تفہیمِ وسائط کے ذیل میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان بعض معاملات اور اُمور ایسے ہیں کہ ان کی نسبت بھی الگ نہیں اور شرعاً ان کا حکم بھی الگ نہیں۔ ان میں صرف لفظی ثنویت ہے معنوی نہیں، صرف لفظی غیریت ہے حکمی نہیں۔ یعنی ان کے درمیان اشتراک اتنا قوی اور اقرب ہے کہ وہ حکمِ وحدت کے ذیل میں آتے ہیں اور وہ اشتراک صفت مشترک نہیں بلکہ محض درمیان کے واسطے ہوتے ہیں۔ کبھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی لیا جاتا ہے اور نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف مقصود ہوتی ہے لہٰذا یہ طے شدہ امر ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت اگر درمیان سے نکال دی جائے تو دینِ اسلام کی عمارت دھڑام سے نیچے گر جائے گی اور انسان محض ضلالت و گمراہی کے اندھیروں میں سرگرداں پھرتا رہے گا۔ جیسا کہ گزشتہ فصل میں واضح ہوگیا ہے کہ نبوت و رسالت خود بندے اور خدا کے درمیان واسطے کا نام ہے۔ انبیاء و رسل کی بعثت دراصل اللہ تعالیٰ کا اپنے اور بندے کے درمیان واسطہ مقرر کر دینا ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوۂِ حسنہ خود احکامِ الٰہی کی پیروی کیلئے واسطہ کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلام کے رد و قبول کیلئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس اور حیاتِ طیبہ کو ہی حتمی معیار اور کامل دلیل قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَO
’’بے شک میں اس (قرآن کے اترنے) سے قبل (بھی) تمہارے اندر عمر (کا ایک حصہ) بسر کر چکا ہوں، سو کیا تم عقل نہیں رکھتےo‘‘
يونس، 10 : 16
لہٰذا اللہ تعالیٰ سے تعلقِ محبت و اطاعت اُستوار کرنے کیلئے واسطۂِ رسالت ناگزیر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق اُستوار کرنے کیلئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق ہی واسطہ بنتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے تعلق ہے، یہ تساوی نہیں بلکہ توحید ہے، شرک نہیں بلکہ اشتراک ہے۔ یہ حکمی وحدت منافیء توحید نہیں بلکہ عینِ توحید ہے۔
قرآن و حدیث کی رو سے وسائط نہ صرف یہ کہ کلی و حتمی جواز رکھتے ہیں بلکہ شرعی احکام و فرامین کی تعمیل کے لئے انتہائی ضروری اور ناگزیر ہیں۔ ان میں سے بعض فرض، واجب، سنت مؤکدہ یا سنت غیر موکدہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسائط کی چند معروف اقسام درج ذیل ہیں :
مندرجہ بالا اقسام میں سے صرف ایک آخری قسم واسطۂ تعبد واسطۂِ شرکیہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت خواہ تقرب الٰہی کے لیے کیوں نہ ہو شرک ہے۔ باقی سارے واسطے مختلف جہتوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اور کبھی اولیاء اللہ سے اُستوار ہوتے ہیں۔ جیسے واسطہ ولایت، واسطہ حرمت و تعظیم وغیرہ۔ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوتا ہے جونہی واسطہ کا لفظ آتا ہے تو اسے شرک قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہ سراسر جہالت اور گمراہی ہے۔ دراصل یہ مغالطہ حقوقِ توحید اور حقوقِ رسالت نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ مطلقاً واسطہ کا انکار کر دینا سراسر غلط اور نصِ صریح کا انکار ہے جو انکارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ کفر کی طرف لے جاتا ہے۔
ذیل میں ہم مندرجہ بالا وسائط کی مختصراً وضاحت پیش کرتے ہیں تاکہ ہر ایک کی اہميّت سمجھ میں آجا ئے۔
معرفت باری تعالیٰ اور اتباع و اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایمان ایک بنیادی واسطہ ہے۔ یہ واسطہ ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب رسول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے نصیب ہوا ہے۔ صحیح عقیدۂ توحید تب متحقق ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ پر اس کے رسولوں اور اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، یوم آخرت پر، جنت اور جہنم پر اور اچھی اور بری تقدیر پر کامل ایمان لایا جائے۔
ایمان سب سے بلند عملِ صالح اور عظیم ترین واسطہ اور وسیلہ ہے۔ اس سے کوئی عمل اونچا نہیں کیونکہ عمل خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، جب تک عمل کرنے والے کے اندر مضبوط ایمان نہ ہوگا اس کا عمل بے کار اور لغو و باطل ہو جائے گا یعنی نجاتِ اُخروی اور اعمال کے ہر اجرو ثواب کے لئے اﷲ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لازمی اور مقبول ترین واسطۂ ہے۔
1. اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلَآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُO
’’ (وہ) رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا اور اہلِ ایمان نے بھی، سب ہی (دل سے) اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، (نیز کہتے ہیں : ) ہم اس کے پیغمبروں میں سے کسی کے درمیان بھی (ایمان لانے میں) فرق نہیں کرتے، اور (اﷲ کے حضور) عرض کرتے ہیں : ہم نے (تیرا حکم) سنا اور اطاعت (قبول) کی، اے ہمارے رب! ہم تیری بخشش کے طلبگار ہیں اور (ہم سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہےo‘‘
البقرة، 2 : 285
2۔ پھر سورہ النساء میں ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًاO
’’اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جواس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیاo‘‘
النساء، 4 : 136
3۔ سورۃ الفتح میں عدمِ ایمان کی صورت میں عذاب کی وعید سنائی، ارشاد فرمایا :
وَمَن لَّمْ يُؤْمِن بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ فَإِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ سَعِيرًاO
’’اور جو اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائے تو ہم نے کافروں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہےo‘‘
الفتح، 48 : 13
معلوم ہوا کہ واسطۂِ ایمان کے بغیر کوئی بھی عمل قبول نہیں ہوتا اور نہ اِس کے بغیر قرآن، اِسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت ممکن ہے۔ ایمان جب دل میں سرایت کر جاتا ہے تو زبان اور اعضاء و جوارح سے اس کی برکتوں کا ظہور ہوتا ہے اور بندہ ایسے اعمال بجا لاتا ہے جس سے رضائے الٰہی نصیب ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت تکمیل ایمان کا ضروری تقاضا ہے۔ ازروئے قرآن سچا مؤمن وہ ہے جو اﷲ رب العزت سے سب سے بڑھ کر محبت کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللّهِ أَندَاداً يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللّهِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.
’’اور لوگوں میں بعض ایسے بھی ہیں جو اﷲ کے غیروں کو اﷲ کا شریک ٹھہراتے ہیں اور ان سے ’’اﷲ سے محبت۔ ۔ ۔ ۔‘‘ جیسی محبت کرتے ہیں، اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اﷲ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
البقره، 2 : 165
آیات ربانی اور احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مضمر ہے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت شرط ایمان ہے۔
2۔ ارشادِ ربانی ہے :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’ (اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنالے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اﷲ نہایت بخشنے والا اور مہربان ہےo‘‘
آل عمران، 3 : 31
ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و محبت کے بغیر کوئی شخص کامل مومن ہو جائے، ایں خیال است و محال است و جنوں والی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہر اہلِ ایمان کے لئے سرمایہ ہدایت ہے کہ اگر کوئی مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کو اپنا شعارِ حیات بنائے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو میں اسے اپنا محبوب بنا لوں گا۔
3۔ ایک مقام پر اﷲ تعالیٰ نے واسطۂ محبت کا تذکرہ یوں فرمایا :
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَO
’’ (اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں : اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا حکم (عذاب) لے آئے اور اﷲ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتاo‘‘
التوبه، 9 : 24
اس آیتِ مبارکہ کے آخری حصہ میں تین محبتوں کا ذکر ہے :
ان تینوں محبتوں کو ایک تسلسل میں بیان کیا گیا ہے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور آخر میں نصرت دین کے لئے جہاد سے محبت۔ یہ تینوں محبتیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے تعلق ایمان کے استحکام کے لئے واسطہ ہیں۔
اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے محبت شرک ہوتی تو وہ عبادت کی طرح محبت کو بھی اپنا اختصاصی و امتیازی حق قرار دے دیتا لیکن اس نے کہیں ایسا نہیں فرمایا، بلکہ محبت کے باب میں صراحت کے ساتھ تینوں یعنی اللہ، ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنین کو محبت کا حقدار و سزاوار ٹھہرایا اور فرمایا ہے کہ اگر اہل ایمان میں کوئی مجھ سے محبت کرنا چاہتا ہے تو وہ میرے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا منتہائے مقصود بنا لے، اسے میری محبت حاصل ہو جائے گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ محبت کا حق، عبادت کی طرح صرف اللہ تعالیٰ کا اختصاصی حق نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلِ اﷲ سب کے ساتھ محبت، چاہت اور اپنائیت کے تعلقات و روابط استوار کرنا نہ صرف جائز ہے بلکہ اس تعلق کی استواری کو خلقِ خدا کی ضرورت قرار دیا گیا ہے۔ ذیل میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :
1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اﷲَ تَعَالَی يَقُولُ يَومَ الْقِيَامَةِ : أيْنَ الْمُتَحَابُّونَ بِجَلَالِي؟ اَلْيَوْمَ أظِلُّهُمْ فِي ظِلِّي يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلِّي.
’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا : کہاں ہیں میری عظمت کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرنے والے تاکہ میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں کیونکہ آج میرے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہیں ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب في فضل الحب في اﷲ، 4 : 1988،
رقم : 2566
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 237، رقم : 723، 8436، 8818، 10790، 10923
2۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ أَحَبَِّﷲِ، وَأَبْغَضًِﷲِ، وَأَعْطَیِﷲِ، وَ مَنَعَِﷲِ، فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإِيْمَانَ.
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے لئے محبت کی، اللہ تعالیٰ کے لئے عداوت رکھی، اللہ تعالیٰ کے لئے دیا اور اللہ تعالیٰ کے لئے دینے سے ہاتھ روک لیا پس اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‘‘
1. أبوداود، السنن، کتاب : السنة، باب : الدليل علي زيادة الإيمان ونقصانه 4 :
220،
رقم : 4681
2. حاکم، المستدرک، 2 : 178 رقم : 2694
3. طبراني، المعجم الأوسط، 9 : 41، رقم : 9083
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذَا أَحَبَّ اﷲُ الْعَبْدَ نَادَي جِبْرِيْلَ : إِنَّ اﷲَ يُحِبُّ فُلانًا فَأَحْبِبْهُ. فَيُحِبُّهُ جِبْرِيْلُ، فَيُنَادِي جِبْرِيْلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ : إِنَّ اﷲَ يُحِبُّ فُلاَناً فَأَحِِبُّوهُ، فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ، ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الأرْضِ.
’’جب اﷲ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلا کر حکم فرماتا ہے : اﷲ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تو بھی اس سے محبت کر پس حضرت جبرئیل علیہ السلام اس سے محبت کرتے ہیں۔ پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمانی مخلوق میں اعلان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، پھر آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر زمین والوں (کے دلوں) میں بھی اس کی مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب : بدء الخلق، باب : ذِکرِ المَلاَئِکَةِ، 3 : 1175، رقم
: 3037
2. مسلم، الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : إذا احب اﷲ عبداً، حببه
إلي عباده، 4 : 2030، رقم : 2637
3. مالک، الموطأ، کتاب الشعر، باب : ماجاء في المتحابين في اﷲ، 2 : 953، رقم : 1710
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو محبت کا حکم دیا۔ محبت صحابہ رضی اللہ عنھم و اہل بیت، محبتِ ’’پنج تن پاک‘‘ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت سیدہ فاطمہ، حسنین کریمین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ) محبت اولیاء، محبت اہل اللہ اور محبت صالحین کے بارے متعدد احادیث مبارکہ مروی ہیں، ائمہ حدیث نے کتب احادیث میں الحب فی اللہ کے عنوان سے ابواب قائم کرکے اس موضوع کی احادیث کو جمع کیا ہے۔ جبکہ حدیث قدسی میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا کہ میں ان لوگوں سے محبت کرتا ہوں جو میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ان کی ایک دوسرے سے محبت، تقویٰ اور پرہیزگاری کی بنا پر ہوتی ہے اور ان میں قدر مشترک میری ذات سے محبت ہے۔
لہٰذا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے اہلِ بیت اطہار اور اولیاء و صلحاء کرام سے محبت شرک نہیں کیونکہ اس محبت کی اساس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ محبت پر استوار ہے جو محبت الٰہی کا واسطہ ہے۔
حقیقی اَدب و اِحترام اور اِنتہائی تعظیم کی حق دار و سزاوار صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس عظیم ہستی کی تعظیم و تکریم کا اظہار صرف عبادت کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ عبادت ایک ایسا عمل ہے جو سراسر اللہ بزرگ و برتر کے لئے دل کی گہرائیوں کے ساتھ تعظیم و تکریم اور ادب واحترام کے اعلیٰ ترین درجے سے عبارت ہے۔ کسی اور کے لئے تعظیم اور ادب و احترام کے جتنے بھی درجے ہوسکتے ہیں وہ اس درجے سے کم تر اور فروتر ہوں گے اور ان کی نوعیت بھی عمومی درجے کی ہو گی۔
اَنبیائے کرام، صالحینِ عظام، والدین، شیوخ، اساتذہ یا کسی اور معزز ہستی کی عزت و تو قیر، ان کا ادب و احترام، ان کی فرمان برداری، تعمیلِ ارشاد اور ان سے منسوب اشیاء کی حرمت وتکریم ان کی تعظیم ہے۔ چونکہ یہ عمل درجۂ عبادت یعنی عاجزی و تذلّل اور عجز و انکساری کی آخری حد سے کم تر اور فروتر ہوتا ہے اور اس کی نوعیت بھی عمومی ہوتی ہے اس لئے عبادت کے زمرے میں نہیں آتا اور شرعی حوالے سے یہ ایک جائز امر ہے۔
1. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَ يُوَقِّرْ کَبِيْرَنَا.
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور بڑوں کی عزت نہ کی۔‘‘
ترمذي، السنن، کتاب البر و الصلة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في رحمة الصبيان، 4 : 321، رقم : 21919
اسی طرح چھوٹوں پر رحمت و شفقت اور بڑوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور احترام کا تعلق اسلام کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے۔ حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا، وَيَعْرِفْ شَرَفَ کَبِيْرِنَا.
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی قدر و منزلت نہ پہچانے۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب
ماجاء في رحمة الصبيان، 4 : 322، رقم : 1920
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب في الرحمة، 4 : 286، رقم : 4941
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 222، رقم : 7073
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ تعظیم نہ صرف شرعی واجبات میں سے ہے بلکہ مطلقاً ایسا مطلوب و مقبول عمل ہے جسے ترک کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اُمت سے خارج ہے۔
تعظیم کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ ہم اپنے استاد، بزرگ، والد یا کسی اور معزز ہستی کی تعظیم بجا لاتے ہیں جو بالکل جائز اور صائب عمل ہے جس کی شریعت مطہرہ نے تعلیم و تلقین کی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی کے لئے بھی ایسی تعظیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو عبادت کے درجے کو پہنچ جائے اور نہ ہی کوئی مؤمن شخص عبادت کی نیت سے کسی کی تعظیم کرنے کا تصور کرسکتا ہے۔ تعظیم کے ان دونوں انتہائی درجوں میں تمیز کرنا اور فرق روا رکھنا لازمی ہے۔ اس لیے ہر تعظیم کو عبادت نہیں کہا جا سکتا۔ ایک وحدہ لاشریک ہستی کے لئے بجا لائی جانے والی بلند ترین تعظیم ہی کو عبادت سے موسوم کیا جائے گا۔
صفا و مروہ کے دو پہاڑیوں کو اﷲتعالیٰ نے شعائر قرار دیا۔ ارشاد فرمایا :
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اﷲِ.
’’بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘
البقرة، 2 : 158
2۔ وہ بھیڑ، بکریاں، چھترے، گائے جو جانور بھی حج کے دنوں میں اﷲ کے نام پر ذبح کرنے کے لئے لائے جاتے ہیں شعائر اﷲ ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ.
’’اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ہے۔‘‘
الحج، 22 : 36
قربانی کے یہ جانور بھی اگرچہ عام جانوروں کی طرح ہیں لیکن شعائر اﷲ میں آجانے کی وجہ سے اس کی تعظیم واجب ہو گئی اور وہ عام جانوروں سے ممتاز و مکرم ہوگئے کیونکہ وہ اب وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُم مِّن شَعَائِرِ اللَّهِ کے حکم کا مصداق بن گئے، نسبت نے دونوں میں زمین آسمان کا فرق کر دیا۔ ان کی تعظیم کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ ربانی کی رو سے وہ لوگ جو شعائر اللہ کا کمال درجہ احترام اور تعظیم کرتے ہیں وہ متقی ہیں اور یہ تقویٰ ان کے دلوں کے اندر جاگزیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِO
’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو)o‘‘
الحج، 22 : 32
قرآن و سنت کی بے شمار نصوصِ قطعیہ سے یہ امر ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر اور اذن سے انبیاء و رسل عظام کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل کے ساتھ ساتھ ان کی تعظیم و توقیربھی واجب ہے۔ بالخصوص اللہ تبارک و تعالیٰ نے مالک و مولا اور خالق و بے نیاز ہو کر نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ کے خود آداب سکھائے، اونچا بولنے سے منع کیا اور لاپرواہی سے پکارنے کو حرام ٹھہرایا۔ خلاف ورزی پر تمام اعمال برباد کر دینے اور ساری محنت و کمائی پر پانی پھیر دینے کی وعید سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ، اہلِ بیت اور ازواجِ مطہرات کے مرتبہ و مقام کو ملحوظ رکھنے اور انہیں ایذا پہنچانے سے اجتناب و احتراز کا حکم دیا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے کا ادب اور سلیقہ سکھلایا۔ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرانے کی کیفیتِ خطاب و نداء سے آگاہ فرمایا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلاوے کی اہمیت اور فوری حاضری کے وجوب کو بیان کیا اور تغافل و لا پرواہی کے امکانات کا سد باب کیا۔ قرآن و سنت کی ان تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و رفعت اور بلندی مقام کو ذہن نشین کر لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کما حقہ مستفید ہوسکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم وتوقیر، اطاعت و اتباع اور معیت و محبت کو شرک اور منافیء توحید نہ سمجھنے لگیں۔
کو ئی بھی راسخ العقیدہ مسلمان اللہ تعا لیٰ کے سوا کسی اور کی تعظیم عبادت کی نیت سے ہر گز نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افعال جو بزرگوں کی تعظیم پر مبنی ہوں وہ اسلامی تعلیمات کی تعمیل ہے۔ یہ شرک کے دائرے میں ہرگز نہیں آتے۔ اِس لئے کہ وہ توحید سے کسی طرح بھی متعارض و متصادم نہیں۔ یہ ہر گز شرک نہیں۔
اللہ رب العزت کی ذات ہی انتہائی تعظیم اور عبادت کے لائق ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت شرک ہے لیکن انبیاء علیہم السلام ادب و احترام اور تعظیم و تکریم شرک نہیں بلکہ یہ فرائض دینی میں سے ہے۔ اور شرعاً واجب ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی نسبت کی حرمت بھی واجب اور ایمان کا حصہ ہے۔ توحید کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں کا بھی دل و جان سے احترام و اکرام کیا جائے جو اﷲ رب العزت کو محبوب ہیں۔ اللہ رب العزت کے برگزیدہ بندوں انبیاء علیہم السلام اور ان کی نسبت سے بعض مقدس مقامات و اماکن اور آثار و تبرکات کا دل و جان سے ادب و احترام اور محبت و عقیدت قرآن و سنت کے نصوص سے ثابت ہے۔ مثلاً
واسطۂ تعظیم و حرمت کا جواز متعدد قرآنی آیات سے ثابت ہے اس پر تفصیلی بحث ہم اسی کتاب کی جلد اوّل ’’باب توحید فی التحریمات‘‘ میں کر چکے ہیں۔
اللہ رب العزت نے سورۃ الحج میں شعائر اللہ کی تعظیم اور حرمت کو تقویٰ کا واسطہ قرار دیا، ارشاد فرمایا :
وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِO
’’اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہو گیا ہو۔‘‘
الحج، 22 : 32
قرآن حکیم کی آیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اس حرمت، تحریم اور توقیر و تکریم میں کوئی شرکیہ عنصر نہیں اور نہ یہ غیر اللہ کی عبادت ہے۔ ہم کئی چیزوں کی ازروئے شرع حرمت و تعظیم بجالاتے ہیں مثلاً حرمین شریفین شہر مکہ و مدینہ کا ادب و احترام، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ کی حرمت و تعظیم، قرآن کے مقدس اوراق کا ادب، اسی طرح مسجدوں کے در و دیوار کی تعظیم، پتھروں کی تعظیم الغرض جس مقدس چیز سے جب بھی اﷲ تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ہو گئی ان سب سے ادب و احترام کا تعلق واسطۂِ حرمت ہے جو شرعاً جائز اور ثابت ہے۔ اور یہی واسطہ حصولِ تقویٰ کا باعث بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان اطاعت کا تعلق ایک ایسا واسطہ ہے جس میں حکمی وحدت ہے۔ اس واسطہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا یعنی اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی اطاعتیں ایک ہی ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَO
’’اے ایمان والو! تم اللہ کی اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہوo‘‘
الانفال، 8 : 20
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کی اطاعتوں کا ذکر ہے لیکن روگردانی کو ایک قرار دیا ہے فرمایا : وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ ’’اس سے روگردانی مت کرو‘‘ اگر دونوں اطاعتیں الگ الگ ہوتیں تو ضمیر ’’عنھما‘‘ استعمال ہوتا لیکن عَنْهُ سے پتہ چلا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت ایک ہی ہے۔ اس لئے اس سے روگردانی اور نافرمانی کو بھی ’’عَنْهُ‘‘ کہہ کر ایک ہی روگردانی قرار دیا گیا اسے ’’حکمی وحدت‘‘ کہتے ہیں۔ اس کی مزید تائید اللہ رب العزت کی اس ارشاد گرامی سے ہوتی ہے، فرمایا :
مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًاO
’’جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کاحکم مانا، بیشک اس نے اﷲ (ہی) کا حکم مانا اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجاo‘‘
النساء، 4 : 80
قرآن مجید میں درجنوں مقامات پر اللہ تعالیٰ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا ذکر ’’وَ اَطِيْعُوا اﷲَ وَ اَطِيْعُو الرَّسُوْل‘‘ اور وَمَنْ يُطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ یکجا ہوا ہے جس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ دونوں اطاعتیں ایک ہی ہیں۔ چونکہ آقائے دوجہاں حضور سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی، حق اور باطل کے مابین معیارِ حق اور حدِ فاصل کا درجہ رکھتی ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطۃ الاطاعۃ بنایاگیا۔ احکامِ شریعت پر عمل درآمد اور عبادات کی قبولیت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور طرز عمل کو نمونہ قرار دیا گیا جس پر عمل پیرا ہوئے بغیر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا اور کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں۔ علامہ ابن تیمیہ (661ھ ۔ 278ھ) نے اس موضوع پر بہت عمدہ لکھا ہے، وہ لکھتے ہیں :
و أن جهة حرمة اﷲ تعاليٰ و رسوله جهة واحدة فمن آذي الرسول فقد آذي اﷲ ومن أطاعه فقد أطاع اﷲ لأن الأمة لا يصلون ما بينهم و بين رَبّهم إلا بواسطةِ الرّسول، ليس لأحدٍ منهم طريق غيره ولا سبب سواه.
’’اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کی جہت ایک ہی ہے۔ لہٰذا جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا دی اور جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس لئے کہ امت کے تعلق باللہ کا رشتہ صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ سے استوار ہوسکتا ہے کسی کے پاس بھی اس کے سوا دوسرا کوئی طریقہ یا راستہ نہیں۔‘‘
ابن تيمية، الصارم المسلول : 46
ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے فیض و برکت حاصل کرنے کا ذریعہ سوائے ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کوئی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اُمت کے لئے ناگزیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرائض اور اس کی عنایات و نوازشات کے حصول کا ذریعہ واسطۂ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے لوگوں کو علم و حکمت و ہدایت، راہنمائی میسر آتی ہے اور یہی واسطۃ الاطاعۃ ہے۔
احکامِ شریعت کے بنیادی مآخذ دو ہیں :
قرآن وحی جلی پر مشتمل کلامِ الٰہی ہے جبکہ سنت، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول و فعل پر مشتمل احکامات کا نام ہے جسے وحی خفی قرار دیا گیا ہے۔ دونوں کے احکامات پر عمل کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ جس طرح اللہ رب العزت نے مخلوق کے لئے احکام عطا کئے اسی طرح اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اُمت کے لئے چیزوں کو حلال اور حرام قرار دیا۔ گویا اللہ رب العزت نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کو اپنا حکم قرار دیا۔ ارشاد فرمایا :
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُّبِينًاO
’’اور نہ کسی مومن مرد کو (یہ) حق حاصل ہے اور نہ کسی مومن عورت کو کہ جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کام کا فیصلہ (یا حکم) فرما دیں تو ان کے لئے اپنے (اس) کام میں (کرنے یا نہ کرنے کا) کوئی اختیار ہو، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ یقیناً کھلی گمراہی میں بھٹک گیاo‘‘
الاحزاب، 33 : 36
مذکورہ بالا قرآنی آیت سے یہ امر مترشح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہی ہے۔ کیونکہ اختلافات میں حقیقی فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی فرمانے والا ہے لیکن اس نے اپنے نبیوں کو فیصلہ کا واسطہ اور ذریعہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ اس کا قائم مقام بن کر ان کے درمیان فیصلہ کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کے درمیان حکم یعنی فیصلہ صادر کرنے والا بنا کر بھیجا گیا۔ یہ واسطۂ حکم ہے جس کا استشہاد درج ذیل آیاتِ مقدسہ سے ہوتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
1. فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًاO
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیںo‘‘
النساء، 4 : 65
2. وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَO
’’اور جب ان لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرما دے تو اس وقت ان میں سے ایک گروہ (دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آنے سے) گریزاں ہوتا ہےo‘‘
النور، 24 : 48
3. إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَO
’’ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیںo‘‘
النور، 24 : 51
ان آیات پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت میں تو ان لوگوں کو دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بلایا گیا تھا اور فیصلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمانا تھا لیکن اللہ رب العزت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلاوے اور حکم کی نسبت اپنی طرف فرمائی کہ درحقیقت حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حکمِ الٰہی ہے۔ گویا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم، بارگاہ الٰہی کے لئے واسطہ ہو گیا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکمِ تحلیل و تحریم بھی ایک ہے۔ ارشاد فرمایا :
4. قَاتِلُواْ الَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَلاَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلاَ يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَلاَ يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُواْ الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَO
’’ (اے مسلمانو!) تم اہلِ کتاب میں سے ان لوگوں کے ساتھ (بھی) جنگ کرو جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں نہ یوم آخرت پر اور نہ ان چیزوں کو حرام جانتے ہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور نہ ہی دینِ حق (یعنی اسلام) اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ (حکم اسلام کے سامنے) تابع و مغلوب ہو کر اپنے ہاتھ سے خراج ادا کریںo‘‘
التوبة، 9 : 29
جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت میں ’حکمی وحدت‘ ہے اسی طرح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف فرمائی اور تحریم و تحلیل کا اختیار بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تفویض فرما کر اپنے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان ایک واسطہ اور تعلق قائم کر دیا۔ پس اب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم بھی اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کا اقرار اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کا انکار خارجی وطیرہ ہے۔ جب اللہ رب العزت نے اپنے اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان واسطۂ حکم قائم کیا تو کسی اور کو ان میں کسی قسم کی تفریق کی کوئی اجازت نہیں۔
اللہ رب العزت کی ذات ہر سمت جلوہ گر ہے۔ وہ تمام سمتوں کا خالق ہے۔ اپنی طرف متوجہ کرنے کیلئے وہ کسی خاص سمت کا محتاج نہیں۔ یہ اسی کا فرمان ہے :
وَلِلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللّهِ إِنَّ اللّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌO
’’اور مشرق و مغرب (سب) اﷲ ہی کا ہے، پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی اﷲ کی توجہ ہے (یعنی ہر سمت ہی اﷲ کی ذات جلوہ گر ہے) بیشک اﷲ بڑی وسعت والا سب کچھ جاننے والا ہےo‘‘
البقرة، 2 : 115
اس ارشاد گرامی کے باوجود اس نے اپنی عبادت کے لئے کعبہ کی سمت مقرر کر دی۔ تمام مسلمانانِ عالم بوقتِ نماز کعبہ کی طرف منہ کرکے نیت کرتے ہیں : ’’میں کعبہ کی طرف اپنا چہرہ کرکے اﷲ کے لئے نماز ادا کرتا ہوں۔‘‘ یوں وہ نماز کے دوران توجہ الی الکعبۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ کعبہ رخ ہو کر سجدہ کرنا کعبہ کے لئے نہیں بلکہ رب کعبہ کے لئے ہوتا ہے۔ کعبہ کی سمت منہ کر کے کھڑے ہونا محض واسطۃ التوجہ اور واسطۃ الاستقبال ہے۔ غالب کا شعر ہے :
حدِ ادراک سے پرے ہے اپنا مسجود
قبلہ کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں
اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے اﷲ تعالیٰ نے اپنی اطاعت کے لئے شرط لگا دی کہ واسطۂ رسالت ہو گا تو میں عبادت قبول کروں گا اسی طرح اس نے اپنی عبادت، نماز کی ادائیگی کے لئے توجہ الی الکعبہ کی شرط عائد کر دی کہ اگر عبادت گزار کا چہرہ کعبہ کی طرف ہو گا تو نماز قبول ہو گی ورنہ نہیں۔ کوئی شخص سورۃ البقرہ کی مذکورہ آیت نمبر 115 سے استدلال کرتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کوسنگ و خشت سے بنے ہوئے گھر کی ضرورت نہیں اس کی ذات توہر سمت جلوہ گر ہے لہٰذا میں جس طرف چاہوں رخ کروں۔ وہ سمتوں کا محتاج نہیں۔ بے شک وہ کسی سمت کا محتاج نہیں، ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے۔ تمام سمتوں کا خالق بھی وہی ہے اور تمام سمتیں اسی کے لئے ہیں۔ سمتوں کی محتاج تو مخلوق ہے۔ اگر یہ اس کی مشیت میں ہوتا تو وہ ایسا اہتمام کرسکتا تھا کہ سمت کعبہ کی بجائے مسلمان جس طرف چاہیں رخ کر کے نماز پڑھیں مگر اس پر قادر مطلق ہونے کے باوجود ا س نے واسطۂِ توجہ قائم کیا اور تمام مسلمانوں کو کعبہ کی سمت توجہ کرنے کا حکم دیا، ارشاد فرمایا :
وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلاَّ يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلاَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْهُمْ فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَO
’’اور تم جدھر سے بھی (سفر پر) نکلو اپنا چہرہ (نماز کے وقت) مسجدِ حرام کی طرف پھیر لو، اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو سو اپنے چہرے اسی کی سمت پھیر لیا کرو تاکہ لوگوں کے پاس تم پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہ رہے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں حد سے بڑھنے والے ہیں، پس تم ان سے مت ڈرو مجھ سے ڈرا کرو، اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کردوں اور تاکہ تم کامل ہدایت پاجاؤo‘‘
البقرة، 2 : 150
اب اگر کوئی شخص کعبہ سے رخ ہٹا کر کسی اور سمت ساری زندگی نماز پڑھتا رہے تو ہرگز قبول نہ ہوگی۔
3. اسی طرح جب حجاج دورانِ طواف مقامِ ابراہیم کے پاس اس کی طرف توجہ کرکے نماز پڑھتے ہیں تو ان کا مقامِ ابراہیم کی طرف متوجہ ہونا بھی اﷲ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى.
’’اور (ہم نے حکم دیاکہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنالو۔‘‘
البقرة، 2 : 125
ثابت ہوا کہ اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے لئے سمت کا تعین لازمی قرار دیا ہے، وہ اپنی عبادت بغیر واسطۂِ جہت کے قبول نہیں کرتا۔ فرائض، واجبات، سنن اور نوافل کی ادائیگی کے لئے کعبہ کی طرف اس کی عبادت کی خاطر متوجہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم اس کے بنائے ہوئے ضابطوں کی تعمیل اور تقاضوں کے مطابق ایک خاص سمت اپنا رخ کریں۔ تبھی وہ ہماری عبادت قبول کرے گا۔ اس نے اپنے گھر یعنی کعبہ کو ہمارے اور اپنے درمیان واسطۃ التوجہ بنا دیا ہے اب اس کی طرف رخ کئے بغیر ہماری کوئی عبادت قبول نہیں ہو سکتی، لہٰذا یہ واسطہ ناگزیر ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنا پیغام براہِ راست بغیر واسطہ کے بندوں تک نہیں پہنچایا بلکہ اس نے اپناپیغام بندوں کو پہنچانے کے لئے انبیاء و رسل علیہم السلام کو واسطہ بنایا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بندوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے وہ رسولوں کا محتاج ہے؟ کیا وہ براہِ راست اپنا پیغام نہیں بھیج سکتا؟ اگر وہ بھیج سکتا ہے تو پھر اس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطۃ بین العبد و الرب، واسطۃ بین الخالق و المخلوق اور واسطہ بین العبد و المعبود کیوں بنایا؟ جبکہ وہ براہِ راست ہر ایک کو یہ شعور دینے پر بھی قادر تھا کہ یہ اس کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ خالق ہے، بدیع السمٰوٰت والارض ہے، وہ عدم سے وجود میں لانے پر قادر ہے اور کُنْ فَيَکُوْن کی شان کا مالک ہے :
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ نبی علیہ السلام کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ وہ اُمت کو نماز اور دیگر عبادات کا نمونہ بتا سکے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اﷲ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں کہ وہ نمونہ بھی ان کے ذہن میں القا کر دیتا؟ نماز کے حکم کے ساتھ ہی بتا دیا جاتا کہ نماز کس طرح ادا کرنی ہے۔ لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست شعور دے دیا جاتا۔ وہ تو قادرِ مطلق ہے اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کو بھیجا تو وہ ان کا محتاج نہیں تھا اور یہ بات بھی نہیں کہ اس کے علاوہ اور کوئی صورت ہی نہیں تھی اس لئے انبیاء علیہم السلام کو بھیجنا پڑا۔ وہ چاہتا تو شعور بھی اور نور فہم بھی دے دیتا۔ یہ اس کے لئے کوئی مشکل بات نہیں (فَعَّالٌ لِمَا يُرِيْدَ) اور (عَلَی کُلِّ شَئْیِ قَدِيْر) بھی اسی کی شان ہے، وہ کسی سے بھی پیغام رسانی کا کام لے سکتا تھا لیکن قادر مطلق ہونے کے باوجود اس نے یہ دستور مقرر کیا کہ کبھی اپنا پیغام براہِ راست ہر کس و ناکس کو نہیں پہنچایا۔ اس نے اس کام کے لئے اپنے انبیاء و رسل کو واسطہ اور ذریعہ مقرر کیا جنہوں نے واسطہ وحی سے احکام الٰہی پا کر انہیں آگے لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ سر انجام دیا۔
1. ارشاد باری تعالیٰ ہے :
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا.
’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا۔‘‘
الجمعة، 62 : 2
2۔ براہ راست اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کی بجائے اس نے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقرر کیا ارشاد فرمایا :
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَO
’’اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے، اور اگر آپ نے (ایسا) نہ کیا تو آپ نے اس (رب) کا پیغام پہنچایا ہی نہیں، اور اﷲ (مخالف لوگوں سے آپ (کی جان) کی (خود) حفاظت فرمائے گا۔ بے شک اﷲ کافروں کو راہِ ہدایت نہیں دکھاتاo‘‘
المائدة، 5 : 67
لہٰذا واسطہ مقرر کرنا خود اللہ تعالیٰ کا دستور اور سنت ہے۔ اس کا شرک سے کوئی تعلق نہیں۔
ذاتی، قدیم اور لامتناہی علم کا مالکِ حقیقی اﷲتعالیٰ ہے اور وہی اس پر قادر ہے۔ وہ تنہا اور اکیلا ہی اس صفت کا مالک ہے۔ اس کے سوا کائنات میں کوئی فرد اپنی ذاتی استعداد سے اُمورِ غیبیہ پر مطلع نہیں ہو سکتا۔ رب ذوالجلال اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنے غیب پر مطلع فرما دیتا ہے۔ یعنی انبیاء علیھم السلام کے لئے عطا و اطلاع ثابت و جائز ہے۔ انبیاء و رسلِ عظام علیھم السلام کے واسطۂِ علم کا انکار ضلالت و گمراہی کی طرف لے جاتا ہے کیونکہ اگر انبیاء کرام کو علمِ غیب عطا نہ ہو تو نبوت کا کوئی معنی ہی نہیں رہتا۔ نبوت کا تو معنی ہی غیب پر مطلع ہونا ہے۔ نبی اس ہستی کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ غیب پر مطلع کرے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved