فلسفہ تسمیہ

متن

تسمیہ کی ترکیب نحوی اور ایک لطیف نکتہ

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم میں ’’حرف باء،، جار ہے، ’’اسم،، مجرور اور مضاف، ’’لفظ اللہ،، مضاف الیہ اور موصوف ہے، لفظ ’’الرحمن الرحیم،، دونوں یکے بعد دیگرے موصوف یعنی اللہ کی صفات ہیں۔ موصوف (اللہ) اپنی دونوں صفات (الرحمن الرحیم) کے ساتھ مل کر اسم کا مضاف الیہ بن گیا اور مضاف (اسم) اپنے مضاف الیہ (اللہ الرحمن الرحیم) سے مل کر جار یعنی ’’حرف باء،، کا مجرور ہو گیا۔ اب اس حرف باء (جار) کا ایک متعلق ہے جو فعل محذوف ہے۔ وہ یہاں أشرع، أبدا يا أقراء وغیرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جار و ’’مجرور،، اور ’’فعل محذوف،، جس میں فاعل بھی ہے۔ سب مل کر ’’جملہ فعلیہ خبریہ،، پر منتج ہو گئے۔ اس کی دوسری صورت یہ بھی ہے کہ یہاں فعل محذوف صیغہ امر أبدا يا أقراء کو مانا جائے۔ اس طرح تسمیہ، ’’جملہ فعلیہ انشائیہ،، قرار پائے گا۔

یہاں ایک لطیف نکتہ قابل غور ہے کہ تسمیہ کا ’’جملہ فعلیہ خبریہ یا جملہ فعلیہ انشائیہ،، ہونا فعل محذوف کی نوعیت پر مبنی تھا۔ اگر فعل محذوف کی بجائے زیادہ توجہ حرف باء کے مفہوم اور اس کی نوعیت کے تعین پر کی جائے جیسے کہ بعد میں بیان کیا جائے گا تو تسمیہ کا کلام ہر صورت میں ’’دعائیہ،، قرار پا جاتا ہے کیونکہ یہاں حرف باء تین حالتوں میں سے یقیناً کسی نہ کسی ایک حالت کا حامل ہے اور وہ ہیں۔ ’’الصاق و مصاجت،، ’’استمداد و استعانت،، اور ’’تبرک و تیمن،، لہذا ’’بائ،، مذکورہ بالا میں سے جس حالت پر بھی دلالت کرے۔ کلام تسمیہ ایک ’’دعا،، بن جاتی ہے اور یہی مقصود الٰہی ہے۔

تسمیہ کی شرعی حیثیت:

بسم اللہ الرحمن الرحیم کے الفاظ کو اصطلاح میں ’’تسمیہ،، کہا جاتا ہے۔ یہی تسمیہ ایک آیت کے حصے کے طور پر قرآن حکیم کی سورۃ النمل میں وارد ہوا ہے۔ اس لحاظ سے یہ بالاتفاق حصہ قرآن بھی ہے۔ ارشاد باری تعا لیٰ ہے۔

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO

(النمل، 27: 30)

بے شک وہ (خط) سلیمان کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہےO

آئمہ فقہ میں سے شوافع اسے سورۃ الفاتحہ کاجزو قرار دیتے ہیں۔ جب کہ بعض علماء ہر سورت سے پہلے بسم اللہ وارد ہونے کی بناء پر سوائے سورۃ برات کے اسے ہر سورت کا جزو تسلیم کرتے ہیں۔ ان میں ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابن عمر رضی اللہ عنہ، ابن زبیر رضی اللہ عنہ، ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اور تابعین میں سے عطاء رحمۃ اللہ علیہ، طاؤس رحمۃ اللہ علیہ، سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ، مکحول رحمۃ اللہ علیہ اور زہری رحمۃ اللہ علیہ و غیرہم کے اسماء بیان کیے جاتے ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک قول اسیطرح منقول ہے۔ قول معروف اور مذہب مختار یہ ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے۔ لیکن سورۃ الفاتحہ یا دوسری سورتوں کا جزو نہیں بلکہ ہر سورت سے پہلے اسے محض امتیاز و انفصال اور تیمن و تبرک کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اسناد صحيح کے ساتھ مروی ہے:

کان المسلمون لايعرفون انقضاء السورة، (وفي رواية لايعرفون فصل السورة) حتي تنزل بسم الله الرحمن الرحيم فاذا نزلت عرفوا ان السورة قد انقضت، وفي رواية ان السورة قد ختمت واستقبلت اوابتداء ت سورة اخري.

مسلمانوں دو سورتوں کے درمیان فرق و انفصال کا پتہ نہیں چلتا تھا۔ چنانچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے نازل ہونے سے ایسی حد فاصل قائم ہوئی کہ لوگوں کو اس کے ذریعے ہرایک سورت کے شروع ہونے یا ختم ہونے اور دوسری کے شروع ہونے کی معرفت حاصل ہوگئی۔

1. سنن ابی داؤد، 1: 122، کتاب الصلاة، باب من جهربها، رقم: 788
2. السنن الکبری للبيهقی، 2: 43
3. المستدرک للحاکم، 1: 231، 232، رقم 845، 846

مدینہ، بصرہ اور شام کے قراء و فقہاء بھی اسی قول کے موید ہیں کہ ’’ بسم اللہ،، ’’سورۃ النمل،، میں وارد ہونے کے اعتبار سے ایک مرتبہ تو قرآن کی مستقل آیت ہے۔ لیکن باقی تمام سورتوں سے اس کا ورود محض علامت فصل کے طور پر ہے تاکہ اس کے ذریعے دو متصل سورتوں کے درمیان واضح فرق کا پتہ چل جائے۔ امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم کا مذہب بھی یہی ہے۔

نماز میں قراتِ تسمیہ کا حکم:

تسمیہ کی شرعی حیثیت کے تحت تسمیہ کا سورہ فاتحہ کا حصہ نہ ہونا اس امر سے بھی مترشح ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ جہر ی نمازوں میں قرات بالجہر کا آغاز ’’ الحمد ﷲ رب العالمین،، سے کرتے تھے۔ بسم اللہ کی قرات جہراً نہ فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

ان النبی صلی اللہ عليه وسلم وابابکر و عمر و عثمان کانوا يفتتحون القراة بالحمد ﷲ رب العلمين وزاد مسلم لايذکرون بسم اللہ الرحمن الرحيم فی اول قرأة ولا فی آخرها

سنن دارمی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جہری قرات کا آغاز الحمدﷲ سے فرمایا کرتے تھے صحيح مسلم کے مزید الفاظ یہ ہیں کہ پہلی اور دوسری مرتبہ دونوں قراتوں میں (جہرا) بسم اللہ نہیں پڑھتے تھے۔

1. صحيح لمسلم، 1: 172، کتاب الصلاة، رقم: 52
2. مسند احمد بن حنبل، 3: 101، 114
3. سنن الدارمی، 1: 300 مطبوعه، دارالقلم دمشق
4. سنن النساءی، 2: 97، رقم: 902

سعید بن منصور سنن میں ابووائل رضی اللہ عنہ سے اسناد صحيح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

کانوا يسرون التعوذ والبسملة فی الصلٰوة.

صحابہ کرام نماز میں تعوذ اور تسمیہ آہستہ پڑھتے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ اسنادِ صحيح کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

قال صليت خلف رسول اللہ صلي اللہ عليه وسلم وابي بکر وعمر وعثمان (رضي الله عنهم) فلم أسمع أحدا منهم يجهرء بسم اللہ الرحمن الرحيم.

انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ، ابوبکر رضی اللہ عنہ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔ میںنے ان میں سے کسی کو بھی جہراً بسم اللہ پڑھتے نہیں سنا۔

(سنن نسائی، 2: 99، رقم: 907)

آنحضرت ﷺ مکی دور میں ابتداًء دوران نماز بسم اللہ جہراً پڑھتے تھے۔ اس پر مشرکین مکہ استہزاء کرتے کیونکہ وہ ’’مسلیمہ کذاب،، کو رحمن کہتے تھے اور بسم اللہ الرحمن الرحیم سن کر وہ طعنہ دیتے کہ محمد ﷺ اہل یمامہ کے معبود ’’مسلیمہ کذاب،، کی طرف بلاتے ہیں۔ اس پر حضور اکرم ﷺ نے صحابہ کو بسم اللہ کی قرأت آہستہ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں۔

فامر رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم باخفائها فما جهر بها حتٰی مات.

لہذا حضور ﷺ نے حکم صادر فرمایا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پوشیدہ پڑھا کرو، پھر تاوقتِ وفات کبھی نماز میں بسم اللہ پکار کر نہیں پڑھی۔

(طبرانی)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

فلما نزلت هذه الاية أمر رسول اللہ صلی اللہ عليه وسلم ان لايجهربها.

جب آیت بسم اللہ نازل ہوئی تو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بسم اللہ بلند آواز سے نہ پڑھی جائے۔

(طبرانی)

اسی طرح صحيح بخاری، صحيح مسلم اور طبرانی کے علاوہ مصنف ابن ابی شیبہ، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، اور بیہقی وغیرہ متعدد کتب حدیث میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ تسمیہ کی قرات سورہ فاتحہ یا کسی اور سورت کے حصے کے طور پر نہیں بلکہ الگ حیثیت سے کی جاتی تھی۔ اگر یہ حصہ سورۃ فاتحہ ہوتی تو یقیناً اس کی قرات بھی اس کے ساتھ بلند آواز سے کی جاتی۔ جن روایات میں بسم اللہ کی قرات کا دوران نماز بلند آواز سے ہونا مذکور ہے وہ مکی دورکے اوائل ایام سے متعلق ہیں۔ لیکن بعد میں صراحت کے ساتھ حضور اکرم ﷺ نے پکار کر پڑھنے کی ممانعت فرما دی۔ لہذا تسمیہ کا نماز میں پڑھا جانا تلاوتِ قرآن کے آغاز و افتتاح کے طور پر ہے۔ کیونکہ حمد وثناء کے بعد جب سورہ فاتحہ کی قرات شروع ہوتی ہے تویہی دوران نماز تلاوت قرآن کا آغاز ہے اور یہاں بھی یہ حکم ہے کہ تلاوت قرآن کا آغاز پہلے تعوذ ( اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم ) اور پھر تسمیہ (بسم اللہ الرحمن الرحیم) سے کیا جائے۔

تسمیہ سے ہرکام کے آغاز کا حکم (تاریخی پس منظر):

شریعتِ اسلامیہ میں ہمیشہ سے یہی تعلیم دی جاتی رہی ہے کہ ہر جائز اور مشروع کام کا آغاز خدا کے نام سے کیا جائے۔

1۔ جب نوع علیہ السلام نے طوفان سے بچاؤ کے لیے اِذنِ الٰہی کے مطابق کشتی تیار کرلی اور اپنے ساتھیوں کو اس میں سوار کرلیا تو کشتی چلانے سے قبل فرمایا:

وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرِهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌO

(هود، 11: 41)

اور نوح نے کہا تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ، اللہ ہی کے نام سے اسکا چلنا اور اسکا ٹھہرنا ہے بے شک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

2۔ اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ صبا کو جو تبلیغی خط لکھا۔ اس کا آغاز بھی انہی مبارک کلمات سے کیا گیا تھا۔

إِنَّهُ مِن سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِO

بے شک وہ(خط) سلیمان کی جانب سے (آیا) ہے اور وہ (اللہ کے نام سے شروع (کیا گیا) ہے جو بے حد مہربان بڑا رحم فرمانے والا ہےo

(النمل، 27: 30)

3۔ عہد عیسوی میں بھی ان کلمات کی برکات و تاثیرات کا پتہ چلتا ہے۔ اسرائیلیات میں ایک روایت مذکور ہے کہ عیسٰے علیہ السلام کا ایک قبر پر گزر ہوا۔ آپ نے فرشتوں کو دیکھا کہ وہ صاحب قبر پر عذاب کررہے ہیں۔ جب دوسری مرتبہ گزر ہوا تو دیکھا کہ رحمت کے فرشتے نور کے طبق اس پر پیش کر رہے ہیں۔ آپ کو بہت تعجب ہوا، نماز پڑھی اور کشف حال کے لیے دعا کی۔

فاوحي اللہ تعالٰى إليه: يا عيسٰي، کان هذا العبد عاصياً و مذمات کان محبوسا في عذابي، وکان قد ترک إمراة حبلٰي فولدت ولدا وربته حتٰي کبر، فسلمته الٰى الکتاب فلقنة المعلم بسم اللہ الرحمن الرحيم فاستحييت من عبدي إن أعذبه بناري في بطن الأرض وولد  يذکر إسمي علي وج  الارض.

(التفسيرالکبير، 1: 172)

پس اللہ تعالیٰ نے وحی کی انکی طرف کہ اے عیسٰی علیہ السلام  یہ بندہ گناہ گار تھا اور اپنی موت کے دن سے میرے عذاب میں گرفتار تھا۔ وقتِ مرگ اس کی بیوی حاملہ تھی۔ جس نے بعد میں ایک بچہ پیدا کیا۔ اس کی ماں نے اسے پالا اور معلمِ دین کے سپرد کر دیا۔ اس معلم نے جب اس بچے کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھائی تو ہم کو شرم آگئی کہ اس کا باپ قبر میں عذاب میں مبتلا رہے اوراس کا بیٹا زمین پر ہمارے نام کا ذکر کرے پس ہم نے اس کو بخش دیا۔

4۔ اسی طرح حضور ﷺ نے بھی ہرکام سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا۔ چنانچہ یہ حکم بعض معاملات میں ’’واجب،، کا درجہ رکھتا ہے۔ بعض میں ’’سنت،، کا اور بعض میں ’’مستحب،، کا۔ قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا گیا:

فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْهِ.

(الانعام، 6: 118)

سوتم اس(ذبیحہ) سے کھایا کرو جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہو۔

اس سے آگے مزید حکم دیا گیا۔

وَمَالَکُمْ اَلَّا تَاکُلُوْا مِمَّا ذُکِرِاسْمُ اللہِ عَلَيْهِ.

(الانعام، 6: 119)

اور تمہیں کیا ہے کہ تم (ذبیحہ) سے نہیں کھاتے جس پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا گیا ہے۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

کل أمر ذي بال لايبداء فيه بسم اللہ الرحمن الرحيم فهو أجزم.

جو کام بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جائے وہ ناقص رہتا ہے یعنی اپنے کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔

1. سنن ابن ماجه، 1: 610، رقم: 1894
2. المعجم الکبير، 19: 68، رقم: 141
3. کنزالعمال، 1: 555، رقم: 2491

اس حدیث کا مفہوم اس طرح سمجھیں جیسے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:

لا وضوء لمن لم يذکر اسم اللہ عليه.

اس شخص کا وضو نہیں جس نے اس پر بسم اللہ نہ پڑھی۔

مسند احمدبن حنبل، 2: 418
مسند احمدبن حنبل، 3: 41
مسند احمدبن حنبل، 4: 70
مسند احمدبن حنبل، 5: 381
مسند احمدبن حنبل، 6: 397

اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ بسم اللہ کے نہ پڑھنے سے وضو کی فرضیت ہی ناقص رہ جاتی ہے بلکہ فرض توادا ہو جاتا ہے۔ لیکن سنن و مستحبات کی شمولیت سے جوکمال نصیب ہوتا ہے اس سے محروم رہ جاتا ہے۔ اسی طرح ہر فعل جو بغیر بسم اللہ کے شروع کیا جائے۔ ممکن ہے کہ دینوی لحاظ سے مطلوبہ نتائج کے حصول میں تو ناکام نہ ہو لیکن اپنے اجرو ثواب کے اعتبار سے عنداللہ کامل نہ ہوگا۔ اسی روحانی کمال اور نقص کی طرف متذکرہ بالا حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔

آپ غور فرمائیں کہ کلام الٰہی جو سراسر خیر وبرکت ہے۔ جب اس کے پڑھنے سے بھی پہلے بسم اللہ کا پڑھنا بطور شرط لازم ہے تو دیگر امور حیات سے قبل تسمیہ کا پڑھا جانا کس قدر ضروری ہوگا۔ آنحضرت ﷺ کی اپنی عملی مداومت بھی اسی اصول پر تھی۔

5۔ حتی کہ باری تعالیٰ نے خود اپنے کلام مبارک کے نزول کے آغاز و افتتاح کے لیے جو کلمات منتخب فرمائے وہ بھی ’’تسمیہ،، کی نوعیت کے تھے۔ غارحرا میں گونجنے والی سب سے پہلی قرآنی صدا بھی یہ تھی۔

اِقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَO

اے محمد آپ پڑھیے اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے آپ کو اور سب کو پیدا کیاo

(العلق، 96: 1)

گویا آداب قرات میں سب سے پہلا قرینہ بسم اللہ سے شروع کرنا تھا اور اسی قرینہ کے مطابق نبی اکرم ﷺ سے قرات کا آغاز کرایا گیا۔ مفسرین عام طور پر بسم اللہ کو معنوی وسعت کے اعتبار سے تمام قرآنی علوم کی جامع قرار دیتے ہیں۔ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

کل العلوم مندرج فی الکتب الاربعة وعلومها فی القرآن، وعلوم القرآن فی الفاتحة وعلوم الفاتحة فی (بسم اللہ الرحمن الرحيم) و علومها فی الباء من بسم اللہ

تمام علوم و معارف چار الہامی کتابوں میں درج کیے گئے ہیں اور ان کے تمام علوم قرآن میں اور قرآن کے تمام علوم سورۃ الفاتحہ میں اور سورۃ الفاتحہ کے تمام علوم بسم اللہ الرحمن الرحیم میں، اور اس کے تمام علوم بائے بسم اللہ میں۔

(تفيسر کبير، 1: 99)

چنانچہ تسمیہ کی ہمہ پہلو تفسیر اسی طرح ناممکن ہے جیسے پورے قرآن کی۔ تاہم یہاں اس کے چند گوشوں پر کچھ روشنی ڈالی جاتی ہے۔

حذفِ فعل کی حکمت:

قرآن میں تسمیہ کا بیان اس طرح ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اللہ کے نام سے (شروع کرتا ہوں) جونہایت مہربان رحمت والا ہے۔ یہاں ایک خاص امر قابل توجہ ہے کہ قرآنی عبارت میں ’’شروع کرتاہوں،، کے لیے کوئی لفظ یا کلمہ استعمال نہیں ہوا۔ ترجمے میں یہ الفاظ معنوی طور پر از خود تصور کیے جاتے ہیں۔ درحقیقت قرآن کے اس انداز میں خاص حکمت پنہاں ہے۔

اگر قرآن ’’شروع کرتا ہوں،، کے الفاظ اپنی عبارت میں استعمال کرتا تو اس کی صورت یہ ہوتی  أبداء. . . أشرع يا أبداء (میں آغاز کرتا ہوں)۔ ان میں ہر لفظ فعل اور فاعل دونوں کا جامع ہوتا۔ عام طور پر یہی عربی ادب کا اسلوب ہے کہ فعل اور فاعل اکٹھے ہوا کرتے ہیں۔ اب اس کی دو ہی صورتیں ممکن تھیں۔

1۔ ایک یہ کہ ابداء وغیرہ کا لفظ بسم اللہ سے پہلے استعمال کیا جاتا۔

2۔ دوسری یہ کہ ایسا لفظ بسم اللہ کے بعد استعمال ہوتا۔ لیکن قرآن نے اسے ہر صورت میں ہی محذوف اور مضمر کردیا۔ اس کی چند حکمتیں ہیں۔ ان حکمتوں کے بیان سے قبل یہ اصول ذہن نشین ہوجانا چاہیے کہ بعض اوقات عربی عبارت میں ایسے حروف استعمال ہوتے ہیں جن سے پہلے کوئی فعل محذوف تصورکیا جاتا ہے یعنی اس کا شمار معنی میں تو ہوتا ہے لیکن عبارت میں نہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی مثال واضح ہے:

اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَآ ئِکَة.

اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا۔

(البقرة، 2: 30)

یہاں قاعدہ نحو کے مطابق اذ سے پہلے اُذْکَرْ فعل محذوف ہے۔ جس کا معنی ہے ’’یاد کرو،، جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا۔ اسی طرح حرف باء جس سے تسمیہ کا آغاز ہو رہا ہے، سے بھی پہلے ایک فعل محذوف ہے جس کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس فعل کو محذوف رکھنے میں کیا حکمت پوشیدہ ہے۔

پہلی حکمت:

اگر ابداء یا اس جیسا کوئی لفظ بسم اللہ سے پہلے وارد ہوتا تو یہ امر واضح تھا کہ اس کا فاعل وہ شخص خود ہی ہوتا جو قرآن کی تلاوت یا کسی دوسرے کام کا آغاز کررہا تھا۔ ابداء کا فاعل اللہ تعالیٰ کسی لحاظ سے بھی نہ ہوسکتا تھا۔ باری تعالیٰ چونکہ تعلیم یہ دینا چاہتے تھے کہ قرآن کی تلاوت ہویا کوئی اور جائز کام، اس کا آغاز اللہ کے نام سے ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ اس مخصوص ادب معاشرت کی تعلیم کلمات تسمیہ کے ذریعے دی جا رہی تھی۔ اس لیے یہ ہرگز مناسب نہ تھا کہ خود ان ہی کلمات کا آغاز اللہ کے نام کے علاوہ کسی دوسرے کے ذکر سے ہوتا۔ چنانچہ اس مخصوص ادب اور ضابطہ عمل کی تعلیم بھی اسی انداز سے دی گئی کہ اظہار مدعا کا آغاز بھی براہ راست اللہ ہی کے ذکر سے ہو۔ کسی اور کے ذکر سے نہیں۔ کیونکہ اسی طرح کمال برکت کاحصول ممکن ہے۔

دوسری حکمت:

صیغہ متکلم واحد کا استعمال ہوتا یا جمع کا، دونوں صورتوں میں قائل اپنا اور اپنے فعل کا ذکر اسم باری تعالیٰ پر مقدم کرتا۔ یہ امر ادب واحترام کی اعلٰی منزلوں کے منافی تھا۔ یہ لحاظ عام گفتگو میں بھی رکھا جاتا ہے کہ اگر قائل کسی کام کے ضمن میں اپنے علاوہ دوسرے افراد کا ذکر بھی مشترکہ طور پر کرنا چاہتا ہوتو پہلے دوسروں کا نام لیا جاتا ہے اور آخر میں متکلم اپنا نام لیتا ہے کیونکہ یہ آداب تہذیب کلام کا حصہ ہیں۔ اپنا نام لینا معیارِ لطافت کے خلاف ہے۔ اسی طرح کسی کام میں افضل پر مفضول کی سبقت بھی خلاف ادب تصورکی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن حکیم سے بیان کی جاتی ہے کہ بعض لوگوں نے عہد رسالت میں عیدالاضحی کے دن آنحضرت ﷺ سے پہلے قربانی کردی اس پر یہ آیت نازل ہوئی:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌO

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول سے (کسی معاملہ میں) سبقت نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ سننے والا اور خوب جاننے والا ہےo

(الحجرات، 49: 1)

اللہ تعالیٰ نے باوجود اس کے کہ ان کا عمل حکم الٰہی کی اطاعت پر مشتمل تھا اور وہ خون بھی محض رضائے الٰہی کی خاطر بہایا گیا تھا جو کہ خالصتاً عبادت تھا۔ لیکن ان سے خطا صرف یہ سرزد ہوئی کہ وہ عمل میں وقتی طور پر نبی اکرم ﷺ پر تقدم کر بیٹھے تھے۔ یہی بات اللہ تعالیٰ کو رسالت مآب ﷺ کی تعظیم وادب کے منافی معلوم ہوئی۔ انہیں قربانیاں پھر سے کرنے کا حکم صادر کیا گیا اور آئندہ کے لیے حکماً اس اقدام کے امکان کو بھی ختم کردیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بعض لوگ رمضان المبارک سے ایک دن قبل روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے اور اس طرح وہ آنحضور ﷺ پر تقدم کر بیھٹتے تھے۔ چنانچہ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو حکماً منع فرما دیا۔ اس مثال کے ذریعے درحقیقت یہ بات واضح کرنا مقصود تھی کہ بعض اوقات تقدم خلافِ ادب تصور کیا جاتا ہے چنانچہ بسم اللہ میں جوکہ خود ہی سراسر ادب کی تعلیم ہے، اسی اصول کو لفظاً بھی ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ کلام میں بھی ادبِ الوہیت نظر انداز نہ ہوکیونکہ یہی کمالِ ایمان کی علامت ہے۔ ادب سے محروم شخص علم و عمل کی بے پناہ دولتوں کے باوجود لذت ایمان سے محروم رہتا ہے۔ اسی لیے ہر سطح پر جس قدر بھی ملحوظ رہے بہتر ہے۔ کلام میں اس قدر لفظی احتیاط اورحکمت و مصلحت انسانی کوشش کے باوجود پیش نظر نہیں رہ سکتی۔ یہ صرف کلام الٰہی کا اعجاز ہے جو بغیر تصنع کے ان حکمتوں پر دلالت کررہا ہے۔

تیسری حکمت:

یہ حکمتیں تو ابداء وغیرہ کے الفاظ بسم اللہ پر مقدم نہ کرنے میں مضمر تھیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے نام سے پہلے کسی اور کا ذکر تو خلاف ادب تھا۔ اس لیے اسے محذوف رکھا گیا۔ مگر بعد میں بیان نہ کرنے میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ صاحب حکمت کا کوئی فعل حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ جب ابداء یا اشراع کی صورت میں کسی کام کے شروع کرنے کا ذکر آئے گا تو اس میں فاعل خود متکلم کی ذات ہوگی۔ گویا متکلم تسمیہ کے ذریعے کسی نہ کسی فعل میں اپنے فاعل ہونے کا ذکر بھی ساتھ ہی کر رہا ہوگا کہ ’’ اللہ کے نام سے میں (فلاں کام) شروع کرتا ہوں،،۔ اس طرح فعل کی نسبت متکلم کی طرف ہوجاتی ہے اور اسی کا فاعل ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہاں مصلحت یہ تھی کہ انسان خود کو باری تعالیٰ کے لطف وکرم کا اس حد تک محتاج سمجھے کہ تمام امو رکی نسبت اسی ذات کاملہ کی طرف کردے۔ ہرچند کہ افعال کا صدور انسان ہی سے ہوتا ہے۔ لیکن ہر فعل کے صادر کرنے کی قوت وہمت اور طاقت وصلاحیت انسان کو بارگہ رب ذوالجلال سے نصیب ہوتی ہے کیونکہ تمام قوتوں اور طاقتوں کا مبداء و سرچشمہ وہی ذات ہے۔ چونکہ تسمیہ میں بسم اللہ کے ذریعے خدا کی مدد اور اس کے فعلِ عنایت کا ذکر آگیا تھا۔ اس کے بعد متکلم کا اپنا فاعل ہونا بیان کرنا اللہ تعالیٰ کی شانِ الوہیت کے منافی تھا۔ گویا یہ تعلیم دی گئی کہ اے انسان تو ہرکام شروع کرتے ہوئے خدا کا نام لے اور ا س کام کی توفیق بھی اسی ذات کی طرف منسوب کر۔ کبھی بھی اس فعل کو اپنا کمال نہ سمجھ، کیونکر فاعل حقیقی تو نہیں اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہاں انسانی فکر کو کبر ونخوت کی تباہ کاریوں سے بچنے کی صورت بتائی گئی ہے کہ اگر انسان زبان سے ذات حق کا نام لے کر دل میں یقین بھی اسی کی طاقت کی کارفرمائی پر رکھے گا تو سوچ کا یہ اندازا سے کبھی بھٹکنے نہ دے گا۔ یہ فکر ایمانی آداب کا لازمہ ہے سورۃ نساء میں اسی کی تلقین کی گئی ہے۔

قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّهِ فَمَا لِهَـؤُلاَءِ الْقَوْمِ لاَ يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًاO

فرما دیجیئے سب کچھ اللہ کی طرف سے ہی ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا۔ کوئی بات سمجھتے معلوم نہیں ہوتے۔

(النساء، 4: 78)

یہاں ہرکام کی توفیق کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونا مذکور ہے۔ اسی انداز سخن اور طرز فکر کی تلقین تسمیتہ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ یہاں ایک اور لطیف نکتہ قابل غور ہے کہ بسم اللہ میں چونکہ ذکر صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور ابتداء فعل یا ارتکابِ فعل کی نسبت انسان کی طرف مذکور نہیں ہے۔ اس لیے حکم ہے کہ بسم اللہ محض جائز کاموں کے آغاز میں پڑھی جائے۔ ناجائز اور خلاف شرع امور نہیں۔ کیونکہ غلط کاموں میں توفیق فعل کے حوالے سے ان کی نسبت باری تعالیٰ کی طرف کرنا خلاف تقاضائے بندگی ہے۔ بندے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو اپنے آقا کی طرف منسوب کرتا پھرے۔ ارشاد فرمایاگیا ہے۔

مَآ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَة فَمِنَ اللہِ وَمَا اَصَابَکَ مِنْ سَيِّئَة فَمِنْ نَّفْسِکَ.

(اے انسان اپنی تربیت یوں کرکہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھو کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر) اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابی نفس کی طرف منسوب کر)۔

(النساء، 4: 79)

مذکورہ بالا دو آیات میں حقیقت حال بھی واضح کردی گئی ہے اور آداب فکر و قول بھی کہ توفیق اور طاقت ہرکام کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے منسوب ہوتی ہے۔ لیکن نیکی صادر ہوتو بندگی یہ ہے کہ انسان اسے اپنے آقا کی رحمت سمجھ کر اسی کی طرف منسوب کردے اور بدی صادر ہوتو اسے اپنی سوچ اور کاوش کا نتیجہ سمجھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسی انداز فکر سے انسان کی اپنے عیبوں اور کوتاہیوں پر نظر رہتی ہے اور وہ خود تنقیدی کے ذریعے اپنی اصلاح کا طالب و خوگر ہوسکتا ہے اور دوسری طرف وہ بعض اچھائیوں کو محض اپنی صلاحیت کا ثمرہ سمجھ کر پیکرِ رعونت بھی نہیں بننے پاتا۔ چونکہ ہر کام کی توفیق اور ہمت و قدرت کا مبداء و منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لیے تسمیہ میں اسی کے مجرد ذکر پر اکتفا کیا گیا اور انسان کے فعل یا اس کے فاعل ہونے کا ذکر محذوف کردیا گیا۔ گویا حقیقت کو عیاں رکھا اور جو کچھ محض ظاہر تھا اسے پوشیدہ کردیا۔

آیت الحمد سے استدلال:

سورۃ الفاتحہ کا آغاز بھی اسی فلسفے کی نشاندہی کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا ہے۔

اَلْحَمْدُلِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ O

سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش فرمانے والا ہےo

(الفاتحه، 1: 1)

یہ بات بڑی واضح ہے کہ جب کسی کی خوبی یا تعریف ہوگی تو یقیناً کوئی نہ کوئی تعریف کرنے والا بھی ہوگا۔ کیونکہ زبانِ حمد کھولے بغیر بیانِ حمد نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہاں حمد کا ذکر ہے حامد یا فعلِ حمد کا بیان نہیں ہے۔ محض اس لیے کہ اگر حمد کرنے والے کا ذکر کردیا جاتا تو ممکن ہے وہ یہ سمجھتا کہ محمود میری حمد کا محتاج ہے یا میری تحمید نے اسے عظمت دی ہے۔ حالانکہ حمد کسی کا کارنامہ نہیں۔ یہ حسنِ الوہیت کا اپنا استحقاق ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنا محمود ہونا بیان کردیا۔ مگر کسی کا حامد ہونا صراحت سے بیان نہیں کیا۔

اسی طرح تسمیہ میں فعل اور فاعل کو مضمر اور محذوف رکھنے میں حکمت یہ تھی کہ یقیناً وہ کام جس کے آعاز میں بسم اللہ پڑھی جارہی ہے تو کوئی نہ کوئی شخص ہی کرے گا۔ لیکن کہیں وہ اپنی فاعلیت پر ایسا گمان نہ کرنے لگے کہ یہ کام میں اپنی ہمت و توفیق سے کر رہا ہوں۔ چنانچہ خدا کا نام محض برکت کی غرض سے نہیں بلکہ اس یقین و اعتماد سے لیا جائے کہ اس کام کی توفیق بھی محض اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہے۔

چوتھی حکمت:

اولاً یا آخراً کسی صورت میں بھی خدا کے ماسوا کے ذکر کا تسمیہ میں نہ ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ واجب الوجود صرف اسی کی ذات ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ممکن ہے اور اس وجہ سے ھالک و معدوم۔ تسمیہ چونکہ تمام معارف قرآنی کا خلاصہ ہے اس لیے اس کا اندازِ بیان بھی دین حق کے جملہ مقاصد و مطالب کا خلاصہ ہوگا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا آغاز و انجام صرف خدا ہی کی ذات و صفات کے ذکر پر مبنی ہے اس کے علاوہ اس میں نہ کسی فعل کا بیان ہے نہ کسی فاعل کا۔ گویا یہ الفاظ خدا کی وحدانیت کو اسی طرح اجاگر کررہے ہیں کہ اس کائنات میں اس کے بغیر نہ تو کسی فعل کا صدور ممکن ہے اور نہ کسی فاعل کا وجود۔ بلکہ دوامِ حقیقی اور ثباتِ ابدی اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ صرف خلاّق عالم ہی کی ذات و صفات ہے۔ وہی اول تھا اور وہی آخر بھی ہوگا۔ اس لیے نہ اس سے پہلے کسی فعل کا ذکر ممکن ہے اور نہ اس کے بعد ارشاد ربانی ہے۔

1. هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO

(الحديد، 57: 3)

2. لِلَّهِ الْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِن بَعْدُ.

وہ (سب سے) پہلا تھا اور (سب سے) آخر اور(اپنی قدرت کے اعتبار سے) ظاہر اور (اپنی ذات کے اعتبار سے) پوشیدہ ہے وہ سب کچھ خوب جانتا ہےo

(الروم، 30: 4)

حکم اللہ ہی کا ہے، پہلے بھی اور بعد میں بھی۔

اسی امر کا بیان ایک اور مقام پر اس طرح ہے۔

3. لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ.

اس کے سوا کوئی معبود نہیں (لوگو! خوب یاد رکھو فانی شے معبود نہیں ہوا کرتی) ہر شے اللہ کی ذات کے سوا فانی ہے۔

(القصص، 28: 88)

چنانچہ تسمیہ کے کلمات میں خدا کے سوا ہر قسم کے فعل اور فاعل کے ذکر کا محذوف و معدوم ہونا انسان کو پوری کائنات اور ا سکے نظام کی بے ثباتی کی یاد دلاتا ہے۔ یہ کلام پکا رپکار کر دنیا کی بے حقیقت رنگینیوں میں محو و مستغرق انسانوں کو حقیقتِ ابدی کی طرف متوجہ کررہا ہے تاکہ لوگ خواب غفلت سے بیدار ہوکر بے کم و کاست اسی احکم الحاکمین کی قدرتوں اور قوتوں پر کامل ایمان لے آئیں اوراس سراب حیات کو ہی آخری منزل نہ سمجھ لیں۔

تسمیہ سے چونکہ قرآن کا آغاز ہورہا ہے۔ اس موقع پر جامع و مانع انداز سے خدا کی ہستی اور اس کی صفات کا ذکر اور اس کے ماسوا کا حذف واضمار انسان کویہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ دل و دماغ سے غیر کا خیال نکال دے اور ہر لمحہ ذات حق پر نظر رکھے۔ یہ معراج عبدیت ہے اور قرآن کا پہلا سبق بھی یہی ہے جیسا کہ ارشاد ایزدی ہے۔

وَلِلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللہِ.

اور مشرق ومغرب (سب) اللہ ہی کا ہے پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اللہ کی توجہ ہے۔

(البقره، 2: 115)

مزید برآں وہ ایسا موجود حقیقی ہے کہ ہر وجود کا مبداء بھی وہی ہے اور مرجع بھی۔ بلکہ دوسرے لفظوں میں ہر وجود کائنات کا جواز بھی اسی کے وجود سے ہے۔ وہ حقیقت ہے اور اس کے ماسوا جو کچھ ہے مجاز ہے۔ اس لیے تسمیہ میں حقیقت کا ذکر کیا گیا اور مجاز کو ترک کر دیا۔

حرفِ باء کی افادیت:

کلماتِ تسمیہ کا پہلا حرف ’’بار،، ہے۔ جس کا معنی ’’سے،، کیا گیا ہے یہ فعل محذوف سے متعلق ہے۔ محذوف سے مراد وہ فعل اور فاعل ہے۔ جس کا ذکر یہاں لفظاً نہیں بلکہ معناً موجود ہے۔ یعنی میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے گویا حرفِ باء فعلِ محذوف کو اللہ کے نام سے ملانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حرفِ باء کی اپنے استعمال و افادیت کے لحاظ سے متعدد اقسام ہیں۔ جنہیں علماء نحو نے شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن یہاں یہ حرف ان میں سے تین اقسام پر مشتمل ہوسکتا ہے۔

1۔ بائے الصاق و مصاحبت

2۔ بائے استعانت

3۔ بائے تیمن و تبرک

بائے مصاحبت:

الصاق و مصاحبت کا معنی اکٹھا ہونا اور رفاقت و معیت اختیار کرنا ہے۔

اس صورت میں جب کہ با مصاحبت کے لیے تصور کی جائے تو تسمیہ کا مفہوم یہ ہوگا کہ میں اللہ کے نام کو اپنا ساتھی بناتے ہوئے اس کے دامن رحمت سے وابستہ اور منسلک ہوتے ہوئے اور محض اسی کی رفاقت و معیت پر بھروسہ کرتے ہوئے، اپنے کام کا آغاز کرتا ہوں۔ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر فرماتے ہیں۔

هذا الباء باء الا لصاق فهو يلصق العبد بالرب فهو کمال المقصود.

یہ ’’با،، بائے الصاق ہے چنانچہ یہ بندے کو رب سے ملاتی ہے اور یہی انسانی مقصود کا کمال ہے۔

(تفسيرکبير، 1: 99)

حرف باء کے اس مفہوم کی افادیت یہ ہے کہ تسمیہ کے ذریعے انسان کو اپنے ہرکام کے آغاز سے انجام تک خدا کی رفاقت و معیت کا احساس رہے۔ یہ امر واقع ہے کہ اگر انسان کو کسی نہایت قوی، مضبوط اور ہمدرد بہی خواہ ساتھی کی رفاقت کا احساس اور یقین ہو تو اسے کسی سطح پر بھی خوف وخطر دامنگیر نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انسان کو کارگہ زیست میں ہر خوف و غم سے بے نیاز کرنے کے لیے بسم اللہ کے ذریعے دل ودماغ میں یہ احساس جاگزیں کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرو گے تو اس کی معیت بھی تمہیں حاصل ہوگی۔ جس کی حفاظت کے باعث تمہیں نہ کوئی نقصان پہنچ سکے گا اور نہ تمہاری کاوشیں بے نتیجہ حاصل ہوں گی۔ اسی تصور کو قرآن یوں بیان کرتا ہے۔

وَهُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌO

وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہےo

(الحديد، 57: 4)

اسی شب ہجرت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو غار ثور میں تنہائی کے احساس سے کچھ خدشہ محسوس ہوا کہ شاید کفار مکہ جو آنحضور ﷺ کے تعاقب میں تھے۔ انہیں نقصان پہنچا دیں۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے ان سے بزبان وجی ان سے ارشاد فرمایا:

لَا تَحْزُنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللهُ سَکِيْنَتَه عَلَيْهِ.

غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی۔

(التوبه، 9: 40)

اس ارشاد پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ خدا کی معیت پر ایمان تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا پہلے سے ہی تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس قدر عداوت و مخالفت کے ماحول میں اپنے گھروالوں کواکیلا چھوڑ کر حضور ﷺ کے شریکِ سفر نہ ہوتے۔ لیکن ظاہرًا بے سروسامانی کا عالم، تنہائی کا ماحول اور کفارو مشرکین کے مخاصمانہ تعاقب کا خیال وقتی طور پر حزن و ملال کا باعث بن گیا اور یہ انسانی طبیعت کا لازمی تقاضا بھی تھا۔ اس پر آنحضور ﷺ نے صرف انہیں معیت خداوندی کی طرف متوجہ کردیا۔ یہ احساس بحال ہونا تھا کہ دل کو سکون و اطمینان کی دولت نصیب ہوگئی۔ گویا معیت خداوندی قلبی تسکین کا لازمی سبب ہے۔ یہی فلسفہ تسمیہ ہے کہ انسان خدا کی معیت کو رفاقت کا احساس اجاگر کرکے جہدِ حیات کا آغاز کرے تو کوئی خوف و حزن سے اسے پریشان نہیں کرسکتا۔ خوف وحزن سے نجات پاکر انسانی جدوجہد کو وہ تازگی اور قوت میسر آتی ہے۔ جس سے کامیابی وکامرانی کی منزل بھی آسان ہوجاتی ہے۔ ورنہ بے یقینی اور مایوسی کی کیفیت تگ و دو کو مطلوبہ منزل تک نہیں پہنچنے دیتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

فَلَا تَهِنُوْا وَتَدْعُوْآ اِلَی السَّلِمْ وَاَنْتُمْ الْاَعْلَوْنَ وَاللهُ مَعَکُمْ وَلَنْ يَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْO

پس تم سستی نہ کرو اور خود صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم ہی غالب آؤ گے اور اللہ تمہارے ساتھ ہے اور وہ ہرگز تمہاری کوششیں بے نتیجہ نہیں جانے دے گا۔

(محمد، 47: 35)

یہاں یہ امر ذہن نشین رہے کہ خدا کی معیت تو درحقیقت ہمہ وقت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اسے اس معیت کا احساس اور شعور نہیں ہوتا۔ شعورِ معیتِ الٰہی متحقق نہ ہونے کی بناء پر وہ اس کے جملہ ثمرات و لطائف سے بہرور نہیں ہوسکتا۔ تسمیہ معیتِ الٰہی مہیا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس کا شعور بیدار کرنے کے لیے ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِO

اور بے شک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم اس سے اس کے دل کی رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہیںo

(ق، 50: 16)

اس آیت سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہوگئی کہ معیت الٰہی تو انسان کو پہلے سے ہی میسر ہوتی ہے۔ لیکن اس کا شعور پیدا نہیں ہوتا۔ جب اس معیت و رفاقتِ خداوندی کا شعور انسان کے اندر ایک زندہ قوت بن جاتا ہے تو تمام وساوس نفسانی اور دنیوی خطرات وخدشات نیست ونابود ہوجاتے ہیں اور قلب وباطن پر اس احساس کے محیط ہوجانے سے ایک عجیب لطف و سکون اورلذت و طمانیت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ انسان کو پھر نہ توکسی اور کی رفاقت کی طلب رہتی ہے اور نہ کسی کے قرب کی۔

دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

لیکن اس لطف کا اندازہ بیان سے نہیں خود دھیان سے ہی ہوسکتا ہے کیونکہ لذت بتانے کی نہیں حاصل کرنے کی چیز ہے۔

بائے استعانت:

استعانت سے مراد مدد طلب کرنا ہے اس کے معنی کے لحاظ سے مفہوم تسمیہ یہ ہوگا کہ ’’اللہ کے نام سے مدد طلب کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں،،۔ حضرت نوح علیہ السلام نے قیامت خیز طوفان سے اپنے پیروکاروں کوبچانے کے لیے حکم الٰہی سے ایک کشتی بنائی اور انہیں اس میں سوار ہوجانے کو کہا۔ قرآن حکیم اس کا تذکرہ اس طرح کرتا ہے۔

وَقَالَ ارْكَبُواْ فِيهَا بِسْمِ اللّهِ مَجْرِهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌO

اور نوح نے کہا تم لوگ اس میں سوار ہو جاؤ اللہ ہی کے نام سے چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے بے شک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہےo

(هود، 11: 41)

گویا اس آیت کے ذریعے جملہ مہمات میں خدائے رحمان و رحیم کے نام سے استعانت کی تعلیم دی جا رہی ہے تاکہ انسان پر یہ حقیقت آشکار ہوکہ اللہ تعالیٰ کی مدد واعانت کے بغیر نہ توکسی خیر کو حاصل کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی شر سے محفوظ ہوا جاسکتا ہے۔ چونکہ فعل محذوف کے اعتبار سے یہاں کام کے شروع کرنے کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس لیے بائے استعانت کا معنوی اطلاق یوں ہوگا کہ’’ اے اللہ میں ہر کام کے شروع کرنے میں بھی تیری مدد کا محتاج ہوں،،۔ جب کوئی کام خدا کی مدد اور توفیق کے بغیر آغاز پذیر ہی نہیں ہوسکتا تواس کا انجام پذیر ہونا کیونکر ممکن ہوگا۔ دراصل یہاں انسان کو اپنی حاجتمندی کا احساس دلایا جارہا ہے تاکہ وہ دینوی متاع کو کثرت کے ساتھ حاصل کرکے خدائے لم یزل کے حضور سرنیازِخم کرنے سے باغی نہ ہوجائے۔ انسان کے ذہن میں یہ حقیقت ہر وقت موجود رہے کہ میں رب ذوالجلال کی عنایت کے بغیر اپنی جہدِ حیات میں پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ کس قدر ظالم اور احسان فراموش ہے وہ شخص جس کا قدم بھی خدا کے لطف و انعام سے اٹھے۔ لیکن وہ بجائے اس کی اطاعت کے اسی کے احکام کی خلاف ورزی کے لیے بڑھ رہا ہو۔ اگر انسان کا یہ شعور بیدار ہوکہ اس کی زبان کو قوتِ گویائی، اس کے کانوں کو قوتِ سماعت، اس کی آنکھوں کو قوتِ دید، اس کے دست وبازو کوقوتِ عمل، اس کے قدموں کو قوتِ نقل وحرکت اور اس کے دماغ کو قوتِ فکر الغرض سب کچھ خدا کی مدد واعانت کے سبب میسر آیا ہے تو اس ظاہری اور باطنی اعضاء وجوارح میں سے کوئی عضو بھی رضائے الٰہی کے خلاف حرکت میں نہ آئے۔ ہم سے جوگناہ سرزد ہوتے ہیں اور ہمارے فکر میں جو تمرد وانحراف جنم لیتا ہے یہ دراصل اسی شعور و ادراک کے فقدان کا نتیجہ ہے۔ تسمیہ فی الحقیقت انسان کی فکری و عملی اصلاح کا شاندار ذریعہ ہے۔ اگر ہرکام شروع کرنے سے پہلے زبان اور دل خدا کانام لینے اور اس سے مدد طلب کرنے کی طرف راغب ہوں اوریہ انکی عادی خصوصیت بن جائے تو نواہی و محرمات سے ازخود پرہیز ہونے لگے گا۔ کیونکہ خدا کی یاد کے ہوتے ہوئے حکمِ خدا کی خلاف ورزی ممکن نہیں رہتی۔

مزید برآں استعانت دعا ہے اور دعا خود مغز عبادت۔ اس لحاظ سے تسمیہ فی نفسہ عبادت کی روح قرار پاتا ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان خود کسی کام کے کرسکنے میں اپنے ذرائع اور اسباب و وسائل کے باوجود ناکافی وعاجز تصور کرتا ہے اور پھر اپنی بے بسی و بے کسی کے اعتراف کے ساتھ خدا بزرگ و برتر کی مناجات کرتے ہوئے اس سے مدد طلب کرتا ہے۔ گویا انسان بارگاہ ایزدی میں سراپا سوال بن کر حاضر ہے، وہ دنیاو مافیہا سے ناامید اور تمام اسباب سے مایوس ہوکر مسبب الاسباب کی بارگاہ میں نیاز مندی کے ساتھ آن کھڑا ہوا ہے۔ اس کی آرزو مندی دل کو درد وسوز کی لذت سے آشنا کردیتی ہے اور یہی کیفیت انسان کو مقامِ بندگی سے ہمکنار کرتی ہے۔ بقول شخصے

سراپا آرزو ہونے نے بندہ کردیا مجھ کو
وگرنہ میں خدا ہوتا جو دل بے مدعا ہوتا

اسی مقام کو علامہ اقبال یوں بیان کرتے ہیں۔

متاع بے بہا ہے درد و سوز و آرزو مندی
مقام بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی

قرآن میں حرفِ باء کا استعمال کئی مقامات پر اسی مقصد کے لیے ہوا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَO

اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے (مجھ سے) مدد چاہا کرو یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کیساتھ ہوتا ہےo

(البقره، 2: 153)

یہاں صبر اور نماز دونوں کو ذریعہِ استعانت کے طور پر بیان کیا گیا ہے کہ استعانت تو لامحالہ باری تعالیٰ سے ہوگی لیکن اس کے کامل استحقاق کے لیے صبر و نماز کو اپنا لوتا کہ ان کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور عنایت واعانت زیادہ سے زیادہ نصیب ہوسکے۔ اسی تصور کو ایک اور مقام پر یوں واضح کیا گیا ہے۔

قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللّهِ وَاصْبِرُواْ.

موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا ! تم اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو۔

(الاعراف، 7: 128)

اسباب سے صرفِ نظر کرکے مسبّب الاسباب پر نظر رکھنا ہی صبر کہلاتا ہے۔ اس لیے قرآن استعانت کے ساتھ توحید مطلب کی بھی تعلیم دے رہا ہے۔ تسمیہ میں بائے استعانت سے پہلے یا بعد میں کسی کا ذکر نہیں۔ صرف خدا ہی کے نام پر اکتفا کیا گیا ہے۔ جس کا واضح مقصد یہی ہے کہ انسان کی تمام ضروریات و مشکلات میں خدا ہی کی ذات کافی ہے۔ اسے کسی اور چیز پر توکل یا انحصار کی ضرورت نہیں۔

بائے تبرک:

تبرک کا معنی حاصل کرنا ہے۔ لہذا بائے تبرک کے حوالے سے تسمیہ کا معنی یہ ہوگا کہ ’’ اللہ کے نام سے برکت حاصل کرتے ہوئے شروع کرتا ہوں،،۔ خدا کے نام سے شروع کرنا اس اعتبار سے باعث برکت ہے کہ اس کام کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے امکانات زیادہ روشن ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسباب و وسائل کا مہیا کرنا بھی تو اسی کا کام ہے۔ اس لیے جب اس ذات کے مقدس نام سے برکت طلب کی جائے تو وہ ذات اس کام کا انجام تک پہنچنا آسان کردیتی ہے۔ اس لیے آنحضور ﷺ نے فرمایا:

کل امر ذي بال لا يبدا فيه ببسم اللہ فهو أجذم او أقطع اولم يبدا فيه باسم اللہ فهو أبتر اولا يفتح بذکر اللہ فهو أبتر أو أ قطعا.

1. سنن ابن ماجه، 1: 610، رقم: 1894
2. کنزالعمال، 1: 555، رقم: 249

جو کام بسم اللہ پڑھے بغیر شروع کیا جائے وہ دم بریدہ اور ناقص رہ جاتا ہے، جو کام بسم اللہ کے شروع کے بغیر شروع کیا جائے ناتمام رہ جاتا ہے، جس امر کا افتتاح خدا کے ذکر کے بغیر ہوگا وہ انجام خیر تک نہیں پہنچے گا۔

اس وقت ہمارے پیش نظر لفظ اسم کی لغوی اور معنوی دلالت نہیں ہے۔ سردست ہم نحوی قاعدے کے مطابق اس کے صرف ایک پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ عربی زبان میں کلمہ تین قسم کا ہوتا ہے۔

حرف، فعل اور اسم

تمام ائمہ نحو وادب اس امر پر متفق ہیں کہ:

الحرف هی الکلمة لا يصح الاخبار عنها ولابها.

حرف وہ کلمہ ہے جو نہ توکسی اور کی خبر دیتا ہے اور نہ خود کسی پر دلالت کرتا ہے۔

حرف جب تک کسی اور سے منسلک نہ ہو اس میں کوئی معنویت پیدا نہیں ہوتی۔ یعنی یہ ازخود کسی کامل مفہوم کی نشاندہی نہیں کرسکتا۔ اس لحاظ سے نہ ’’مسند،، ہے اور نہ ’’مسند الیہ،،۔

الفعل هی الکلمة لا يصح الاخبار عنها لکن يصح الاخبار بها.

فعل وہ کلمہ ہے جو فی نفسہ کسی اور کی خبر تو نہیں دے سکتا لیکن خود کسی نہ کسی خبر پر دلالت کرتا ہے۔

اس لحاظ سے فعل ’’مسند الیہ،، نہیں۔ یعنی اس کو خود تو کسی عمل یا خبر سے نسبت ہوتی ہے مگر کسی اور کو اس سے بالذات کوئی نسبت نہیں ہوتی۔ جب تک کوئی اسم اس کا فاعل بن کر مذکور نہ ہو۔ اس کی معنویت بھی کامل نہیں ہوسکتی۔

الاسم هی الکلمة يصح الاخبار عنها وبها.

اسم وہ کلمہ ہے جو خود بھی کسی اور کی خبر دیتا ہے اور کوئی بھی اس سے نسبت رکھتا ہے۔

اس لحاظ سے اسم کو ’’مسند،، اور ’’مسند الیہ،، دونوں حیثیتیں حاصل ہوتی ہیں۔ یعنی یہ خود بھی اپنی ذات میں کسی نہ کسی کی خبر دیتا ہے اور کوئی دوسرا اس سے منسلک ہوجائے یا اس سے نسبت پیدا کرلے تو وہ بھی بامعنی یعنی کامل بن جاتا ہے۔ بہ الفاظ ویگر اسم خود ’’کامل گر،، بھی ہے۔ مذکورہ بالا تینوں کلمات کا باہمی تعلق یہ ہے کہ حرف بھی اس سے نسبت پیدا کرکے خود کو بامعنی بناتا ہے، فعل بھی اسم سے نسبت پیدا کرکے اپنی معنویت اور دلالت کو کامل بناتا ہے۔ لیکن اسم ایک ایسا کلمہ ہے جو خود ہی اپنے مقصد اور ذات معینہ پر دلالت کرتا ہے یا اس کی خبر دیتا ہے۔ اس کو اپنی اس حیثیت کی تشکیل کے لیے نہ کسی اور حرف کی حاجت ہے نہ کسی فعل کی۔ گویا اسم میں دلالتِ کاملہ اور دلالتِ مطلقہ ہوتی ہے۔ فعل میں ناقصہ اورحرف میں سرے سے ہوتی ہی نہیں۔

تسمیہ میں فعل، حرف اور اسم کے باہمی تعلق پر اشارۂ لطیف:

مذکورہ بالا بحث کی روشنی میں ’’تسمیہ،، کے الفاظ پر غور فرمائیں تو ’’فعل،، جس کا تعلق کسی غیر سے ہوسکتا تھا، محذوف کردیا گیا۔ کلماتِ تسمیہ کا آغاز ’’حرف باء،، سے کیا گیا۔ جو اپنی ذات میں کوئی معنی و مفہوم نہیں رکھتا۔ اس میں جو بھی معنویت او ر افادیت پیدا ہوئی ہے۔ صرف اسم کے ساتھ نسبت پیدا کرنے کے باعث ہوئی ہے۔ ’’حرف باء،، کا مقصد محض اپنے ماقبل محذوف کو یعنی کسی غیر کو جو متکلم یا فعل ہوگا، اسم کے ساتھ ملانا ہے۔ پھر لفظ ’’اسم،، وارد کیا گیا اور اس کے بعد ’’ اللہ الرحمن الرحیم،، کے الفاظ بیان ہوئے۔ اسم کا معنی ’’علامت،، ہے۔ ذات و صفات باری تعالیٰ کے ذکر سے پہلے ’’اسم،، کا لایا جانا اس بات کو واضح کرنا تھا کہ اللہ اپنی واحدانیت، الوہیت اور ہویت میں اس طرح غیر محسوس و غیر مبصر، وہم و ادراک سے بالا اور عقل و خرد سے بلند ہے کہ اس تک کسی کا وہم و گمان نہیں پہنچ سکتا، بندوں کا اس تک وصول محال ہے۔ لہذا اس مخفی وباطن اور پاک و منزہ ہستی تک وصول کے لیے ایسی علامت درکار ہے جو خود ظاہر ہو، اس ہستی کی خبر دینے والی ہو، اپنی ذات کے ظہور میں بھی کامل ہو اوراس ذات مطلق کے اظہار کے لیے بھی کامل ہو، جو خود اس کی خبر بھی رکھتی ہو اور دوسروں کو اس سے باخبر بھی کرسکتی ہویعنی وہ علامت ذات حق کے ظہور کی ایسی دلیل بن جائے کہ خود بھی اس سے ملی ہوئی ہو اور دوسروں کو بھی اس سے ملا سکے اوراس غرض سے دوسرے اس علامت سے نسبت و تعلق قائم کرنے کے لیے مجبور و مامور ہوں۔ ایسی علامت کاملہ جس کی شان یہ ہوکہ۔

اُدھر سے اللہ سے واصل، اِدھر مخلوق میں شامل
خواص اس برزخ کبرٰی کو ہے حرفِ مشدد کا

وہ علامت صرف ذات محمدی ﷺ کی ہی تھی جسے ’’ کلمہ اسم،، کے عنوان سے بطور ذریعہ بیان کردیا گیا۔

تصورِ دلالت اور کلمۂ اسم کی وساطت:

یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ لفظ ’’ اللہ،، کی دلالت کے لیے کلمۂ اسم بطور ذریعہ وارد ہوا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’ کیا ذات حق اپنی دلالت کے لیے کسی ذریعے کی محتاج ہے؟،، اس کا جواب صاف نفی میں ہے۔ بذاتِ خود باری تعالیٰ اپنی دلالت کے لیے کسی ذریعے، واسطے اور علامت کی محتاج نہیں ہے لیکن اس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کلمہ اسم اللہ ذات باری تعالیٰ ہی کی دلالت کے لیے بطور ذریعہ و علامت وارد ہوا ہے تو پھر اس ذریعے اور علامت کی احتیاج کس کو ہے۔

اس کا جواب خود عبارت تسمیہ میں ہے جو حرف باء سے شروع ہوتی ہے۔ ’’حرف باء،، اپنے سے پہلے بہر صورت کسی فعل و فاعل کو محذوف کے طور پر طلب کرتا ہے۔ یہ محذوف وہ شخص ہے جو بارگہ الوہیت تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے جو ’’ابداء، اشرع، اقراء وغیرہ،، کا فاعل ہے اور اس شخص کو ’’اسم،، یعنی علامت ذات حق سے ملانے کے لیے حرف باء درمیان میں لگایا گیا ہے۔ گویا مخلوق خدا حرف باء کے توسل سے اسم کے ساتھ اپنی نسبت پیدا کر رہی ہے تاکہ اسم کے ساتھ نسبت اور تعلق پیدا کرکے طالبان حق کو ذات حق تک رسائی نصیب ہوسکے۔

یہ اسم علامت کے طور پر اس ہستی مبارکہ کو بیان کررہا ہے جو ذات حق سے واصل اور اس کی عارف بھی ہے اور دیگر مخلوقات کو ذات حق کا وصال اور معرفت عطا کرنے والی بھی۔

ذاتِ محمدی ﷺ کلمہ اسم کا مدلول کامل ہے:

پورا قرآن شروع سے آخر تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اسی مقصد کے لیے دنیا میں انبیاء و رسل تشریف لاتے رہے۔ وہ ذات حق کی معرفت اور اس تک رسائی کا بہترین ذریعہ و واسطہ بھی تھے اور علامت ودلالت بھی۔ پھر یہ انبیاء و رسل ایک دوسرے پر فضیلت بھی رکھتے تھے۔ ارشاد قرآنی ہے۔

تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰی بَعْضٍ.

یہ سب رسول ( جوہم نے مبعوث فرمائے) ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

(البقره، 2: 353)

انبیاء و رسل کی تمام فضیلتیں جس نقطے پر جاکر اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گئیں۔ وہ نقطہ نبوت محمدی ﷺ کا تھا۔ اس لیے ذات حق پر آپ کی دلالت بھی سب سے زیادہ اکمل و افضل تھی اور آپ کی شانِ علامت بھی سب سے ارفع و اعلیٰ تھی۔ اس لیے نبوت و رسالت جہاں مقام و مرتبہ کے اعتبار سے آپ کی ذات ستودہ صفات پر ختم ہوگئی۔ وہاں ادوار زمانی کے اعتبار سے بھی آپ ہی پر اختتام پذیر ہوگئی۔ چنانچہ ذات حق کی علامتِ تامہ اور دلالتِ مطلقہ ذات مصطفوی ﷺ قرار پاگئی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر اس حقیقت کی واضح نشاندہی بھی کی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاO

(النساء، 4: 61)

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo

اس آیت نے صراحت کے ساتھ اس حقیقت کو بے نقاب کردیا کہ منافقت یہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے واسطہ کے بغیر ہی ذات حق کی بارگاہ میں بازیابی کے حصول کی کوشش کی جائے۔ یعنی منافقت کی پہچان یہ ہے کہ ’’ رسول کو وصالِ حق کا ذریعہ نہ ماناجائے۔ اس کو معرفت حق کی علامت اور ذاتِ حق کی دلالت تسلیم نہ کیا جائے،،۔ یعنی منافق یہ سمجھتا ہے کہ نسبت رسول ﷺ کے بغیر ہی احکام خداوندی پر عمل باعثِ ایمان ثابت ہوجائے گا۔ حالانکہ قرآن اسے ’’ منافقت،، کہہ کر رد کرچکا ہے۔ اسی تصور کو ایک اور مقام پر یوں بیان کیاگیا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُؤُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَO

اور (ان کی حالت تو یہ ہے کہ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لئے ( اللہ سے) بخشش طلب فرمائیں تو (یہ گستاخی سے) سر ہلاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بے رخی کرتے ہیں اور وہ تکبر کرتے ہیںo

(المنافقون، 63: 5)

ان گستاخان رسالت اور بے نیازاِن درِ نبوت کے بارے میں مزید حکم صادر کیا گیا۔ ’’ کہ اے رسول اللہ ﷺ میری غیرت اور شان مجیت کا تقاضا یہی ہے کہ اگر یہ تیرے ذریعہ وواسطہ کو اپنا کر میری ذات تک پہنچیں گے تو انہیں بخش دوں گا۔ لیکن اس طرح تجھ سے منہ موڑ کر تجھ سے تکبر کرتے ہوئے، تجھے میری ذات تک رسائی کا واحد ذریعہ و واسطہ اور علامت نہ سمجھتے ہوئے براہ راست مجھ سے معافی مانگنا چاہیں یا تو سراپا رحمت و رافت ہونے کی بناء پر انکے غرور و تکبر کے باوجود اپنے طور پر ان کیلئے مغفرت مانگے تو میں ان بدبختوں کو پھر معاف نہیں کروں گا۔ ان کو تجھ سے منہ موڑنے کا مزہ چکھا کر ہی رہوں گا۔

سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ.

آپ ان کے لئے بخشش مانگیں یا ان کے لئے بخشش نہ مانگیں ان کے حق میں برابر ہے اللہ ان کو ہرگز نہ بخشے گا۔

(المنافقون، 63: 6)

اگر یہ آپ کی سفارش، شفاعت اور غلامی کے ذریعہ کو ٹھکرا کر بھی بخشے جائیں تو پھر ان غلامانِ رسالت کا کیا حال ہوگا جو قدم قدم پر تیری بارگاہ میں نیاز مندیاں کرتے ہیں اور تجھے میری ذات کی علامت سمجھ کر تیرے واسطے سے مجھ تک پہنچتے ہیں۔ میں ان بدنصیبوں کو ان خوش نصیبوںکے برابر نہیں ٹھہرا سکتا اور پھر میرا دستور مغفرت ہی یہی ہے کہ لوگ بارگاہ رسالت کی وساطت سے مجھ تک پہنچیں۔

باری تعالیٰ خود اعلان فرماتے ہیں۔

وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO

اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب) اگر وہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اللہ سے معافی مانگتے اور رسول ﷺ بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo

(النساء، 4: 64)

اس آیت کا مفہوم و مدعا سابقہ آیت کی روشنی میں سمجھا جائے تو حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ لوگ ظلم ومعصیت کے بعد اگر ذات محمدی ﷺ کو واسطہ وصال الٰہی اور ذریعہ مغفرت حق مان کر در رسول ﷺ پر سرنیاز خم کردیں، حضور اکرم ﷺ کی وساطت سے بارگاہ الوہیت تک رسائی کی آرزو کریں اور حضور ﷺ کو ذریعہ و واسطہ سمجھنے سے انکاری ہوں بلکہ آپ کی سفارش سے ہی منہ پھیر لیں تو پھر کوئی صورت نہیں کہ وہ بخشے جائیں۔ اس لیے کہ اندریں صورت میں ان کی بخشش سنت الٰہی کے خلاف ہے اور ارشاد ایزدی ہے۔

وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO

اور آپ اللہ کی سنت میں کبھی فرق نہ پائیں گےo

(الفتح، 48: 23)

متذکرہ بالا آیات نے اس حقیقت کو اظہر من الشمس کردیا کہ ذات حق تک رسائی کے لیے صرف اور صرف ذات محمدی ﷺ ہی واسطہ و ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے آپ کو تسمیہ میں ’’ کلمہ اسم،، سے تعبیر کردیا گیا اور آپ کو علی الاطلاق برھان من ربکم (تمہارے رب کی طرف سے حتمی و قطعی دلالت) کے لقب سے سرفراز کیا گیا ہے۔ چنانچہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کی اولین تعلیم ہی یہی تھی کہ ذات باری تعالیٰ اور اس کی صفاتِ کاملہ تک رسائی واسطہ و علامت کے بغیر ممکن نہیں اور وہ واسطہ جلیل ذات محمد مصطفٰی ﷺ ہے جسے اس ذات نے محمد، احمد، حامد اور محمود کے اسماء مبارکہ کے ذریعے اپنی شان اسمیت سے نواز رکھا ہے۔

ذات محمدی ﷺ اور شان اسمیت:

مذکورہ بالا تحقیق کا خلاصہ یہ ہوا کہ جناب مصطفٰی ﷺ ’’اسم،، ہیں کیونکہ ان کو اللہ سے نسبت ہے اور ساری مخلوق خدا کو ان سے نسبت ہے یہی اسم کی شان اور تعریف پہلے بیان ہوچکی ہے کہ وہ مسند بھی ہوتا ہے اور مسندالیہ بھی۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی اسی حیثیت کو اسطرح واضح فرمایا:

إنما أنا قاسم واللہ يعطي.

بے شک نعمتوں کو مخلوق خدا میں تقسیم میں ہی کرنے والا ہوں اور مجھے عطا اللہ تعالیٰ کرتاہے۔

(صحيح المسلم، 2: 333، 12. کتاب الزکوة، 33. باب النهی عن المسألة، رقم حديث: 100)

اس حدیث صحيح کے ذریعے ذات محمدی ﷺ کی دو نسبتیں واضح ہوگئیں۔

1۔ نسبت الی الخالق۔

2۔ نسبت الی الخلق

’’نسبت الی الخالق،، یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ خالق سے حاصل کرتے ہیں اور ’’ نسبت الی الخلق،، یہ ہے کہ مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں۔

سورہ الضحٰی میں یہی دو نسبتیں خاص انداز سے بیان کی گئی ہیں۔

وَلَسَوْفَ يُعْطِيْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیO اَلَمْ يَجِدْکَ يَتِيْمًا فَاٰوٰیO وَوَجَدَکَ ضَآلًا فَهَدَیO وَوَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیO

اور بے شک قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو اتنا دے گاکہ آپ راضی ہوجائیں گے کیا اللہ نے آپ کو حالت یتیمی میں نہ پایا۔ پس اس نے آپ کو بلند مقام سے سرفراز کردیا اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ پایا۔ پس اپنا قرب و وصال عطا کردیا اور اس نے آپ کو اپنی نعمتوں کا ضرورت مند اورطلبگار پایا تو اتنا عطا کیا کہ غنی اور مالدار کردیا۔

(الضحٰی، 93: 5 - 8)

ان آیات میں پہلی نسبت کا بیان تھا کہ جس جس چیز کی ضرورت ذات مصطفوی ﷺ کو محسوس ہوئی رب ذوالجلال نے حضور اکرم ﷺ کو عطا کردی۔ اپنی نعمتوں اور عطاؤں کے خزانے نے ذات نبوی پر اس طرح کھول دیئے کہ انہیں ’’غنی،، یعنی بے نیاز کردیا۔ اب مخلوق خدا کو حکم دیاکہ میری نعمتوں اور عطاؤں کو حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہارے لیے واسطہ اتم مقرر فرمادیا ہے۔ جاؤ درِ رسول اللہ ﷺ پر حاضری دو، وہاں دامن سوال دراز کرو، جو کچھ مانگو وہی کچھ ملے گا۔ کیونکہ ہم نے عطا میں کوئی کمی نہیں کی، وہ تقسیم میں بھی کچھ نہیں کریں گے۔ ساتھ ہی ’’نسبت الی الخلق، ’ کے حوالے سے اپنے اسم مقدس کو حکم صادر فرمایا:

فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْO وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلَا تَنْهَرْO وَاَمَّا بِنِعْمَة رَبِّکَ فَحَدِّثْO

پس اے محبوب، اے تقسیم کرنے والے، اب اگر آپ کے پاس کوئی یتیم آئے تو اس (کے مانگنے) پر ناراض نہ ہوں، اور جو کوئی سائل آپ کے در پر آئے۔ پس اسے خالی نہ موڑیے اور اپنے رب کی عطاؤں اور نعمتوں کو ہر ایک میں تقسیم کرکے خوب چرچا کرو۔

(الضحٰی، 93: 9 - 11)

لہذا ذات محمدی ﷺ کی شان اسمیت یہ قرار پائی کہ ’’نسبت الی الخالق،، کے نتیجے میں ساری کائنات میں انعامات الٰہیہ کی تقسیم کے فیضان رحمت کے مظہر اتم بن گئے اور ’’نسبت الی الخلق،، کے نتیجے میں ساری کائنات میں انعامات الٰہیہ کی تقسیم کے ضامن بن گئے بقول مولانا احمد رضا خان:

بخدا، خدا کا یہی ہے در، نہیں اورکوئی مفر مقر
جو وہاں سے ہو یہاں آکے ہو، جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں

سورۃ الضحٰی کی آیت متذکرہ 8 اور 10 اور حدیث مذکورہ بالا دونوں مقامات میں نہ ’’عطا،، میں تخصیص فرمائی گئی ہے اور نہ تقسیم میں۔ عطا بھی مطلق اور بلاقید ہے۔ تقسیم بھی مطلق اور بلاقید ہے۔ اسی طرح سائلان و وابستگان پر بھی کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی کہ تم کیا مانگو اور کیا نہ مانگو۔ جو کچھ بھی مانگو گے، دنیا مانگو یا آخرت، سب کچھ ملے گا کیونکہ ہم نے اپنے محبوب کو بلا استثنٰی تمہاری ضرورتوں سے بھی زیادہ عطا کر دیا ہے۔ پھر اس سے قبل یہ بھی اعلان فرما دیاگیا۔

وَلَلْاٰخِرَة خَيْرٌ لَّکَ مِنَ الْاٰوْلٰیO

اے محبوب! تمہاری ہر آنے والی گھڑی، گزری ہوئی گھڑی سے بہتر ہوگی۔

(الضحٰی، 93: 4)

یعنی آپ پر ہر آن ہماری عطاؤں کا سلسلہ بڑھتا رہے گا۔ جب عطاؤں میں کمی نہیں آسکتی اسی طرح تقسیم میں بھی کمی یا رکاوٹ نہیں آنی چاہیے۔ چنانچہ ابدالآباد تک ذات محمدی ﷺ کی یہ دونوں نسبتیں ( نسبت الی الخالق۔ ۔ ۔ جو حصول فیضان سے عبارت ہے اور نسبت الی الخلق۔ ۔ ۔ جو تقسیم فیضان سے عبارت ہے) قائم و دائم رہیں گی۔ اس لیے قرآن کے پیغام ابدی کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کے لیے اسم مقدس ﷺ کا فیضان وساطت و رسالت بھی جاری و ساری رہے گا۔

حرفِ جار کی نسبت ایک لطیف نکتہ:

یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ تسمیہ میں کلمہ اسم کو حرف جار (باء) سے منسلک کیا گیا ہے ’’جر،، کے معنی کشش اور جذب کرنے کے ہوتے ہیں۔ حرف جار کشش کے لیے مقرر ہے چونکہ حرف جار فعل محذوف کو اسم سے ملانے کے لیے واقع ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بھی ذات حق کا ماسوی ہے اور اسے ذات باری تعالیٰ کا قرب و وصال اور معرفت و اعانت مطلوب ہے۔ وہ ذات محمدی ﷺ سے جسے بطور علامت عنوان ’’اسم،، کے تحت بیان کیا گیا ہے جذب وکشش پیدا کرلے۔ اسے جس قدر ذات محمدی ﷺ کا قرب اور جذب و کشش نصیب ہوگی اسی قدر ذات حق کی محبوبیت کا سزا وار ہوتا چلا جائے گا۔

جیسے کہ ارشاد خداوندی ہے۔

قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اللهُ.

(اے حبیب!) آپ فرما دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنالے گا۔

(آل عمران، 3: 31)

نبی اکرم ﷺ نے اپنی اسی شان کریمی کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرمایا:

مثلی کمثل رجل استوقد ناراً فلما أضاء ت ماحولها جعل الفراش و هذه الدوآب التی فی النار يقعن فيها و جعل يحجزهن و يغلبنه فيتقحمن فيها قال فذلکم مثلي و مثلکم أنا أخذ بحجرکم عن النارهلم عن النارهلم عن النار فتغلبوني و تقحمون فيها.

(صحيح لمسلم، 2: 248، 43. کتاب الصقائل، 6. باب شفقة صلي الله عليه وآله وسلم علي امته، رقم: 18)

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی اور جب اس آگ نے ماحول کو روشن کر دیا تو اس میں پروانے اور حشرات الارض گرنے لگے وہ شخص ان کو آگ میں گرنے سے روکتا ہے اور وہ اس غالب آکر آگ میں دھڑا دھڑ گر رہے ہیں پس یہ میری مثال اور تمہاری مثال ہے میں تمہاری کمر پکڑ کر تم کو جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر جہنم میں گرے جا رہے ہو۔

اس حدیث کے ذریعے اس جذب و کشش کی ماہیت بھی واضح ہوگئی جو کلمہ کے باعث اسم مقدس میں پیدا ہو گئی تھی۔ اسم نحوی کا خاصہ جر من حیث الوقع ہے اور اسم الٰہی کا خاصہ جرمن حیث الصدور ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ذریعے باری تعالیٰ نے ’’توحیدِخالص،، کی تعلیم دی لیکن اس کی صحت وقبولیت کی شرط بھی متعین فرما دی اور وہ شرط واسطہ رسالت محمدی ﷺ ہے۔ اسی لیے اسم ذات ’’اللہ،، کو علی التخصیص الرحمن الرحیم کے ذریعے صفتِ رحمت سے اجاگر کیا تاکہ ’’شانِ اسمیت،، کے معنی ومفہوم پر بھی دلالت ہوجائے کہ اسمِ مقدس کا کامل ترین مدلول ذات محمدی ﷺ ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved