اسلام دین فطرت اورمکمل ضابطہ حیات (Complete code of life) ہے، اس کی آفاقی تعلیمات ابدی اور دائمی ہیں۔ قرآن آسمانی ہدایت کا آخری سرچشمہ اور بنی نوع انسان کی رہنمائی کے لئے آخری الہامی کتاب ہے۔ یہ ایک ایسا مینارہ نور ہے جو قیامت تک زندگی کے ہر ہر گوشے کو منور کرتا رہے گا۔ کلام الہی نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوا، زبان مقدس سے جاری ہوا اور آپکی حیات مقدسہ قرآن کی عملی تفسیر ہے، اس لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جیتا جاگتا قرآن بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن اور صاحب قرآن تمام علوم کا منبع ہیں۔
روشنی علم کی جمالیاتی تفسیر کا نام ہے۔ آقائے دو جہاں کا فرمان ہے کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یہ بھی اس حقیقت کی طرف لطیف اور بلیغ اشارہ ہے کہ تعلیمات قرآن تک رسائی واسطہ رسالت کے بغیر ممکن نہیں۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبادت گزار گروہ میں بیٹھنے کی بجائے علم کا نور حاصل کرنے والوں اور علم کا نور بانٹنے والوں میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کِفَضْلیِ عَلٰی اَدْنَاکُمْ.
ایک عالم کی فضیلت ایک عابد پر اس طرح ہے جس طرح میری فضیلت تم میں سے سب سے ادنی پر ہے۔
(جامع الترمذی، ابواب العلم، 2 : 93)
آپ نے حصول علم کے لئے چین تک کے سفر کی ہدایت فرمائی ہے :
اُطْلِبُوْا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّيْنَ.
علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔
(جامع بيان العلم و فضله، 1 : 7)
غزوہ بدر کے موقع پر ریاست مدینہ کو مالی استحکام درکار تھا۔ جنگی قیدیوں سے بھاری زر فدیہ لیا جاسکتا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فروغ علم کی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا کہ جو قیدی دس دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے اسے زر فدیہ لئے بغیر رہا کردیا جائے گا۔ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چبوترے کی بنیاد رکھ کر پہلی درسگاہ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
اسلام نے جہاں نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کو فرائض کا درجہ دیا اس کے ساتھ علم حاصل کرنا بھی فرائض میں شامل کیا اور اس میں عورت یا مرد کی تخصیص نہ رکھی گئی :
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ.
علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
(جامع المسانيد، 1 : 33)
(جامع بيان العلم و فضله، 1 : 7)
اسلام مساوات انسانی کا علمبردار ہے، ابن آدم میں کسی تفریق کا روادار نہیں، نہ عربی کو عجمی پر اور نہ عجمی کو عربی پر کسی قسم کی فوقیت حاصل ہے۔ نہ گورے کو کالے پر۔ اصحاب رسول میں سلمان فارسی اور بلال حبشی بھی شامل ہیں۔ فتح مکہ کے وقت حبشہ کے بلال کو خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے کا اعزاز بخشا جاتا ہے، رؤسائے قریش بلال کو اپنا سردار کہہ کر پکارتے ہیں، لیکن حضور سرور کون و مکاں نے علم کی بنا پر فضیلت بیان کرتے ہوئے عالم اور جاہل کی برابری کی ممانعت کردی کہ ایک عالم کو ایک جاہل پر فوقیت حاصل ہے، علم اور تقویٰ کو معیار فضیلت قرار دیا گیا۔ علم ہی انسان اور حیوان میں تقریق کرتا ہے۔ علم ہی انسان کوخیرو شر میں تمیز کرنے کا ہنر عطا کرتا ہے۔
ہو بنیادِ فضیلت علم، تقوی اور دانائی
وقارِ آدمِ خاکی کو مشروطِ ہنر کرنا
صحیفہ انقلاب میں بے شمار آیات مقدسہ علم کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں علم کی فضیلت کے بارے میں سینکڑوں احادیث مبارکہ منقول ہیں۔ عہد نبوی سے خلفائے راشدین تک اور پھر آنے والی صدیوں میں ہمارے اسلاف نے علمی میدان میں جتنا کام کیا تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یورپ اُس وقت تاریک ادوار (Dark ages) میں سے گزر رہا تھا جبکہ قرطبہ کی بنیادوں سے علم و ہنر کی کرنیں پھوٹ کر چار دانگ عالم کو منور کر رہی تھیں۔ سقوط بغداد کے وقت تاتاریوں کی بربریت سے دجلہ کا پانی سرخ اور پھر کتب خانوں کو دریا برد کرنے سے سیاہ ہوگیا تھا۔ آج ہمارے علمی اثاثے یورپ کی لائبریریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ ان کے انگریزی تراجم میں مغربی مفکرین نے علمی خیانتوں اور فکری مغالطوں کی بھر مار کی ہے تاہم وہ اپنے تمام تر تعصب کے باوجود ہمارے اہل دانش کی عظمت اور ان کی علمی وجاہت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے۔ (مسلمانوں کی علمی تاریخ سے آگاہی کے لیے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی شہرہ آفاق تصنیف مقدمہ سیرت الرسول کے باب ششم کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔)
ہمارا دین سراپا علم، ہمارے رسول معلم اعظم اور ہماری تاریخ عظیم علمی کارناموں کی امین ہے۔ ہماری علمی تاریخ جتنی اعلیٰ اور ارفع ہے، ہم اسی قدر جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری روایت علمی بے عملی کی راکھ میں دفن ہوچکی ہے۔ جہالت کی تاریکی کو ہم نے اپنا مقدر بنالیا ہے۔ وہ مسلم امہ جس کی ابتداء علم اور انتہا بھی علم ہے اس وقت جاہلوں میں سرفہرست ہے اور تعلیمی پسماندگی کے جہنم میں جل رہی ہے۔ ہم بھول چکے ہیں کہ جہالت ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔ یہ مادی اور روحانی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ پورے عالم اسلام میں شرح خواندگی شرمناک حد تک کم ہے، ہمارے زوال و انحطاط کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ علم کی مشعل ہمارے ہاتھ سے چھن چکی ہے۔
ان حالات کے تناظر میں نابغہ عصر، مفکر اسلام، مفسر قرآن قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ملت کے اس مرض کی درست تشخیص (Real Diagnosis) کرتے ہوئے فروغ علم کے لئے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے۔ غیر سرکاری (N.G.O)سطح پر یہ پوری دنیا میں فروغ علم کاسب سے بڑا منصوبہ ہے۔ قائد تحریک اپنے کارکنان کے ساتھ قریہ قریہ، بستی بستی، شہر شہر اور ملک ملک علم کے چراغ روشن کر رہے ہیں اور شعوری بیداری کو ہر آنگن کا مقدر بنا رہے ہیں۔ جہالت کے اندھیروں کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے اور وہ ہر سطح پر جہالت کے اندھیروں کے خلاف مصروف جہاد ہیں۔
اسلام کا تصور علم ایک متعدد الجہات (Multi Dimensional) موضوع ہے۔ یہ موضوع ایک ایسے بحر بے کراں کی مانند ہے جس کے تمام گوشوں کا احاطہ اس مختصر سے کتابچے میں ممکن نہیں تاہم کوشش کی گئی ہے کہ اجمالاً ہی سہی موضوع کے تمام پہلوؤں کو سمیٹا جائے۔ زیر نظر کتابچہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے ایک خطاب سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس خطاب میں آپ نے سورہء علق کی پہلی پانچ آیات کے حوالے سے اسلام کے تصور علم، مقصد علم، نصاب علم، نتیجہ علم اور وسعت علم پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہی قرآنی تصور مصطفوی انقلاب کے عوامی تعلیمی منصوبے کا بنیادی پتھر ہے۔
ناصر اقبال ایڈووکیٹ
492 ۔ ایم ماڈل ٹاؤن لاہور
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved