حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس عظیم اور عالمی پیغمبرانہ مشن کا مکہ معظمہ سے آغاز فرمایا تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری میں ہی بتمام و کمال کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوگیا۔ اس پیغمبرانہ جدوجہد کی کامیابی کا پہلا مرحلہ 1ھ میں اسلامی ریاست مدینہ کا قیام تھا دوسرا 8ھ میں فتح مکہ، تیسرا 10 ھ میں خطبہ حجۃ الوداع کے ذریعے نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان تھا اور چوتھا مشرق سے مغرب تک عالمی سطح پر اسلامی دعوت کی تحریک کو بپا کردینا تھا۔ اس کی تفصیلات آگے متعلقہ مقامات پر آرہی ہیں مگر یہ اعزاز و امتیاز تاریخ میں صرف رسالت و سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی نصیب ہوا کہ اپنی ظاہری حیات مبارکہ کے اندر ہی اپنے مشن کو ہر جہت اور ہر اعتبار سے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا اور لیظہرہ علی الدین کلہ کا وہ تاریخی ساز انقلابی اعلان جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصد بعثت کے طور پر کیا گیا تھا اس کی حتمی کامیابی کے نتائج صحیفہ ارضی پر مرتسم ہوگئے۔ پھر کامیابی اور نتیجہ خیزی کا یہ عمل تسلسل کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی صدیوں تک جاری رہا۔ بالآخر فروغ دعوت حق کا یہ سلسلہ روئے زمین کی ان حدود تک جا پہنچا جن کا مشاہدہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کروایا گیا تھا۔
یہاں فقط ایک حوالہ ہی اس حقیقت کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ دور حاضر کے ایک غیر مسلم مؤرخ اور محقق Michael H. Hart نے اپنی معروف تصنیف The 100, A Ranking of the Most Influential persons in History میں کائنات انسانی کی تاریخ میں عظیم، نامور اور تاریخی کارہائے نمایاں کی حامل شخصیات کی فہرست میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی سب سے پہلے نام کے طور پر لکھا ہے وہ خود اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels despite of humble origins, Muhammad founded and promulgated one of the worlds great religions and became immensely effective political leader. Today, thirteen centuries after his death, his inflence is still powerful and pervasive.
It may initially seem strange that Muhammad has been ranked higher than Jesus. There are two principal reasons for that decision. First, Muhammad played a far more important role in the development of islam than that done by Jesus for Christianity Furthermore, Muhammad (unlike Jesus) was a secular as well as a religious leader. In fact, as the driving force behind the Arab conquests, he may well rank as the most inflential political leader of all time.
It is this unparalleed combination of secular and religious inflence which I feel entitles Muhammad to be considerd the most influential single figure in human history.
‘‘دنیا کی سب ذی اثر شخصیات میں سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میرا پہلا انتخاب، کچھ قارئین کو حیران کر دے گا اور ہوسکتا ہے بعض حلقوں کی طرف سے اس پر سوال کیا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ ذات اقدس ہے جو دنیوی و مادی اور مذہبی و روحانی دونوں سطحوں پر سب سے بڑھ کر کامیاب رہی۔ ایک انتہائی متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف دنیا کے ایک عظیم مذہب کی بنیاد رکھی بلکہ اس کی اشاعت بھی کی اور ایک انتہائی سحر انگیز سیاسی موثر راہنما بن گئے۔ ان کی وفات کے تیرہ سو سال بعد ان کا اثر آج بھی پائدار، مضبوط اور اسی طرح جاری و ساری ہے۔
‘‘ابتدائی طور پر یہ بات حیرت انگیز ہوسکتی ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رتبہ و مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بلند تر ہے۔ اس فیصلے کی دو بنیادی وجوہات ہیں : اول یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشاعت اسلام اور اس کی ترویج و ترقی میں جو کچھ کیا وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عیسائیت کی تبلیغ و اشاعت سے کہیں بڑھ کر ہے۔
‘‘علاوہ ازیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے برعکس مذہبی و لادین سبھی لوگوں کے راہنما تھے۔ فی الحقیقت عربوں کی فتوحات کے پیچھے انہی کی زبردست قوت کام کر رہی تھی۔ انہیں بلا تامل تاریخ کی ایسی اثر انگیز اور موثر شخصیت کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے جن کی مثال نہیں ملتی اور نہ ہی مل سکتی ہے۔ مذہب و دنیاوی زندگی پر ان کے وہ عظیم اور گہرے اثرات ہیں جن کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخ انسانی کی واحد مثال ہیں۔’’
اس امر کا بیان A.J. Arberry نے ان الفاظ میں کیا ہے :
When he (Muhammad) died in 634, Islam was secure as the paramount religion and political system of all Arabia.(1)
(1) A.J. Arberry, Aspects of Islamic Civilization, p. 11.
‘‘جب 634ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا اس وقت اسلام پورے خطہ عرب میں ایک غالب دین اور سیاسی نظام کے طور پر مستحکم ہو چکا تھا۔’’
وہ مزید لکھتے ہیں :
From the Atlantic coast, to the borders of China the call to prayer, in the tongue of Macca, rang out from minaret, summoning the faithful to prostrate themselves to the Lord of the world. The rapidity spread of Islam, through extensive provinces which had long been Christian, is a crucial fact of history which has naturally engaged the speculative allousion of many critical investigator.(1)
(1) A.J. Arberry, Aspect of Islamic Civilization, p. 12.
‘‘وادی مکہ سے اٹھنے والی حق کی یہ آواز ہر طرف پھیل چکی تھی۔ بحر اوقیانوس کے ساحل سے لے کر چین کی سرحدوں تک مساجد کے میناروں سے بلند ہونے والی صدائے دلنواز اہل ایمان کو رب کائنات کے حضور سر بسجود ہونے کی دعوت دے رہی تھی۔ اسلام کی اس درجہ تیزی سے اشاعت خصوصاً ان دور دراز علاقوں میں جو عرصہ دراز سے عیسائی رہ چکے تھے ایک ایسی اٹل تاریخی حقیقت ہے جس نے بہت سے نقاد تاریخ نگاروں کی توجہ کو بدیہی طور پر اپنی طرف مبذول کر لیا ہے۔’’
اس کتاب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیتی اور رسالتی جہت سے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا جو اس حقیقت کو واضح اور اَلم نشرح کر دیتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ صرف ایک دینی اور مذہبی یا الوہی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک معاشرتی، سماجی، انسانی اور شخصیتی ضرورت بھی ہے۔ یعنی ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے مثالی شخصیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جب تک معاشرے کے افراد مثالی نہیں ہوں گے معاشرے کی ہیئت اجتماعیہ مثالی حیثیت اختیار نہیں کر سکتی اور اگر افراد کو حامل کردار بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سامنے ایک ایسا رول ماڈل ہو جس کی پیروی کر کے وہ اس معیار کو حاصل کرنے کی جدوجہد کریں اور معاشرے کے اہم اجزائے ترکیبی بن سکیں۔ اس حوالے سے اگر کوئی مثالی شخصیت کامل نمونہ ہو سکتی ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔
وہ دانائے سبل ختم رسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا
نگاهِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان وہی یٰسین وہی طہٰ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved