جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرب کے معاشرے میں جہاں اَخلاقی قدریں پامال ہو چکی تھیں اور انسانی معاشرہ اس اخلاقی گراوٹ اور نکبت کا شکار تھا جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے نہ صرف اخلاقی اقدار کو بحال کیا بلکہ ایسے افراد تیار کیے جو اخلاقی کردار اور شخصی فضائل کے حوالے سے پوری دنیا کے لیے رہنما اور قابل تقلید مثالی نمونے قرار پائے۔ ایسی مثالی شخصیات کا وجود میں آنا دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شخصی فضائل اور آپ کے اعلی اخلاق کا ہی نتیجہ تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ سے جب پوچھا گیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خلق کیا تھا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ آپ کا خلق قرآن حکیم ہے یعنی قرآن حکیم کی بیان کردہ اخلاقی تعلیمات اور شخصی فضائل کا چلتا پھرتا اور زندہ اور عملی نمونہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ تھی۔ آپ کی ذات مبارکہ کی سینکڑوں ایسی جہات موجود ہیں جو اخلاقیات کے ہر پہلو کا احاطہ کرتی ہیں تاہم یہاں ہم ان چند جہتوں کا ذکر کر رہے ہیں :
قرآن حکیم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن معاشرت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ.
آل عمران، 3 : 159
‘‘(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کے لئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے، سو آپ ان سے درگزر فرمایا کریں اور ان کے لئے بخشش مانگا کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ کیا کریں۔’’
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب قرآن مجید کی آیت مبارکہ خُذِ الْعَفْوَ وَامْرُ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِيْنَ’’ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔’’} نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا :
الاعراف، 7 : 199
ما هذا يا جبريل؟
‘‘اے جبریل! اس آیت سے کیا مراد ہے؟‘‘
حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا : میں اس وقت تک نہیں بتا سکتا جب تک عالم کل (اللہ تعالیٰ) سے نہ پوچھ لوں۔ چنانچہ جبرئیل علیہ السلام (آسمان پر) چلے گئے۔ پھرکچھ دیر( بعد) واپس تشریف لائے اور عرض کیا :
إن اﷲ تعالی يأمرک أن تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک.
1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7 : 301
2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 368
3. آلوسی، روح المعانی، 9 : 147
‘‘(یا رسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اس شخص کو جو آپ پر زیادتی کرے معاف فرما دیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے آپ اس کو عطا فرمائیں۔ جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمیشہ یہی کردار اور رویہ رہا کہ آپ نے ہمیشہ اپنے دشمنوں کو معاف فرمایا :
أن جابر بن عبد اﷲ أخبر أنی غزا مع رسول اﷲ قبل نجد فلما قفل رسول اﷲ قفل معه فأدرکتهم القائلة فی واد کثير العضاة فنزل رسول اﷲ وتفرق الناس يستظلون بالشجر فنزل رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم تحت سمرة وعلق بها سيفه ونمنا نومة فإذا رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يدعونا وإذا عنده اعرابی فقال : إن هذا اخترط علی سیفی وأنا نائم فاستیقظت وهو فی يده صلتا فقال : من يمنعک منی فقلت اﷲ ثلاثا ولم يعاقبه وجلس.
(1) بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب من علق سيفه بالشجر فی السفر عند القائلة، 3 : 1065، رقم : 2753
‘‘حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نجد کی طرف جنگ کے لیے گئے، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے تو وہ بھی واپس آئے، راستے میں ایک وادی میں انہیں دو پہر ہوگئی جہاں کثرت سے خاردار درخت تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں آرام کرنے کے ارادے سے پڑاؤ کیا، تو لوگ ادھر ادھر درختوں کے سایوں میں چلے گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے لیٹ گئے۔ آپ نے اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی، ہم نے ابھی ایک اونگھ ہی لی تھی کہ ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے کی آواز آئی۔ ہم جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے تو ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک بدو بیٹھا ہے، آپ نے فرمایا : اس شخص نے میرے سوتے ہوئے میری تلوار اچک لی، میری آنکھ کھلی تو یہ تلوار لہرا رہا تھا اور کہہ رہا تھا تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا ‘‘اللہ۔۔۔ تین مرتبہ‘‘ پھر اس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی اور اب یہ بیٹھا ہے۔ پھر آپ نے اس کو معاف فرما دیا۔’’
عن انس : أن ثمانين هبطوا علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وأصحابه من جبل التنعيم عند صلاة الصبح و هم يريدون ان يقتلوه فأخذوا أخذاً فأعتقهم رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فأنزل اﷲ (وَهُوَ الَّذِيْ کَفَّ اَيْدِ يَهُمْ عَنْکُمْ وَاَيْدِ يَکُمْ عَنْهُمْ).
1. ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب 49 : ومن سورة الفتح، 5 : 386، رقم : 3264
2. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب قول اﷲ تعالی : وهو الذی کف أيديهم عنکم، 3 : 1442، رقم : 1808
‘‘حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ اَسی (80) افراد نے نماز فجر کے وقت جبل تنعیم پر سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر، آپ کے قتل کی نیت سے حملہ کر دیا، مگر وہ سب پکڑ لیے گئے۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو رہا فرما دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور وہی ہے جس نے سرحدِ مکّہ پر (حدیبیہ کے قریب) ان (کافروں) کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے۔’’
ایک مرتبہ (جنگ خیبر میں، زینب نامی) ایک یہودی عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کی اور آپ کے کھانے کے لیے ایک مسموم (زہر آلود) بکری بھیجی، آپ نے اس سے ابھی ایک ہی لقمہ لیا تھا کہ آپ کو پتہ چل گیا اور آپ معجزانہ طور پر بچ گئے۔ اس یہودی عورت کو آپ کے پاس لایا گیا، مگر آپ نے اسے معاف کر دیا۔
بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، باب الشاة التی سمت النبی صلی الله عليه وآله وسلم بخيبر، 4 : 1551، رقم : 4003
اس قسم کے واقعات احادیث میں بکثرت ملتے ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے۔
ایک یہودی کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ دینار قرض تھے، اس روایت میں یہ الفاظ ہیں : اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کیا اور کہا کہ میں آپ کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک آپ میرا قرض ادا نہ کریں گے، آپ نے فرمایاکہ اس وقت میرے پاس ادائیگی کے لیے کچھ نہیں ہے، مگر وہ یہودی مہلت دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ تب آپ نے فرمایا کہ پھر تو یہاں بیٹھ جا اور آپ بھی اس کے پاس مسجد نبوی میں بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حالت میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھائیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کو ڈانٹ ڈپٹ کر رہے تھے اور دھمکیاں دے رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بات کو محسوس کر لیا، جو صحابہ اس کے ساتھ روا رکھے ہوئے تھے۔ صحابہ نے عرض کیا : ‘‘یا رسول اللہ ایک یہودی نے آپ کو روک رکھا ہے، آپ نے فرمایا کہ میرے پروردگار نے مجھے کسی غیر مسلم پر ظلم کرنے سے منع کیا ہوا ہے۔ پھر جب دن روشن ہوگیا تو اس یہودی نے کلمہ پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔ اس نے کہا بخدا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو سلوک کیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ میں توریت کی اس پیش گوئی کو آزمانا چاہتا تھا جس میں ہے کہ محمد بن عبداللہ ان کا مولد مکہ مکرمہ میں اور ہجرت گاہ مدینہ طیبہ میں ہے۔ اس کی بادشاہی شام تک ہوگی، وہ نہ تو ترش رو ہے اور نہ سخت دل اور نہ بازاروں میں چلانے والا اور نہ فحش گوئی اختیار کرنے والا ہے اور نہ بیہودہ بات کرنے والا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ یہ میرا تمام مال حاضر ہے اس کے متعلق آپ جو چاہیں حکم دیں۔
خطيب تبريزی، مشکوٰة المصابيح، 3 : 268، 5832
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ حیا کا پیکر تھی :
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم أشد حياء من العذراء في خدرها فإذا رأی شيئا يکرهه، عرفناه في وجهه.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب من لم يواجه الناس، 5 : 2263، رقم : 5751
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب کثرة حيائه، 4 : 1809، رقم : 2320
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحياء، 2 : 1399، رقم : 4180
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پردہ دار کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاء والے تھے اور جب کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناپسند ہوتی تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناپسندیدگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر دیکھ لیا کرتے تھے۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس ابر رواں کی طرح تھے جو اپنے اور پرائے کی تمیز کے بغیر سب پر برستا اور اسے سیراب کرتا ہے۔
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم أحسن النّاس وأشجع النّاس وأجود النّاس.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب الشجاعة، 3 : 1038، رقم : 2665
2. ترمذی، السنن، کتاب الجهاد، باب ما جاء فی الخروج، 4 : 199، رقم : 1687
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ حسین، سب سے زیادہ بہادر اور سب سے زیادہ سخی تھے۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور فیاضی پر محدثین نے بہت سی روایات جمع کی ہیں۔
عن أنس رضی الله عنه أن رجلاً ما سأل رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم علی الإسلام شيئًا إلا أعطاه قال فجاءه رجل فأعطاه غنمًا بين جبلين فرجع إلی قومه فقال يا قوم أسلموا فإن محمدًا ليعطی عطاء لا يخشی الفاقة.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب، ماسئل رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم شيئاً قط، 4 : 1806، رقم : 2312
2. ابن حبان، الصحيح، 14 : 288، رقم : 6373
‘‘حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو بھی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسلام کے نام پر جو بھی چیز مانگتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو عطا فر ما دیتے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو پہاڑوں کے مابین ریوڑ مانگا آپ نے اسے مرحمت فرما دیا وہ شخص اپنی قوم کے پاس گیا اور کہا اے میری قوم کے لوگو مسلمان ہو جاؤ اس لیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنا دیتے ہیں کہ محتاجی کا اندیشہ نہیں رہتا۔’’
کائناتِ انسانی کی عظیم ترین ذمہ داری کا حامل ہونے اور سب سے زیادہ مشکلات، مصائب اور آلام کا سامنا کرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا صبر و استقلال تھے۔
کان أصبر الناس علی اقذار الناس.
1. هندی، کنز العمال، 7 : 53، رقم : 17818
2. مناوی، فيض القدير، 5 : 72
‘‘رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی طرف سے آنے والی مصیبتوں پر سب سے زیادہ صبر کرنے والے تھے۔’’
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں :
قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : لقد أخفت فی اﷲ وما يخاف أحد ولقد أوذيت فی اﷲ وما يؤذی أحد ولقد أتت علي ثلاثون من بين ليلة ويوم ومالی ولبلال طعام يأکله ذوکبد إلا شئی يواريه أبط بلال.
1. ترمذی، السنن، کتاب صفة القيامة، باب منه، 4 : 645، رقم : 2472
2. ابن ماجه، السنن، المقدمه، باب فی فضائل أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 54، رقم : 151
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 286، رقم : 14087
‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کے راستے میں اتنا ڈرایا گیا ہوں کہ میرے سوا اور کوئی اتنا نہیں ڈرایا گیا اور مجھے اس کے بارے میں اتنی اذیت دی گئی جو کسی اور شخص کو نہیں دی گئی، مجھ پر تیس دن اور تیس راتیں ایسی گذر چکی ہیں کہ میرے اور بلال کے پاس کھانے کے لئے کوئی اور شے نہیں ہوتی تھی بجز اس (معمولی سی) خوراک کے جو بلال کی بغل میں ہوتی۔’’
امام ترمذی فرماتے ہیں :
ومعنی هذا الحديث حين خرج النبی صلی الله عليه وآله وسلم هارباً من مکة ومعه بلال انما کان مع بلال من الطعام ما يحمله تحت إبطه.
(3) ترمذی، السنن، کتاب صفة القيامة، باب منه، 4 : 645، رقم : 2472
‘‘یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کے ارادہ سے نکلے تھے اور آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے اس وقت آپ دونوں کے پاس کھانے کے لئے معمولی سی خوراک بلال کی بغل میں ہوتی تھی۔’’
اسی طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں :
إن کنا يئول محمد نمکت شهراً ما نستوقد بنار إن هو إلا الماء والتمر.
ترمذی، السنن، کتاب صفة القيامة، باب منه، 4 : 645، رقم : 2471
‘‘ہم خاندان محمد والے ایک ایک ماہ تک اس حال میں گزارتے تھے کہ ہمارے ہاں آگ نہیں جلتی تھی سوائے پانی اور کھجور کے (کچھ گھر میں نہیں ہوتا تھا)۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی اور آپ کا اخلاق حسنہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا مجسم اور کامل نمونہ تھے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ ہے :
ما رايت احداً کان أرحم بالعيال من رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم .
(1) 1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب رحمة الصبيان، 4 : 1808، رقم : 2316
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 112، رقم : 12123
‘‘میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی شخص کو اپنے گھر والوں پر مہربان اور شفیق نہیں دیکھا۔’’
اور اﷲ تعالیٰ آپ کی تعریف میں فرماتے ہیں :
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
الانبياء، 21 : 107
‘‘اور (اے رسول محتشم) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔’’
نیز ارشاد فرمایا :
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ.
التوبه، 9 : 128
‘‘بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نرم خو، مہربان طبیعت، خوش صحبت، خندہ رُو اور بہت زیادہ تبسم کرنے والے تھے، مگر ایسا کہ اونچی آواز میں قہقہ بلند نہیں کرتے تھے۔ آپ خوفِ خدا سے غمگین اور متفکر رہتے تھے اور جب اسلام کی حمیت میں غصہ آتا تو سخت غصہ آتا تھا، مگر اس میں بھی گالی گلوچ اور دوسروں کو برا بھلا کہنا یا اخلاق سے گرا ہوا طرز عمل شامل نہیں ہوتا تھا۔ آپ بہت زیادہ تواضع پسند تھے، مگر تواضع وقار سے خالی نہ تھا۔ آپ بہت زیادہ سخی اور فیاض تھے، مگر فضول خرچ ہرگز نہیں تھے۔ آپ اپنے رشتہ داروں اور تمام مسلمانوں سے صلہ رحمی فرماتے تھے، آپ بے حد نرم دل تھے۔ تواضع کا یہ عالم تھا کہ ننگے پاؤں گلیوں میں چلتے پھرتے، کبھی شکم سیری سے پیٹ میں گرانی نہیں ہوئی اور کبھی کسی قسم کا لالچ یا طمع نہیں کیا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہی اعلیٰ شخصی اور اعلیٰ اخلاق تھے جس نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جو کلیتًا اُلوہی اقدار پر مبنی تھی :
....This is the greatest divergence of traditions. There may be unbelievers and half believers among Muslims, but Islamic civilization is essentially a believing civilization and Europe essentially unbelieving.(1)
(1) Murad Wahbah, Islam and Civilization : Proceedings of the First International Islamic Philosophy Conference, Ain Shams University Press, 1982, p. 5.
’’(اسلامی اور غیر اسلامی تہذیب میں) روایات کا عظیم ترین انحراف وانتشار موجود ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ملحدین اور نیمے دروں نیمے بروں بھی ہوں گے لیکن اسلامی تہذیب لازمی طور پر ایک ایمانی تہذیب اور یورپ لازماً غیر ایمانی تہذیب ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved