بدعت کی حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کی بنیاد بعد کے ائمہ و محدِّثین اور علماء و فقہاء اسلام نے ہرگز نہیں رکھی بلکہ اُنہوں نے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سنّتِ خلفائے راشدین کی ہی تشریح و توضیح کی ہے اور اسے خاص علمی نظم کے ساتھ بیان کر دیا ہے، لہٰذا امام نووی (676ھ) فرماتے ہیں کہ بنیادی طور پر بدعت کی دو اقسام ہیں :
البدعة فی الشرع هی إحداث ما لم يکن فی عهد رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وهی منقسمة إلی حسنة و قبيحة.
نووی، تهذيب الأسماء واللغات، 3 : 22
نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 286
سيوطی، حسن المقصد فی عمل المولد : 51
صالحی، سبل الهدی والرشاد، 1 : 370
‘‘شریعت میں بدعت سے مراد وہ نئے اُمور ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھے، اور یہ بدعت ‘‘حسنہ’’ اور ‘‘قبیحہ’’ میں تقسیم ہوتی ہے۔’’
اسی طرح اِمام ابن اثیر جزری (606ھ) بھی بدعت کی بنیادی طور پر دو اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
البدعة بدعتان : بدعة هدی وبدعة ضلال.
ابن أثير جزری، النهاية فی غريب الحديث والأثر، 1 : 106
‘‘بدعت کی دو قسمیں ہیں : بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ۔’’
لفظِ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ خود ہی اس طرف اِشارہ کر رہا ہے کہ ہر نیا کام ناجائز اور حرام نہیں ہوتا بلکہ ہر ایسا نیا کام جس کی کوئی اصل، مثال یا نظیر کتاب و سنت میں موجود ہو یا شریعت کے ساتھ اس کی کوئی مطابقت ہو مزید برآں وہ مبنی بر خیر اور مبنی بر مصلحت ہو اور اصلاً حسنات و خیرات اور صالحات کے زمرے میں آتا ہو تو وہ ‘‘بدعتِ حسنہ‘‘ ہو گا اس کے برعکس اگر وہ بدعت دینِ اسلام سے متضاد ہو، قواعدِ دین، احکامِ دین، احکامِ سنت اور دین کی مصلحتوں کے خلاف ہو، کتاب و سنت کے کسی حکم کو منسوخ کر کے فتنہ پیدا کر رہی ہو تو وہ ‘‘بدعتِ سیئۃ’’ ہو گی لہٰذا فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدعَة ضَلَالَةٌ خود بخود ‘‘کُلُّ بِدْعَةٍ سَيِّئةٍ ضَلَالَة ٌ’’ پر محمول ہو گا تاکہ بدعتِ حسنہ اس سے مستثنیٰ ہو سکے۔
کوئی معترض یہاں پر یہ اِعتراض وارد کر سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ‘‘کُلُّ بِدعَةٍ ضَلَالَةٌ’’ یعنی ہر بدعت کو ضلالت فرمایا ہے۔ پھر بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئۃ کی تقسیم کہاں سے نکل آئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تقسیم نئی نہیں بلکہ شروع سے لے کر آج تک تمام اکابر ائمہ و محدِّثین نے حدیثِ نبوی کی روشنی میں بدعت کی یہ تقسیم بیان کی ہے۔ تفصیلات کے لئے راقم کی کتاب ‘‘بدعت : ائمہ و محدّثین کی نظر میں‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ اس سوال کا دوسرا جواب یہ ہے کہ جہاں سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کی تقسیم ماخوذ ہے وہیں سے بدعتِ حسنہ اور سیئہ نکلی ہیں۔ مثلاً حدیث ‘‘ نعم البدعة هذه’’ میں باجماعت نمازِ تراویح کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ یہ بدعتِ حسنہ نہیں بلکہ بدعتِ لغوی ہے، پس جس حدیث سے بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی نکلی ہے اسی سے بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اِصطلاح ماخوذ ہے۔
ایک اور اَہم بات یہ ہے کہ حدیثِ مبارکہ میں لغوی اور شرعی کی تقسیم کا ذکر نہیں ہے بلکہ حسنہ اور سیئہ کے الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں۔ جیسے حدیث نعم البدعة هذه(1) میں لفظِ ‘‘نعم’’ بدعتِ حسنہ کی طرف اور ‘‘من سنّ فی الاسلام سنة سيئة’’ (2) میں لفظِ ‘‘سیئۃ’’ بدعتِ سیئہ پر دال ہے۔ لہٰذا جس کو وہ بدعتِ لغوی اور بدعتِ شرعی کہتے ہیں اسی کو جمہور ائمہ و محدّثین بدعتِ حسنہ اور بدعت ِسیئہ کہتے ہیں۔ پس اگر بدعتِ لغوی اور شرعی کی تقسیم جائز ہے تو حسنہ اور سیئہ کی تقسیم کیوں جائز نہیں اور اگر بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم جائز نہیں تو لغوی اور شرعی کی تقسیم بھی جائز نہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نزدیک ہر بدعت، بدعتِ ضلالہ ہے اگر اِن کی یہ بات مان لی جائے تو پھر لفظِ بدعت کے ساتھ لفظِ شرعی لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ مزید برآں اگر بدعت کی بدعتِ لغوی اور شرعی میں ہی تقسیم کرنی ہے تو پھر حدیث میں لفظ ‘‘نعم’’ کہاں جائے گا؟ کیونکہ حدیث کے الفاظ ہیں ‘‘نعم البدعۃ’’ یعنی اچھی بدعت۔ ان دلائل و اِشارات سے ثابت ہوتا ہے کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی تقسیم اَقرب الی متن الحدیث ہے۔ یعنی لفظِ ‘‘نعم’’ کو لفظ ِحسنہ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
(1) 1. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250
2.بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100
4. بيهقی، السنن الکبریٰ، 2 : 493، رقم : 4379
5. بيهقی، شعب الايمان، 3 : 177، رقم : 3269
(2) 1. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة او سيئة، 4 : 2059، رقم : 2674
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب الحث علی الصدقه، 2 : 705، رقم : 1017
3. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقه، 5 : 55، 56، رقم : 2554
4. ابن ماجه، السنن، مقدمة، باب سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، رقم : 203
5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359
بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی مزید تقسیم کی گئی ہے جن کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے :
بدعتِ حسنہ کی مزید تین اقسام ہیں :
وہ کام جو اپنی ہیئت میں تو بدعت ہو لیکن اس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو جیسے قرآنی آیات پر اعراب، دینی علوم کی تفہیم کے لئے صرف و نحو کا درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصول حدیث، فقہ و اصولِ فقہ اور دیگر علوم عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اہتمام، دینی مدارس کا قیام، درسِ نظامی کے نصابات ،ان کی اِصطلاحات اور اس کے علاوہ فِرقِ باطلہ(قدریہ، جبریہ، مُرجیہ، جہمیہ اور مرزائی وغیرہ) کا ردّ سب ‘‘بدعاتِ واجبہ‘‘ ہیں۔
شاطبی ،الاعتصام، 2 : 111
آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 14 : 192
نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 22
جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب، بلکہ عام مسلمان اسے ثواب اور مستحسن اَمر سمجھ کر کریں بدعتِ مستحبہ کہلاتا ہے۔ اس کے نہ کرنے والا گنہگار نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے جیسے مسافر خانے، مدارس کی تعمیر اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا ، جیسے نماز تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان ، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اوران میں شرکت نہ کرنے والا گناہگار نہیں ہوتا۔
نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 23
وحيد الزمان، هدية المهدی : 117
اُمت کی بھاری اکثریت کی طرف سے کیے جانے والے ایسے اَعمالِ حسنہ کے بارے میں حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ما رأه المؤمن حسنا فهو عند اﷲ حسن وما رأه المؤمنون قبيحًا فهو عند اﷲ قبيح.
بزار، المسند، 5 : 213، رقم : 1816
أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4465
طبرانی، المعجم الکبير، 9 : 112، رقم : 8583
‘‘جس عمل کو (بالعموم) مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مسلمان برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔’’
وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اختیار کرلیں بدعتِ مباحہ کہلاتا ہے۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ لذیذ کھانے اور مشروبات کے اِستعمال کو ‘‘بدعت مباحہ’’ سے تعبیر کیا ہے۔
ابن حجر مکی، الفتاوی الحديثية : 130
وحيد الزمان، هدية المهدی : 117
نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 23
بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں :
وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اختلاف اور انتشار واقع ہو یا وہ نئے اُمور جو اُصولِ دین سے متخالف و متناقض ہوں مثلاً نئے مذاہب، جیسے قدریہ، جبریہ، مرجیہ (اور آج کل مرزائی و قادیانی) وغیرہ کا وجود، جبکہ ان مذاہبِ باطلہ کی مخالفت ‘‘بدعتِ واجبہ’’ کا درجہ رکھتی ہے۔
نووی، تهذيب الاسماء واللغات، 1 : 22
وحيد الزمان، هدية المهدی : 117
جن نئے کاموں سے سنت موکدہ یا غیر موکدہ چھوٹ جائے۔ اس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلا ضرورت اور فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
ابن حجر مکی، الفتاوی الحديثية : 130
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved