ذیل میں ہم بالترتیب ان تمام مراحل اور ان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ جلیلہ کی مرکزی حیثیت کا بالاختصار تذکرہ کر رہے ہیں۔
قرآن و حدیث اور ان کی تشریحات و توضیحات کا تمام ذخیرہ چھان لیں ہمیں از اوّل تا آخر ایک ہستی، ایک ذات اور ایک شخصیت دکھائی دیتی ہے جو اس پوری بزم کون و مکان میں محبوبیت عظمیٰ کے مقام پر فائز ہے اور وہ ہے۔ ۔ ۔ ہمارے آقائے نامدار حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس۔ ۔ ۔ تمام خلق میں کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کیسے ہوتا کہ خالق نے تواس عالم و ارض و سماء میں جن و انس اور موت وحیات کا نظام بنایا ہی اسی کے لیے ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ قدسی کا مضمون ملاحظہ کریں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وعزتي و جلالي لولاک ما خلقت الجنّة ولولاک ما خلقت الدّنيا.
’’میری عزت و عظمت کی قسم، اگر میں آپ کو پیدا نہ کرتا تو جنت کو بھی پیدا نہ کرتا اور اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو پھر دنیا کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 5 : 227، رقم : 8031
ایک اور حدیث جسے کثیر ائمہ و محدثین نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :
لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأفْلَاکَ.
’’محبوب! اگر آپ کو پیدا نہ کرتا تو کائنات ہست و بود کو بھی وجود میں نہ لاتا۔‘‘
1. عجلوني، کشف الخفاء، 2 : 214، رقم : 2123
2. آلوسي، تفسير روح المعاني، 1 : 51
معروف مفسر امام آلوسی رحمۃ اللہ علیہ (م 1270ھ) نے تفسیر روح المعانی میں حقیقت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان میں اس حدیث کو بیان کیا ہے پھر اسی روایت کو سورۃ الفتح کی آیت إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا میں ’’لَكَ‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے :
أن لام (لَکَ) للتعليل و حاصله أظهرنا العالم لأجلک و هو في معني ما يرونه من قوله سبحانه (لولاک لولاک ما خلقت الأفلاک).
’’(لَکَ) میں لام تعلیل کے لئے ہے، حاصل کلام یہ ہے کہ ہم نے عالم کو آپ کی خاطر ظاہر کیا، اس کا یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں بیان ہوا ہے کہ (اے حبیب! اگر آپ نہ ہوتے تو میں اس کائنات کو پیدا نہ کرتا۔‘‘
آلوسي، تفسير روح المعاني، 26 : 129
معلوم ہوا کہ مفسرین اور دیگر ائمہ نے اس روایت پر اعتماد کیا ہے۔ الفاظ میں فرق تو ہوسکتا ہے لیکن معناً یہ روایت بالکل درست ہے، نور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اوّلیت تخلیق کے حوالے سے ذخیرۂ کتب احادیث میں کئی روایات ملتی ہیں۔ علامہ عجلونی (1162ھ) نے مذکورہ بالا روایت کے بارے میں لکھا ہے۔
و أقول لکن معناه صحيح و إن لم يکن حديثا.
’’میں کہتا ہوں کہ اگر یہ حدیث نہ بھی ہو تو بھی یہ روایت معنًا صحیح ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تخلیق کے باب میں یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ ائمۂِ عقائد کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کی (تخلیق کے اعتبار سے پوری کائنات پر) حقیقی اوّلیت ہر قسم کے شک و شبہ اور اختلاف سے بالاتر ہے۔
عجلوني، کشف الخفاء، 2 : 214، رقم : 3123
وہ ائمہ جو عقائد میں سند کا درجہ رکھتے ہیں جن کی عمریں توحید اور شرک کا صحیح مفہوم سمجھانے میں صرف ہوئیں وہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے پہلے تخلیق کیا گیا انہی ائمہ میں سے ایک امام ابو الحسن اشعری ہیں جو عقائد میں امام علی الاطلاق ہیں، حدیث نور کی شرح میں فرماتے ہیں :
اﷲ تعالي نور، کالأنوار، والرّوح النّبوية القدسية لمعة من نوره والملئکة شرر تلک الأنوار، وقال صلي الله عليه وآله وسلم أوّل ما خلق اﷲ نوري ومن نوري خلق کل شئ.
’’اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحِ مقدّسہ اسی نور کی ایک چمک ہے اور فرشتے انہی انوار کا پرتو ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میرا نور پیدا کیا اور باقی ہر چیز میرے نور سے پیدا کی۔‘‘
فاسي، مطالع المسّرات : 265
ائمہ کاملین اور اجل محدثین و مفسرین کرام نے تخلیقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مروی احادیث کو قبول کر کے اپنی گراں قدر تصانیف میں جگہ دی ہے اور پھر ان کی تشریح و تعبیر کر کے یہ ثابت کیا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام مخلوقات سے نہ صرف افضل و برتر ہیں بلکہ وجہ تخلیقِ کائنات بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں یعنی کائنات کو وجود میں لانے کا واسطہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے، بقول مولانا ظفر علی خان
گر ارض و سما کی محفل میں لَولَاکَ لَمَا کا شور نہ ہو
یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں یہ نور نہ ہو سیاروں میں
مولانا ظفر علی خان
تخلیقِ کائنات میں واسطۂِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نعتیہ شعر میں اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
احمد رضا خان، حدائق بخشش، 1 : 62
عالمِ اَرواح میں جب تمام اَنبیاء کرام کو خلعتِ نبوت سے مشرف فرمایا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے نہ صرف واسطۂ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت و افادیت بیان فرمائی بلکہ اس واسطۂ عظمیٰ کو ہی نبوت و رسالت کے مناصبِ جلیلہ کی تفویض کا ذریعہ قرار دیا۔ اِرشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَO
’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا : کیا تم نے اقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا : ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo‘‘
القران، آل عمران، 3 : 81
اللہ تعالیٰ جب تمام پیغمبروں سے مناصبِ نبوت و رسالت کا حلف لے رہا تھا تو اس مجلسِ جلالت و مرتبت اور علو شان کا عالم کیا ہوگا؟ اس کا اندازہ انسانی عقل و شعور کی حدِ ادراک سے باہر ہے۔ لیکن ہماری عقلِ ناقص اس اُلوہی مجلس کی عظمت و شان کے ایک پہلو کا یوں اندازہ لگا سکتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ارواحِ انبیاء و رسل علیہم السلام کے اس مقدّس اجماع میں اپنی شان کے لائق اپنے رسولِ اعظم و آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قدر و منزلت کا اظہار فرمایا۔ اسی قدر و منزلت کے اظہار کا ایک اہم پہلو یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کی شرط عائد فرما کر انبیاء و رسل علیہم السلام کو اس واسطہ کی اہمیت باور کروائی۔ اس مجلس میں بڑے اِہتمام سے اس حلف کے ساتھ ساتھ ان انبیاء کو بطورِ خاص بتایا گیا کہ تمہیں نبوت و رسالت کی عظیم نعمت اور جلیل القدر منصب دیا جا رہا ہے اس شرط کے ساتھ کہ تم میں سے ہر ایک کی رسالت و نبوت بالواسطہ میرے محبوب خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چراغِ نبوت و رسالت سے مستنیر اور مستفیض ہو گی۔
چنانچہ کسی نبی علیہ السلام کو بھی عالمِ ارواح میں اس وقت تک نبوت عطا کی گئی، نہ کسی رسول علیہ السلام کو شعور رسالت سے بہرہ ور کیا گیا۔ جب تک کہ اسے نبوت و رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شعور نہیں دے دیا گیا بلکہ ہر نبی کو نبوت و رسالت کے اقرار و اِدراک سے بھی پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کرایا گیا۔
اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ہر نبی کو پہلے نبوتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا ضروری تھا، اور اس ایمان لانے کے توسُّل اور توسُّط کے طفیل حضراتِ انبیاء علیہم السلام کو منصبِ نبوت پر فائز کیا گیا۔ اسی لئے امام بوصیری رحمہ اﷲ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحر جود و سخا سے انبیاء علیہم السلام بھی دامنِ مراد بھرتے ہیں :
وَکُلُّهْمْ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ مُلْتَمِسٌ
غَرْفًا مِنَ الْبَحْرِ اَوْ رَشْفًا مِنَ الدِّيَم
(تمام انبیاء علیہم السلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحرِ کرم و عطا اور ابر رحمت سے چلو بھر یا مانندِ قطرۂِ آب کے خواستگار ہیں۔)
بوصيري، قصيدة بردة
اس واسطۂِ عظمیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کر کے ہی انبیائے کرام علیہم السلام میں سے ہر ایک اپنی اپنی نبوت سے سرفراز ہوئے۔ انہیں یہ نعمتِ رسالت عمومی حیثیت سے نہیں ملی تھی بلکہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایانِ شان تمام ارواحِ انبیاء کرام علیہم السلام کی مجلس منعقد فرمائی اور سب سے وعدہ لے کر نہ صرف انہیں ایک دوسرے کا شاہد بنایا بلکہ خود کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے گواہوں میں شامل ہونے کا اعلان فرما دیا۔
عالمِ دنیا میں جب اللہ پاک نے اشرف المخلوقات یعنی انسان کی تخلیق کا آغاز فرمایا تو سیدنا آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا کیا، پھر انہیں مسجودِ ملائکہ بنایا اور انہیں حقائقِ اشیاء کا علم عطا فرما کر فرشتوں پر فضیلت عطا کی۔ الغرض اللہ تعالیٰ نے اس برگزیدہ بشر اول کو نبوت کی نعمت سے سرفراز فرما کر آپ کو جنت میں ٹھہرایا۔ وہاں قدرت کی طرف سے آپ کو ایک امتحان میں ڈالا گیا جس کے نتیجے کے طور آپ کو جنت سے زمین پر اتار دیا گیا، یہ سارے واقعات قرآن حکیم میں بالتفصیل بیان ہوئے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی پھر اس کو معاف کیا گیا لیکن یہ معافی انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ جلیلہ کے طفیل نصیت ہوئی۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألک بحق محمد لما غفرت لي، فقال اﷲ : يا آدم، و کيف عرفت محمداً ولم أخلقه؟ قال : يا رب لأنک لما خلقتني بيدک، و نفخت فيَّ من روحک، رفعت رأسي فرأيت علي قوائم العرش مکتوبًا : لا إله إلا اﷲ محمد رسول اﷲ، فعلمت أنک لم تضف إلي اسمک إلا أحبّ الخلق إليک، فقال اﷲ تعاليٰ : صدقت يا آدم، إنه لأحب الخلق إليّ، و إذ سألتني بحقّه فقد غفرت لک، و لولا محمد ما خلقتک.
’’جب حضرت آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو انہوں نے بارگاہِ اُلوہیت میں عرض کیا کہ اے پروردگار! میں تجھ سے بواسطۂِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما دے۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے آدم! تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی میں نے ان کو (دنیا میں) پیدا بھی نہیں کیا؟ عرض کیا : اے میرے رب ! میں نے انہیں اس طرح پہچانا کہ جب تو نے مجھے اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور اپنی طرف سے میرے اندر روح پھونکی، میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو عرش کے پایوں پر یہ لکھا ہوا دیکھا : لَا اِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰه. سو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے مقدس نام کے ساتھ ایسی ہستی کے نام کو ملایا ہے جو تیرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیاری ہے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا : اے آدم! تم نے صحیح سمجھا، واقعی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور جب تم نے ان کے واسطہ سے مجھ سے درخواست کی ہے تو میں نے تمہاری مغفرت کی اور اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ ہوتے تو میں تمہیں بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 486، رقم : 4228
2. طبراني، المعجم الاوسط، 6 : 313، رقم : 6502
اس روایت کو ہیثمی نے مجمع الزوائد (8 : 253) میں، ابن عساکر نے تاریخ دمشق الکبیر (7 : 437) میں، ابن کثیر نے البدایۃ والنھایۃ، (1 : 81) میں، سیوطی نے الخصائص الکبریٰ، (1 : 12) اور الدر المنثور (1 : 142) میں حلبی نے السیرۃ الحلبیۃ (1 : 355) میں اور قسطلانی نے المواھب اللدنیۃ (1 : 82) میں روایت کیا ہے۔
ابتدائے کائنات سے اختتام تک ہر مرحلۂ حیات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ ہونا صحیح اَحادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ عالمِ اَمر اور دنیا میں جس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واسطہ ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی واسطۂ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناگزیر ہے۔ یعنی قبر میں نجات بھی واسطۂ رسالت کے بغیر نہیں مل سکتی۔ عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قبر میں تین سوالات پوچھے جائیں گے (1) بتا تیرا رب کون ہے؟ (2) تیرا دین کیاہے اور آخر میں تیسرا سوال ہو گا (3) اس ہستی (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں کیا کہا کرتا تھا؟ محققین علماء کے نزدیک اگر کوئی شخص پہلے دو سوالات کے جوابات درست دے بھی دے لیکن اگر تیسرا جو لازمی سوال ہے اس میں ناکام رہا تو پھر دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہو گا۔ احادیثِ مبارکہ سے اس بات کی قطعی تائید ملتی ہے۔ بخاری شریف اور دیگر کتب صحاح میں بشمول مسند احمد بن حنبل میں اجل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مروی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات مبارکہ اس بات کے شاہد عادل ہیں کہ قبر میں فیصلہ کن سوال صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہو گا۔ ان کتب میں صرف ایک سوال کا ذکر ہے جو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان کے بارے میں ہو گا اور یہی نجات کی شرط اور واسطہ ہے۔
1. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّي عَنْهُ أَصْحَابُهُ وَ إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ أَتَاهُ مَلَکَانِ فيُقْعِدَانِهِ، فَيَقُوْلاَنِ : مَا کُنْتَ تَقَوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ لِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَيَقُوْلُ : أَشْهَدُ أَنَّهُ عَبْدُاﷲِ وَرَسُوْلُهُ. فيُقَالُ لَهُ : أنْظُرْ إِلَي مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ، قَدْ أَبْدَلَکَ اﷲُ بِهِ مَقْعَداً مِنَ الْجَنَّةِ، فَيَرَاهُمَا جَمِيْعا. قَالَ وَأَمَّا الْمُنَافِقُ وَالْکَافِرُ فَيُقَالُ لَهُ : مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : لَا أَدْرِي! کُنْتُ أَقُوْلُ مَا يَقُوْلُ النَّاسُ! فَيُقَالُ : لَا دَرَيْتَ وَلَا تَلَيْتَ، ويُضْرَبُ بِمَطَارِقَ مِنْ حَدِيْدٍ ضَرْبَةً، فَيَصِيْحُ صَيْحَةً يَسْمَعُهَا مَنْ يَلِيْهِ غَيْرَ الثَّقَلَيْنِ.
’’بندے کو جب اس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے لواحقین واپس چلے جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر کہتے ہیں : تو اس شخص یعنی (سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ اگر مومن ہو تو کہتا ہے : میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اس سے کہا جائے گا : (اگر تو ایمان نہ لاتا تو تیرا ٹھکانا جہنم میں ہوتا) جہنم میں اپنے اس ٹھکانے کی طرف دیکھ! اللہ تعالیٰ نے تجھے (نیک اعمال کے سبب) اس کے بدلے جنت میں ٹھکانا دے دیا ہے۔ پس وہ دونوں کو دیکھتا ہوگا، اور اگر منافق یا کافر ہو تو اس سے پوچھا جائے گا : تو اس شخص (یعنی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق (دنیا میں) کیا کہا کرتا تھا؟ وہ کہتا ہے : مجھے تو معلوم نہیں، میں وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے۔ اس سے کہا جائے گا : تو نے نہ جانا اور نہ پڑھا۔ اسے لوہے کے گُرز سے مارا جائے گا تو وہ (شدت تکلیف سے قبر میں) چیختا چلاتا ہے جسے سوائے جنات اور انسانوں کے سب قریب والے سنتے ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ماجاء في عذاب القبر، 1 : 462، رقم :
1308،
2. مسلم، الصحيح، کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب التي يصرف بها في الدنيا أهل الجنة وأهل النار، 4 : 2200، رقم : 2870
3. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، 4 : 238،
رقم : 4752
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ أَوْ قَالَ أَحَدُکُمْ، أَتَاهُ مَلَکَانِ أَسْوَدَانِ أَزْرَقَانِ، يُقَالُ لِأَحَدِهِمَا : الْمُنْکَرُ، وَ الآخَرُ : النَّکِيْرُ، فَيَقُوْلَانِ : مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي هَذَا الرَّجُلِ؟ فَيَقُوْلُ : مَا کَانَ يَقُوْلُ : هُوَ عَبْدُ اللّٰهِ وَ رَسُوْلُهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ هَذَا، ثُمَّ يُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فِي سَبْعِيْنَ، ثُمَّ يُنَوَّرُ لَهُ فِيْهِ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ : نَمْ، فَيَقُوْلُ : أَرْجِعُ إِلَی أَهْلِي فَأُخْبِرُهُمْ؟ فَيَقُوْلَانِ : نَمْ کَنَوْمَةِ الْعَرُوْسِ الَّذِي لَا يُوْقِظُهُ إِلَّا أَحَبُّ أَهْلِهِ إِلَيْهِ، حَتَّی يَبْعَثَهُ اللّٰهُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ وَ إِنْ کَانَ مُنَافِقًا قَالَ : سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُوْلُوْنَ فَقُلْتُ مِثْلَهُ لَا أَدْرِي فَيَقُوْلَانِ : قَدْ کُنَّا نَعْلَمُ أَنَّکَ تَقُوْلُ ذَلِکَ، فَيُقَالُ لِلْأَرْضِ الْتَئِمِي عَلَيْهِ فَتَلْتَئِمُ عَلَيْهِ فَتَخْتَلِفُ فِيْهَا أَضْلَاعُهُ فَلَا يَزَالُ فِيْهَا مُعَذَّبًا حَتَّی يَبْعَثَهُ اﷲُ مِنْ مَضْجَعِهِ ذَلِکَ.
’’جب میت کو یا تم میں سے کسی ایک کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کے پاس سیاہ رنگ کے نیلگوں آنکھوں والے دو فرشتے آتے ہیں۔ ایک کا نام منکر اور دوسرے کا نام نکیر ہے۔ وہ دونوں اس میت سے پوچھتے ہیں۔ اس عظیم ہستی (رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تو کیا کہتا تھا؟ وہ شخص وہی بات کہتا ہے جو دنیا میں کہا کرتا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے (خاص) بندے اور رسول ہیں۔ فرشتے کہیں گے ہمیں معلوم تھا کہ تو یہی کہے گا پھر اس کی قبر کو لمبائی و چوڑائی میں ستر ستر ہاتھ کشادہ کر دیا جاتا ہے اور نور سے بھر دیا جاتا ہے پھر اسے کہا جاتا ہے : (آرام سے) سو جا، وہ کہتا ہے میں واپس جاکر گھر والوں کو بتا آؤں۔ وہ کہتے ہیں نہیں، (اب تو نئی نویلی) دلہن کی طرح سو جاؤ، جسے گھر والوں میں سے اسے محبوب ترین شخص ہی اٹھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالی (روزِ محشر) اُسے اس کی خواب گاہ سے اٹھائے گا اور اگر وہ شخص منافق ہو تو (سوالات کے نتیجے میں) کہے گا : میں نے ایسا ہی کہا جیسا میں نے لوگوں کو کہتے ہوئے سنا، میں نہیں جانتا (وہ صحیح تھا یا غلط)۔ پس وہ دونوں فرشتے کہیں گے کہ ہم جانتے تھے کہ تم ایسا ہی کہو گے۔ پس زمین سے کہا جائے گا کہ اس پر تنگ ہو جا پس وہ اس پر اکٹھی ہو جائے گی یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں داخل ہو جائیں گی وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اس ٹھکانے سے اٹھائے گا۔‘‘
1. ترمذي، السنن، کتاب الجنائز، باب : ما جاء في عذاب القبر، 3 : 383، رقم : 1071
2. ابن حبان، الصحيح، 7 : 386، رقم : 3117
مذکورہ احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قبر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان کا لازمی سوال ہو گا اور اس میں کامیابی ہی نجات کا باعث ہو گی۔ معلوم ہوا کہ عالم برزخ میں نجات کا واسطہ و وسیلہ بھی ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں پس جو شخص دنیا میں ذات رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنا تعلق مضبوط کرے گا اسے عالم برزخ میں بھی اسی واسطہ کے باعث نعمتوں بھرا جنت کا ٹھکانا نصیب ہو گا۔
قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ روز قیامت بھی شدت تکلیف میں تمام لوگ جمع ہو کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آئیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضورِ الٰہ میں واسطہ شفاعت بناتے ہوئے عرض کریں گے کہ ہمارے لیے اللہ کریم کے حضور سفارش کریں تاکہ حساب و کتاب کا مرحلہ جلدی شروع ہو اور ہم اس جان لیوا تکلیف سے نجات پائیں۔ اس روز رب ذوالجلال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔ یہ وہ اعلیٰ اور ارفع مقام ہے جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان نبوت کے لیے مختص ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس مقام و مرتبہ پر فائز ہونے سے جمیع امم کو فائدہ ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطۂِ عظمیٰ سے لوگوں کو نجات ملے گی۔ سورۃ بنی اسرائیل میں ارشاد فرمایا گیا :
عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًاO
’’یقیناً آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود (یعنی وہ مقامِ شفاعتِ عظمیٰ جہاں جملہ اوّلین و آخرین آپ کی طرف رجوع اور آپ کی حمد کریں گے) پر فائز فرمائے گا۔‘‘
بني اسرائيل، 17 : 79
احادیثِ متواترہ صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر حساب و کتاب شروع فرمائے گا۔ چند احادیث ذیل میں ملاحظہ کریں۔
حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر رضی اﷲ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا :
إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثاً، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ : يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، يَا فُلاَنُ اشْفَعْ حَتَّي تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَذَلِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اﷲُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ.
’’روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی : اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب قوله : عسي أن يبعثک ربک مقاما
محمودا، 4 : 1748، رقم : 4441
2. النسائي، السنن الکبري، سورة الإسراء، 6 : 381، رقم : 295
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُو يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّي يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ فَبَيْنَاهُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَي، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، اور بالآخر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اس کائناتِ ہست و بود کے ہر مرحلے پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہی مخلوق اور خالق کے درمیان واسطۂ عظمیٰ ہے۔ یہ کائنات اپنے وجود اور ارتقاء میں اسی واسطۂ جلیلہ کی محتاج ہے۔ ایمان کا سفر بھی از اوّل تا آخر ہر ہر لمحہ واسطۂ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مستنیر ہے۔ انسان اپنے آغاز سے انجام تک اور قبر سے حشر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ممتاز اور مشرف ہوگا۔ کفر اور ایمان کے درمیان جاری زندگی کے حسین انجام کا فیصلہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق کی بنیاد پر ہوگا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved