قرآنِ مجید میں کفار و مشرکین کے تصورِ توحید اور وجودِ باری تعالیٰ سے متعلق ان کے عقیدے کے بارے میں ارشاد ہوا :
وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَO اللَّهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌO وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّن نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ مِن بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُولُنَّ اللَّهُ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَO
’’اور اگر آپ اِن (کفّار) سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے تابع فرمان بنا دیا تو وہ ضرور کہہ دیں گے اللہ نے، پھر وہ کدھر الٹے جا رہے ہیںo اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق کشادہ فرما دیتا ہے، اور جس کے لئے (چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہےo اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے اُتارا پھر اس سے زمین کو اس کی مُردنی کے بعد حیات (اور تازگی) بخشی تو وہ ضرور کہہ دیں گے اللہ نے، آپ فرما دیں : ساری تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں، بلکہ ان میں سے اکثر (لوگ) عقل نہیں رکھتےo‘‘
العنکبوت، 29 : 61 - 63
اِن آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ کفار کا عقیدۂ توحید چونکہ خودساختہ اور اِقرارِ رسالت سے خالی ہے اس لیے وہ ایمان نہیں بن سکتا کیونکہ توحید بننے کے لئے واسطۂِ رسالت شرط ہے۔ وہ عقیدہ جو واسطۂِ رسالت سے حاصل ہو وہی ایمان بنتا ہے جیسے سورۂ نجم میں فرمایا :
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىO إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىO
’’اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا ارشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔‘‘
النجم، 53 : 3 - 4
ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کرنے کو کسی ذاتی خواہش سے مبرا قرار دیا اور فرمایا کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زبانِ حق ترجمان سے بیان کرتے ہیں وہ وحی الٰہی ہوتا ہے۔ ان پر جو وحی نازل ہوتی ہے اسے وہ من و عن آگے منتقل (communicate) کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے احکام و پیغام پہنچانے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کو واسطہ بنایا۔ قرآن حکیم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا :
وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ.
’’اور (جو لوگ) اس (کتاب) پر ایمان لائے جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کی گئی ہے اور وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے اﷲ نے ان کے گناہ ان (کے نامۂِ اعمال) سے مٹا دیئے اور ان کا حال سنوار دیا۔‘‘
محمد، 47 : 2
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے لئے ایک معیارِ اِیمان قائم کر دیا وہ یہ کہ جو کچھ اس نے اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا وہی حق ہے اور جو گفتۂِ حق انہوں نے اپنی زبان سے بیان کر دیا ’’وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ‘‘ (وہی ان کے رب کی جانب سے حق ہے) اور حق بات کے سوا اور کچھ نہیں جس پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے کہ زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوائے وحی الٰہی کے اور کوئی بات صادر نہیں ہوئی۔
جس طرح ہدات پانے کے لئے واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت ہے اسی طرح ہدایت پر قائم رہنے اور استقامت حاصل کرنے کے لئے بھی بارگاہِ اُلوہیت میں صرف ایک واسطہ اور ذریعہ ہے اور وہ ہے واسطۂِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اللہ تعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں ارشاد فرمایا :
وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ وَأَنتُمْ تُتْلَى عَلَيْكُمْ آيَاتُ اللّهِ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ وَمَن يَعْتَصِم بِاللّهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍO
’’اور تم (اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 101
یہ آیتِ کریمہ بھی توسُّط پر دلالت کرتی ہے۔ وَفِيكُمْ رَسُولُهُ کے الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایسا واسطہ اور ذریعہ ہیں جس کی وجہ سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ لوگوں کو کفر کی تاریکیوں سے نکال کر راہِ ہدایت کی روشنی عطا فرماتا ہے۔ جبکہ وَكَيْفَ تَكْفُرُونَ سے مزید وضاحت ہوتی ہے کہ کفر کی طرف پلٹ کرنہ جانا بھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ اور واسطہ سے ہے۔ یعنی ہدایت بھی اگر ملتی ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے اور اس ہدایت پر استقامت بھی اگر ملتی ہے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے۔ اللہ تعالیٰ قادر و قیوم ہے۔ وہ براہِ راست ہدایت دے سکتا ہے مگر جب وہ خود فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطہ اور وسیلہ سے ہمیں ہدایت پر قائم رکھے گا تو اس سے ہمارے لئے یہی ثابت ہوا کہ واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہمارے لئے دین و دنیا میں ڈھال ہے۔ دنیا میں کفر کے ارتکاب سے اور آخرت میں عذابِ جہنم سے۔
سورۂ انفال میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَO
’’اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے در آنحالیکہ (اے حبیبِ مکرم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘‘
الانفال، 8 : 33
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے امت سے عذاب ٹال دینے کی دو وجوہات بیان فرمائیں :
سب سے پہلے امت کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کو عذاب سے ڈھال قرار دیا۔ اس کے بعد اپنے حضور طلبِ مغفرت کو عذاب ٹلنے کا سبب فرمایا۔ بارگاہِ اُلوہیت میں طلبِ مغفرت سے بھی مقدم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ بیان کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جب تک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں ان کے وسیلہ سے امت پہ عذاب نہیں آسکتا۔ بعض لوگ اس سے ظاہری حیاتِ طیبہ مراد لیتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ درست نہیں۔ یہاں بالکل ایسی کوئی بات نہیں کہ ظاہری حیاتِ مبارکہ میں تو توسُّل جائز ہو اور بعد از ممات ناجائز ہو جائے بلکہ یہاں مطلقاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کا ذکر ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت قیامت تک قائم ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ اور وسیلہ بھی حیات ظاہری کی طرح اب بھی جائز ہے۔
تمام عباداتِ الہٰیہ کا مقصد حصولِ تقویٰ ہے، جیسے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضيّت کا مقصد بیان فرمایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَO
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤo‘‘
البقره، 2 : 183
لیکن یہ تقویٰ کیسے حاصل ہو؟ انسان کیسے متقی بن سکتا ہے؟ اگر تقویٰ تمام نیکیوں کی اصل ہے تو اس سے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ذہن سے اٹھنے والے ایسے سوالات کا جواب ہمیں قرآن حکیم کی اس ایک آیت سے مل جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَO
’’اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ ہی تو متقی ہیںo‘‘
الزمر، 39 : 33
اس آیتِ کریمہ کی تشریح کرتے ہوئے اکثر مفسرین نے بالاتفاق اَلَّذِيْ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی مراد لی ہے۔ یہاں بطورِ استشہاد چند اقوال پیشِ کیے جاتے ہیں۔
1. علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں ’’وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ‘‘ کے تحت مجاہد، قتادہ، ربیع بن انس اور ابنِ زید سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ هو رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
’’وہ ذات جو صدق لے کر آئی اس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 54
2۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسی طرح توضیح فرمائی ہے۔
﴿وَالَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ﴾ النبي صلي الله عليه وآله وسلم ﴿وَصَدَّقَ بِه﴾ أبو بکر رضي الله عنه.
’’یعنی اَلَّذِيْ سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صَدَّقَ بہ سے مراد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘
سيوطی، الدر المنثور، 7 : 288
اہلِ علم جانتے ہیں کہ’’اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘ کلمۂ حصر ہے، قرآن حکیم تقویٰ کے مفہوم کو متعین کرنے کے بعد ان کلمات کو بطورِ حصر لا کر میعارِ تقویٰ کو واضح کرتے ہوئے یہاں ایک شرط لگا رہا ہے، جس کو پورا کئے بغیر کوئی شخص بھی تقویٰ کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ جو اس شرط کو پورا کرے گا وہی متقی ہو گا اور جو اس معیار پر پورا نہ اترے وہ اگر عبادت و ریاضت کے پہاڑ بھی اپنے کندھوں پر اٹھاتا پھرے، متقی نہیں بن سکتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کونسی شرط ہے جس پر تقویٰ کا انحصار ہے ارشاد فرمایاگیا : الَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ، وہ ذاتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سچائی لے کرآئی اور جس نے اس سچائی کی تصدیق کی، أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ، وہی متقی ہیں۔ جیسا کہ اوپر تفصیلاً ذکر ہوچکا کہ اس آیت کے پہلے حصے سے مراد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ’’أُوْلَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ‘‘ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل ہیں کیونکہ نبی خود بدرجہ اولیٰ اپنی نبوت کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے۔ تفاسیر میں اس آیت کے تحت اس کی بھی وضاحت ملتی ہے مثلاً تفسیر روح البیان میں ہے۔
ودَلت الاٰية علي انّ النبي عليه السلام يصدق أيضاً بما جاء به من عند اﷲ ويتلقاه بالقبول کما قال اﷲتعالي : ’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَيْهِ مِنْ رَّبِّه. (البقره، 2 : 285)
’’یہ آیتِ کریمہ اس بات کی شاہد ہے کہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس حقیقت کی تصدیق کرنے والوں میں سے ہیں، جو انہیں اﷲتعالیٰ کی طرف سے مرحمت فرمائی گئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی (دوسروں کی طرح) اس پرایمان لائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ (وہ) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ایمان لائے (یعنی اس کی تصدیق کی) جو کچھ ان پر ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا۔‘‘
إسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 8 : 108
مگر توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو متقی کہنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال کا اظہار ہے؟ آیتِ مبارکہ کا مدعا یہاں ہرگز یہ نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذآتِ بابرکات تو متقی گر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تقویٰ کی دولت تقسیم فرماتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقویٰ کی وہ بنیاد لے کر زینت آراء بزمِ کون و مکاں ہوئے جس سے خود تقویٰ کو وجود ملا۔ لہٰذا یہاں بات اُس شخص کی ہو رہی ہے جو اس سچائی کو بہ دل و جان تسلیم کرے گا اور اس کی تصدیق کرے گا۔
اب لفظِ صدق پر غور کرنے سے اس شرط کی نوعیت اور ضرورت مزید واضح ہوجائے گی۔ تصدیق عربی لفظ ’’صَدَقَ‘‘ سے باب تفعیل کے وزن پر ہے۔ اس کے معنٰی ’’دل کی گہرائیوں سے کسی چیز کو تسلیم کرلینے اور مان لینے کے ہیں۔ مفردات غریب القرآن، میں امام راغب رحمۃ اللہ علیہ نے صدق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے :
الصِّدْقُ مُطابقةُ القَوْل الضمير والمخبرعنه معا. ومتٰي انحرم شرط من ذالک لم يکن صِدْقًا تاما.
’’صدق کے معنی ہیں دل و زبان کی ہم آہنگی اور بات کا نفسِ واقع کے مطابق ہونا اور اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو کامل صدق باقی نہیں رہتا۔‘‘
راغب الأصفهانی، المفردات فی غریب القرآن : 277
لہٰذا، اس سچائی کو اس حیثیت سے ماننا ہی حقِ تقویٰ ہے۔ بالکل اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے ایک دوسرے مقام پر واضح کیا اور تقویٰ کو تصدیق کرنے والوں کے ساتھ مختص کرتے ہوئے فرمایا :
أُولَـئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَـئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَO
’’یہی لوگ سچے ہیں اور یہی پرہیزگار ہیںo‘‘
البقره، 2 : 177
توضیحات بالاسے یہ واضح ہوا کہ آیتِ متذکرہ میں اﷲتعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ جن افراد نے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی سچائی کی بلا تامل تصدیق کر دی وہی صحیح معنوں میں متقی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں بزرگی پائے ہوئے ہیں یہی وہ شرط ہے جو تقویٰ کے لئے ضروری ہے۔ معلوم ہوا حصولِ تقویٰ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اور ان پر ایمان بنیادی چیز ہے۔
تقویٰ کا ماحصل رضائے الہٰی کا حصول ہے اور یہی انسانی زندگی کا نصب العین ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کے بغیر انسان کو اس کا قرب و رضا میسر نہیں آسکتا۔ قرآن مومنین کی علامت بیان کرتے ہوئے یہ شہادت فراہم کررہا ہے کہ
وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلّهِ.
’’اور جو لوگ ایمان والے ہیں وہ (ہر ایک سے بڑھ کر) اللہ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے ہیں۔‘‘
البقره، 2 : 165
لیکن کیا قرآن اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنے کا طریقہ یا راستہ بھی بتاتا ہے یعنی کوئی آدمی اگر اﷲ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہے تو اس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے؟ قربان جائیں قرآن کی عظمت پر جو قدم قدم پر انسان کی رہنمائی کرتا ہے، فرمایا :
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌO
’’ (اے حبیب!) آپ فرما دیں : اگر تم اﷲ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اﷲ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لئے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
آلِ عمران، 3 : 31
اس آیتِ کریمہ سے بے شمار مفاہیم اور حکمتیں مترشح ہیں لیکن یہاں سرِدست یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
کیا یہ سب رفعتیں، عظمتیں اور بندہ نوازیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حبی تعلق اور توسط کا ثمر نہیں ہیں؟ یقیناً ہیں۔
محبتِ الٰہی بندے سے اطاعتِ الٰہی کا تقاضا کرتی ہے۔ تقویٰ کے عمومی تصور کے مطابق اگر دیکھا جائے تو اﷲتعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری ہی تقویٰ ہے۔ قرآنِ حکیم نے متعدد مقامات پر اطاعتِ الہٰی کی تلقین فرمائی ہے اور اس کو کامیابی کی شرط قرار دیا ہے۔
1. اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ.
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘
النساء، 4 : 64
اس آیتِ کریمہ میں رسولوں کی بعثت کا سبب بیان کیا گیا ہے جو سوائے اس کے کچھ نہیں کہ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ تاکہ اللہ کے حکم سے جو کچھ وہ کہیں اسے مانا جائے اور قبول کیا جائے اور ان کی اطاعت کی جائے۔ اس آیتِ کریمہ میں اس تصور کو ذہن میں راسخ کیا گیا ہے کہ نبی اور رسول علیہم السلام ہی اللہ تعالیٰ کی بات انسانوں تک پہنچانے کیلئے درمیانی واسطہ اور ذریعہ مقرر کئے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا حکم اس کے اذن سے لوگوں تک پہنچائیں اور وہ جو کہیں اس کو سچ مانا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کیونکہ وہی حق ہے۔ رسولوں کی جماعت اللہ کو جاننے، ماننے اور ایمان لانے کا واحد ذریعہ (Source) ہے، گویا توحید اور ایمان باللہ کا تحقق صرف اور صرف نبوت و رسالت کے واسطے سے ہوتا ہے۔
2. وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَO
’’اور اللہ کی اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘
آل عمران، 3 : 132
3. وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُO
’’اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرے اسے وہ بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہیں۔ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ بڑی کامیابی ہےo‘‘
النساء، 4 : 13
4. وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَO
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہے پس ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیںo‘‘
النور، 24 : 52
5. وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًاO
’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کرتا ہے تو بیشک وہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہواo‘‘
الاحزآب، 33 : 71
مندرجہ بالا آیات بینات سے جہاں اﷲ تعالیٰ کے مطلق اطاعت کی فرضيّت واضح ہو رہی ہے وہاں ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کا بھی ذکر ہے اور کامیابی تب ممکن ہے جب دونوں اطاعتیں مکمل ہوں۔
ایک اور آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اس سے بھی واضح الفاظ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو ہی اپنی اطاعت قرار دیا ہے، ارشاد فرمایا :
مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ.
’’جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
النساء، 4 : 80
یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ بتایا گیا کہ ان کی اطاعت کی جائے اور ان کی بات کو مانا جائے تبھی ایمان نصیب ہوتا ہے۔ اس کے بعد خصوصی طور پر اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ مَّنْ يُطِعِ الرَّسُولَ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی یا جو کوئی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے فَقَدْ أَطَاعَ اللّهَ اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اس آیتِ مبارکہ نے ایک بڑی قرآنی حقیقت (Quranic fact) کو یہ کہہ کر متحقق کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا بلاواسطہ ذریعہ سوائے واسطۂِ رسالت کے اور کوئی نہیں ہے۔
یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو تو یہ سمجھ کر کیا کرو کہ ہم صرف رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت نہیں کرتے، بلکہ یہی اطاعت اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کا تصور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے بغیر محض ایک مجرد خیال (Abstract idea) رہ جاتا ہے۔ اس لیے کہ اﷲ عزوجل پیکرِ محسوس نہیں ہے۔ نہ تو اس کی بات کسی کو سنائی دیتی ہے اور نہ اﷲتعالیٰ کا فعل کسی کو دکھائی دیتا ہے۔ اس صورت میں اﷲ تعالیٰ کے اس حکم (اطاعت) پر عمل اسی طرح ہوسکتا ہے کہ بس اسی طرح آنکھیں بند کرکے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و غلامی کی جائے یہ جانتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت عین اطاعتِ الٰہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت و سرکشی اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے بغاوت و سرکشی ہے۔ حدیثِ صحیح کے الفاظ اس حقیقت کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
فَمَنْ أطَاعَ مُحَمَّدًا صلي الله عليه وآله وسلم فَقَدْ أطَاعَ اﷲَ وَمَنْ عَصٰي مُحَمَّدًا صلي الله عليه وآله وسلم فَقَدْ عَصَي اﷲَ وَمُحَمَّدٌ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ.
’’جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کی تو بے شک اس نے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی تو بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی (اچھے اور برے) لوگوں کے درمیان معیارِ امتیاز ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب اقتداء بسنن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 6 : 2655، رقم : 6852
حکیم الاُمت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بڑے اچھوتے اور خاص انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و پیروی کو ذاتِ الٰہی تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
عاشقی! محکم شو اَز تقیلدِ یار (ص)
تاکمندِ تو شود یزداں شکار
(اے خدا سے عشق و محبت کا دعویٰ کرنے والے! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رابطہ و غلامی اور اطاعت کے رشتے میں پختگی پیدا کر، تاکہ ان کی غلامی کے ذریعے تیری کمندِ عشق بارگاہِ خداوندی تک پہنچ سکے۔)
قرآنِ مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے وابستگی پر اَجر و ثواب کا ذکر ہوا ہے جبکہ درِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جبیں ہائے نیاز نہ جھکانے والوں اور بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمداً دوری اختیار کرنے والوں کی مذمت میں ارشاد فرمایا گیا :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاO
’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف آ جاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیںo‘‘
النساء، 4 : 61
یعنی جب لوگوں کو اﷲ تعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبتِ غلامی استوار کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے تو ان میں منافق لوگ بارگاہِ اُلوہیت میں جانے سے تو انکار نہیں کرتے، وہ اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو حق تسلیم کرتے ہیں لیکن ’’يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا‘‘صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آنے سے اعراض اور پس و پیش کرتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے ان کے گلے میں منافقت کا طوق پہنا دیا گیا ہے۔
اس آیت میں مسلمان اور منافق کی پہچان کا کلیہ اور قاعدہ متعيّن فرما دیا۔ بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھاگنے والے اگر بارگاہِ اُلوہیت میں جانا چاہیں تو یہ ناممکن ہے کیونکہ :
تیرے در سے جو یار پھرتے ہیں
در بدر یونہی خوار پھرتے ہیں!
لیکن جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آجائے وہ خود بخود اﷲتعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچ جاتا ہے کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ تو ہے ہی اﷲتعالیٰ کی بارگاہ۔
قبل ازیں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہیں۔ اس واسطہ سے انحراف برتتے ہوئے ذاتِ خداوندی تک رسائی ہرگز ممکن نہیں۔ اﷲتعالیٰ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے پھرنے والوں کو اسی لیے تو منافق گردانتا ہے کہ وہ اس ذات کے واسطے کو فراموش کرکے اﷲ تعالیٰ سے ڈائریکٹ تعلق بحال کرنا چاہتے ہیں۔ جس نے انہیں اﷲ تعالیٰ کی خبر دی اور اس کی واحدانیت اور شانِ خالقیت سے متعارف کرایا اس کے ساتھ تعلق قائم کرنا اگر توحید کے منافی ہے تو پھر ایسے لوگوں کو اپنے ایمان اور اسلام کی فکر کرنی چاہیئے۔
اﷲ رب العزت ان کے اس زعمِ باطل کو رد کر دیا کہ نہیں محبوب! جو تیری بارگاہ میں جھکنے سے گریزاں ہے وہ میری بارگاہ میں روزانہ سجدے کرتا پھرے، ساری ساری رات عبادت کرتا رہے اور شب و روز ریاضتیں، مجاہدے اور تسبیحات کرتا رہے اور پوری زندگی دین کے نام پر ختم کردے، اس کا وہ دین دین نہیں جس میں تیری نسبت و تعلق اور واسطے کاسبق نہ ہو۔ ان کی عبادتیں عبادت نہیں جو تیری محبت سے خالی ہوں۔ اور ان کی شب بیداریوں کا کوئی فائدہ نہیں جو تیری یاد میں آنکھوں کو اشکوں سے باوضو نہ رکھیں۔ یعنی جب تک وہ تیری بارگاہ میں سرِ تسلیم خم نہیں کرتے، ان کا شجرِ ایمان بے ثمر رہے گا۔ ان کی نیکیوں کی قیمت بھی تیری غلامی کی تصدیق سے پڑے گی۔ یہاں تک کہ وہ اگر اپنے گناہوں کی معافی بھی براہِ راست مجھ سے مانگیں گے تو اس وقت تک انہیں نہیں بخشوں گا، جب تک وہ تجھ سے غلامی کا رشتہ استوار نہ کرلیں۔ اس کی گواہی قرآن دے رہا ہے۔ ارشاد فرمایا گیا :
وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَآؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ اللّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ اللّهَ تَوَّابًا رَّحِيمًاO
’’اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘
النساء، 4 : 64
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مومنوں کو ان کے گناہوں اور لغزشوں کی مغفرت کے لئے بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واسطہ بنانے کا حکم دیا ہے۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں لفظ ’’جَآؤُوكَ‘‘ کے ذریعے یہ واضح کردیا گیا کہ بارگاہِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک لائقِ تعظیم و تکریم ہے۔ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے خطاکاروں کو آج بھی معافی اسی در سے تعلق اور واسطہ استوار کرنے سے ملتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس کایقین رکھتے ہوں۔ جو بھی دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوگا، خواہ وہ ظاہراً بارگاۂِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاضری میں ہو یا باطناً، محبت و عشق رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ہو، یااطاعت و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے توسلاً اور توجہاً، سب صورتیں ’’جَآؤُوكَ‘‘ کے تحت واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعبیریں ہیں کیونکہ
یہ گھر یہ دَر ہے اس کا جو گھر در سے پاک ہے
مژدہ ہو بے گھرو کہ صلا اچھے گھر کی ہے!
مجرم بلائے، آتے ہیں ’’جَآؤُوكَ‘‘ ہے گواہ
پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے
یہ آیتِ کریمہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری تک محدود نہیں بلکہ بعد از وصال بھی اس کا حکم اسی طرح باقی ہے جس طرح ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھا۔ مفسرینِ کرام اور ائمہ حدیث نے اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ (اس کی تفصیل ہماری کتاب عقیدۂ توسّل میں ملاحظہ کریں۔)
یاد رہے کہ اس آیتِ کریمہ میں ظلم سے مراد گناہ، نافرمانی اور اﷲتعالیٰ سے سرکشی ہے۔ ظاہر ہے یہ اﷲتعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہیں گویا مرادی معنی یہ ہوا کہ اگر لوگ اﷲتعالیٰ کو ناراض کردیں تو معافی کے لئے تیرے پاس آئیں۔ یہاں قابلِ غور بات یہ ہے کہ جس کو ناراض کیاگیا اب راضی کرنے بھی اس کی بارگاہ میں جانا چاہیے مثلاً اگر کوئی زید کو ناراض کردے اور معافی مانگنے کے لئے بکر کے پاس چلا جائے تو کیا زید اس کو معاف کردے گا؟ ہر گز نہیں۔ لیکن اُس دنیائے محبت کے تواصول و قواعدی ہی نرالے ہیں فرمایا ’’جَآؤُوكَ‘‘محبوب! اگر وہ مجھ سے اپنے گناہوں کی بخشش کے طلب گارہیں تو تیرے پاس آئیں اور پھر فرمایا فَاسْتَغْفَرُوا اﷲَ جب آجائیں تو پھر اﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں۔
یہاں کوئی سوچ سکتا تھا کہ باری تعالیٰ اگر معافی ہی لینی تھی تو وہ گھر بھی مانگی جاسکتی تھی۔ وہ کسی مسجد میں بھی تجھ سے طلب کی جاسکتی تھی، بلکہ خانہ کعبہ اور مسجدِ حرام سے بڑھ کر اور کون سا مقام ہوگا۔ لیکن تو نے اس رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پابندی کیوں لگائی؟ حالانکہ تو تو ہر جگہ اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے کیونکہ تو نے خود ہی تو فرمایا ہے :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَO
’’اور (اے حبیب!) جب میرے بندے آپ سے میری نسبت سوال کریں تو (بتا دیا کریں کہ) میں نزدیک ہوں، میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میری فرمانبرداری اختیار کریں اور مجھ پر پختہ یقین رکھیں تاکہ وہ راہِ (مراد) پاجائیںo‘‘
پھر تیرا یہ بھی فرمان ہے کہ :
البقره، 2 : 186
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِO
’’ اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیںo‘‘
ق، 50 : 16
اس کے باوجود معافی کے لئے گناہگاروں کو اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دَر پر کیوں بلاتا ہے؟ تو فرمایا تمہیں یہی سبق سکھانا مطلوب تھا کہ :
بخدا خدا کا یہی ہے در، نہیں اور کوئی مفر مقر!
جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں تو وہاں نہیں
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved