر غور کیا جائے اور منشائے ایزدی کو حیطۂ شعور میں لایا جائے تو انکشاف ہو گا کہ ربّ کائنات تخلیق محمدی کی قسم کھا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر پروردگار عالم صبح ولادت باسعادت کی قسم کھا رہا ہے۔ یہ کائنات رنگ و بو اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرہ جلیلہ کی خاطر ہی تو سجائی ہے کہ جس میں ہر لمحہ اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کا ذکر ہو رہا ہے۔ تمام الہامی صحیفے صبح میلاد کے طلوع کی بشارت سے سرفراز نظر آتے ہیں۔

ظہور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مقصود کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود پاک اپنے ظہور کے اعتبار سے تین مراحل سے گزرا۔

  1. مرحلۂ تخلیق
  2. مرحلۂ ولادت
  3. مرحلۂ بعثت

1۔ مرحلۂ تخلیق

تخلیق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کا وہ ظہور اول ہے جب اللہ ربّ العزت نے وجود نبوی کو عالم عدم سے عالم وجود میں منتقل کیا۔

2۔ مرحلۂ ولادت

12 ربیع الاول اس لحاظ سے کائنات کا سب سے عظیم دن ہے کہ اس دن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عالم رنگ و بو میں تشریف لائے، ولادت باسعادت وجود مسعود کے ظہور کا دوسرا مرحلہ ہے۔

3۔ مرحلۂ بعثت

حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کے ظہور کا تیسرا مرحلہ بعثت مبارکہ کا ہے۔ یہ مرحلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے چالیسویں سال میں ظہور پذیر ہوا۔

ظہور مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان تینوں مراحل کو ظہور اول، ظہور ثانی اور ظہور ثالث کے عنوان کے تحت بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے ستارۂ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی۔ گویا ان تینوں مراحل کی قسم اٹھا کر اپنے محبوب کی عظمتوں اور رفعتوں میں اضافہ فرمایا۔ پیارے محبوب! قسم ہے تیری کہ تو چمکتا ہوا ستارۂ اول الخلق ہے، قسم ہے تیری کہ تو نے آمنہ کے گھر قدم رنجہ فرمایا اور اے محبوب! قسم ہے تیری کہ ہم نے چالیس سال کی عمر میں تجھے انسانوں کی رہبری کے لئے مبعوث فرمایا۔

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول اول بھی ہیں اور رسول آخر بھی، رسول ازل بھی اور رسول ابد بھی، اس لئے کہ جو چیز مطلقاً اصل ہو وہ حقیقتاً سب سے اول ہوتی ہے اور جو چیز حقیقتاً سب سے اول ہوتی ہے وہی چیز واقعتاً سب سے آخر میں ہوتی ہے۔ اس نکتے کی وضاحت میں دو مثالیں درج کی جاتی ہیں:

پہلی مثال : کاغذ پر دائرہ بنانے کے لئے جس نقطے سے آغاز کیا جائے وہ نقطہ حرف اول ہو گا اور دائرہ مکمل ہونے پر جہاں مکمل ہو گا وہ نقطہ حرف آخر ہو گا۔ گویا یہ نقطہ آخر وہی نقطہ ہے جہاں سے دائرہ کا آغاز ہوا تھا۔ ثابت ہوا کہ جو حقیقت میں اول ہوتا ہے وہی واقعتا آخر ہوتا ہے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول اول اور رسول آخر کہا جاتا ہے۔ اللہ ربّ العزت نے والنجم اذا ھوی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کائنات کا نقطۂ آغاز قرار دیتے ہوئے آپ کی اس اولیت کی قسم کھائی ہے۔ قادر مطلق کا قسم کھانا اس بات کی علامت ہے کہ اے محبوب! تو اس کائناتِ رنگ و بو کا حقیقتاً اول ہے اور واقعتاً آخر بھی تو ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا :

نگاہ عشق و مستی میں وہی اول، وہی آخر
وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طہٰ

دوسری مثال : فرض کیجئے کہ آم کا ایک درخت لگایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لئے سب سے پہلے آم کی گٹھلی زمین میں بوئی جاتی ہے۔ پھر وہ گٹھلی زیر زمین تخلیق کے عمل سے گزرتی ہے۔ اس کی کونپلیں زمین کا سینہ چاک کر کے سطح زمین پر نمودار ہوتی ہیں۔ پھر یہ ننھی منی کونپلیں نشوونما پا کر تنا بنتی ہیں۔ پھر اس تنے سے شاخیں نکلتی ہیں اور ان شاخوں پر پتے اور پھول آتے ہیں۔ پھول پھل بنتے ہیں۔ شاخیں پھلوں سے جھک جاتی ہیں۔ یہ شاخوں کا اظہار عجز ہوتا ہے۔ یہ بارگاہ خداوندی میں ان کا سجدۂ شکر ہوتا ہے کہ پروردگار تو نے ہمیں ثمر بار کیا اور پھر جب موسم آتا ہے تو یہی پھل آم کی صورت میں پک جاتا ہے۔ لوگ اسے کھاتے ہیں۔ آخر میں جو چیز رہ جاتی ہے یہ وہی گٹھلی ہوتی ہے جسے زمین میں بویاگیا تھا۔ وہی شئے جو درخت کی زندگی میں حرف اول تھی اس کی زندگی میں حرف آخر بھی ٹھہری۔ درخت کی زندگی کا سفر جہاں سے شروع ہوا تھا ختم بھی وہیں پر ہوا۔ یہ تخلیق کی وہ کائناتی سچائی ہے جس کا پوری کائنات میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ گویا آیت مقدسہ میں والنجم کہہ کر اللہ ربّ العزت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولیت کی ہی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخریت کی بھی قسم کھائی۔ اسی لئے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر اقدس پر ختم نبوت کا تاج سجایا گیا کہ محبوب! اب تیرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ تیرے ساتھ ہی ہماری وحی کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا۔ اب قیامت تک ہر صدی تیری صدی ہے، ہر زمانہ تیرا زمانہ ہے۔ وہ قرآں جو تجھ پر نازل کیا گیا وہ بھی آسمانی ہدایت کا حرف آخر ہے کیونکہ اے محبوب! تو رسول آخر ہے، تمام فضیلتیں تجھ پر ختم ہو رہی ہیں۔ تمام عظمتیں تیرے قدموں پر نثار ہو رہی ہیں۔ اب تیرے قدموں تک پہنچنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ اے محبوب قسم ہے تیری کہ تو کائنات کا وجود اول بھی ہے اور کائنات کا وجود آخر بھی تو ہی ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ اول و آخر ہونا اللہ تبارک و تعالیٰ کی بھی شان ہے۔ اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اسی شان کا مظہر بنایا۔ وہ خالق ہو کر اول و آخر، یہ مخلوق ہو کر اول و آخر، وہ اپنی ربوبیت میں یکتا و تنہا، یہ عبدیت میں اپنا مثال آپ۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مخلوق کا موازنہ کسی صورت میں بھی خالق کائنات سے نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خالق ہے یہ مخلوق، وہ معبود ہے یہ عابد، وہ مولائے کائنات ہے یہ رسول کائنات، وہ ربّ العالمین ہے یہ رحمۃ للعالمین۔

حدیث قدسی میں ارشاد ربانی ہے :

جعلتک اول النبيين خلقا واخرهم بعثا.

(شفاء، 1 : 240)

میں آپ کو پیدا ہونے میں تمام انبیاء سے اول لایا اور ظاہر ہونے میں سب سے آخر میں۔

حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کائنات کا نقطۂ آغاز یا وجود اول ہے اور آپ سلسلۂ انبیاء کے ظہور میں آخری نبی ہیں۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ربّ کائنات نے فرمایا :

وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَىO

(النجم، 53 : 1)

اے محبوب! تیری قسم کہ تو ہی تخلیق کائنات میں سب سے اول تھا اور ظہور میں سب سے آخرo

قسم ہے اے محبوب! تیری کہ تو اول کائنات ہے اور قسم ہے تیری کہ تو آخر کائنات ہے۔ کائنات کا نقطۂ آغاز بھی تو کائنات کا نقطۂ آخر بھی تو، اور اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قسم ہے تیری کہ تو اپنے فیضان رحمت کے ساتھ پوری کائنات پر محیط ہے۔ خلق کی زندگی کا سرچشمہ حیات بھی تو اور حیات خلق کا آخری اشارہ بھی تو اور اے محبوب! درمیان میں تخلیق کی جتنی بھی صورتیں ہیں انہیں تیری رحمت لازوال نے اپنے محیط میں لے رکھا ہے۔ فرمایا :

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَO

(الانبياء، 21 : 107)

اور اے محبوب! ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہےo

اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے ہم نے آپ کو سراپا رحمت بنایا، پھر اس عالم رنگ و بو کی تخلیق ہوئی، آپ کائنات کی تخلیق سے پہلے بھی موجود تھے اور کائنات کے بعد بھی رہیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اول کائنات آخر کائنات اور محیط کائنات کی تینوں قسمیں نجم کے تین حروف میں مضمر ہیں۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا دوسرا معنی : ظاہری و باطنی کمالاتِ مصطفوی کا ظہور

ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ عربی زبان ادب میں لفظ نجم کبھی بطور اسم استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مصدر۔ ہم نے یہ بھی وضاحت کی تھی کہ اگر یہ لفظ بطور اسم آئے تو اس کا معنی درخشاں ستارہ ہوتا ہے اور اگر بطور مصدر آئے تو یہ لفظ طلوع و ظہور کے معنی دیتا ہے۔ جب نجم کو بطور اسم لیں اور ھوی کا معنی طلوع و ظہور ہو تو آیت کریمہ کا مفہوم کچھ اس طرح ہو گا : قسم ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شب معراج مطلع کائنات پر اس طرح طلوع ہوا کہ اس کے سارے ظاہری اور باطنی کمالات منصہ شہود پر جلوہ گر ہو گئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو النجم کیوں کہا گیا؟

محبت کی کوئی زبان نہیں ہوتی۔ یہ اپنے اظہار کے راستے خود تلاش کر لیتی ہے۔ یہاں بھی ایک نکتۂ محبت کا بیان بے جا نہ ہو گا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفر معراج کوئی معمولی واقعہ نہیں کہ اسے ایک واقعہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ واقعہ ارتقائے انسانی کا فلسفہ بیان کر رہا ہے اور انسان کو عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کر رہا ہے۔ یہ واقعہ حیات مقدسہ کا سب سے بڑا اعجاز تھا۔ ہم اپنی مادی زندگی میں لمحات مسرت کے موقع پر اپنے بچوں کے لئے آنکھ کا تارا، نظر کا نور جیسے الفاظ استعمال کر کے ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں پر اظہار مسرت و تشکر کرتے ہیں۔ شب معراج جب حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر انعامات خداوندی کی بارش ہوئی، عظمت و رفعت کی خلعت فاخرہ عطا ہوئی تو قدرتی طور پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسرت و انبساط کی کوئی انتہا نہ تھی لیکن عظمت کے اس سفر پر روانہ ہونے پر آپ کو محبت بھرے الفاظ سے حرف تحسین پیش کرنے والا کوئی نہ تھا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد گرامی زندہ تھے اور نہ والدہ مکرمہ، دادا جان بھی داغ مفارقت دے گئے تھے، شفیق چچا بھی اب اس دنیا میں نہیں تھے، اب شہر مکہ میں دو ہی گروہ رہ گئے تھے، ایک جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گروہ اور دوسرا کفار و مشرکین کا گروہ، جو آپ کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ آپ کو دنیا میں چمکتا ہوا ستارہ کہہ کر پکارنے والا کوئی نہ تھا۔ فرمایا محبوب! کوئی بات نہیں ہم جو تجھے ’’وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی‘‘ کہہ کر پکارنے والے ہیں۔ قسم ہے اس ستارے کی جب وہ آن بان سے طلوع ہوا۔ اللہ نشاندہی کر دیتا تو بات محدود ہو کر رہ جاتی، اللہ نے مطلع مشرق کا ذکر کیا نہ مطلع مغرب کی طرف اشارہ کیا بلکہ مطلقاً فرما دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اے محبوب! ہم نے جتنے عالم پیدا کئے ہیں تو ہر ہر عالم کے مطلع پر طلوع ہوتا رہا، اس لئے کہ ہم نے تجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے اور تیری شان رحمت یہ ہے کہ کائنات کی ہر شئے تیرے محیط میں مانند حباب بن کر رہے۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ :

لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

فاران کی چوٹیوں پر آفتاب رسالت چمکا تو ہر شئے سیل رنگ و نور میں نہا گئی۔ ظلمت شب سامان سفر سمیٹ کر رخصت ہوئی۔ قانون فطرت ہے کہ جب خورشید افق کے اس پار نظروں سے اوجھل رہتا ہے اور افق عالم پر اس کا ظہور نہیں ہوتا تو اس کی ساری ضو فشانیاں اس کی ساری تابانیاں انسانی آنکھ سے اوجھل رہتی ہیں لیکن جونہی وہ افق عالم پر جلوہ گر ہوتا ہے گوشہ گوشہ منور ہو جاتا ہے۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ کسی چیز کا وجود اس کے ظہور کے بغیر بھی ممکن ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ ہماری چشم بینا سے مخفی رہے یا عقل ناقص کے حیطہ ادراک میں نہ آ سکے۔ آفتاب کے ظہور کے لئے اس کا طلوع ہونا ضروری ہے۔ طلوع کے بغیر ظہور ممکن نہیں چنانچہ جب آفتاب رسالت طلوع ہوا تو یہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظہور تھا، اسی لئے اس لمحہ جاوداں کو ظہور قدسی کا نام دیا گیا ہے۔ طلوع و ظہور کے تناظر میں النجم کا مفہوم کچھ اس طرح متعین ہو سکتا ہے کہ قسم ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شب معراج اس طرح جلوہ گر ہوا کہ اس کے سارے کمالات عالم بشریت پر اس طرح عیاں ہوئے کہ عالم میں پہلے انہیں کسی نے دیکھا تھا اور نہ کبھی بعد میں آنے والے زمانوں میں دیکھ پائیں گے۔ اس چمکتے ہوئے ستارے نے من کے اندر بھی روشنی بکھیری اور من کے باہر بھی ہر چیز کو منور کر دیا کہ صدیوں کی ظلمتوں کو رخت سفر باندھنے پر مجبور ہونا پڑا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کا حرفِ یقین ٹھہرے۔ ساری کائنات اسی پیکر جمال کی دریوزہ گر ہے، اسی در سے نور کی خیرات لیتی ہے۔ دہلیز مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا باڑ ابٹتا ہے اور کشکول آرزو میں رحمت کے سکے گرتے ہیں۔ یہ چمکتا ہوا ستارہ بیت المقدس کے افق پر طلوع ہوا تو آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ علیھم السلام تک تمام انبیاء اس مرکز انوار سے اکتساب نور کرنے کے لئے صف بہ صف جمع ہو گئے۔ اس نیر تاباں کی روشنی اکناف عالم میں پھیل گئی، جس نے عالم بشریت کو اپنی آغوش کرم میں سمیٹ لیا۔ قیصر و کسریٰ کا غرور خاک میں مل گیا، قریۂ جبر پر ابر رحمت کھل کر برسا، انسان کی خدائی سے انسان کو رہائی ملی، دختر حوا کے پیروں کی زنجیریں ٹوٹ کر گر پڑیں، ظلم و استبداد کے دور کا خاتمہ ہوا، انسانی حقوق کی بازیابی کا عمل مکمل ہوا، افق عالم پر دائمی امن کا عہد نامہ تحریر ہوا، نفاذ عدل انسانی معاشروں کا طرۂ امتیاز ٹھہرا اور جنگل کی ساری تاریکی انسانی معاشروں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئی اور انسانیت کا شفاف چہرہ آئینے کی طرح چمکنے لگا۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی میں مخفی حقائق

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پہلا معنی بلندیوں تک پہنچنا ہے۔ معراج کی شب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے وجود بشری کے ساتھ ان بلندیوں سے بھی آگے تشریف لے گئے جن بلندیوں پر جبرئیل جیسے مقرب فرشتے کے بھی پر جلتے ہیں۔ کلام خدا پر جتنا بھی غور کیا جائے تفہیم کی نئی نئی پرتیں خودبخود سامنے آتی جاتی ہیں۔ اگر والنجم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مسعود مراد لیا جائے اور لفظ ھَوٰی ھَوِیٌّ سے مشتق ہو تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا ’’چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم جو زمین کی پستیوں سے ابھر کر عالم لامکاں کی بلندیوں کی انتہاء تک پہنچا‘‘۔ حقیقت معراج روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہے۔ اب اس استدلال کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ کسی خواب کی کیفیت بیان نہیں ہو رہی بلکہ روح کا جسم کے ساتھ آسمانوں پر جانا ہی معراج ہے۔ اس کا ذکر ربّ کائنات نے قسم کھا کر کیا ہے کہ یہ واقعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بحالت خواب روحانی معراج کی مطلقاً کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ربّ کائنات کو قسم کھانے کی ضرورت تھی کہ خواب میں تو اس قسم کے محیرالعقول مشاہدات ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت کا قسم کھانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ واقعہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔ اگر اس سے یہ مراد لی جائے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرۃ المنتہی سے واپس لوٹ آئے (جیسا کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے) تو پھر بھی یہ واقعہ اتنی اہمیت کا حامل نہ ہوتا کہ سدرۃ المنتہی تک تو جبرئیل کو بھی رسائی حاصل ہے۔ سدرۃ المنتہی عالم ملوکیت کی آخری حد ہے، جہاں شہداء اور خدا کے برگزیدہ بندوں کا گزر رہتا ہے، لہٰذا سدرۃ المنتہی تک پہنچنا اتنی عظیم بات نہ ہوتی اور اسے اس اہتمام سے بیان بھی نہ کیا جاتا لیکن بات سدرۃ المنتہی سے آگے کی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کے قسم کھانے سے اس استدلال کو تقویت ملتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پروردگار عالم کی عطا کردہ قوت سے عالم بالا کے اس آخری کنارے تک پہنچے جہاں کوئی نبی مرسل یا فرشتہ پہنچنے کی نہ تاب رکھتا ہے اور نہ جرات، وہاں تک مرغ تخیل کی رسائی بھی ممکن نہیں۔

لفظ ھَوٰی سدرۃ المنتہی سے قاب قوسین تک کے سفر کو بیان کر رہا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ اس لمحہ کی قسم جب میرے محبوب تو لامکاں کی حدوں کو پار کر کے میرے مقام قرب تک پہنچا۔ خلاصۂ بحث یہ ہوا کہ خدائے علیم و خبیر نے اس آیت مقدسہ میں اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی جو شب معراج عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہوئے بلکہ سب رفعتوں اور عظمتوں کو اپنے قدموں کے نیچے چھوڑتے ہوئے بلندیوں کی آخری منزل تک جا پہنچے۔ اس منزل تک جس منزل تک عام انسان تو کجا فرشتوں تک کے پہنچنے کا تصور بھی محال ہے۔

سفرِ معراج کا نقطۂ آغاز اور منتہائے کمال

طائف کے بازاروں میں اوباش لڑکوں کی سنگ باری کا دلخراش سانحہ گزر چکا تھا، مکہ مکرمہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کے مقفل دروازے کھل چکے تھے۔ قلب اطہر کفار و مشرکین مکہ کی مسلسل چیرہ دستیوں پر ملول تھا لیکن لب اقدس پر دعا کے پھول کھل رہے تھے۔ تحریک اسلامی کی قیادت عظمیٰ آزمائش کے مراحل سے گزر چکی تھی۔ دلجوئی کے لئے نہ عبدالمطلب تھے نہ ابوطالب، اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب کی دلجوئی اس طرح کی کہ انہیں عظمتوں اور رفعتوں کی اس منزل تک لے گیا جس کا تصور بھی ذہن انسانی میں نہیں سما سکتا۔ سدرۃ المنتہی کی وہ منزل جس سے آگے جبرئیل جیسے مقرب فرشتے کو بھی دم مارنے کی جا نہیں، آپ کے سفر معراج کا ایک پڑاؤ ٹھہری۔

اس سفر عظیم کا آغاز حطیم کعبہ سے ہوا۔ آقائے کائنات استراحت فرما تھے۔ ادھر آسمانوں پر حور و ملائکہ محبوب کبریا کی پیشوائی کے منتظر تھے کہ سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں اور وہ آسمانی مخلوق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھانے کا اعزاز حاصل کرے۔ جبرئیل امین آسمانوں سے اترے، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیدار کیا اور ایک سواری حاضر کی، جو دراز گوش سے اونچی اور خچر سے قدرے نیچی تھی۔ اس سواری کا نام ’’براق‘‘ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہوئے۔ یہ ایک تیز رفتار سواری تھی۔ اس کی تیز رفتاری کا عالم یہ تھا کہ اس کا ہر ہر قدم منتہائے نظر پر پڑتا تھا۔ سفر کے پہلے مرحلے پر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیت المقدس لے جائے گئے جہاں تمام انبیاء آپ کے منتظر تھے۔ نماز کا وقت ہوا، صفیں درست ہوئیں اور جبرئیل نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کی امامت کے لئے مصلیٰ پر کھڑا کر دیا۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک۔ ۔ ۔ تمام انبیائے کرام نے سردار انبیاء کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ یہاں سے براق پر سوار ہو کر آپ نے آسمان دنیا پر ورود فرمایا۔ آسمان دنیا کے دروازے پر جبرئیل امین نے دستک دی تو دربان نے پوچھا کہ جبرئیل تمہارے ساتھ کون ہے؟ جب جبرئیل نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لیا تو دروازہ کھل گیا۔ حور و غلمان صف بہ صف کھڑے تھے۔ خوش آمدید یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش آمدید، مرحبا یا نبی مرحبا۔ پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، آپ نے نسل انسانی کے جدامجد کو سلام کیا تو حضرت آدم علیہ السلام نے صالح بیٹے اور صالح نبی کہہ کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ساتوں آسمانوں کے دروازے کھلتے چلے گئے۔ عرش معلی پر جشن کا سا سماں تھا۔ ہر طرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے چرچے تھے۔ آج وہ مہمان ذی وقار آ رہے ہیں جن کے بارے میں ربّ کائنات نے فرمایا کہ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ زمین ہوتی اور نہ یہ آسمان، پیارے یہ کائنات رنگ و بو تیرے قدموں کا صدقہ ہے، یہ زمین و آسمان تیرے نقوش پا کی خیرات ہے۔ فرشتے جوق در جوق استقبال کے لئے حاضر ہوتے رہے۔ کائنات ارض و سماوات عالم بشریت کی زد میں تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمتوں اور رفعتوں کا یہ عظیم سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے۔ عروج آدم خاکی سے سہمے ہوئے النجم بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ دوسرے، تیسرے، چوتھے، پانچویں، چھٹے اور ساتویں آسمان پر آپ کی ملاقات بالترتیب حضرت یحییٰ و عیسیٰ، حضرت یوسف، حضرت ادریس، حضرت ہارون، حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم علیھم السلام سے ہوئی۔ گویا آپ جہاں گئے انبیاء سے فرشتوں تک تمام آسمانی مخلوقات آپ کے لئے چشم براہ تھیں۔ سدرۃ المنتہی کا مقام بلند آ گیا۔ جبرائیل علیہ السلام رک گئے اور آگے بڑھنے سے معذوری کا اظہار کیا :

لو دنوت انملة لاحترقت.

(روح البيان، تفسير نيشا پوری)
(اليواقيت والجواهر، 2 : 35)

اگر ایک پور برابر بھی آگے بڑھوں تو جل جاؤں گا۔

یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے آگے جانے کی مجھے اجازت نہیں۔ آگے بڑھا تو میرے پر جل جائیں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا بڑھتے ہوئے آخر اس مقام پر پہنچ گئے جس کو قاب قوسین او ادنی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سارے حجابات اٹھا دیئے گئے۔ قرآن کہتا ہے :

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَىO

(النجم، 53 : 8 - 10)

پھر قریب ہوا (اللہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) پھر زیادہ قریب ہوا تو (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ربّ سے)o دو کمانوں کی مقدار (نزدیک) ہوئے بلکہ اس سے (بھی) زیادہ قریبo تو وحی فرمائی اپنے عبد مقدس کو جو وحی فرمائیo

حدیث پاک میں مذکورہے :

حتی جاء سدرة المنتهی دنی الجبار ربّ العزة فتدلی حتی کان منه قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی

(صحيح البخاری، 2 : 1120)

یہاں تک کہ آپ سدرۃ المنتہی پر آ گئے، ربّ العزت اپنی شان کے لائق بہت ہی قریب ہوا یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔

اللہ ربّ العزت نے اپنی شان کے مطابق اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا اور اتنا قریب ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا۔ گویا حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پروردگار عالم کے جلوؤں کی ارزانی ہوئی۔ بارگاہ صمدیت میں تاجدار کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرتاپا صفات ربانی میں اس طرح رنگے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ستودہ صفات اللہ تعالیٰ کی مظہریت کا پیکر اتم بن گئی۔

لامکاں کی وسعتوں سے زمین پر نزول

اللہ ربّ العزت نے آسمانوں پر اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلعت عظمت و رفعت سے نوازا، انہیں ان بلندیوں پر فائز کیا جن کا تصور بھی محال ہے۔ طائف کے بازاروں میں سنگ باری نے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملول کر دیا۔ ربّ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلجوئی فرماتے ہوئے آپ کا دامن عظمتوں اور رفعتوں سے بھر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصب رسالت کو نئی شان عطا کی۔

عربی زبان و ادب کے قواعد کے مطابق اگر لفظ ھَوٰی مصدر ھُوِیٌّ سے مشتق ہو تو اس کا معنی ہو گا : الخدار، نزول، نیچے آنا۔ ان معانی کی رو سے اس آیت مقدسہ کا مفہوم یہ ہو گا :

والنجم ای محمد اذا هوی ای اذا نزل من السماء الی الارض ليلة معراج.

(الشفاء، : 1)

قسم ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو شب معراج انتہائی رفعتوں کو چھو کر زمین پر واپس آ گیا۔

مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک اور پھر مسجد اقصیٰ سے آسمانوں تک کا سفر بھی ایک معجزہ تھا اور عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہونے کے بعد واپس اس کرۂ ارضی پر تشریف لے آنا بھی ایک معجزہ تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کا پہلوئے بشریت عالم بشریت کو فیض پہنچانے کے لئے تھا کہ آپ کو نسل انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے جامۂ بشریت میں مبعوث فرمایا گیا جبکہ نورانیت کا پہلو عالم ملکوت کی فیض رسائی کے لئے تھا۔ یہ دونوں پہلو فی الحقیقت حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی مقام کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ آپ کی حقیقت، نورانیت و بشریت کے مقامات سے وراء الوراء ہے۔ اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو نور و بشر کے مسائل میں الجھ کر خوامخواہ آپس میں دست و گریباں ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقام نورانیت کو عالم ملکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے۔ حقیقت محمدی ان دونوں مقامات کی انتہاء سے بھی بالاتر ہے۔ آپ کا اصلی گھر تو لامکاں تھا جہاں پر آپ کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ خالق موجودات کا ہم بندگان خاکی نہاد پر عظیم احسان ہے کہ اس نے اپنے لطف و کرم اور عنایت سے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی صفات کا مظہر اتم بنا کر ہمیں عطا کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر واپس آ گئے تاکہ زمین پر بسنے والی اولاد آدم کو ظلم و بربریت سے نجات دلائیں۔ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے اور انسانی معاشروں میں عدل کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے تاکہ انسانی معاشرے استحصال کی ہر شکل سے پاک ہو جائیں۔

صوفیاء کی تعبیرِ معراج

صوفیاء کے نزدیک تاجدار کائنات حضور نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معراج کے لئے اس کرۂ ارضی کی پستی سے عالم بالا کی طرف جانا اتنا بڑا معجزہ نہیں جتنا کہ مقامات علو سے دامن کش ہو کر جہان آب و گل کی پستی کی طرف لوٹ آنا ہے۔ اسی سبب سے والنجم کہہ کر ربّ کائنات قسم کھا رہا ہے اس چمکتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو اس کی حریم ذات کے قرب وصال کی رفعتوں سے ہمکنار ہونے کے بعد نوع انسانی کی بھلائی، اولاد آدم کی بہبود اور انسانی ہدایت کی خاطر واپس زمین پر تشریف لے آئے۔

شیخ عبدالقدوس گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقام پر صوفیاء کے دو مراتب کا ذکر کیا ہے۔

  1. مرتبۂ عروج
  2. مرتبۂ نزول

1۔ مرتبۂ عروج

عروج وہ مرتبہ ہے جس میں روح اپنے اصل وطن کی طرف لوٹ جاتی ہے اور لذت وصال سے ہمکنار ہو کر ہجر و فراق کے مرتبہ کی طرف لوٹ آتی ہے۔ عرفاء کے نزدیک عروج کا درجہ نزول کے درجے سے کم ہے اس لئے کہ عروج تکمیل کا سفر ہے جبکہ نزول اپنے تکمیل کے بعد دوسروں کی تکمیل کا متقاضی ہے اور یہ مرحلہ پہلے مرحلے کی نسبت آزمائش طلب، پرکٹھن اور صبر آزما ہوتا ہے۔ شیخ گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمال تھا کہ وہ اس رفعتِ أَوْ أَدْنَى سے واپس لوٹ آئے۔ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے وہاں جانا نصیب ہوتا تو واپس آنے کا کبھی نام نہ لیتا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک تو مجھ میں اتنی روحانی توانائی نہ ہوتی کہ میں اپنی جسمانی اکائی کو برقرار رکھ سکتا۔ دوسرے اپنی ذات میں اس قدر مگن ہو جاتا اور خود غرضی مجھ پر اس قدر غالب آ جاتی کہ میں عالم انسانیت کو بھول کر صرف اپنا ہی ہو کر رہ جاتا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت یہ ہے کہ وہ اتنی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد لوٹ آئے۔ شعور بندگی اور احساس بندگی ہر قدم پر دامن گیر رہا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظمتوں کی خلعت فاخرہ عطا ہونے کے بعد بھی اپنی ذات میں گم نہیں ہوئے بلکہ انہیں ہر لمحہ ہم گنہگاروں کی ہدایت اور اصلاح کا خیال رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنی روحانی قوتوں کے مالک تھے کہ انوار و تجلیات کی مسلسل بارش میں اپنی ذات کی اکائی کو سلامت رکھنے میں کامیاب و کامران رہے اور واپس زمین کی طرف بھی لوٹ آئے کہ اس کرۂ ارضی پر بسنے والے انسانوں کو اصنام پرستی کے تاریک غاروں سے نکال کر توحید پرستی کے حلقۂ انوار میں داخل کرنا تھا۔ یہ وہی زمین تھی جہاں پتھروں کی بارش میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پرچم توحید اٹھائے رکھا۔ جہاں قدم قدم پر آپ کے خون کے پیاسے آپ کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ شان رسالت یہی تھی کہ اللہ کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے اور اس کی تائید و نصرت پر کامل یقین رکھتے ہوئے دلوں کے قفل توڑے جائیں اور ان کے سینوں کو توحید کے نور سے منور کیا جائے۔

پیکرِ جود و کرم کا احسان

اگر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں یہ عرض گزارتے کہ باری تعالیٰ میں نے منزل مقصود کو پا لیا۔ اس سے آگے کی منزل کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اب دنیا میں جا کر مجھے کیا لینا، بس تیرے انہی جلووں میں گم ہو جانا چاہتا ہوں، مولا! واپسی کا کوئی ارادہ نہیں، تو کیا وہ مہربان خدا جس نے اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کیا ہے، اپنے قرب کے اعزاز لازوال سے نوازا تھا، اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو رد کر سکتا تھا؟ ہرگز ہرگز نہیں، لیکن آقا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم غلاموں کو دشت بے اماں میں بھٹکنے کے لئے تنہا نہیں چھوڑا اور واپس ہمارے درمیان تشریف لے آئے۔ جہاں ہم نے نفرت کی دیواریں کھینچ رکھی تھیں۔ کفر و شرک کے حصار میں مقید اولاد آدم خدا پرستی کی ہر ادا کو بھول چکی تھی، جہاں زندگی شرمندگی کا روپ اختیار کر کے ضمیر مردہ کا کفن اوڑھ چکی تھی۔

اقلیم تصوف میں روحانیت اور طریقت میں معراج عروج پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ اس میں مقصود اپنی ذات کا کمال ہوتا ہے مگر یہاں تو امت کو باکمال کرنا مقصود تھا لہٰذا باری تعالیٰ کے پیار بھرے سوال کا جواب انتہائی عاجزی سے عرض کیا کہ باری تعالیٰ واپس جانا چاہتا ہوں۔ اس طرح معراج مصطفوی کا سفر عروج کی بجائے نزول پر ختم ہوا کیونکہ اگر نزول نہ ہوتا تو امت بے وسیلہ ہو جاتی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض نہ پا سکتی لیکن آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہماری بہتری اور بھلائی مقصود تھی۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امت اجابت (امت مسلمہ) پر ہی نہیں پوری امت (بشمول امت دعوت) پر احسان عظیم ہے کہ انہوں نے عالم انسانیت کو ایک ایسی محرومی سے بچا لیا جس کی تلافی حشر تک ممکن نہ ہوئی۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا تیسرا معنی۔ ۔ ۔ پورے سفر معراج کی قسم

سطور بالا میں ہم نے آیت مقدسہ کے دو معانی تفصیلاً بیان کئے ہیں۔ اس آیت مقدسہ کا تیسرا مفہوم یہ ہے کہ ربّ کائنات نے پورے سفر معراج کی قسم کھائی ہے۔ عربی زبان و لغت کے قواعد کے مطابق کسی چیز کے اوپر جا کر نیچے آنے کے پورے عمل کو بھی ھوی کہتے ہیں۔ اس معنیٰ کی رو سے اللہ ربّ العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے سفر معراج کی قسم کھا رہا ہے۔ اب اس آیت مقدسہ کا مفہوم یوں ہو گا کہ قسم ہے ستارے کی طرح چمکتے ہوئے وجود مبارک کی جو شب معراج اوپر گیا اور اپنی منزل مقصود پا کر پھر واپس آ گیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آسمانوں کی سیر اور عظمتوں سے ہمکنار ہونے کے بعد دوبارہ عالم انسانیت میں نزول فرمایا۔

قرآنی قسموں کی حکمتیں

قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی مقامات پر قسم کھائی ہے۔ قسم کسی خاص واقعہ کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور ذہن انسانی میں اس کا نقش بٹھانے کے لئے اٹھائی جاتی ہے۔ اللہ ربّ العزت کے اپنے پیارے رسول کی قسم کھانے میں کئی حکمتیں، احوال اور رمزیں ہیں، کئی اسرار و رموز ہیں جن پر سے پردہ اٹھانا مقصود ہے۔ یہاں ہم بیشمار حکمتوں میں سے ایک پہلوئے محبت کو لے رہے ہیں، وہ یہ کہ اس آسمانی سفر پر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود نہیں گئے بلکہ اللہ ربّ العزت کی طرف سے جبرئیل امین بلاوا لے کر آئے تھے کہ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج میں چاہتا ہوں کہ مقام قاب قوسین میں اپنے حسن مطلق کی جلوہ گاہ میں بٹھا کر تجھے دیکھوں اور تو میرے محبوب! جی بھر کر میرے حسن مطلق کے نظارے کرے۔ محبوب میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ آج قاب قوسین پر میرے سوا تجھے تکنے والا کوئی نہ ہو اور تیری نگاہوں کے سوا میرے حسن مطلق کے جلوے کرنے والا کوئی دوسرا نہ ہو، تو تو ہو اور میں میں ہوں اور تیسرا کوئی نہ ہو۔ چونکہ خدائے لم یزل کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام قاب قوسین پر لے جایا جا رہا تھا اس لئے فرمایا : وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى۔

دستور محبت بھی ہے اور ضابطۂ وفا بھی کہ جو لوگ عشق و محبت کی لذتوں، حلاوتوں اور سرشاریوں سے آشنا ہوتے ہیں، وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ اگر کسی سے محبت ہو اور محبوب ملنے کے لئے آ رہا ہو تو اس کا ملنے کے لئے آنا بھی اتنی بھلی، پسندیدہ اور دل کو موہ لینے والی ادا ہوتی ہے کہ محب دیکھ کر لطف اندوز ہوتا رہتا ہے اور اس کے جسم کا بال بال ٹھنڈک محسوس کرتا ہے اور زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ قربان جاؤں کہ کتنی پیاری ادا کے ساتھ تو میری طرف آ رہا ہے اور حرف تحسین بے ساختہ اس کے لبوں پر مچل اٹھتے ہیں۔ محب اپنے محبوب کی ہر ادا پر مچل اٹھتا ہے، نثار ہو ہو جاتا ہے، اس کا انگ انگ ان لمحات مسرت میں سراپا دید بن جاتا ہے اور جب محبوب واپس ہونے لگتا ہے تو اشتیاق سے اسے دیکھتا ہے۔ دیکھو میرا محبوب جب آیا تو اس کی چال میں کتنا وقار تھا، اب جا رہا ہے تو اس کی چال میں کتنی تمکنت ہے۔ یہ تو ہمارے پیمانہ ہائے محبت ہیں۔ بلاتمثیل وتشبیہہ اللہ ربّ العزت بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد اور واپسی کی قسمیں کھا رہا ہے۔ قسم ہے تیری اے چمکتے ہوئے ستارے! إِذَا هَوَى، جب تو میرے بلاوے پر میرے حسن مطلق کی جلوہ گاہ میں آیا۔ تیرا آنا کتنا بھلا لگ رہا تھا اور اے میرے دمکتے ستارے! تیری قسم جب تو قاب قوسین پر ان عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار ہو کر میری ذات و صفات کے انوار وتجلیات کو اپنے دامن میں سمو کر واپس جا رہا ہے۔ تیرے واپس جانے کی شان، ڈھنگ، انداز اتنا دلکش تھا کہ تیرے لوٹ کر جانے پر بھی پیار آ رہا تھا۔ تیرا آنا اور جانا دونوں لاجواب تھے۔

قسم اس سرزمین کی جس نے تیرے قدموں کو بوسہ دیا

جب انسان قسم اٹھاتا ہے تو اس کی یہ قسم عشق کی حلاوتوں اور شیرینیوں پر دلالت کرتی ہے اور جب اللہ ربّ العزت قسم اٹھاتا ہے اور وہ بھی اپنے محبوب بندے اور رسول کی تو اس کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی بندوں کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر راز محبت درمیان میں نہ ہو تو خدا کو کیا پڑی ہے کہ وہ اپنے بندے کی جو اس کی تخلیق ہے کے آنے جانے کی قسم کھائے۔ یہ وہی محبت اور شفقت کے راز ہائے سربستہ ہیں جن کا قرآن میں ذکر مذکور ہے کہ اے محبوب! مجھے قسم ہے اور شہر دلنواز کی جس کی گلیوں میں تو چلتا پھرتا ہے۔

لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِO وَأَنتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِO

(البلد، 90 : 1 - 2)

میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوںo (اے حبیبِ مکرّم!) اس لئے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیںo

فرمایا جا رہا ہے کہ محبوب میں شہر مکہ کی قسم اس لئے کھاتا ہوں کہ یہ تیرا شہر ہے ورنہ مجھے کیا پڑی کہ میں کسی شہر کی قسم کھاتا پھروں۔ میں تو ساری زمین کا مالک و مختار ہوں۔ میں تو زمینوں، آسمانوں، سورج، چاند، ستاروں سب کا خالق ہوں، میں کرۂ ارضی کے کسی خاص ٹکڑے کی قسم کیوں کھاؤں۔ میں کسی چاند یا ستارے کی قسم کیوں کھاؤں، یہ تو سب میری مخلوقات ہیں۔ کائنات کا ذرہ ذرہ میری حمد بیان کرتا ہے، میری ذات کے گرد مصروف طواف رہتا ہے۔ اگر سرزمین مکہ میں کعبہ ہے تو کیا ہوا، یہ تمہارے لئے باعث برکت ہوسکتا ہے، میرے لئے تو یہ محض مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اگر شہر مکہ میں صفا اور مروہ ہے تو بھی کیا ہوا! حضرت حاجرہ علیھا السلام کے نقوش پا ہی کو چومنے سے ان کو یہ عظمت ملی۔ یہ تمہارے لئے مقدس پہاڑیاں ہو سکتی ہیں لیکن میرے لئے ان کی حیثیت ریت کے ٹیلوں سے زیادہ نہیں۔ اگر شہر مکہ میں چاہ زم زم ہے تو یہ بھی میرے لئے ایک کنواں ہی ہے جو تمہارے لئے باعث فضیلت ہو سکتا ہے۔ میری ذات تو ان چیزوں سے ماوراء ہے۔ حطیم اور غلاف کعبہ تمہارے لئے خیر و برکت کا موجب ہیں لیکن میری ذات تو کسی چیز کی محتاج نہیں۔ مگر میں پھر بھی اس شہر کی قسم اٹھاتا ہوں، اس کی وجہ کعبہ ہے نہ مطاف و زمزم، یہاں ہزاروں انبیاء کے مزارات ہیں لیکن یہ بھی میری قسم کا سبب نہیں بن سکتے۔ آ محبوب! تجھے بتاؤں کہ میں شہر مکہ کی قسم کیوں کھاتا ہوں۔ محبوب! اس لئے کہ یہ تیرا شہر ہے۔ اس سرزمین نے تیرے قدموں کو بوسہ دینے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ یہ ریگ رواں تیرے تلوؤں کا دھوون پینے کی سعادت سے سرفراز ہوئی ہے۔ اس شہر کی قسم اس لئے کھاتا ہوں کہ محبوب تو ان گلیوں میں چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ مجھے یہ گلیاں پیاری لگتی ہیں کہ یہ تیری پذیرائی کے لئے چشم براہ رہتی ہیں۔ محبوب! تو چلتا ہے تو یہ تیری راہ میں عقیدت کا آنچل بچھا دیتی ہیں۔ اس شہر میں محبوب تیرا گھر ہے۔ یہ تیرے پیدا ہونے کی جگہ ہے۔ اسی شہر مکہ میں صبح میلاد ثویبہ نے تیری آمد کا مژدہ سنا کر رہائی پائی تھی کہ آج ساری انسانیت کا نجات دہندہ پیدا ہوا ہے۔ ان ہواؤں نے طشت تمنا میں تیری سانسوں کے گلاب سجائے ہیں۔ ان فضاؤں نے تیرے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا ہے۔ اسی شہر کے در و دیوار نے تیرے جلوؤں کی تابانی کو اپنا جھومر بنایا ہے۔ اس شہر میں تیرا بچپن گزرا، لڑکپن، جوانی اور بڑھاپا گزرا۔ محبوب! ان فضاؤں میں تیری سانسوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ تیرے لب شیریں کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ یہ فضائیں محبوب! تیرے پسینے کی خوشبوؤں سے مہک رہی ہیں۔ ان ہواؤں نے تیرے دامن کو آنکھوں سے لگایا ہے۔ اے شہر مکہ! تو مجھے محبوب ہے اس لئے کہ تو میرے محبوب کا شہر دلنواز ہے۔

وَالنَّجْمِ اذَا ھَوٰی کا چوتھا معنی : سفر معراج کی سرعت رفتاری

ھویٰ تیزی اور سرعت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے، سفر معراج انتہائی تیز رفتار سفر تھا۔ براق برق کی کی جمع ہے۔ سورج کی روشنی تقریباً 9 منٹ میں زمین پر پہنچتی ہے، روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفرکرتی ہے، یہ سفر براق اور رفرف پر طے ہوئے۔ ہزاروں لاکھوں روشنیوں کو اگر جمع کر لیا جائے تو براق اور رفرف کی رفتار اس سے بھی تیز ہو گی یعنی سفرِ معراج وہ سفر تھا جو پلک جھپکنے میں نہایت تیزی اور نہایت سُبک رفتاری سے طے ہو گیا۔ اگر ھویٰ سے مراد سُرعت اور تیزی لیا جائے تو آیتِ مقدسہ کا ترجمہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ ’’ قسم ہے اِس ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو زمین سے اور مکاں کی ساری وسعتیں اور منزلیں طے کرکے اِتنی تیزی اور تیز رفتاری سے زمین کی طرف واپس پلٹا کہ وہ سفرجو کروڑوں سالوں میں بھی طے نہیں ہوتا آنِ واحد میں اِس طرح مکمل ہوا کہ جب وہ (حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) واپس آیا تو اُس کے دروازے کی کنڈی اُسی طرح ہل رہی تھی اور غسل و وضو کا پانی اُسی طرح بہہ رہا تھا۔ ’’والنجم‘‘ قسم ہے چکمتے ہوئے ستارے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ’’اذا ھویٰ‘‘ تیری تیز رفتاری کی کہ تو حطیمِ کعبہ سے اٹھا، پہلے تو نے غسل کیا، وضو کیا، تیرا سینہ مبارک شق ہوا پھر میرے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو براق پر سوار ہوا، فرشتے تیرے ہمرکاب تھے پھر تیری سواری بیت المقدس پہنچی، تو نے موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبرِ انور میںنماز پڑھتے ہو ئے بھی دیکھا۔ پھر بابِمحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام پر جبرئیل علیہ السلام نے انگلی سے براق کو باندھنے کی جگہ کی نشاندہی کی، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تو براق سے نیچے اترا، آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء صف باندھے تیرے منتظر تھے، تو آیا تو نماز میں انبیاء کی امامت کی کہ تو امام الانبیاء ہے، سردارِ مرسلین ہے۔

بیت المقدس کی زیارت کرنے اور ابنیاء کی امامت کرنے کے بعد تیرا آسمانوں کاسفر شروع ہوا، تیرے آنے پر محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے آسمان کا دروازہ کھولا گیا۔ انبیاء اور ملائکہ نے نہ صرف خوش آمدید کہا بلکہ تیرے دیدار سے بھی مشرف ہوئے۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر تیرا نزول دوسرے آسمان پر ہوا، وہاں بھی انبیاء اور ملائکہ دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے، تیسرے اور چوتھے حتیٰ کہ تو ساتویں آسمان پر پہنچا پھر تو محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرشِ معلی کی سیر کرتا رہا، آسمانوں نے تیری قدم بوسی کا اعزاز حاصل کیا، ملائکہ تیری راہوں میں آنکھیں بچھا رہے تھے، تمام قدسیوں نے میری بارگاہ میں التجا کرکے تیرا بے حجاب دیدار کیا، جبرئیل سدرۃ المنتہیٰ پر رک گیا کہ ایک قدم بھی بڑھتا تو جل جاتا، اب محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تجھے اکیلے ہی آنا تھا جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو وہاں بھی تجلیات میں نہا گیا، پھر رفرف کو تجھے اپنا شہسوار بنانے کی سعادت نصیب ہوئی، پھر آگے بہت آگے سدرۃ المنتہیٰ سے بھی آگے تو لامکاں کی حدود میں داخل ہو گیا۔

قف يا محمد ان ربک يصلی

(اليواقيت والجواهر، 2 : 35)

حبیب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کیلئے ٹھہر جا تیرا رب تیرے قریب آرہا ہے۔

محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تیرے استقبال میں درود پڑھتا رہا، پھر تو آگے بڑھا، میں اِستقبال میں اپنے شایان شان آگے بڑھا، پھر میں نے تجھے اپنے دامنِ قرب میں لے لیا، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر میں نے تجھے اپنی لذتِ وصال سے ہمکنار کیا، پھر تجھ پر وحی اتاری، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو آسمانوں پر آیا تو میں نے تجھ سے دریافت کیا کہ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارلے لئے کیا تحفہ لائے ہو؟ تو نے کہا کہ باری تعالیٰ اپنی بندگی اور امت کے گناہوں کا تحفہ لایا ہوں، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے اِس جواب پر میں نے تجھ پر سلامتی بھیجی، میں نے تجھے پچاس نمازوں کا تحفہ دیا، پھر رازو نیاز کی باتوں کے بعد تو واپس لوٹا، چھٹے آسمان پر موسیٰ علیہ السلام سے ملا، موسیٰ نے کہا یارسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس جائیے، آپ کی امت اِتنی نمازیں ادا نہ کرے گی، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو لوٹ کر میرے پاس آیا، میں چاہتا تو تو پینتالیس نمازیں بیک وقت معاف کر کے پانچ نمازوں کا تحفہ دے کر تجھے بھیج دیتا اور چاہتا تو شروع ہی میں تجھے دیتا ہی پانچ نمازوں کا تحفہ لیکن بار بار تجھے بھیجتا رہا، موسیٰ سے مل کر تو واپس آتا رہا، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکمت یہ تھی کہ نمازیں بخشوانے کے لئے تو بار بار آتا رہے اور محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تجھے تکتا رہوں۔ اِس طرح بار بار تیرا آنا جانا رہا، پھر تو آسمانوں کی سیر، جنت اور دوزخ کا نظارہ کرتا ہوا سدرۃ المنتہیٰ کو پیچھے چھوڑتا ہوا آسمان کی بلندیوں سے نیچے کرۂ ارض پر آیا، پھر بیت المقدس کی سمت سے تو مکہ مکرمہ پہنچا تو محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راستے میں تو نے اونٹوں کے قافلے دیکھے اور جب تجھے پیاس محسوس ہوئی تو تو نے پیالے سے پانی پیا۔

میرے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتنا طویل سفر طے کیا، اِتنی طویل سیر کی، اِتنی طویل گفتگو کی لیکن قسم ہے تیرے سفر کی تیزی کہ کے جب تو واپس آیا تو تیرے وضو کا پانی بھی بہہ رہا تھا، تیرے دروازے کی کنڈی بھی ہل رہی تھی اور تیرا بستر بھی گرم تھا۔ عظمتوں اور رفعتوں کے اِس سفر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَن گنت عجائبات بھی دکھائے گئے، اللہ کے فضل و کرم کی گھٹائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمرکاب رہیں، کارخانہ قدرت میں کارکنان قضا و قدر نے وقت کی طنابیں کھینچ لیں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرعت رفتار کا یہ عالم تھا کہ ایک ہی جست میں تمام مسافتیں طے ہو گئیں، فاصلے سمٹ گئے اور وقت اُسی نقطے پر ٹھہر گیا جہاں صاحبِ معراج اِسیچھوڑ کر گئے تھے، ایک ہی لمحہ خدا جانے کتنے کروڑ سالوں پر محیط ہوگیا، کائنات پر ایک پل بھی نہ گزار کہ سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب زمانی و مکانی مسافتیں طے کرکے واپس بھی لوٹ آئے، یہ بے نظیر و بے عدیل سفر باوجود اپنی پنہائیوں اور بے کرانیوں کے رات کے ایک پل میں اِس طرح تمام ہو گیا کہ جانے اور واپس آنے میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ ہوئی۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے۔

عشق کی ایک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اِس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں

خالق کائنات نے نبض ہستی کو روک دیا اور کارخانہ، عالم کی حرکت پذیری کو موقوف رکھا اس وقت تک جب تک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کا یہ سفر تمام نہ ہوا۔

معجزۂ معراج میں رفتارِ نبوی کا بیان

وقت کی رفتار روک دی گئی، کارخانہ عالم کی ہر شے ساکت کر دی گئی کہ آج میرا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمانوں کی سیر کو آرہا ہے۔ سفر معراج تیز رفتاری میں اپنی مثال آپ ہے کہ ایک قلیل عرصے میں اپنے اختتام سے بھی ہمکنار ہو گیا۔ سدرۃ المنتہیٰ کو عالم ملکوت کی آخری سرحد کہا جاتا ہے، ملائکہ کے لئے اس کو عبور کرنا ممکن نہیں۔ سدرۃ المنتہی تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے براق پر سفر طے کیا، یہ تیز رفتاری براق کا کمال تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر معراج کے ذاتی کمالات کا اظہار تو سدرۃ المنتہی کی حدکو عبور کر جانے کے بعد ہوا جب براق کی برق پائی اور جولانئ رفتار جواب دے گئی۔ سدرۃ المنتہی سے ماورا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر کی عظمت رفتار سے عالم امر کی مخلوق یعنی براق کی تیز رفتاری کو دور کی نسبت بھی نہیں۔ براق کی رفتار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتی۔ اِسی طرح براق کے مقابلے میں انبیاء کرام کے روحانی تصرفات و کمالات کہیں بڑھ کر ہیں اور سرتاج انبیاء علیہ السلام کے کمالات جملہ انبیاء کرام سے بدرجہا زیادہ ہیں۔ بیت المقدس کے سفر میں اثنائے راہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گذر حضرت موسیٰ کی قبر مبارک کے پاس سے ہوا۔ ارشاد گرامی ہے۔

وهو قائم يصلی فی قبره.

اور وہ (موسیٰ) اپنی قبر میں نماز ادا کر رہے تھے۔

1. الصحدح لمسلم، 2 : 268، کتاب الفضائل، رقم : 165
2. سنن النسائی، 3 : 216، رقم : 1633. 1637
3. مسند احمد بن حنبل، 5 : 59
4. شرح السنه، 13 : 351، رقم : 3760
5. صحدح ابن حبان، 1 : 242، رقم : 50
6. مصنف ابن ابی شدبة، 14 : 308، رقم : 18324

عربی لغت کے مطابق یصلی کا لفظ درود وسلام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔

عظمتِ رفتارِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اگر یہاں یصلی کے یہ معانی لئے جائیں تو ثابت ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گذر گاہ میں سراپا انتظار بنے تھے، جونہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے انہوں نے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا، جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد الحرام سے مسجدِ اقصیٰ پہنچے تو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام سمیت تمام انبیاء حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشوائی کے لئے موجود تھے، جبرئیل علیہ السلام نے اذان دی، حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امامت کے لئے مصلے پر کھڑے ہوئے، آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء نے صفیں درست کیں اور سیاحِ لامکاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِقتدا میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل کی۔ ہم بیان کر رہے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سردارِ کائنات جناب رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرتے ہوئےِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں درودوں کے گجرے اور سلاموں کی ڈالیاں پیش کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ عالمِ بالا میں آیاتِ اِلٰہیہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ورودِ مسعود چھٹے آسمان پر ہوا تو بخاری کی حدیث کے اور اَحادیث کی دیگر معتبر کتب کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشوائی کے لئے بنفس نفیس موجود تھے۔ ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مختلف مقامات پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے تشریف لے آنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی رفتار اور روحانی تصرفات آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفتار اور روحانی تصرفات سے زیادہ تھے، مثلاً سفرِ معراج کے پہلے مرحلے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنی قبر میں نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیتِ المقدس تشریف لے گئے تو باقی تمام انبیاء کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کرنے اور اُن کی اِقتدا میں نماز اداکرنے والوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی شامل تھے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج براق کے ذریعہ طے پا رہا تھا۔ ایک نبی کی طاقت کا براق کی طاقت سے زیادہ ہونا اک مسلّمہ امر ہے لیکن چونکہ افضلیت کے اِعتبار سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام نبیوں اور رسولوں سے اَفضل ہیں اِس لئے عظمتِ رفتارِ مصطفوی تک پہنچنا کسی دوسرے نبی یا رسول کے لئے ممکن نہیں۔ یہاں اِس اَمر کی طرف اِشارہ کرنا ضروری ہے کہ جب سدرۃ المنتہیٰ پر جبرئیل علیہ السلام نے بھی آگے بڑھنے سے معذوری کا اِظہا ر کر دیا اور براق کی تیز رفتاری بھی ختم ہو گئی اور اُس کے بعد براق کے لئے ایک قدم اٹھانا بھی ممکن نہ رہا تو لامکاں کی بے کراں وسعتوں میں آگے کا سفر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے روحانی کمالات کا مرہون منت تھا جن کا اندازہ اور تصور بھی ذہنِ انسانی کے لئے ممکن نہیں۔

سفرِ معراج کی جزئیات کا اِحاطہ ممکن نہیں

کائنات میں عجائبات کی ایک دنیا آباد ہے اس طرح سفرِ معراج میں بھی حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَن گِنت عجائبات کا مشاہدہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سفرِ معراج کی جملہ تفصیلات اور ان مشاہدات کی جزئیات کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ شبِ معراج کی تفصیلات تک رسائی حدیث کی ہزاروں کتابوں کے عمیق مطالعے کے بغیر نہیں ہوسکتی اور پھر اِن تفصیلات اور جزئیات کو حیطۂ اِدراک میں لانا عقلِ اِنسانی کے بس کی بات نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حدیث کی چند کتابوں کا سرسری سا مطالعہ کرکے ہم نے جملہ تفصیلات سے آگاہی حاصل کر لی ہے چنانچہ اکثر لوگ اپنے محدود مطالعہ کی بناء پر کہہ دیتے ہیں کہ سدرۃ المنتہیٰ تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفرِ معراج کا ذکر ملتا ہے، اِس سے آگے جو کچھ ہے وہ تخیّل کی بلند پروازی کا کرشمہ ہے یا صرف شاعرانہ باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں حالانکہ اَمر یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے اِن ہزاروں کتابوں میں بکھری ہوئی تفصیلات کا مکمل شعور ممکن ہی نہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ سے آگے کے سفر کو شاعری سمجھ لینا کور فہمی نہیں تو اور کیا ہے۔

اِس ضمن میں اِمام زرقانی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں :

جاوز السبع الطباق و هی السمٰوت.

آپ ساتویں آسمان سے آگے نکل گئے۔

سفرِ معراج جو کائنات کا سب سے عظیم سفر ہے اور دیگر معجزات کی طرح اللہ رب العزت کی قدرت کا مظہر ہے سات طبقات، آسمانوں اور اُن سے وراء الوراء سدرۃ المنتہیٰ اور قاب قوسین اور پھر کرۂ ارضی کی طرف واپسی پر مشتمل ہے۔ اِس کی توجہیہ و توضیح عقلِ انسانی کے بس کی بات ہی نہیں۔ اِذَا ھَوٰی میں عظیم رفتار کی قسم زمانی اور مکانی فاصلوں کے ایک پل میں طے ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ فاصلے سمٹ رہے ہیں اور کروڑوں اَربوں سالوں کی مسافت لمحوں میں مکمل ہو رہی ہے۔ یہاں عقلِ ناقص اپنے عِجز کا اِظہار کرنے کے سوا کیا کر سکتی ہے۔ سفرِ معراج اتنی بڑی کائناتی سچائی ہے کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا سارا اِرتقاء اِس سفر کے خوشہ چینی کے سوا کچھ نہیں، جوں جوں انسان اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں سفرِ معراج کے مختلف مراحل کی پرتیں کھولتا جائے گا اَن گِنت کائناتی سچائیوں کا اِنکشاف ہوتا جائیگا اور جدید علوم کا دامن حیرت انگیز معلومات سے بھرتا جائیگا۔ سفرِ معراج کی جزئیات سے آگاہی علومِ جدیدہ کے ارتقاء کی ضامن ہے۔ معجزۂ معراج تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدّسہ کا ایک پہلو ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس سے اِکتسابِ شعور کرکے اِنسانی اِرتقائی بلندیوں پر گامزن رہا تو خدا جانے آنیوالے زمانوں میں یہ اِرتقاء کی کن بلندیوں پر فائز ہو گا۔ یہ تمام بلندیاں بھی صاحبِ معراج کی گرد پاہوں گی اِس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر صدی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدی ہے، ہر زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ ہے تو یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہوتی بلکہ اِن کی بنیاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نقوشِ کفِ پا سے پھوٹنے والی اِن عظیم روشینیوں کے اِبلاغ پر اٹھائی جاتی ہے جو تہذیبِ انسانی کے اِرتقاء کے ہر مرحلے پر اِہتمامِ چراغاں کر رہی ہیں۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا پانچواں معنی : ’’ قلبِ انور کا اَنوارو تجلّیاتِ اِلٰہیہ کا مرکز بننا‘‘

اگر النجم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قلبِ منور مراد لیں تو اِس اَمر کی مناسبت سے ھویٰ کا ایک معنی اِنْشَرَحَ مِنَ الْاَنْوَار یعنی انوار و تجلیات سے کھل جانا ہوگا او رآیتِ مقدّسہ کا مفہوم کچھ یوں ہو گا ’’قسم ہے ستارے کی طرح چمکتے ہوئے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے قلبِ منور کی‘‘، اِذَا ھَوٰی جب اَنوارو تجلیاتِ اِلٰہیہ سے اِس کا اِنشراح ہوا یعنی وہ کھل گیا۔

وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی کا چھٹامعنی : ’’ کائنات کی ہر چیز پر رحمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محیط ہے‘‘

حضورسرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کل جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا، اِس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پر رحمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محیط ہے۔ نجم کا ایک اور معنی بھی ہے گھاس ’’ النبت‘‘ وہ گھاس جو قلیل مقدار میں لگائی جائے لیکن اتنی پھیل جائے کہ ساری کی ساری کیاری کو اپنے دامن میں سمیٹ لے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت نے بھی کائنات کی ہر شے کو اپنے دامن رحمت کے سائے میں لے رکھا ہے۔ سورہ الرحمٰن میں بھی نجم کا لفظ گھاس کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔

وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِO

(الرحمن، 55 : 6)

اور زمین پر پھیلنے والی بوٹیاں اور سب درخت (اسی کو) سجدہ کر رہے ہیںo

یہاں بتایا جارہا ہے کہ نباتات اور درخت رب کائنات کے حکم کے پابند ہیں بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ اسکے تابع ہے کیونکہ وہ ہر جاندار اور غیر جاندار کا رب ہے اور کوئی اس کی خدائی میں اس کا شریک نہیں وہ ازل بھی ہے اور ابد بھی نہ اس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گھاس سے کیا مراد ہے اور درخت کسے کہتے ہیں۔ گھاس سے مراد وہ پودے ہیں جن کے تنے نہیں ہوتے، وہ براہ راست زمین سے اپنا رزق لیتے ہیں اور درخت سے مراد وہ پودے ہیں جن کے تنے ہوتے ہیں اور وہ اوپر کی طرف بڑھتے ہیں، گھاس کی طرح زمین پر پھیلتے نہیں اور پتے اور شاخیں ان تنوں کے ذریعے زمین سے توانائی حاصل کرکے نشوونما پاتے ہیں۔

آیتِ مقدسہ میں نجم کا لفظ اِستعارۃً بیان کیا گیا ہے۔ ہادئ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نجم سے تشبیہہ دی گئی ہے کہ جس طرح گھاس پوری کیاری کو اپنے آنچل میں چھپا لیتی ہے اور ہرطرف گھاس ہی گھاس نظر آتی ہے اور زمین اس گھاس کے سائے میں چھپ جاتی ہے یعنی گھاس پھیل کر زمین کے اس ٹکڑے پر محیط ہو جاتی ہے، اے کالی کملی اوڑھ کر سونے والے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری رحمت اور تیرے نور کا دائرہ گھاس کی طرح ہر چیز کو اپنے دامنِ رحمت میں لے لیتا ہے کہ ہر سو تو ہی تو نظر آتا ہے ہر طرف تیری رحمت کے پرچم لہرا رہے ہیں ہر طرف تیرے محاسن اور محامدکی قندیلیں روشن ہیں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے رخِ زیبا کی قسم، میں جس جس عالم کا رب ہوں اُس اُس عالم کے لئے تو رحمت ہے۔ یہ ساری کائنات رنگ و بو، یہ خلا کی بے اَنت وسعتیں، یہ سورج، چاند ستارے، دھنک کے بکھرتے ہوئے رنگ، پھولوں کی مہکاریں، پرندوں کی چہکاریں، کہکشاؤں کی پھیلتی ہوئی دنیائیں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب کچھ تیری مملکتِ کرم کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ تیرے حیطۂ رحمت میں ہے حتیٰ کہ سدرۃ المنتہیٰ اور عرشِ بریں بھی تیرے نقوشِ کفِ پا کی قدم بوسی سے مشرف ہوئے اِس لئے کہ سدرۃ المنتہیٰ اور عرشِ بریں بھی میری تخلیق ہے اور میری مخلوقات میں تو سب سے اول ہے۔ پیارے! تو میرا شاہکارِ تخلیق ہے، نہ تیری کوئی نظیر ہے اور نہ کوئی تیری مثال، میں خالق ہونے میں یکتا و تنہا تو مخلوق ہونے میں یکتا و تنہا، عبدیت تیرا جمال، بندگی تیرا حسن اور عِجز تیرا وقار ہے۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرا نورِ رحمت کائنات کی ہر شے پر محیط ہے۔ شبِ معراج ہم نے تجھے آسمانوں کی سیر اس لئے کرائی کہ تو دیکھ لے کہ تیری اَقلیمِ رحمت کی سرحدیں کہاں تک ہیں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس لئے تجھے رحمۃ للعالمین بنایا، تو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے، تمام جہان تیری رحمت کے محیط میں مانندِحباب ہیں، ہر طرف تیرا ہی نور جلوہ فرماہے، ہر طرف تیرے جمال کی رعنائیاں بکھری ہوئی ہیں، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر طرف تیری ہی روشنی ہے۔

اِقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی طرف اِشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔

گنبدِ آبگینہ رنگ ترے محیط میں حباب

لفظ ھوٰی کے مختلف معانی :

ھوٰی کا پہلا معنی ’’فنا ہونا‘‘

عربی لغت کے مطابق ھویٰ کا ایک معنی ہلاک ہونا، فنا ہونا بھی آتا ہے۔ اِس معنی کے مطابق آیتِ مقدسہ کا مفہوم کچھ یوں ہو گا کہ قسم ہے اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے پاک وجود کی، تیری ذاتِ اَقدس کی کہ وہ اللہ کی ذات میں فنا ہوکر بقائے دوام کے مقام پر فائز ہو گئی، اِسی طرح محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری صفات بھی اللہ رب العزت کی صفات میں فنا ہو کر بقاپا گئیں۔ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمارے قرب کے اِس درجے تک پہنچا کہ تیری ذات کو بھی فناءِ تام نصیب ہوا اور تیری صفات کو بھی۔

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّىO فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَىO

(النجم، 53 : 9 - 10)

پھر (اس محبوب حقیقی سے) آپ قریب ہوئے اور آگے بڑھے پھر (یہاں تک بڑھے کہ) صرف دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیاo

اہلِ علم نے آیتِ مذکورہ کی متعدد تعبیرات بیان کی ہیں، اِن میں سے ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ دَنٰی اور تَدَلّٰی دو الگ الگ لفظ ہیں، یہ دونوں الفاظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے قریب ہونے یا کسی چیز کے قرب پر دلالت کرتے ہیں۔ عربی گرائمر کی رُو سے کلمہ دَنٰی فعل ہے، اِس کا فاعل ضمیرِمُستتر (ہُوَ) ہے، اِسے خواہ اللہ کی طرف لوٹا دیں یا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف، اس کا معنیٰ ہوگا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات اللہ رب العزت کی صفات کے قریب ہوئیں اور اِتنا قریب ہوئیں جتنا ممکن تھا یعنی قرب اپنی اِنتہاء کو پہنچ گیا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کو فناءِ تام نصیب ہو گیا۔ فَتَدَلّٰی پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات کے قریب ہوئی تو ذاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی فناءِ تام نصیب ہوا۔

دوسرا معنی : ’’مانندِ برزخ ہونا‘‘

والنجم سے اگر مراد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراپا ہی مراد ہوتو پھر ھَوٰی کا ایک معنیٰ مانندِ برزخ بھی ہے۔ الشیئ القائم بین الحلق والصدر، وہ چیز جو حلق اور سینے کے درمیان اٹکی ہوئی ہو، اِس اِعتبار سے آیت مقدّسہ (والنجم اذا ھوی) کا مفہوم یہ ہو گا کہ قسم ہے چکمتے ہوئے ستارے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرے وجود اور تیرے سراپا کی، جب تو شبِ معراج اِتنا اُونچا ہو گیا کہ خلق نیچے رہ گئی اور صرف خالق تری ذات کے اُوپر تھا۔ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نے خالق اور اُس کی تمام مخلوقات کے درمیان درجہ پایا یعنی

بعد از خدا بزرگ توئی قصّہ مختصر

تیرا سراپا خالق سے نیچے اور مخلوق سے اُوپر تھا۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ برزخی ہے۔

اُدھر اللہ سے واصل اِدھر مخلوق میں شامل
خواص اُس برزخِ کُبریٰ کو ہے حرف مشدّد کا

جس حرف کے اوپر شدّ ہو اسے حرفِ مشدّد کہتے ہیں۔ شد حرف کو واضح کرتی ہے اس کی تین حیثیتیں ہوتی ہیں، ایک حیثیت اِس کے اپنے سراپا کی یعنی جس سے وہ خود قائم ہے اور دو حیثیتیں اِس کی اور ہوتی ہیں مثلاً ایک لفظ ہے ’’معلّم‘‘ اِس میں لام حرف مشدّد ہے لام کی تین حیثیتیں ہیں۔

  1. پہلی اس کی حرف لام کے طور پر اپنی حیثیت
  2. دوسری یہ کہ لام اپنے سے پہلے حرف یعنی ع کے ساتھ ملا ہوا ہے،
  3. تیری حیثیت اپنے سے اگلے حرف م سے ملا ہونا ہے

درمیان میں ل کا اپنا سراپا ہے ایک ہاتھ اس کا ع پر ہے اور ایک م پر، اگر ل درمیان میں ہو تو اِس کی وساطت سے پچھلا میم اگلے ع سے مل سکتا ہے لیکن اگر ل کا واسطہ درمیان سے نکال دیں اور چاہیں کہ م کا ع سے اِتصال ہو جائے تو یہ ناممکن ہے۔ اگر م عین سے ملنا چاہے تو اسے ل کا دامن پکڑنا پڑے گا، اسے کہتے ہیں حرف مشدّد۔ خدا نے فرمایا محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری ذات حرفِ مشدّد کی طرح برزخی شان کی حامل ہے، میرے اور بندے کے درمیان ایک واسطہ تو ہے اب جو مجھ تک رسائی حاصل کرنا چاہے گا محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِسے تیری دہلیز پر ہو کر آنا پڑے گا کیونکہ تیرے واسطے کے بغیر مجھے اپنی توحید بھی قبول نہیں۔ اِس توحید کو سندِاِعتبار عطا کروں گا جس کا اظہار تیری ذات کے حوالے سے ہو گا۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس لئے میں نے کہیں بھی تجھے اپنے سے جدا نہیں کیا۔ اَذانوں میں میرے نام کے ساتھ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیرا نام بھی گونجتا ہے۔ اُس وقت تک میں کسی کی عبادت ہی قبول نہیں کرتا جب تک وہ نماز میں تجھ پر درود و سلام نہ بھیجے، محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور میرے فرشتے تجھ پر درود بھیجتے رہتے ہیں اور اِیمان والوں کو بھی حکم ہے کہ تجھ پر درود اور سلام بھیجا کریں۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری محبت ہی میرے مومنین کا معیارِ ایمان ہے۔ محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو یہ کائنات کبھی بھی معرض وجود میں نہ آتی، یہ سب رعنائیاں تیرے ہی قدموں کا تصدق ہیں۔ یہ سب بہاریں تیری ذات اَطہر کی خیرات ہیں۔

رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین حیثیتیں

رسول کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین حیثیتیں ہیں۔

  • ایک حیثیت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے سرا پے کی ہے۔
  • دوسری حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ جل شانہ سے واصل ہیں۔
  • تیری حیثیت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق میں شامل ہیں۔

رسولِ کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا سراپا درمیان میں ہے۔ اُدھر اللہ سے واصل اور اِدھر مخلوق میں شامل، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشادِگرامی ہے کہ اللہ دیتا ہے، عطا کرتا ہے کہ وہ اپنی تمام مخلوقات کا رب ہے، میں تقسیم کرنے والا ہوں اللہ کی نعمتیں بانٹنے والا ہوں یعنی خالق اور مخلوق کے درمیان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ لازمی اور ضروری ہے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ہاتھ دہلیز الوہیت پر ہے اور دوسرا مخلوقِ خدا کے برہنہ سروں پر، ایک ہاتھ سے اللہ رب العزت سے فیض لے رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے وہی فیض مخلوقِ خدا میں تقسیم فرما رہے ہیں۔ درمیان میں سراپائے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے تو اس وساطت سے مخلوق اپنے خالق سے مل رہی ہے۔

تیسرا معنیٰ :۔ ’’پھوٹنا، جاری ہونا‘‘

لفظ ھَوَیٰ پھوٹنے اور جاری ہونے کے معنوں میں بھی اِستعمال ہوتاہے تو اِس اِعتبار سے آیتِ مقدّسہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ قسم ہے قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کہ جب اِس سے اَنوارِالٰہی کے چشمے پھوٹنے لگے، اِس نے انوارِالٰہی کو اپنے اندر اتنا جذب کر لیا۔ اَنوارِاِلٰہیہ کا اِنشراح و اِنفجار ہوا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ. . .

(النور، 24 : 35)

 اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے؛ (وہ) چراغ، فانوس ( قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پرتَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے

حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلبِ اطہر کا یہ عالم ہے کہ سینۂ اقدس کے شیشے سے اَنوار الٰہیہ کا اِنشراح ہو رہا ہے اور کرنیں پھوٹ پھوٹ کر باہر آرہی ہیں۔

چوتھا معنی :۔ ’’غیر اللہ سے منقطع ہونا‘‘

عربی لغت میں ھویٰ کا غیر اللہ سے منقطع ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اِس اِعتبار سے آیت مقدسہ سے مفہوم یہ ہوا ’’قسم ہے قلبِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُس حال کی کہ جب وہ اللہ کے سوا ہر ایک سے منقطع ہو گیا، دنیا کی ہر چیز سے مستغنی اور بے نیاز ہوگیا، اللہ تعالیٰ کی یاد، مشاہدے اور وصال میں سب کچھ بھول گیا۔

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىO

(النجم، 53 : 2)

تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکےo

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَىO

(النجم، 53 : 17)

اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)o

پانچواں معنی : ۔ ’’محبت و خواہش‘‘

عربی لغت میں ھوٰی کا ایک معنی محبت اور خواہش کا بھی ہے یعنی اَلْحُبُّ وَالْاِشْتِھَاءُ

(الشفاء، 1 : 46)

مثلاً قرآن مجید میں اس کا حقیقی معنی یہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىO

(النجم، 53 : 3، 4)

اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتےo اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتا ہے جو انہیں کی جاتی ہےo

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہش اور اپنی مرضی سے کچھ ارشاد نہیں فرماتے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہی کچھ ارشاد فرماتے ہیں جو انہیں اپنے رب کی طرف سے وحی کیا جاتا ہے۔

وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىO

(النازعات، 79 : 40)

اور جس نے اپنے نفس کو (ہر بری) خواہش سے روکا ہو گاo

قرآن مجید کی آیات مقدسہ کی روشنی میں ھوی کا معنی ہوا کسی خواہش کا پیدا ہونا، اس کا بھڑک اٹھنا، خواہش میں شدت پیدا ہونا، محبت، میلان اور رجحان کا اپنی انتہا کو پہنچ جانا، جذبے کی شدت کا اظہار مقصود ہو تو لفظ ھوی استعمال کیا جاتا ہے۔

ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی میں تو ھوی کی نفی کی جا رہی ہے۔ ھوی کا اثبات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح نفس کے درجات ہوتے ہیں اسی طرح ھوی کے بھی درجات ہوتے ہیں۔

درجات نفس

نفس کے مندرجہ ذیل درجات ہوتے ہیں۔

  1. نفس امارہ
  2. نفس لوامہ
  3. نفس ملھمہ
  4. نفس مطمئنہ
  5. نفس راضیہ
  6. نفس مرضیہ
  7. نفس کاملہ
  8. نفس صافیہ

اس آیتِ مقدسہ میں جس نفی کا ذکر کیا گیا ہے وہ نفسِ اَمّارہ کی ہے کیونکہ اس کی ھَوٰی مذموم ہوتی ہے۔ چونکہ ھَوٰی کا معنی میلان، رجحان اور رجوع اور رغبت ہے تو نفس جب تک اَمّارہ ہو اُس کا رجحان اور میلان اور رجوع حب الشھوات اور مذموم خواہشات کی طرف ہو گا۔ گویا لذتِ گناہ اِس کے لئے زیادہ پرکشش ہو گی لیکن جب ھَوٰی کی نسبت تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور خدا کے مقرب بندوں کی طرف ہو تو اُس سے ھوائے مذموم کی نفی ہو جائے گی کیونکہ اَمّارہ ہو گا تو ھوائے مذموم ہو گی اور جب نفسِ مطمئنہ، راضیہ اور مَرضیہ کے رجوع اور میلان و رجحان میں بھی اِشتہاء ہوتی ہے۔ جس طرح نفسِ اَمّارہ کے اندر خواہش کی آگ بھڑکتی ہے اِسی طرح نفسِ مطمئنہ، راضیہ اور مَرضیہ کی حالت میں بھی خواہش کی آگ بھڑک اٹھتی ہے لیکن اَمّارہ کا رجوع مذموم ہوتا ہے جبکہ نفسِ مطمئنہ کا رجوع قرآن اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO

(الفجر، 89 : 27 - 28)

 

اے اطمینان پا جانے والے نفس!o تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)o

یہ نہیں کہ نفس مطمئنہ کا رجوع اور میلان نہیں، نفس مطمئنہ کا بھی رجوع اور میلان ہے مگر رجوع مذموم کی بجائے یہ رجوع اور میلان اپنے رب کی طرف ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر جب نفس نفس مطمئنہ کے درجے تک چلا جاتا ہے تو اس کا میلان خالقِ کائنات کی طرف ہو جاتا ہے۔ اس کا منفی پہلو ختم ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے جب نفس کا رجحان یا میلان اپنے رب کی طرف ہو گا تو مثبت ھوی ہے منفی ھوی نہیں۔ اب اس آیت مقدسہ کا مفہوم کچھ یوں ہو گا ’’قسم ہے محبوب تیرے پاک دل کی اس حالت کی جب اس میں میرے عشق و محبت اور میری ملاقات کی خواہش اور آرزو مندی کی آگ بھڑک اٹھی، جب اِس کے اندر لقائے الٰہی اور دیدارِالٰہی اور وصال الٰہی کے شوق کی اور عشقِ الٰہی کی آگ مشتعل ہو گئی۔

اس کی تائید بھی قرآن کریم فراہم کرتا ہے :

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىO

(الضحی، 93 : 7)

اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی)o

جب عشق کی آگ من میں بھڑک اٹھتی ہے، نفس کا رجحان و میلان اپنے رب کی طرف ہو جاتا ہے تو وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔ فضائے اعتکاف اس کی روح پر بھی محیط ہو جاتی ہے۔ غاروں میں چالیس چالیس دن تک بن کھائے پیئے مراقبے ہونے لگے، دنیا کی رونقوں سے دل اچاٹ ہوا اور غار حرا کی خلوتوں میں جلوتوں کے چراغ جلنے لگے، غارِحرا کے سناٹے ذکر الٰہی سے گونج اٹھے، تاریکیوں میں عشق کی چاندنی بکھرتی چلی گئی، ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ جوں جوں بعثت کا وقت قریب آتا گیا توں توں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوت پسند ہوتے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ہفتے یا دو ہفتوں کا کھانا لے کر گھر سے دور پہاڑوں میں چلے جاتے اور مہینہ مہینہ چالیس چالیس دن وہاں قیام فرماتے اور گھر تشریف نہ لاتے۔ آپ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں پریشان ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں گھر سے نکل پڑتی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب غار حرا میں آپ کے پاس پہنچتی تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ جو کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے لائے تھے وہ اسی طرح ایک طرف پڑا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراقبے کی حالت میں تشریف فرما ہیں۔

فرمایا رب کائنات نے کہ اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہم نے دیکھا کہ تیرے قلب اطہر کے اندر ہمارے عشق و وصال کی آگ اتنی بھڑک اٹھی ہے کہ تجھے کچھ بھی یاد نہیں رہا حتی کہ تو اپنے آپ کو بھی بھول گیا تو ہم نے تجھے اپنے حسن مطلق کے بے نقاب جلوے کرائے۔ پھر فرمایا اذا ھوی قسم ہے محبوب تیرے دل کی اس حالت کی کہ جب اس میں میری ملاقات اور دیدار کی خواہش و آرزو مندی کی تڑپ شعلہ جوالہ بن گئی۔ جب ہم نے تمہارے دل کی اس حالت کو دیکھا تو تجھ پر انعامات و اکرامات کی بارشیں کر دیں اور تجھے سفر معراج کی عظمتوں اور رفعتوں سے ہمکنار کیا۔

آگ اتنی بھڑک اٹھی کہ حالت ’’ضال‘‘ کو جا پہنچی۔ سب کچھ بھول گیا۔ غاروں میں چالیس چالیس دن تک بن کھائے پیئے مراقبے ہونے لگے، دنیا کی رونقوں سے دل اچاٹ ہو گیا اور تحنث کی حالت کو جا پہنچے۔

ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ فرماتی ہیں کہ جوں جوں بعثت کا وقت قریب آتا گیا توں توں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلوت پسند ہوتے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہفتہ، دو ہفتے کا کھانا وغیرہ لے کر گھر سے دور پہاڑوں میں چلے جاتے اور مہینہ مہینہ، چالس چالیس دن واپس نہ آتے۔ میں پریشان ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنے نکل پڑتی۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے جب غار حرام میں آپ کے پاس پہنچتی تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی کہ جو کھانا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے تھے وہ اسی طرح ایک طرف پڑا ہے اور مراقبے کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں۔ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىO

(الضحیٰ، 93 : 7)

اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ (یا:- اور اس نے آپ کو بھٹکی ہوئی قوم کے درمیان (رہنمائی فرمانے والا) پایا تو اس نے (انہیں آپ کے ذریعے) ہدایت دے دی)o

اے محبوب! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ہم نے دیکھا کہ تیرے قلب مبارک کے اندر عشق و وصال کی آگ اتنی بھڑک اٹھی ہے کہ کچھ بھی یاد نہیں رہا حتی کہ اپنا آپ بھی بھول گیا تو فھدٰی ہم نے تجھے اپنے حسن مطلق کے بے نقاب جلوے کرائے۔

دوسری طرف فرمایا۔

اِذَا ھَوٰی قسم ہے محبوب! تیرے دل کی اس حالت کی کہ جب اس میں میری ملاقات اور دیدار کی خواہش و آرزو مندی کی تڑپ شعلہ جوالہ بن گئی۔ جب ہم نے آپ کے دل کی اس حالت کو دیکھا تو ثُمَّ دَنٰی فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی کی نوازشیں کیں۔

اِنتہائے قربِ الٰہی کی ایمان اَفروز تفسیر

شفق رنگ لمحوں کو تخلیقی سطح پر گرفت میں لیا جائے تو عجب سی طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ مشاہدہ قدرت میں قدم قدم پر یہی احساس کار فرما نظر آتا ہے مثلاً

جب آفتاب جہاں تاب مطلع آسمان پر نمودار ہوتا ہے تو صبح کی آمد کا اعلان ہوتا ہے۔ جب سوا نیزہ پر بلند ہوتا ہے تو اس کے روپ کو اشراق کا نام دیتے ہیں۔ کچھ اور بلند ہوتا ہے تو اس حالت کو چاشت کہا جاتا ہے۔ طلوع کے یہ مختلف روپ اور انداز مہر عالم تاب کی ضو فشانیوں کے مختلف مظاہر ہیں۔ جس طرح آفتاب دنیا کا طلوع تین مختلف مطالع پر جلوہ سامانیوں کے نئے انداز کے ساتھ سامنے آتا ہے اسی طرح آفتاب رسالت کی ضیا پاشیاں بھی تین مختلف مطالع پر جلوہ گر ہوئیں۔ اَنوارِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات کی ہر شئے پر محیط ہیں۔ یہی انوار فرد کے باطن اور ظاہر کا منظرنامہ بھی دھنک کے سات رنگوں سے تحریر کرتے ہیں۔ یہی انوار فضائے بسیط میں پرفشاں نظر آتے ہیں۔ دہلیز مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نور کا باڑا بٹتا ہے۔ فاران کی چوٹیوں پر چمکنے والے آفتاب رسالت کی ضیا پاشیاں کائنات کے ہر افق کو منور و تاباں رکھتی ہیں کیونکہ انوار محمدی اور رحمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی پیمانے میں محدود نہیں کیا گیا بلکہ خلا کی بے انتہا وسعتوں میں دامانِ رحمت کی اِسی اُترن کا فیضان دکھائی دیتا ہے۔

کفر و شرک کے گھپ اندھیروں میں آفتاب رسالت کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو ردائے شب کے چاک ہونے کا منظر دیدنی تھا۔ کرۂ ارضی پر بسنے والی اولادِ آدم کو گناہ اور گمراہی کی طویل شب کے خاتمے کا یقین ہی نہیں آتا تھا لیکن روشنی ان کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔

آفتابِ رسالت کا تین مطالع پر طلوع

پہلا طلوع

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوہ اولین مطلع عالم بشریت پر ہوا تو چہرہ بشریت اس کی ضو سے تابناک ہو گیا۔ تاریکیوں کے بادل چھٹ گئے اور شبستان ہستی کا گوشہ گوشہ انوار و تجلیات سے چمک گیا۔ بیت المقدس میں دیباچہ و خلاصہ کائنات جناب سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقتدی ہوئے اور عالم بشریت کے مطلع پر وہ سحر طلوع ہوئی جس نے صدیوں کی تاریک رات کو سرمدی اجالوں میں بدل دیا۔ ظلمت شب اپنا رخت سفر باندھ کر رخصت ہوئی۔

دوسرا طلوع

سفرِ معراج نے نہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت اور نورانیت کو نئے مفاہیم عطا کئے بلکہ سرِعرش مہمان عرش کی پذیرائی اور پیشوائی نے ان گنت اشکالات کو رفع کر کے حقائقِ مصطفوی پر سے پردہ اٹھایا اور عقلِ ناقص کے پاس اپنے عجز کی چادر کو سمیٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔

دوسرا طلوع جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کا ظہور ہوا وہ عالمِ ملکوت و نورانیت تھا۔ جہاں تمام قدسیانِ فلک اور ملائکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی خبر سن کر چشم براہ تھے تاکہ جلوہ دیدار مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ بھی فیض یاب ہو سکیں۔ نہ جانے وہ کب سے اس ساعت سعید کے منتظرِ بارگاہِ صمدیت میں عرض پرداز تھے کہ اے باری تعالیٰ! ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بہرہ ور فرما۔ احادیث میں ہے کہ بیک وقت ستر ہزار فرشتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضری کی سعادت صرف ایک بار نصیب ہوتی ہے اور دوسری بار یہ موقعہ تا قیام قیامت میسر نہیں آتا۔

 بارگاہِ صمدیت میں فرشتوں کی عرضداشت قبول ہوئی اور معراج کی ساعت مسعود آئی۔ انہیں سدرۃ المنتہیٰ پر اکٹھے ہونے کا حکم دیا گیا تاکہ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادھر سے گزریں اور یہاں کچھ دیر توقف فرمائیں تو وہ ان کے حسن و جمال کے دیدار سے فیض یاب ہو جائیں۔ حور و غلمان کے پرے کے پرے رہگزرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی پلکوں کا ریشم بچھا رہے تھے۔ ملائکہ، ہجوم در ہجوم نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منتظر تھے۔ آج سدرۃ المنتہی کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہو رہا تھا۔ سدرۃ المنتہی سے آگے جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ انوارِ رحمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشوائی کے لئے پُرفشاں تھے۔

چنانچہ مشیّتِ ایزدی سے تمام فرشتے جمال مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار ہونے کے لئے سدرۃ المنتہی کے مقام پر سمٹ کر ہمہ تن دید ہو گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تشریف لائے تو ’’آمد آمد یارے کہ ما مے خواستیم‘‘ کا غلغلہ بلند ہوا۔ قرآن اس منظر کو اس طرح بیان کرتا ہے۔

إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَىO

(النجم، 53 : 16)

جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَۃ (المنتہٰی) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیںo

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی وضاحت میں ارشاد فرمایا کہ نخل سدرہ کے ہر ہر پتے پر ایک ایک فرشتہ بیٹھا ہوا تھا۔ سارے آسمانوں کے فرشتوں کے لئے سدرۃ المنتہی گویا ایک بیٹھک کی طرح تھا جہاں کر و بیانِ افلاک آپ کے جلووں سے مستفیض ہونے کے لئے امڈ آئے تھے۔

جمالِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمام ملکوت فروغ گیر ہوا اور اس کے انوار و تجلیات دوسرے مطلع پر ہر سمت پھیل گئے۔ اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معراج کے اس پہلو سے عالم ملکوت کا ہر فرد مستفیض ہوا اس لئے کہ انوار محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نورانی مخلوقات کے سر کا بھی سائبان ہیں۔

تیسرا طلوع

نجم مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تیسرے مطلع پر طلوع ہونے کا ہنگام آپہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تن تنہا سدرۃ المنتہیٰ سے آگے عالم لامکاں کی سمت بڑھے اور مقام قاب قوسین پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرب و حضور کا جو اعزاز نصیب ہوا اسے قرآن پاک نے

إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO

(الاسراء، 17 : 1)

بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔

کے کلمات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ خالق اور اس کے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا دوسرا اور کوئی نہ تھا اور عالم یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کو بے حجاب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور اس کا کلام اپنے کانوں سے سن رہے تھے۔ اسی طرح خدا تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا تھا اور ان کا کلام بھی سن رہا تھا اس لئے حقیقت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے سوا کوئی اور نہیں جانتا۔ ہماری محدود سوچ انوار رسالت کی پنہائیوں کو حیطہ شعور میں لانے سے قا صر ہے تو تجلیات انوار الہٰیہ کا ادراک ذہن انسان میں کیونکر سما سکتا ہے۔

بے مقصد مباحث

علمی موشگافیوں، فکری مغالطوں اور بے مقصد مباحث سے کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ابہام اور تشکیک کے گرد و غبار تخلیق کرتے رہنا علمی خیانت کے ذیل میں آتا ہے۔ مستشرقین نے اس علمی خیانت کو تخلیق کے لبادے میں چھپانے کی ناکام کوشش کی ہے لیکن حقائق کا چہرہ مسخ کرنے کی ناپاک کوشش جزوی طور پر بظاہر کامیاب ہو بھی جائے لیکن حقائق کو زیادہ دیر تک وقت کی نظروں سے اوجھل کئے رکھنا شاید کسی کے بس کی بات بھی نہیں کیونکہ رات کتنی بھی گہری اور تاریک کیوں نہ ہو سورج کے آگے دیوار کھینچنے میں ناکام رہتی ہے۔ آج مستشرقین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کی گرد سے آلودہ فضا بھی صاف ہو رہی ہے کیونکہ گرد و غبار کو آخر پیوند زمیں بننا ہی ہوتا ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراج کے بارے میں اہل علم نے اپنی اپنی ہمت اور بساط کے مطابق علم کے بحر بے کنار میں غواصی کی اور جس کے ہاتھ جو کچھ آیا وہ مختلف اقوال کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ کسی نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامی اور روحانی معراج نصیب ہوا یعنی یہ کیفیت حالت خواب میں نصیب ہوئی۔ بعض کے نزدیک معراج متعدد بار ہوا۔ عالم بیداری میں ایک مرتبہ اور باقی ہر دفعہ حالت خواب مین، بعض کے خیال میں اسراء جسمانی طور پر اور معراج روحانی طور پر ہوا لیکن جمہور علماء بشمول صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین رضی اللہ عنھم، محدثین رضی اللہ عنھم، فقہاء رضی اللہ عنھم، مفسرین اور متکلمین سب کا اس پر اجماع ہے کہ اسراء اور معراج دونوں جسمانی حالت میں ہوئے ہیں یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنفس نفیس اپنے جسم اطہر کے ساتھ معراج کے لئے آسمانوں پر اور عالم لامکاں میں تشریف لے گئے۔ یہی قول حق ہے جس پر آج تک جمہور اہل ایمان قائم ہیں۔ یہ مباحث چھیڑ کر کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی معراج نصیب ہوئی تھی یا روحانی عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غبار تشکیک کی نذر کرنے کی گھناؤنی سازش تھی جسے اہل علم نے علمی سطح پر بھی مسترد کر دیا۔

 معراج مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین حیثیات

سفر معراج کے تین مطالع اور مراحل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین شانوں اور حیثیتوں کا مظہر ہیں۔ یہ مراحل درج ذیل ہیں۔

  1. بشریت
  2. ملکیت و نورانیت
  3. مظہریت و حقیقت

1۔ بشریت

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولاد آدم کی اصلاح کے لئے مبعوث ہونے والے انبیاء کے سلسلے کی آخری کڑی ہیں۔ اس عالم بشریت میں آپ نے اپنی حیات مقدسہ گزاری۔ اسی کرہ ارضی پر آپ نے ازدواجی زندگی بھی بسر کی، آپ کی بشریت کا انکار کفر ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس عالم آب و گل میں شان بشریت کے ساتھ جلوہ گر ہوئے تاکہ یہ عالم انس و جان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات سے مستفیض ہو سکے۔ بیت اللہ سے بیت المقدس کا سفر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشریت کی معراج کا آئینہ دار ہے تاکہ یہ شان اپنے نقطہ کمال کو پہنچ جائے۔ جشن عید میلاد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی بشریت کے جمالیاتی اور مجلسی اقرار کا نام ہے۔

2۔ ملکیت و نورانیت

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور مجسم ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نورانیت کا انکار بھی حد ادب کے منافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو نور کائنات ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کائنات کی ہر شئے پر محیط ہے۔

مسجد اقصیٰ سے عالم افلاک میں سدرۃ المنتہی تک کا سفر معراج حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ملکیت و نورانیت کو اپنے منتہائے کمال تک پہنچانے کے لئے تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیض رسانی سے عالم انوار و ارواح بھی محروم نہ رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور کائنات کی ہر شئے کو اپنے دامن رحمت میں سمیٹ لے۔

3۔ مظہریت و حقیقت

حقیقت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کے سوا کوئی نہ جان سکا کیونکہ ہماری عقل ناقص یا تو گمراہیوں کے جال بن سکتی ہے یا اپنے عجز کا اظہار کر سکتی ہے۔ سدرۃ المنتہی سے ماوراء سفر معراج اس لئے کرایا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان محمدیت ذات حق تعالیٰ کی صفات اور حسن وجمال کا مظہر اتم بن جائے اور یہی معراج کا آخری منتہائے کمال ہے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہاء ہو گئی۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved