ذیل میں ہم تقسیمِ بدعت کے حوالے سے اکابر ائمہ ومحدّثین کے اقوال نقل کریں گے جس سے یہ اَمر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ بدعت کی تقسیم کوئی نیا کام نہیں ہے بلکہ یہ اُنہیں اَحادیث و آثار کی تشریح و توضیح ہے جن میں بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1۔ امام عز الدین عبدالعزیز بن عبد السلام السلمی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے اُصولی، محدّث اور اِمام تھے۔ اہلِ زمانہ اِنہیں ‘‘سلطان العلماء’’ کے نام سے پکارتے تھے۔(1) وہ اَپنی کتاب ‘‘قواعد الأحکام فی مصالح الأنام’’ میں بدعت کی پانچ اقسام اور ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
البدعة فعل مالم يعهد فی عصر رسول اﷲ وهی منقسمة إلی بدعة واجبة و بدعة محرمة و بدعة مندوبة و بدعة مکروهة و بدعة مباحة.(2)
(1) 1. ابن سبکي، طبقات الشافعية 8 : 209
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 13 : 235
3. عبد الحي، شذرات الذهب فی أخبار من ذهب، 5 : 301
(2) 1. عزالدين، قواعد الأحکام فی مصالح الأنام، 2 : 337
2. عز الدين، فتاوی العز بن عبدالسلام : 116
3. نووی، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 21
4. سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
5. ابن حجر مکی، الفتاوی الحديثيه : 130
‘‘بدعت سے مراد وہ فعل ہے جو حضورA کے زمانے میں نہ کیا گیا ہو، بدعت کی حسبِ ذیل اقسام ہیں۔ واجب، حرام، مستحب، مکروہ اور مباح۔’’
2۔ اِمام اَبو زکریا محی الدین بن شرف نووی کا اِعتقاد اور مذہب بھی یہی ہے کہ بدعت کی پانچ اقسام ہیں۔ وہ بدعت کی تعریف اور اس کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قال العلماء : البدعة خمسة أقسام واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة فمن الواجبة نظم أدلة المتکلمين للرد علی الملاحدة والمبتدعين و شبه ذلک ومن المندوبة تصنيف کتب العلم و بناء المدارس والربط و غير ذلک و من المباح التبسط في ألوان الأطعمة و غير ذلک والحرام والمکروه ظاهران وقد أوضحت المسألة بأدلتها المبسوطة في تهذيب الأسماء واللغات فإذا عرف ما ذکرته علم أن الحديث من العام المخصوص و کذا ما أشبهه من الأحاديث الواردة و يؤيد ما قلناه قول عمر ابن الخطاب رضی الله عنه في التراويح نعمت البدعة(1) ولا يمنع من کون الحديث عاما مخصوصا قوله کل بدعة مؤکدا بکل بل يدخله التخصيص مع ذلک کقوله تعالی : {تدمر کل شيئ}(2).(3)
(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقی، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 / 105، رقم : 250
(2) الاحقاف، 42 : 52
(3) نووی، شرح صحيح مسلم، 6 : 154
‘‘علماء نے بدعت کی پانچ اقسام بدعت واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ بیان کی ہیں۔ بدعت واجبہ کی مثال متکلمین کے دلائل کو ملحدین، مبتدعین اور اس جیسے دیگر اُمور کے رد کے لئے استعمال کرنا ہے اور بدعتِ مستحبہ کی مثال جیسے کتب تصنیف کرنا، مدارس، سرائے اور اس جیسی دیگر چیزیں تعمیر کرنا۔ بدعتِ مباح کی مثال یہ ہے کہ مختلف انواع کے کھانے اور اس جیسی چیزوں کو اپنانا ہے جبکہ بدعت حرام اور مکروہ واضح ہیں اور اس مسئلہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ میں نے ‘‘تهذيب الاسماء واللغات’’ میں واضح کر دیا ہے۔ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اگر اس کی پہچان ہو جائے گی تو پھر یہ سمجھنا آسان ہے کہ یہ حدیث اور دیگر ایسی احادیث جو ان سے مشابہت رکھتی ہیں عام مخصوص میں سے تھیں اور جو ہم نے کہا اس کی تائید حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قول : ‘‘نعمت البدعۃ‘‘ کرتا ہے اور یہ بات حدیث کو عام مخصوص کے قاعدے سے خارج نہیں کرتی۔ قول : ‘‘کل بدعۃ‘‘ لفظ ِ‘‘کلّ‘‘ کے ساتھ مؤکد ہے لیکن اس کے باوجود اس میں تخصیص شامل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد : ‘‘تدمر کل شئ’’ (وہ ہر چیز کو اُکھاڑ پھینکے گی) میں تخصیص شامل ہے۔
3۔ معروف مالکی فقیہ اِمام شہاب الدین احمد بن ادریس القرافی بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ‘‘انوار البروق فی انوار الفروق (4 : 202.205)’’ میں رقم طراز ہیں :
البدعة خمسة أقسام .... واجب و محرم و مندوب ومکروهة والمباحة.(1)
‘‘بدعت کی پانچ اقسام ہیں : وہ بدعت واجبہ، بدعت محرمہ، بدعت مستحبہ، بدعت مکروہہ اور بدعت مباحہ ہیں۔’’
4۔ امام ابن تیمیہ اپنی کتاب ‘‘منہاج السنۃ (4 : 224)’’ میں لغوی بدعت اور شرعی بدعت کو واضح کرتے ہوئے ‘‘نعمت البدعة هذه’’ کے ذیل میں بیان کرتے ہیں :
إنّما سماها بدعة لأن ما فعل ابتداء، بدعة لغة، وليس ذلک بدعة شرعية، فإن البدعة الشرعية التی هی ضلالة ما فعل بغير دليل شرعی.
‘‘اِسے بدعت اِس لیے کہا گیا کہ یہ عمل اس سے پہلے اِس انداز میں نہیں ہوا تھا لہٰذا یہ بدعتِ لغوی ہے بدعتِ شرعی نہیں ہے کیونکہ بدعتِ شرعی وہ گمراہی ہوتی ہے جو دلیل شرعی کے بغیر سر انجام دی جائے۔’’
علامہ ابن تیمیہ ‘‘بدعتِ حسنہ’’ اور ‘‘بدعتِ ضلالہ’’ کے مفہوم کو مزید واضح کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
قال الشافعي رحمه اﷲ البدعة بدعتان بدعة خالفت کتابا و سنة و إجماعا و أثرا عن بعض أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فهذه بدعة ضلالة و بدعة لم تخالف شيئا من ذلک فهذه قد تکون حسنة لقول عمر : نعمت البدعة هذه(1) هذا الکلام أو نحوه. رواه البيهقي بإسناده الصحيح فی المدخل.(2)
(1) 1. مالک، المؤطا، باب ما جاء فی قيام رمضان، 1 : 114، رقم : 250
2. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
3. سيوطی، تنوير الحوالک شرح مؤطا مالک، 1 : 105، رقم : 250
(2) ابن تيمية، کتب ورسائل و فتاوی ابن تيمية فی الفقه، 20 : 16
‘‘امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ نے بدعت کی دو قسمیں بیان کی ہیں : ایک وہ بدعت جو قرآن و سنت، اجماع اور بعض اَصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کے خلاف ہو تو وہ بدعت ضلالہ ہے۔ اور جو بدعت ان تمام چیزوں (یعنی قرآن و سنت، اجماع اور آثارِ صحابہ) میں سے کسی کے مخالف نہ ہو تو وہی بدعتِ حسنہ ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ‘‘نعمت البدعة هذه’’ یہ یا اس جیسا دوسرا بیان اسے امام بیہقی نے اپنی صحیح اسناد کے ساتھ ‘‘المدخل’’ میں روایت کیا ہے۔’’
5۔ حافظ عماد الدین اسماعیل ابن کثیر ‘‘تفسير القرآن العظيم (1 : 161)’’ میں بدعت کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والبدعة علی قسمين تارة تکون بدعة شرعية کقوله : (فإن کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة) و تارة تکون بدعة لغوية کقول أمير المؤمنين عمر بن الخطاب عن جمعه إياهم علی صلاة التراويح واستمرارهم : نعمت البدعة هذه.
‘‘بدعت کی دو قسمیں ہیں : بعض اوقات یہ بدعتِ شرعیہ ہوتی ہے جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ‘‘فإنّ کلّ محدثة بدعة و کل بدعة ضلالة’’ اور بعض اوقات یہ بدعتِ لغویہ ہوتی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین سیدنا عمر فاروق کا لوگوں کو نماز تراویح پر جمع کرتے اور دوام کی ترغیب دیتے وقت فرمان ‘‘نعمت البدعة هذه’’ ہے۔’’
6۔ علامہ ابن رجب حنبلی (795ھ) اپنی کتاب ‘‘جامع العلوم والحکم فی شرح خمسين حديثا من جوامع الکلم (ص : 253)’’ میں تقسیمِ بدعت کے تناظر میں اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں :
وقد روی الحافظ أبو نعيم بإسناد عن إبراهيم ابن الجنيد قال : سمعت الشافعی يقول : البدعة بدعتان : بدعة محمودة و بدعة مذمومة، فما وافق السنة فهو محمود، وما خالف السنة فهو مذموم.
‘‘حافظ ابو نعیم نے ابراہیم بن جنید کی سند سے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔ بدعتِ محمودہ اور بدعتِ مذمومہ۔ بدعتِ محمودہ وہ بدعت ہے جو سنت کے مطابق و موافق ہو اور جو بدعت سنت کے مخالف و متناقض ہو وہ مذموم ہے۔
7۔ علامہ ابنِ اثیر جزری حدیثِ عمر : ‘‘نعمت البدعة هذه’’ کے تحت بدعت کی اقسام اور ان کا شرعی مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
البدعة بدعتان : بدعة هدًی، وبدعة ضلال، فما کان فی خلاف ما أمر اﷲ به و رسوله صلی الله عليه وآله وسلم فهو فی حيز الذّم والإنکار، وما کان واقعا تحت عموم ما ندب اﷲ إليه و حضَّ عليه اﷲ أو رسوله فهو فی حيز المدح.
ابن أثير جزری، النهاية فی غريب الحديث والأثر، 1 : 106
‘‘بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحکام کے خلاف ہو وہ مذموم اور ممنوع ہے، اور جو کام کسی ایسے عام حکم کا فرد ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے مستحب قرار دیا ہو یا اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم پر راغب کیا ہو اس کام کا کرنا محمود ہے۔’’
8۔ علامہ شمس الدین محمد بن یوسف بن علی الکرمانی تصور بدعت اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب ‘‘الکواکب الدراری فی شرح صحيح البخاری (9 : 154، 155)’’ میں لکھتے ہیں :
البدعة کل شيء عمل علی غير مثال سابق وهی خمسة أقسام : واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة.
‘‘ہر وہ چیز جس پر مثال سابق کے بغیر عمل کیا جائے وہ ‘‘بدعت’’ کہلاتی ہے اور اس کی پانچ اقسام ہیں : بدعتِ واجبہ، بدعتِ مندوبہ، بدعتِ محرمہ، بدعتِ مکروہہ اور بدعتِ مباحہ۔’’
9۔ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور و معروف تصنیف ‘‘فتح الباری شرح صحيح البخاری (4 : 253)’’ میں بدعت کی تعریف اور تقسیم پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے :
والبدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق، و تطلق فی الشرع فی مقابل السنة فتکون مذمومة، والتحقيق أنها إن کانت مما تندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة، و إن کانت مما تندرج مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة، و إلَّا فهی من قسم المباح وقد تنقسم إلی الأحکام الخمسة.
‘‘بدعت سے مراد ایسے نئے اُمور کا پیدا کیا جانا ہے جن کی مثال سابقہ دور میں نہ ملے اور ان اُمور کا اطلاق شریعت میں سنت کے خلاف ہو پس یہ ناپسندیدہ عمل ہے، اور بالتحقیق اگر وہ بدعت شریعت میں مستحسن ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ بدعت شریعت میں ناپسندیدہ ہو تو وہ بدعت مستقبحہ یعنی بری بدعت کہلائے گی اور اگر ایسی نہ ہو تو اس کا شمار بدعت مباحہ میں ہو گا۔ بدعت کو شریعت میں پانچ اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے (واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروہہ اور مباحہ)۔’’
10۔ اِمام بدر الدین عینی بدعت کی تعریف اور اس کی تقسیم بیان کرتے ہوئے ‘‘عمدة القاری شرح صحيح البخاری (11 : 126)’’ میں رقم طراز ہیں :
البدعة علی نوعين اِن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی بدعة حسنة و اِن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی بدعة مستقبحة.
‘‘بدعت اصل میں اُس نئے کام کو بجا لانا ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ ہوا ہو پھر بدعت کی دو قسمیں ہیں اگر یہ بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آ جائے تو یہ ‘‘بدعتِ حسنہ’’ ہے اور اگر یہ شریعت کے مستقبحات کے تحت آ جائے تو یہ ‘‘بدعتِ مستقبحۃ’’ ہے۔’’
11۔ امام جلال الدین سیوطی اپنے فتاویٰ ‘‘الحاوی للفتاوی’’ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن البدعة لم تنحصر في الحرام و المکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووي في تهذيب الأسماء واللُّغات، البدعة في الشرع هي إحداث ما لم يکن في عهد رسول اﷲ وهي منقسمة إلی حسنة و قبيحة، وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام في القواعد : البدعة منقسمة إلی واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة.
سيوطی، الحاوی للفتاویٰ، 1 : 192
سيوطی، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
سيوطی، الديباج علی صحيح مسلم بن الحجاج، 2 : 445
‘‘بدعت حرام اور مکروہ تک ہی محصور نہیں ہے بلکہ اسی طرح یہ مباح، مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے جیسے کہ امام نووی اپنی کتاب ‘‘تهذيب الاسماء و اللغات’’ میں فرماتے ہیں کہ شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعت، بدعت حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم ہوتی ہے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب ‘‘قواعدالاحکام فی مصالح الانام’’ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بدعت کی تقسیم واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کے اعتبار سے ہوتی ہے۔’’
12۔ علامہ شہاب الدین احمد قسطلانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان نعم البدعة هذه کے ضمن میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
نعم البدعة هذه(1) سماها بدعة لأنه صلی الله عليه وآله وسلم لم يسن لهم الاجتماع لها ولا کانت فی زمن الصديق ولا أوّل الليل ولا کل ليلة ولا هذا العدد. وهی خمسة واجبة ومندوبة ومحرمة ومکروهة ومباحة.(2)
(1) 1. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
2. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250
3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100
(2) قسطلانی، ارشاد الساری لشرح صحيح البخاری، 3 : 426
‘‘نعم البدعة هذه’’ کے تحت نمازِ تراویح کو بدعت کا نام دیا گیا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تراویح کے لئے اجتماع کو مسنون قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس طریقے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں(پابندی کے ساتھ) رات کے اِبتدائی حصے میں تھی اور نہ ہی مستقلاً ہر رات پڑھی جاتی تھی اور نہ ہی(تراویح کی رکعات کا) یہ عدد متعین تھا اور بدعت کی درج ذیل پانچ اقسام واجبہ، مندوبہ، محرمہ، مکروھہ، اور مُبَاحہ ہیں۔’’13۔ امام محمد بن یوسف صالحی شامی اپنی معروف کتاب ‘‘سبل الهدی والرشاد (1 : 370)‘‘ میں علامہ تاج الدین فاکہانی کے اس مؤقف أن الابتداع فی الدين ليس مباحًا کا محاکمہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أن البدعة لم تنحصر في الحرام والمکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و مندوبة و واجبة. قال النووی في تهذيب الأسماء واللُّغات : البدعة في الشرع : هي ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهي منقسمة إلی حسنة و قبيحة. وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة اﷲ تعالٰی في القواعد : البدعة منقسمة إلی واجبة و إلی محرمة و مندوبة و مکروهة و مباحة.
‘‘بدعت کا انحصار صرف حرام اور مکروہ پر نہیں ہے بلکہ بدعت اسی طرح مباح مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے۔ اِمام نووی اپنی کتاب ‘‘تهذيب الأسماء واللُّغات’’ میں فرماتے ہیں شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو عہدِ رسالت مآب Aمیں نہ ہوا ہو اور یہ بدعتِ حسنہ اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کی جاتی ہے۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام اپنی کتاب ‘‘قواعد الاحکام‘‘ میں فرماتے ہیں بدعت واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح میں تقسیم ہوتی ہے۔’’
14۔ امام محمد عبد الرؤوف المناوی اپنی کتاب ‘‘فيض القدير شرح الجامع الصغير (1 : 439)’’ میں بدعت کی تقسیم کے حوالے سے لکھتے ہیں :
فإن البدعة خمسة أنواع وهي هذه واجبة و هي نصب أدلة المتکلمين للرد علی هؤلاء و تعلم النحو الذي به يفهم الکتاب والسنة و نحو ذلک و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة وکل إحسان لم يعهد في الصدر الأول و مکروهة کزخرفة مسجد و تزويق مصحف و مباحة کالمصافحة عقب صبح و عصر و توسع في لذيذ مأکل و مشرب و ملبس و مسکن و لبس طيلسان و توسيع أکمام ذکره النووي في تهذيبه.
‘‘بدعت کی پانچ اقسام ہیں اور وہ یہ ہیں پہلی بدعت واجبہ ہے اور وہ یہ کہ ان تمام مذاہب کو رد کرنے کے لئے متکلمین کے دلائل پیش کرنا اور اسی طرح علم نحو کا سیکھنا تاکہ قرآن و سنت کو سمجھا جا سکے اور اس جیسے دیگر علوم کا حاصل کرنا بدعت واجبہ میں سے ہے اور اسی طرح سرائے اور مدارس وغیرہ بنانا اور ہر اچھا کام جو کہ زمانہ اول میں نہ تھا اسے کرنا بدعت مستحبہ میں شامل ہے اور اسی طرح مسجد کی تزئین اور قرآن مجید کے اوراق کو منقش کرنا بدعت مکروھہ میں شامل ہے اور اسی طرح (نماز) فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا اور لذیذ کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور سبز چادر استعمال کرنے میں توسیع کرنا اور آستینوں کا کھلا رکھنا بدعت مباحہ میں سے ہے۔ اس کو امام نووی نے اپنی ‘‘تہذیب’’ میں بیان کیا ہے۔’’
15۔ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی اپنی کتاب ‘‘رد المحتار علی درالمختار (1 : 414)’’ میں لفظ ‘‘صاحب بدعۃ’’ کا مفہوم و مراد واضح کرتے اور بدعت کی متعدد اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
(قوله أی صاحب بدعة) أی محرمة وإلّا فقد تکون واجبة کنصب الأدلة للرد علی أهل الفرق الضالة و تعلم النحو المفهم للکتاب والسنة و مندوبة کإحداث نحو رباط و مدرسة و کل إحسان لم يکن فی الصدر الأول و مکروهة کزخرفة المساجد و مباحة کالتوسع بلذيذ المآکل والمشارب و الثياب کما فی شرح الجامع الصغير للمناوی عن تهذيب النووی و مثله فی الطريقة المحمدية للبرکلی.
‘‘(قوله أی صاحب بدعة) ان کے قول صاحب بدعت سے مراد بدعت محرمہ ہے اور اگر یہ مراد نہ ہو تو پھر بدعت واجبہ مراد ہے جیسے گمراہ فرقوں کے رد میں دلائل قائم کرنا اور علم النحو کا سیکھنا جو کہ کتاب و سنت کو سمجھانے کا باعث ہے اور اسی طرح بدعت مندوبہ ہوتی ہے جیسے سرحدی چوکیوں، مدارس کی تعمیر اور وہ اچھے کام جو پہلے زمانہ میں نہ تھے ان کا ایجاد کرنا وغیرہ اور اسی طرح مساجد کی تزئین کرنا بدعت مکروہ ہے۔ اور اسی طرح لذیذ کھانے، مشروبات اور ملبوسات وغیرہ میں وسعت اختیار کرنا بدعت مباحہ ہے اور اسی طرح امام مناوی کی ‘‘جامع الصغیر’’ میں، امام نووی کی ‘‘تہذیب’’ میں اور امام برکلی کی ‘‘الطریقۃ المحمدیۃ’’ میں بھی ایسے ہی درج ہے۔16۔ یمن کے معروف غیر مقلد عالم شیخ شوکانی جنہیں اہلِ حدیث اور سلفی اپنا اِمام مانتے ہیں ،وہ حدیثِ عمر نعمت البدعة هذه کے ذیل میں ‘‘فتح الباری’’ کے حوالے سے بدعت کی پانچ اَقسام بیان کرتے ہیں :
البدعة أصلها ما أحدث علی غير مثال سابق و تطلق فی الشرع علی مقابلة السنة فتکون مذمومة والتحقيق إنها إن کانت مما يندرج تحت مستحسن فی الشرع فهی حسنة وإن کانت مما يندرج تحت مستقبح فی الشرع فهی مستقبحة و إلَّا فهی من قسم المباح و قد تنقسم إلی الأحکام الخمسة.
شوکانی، نيل الاوطار شرح منتقی الأخبار، 3 : 63
‘‘لغت میں بدعت اس کام کو کہتے ہیں جس کی پہلے کوئی مثال نہ ہو اور اصطلاح شرع میں سنت کے مقابلہ میں بدعت کا اطلاق ہوتا ہے اس لیے یہ مذموم ہے اور تحقیق یہ ہے کہ بدعت اگر کسی ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں مستحسن ہے تو یہ بدعت حسنہ ہے اور اگر ایسے اصول کے تحت داخل ہے جو شریعت میں قبیح ہے تو یہ بدعت سیئہ ہے ورنہ بدعت مباحہ ہے اور بلا شبہ بدعت کی پانچ قسمیں ہیں۔’’
17۔ ابو الفضل شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی اپنی تفسیر ‘‘روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی (14 : 192)’’ میں علامہ نووی کے حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
و تفصيل الکلام فی البدعة ما ذکره الإمام محي الدين النووی فی شرح صحيح مسلم. قال العلماء : البدعة خمسة أقسام : واجبة، ومندوبة، ومحرمة، ومکروهة، ومباحة.
‘‘بدعت کی تفصیلی بحث امام محی الدین النووی نے اپنی کتاب شرح صحیح مسلم میں کی ہے اور دیگر علماء نے کہا ہے بدعت کی پانچ اقسام بدعتِ واجبہ، بدعتِ مستحسبہ، بدعتِ محرمہ، بدعتِ مکروھہ اور بدعتِ مباحہ ہیں۔’’
18۔ غیر مقلدین کے نامور عالم دین نواب صدیق حسن خان بھوپالی نے بھی بدعت کو ایک اکائی سمجھنے کی بجائے اس کی تقسیم کی ہے۔ شیخ وحید الزماں اپنی کتاب ‘‘ہدیۃ المہدی’’ کے صفحہ نمبر 117 پر بدعتِ ضلالہ اور بدعتِ مباحہ کے حوالے سے علامہ بھوپالی کا یہ قول نقل کرتے ہیں :
البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الاصل.
‘‘بدعتِ ضلالہ محرمہ وہ بدعت ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’
19۔ مشہور غیر مقلد عالم دین مولانا وحید الزمان بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اما البدعة اللغوية فهی تنقسم إلی مباحة ومکروهة و حسنة و سيئة قال الشيخ ولی اﷲ من أصحابنا من البدعة بدعة حسنة کالأخذ بالنواجذ لما حث عليه النبی صلی الله عليه وآله وسلم من غير عزم کالتراويح ومنها مباحة کعادات الناس فی الأکل والشرب واللباس وهی هنيئة قلت تدخل فی البدعات المباحة استعمال الورد والرياحين والأزهار للعروس ومن الناس من منع عنها لاجل التشبه بالهنود الکفار قلنا إذا لم ينو التشبه أوجری الأمر المرسوم بين الکفار فی جماعة المسلمين من غير نکير فلا يضر التشبه ککثير من الاقبية والالبسة التی جاء ت من قبل الکفار ثم شاعت بين المسلمين وقد لبس النبی صلی الله عليه وآله وسلم جبة رومية ضيقة الکمين و قسم الا قبية التی جاء ت من بلاد الکفار علی أصحابه و منها ما هی ترک المسنون و تحريف المشروع وهی الضلالة وقال السيد البدعة الضلالة المحرمة هی التی ترفع السنة مثلها والتی لا ترفع شيئا منها فليست هی من البدعة بل هی مباح الأصل.
وحيد الزمان، هدية المهدی : 117
‘‘باعتبار لغت بدعت کی حسب ذیل اقسام ہیں : بدعت مباحہ، بدعت مکروھہ، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ولی اللہ نے کہا کہ بدعات میں سے بدعت حسنہ کو دانتوں سے پکڑ لینا چاہیے(یعنی اس پر جم جانا چاہیے) کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو واجب کیے بغیر اس پر برانگیختہ کیا ہے جیسے تراویح۔ بدعات میں سے ایک بدعت مباحہ ہے جیسے لوگوں کے کھانے پینے اور پہننے کے معمولات ہیں اور یہ آسان ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دولہا، دلہن کے لئے کلیوں اور پھولوں کا استعمال (جیسے ہار اور سہرا) بھی بدعاتِ مباحہ میں داخل ہے بعض لوگوں نے ہندوؤں سے مشابہت کے سبب اس سے منع کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تشبّہ کی نیت نہ کرے یا کفار کی کوئی رسم مسلمانوں میں بغیر انکار کے جاری ہو تو اس میں مشابہت سے کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ قباء اور دوسرے لباس کفار کی طرف سے آئے اور مسلمانوں میں رائج ہو گئے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تنگ آستینوں والا رومی جبہّ پہنا ہے اور کفار کی طرف سے جو قبائیں آئی تھیں ان کو صحابہ میں تقسیم فرما دیا تھا اور بدعات میں سے ایک وہ بدعت ہے جس سے کوئی سنت ترک ہو رہی ہو اور حکم شرعی میں تبدیلی آئے اور یہی بدعت ضلالہ (سیئہ) ہے۔ نواب صاحب (نواب صدیق حسن بھوپالی) نے کہا ہے کہ بدعت وہ ہے جس سے اس کے بدلہ میں کوئی سنت متروک ہو جائے اور جس بدعت سے کسی سنت کا ترک نہ ہو وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اصل میں مباح ہے۔’’
20۔ عصرِ قریب میں مملکت سعودی عرب کے معروف مفتی شیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز نے سعودی حکومت کے شعبہ ‘‘الافتاء والدعوه والارشاد’’ کے زیر اہتمام چھپنے والے اپنے فتاویٰ کے مجموعہ ‘‘فتاوی اللجنة الدائمة للبحُوث العلمية والافتاء’’ میں بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :
أولاً : قسم العلماء البدعة إلی بدعة دينية و بدعة دنيوية، فالبدعة في الدين هي : إحداث عبادة لم يشرعها اﷲ سبحانه و تعالی وهي التي تراد في الحديث الذي ذکر وما في معناه من الأحاديث. و أما الدنيوية : فما غلب فيها جانب المصلحة علی جانب المفسدة فهي جائزة وإلا فهي ممنوعة ومن أمثلة ذلک ما أحدث من أنواع السلاح والمراکب و نحو ذلک.
ثالثاً : طبع القرآن و کتابته من وسائل حفظه و تعلمه و تعليمه و الوسائل لها حکم الغايات فيکون ذلک مشروعاً و ليس من البدع المنهي عنها؛ لأن اﷲ سبحانه ضمن حفظ القرآن الکريم و هذا من وسائل حفظه.
ابن باز، فتاوی اللجنة الدائمة للبحُوث العلمية والافتاء، 2 : 325
‘‘علماء کرام نے بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت دنیویہ میں تقسیم کیا ہے، بدعت دینیہ یہ ہے کہ ایسی عبادت کو شروع کرنا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مشروع نہ کیا ہو اور یہی اس حدیث سے مراد ہے جو ذکر کی جا چکی ہے اور اس طرح کی دیگر احادیث سے بھی یہی مراد ہے اور دوسری بدعت دنیوی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس میں مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب ہو اور وہ جائز ہے اور اگر ایسا نہ ہو (یعنی مصلحت والا پہلو فساد والے پہلو پر غالب نہ ہو) تو وہ ممنوع ہے۔ اس کی مثالوں میں مختلف اقسام کا اسلحہ سواریاں اور اس جیسی دیگر چیزیں بنانا اسی طرح قرآن پاک کی طباعت و کتابت اس کو حفظ کرنے، اسے سیکھنے اور سکھانے کے وسائل اور وہ وسائل جن کے لیے غایات (اھداف) کا حکم ہے پس یہ ساری چیزیں مشروع ہیں اور ممنوعہ بدعات میں سے نہیں ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک کے حفظ کی ضمانت دی ہے اور یہ (سب اس کے) وسائل حفظ میں سے ہے۔’’
ایک اور سوال کے جواب میں ابن باز ‘‘بدعتِ دینیہ’’ اور ‘‘بدعتِ عادیہ’’ کی تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
البدعة تنقسم إلی بدعة دينية و بدعة عادية، فالعادية مثل کل ما جد من الصناعات والاختراعات والأصل فيها الجواز إلا ما دل دليل شرعي علی منعه.
أما البدعة الدينية فهي کل ما أحدث في الدين مضاهاة لتشريع اﷲ.
ابن باز، فتاوی اللجنة الدائمة للبحُوث العلمية والافتاء، 2 : 329
‘‘بدعت کو بدعت دینیہ اور بدعت عادیہ میں تقسیم کیا جاتا ہے پس بدعت عادیہ سے مراد ہر وہ نئی چیز جو کہ مصنوعات یا ایجادات میں سے ہو اور اصل میں اس پر جواز کا حکم ہے سوائے اس چیز کے کہ جس کے منع پر کوئی شرعی دلیل آ چکی ہو اور پھر بدعت دینی یہ ہے کہ ہر نئی چیز جو دین میں ایجاد کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی شرع کے متشابہ ہو (یہ ناجائز ہے)۔’’
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved