صدائے انقلاب (مجموعہ خطابات)

اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکاء سے خطاب (13 تا 17 جنوری 2013)

باب دوم : اسلام آباد لانگ مارچ اور دھرنے کے شرکاء سے خطابات (13 تا 17 جنوری 2013ء)

اسلام آباد لانگ مارچ کے عظیم شرکاء! علماء و مشائخ، اسکالرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، طلبائ، تاجر، کسان، مرد و خواتین اور ہر شعبہ زندگی سے اس مارچ میں شرکت کرنے والے عظیم سپاہیو! آج کا یہ اجتماع تحریک منہاج القرآن کا اجتماع نہیں ہے، یہ پوری قوم کا اجتماع ہے۔ اس عظیم مارچ کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والے کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ کیا لاکھوں لوگ صرف اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر اپنی جان، مال اور سر دھڑ کی قربانی دینے کے لیے یوں نکل آتے ہیں۔ یہ وہی غیور عوام ہیں جو کل عدلیہ کی آزادی بحال کروانے کے لئے نکلے تھے آج یہ عوام عدلیہ کے فیصلوں اور اس ملک کے آئین پر عمل در آمد کروانے کے لئے نکلے ہیں۔

سن لو! میرے پیچھے کوئی اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسی نہیں ہے بلکہ صرف اللہ کا فضل ہے۔ مصطفی کا کرم ہے اور اس ملک کے کروڑوں مرد و خواتین، بزرگ اور نوجوان ہیں۔

1۔ عظیم الشان تاریخی لانگ مارچ پر مبارک باد

پاکستان کے عظیم عوامی، جمہوری انقلاب کے بیٹو اور بیٹیو، جملہ مشائخ، علمائ، بزرگ، اساتذہ، طلبائ، سیاست دان، تاجر کمیونٹی، کسان، افسران، ملازمین اور پاکستانی سوسائٹی کے تمام طبقات کے نمائندگان!

سب سے پہلے میں آپ سب کو اور 18کروڑ پاکستانی عوام کو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور ملک میں حقیقی عوامی جمہوریت کے قیام کے سلسلے میں ظلم و جبر، رشوت ستانی، دھاندلی، ناانصافی کے خاتمے کے لیے اور عوام کے چھینے ہوئے حقوق کو اشرافیہ، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، دہشت گردوں، لٹیروں، ڈاکوئوں اور چوروں کے ہاتھوں سے چھین کر انہیں واپس دلانے کے لیے جو عظیم الشان تاریخی لانگ مارچ 13 جنوری سے شروع ہوا تھا، آج تقریباً 38 گھنٹے کے بعد مسلسل سفر طے کرکے 15 مارچ کو صبح 2 : 15 بجے اسلام آباد پہنچ گیا، آپ کو مبارکباد ہو۔ میں نے تاریخ پڑھی ہے اور عالم اسلام کے بڑے بڑے انقلابات اور لوگوں کے مارچ دیکھے ہیں۔ اﷲ رب العزت گواہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ لانگ مارچ صرف پاکستان کی تاریخ کا نہیں بلکہ اقوامِ عالم اور دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا لانگ مارچ ہے۔ آج منگل کی صبح 2 : 15 بجے اسلام آباد میں لانگ مارچ ختم ہوا اور اب سے انقلاب کا آغاز ہوچکا ہے۔ اس قوم کے بوڑھے، مرد، جوان، بیٹے، مائیں، بہنیں، بیٹیاں اس دھرتی پر انقلاب دیکھنے کے لیے سیکڑوں میلوں کا سفر کر رہے ہیں، ان انقلاب کے پروانوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے لئے وقت کے فرعونوں، نمرودوں، یزیدوں اور ظالموں و جابروں نے ان کی بسیں چھین لیں مگر وہ ان سے پائوں اور ٹانگیں نہیں چھین سکتے۔

2۔ انقلابی کارکنوں کو پر امن رہنے کی ہدایات

میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس مارچ کے آغاز سے پہلے رحمن ملک جب مجھے ملنے اور اسلام آباد میں مارچ کی جگہ کے تعین کے بارے بات کرنے لاہور آئے تھے تو ان کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ مارچ D چوک میں ہوگا۔ میں نے خود انہیں کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ سفارت خانوں اور سپریم کورٹ کا کام متاثر نہ ہو۔ سو ان سے طے ہو چکا اب میرا خطاب D چوک میں ہو گا۔

میرے انقلاب کے سپاہیو! میرے انقلاب کے کارکنو! اس ارضِ وطن اور دھرتی کے مجاہدو، بیٹو، بیٹیو! تم خود سکیورٹی بن جائو، تم خود پولیس بن جائو، تم خود رینجرز بن جائو، اپنی حفاظت خود کرو، اپنے بھائیوں، بہنوں، بیٹے بیٹیوں کی حفاظت خود کرو، اسلام آباد کی ایک ایک بلڈنگ کی حفاظت خود کرو۔ میرا وعدہ ہے کہ میرے چالیس لاکھ کے مارچ میں ایک پتہ نہیں ٹوٹے گا۔ 38 گھنٹے گزرے، الحمد ﷲ! ایک پتہ نہیں ٹوٹا۔ میرا وعدہ ہے ایک گملا نہیں ٹوٹے گا، ایک شیشہ نہیں ٹوٹے گا، ایک پتھر نہیں لگے گا۔ نہ کوئی پتھر چلے، نہ کوئی شیشہ ٹوٹے، نہ کسی بلڈنگ کو نقصان ہو، امن کے پیکر بن کر جاؤ۔

پاکستانیو! میرے بھائیو! میری بہنو! میرے بزرگو! میری مائوں! میرے بیٹو! میری بیٹیو! میں سمجھتا تھا کہ پاکستانی قوم کو بے حس کر دیا گیا ہے، یہ ذبح ہو جائے گی، مر جائے گی مگر انقلاب کے لیے نہیں اٹھے گی۔ میں یہ سمجھ رہا تھا لیکن رب ذو الجلال کی عزت کی قسم! اپنے حقوق کی باز یافت اور قومی وقار کی بحالی کے لئے پاکستانی قوم دنیا کی ہر قوم سے آگے نکل گئی ہے۔

سن لو! میں حسینی مشن لے کے آیا ہوں؛ ہم نے آئین، قانون اور عدلیہ کی طاقت کے ساتھ کامیابی حاصل کرنی ہے۔ بیٹیاں سیدہ زینب کا کردار ادا کریں، بیٹے سیدنا علی اکبر کا کردار ادا کریں اور سارے حسینی مشن کے ساتھ وابستہ رہیں۔ مجھ سے وعدہ کرو ایک دن لگ جائے، دو دن لگ جائیں، تین دن لگ جائیں، جب تک میں یہاں ہوں آپ جم کر یہیں رہیں گے۔ سردی ہوگی، بھوک ہوگی، پیاس ہوگی، جو کچھ بندوبست ہے ہوتا رہے گا۔ اب کسی کو گھر جانے کی اجازت نہیں، ہرگز نہیں ہے؟ اب جینا بھی یہاں ہوگا اور مرنا بھی یہاں۔

اﷲ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آپ نے اب جانا نہیں، یہیں رہنا ہے۔ پولیس ان کی تھی وہ لے گئے، آج سے آپ میری پولیس ہیں، آپ سیکورٹی ہیں، اسلام آباد کی حفاظت آپ نے کرنی ہے۔ اسلام آباد کی گلی گلی، کوچہ کوچہ، پتہ پتہ، عمارت کی ایک ایک اینٹ کی حفاظت آپ نے کرنی ہے۔

3۔ جمہوری اُصولوں کے مطابق پر امن لانگ مارچ

یاد رکھیے! ہمارا جمہوری انقلاب، عوامی انقلاب آئینی نظریہ اور جمہوری اصولوں کے مطابق ہے۔ ہماری جدو جہد انسانی حقوق کے مطابق ہے۔ ہم اسلام کی اخلاقی اور معاشرتی اقدار پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو ذریعہ عزت و وقار سمجھتے ہیں۔ یہ لانگ مارچ اور آج کا یہ انقلابی احتجاج Millions افراد کی موجودگی، Millions پاکستانی عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر، سراسر پرامن (totally peacefull)، جمہوری (absolutely democratic,)، آئینی (completely constitutional) اور قانونی(strictly lawful)ہے۔ اس میں کسی قسم کی بد امنی کا شائبہ تھا، نہ ہے، نہ ہو گا۔ ہم بدامنی پھیلانے والوں کا خاتمہ کرنے آئے ہیں خود بدامنی پھیلانے نہیں آئے۔ لاکھوں افراد کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ سمندر، بے قابو جذباتی سمندر نہیں ہے۔ الحمد ﷲ اس طرح ان کے جذبات میری مٹھی کے اندر ہیں۔ اگر میں انہیں کہوں تو یہ ایک گھنٹے کے اندر ایوانوں پر قبضہ کر لیں، اگر میں غیر جمہوری، غیر آئینی اور غیر قانونی طریقوں پر یقین رکھتا تو میں انہیں آج ایوان ہائے اقتدار پہ قبضہ کرنے اور ان میں داخل ہونے کا حکم دے دیتا اور دنیا کی کوئی طاقت ان کو نہ روک سکتی۔ مگر نہ میں غیر آئینی شخص ہوں نہ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا پاکستانیوں کا سمندر غیر آئینی ہے، ہم آئین کی بالادستی کے لیے آئے ہیں۔ پاکستان کے لاکھوں افراد کی حکمرانی کے لیے آئے ہیں، آئین کی بالادستی کے لیے آئے ہیں، حقیقی جمہوریت کے نظام (enforcment of true democracy) کے لیے آئے ہیں۔ یہ لوگ اس ملک سے بد امنی اور تباہی و بربادی کے خاتمے کے لیے آئے ہیں۔

حکومت کی بے پناہ زیادتیوں کے باوجود ہم اشتعال میں نہیں آئیں گے۔ انتقام نہیں لیں گے۔ یہ پورا mob ملینز مارچ کا mob امن پسند ہے، عدل پسند ہے، انصاف پسند ہے اور یہ ظلم، بد عنوانی اور بد امنی کا دشمن ہے۔ ہم ملک میں انارکی اور بد امنی نہیں پھیلانا چاہتے۔ ہم آپ کو آئین کے تابع کرنا چاہتے ہیں، حقیقی جمہوریت کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔

4۔ ہماری جد و جہد کسی خاص شخصیت کے خلاف نہیں

ہماری یہ انقلابی جد و جہد افراد کے خلاف نہیں نظام کے خلاف ہے۔ محترم آصف علی زرداری صاحب سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ محترم نواز شریف صاحب سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ اسفند یار ولی خان صاحب سے، ایم کیو ایم کے لوگوں سے، کسی پولیٹیکل پارٹی سے میری کوئی دشمنی نہیں ہے۔ میری جد و جہد اس ظالم نظام کے خلاف ہے۔ میں غریبوں کے لئے اٹھا ہوں۔ میں اس قوم کی قانونی جنگ لڑ رہا ہوں۔ مجھے تو ذاتی طور پرایسی اتنی پریشانی نہیں ہے، میرا کام بڑھتا ہے نہ گھٹتا ہے۔ اللہ نے مجھے عزت کی زندگی عطا کی ہے۔ میں قوم کی بیٹیوں کے سروں کے دوپٹے کے لئے لڑ رہا ہوں، ان کے بچوں کے منہ میں دودھ کے فیڈر دینے کے لیے لڑ رہا ہوں، ان کی جان ومال کے تحفظ کے لئے لڑ رہا ہوں، نوجوان نسل کے مستقبل کے لئے لڑ رہا ہوں۔ اس جنگ میں ساری قوم میرے ساتھ پر امن طریقے سے شریک ہو جائے۔ میری زندگی کی تاریخ پوری کائنات میں امن کی تاریخ ہے۔ میں کوئی گولی بندوق سے تختہ الٹنے نہیں آیا، میں آئینی، قانونی، جمہوری آدمی ہوں۔ پر امن ہوں اور امن کا داعی ہوں، پوری کائنات انسانیت میںعالم مغرب بھی اور عالم مشرق بھی، مجھے امن کے حوالے سے پہچانتا ہے۔

لوگوں کے ذہنوں میں یہ شبہ اور شک ڈالا جاتا ہے کہ پہلے ڈاکٹر طاہر القادری کہاں تھے، اچانک اس وقت کیوں، یہ آواز بلند کی؟ تو سن لیں! اگر یہ آواز آج سے ایک سال پہلے بلند ہوتی تو آپ یہ کہتے کہ اس کے پیچھے کوئی سازش ہے اور ہمیں اپنی ٹرم مکمل نہیں کرنے دی۔ ہمارا مینڈیٹ پانچ سال کا تھا اور ہمارا مینڈیٹ مکمل ہونے سے پہلے کسی سازش کے تحت ہمارے خاتمے کے لئے مارچ شروع ہوگئے ہیں۔ اگر پہلے آتا تو تم یہ کہتے۔ ہم نے اس لئے پہلے اقدام نہیں کیا کہ تم اپنے پانچ سال کی مدت کم و بیش پوری کر لو، جو اب پوری ہونے کو ہے۔ تاکہ آپ کے پاس جو اہلیت اور صلاحیت ہے وہ بے نقاب ہوکر دنیا کے سامنے آجائے۔ اگر کچھ ڈیلیور کر سکتے ہیں، اگر قوم کو rule of law دے سکتے ہیں، اگر قوم کو آئینیت دے سکتے ہیں، اگر قوم کو بنیادی حقوق مہیا کرسکتے ہیں، اگر اس ملک سے بد امنی دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتے ہیں، اگر لاء اینڈ آرڈر بحال کر سکتے ہیں، اگر لوگوں کو بجلی گیس پانی دے سکتے ہیں، اگر لوگوں کو روزگار اور ان کی ضروریات کی فراہمی کر سکتے ہیں، اگر ملک کے نظام میں شفافیت اور accountability لا سکتے ہیں، اگر اس ملک میں عدل و انصاف اور قانون کا بول بالا کرسکتے ہیں، اگر اس ملک میں مختلف اداروں کی عزت اور احترام کو بحال کرسکتے ہیں، اس ملک میں حقیقی جمہوریت لا سکتے ہیں، اس ملک کی آزادی، بقا، سالمیت اور خود مختاری کا تحفظ کرسکتے ہیں، اگر آپ میں کسی شے کی بھی صلاحیت ہے تو پورے پانچ سال ہیں، جب فوج نے بھی مداخلت نہیں کی۔ میں افواجِ پاکستان کو مبارک دیتا ہوں کہ انہوں نے ایک جمہوری حکومت کو پورا موقع دیا اور جمہوری نظام کو ڈی ریل نہیں کیا۔

5۔ ہم پُراَمن انقلاب کے داعی ہیں

اب یہاں میں پہلا Point of National Agenda دے رہا ہوں۔

My first point of National Agenda of reforms, the democractic reforms and a national agenda of electoral reforms :

وہ یہ ہے :

We want peace at home and peace abroad. This is my first point.

ہم گھر کے اندر بھی امن چاہتے ہیں اور ملک کے باہر بھی امن چاہتے ہیں۔ ہم نہ اپنے ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنانے کی اجازت دیتے ہیں کہTattoos والے لوگ یہاں سے پکڑے جائیں، اور کچھ بعید نہیں کہ اگر وفاقی حکومت کے بعض وزراء اور پنجاب حکومت کے بعض وزراء کے کوٹ اور قمیض اتار کر دیکھنے کا موقع ملے تو شاید دو ایک آدمی ایسے ملیں جن کے جسم پرTattoos بنے ہوں۔ یہ دہشت گردی کے importers ہیں، دہشت گردی کے exporters ہیں، یہ دہشت گردی کے founders ہیں، دہشت گردی کے promoters ہیں، دہشت گردی کو strengthen کرنے والے ہیں۔ جبکہ امت مسلمہ کا اور پاکستانی قوم کا عقیدہ یہ ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو peace maker اور merciful مانتے ہیں۔ وہی امن، رحمت اور سکون جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عالم انسانیت کو عطاء کیا، ہم اپنے معاشرے میں دیکھنا چاہتے ہیں سب کچھ کرپٹ اور نا اہل حکمران مہیا نہیں کر سکتے۔ ہم اپنی سوسائٹی کو باقی دنیا کے لیے بھی امن، رحمت اور آشتی کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں peace اور سیکورٹی کو عام کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے ملک سے پوری دنیا کو امن کا پیغام propagate کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے ملک میں برداشت کا کلچر چاہتے ہیں۔ ہم اپنی سوسائٹی کو moderate دیکھنا چاہتے ہیں۔

There should be no place of any kind of extremism, radicalism and terrorism. We want a moderate, peaceful and progressive democratic society in our country.

6۔ آئین کے تحت قیامِ امن ریاست کی ذمہ داری ہے

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 40 میں لکھا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ یہ اندر اور باہر پوری دنیا میں امن کو promote کرے۔ یہ ہمارا حق ہے۔ ہمیں اپنے ملک خطے اور علاقے میں تعمیری کردار ادا کرنا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے حکمران اور لیڈر اوپر سے نیچے تک کرپشن میں گھرے ہوئے ہیں، یہ غریبوں کا خون چوسنے والے ہیں، یہ ایسا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں سوسائٹی میں peacemaker اور استحکام قائم کرنے والا ہونا چاہیے اور یہ کردار افواجِ پاکستان اور پاکستان کی سوسائٹی بڑے اچھے طریقے سے ادا کر سکتی ہے مگر پولیٹیکل حکمران نے اپنی نااہلیت کی وجہ سے پاکستان کو اس کردارسے محروم کر دیا ہے۔ ہم اپنے عوام کو اور باہر کی دنیا کو امن دینے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ہم تمام مذاہب کے لیے خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ ہم ڈائیلاگ پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم جمہوریت پر، اصولوں پر، آئینی قوانین پر، دلیل پر، ideology پر، یقین رکھتے ہیں۔ اور یہ یقین پوری سوسائٹی اور سارے نظام میں نافذ العمل دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے امن کے لیے بڑی قربانیاں دیں۔ ہم war on terror کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر پچھلے دس بارہ سال سے لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے ہماری معیشت تباہ ہو گئی۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود جس میں ہزاروں جانیں گئیں، ہمارا امیج کیوں خراب ہے۔ ہمیں پھر بھی دہشتگرد ملک دیکھا جا رہا ہے۔ ہمیں پر امن سوسائٹی نہیں دیکھا جاتا۔ سوچنا ہوگا، اس کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟ بارہ سال تک افواجِ پاکستان کی قربانیاں، مسجدوں کی قربانیاں، امام بارگاہوں کی قربانیاں، جی ایچ کیو کی قربانیاں، کامرہ بیس کی قربانیاں، پشاور بیس کی قربانیاں، عوام کی قربانیاں، میڈیا کی قربانیاں، میڈیا کے لوگ شہید ہوتے رہے ہیں، ابھی بلوچستان میں اتنی قربانیوں کے باوجود آج بھی ہمیں دہشت گرد سوسائٹی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے ذمہ دار یہ نا اہل سیاسی لیڈرز ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ جتنے بھی غیر مسلم مذاہب ہیں، خواہ وہ مسیحی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں، پارسی ہوں، یاجو بھی غیر مسلم ہیں، ان کا حق بھی پاکستان میں مسلمان شہریوں کے برابر ہے۔ ان کی عبادت گاہیں بھی ہماری مساجد کی طرح حفاظت کا برابر حق رکھتیں ہیں۔ کیونکہ یہ برابر کے شہری اور اس ملک کے فرزند ہیں۔

7۔ حکمران عوام کو اور باہر کی دنیا کو امن دینے سے قاصر ہیں

پاکستان کے عوام کی جان و مال عزت و آبرو کی حفاظت کا وعدہ قائداعظم نے کیا تھا۔ مگر ہماری قیادت قائدِاعظم کے اس وعدے کو اور آئینِ پاکستان کے وعدے کو بھی پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہ گئی ہے۔ ملک میں Law and Order Situation یہ ہے کہ جو شخص گھر سے نکلتا ہے اسے یقین نہیں کہ شام کو سلامت واپس آئے گا کہ نہیں۔ جو بچہ سکول کے لئے جاتا ہے اس کے ماں باپ کو اطمینان نہیں کہ بیٹا بیٹی واپس آئیں گے یا نہیں، میڈیا کے لوگ جب اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے جاتے ہیں تو انہیں یقین نہیں کہ دہشت گردی کے حملوں سے بچیں گے یا نہیں، ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والی ہزارہ برادری کے لوگ کوئٹہ بلوچستان میں سوا سو لاشیں لے کر چار دن بیٹھے رہے! بولو، اس کا نام حکومت ہے؟ اس کا نام آئین ہے؟ اس کا نام جمہوریت ہے؟ اس کا نام اخلاق و شرافت ہے؟ پھر کراچی کی قتل و غارت گری دیکھیے! اُس کی تباہی ختم ہونے کو نہیں آ رہی۔ وجہ کیا ہے؟ حکومتی گماشتوں نے خود دہشت گرد پال رکھے ہیں اور وہ دہشت گرد بعض حکومتی گماشتوں کی مونچھ کے بال ہیں۔ انہیں تکلیف ہوتی ہے، وہ انہیں چھپاتے ہیں، ہر وقت ان کے چہروں پر کپڑا ڈال کر دکھاتے، ان کی شناخت نہیں ہونے دیتے، چونکہ یہ ان کا نیٹ ورک ہے اور اس دہشت گردی کی آڑ میں یہ مال و دولت لیتے ہیں، مدد لیتے ہیں، قرضے لیتے ہیں، اس سے کرپشن کرتے ہیں اور قوم کو دہشت گردی کی آگ میں مسلسل جلاتے رہتے ہیں اور یہ عمل افواجِ پاکستان کے جوانوں کے مقدس خون کا عمل ضائع کر رہا ہے، ان کو demorolize کر رہا ہے۔

پاکستان کے سیاسی لیڈروں کے پاس political will نہیں ہے، courage نہیں ہے، vision نہیں ہے، پالیسی نہیں ہے، ideology نہیں ہے، کوئی لاء نہیں ہے، اور جو شخص حکومت کی ان نااہلیتوں کے بارے میں بات کرے اس پر یہ لوگ دہشت گرد چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈراتے دھمکاتے ہیں کہ اس مارچ پر دہشت گردی کا سخت حملہ ہوناہے۔ مبارک ہوپاکستانی قوم کے غیور جوانو! آپ دہشت گردی کے حملوں کے اعلانات کے باوجود Millions کی تعداد میں آگئے۔ رب نے ہماری حفاظت کی، اور وہ اس ملک کی حفاظت کرنے والا ہے۔

8۔ آئین کی رُو سے معیارِ قیادت

آئین کہتا ہے کہ ممبر پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار کا حامل شخص ہو جس کی شہرت قانون شکنی کی نہ ہو۔ وہ دانا، قابل، نیک سیرت، ایماندار اور امانت دار ہو، کرپٹ اور عیاش نہ ہو۔ یہ آئین کا آرٹیکل 62 اس کی سیکشن 1 کلاز f کو پڑھ رہا ہوں

He is sagacious, righteous and non-profligate, honest and 'ameen'.کہ وہ دیانتدار اور ایماندار ہو اور جو ان شرائط کا حامل نہیں اس کے متعلق آئین کے الفاظ یہ ہیں :

a person shall not be qualified to be elected or chosen as a member of parliament

جب تک یہ شرائط کسی میں پوری نہ ہوں اس وقت تک ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے کے لئے اہل ہی نہیں ہے۔ یہ معیارِ قیادت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمائی :

{اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰی اَهلِهَا} [النساء، 4 / 58]

کہ اقتدار سب سے بڑی مقدس امانت ہے اور یہ صرف ان لوگوں کے سپرد کی جانی چاہیے جو اس کے اہل ہیں۔ اسی اہلیت کی تعریف پاکستان کے آرٹیکل 62 کلاز f نے کردی اور پھر قرآن کہتا ہے

{وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ} [النساء، 4 / 58]

جب یہ حکومت کی مسند پر بیٹھ جائیں تو نظام عدل اور انصاف کے ساتھ چلائیں۔ ایمان سے کہیے، ان لوگوں کے اندر وہ اہلیت ہے جو آئین نے بتائی؟ کیا یہ لوگ نظامِ حکومت عدل و انصاف سے چلا رہے ہیں جو قرآن نے کہا اور جو آئین پاکستان نے کہا؟ نہیں، آئین کے آرٹیکل 63 کے سیکشن 1 کی کلاز o ہے :

he or his spouse or any of his dependents has defaulted in payment of government dues and utility expenses, including telephone, electricity, gas and water charges in excess of ten thousand rupees, for over six months, at the time of filing his nomination papers.

وہ شخص یا اس کی بیوی یا بیوی ہے تو اس کا شوہر یا اس کے بچے اور اس کے dependents ان میں سے کسی شخص نے بھی اگر پانی، بجلی، گیس یا ٹیلی فون کے بل ادا نہ کیے ہوں اور وہ چھ ماہ تک دس ہزار روپے تک کا ڈیفالٹر رہے تو وہ رکن اسمبلی نہیں بن سکتا۔ میں پوری قوم کی طرف سے فقط آئین کی عمل داری کا مطالبہ کر رہا ہوں، آئین کہتا ہے کہ بجلی چور، پانی، سوئی گیس اور ٹیلی فون کے بل کا نادہندہ، ڈیفالٹر شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں بن سکتا اور یہاں ایسے لوگ ہیں جن کے چار چار بار ڈیفالٹر ہونے کی وجہ سے بجلی کٹ چکی، لائن مین ان کے گھر بجلی کا بل لینے کے لئے نہیں جاسکتا اور کوئی قانون ان کا گریبان پکڑ نہیں سکتا اور پھر یہ ٹیکس چور ہیں؛ ستر فیصد کے قریب پارلیمنٹ کے ممبران اور اسمبلیز کے ممبران ایسے ہیں جو ٹیکس دینا تو درکنار انہوں نے ٹیکس ریٹرن تک داخل نہیں کی۔ ٹیکس کا آرڈیننس کہتا ہے کہ جس شخص کی سالانہ انکم پانچ لاکھ روپے ہو یعنی ماہانہ 41 ہزار روپے اس پر ٹیکس واجب ہے اور جس پر ٹیکس واجب ہے، اس کے لئے واجب ہے کہ وہ ٹیکس ریٹرن داخل کرے اور اپنے sources of income بیان کرے۔ اور جو شخص اپنے sources of income disclose نہ کرے ٹیکس آرڈیننس آف پاکستان کے تحت اس کے لیے دو یا تین سال سزائے قید ہے اور جرمانہ ہے۔

9۔ ارکانِ اسمبلی اور آئین کی پامالی

جس شخص کو 3 سال کے لئے جیل میں ہونا تھا وہ 5 سال کے لیے پارلیمنٹ میں بیٹھا ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 سیکشن 1 کلاز n بھی سن لیجئے! میں نے جب کہا کہ law breakers can not be law makers یعنی قانون توڑنے والے قانون ساز نہیں بن سکتے، انہیں جیل میں ہونا چاہیے تو یہ مطالبات میں نے خود سے نہیں گھڑے۔ یہ آرٹیکلز تو آج تک آئین پاکستان کا حصہ ہے۔ اگر آپ بات کرتے ہیں کہ آئین کے خلاف کوئی بات نہیں ہوگی تو کیا یہ آئین میں لکھا ہوا نہیں ہے؟ جواب دو۔ آئین کہتا ہے کوئی ایسا شخص ممبر پارلیمنٹ نہیں ہوسکتا یعنی آئین کے آرٹیکل 63 کے سیکشن 1 کی کلاز n کے مطابق :

he has obtained a loan for an amount of two million rupees or more, from any bank, financial institution, cooperative society or cooperative body in his own name or in the name of his spouse or any of his dependents, which remains unpaid for more than one year from the due date, or has got such loan written off;

ہر وہ شخص جس نے پاکستان کے کسی بھی بینک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا باڈی سے 20 لاکھ یا اس سے زائد کا قرض اپنے نام پر، اپنی بیوی یا شوہر کے نام پر یا کسی بھی نام پر لیا ہو اور وہ ایک سال تک ڈیفالٹر رہا ہو۔ صرف ایک سال تک! یہاں تو لوگ پچیس پچیس سال سے ڈیفالٹر بیٹھے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ ایک سال ڈیفالٹر رہا ہو یا 20 لاکھ کا قرض لے کر اس کو معاف کروا لیا ہو تو ایسا شخص آئین پاکستان کی رو سے پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہوسکتا۔

عوام میں سے کوئی شخص جو غریب ہے، چھوٹا دوکاندار ہے، چھوٹا تاجر ہے، چھوٹا کسان ہے، مزدور ہے، محنت کش ہے، بچے کو تعلیم دلانا چاہتا ہے، روزگار چاہتا ہے، بے سہارا شخص جس کے پاس رشوت اور طاقت نہیں، وہ بینکوں اور مالیاتی اداروں سے پانچ دس لاکھ قرض لینے جائے یا بیس لاکھ قرض لینے جائیں، انہیں کوئی نہیں دیتا ہے، یہ قرضے ایم این ایز کو، ایم پی ایز کو، سینیٹرز کو، وزیروں کو، امیروں کو، کبیروں کو، اُن کے خاندانوں کو ملتے ہیں اور وہ تو بیس لاکھ نہیں بلکہ بیس بیس ارب کھا گئے۔

اُنہی کو قرضے ملتے ہیں اور ان سے ایک پائی وصول کرنے کی کسی کو جرات نہیں، حکومت چونکہ ان کی ہے۔ تو کیا قوم کے سارے خزانے قائداعظم نے ان لٹیروں کے لیے بنائے تھے؟ کیا ریاست اور اس کے وسائل لٹیروں کے لئے تھے یا اٹھارہ کروڑ غریب عوام کے لئے تھے؟ جو حق غریبوں کو نہیں ملتا وہ حق ان لٹیروں کو بھی نہیں دیا جائے گا۔ لہٰذا ہم ایسا الیکشن چاہتے ہیں جس میں کسی کے امیدوار بن کے الیکشن میں اترنے سے پہلے ان تمام چیزوں کی قانونی طورپرچھان بین ہوچکی ہو تاکہ چور، ڈاکو، لٹیرے، کرپٹ اوربد عنوان پہلے سے کک آؤٹ کر دیے جائیں اور انتخاب کے میدان میں مقابلہ صرف ان لوگوں کے درمیان ہو جنہیں آئین پاکستان اہل قرار دیتا ہے۔ نا اہل چھلنی سے گزارکر نکال دیے جائیں اور اچھے لوگ رہیں تاکہ قوم اچھوں میں سے جسے چاہیں اس کا انتخاب کرے۔ ہم بدمعاشوں اور شریفوں کا مقابلہ نہیں چاہتے، ہم طاقتوروں غریبوں کا مقابلہ نہیں چاہتے، ہم لٹیروں اور محکوموں کا، مظلوموں کا مقابلہ نہیں چاہتے۔ اس سے کبھی جمہوریت نہیں آسکتی بلکہ یہاں ڈیموکریسی کے لئے Levelled Playfield (ہموار میدان) چاہیے۔

10۔ عوام کے حقوق سے حکمرانوں کی بے اعتنائی

امن پاکستان کے غیور شہریوں اور غریبوں کی ضرورت ہے، ان حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کی نہیں۔ ان کے پاس تو بے تحاشا پولیس اور الیٹ فورسزہوتی ہیں۔ انصاف عوام کی ضرورت ہے، حکمرانوں کو انصاف کی کوئی محتاجی نہیں، انصاف ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ ترقی عوام کی ضرورت ہے، حکمرانوں کی نہیں، حکمران پہلے سے ہی ترقی یافتہ ہیں۔ آئین عوام کی ضرورت ہے، قانون عوام کی ضرورت ہے، روزگار عوام کی ضرورت ہے بجلی، پانی، گیس عوام کی ضرورت ہے، علاج معالجہ عوام کی ضرورت ہے، حکمرانوں کو توان میں سے کسی چیز کی کمی نہیںہے۔ پس یہ کیوں باہر نکلیں گے؟ جب عوام باہر نکلیں گے تو یہ کہیں گے کہ یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ ان کی جمہوریت نام ہی لُوٹ مار ہے، اِن کی ضرورت جرائم کو بڑھانا ہے، اِن کی ضرورت قتل و غارت گری کو بڑھانا ہے۔ عوام کی ضرورت جمہوریت اور برابری ہے مگر سیاسی لیڈروں کی ضرورت بادشاہت اور برتری ہے۔ عوام کی ضرورت تعلیم ہے اور حکمرانوں کی ضرورت انہیں تعلیم سے محروم اور جاہل رکھنا ہے۔ عوام کی ضرورت روزگار ہے، حکمرانوں کی ضرورت انہیں روزگار سے محروم رکھنا ہے۔ عوام کی ضرورت گھر ہے حکمرانوں کی ضرورت انہیں بے گھر اور محتاج رکھنا ہے۔ عوام کی ضرورت روٹی کا نوالہ ہے، حکمرانوں کی ضرورت انہیں بھوکا پیاسا رکھنا ہے۔ عوام کی ضرورت خوشحالی ہے، حکمرانوں کی ضرورت ان کی بدحالی ہے۔

عوام کی ضرورت ہے کہ وہ طاقتور ہوں، حکمرانوں کی ضرورت ہے کہ وہ بالکل کمزور اور مایوس ہوں، وہ جاہل رہیں، محروم رہیں، پسماندہ رہیں، تعلیم یافتہ نہ ہوں، عوام کے بچوں کو روزگار نہ ملے، عوام خوشحال نہ ہوں۔ دونوں کی ضرورتوں کا یہ فرق کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہ چاہتے ہیں کہ اگر عوام کو یہ ضروریات مہیا ہو گئیں تو عوام کے گھرانے آزاد ہوجائیں گے۔ وہ جاگیرداروں کے دست نگر نہیں رہیں گے، وہ ان کے غلام نہیں رہیں گے۔ پھر ان کے اندر حکمرانوں کے خلاف ووٹ دینے کی جرات آجائے گی اور وہ عوام کو یہ جرات نہیں دینا چاہتے، وہ انہیں یہ شعور نہیں دینا چاہتے، وہ انہیں یہ طاقت نہیں دینا چاہتے، وہ انہیں اختیار اور حقوق نہیں دینا چاہتے، وہ عوام کو روزگار دے کر انہیں اپنی غلامی سے آزاد نہیں کروانا چاہتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے جُھرلو انتخاب کے ذریعے عوام کمزور رہیں اور وہ بار بار جیت کر اس پارلیمنٹ میں آتے رہیں۔ یہ فرق ہے عوام کی ضرورتوں کا اور سیاسی لیڈروں کی ضرورتوں کا۔

11۔ سازشی اور بد دیانت امیدواروں کی کامیابی سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی

ہمیشہ طعنہ دیا جاتا تھا کہ ہمیں کام نہیں کرنے دیا گیا۔ پانچ سال تک افواجِ پاکستان نے تم سے پوچھا نہیں، پانچ سال تک عدلیہ نے تمہارے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالی، پورے پانچ سال کا وقت تھا، تم نے ٹرم پوری کی، جھوٹا مینڈیٹ مکمل ہوا، تم ڈیلیور نہ کر سکے۔ اب نئے الیکشن کے ذریعے پھر بددیانت لوگوں کو دوبارہ جھرلو الیکشن کی صورت میں منتخب کروا کے اسمبلیوں پر قبضہ کرنے کے لئے تیار تھے۔ اس لئے اب ساری قوم نکل آئی کہ جو ہو چکا سو ہوچکا، اب دیانت دار لوگ آئیں گے، بد دیانت کو نہیں آنے دیا جائے گا۔ پاکستان کے محب وطن بھائیو اور بہنو! یہ وقت now or never کا ہے یہ انقلاب اس مارچ کے نتیجے میں آئے گا اور اگر آپ کے ارادے کمزور پڑ گئے قوم کے ارادے کمزور پڑگئے تو انقلاب کبھی نہیں آئے گا۔ ان شاء اللہ تبدیلی اس مارچ کے نتیجے میں آئے گی اور اگر ملک دشمن، آئین دشمن، قانون دشمن، جمہوریت دشمن اور انصاف دشمن عناصر اور سازشی و بد دیانت امیدوار کامیاب ہوگئے تو اس ملک میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اس ملک میں مخلص لوگ بھی ہیں جو صحیح طور پر تبدیلی کے خواہاں ہیں، جو ملک میں مخلصانہ طور پر تبدیلی چاہتے ہیں، مگر بتانا یہ چاہتا ہوں کہ واﷲ اگر الیکشن پرانے سامراجی، استحصالی اور بد عنوانی کے نظام کے تحت ہوگئے اور اس جد و جہد کے نتیجے میں وہ انقلاب نہ آیا جو الیکشن کو آئین کے تابع کردے، وہ انقلاب جو الیکشن کو قانون کے تابع کردے، وہ انقلاب جو الیکشن کو حقیقی جمہوری اصولوں کے تابع کردے اور وہ انتخاب جو الیکشن کو شفافیت دے دے۔ اگر الیکشن سے پہلے یہ تبدیلی نہ آئی ا ور الیکشن اسی ڈھب پر ہوگئے تو دنیا کی کوئی طاقت ان بدمست ہاتھیوں کو ایوانوں میں آنے سے روک نہیں سکتی اور جو بات میں آج کہہ رہا ہوں، کچھ لوگ جو اس میں شریک نہیں، وہ الیکشن کے بعد پریس کانفرنس کر کے یہی رونا روئیں گے، وہ کہیں گے کہ دھاندلی ہو گئی، دنیا دیکھ رہی ہے کہ کوئی الیکشن بغیر دھاندلی کے نہیں ہوا۔ لہٰذا تبدیلی کا، انقلاب کا، اصلاحات کا، دھاندلی کو روکنے کا، شفافیت لانے کا، Tranceparency کا، accountability کا اور امیدواروں کی اہلیت eligibility کے تعین کا وقت الیکشن سے پہلے آج ہے کل نہیں رہے گا۔

یہ مارچ فقط میری تحریک کا نہیں یہ پوری قوم کا مارچ ہے، اٹھارہ کروڑ عوام کا مارچ ہے اور تبدیلی چاہنے والوں کا فریضہ ہے۔ وہ غفلت کے مرتکب نہ ہوں۔

حاضرینِ محترم!

We don't want lawbreakers to become lawmakers. This is a very significant point for everyone, not only for Pakistani nation but for all international community. We don't want lawbreakers to become lawmakers.

یعنی اب اس ملک میں قانون توڑنے والے قانون بنانے والے نہیں ہوسکتے، قانون توڑنے والوں کی جگہ جیل ہوتی ہے اسمبلی نہیں ہوتی۔ جو قانون توڑے اسے جیل میں جانا چاہیے۔ اس ملک کے بدعنوانی پر مبنی نظامِ انتخاب میںجتنا سخت طاقتور قانون توڑنے والا ہے وہ اتنی طاقت کے ساتھ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں آکر بیٹھتا ہے۔ تو Lawbreakers after this march cannot be the lawmakers of the country. قانون شکن قانون ساز نہیں ہوں گے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ الیکشن ہونے دیں اور قوم نیا مینڈیٹ دے گی، منتخب ہوجائیں گے اور وہ مسائل حل کر دیں گے۔ نہیں، جنہوں نے اس قوم کے لئے مسائل پیدا کئے ہیں، ان سے مسائل حل کرنے کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟ چوروں اور ڈاکوؤں کو گھر دے دیا جائے کہ ہمارے گھر کی حفاظت کرو، گھروں کی حفاظت ڈاکو نہیں کرتے۔ یہ لوگ جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں، اقتدار کے ایوانوں میں، کبھی دنیا میں کوئی ایسا ملک دیکھا؟ اور مجھے ایک ملک کا نام بتا دیں جہاں کسی کو سپریم کورٹ کرپشن کیسز میں مجرم Declare کردے اور گرفتاری کا حکم دے دے اور وہ کہے کہ میں وزیراعظم ہوں۔ کیا دنیا کے کسی ملک میں کرپشن کیس کے ملزم وزیراعظم رہتے ہیں؟ دنیا کے کسی کیس میں عدالتوں سے سزا پانے والے ملزم مجرم Declare ہونے والے اس ملک کی کیبنٹ میں وزیر اور مشیر رہتے ہیں؟ اس پاکستان کا نظام ہی نرالا ہے، اس دھاندلی کو یہ جمہوریت کا نام دیتے ہیں۔ یہ لوگ قانون کی حکمرانی کو نہیں مانتے، یہ لوگ عدالتوں کے فیصلوں کا مذاق اڑاتے ہیں، یہ لوگ عدالتوں پر حملہ کرنے والے ہیں، یہ لوگ جیالے ججوں کو بغیر میرٹ کے عدالتوں میں بٹھاتے ہیں۔

جس دن نئے مینڈیٹ کی صورت میں یہ مست بد عنوان ہاتھی دوبارہ طاقت میں آئیں گے تو خدا جانے کس کس ادارے کو پامال کر دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ٹیکس چور اس پارلیمنٹ کے ممبر ہوں۔

12۔ قانون شکن کو قانون سازی کا کوئی حق نہیں

یاد رکھیں، A lawbreaker cannot be a lawmaker. جو لوگ قانون توڑنے والے ہیں انہیں قانون دان، legislator اور ممبر پارلیمنٹ بننے کا کوئی حق نہیں۔ کیا اس عمل کا نام جمہوریت ہے؟ کیا یہ آئین ہے؟ کیا یہ قانون ہے کہ اٹھانوے یا ننانوے فیصد لوگوں کو کچھ نہ ملے اور سارا کچھ پاکستان کے ایک فیصد لوگوں کو ملے؟ کیا یہ جمہوریت ہے؟ یہ عدل و انصاف ہے؟ یہ قانون اور حکمرانی ہے؟ ظالمو! اس پارلیمنٹ کی سیٹوں پر براجمان ہونے والو! اور حکومت کے تخت پر بیٹھ کر تکبر اور غرور سے اکڑی ہوئی گردنیں رکھنے والو! اور لمبی لمبی زبانیں گالی گلوچ میں کھولنے والو! مجھے بتاؤ جس سوسائٹی کے ایک فیصد سارے وسائل پر قابض ہوں اور 99 فیصدمحروم ترس رہے ہوں۔ کیا اس سوسائٹی کو انصاف کی سوسائٹی کہا جائے گا؟ کیا اس کو نظام کہتے ہیں؟ کیا اس کو جمہوریت کہتے ہیں؟ میں ملک کے غریب عوام سے پوچھتا ہوں کہ آپ کب تک اس پر خاموش رہو گے؟ کب تک آگ میں جلتے رہو گے؟ اٹھو! آپ کی زندگی اور حق کوئی آپ کی جھولی میں نہیں ڈالے گا۔ آپ کو بڑھ کر چھیننا ہوگا اور ہم پر امن طریقے سے، جمہوری طریقے سے، قانونی طریقے سے اور آئینی طریقے سے اپنا حق لیں گے۔

میں آپ کے لئے آیا ہوں، غریبوں کے لئے آیا ہوں۔ اپنے ملک پاکستان کے لئے آیا ہوں، ارضِ وطن کے لئے آیا ہوں۔ آپ کی خوشیوں کے لئے، آپ کی زندگیوں کے لئے، آپ کی خوشحالی کے لئے، آپ کو حق دلانے کے لئے آیا ہوں۔

خدا کی قسم! یہ موقع آپ نے ضائع کردیا تو لٹیرے بدل بدل کر اقتدار میں آئیں گے پھر آپ کو کوئی طاہر القادری نصیب نہیں ہوگا اور میں بھی زمین پر رہنے کی بجائے قبر میں جانے کو ترجیح دوں گا۔ میں قبر میں چلے جانے کو ترجیح دوں گا۔ ظالموں کے پاس گولی ہے، میرے پاس سینہ ہے۔ ان کے پاس تلوار ہے، میرے پاس گردن ہے۔ ان کے پاس ظلم ہے، میرے پاس صبر ہے۔ ان کے پاس بربریت ہے، میرے پاس اخلاص و صداقت ہے۔

قانون شکنوں کو پارلیمنٹ سے باہر کیوں رکھا جائے؟

جب میں نے یہ کہا کہ قانون توڑنے والے کبھی قانون بنانے والے نہیں ہوسکتے اس کی دلیل سن لیجئے؛ ابھی کل کی بات ہے آپ کو یاد ہو گا کہ 91 ممبرانِ قومی اور صوبائی اسمبلیز کی ممبر شپ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جھوٹی اور جعلی ڈگری پیش کرنے کی بد دیانتی اور خیانت کی بنا پر ختم کی ہے۔

مگر تین مہینوں کے اندر وہ جعلی ڈگری والے بد دیانت لوگ پلٹ کر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کو تم عوام کا مینڈیٹ کہتے ہو؟ آپ کہتے ہیں کہ چلو اس وقت بی اے کی شرط ہم نے ammendment کر کے ختم کردی تھی اس لئے آ گئے، تو تمہاری ammendment نے بی اے کی شرط تو ختم کی لیکن کیا اس ایمنڈمنٹ سے اس نے جو جھوٹ بولا تھا، جو بد دیانتی کی تھی اور جعلی ڈگری داخل کر کے آئینِ پاکستان کے ساتھ جو دھوکا کیا تھا وہ بھی صاف ہوگیا؟ جھوٹا تو جھوٹا رہا، بد دیانت تو بد دیانت رہا، خائن تو خائن رہا، وہ پلٹ کر پھر آگیا۔ چونکہ آپ کے پاس اکثریت ہے جو قانون آپ کی راہ میں رکاوٹ ہو آپ اسے ammend کرتے چلے جائیں اور جس قانون کی عوام کو ضرورت ہو اس کے لئے پروا نہ کریں۔

یہ نام نہاد پارلیمان اور اسمبلیاں غریبوں کی محافظ نہیں یہ ڈاکوؤں، چوروں، بدعنوانوں کے ٹولے کی محافظ ہیں۔ وہ لوگ جو اس حد تک قانون توڑنے والے اور آئین کی رُو سے نا اہل ہیں اور بد دیانت اور خائن ہیں کیا ہمارا مطالبہ غلط ہے کہ ان کو اس پراسیس سے آئین کی شرائط پورا کرتے ہوئے دور کردیا جائے اور پارلیمنٹ کا راستہ صرف شریف، دیانت دار، اہل لوگوں کے لئے کھولا جائے؟ چور کو گھر کا رکھوالا نہیں بنایا جاسکتا۔ ڈاکہ زنی کرنے والے گھر کے رکھوالے نہیں ہوتے۔ ڈاکو جہاں بھی رکھوالا بنایا جائے گا وہ ڈاکہ ہی ڈالے گا۔

یہ سرکاری خزانوں پر ڈاکہ ڈالنے والے ہیں۔ یہ حکومتی وسائل اپنے خاندانوں میں تقسیم کرنے والے ہیں۔ ان کا فارمولا ہے کہ مفاد کے لئے متحدہ ہو جاؤ۔ یہ سیاسی لیڈر وہ beneficiaries ہیں وہ looters ہیں جو مل کر حصے بانٹ رہے ہیں۔ ایک بکرا ہے اس بکرے کا بیس پچیس تیس کلو وزن ہے بس آپس میں تقسیم کر کے کھائے جا رہے ہیں، اس لئے متحد ہوگئے کہ پاکستان کو بکرا بنا دیا جائے اور ذبح بھی نہیں کرتے بغیر ذبح کے کاٹ کر حرام کھائے جا رہے ہیں اور ان کا ارادہ ہے : Eat and let eat یعنی کھاؤ اور کھانے دو۔

یہ علی بابا اور چالیس چور، دونوں طرف کے علی بابے اور چالیس چور، علی بابے اپنے چالیس چوروں کو کہتے ہیں کہ جس سے جو کچھ کھایا جا سکتا ہے کھائے اور دوسروں سے نہ پوچھے۔ ہم تم سے نہیں پوچھیں گے اور جو ہم کھا سکتے ہیں تم ہم سے نہ پوچھو۔ اس پر ان کا الائنس ہوا ہے۔ اس پر متحد ہیں جو جتنا کھا سکتا ہے کھاتا جائے۔ میں دو باتیں آج اسلام آباد کے جناح ایونیو پر پاکستان کی پارلیمنٹ کے سامنے اپنے ذاتی علم پر بتا رہا ہوں اور اس اطلاع میں کوئی تیسرا شخص شامل نہیں۔ پچھلے سال آسٹریلیا کے دورے پر تھا۔ وہاں کی ایک بڑی سیاسی شخصیت باب ہاک Bob Hawke (March 83 to Dec 91) جو تین مرتبہ مسلسل آسٹریلیا کے وزیراعظم رہ چکے، اب بھی زندہ ہیں اور پارلیمنٹ میں رُولنگ پارٹی کے سرکردہ لیڈر ہیں۔ وہ سڈنی، ملبرن میں مجھے ملنے کے لئے آئے۔ انہوں نے مجھے خود بتایا۔ اب جس شخص کی بات ہے میں اس کا نام نہیں لونگا۔ اتنی امانت ہے۔ یہ میرا اپنا اخلاق ہے۔

باب ہاک زندہ ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ جب میں پرائم منسٹر تھا، میں پاکستان گیا ایک بہت بڑی انویسٹمنـٹ کے لیے، آسٹریلیا پاکستانی عوام کی بہتری کے لئے اربوں ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا : میرے مذاکرات ہوئے، معاملہ طے ہوگیا۔ بعد میں فارغ ہو کر جب کھانے پر بیٹھے تو سرکردہ لوگوں میں سے ایک شخص میرے پاس آیا۔ اس نے کہا : جو قیمت طے ہوئی اس میں 100 روپیہ آپ ہمارے پاکستان کے اکاؤنٹ میں دیں گے اور ہر 100 پر 30 روپیہ میرا کمیشن ہوگا۔ وہ آپ باہر دیں گے۔ میں آپ کو بینک اکاؤنٹ دے دوں گا؛ پیپر پر 100 لکھا جائے گا وصولی 130 کی ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پراجیکٹ ایک ارب کا تو اس سے ایک سو تیس ارب مانگے۔ اگر پراجیکٹ دس ارب کا ہو، تو 13 ارب مانگے۔ 10 ارب پاکستان کے اکاؤنٹ میں اور 3 ارب باہر میرے اکاؤنٹ میں۔ اس نے کہا اگر پراجیکٹ 100 ارب کا ہو یعنی ایک کھرب کا تو اس سے 13 کھرب مانگے۔ 3کھرب ڈالرز ڈائریکٹ اس کے اکاؤنٹ میں جائیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ ہر 100 پر 30 روپے کمیشن مانگا، اس پر باب ہاک نے کہا کہ میں نے لعنت بھیجی اور کہا ایسے لوگوں کے ساتھ آسٹریلیا بزنس کرنے کو تیار نہیں۔ واپس چلا گیا اور اس نے مجھے کہا : پاکستان میں ترقی کی بڑی ability ہے، مگر اسے حکمران کرپشن کے ذریعے کھا گئے۔ اس سے کئی سال پہلے کی بات ہے؛ شاید 1980ء کے اواخر کی یا 1990ء کے شروع میں نیوزی لینڈ دورے پر تھا اور لارڈ میئر آف آکلینڈ نے میرے اعزاز میں عشائیہ رکھا، (اسی طرح ان کے بھی father تھے ڈیوڈ لانگی (David Lange July 84 to Aug 89) وہ دو بار نیوزی لینڈ کے پرائم منسٹر رہے تھے۔ وہ میرے عشائیہ میں آئے۔ ) میرے ساتھ ٹیبل پر بیٹھے تھے اب میں ڈائریکٹ اس کی زبان سے سنی ہوئی بات بتا رہا ہوں، ڈیوڈ لونگی پچھلے سال فوت ہوگیا، اس نے مجھے بتایاــــ -پھر میں نام نہیں لونگا اتنا حصہ امانت کی وجہ سے بیان نہیں کروں گا- اس نے نام لے کر مجھے بتایا کہ ہمارے نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا state hold project ہے جس کی مالک ہماری نیوزی لینڈ کی گورنمنٹ اور ریاست ہے۔ اس ریاست میں تقریباً پچاس فیصد حصہ آپ کے ملک کے ایک وزیراعظم کا ہے۔ نیوزی لینڈ کے ریاست کے سب سے بڑے بزنس تک ہمارے لیڈر جا پہنچے۔ پچاس فیصد یا انچاس فیصد حصہ آپ کے لیڈروں کا، پھر باہر اکاؤنٹ بناتے ہیں اب آپ اندازہ کرلیں میں نے دو واقعات دیئے ہیں ایسے سینکڑوں واقعات ہیں۔ میں کیا کیا سناؤں۔

اگر یہ لوٹ مار پاکستان میں حکمران نہ کرتے تو پاکستان کے ہر بچے کے چہرے پر خوشی اور مسرت ہوتی۔ پاکستان کے ہر گھر میں خوشحالی ہوتی اور پاکستان ترقی کی منزلوں پر گامزن ہوتا۔

لٹیروں کو ہم پاکستان کے ایوان اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے

ہم ان لوگوں کو پاکستان کے ایوانِ اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے جو ملکی دولت لوٹ کر باہر جائیدادیں اور بینک بیلنس بناتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو سیاست اور اقتدار میں آنے کا حق نہیں دیتے جو الیکشن جیتنے کے لئے اپنے اقتدار کی وجہ سے اسلام آباد میں لاہور میںہزارہا پلاٹ تحفے میں بانٹتے ہیں۔ سرکار کا خزانہ سرکار کی جائیداد اور اپنی وراثت سمجھ کر سیاسی رشوت کے طور پر پلاٹ بیچتے ہیں۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ میں یہ بات ثابت ہوئی کہ اس ملک میں پونے چار کروڑ کے قریب جعلی ووٹوں کا اندراج ہے؟ جو لوگ اصغر خان کیس کے مطابق پیسے لے کر منتخب ہوتے رہے ہم ان کی جمہوریت کو نہیں مانتی۔ یہ نام نہاد سیاسی لیڈر اور نمائندے اصغر خان کیس میں پیسے کھانے والے، بین الاقوامی عدالتوں میں ملزم قرار دیئے جانے والے، یہ حج سکینڈل کے ملزم و مجرم، یہ سرکاری محکموں کو لے ڈوبنے والے، یہ وہ خائن اور بدعنوان لوگ جنہوں نے بجلی ملک سے غائب کردی اور رینٹل پاور سٹیشن کا مال کھاگئے۔ وہ لیڈر جنہوں نے ملک سے گیس غائب کردی، وہ لیڈر جنہوں نے عوام سے صاف پانی چھین لیا، وہ لیڈر جب چاہتے ہیں چینی، چاول، کھاد، گندم غائب کر دیتے ہیں، جب چاہتے ہیں مہنگائی بڑھا دیتے ہیں، جب چاہتے ہیں جس طریقے سے لوٹ مار کرتے ہیں۔ وہ لیڈر جنہوں نے ریلوے کا محکمہ کھا لیا اور اس کی کمائی اپنی جیبوں میں لے گئے۔ جنہوں نے پی آئی اے کو خسارہ میں ڈال دیا۔ یہ کرپشن کے مرکزی کردار، پورے ملک میں کرپشن کا بازار گرم کرنے والے۔ اگر یہ رہے تو ملک سے کرپشن اور لوٹ مار کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

جیسے میں نے کہا کہ lawbreakers can not be lawmakers اسی طرح یہ بھی کہتا ہوں

No representation without taxation For the whole world, this is my message that we don't accept any representation without taxation. If these people have taxable wealth according to law, if they have taxable income according to the taxation law of Pakistan and they are not paying the tax and they are not filing tax return, they should be in jail and should not be allowed to come into power and sit in seats of parliament. And we say no representation without constitutional qualification.

تو ٹیکس چور، خیانت کار، چالاک، عیار، ہیرا پھیری سے مینڈیٹ لے کر آنے والے جن کی مہارت ہے menouvering کرنا ان کا راستہ بند ہونا چاہیے۔ (They should not be allowed back into power.) اگر یہ دوبارہ آگئے تو اگلے پانچ سال کے بعد قائداعظم کا پاکستان نہیں بچے گا اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

یہ اس ملک کو توڑ دیں گے، بلوچستان کو ٹوٹنے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، کراچی کو ٹوٹنے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، خیبرپختونخواہ میں قتل و غارت گری ہے اسے ٹوٹنے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ ہم پاکستان کے خلاف ان کی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ لوگو! میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ (why we want electrol reform before election) الیکشن سے پہلے اصلاحات کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ آپ کی سادگی، عوام کی سادگیThey are simple people, very simple, illiterate; they have no awareness about national issues. There is no manifesto of the parties; particularly 80 percent of the voter who cast there vote belong to the rural areas. میں آپ کو analysis دے رہا ہوں۔ یہاں چالیس فیصد کے قریب ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں۔ Vote casting percentage is only 35 percent or 40 percent, so 60 to 65 percent have already rejected this electoral system and are no more interested to participate in this election. They don't cast their vote. because they do not trust this election اب جو چالیس فیصد رہ گئے ان میں سے بھی اسی فیصد دیہاتوں میں رہتے ہیں۔

ذرا غور کرو! کیا دیہاتوں میں رہنے والا کوئی مزارع یا ہاری اپنے بڑے زمیندار جاگیردار کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈال سکتا ہے؟ کیا کوئی محنت کش مزدور غریب اپنے سرمایہ دار کے خلاف ووٹ ڈال سکتا ہے؟ کیا کوئی کمزور اس ملک میں طاقتور کے خلاف ووٹ ڈال سکتا ہے؟ کیا کوئی شریف بدمعاش اور غنڈے کے خلاف ووٹ ڈال سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تھانہ، کچہری، پٹواری، تحصیلدار، ایڈمنسٹریشن، سی سی پی او یہ سارا عملہ ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنی مرضی سے اپوائنٹ کروایا ہوا ہے۔ پٹواری تک چیف منسٹر سے اپنی مرضی کا لگواتے ہیں، تھانے کا ایس ایچ او مرضی کا لگواتے ہیں، ڈی ایس پی، ایس پی، ڈی سی او ان کی مرضی کے لگتے ہیں۔ یہ جس پر چاہے جھوٹا مقدمہ کروا لیں، جس کا چاہے بچہ پکڑ کر لے جائیں، جس کو چاہے جیل میں بند کر دیں۔

In this atmosphere of harassment, is there any chance of any kind of free and fair election in this country? There is no free and fair election here and we want just free election; we want fair election; we want this election absolutely free of corrupt practices.

یہ لوگ میرے مطالبات کو اصل موضوع سے ہٹا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

ہر روز چور مچائے شور کی طرح یہ سیاسی کرپٹ لوگ شور مچاتے ہیں. جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ڈی ریل کی رٹ لگانے والو! جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی بات کس نے کی ہے، میں جمہوریت کو ڈی ریل نہیں کرتا جمہوریت کو صحیح ٹریک پر چڑھانا چاہتا ہوں۔ یہ ہر روز کہتے ہیں الیکشن ملتوی نہیں ہونے دیں گے، کون ملتوی کرنے کی بات کر رہا ہے؟ میں نے تو ایک دن نہیں کی۔ میں الیکشن کو نوے دنوں کے اندر کروانا چاہتا ہوں۔ پھر بات دہرا رہا ہوں کہ الیکشن کو within 90 days چاہتا ہوں، لیکن الیکشن کے نظام یا آئین اور قانون کے مطابق اصلاحات چاہتا ہوں۔ within 90 days اور یہ ساری اصلاحات صرف 30 دنوں میں مکمل ہوسکتی ہیں

We need only thirty days to enforce the electoral reforms not more than that. We need political will, we need sincerity, we need ability, we need courage, we need vision and commitment to the cause of constitution. We need sincerity to the law of land and we need loyalty to principle of democracy; then everything is easily possible to accomplish in 90 days.

یہ جھوٹ بولنے والے لوگ اپنی چوری چھپانے کے لئے شور مچا رہے ہیں۔ عوام کی غربت حرام خوری سے امیر بننے والوں کی امارت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ عوام کی کمزوری سفید ہاتھیوں کی طرح ان طاقتوروں کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ عوام کی مفلسی اور بے بسی ان کی فرعونیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ عوام کی نا خواندگی، لا علمی ان کی کرپشن کے گروہ اور مہارت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ان کے پاس ہزار فریب ہیں۔

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلّا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم

غریب عوام کیا کریں؟ ان لٹیروںکے پاس بدکاری اور الیکشن جیتنے کے ہزاروں کرپٹ دھندے ہیں، غریب عوام نہتے، سادہ، مجبور، بے بس، لاچار ہیںthis is not democracy اس لئے یہ لوگ Electroral Reforms سے ڈرتے ہیں۔ تم سازش کر رہے ہو۔ اب تمہاری سازش کے بتوں کو توڑنے کا وقت آگیا ہے، ہم تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس ملک میں پر امن جمہوری انقلاب چاہتے ہیں۔ peaceful democratic revolution through a constitutional package of reforms. اس کے لیے قانونی نظام کو restructure کرنا ہو گا۔ ہم عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ چاہتے ہیں اور آئین کا وہ معنیٰ چاہتے ہیں اور وہ معنیٰ مانتے ہیں جو سیاسی لیڈر نہیں کہتے؛ سیاسی لیڈر تو آئین کو گھماتے پھراتے ہیں؛ ہم آئین کے اس معنیٰ کو مانتے ہیں جس کی تشریح پاکستان کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کرتی ہیں، بس اس معنیٰ کو مانتے ہیں۔ آئین کی تشریح کرنے کا حق اعلیٰ عدلیہ کو ہے اور آئین کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہم اس ملک کے نظام کی دیواریں کھڑی کرنا چاہتے ہیں تاکہ چور اور ڈاکو دیواریں پھلانگ کر اندر نہ آ سکیں۔

لوگو! اگر امن کے ساتھ تبدیلی کا موقع چلا گیا، حکمرانو! خونخوار سیاستدانو! اگر امن کے ساتھ تبدیلی کے لیے موقع نہ دیا گیا تو پھر تبدیلی کوئی اور رنگ اختیار کر لے گی جو ملک اور قوم کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔

No more status quo; we want change. There is no room for this corrupt status quo; it has to go and it will go. And at the same time I would say builders and protectors of status quo they should also go. And we want honesty, we want transparency, we want good governance, we want accountability, we want true democracy, we want rule of law, we want enforcement of constitution in its true letter and spirit and we want honest and eligible people to be elected in Pakistan and they should rule over country and provide the true human rights to the people of Pakistan.

کیا اس کو سیاست اور حکومت کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سوا سو کے قریب لاشیں چار دن تک پڑی رہیں۔ نہ کوئی صوبائی حکومت سامنے آئی، نہ وفاقی حکومت، اتنی بڑی قیامت اور تمہیں ہوش تک نہیں آیا! شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے۔ حکومت ڈس فنکشنل ہو چکی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے ڈکلیئر کر دیا کہ بلوچستان کی provincial گورنمنٹ کے پاس کوئی constitutional authority exist کرنے کی نہیں رہی۔ پورے ملک میں حکومت نام کی کوئی شے نہیں۔

اس کے برعکس زمین پر صرف بد امنی، تباہی، غارت گری، دھاندلی، دہشت گردی، مک مکا اور اندھیر نگری ہے۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 3، نے شرط عائد کی ہے کہ (every kind of exploitation shall be eliminated from this country. ) قائد اعظم کے پاکستان سے ہر قسم کا استحصال ختم کیا جائے گا۔ پچھلے پانچ سالوں میں آج کے دن تک ملک میں نرا استحصال ہی استحصال رہ گیا۔

پاکستان بناتے وقت پاکستان کے بانیان نے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک سے ہر قسم کا استحصال ختم کیا جائے گا۔ حکومت استحصال ختم کرنے میں ناکام ہو گئی، social evils کو ختم کرنے میں ناکام ہو گئی، human rights protect کرنے میں ناکام ہو گئی، law and order maintain کرنے میں ناکام ہو گئی، terrorism کے خاتمے میں ناکام ہو گئی، عوام کو عدل و انصاف دینے میں ناکام ہو گئی، لوگوں کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی، ملک کا نظام چلانے میں ناکام ہو گئی، عدالتوں کے فیصلے نافذ کرنے میں ناکام ہو گئی۔ اب کیا جواز ہے اس حکومت اور ان اسمبلیوں کے برقرار رہنے کا؟ ہم ہر غریب اور امیر کے لیے برابر انصاف مانگتے ہیں۔ ہم ہر مرد اور عورت کے لیے برابر انصاف مانگتے ہیں۔ ہم ہر مسلم اور غیر مسلم کے لیے برابر انصاف مانگتے ہیں۔ ہم Non-Muslim Minorities کے لیے بھی برابر تحفظ(of law protection, equality ) اور ان کے لیے بھی justice مانگتے ہیں۔

And I don't say a word that they are minorities, this is just a legal sense, but I have to say and I accept they are no more minorities, they are equal citizens of Paksitan.

غیر مسلموں نے پاکستان بنانے میں اتنی قربانیاں دی ہیں جتنی مسلمانوں نے۔ برابری کی بنیاد پر تحفظ اور قانون کی حکمرانی مانگتے ہیں۔ ہم principles of policies جو constitution میں ہیں ان کی implementation مانگتے ہیں۔ آرٹیکل 40 تک آئین کے دوسرے chapters میں principles of policy ہیں، انہیں disfunctional بنا دیا گیا ہے، ہم انہیں functional دیکھنا چاہتے ہیں، اس میں عوام کی بھلائی کے سارے آرٹیکلز ہیں، وہ پورے کا پورا chapterفنکشنل نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ implement ہوں اور آئین پاکستان اسی chapter 2 میں کہتا ہے کہ لوگوںکی بھلائی کے لیے وہ سارے اقدامات جو Constitution of Pakistan کے principles of policy میں درج ہیں ان پر عمل کرنا ہو گا۔ اور پھر ہر سال حکومت نےtowards their implementation جو پیش رفت کی اس کے بارے میں پریزیڈنٹ آف پاکستان ہر سال پارلیمنٹ میں رپورٹ دے گا اور صوبوں کے اندر گورنر صوبائی اسمبلی میں رپورٹ دے گا۔

مگر میں چیلنج سے کہہ رہا ہوں کہ پانچ سالوں میں ایک مرتبہ بھی پاکستان کے صدر نے اور چاروں صوبوں کے کسی گورنر نے پارلیمنٹ اور اسمبلی میں آ کر اس کی ترقی کی رپورٹ دینا گوارا ہی نہیں کی ہے۔ یہ سب آئین پامال ہو رہا ہے اور عوام بدحال ہو رہے ہیں۔ ہم استحصال کا یہ راج اورسامراج کا یہ نظام ختم کرنا چاہتے ہیں۔

13۔ لانگ مارچ کے مطالبات

میں اپنا کیس سارا سمجھا چکا، foundations دے چکا۔ اب میں کہنا چاہتا ہوں to these fake rulers of this country, to the corrupt possessors of the power, now their game is over, they should go. تم نے بڑی حکمرانی کر لی، اب خدا کے لیے عوام کی جان چھوڑ دو۔ تم نے لوگوں کا بڑا خون چوس لیا، لوگوں کا خون چوس چوس کر سفید چہرے سرخ ہو گئے، اب عوام کے جسموں میں خون کا ایک قطرہ نہیں رہا، خدا کے لیے ان کے چوسے ہوئے خون سے بچے ہوئے جسموں کو چھوڑ دو۔ تم دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ اس عوام کا بہت خون بہا چکے، اب خدا کے لیے عوام کی جان چھوڑ دو۔ تم بہت کرپشن کر چکے اب ان پر رحم کرو، پاکستان کے خزانے پاکستان کی ترقی پر خرچ ہونے دو۔ تم نے ملک کو تباہ کر دیا اب خدا کے لیے قائد اعظم کی اس ریاست کو کامیاب ہونے دو۔ اس لیے میں نے کہا کہ جھوٹی کرپٹ سیاست کو نہیں قائداعظم کی ریاست کو بچانا ہو گا۔ کرپشن کی سیاست کو نہیں آئین پاکستان کی ریاست کو بچانا ہو گا۔ اب اس کے لیے چار ڈیمانڈز کا چارٹر دے رہا ہوں۔

Now I am proceeding towards the end of this speech and Islamabad declaration.

ہمارا مطالبہ وہی ہے جو ہم نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر کیا تھا۔ ہمارے مطالبات میںپچھلے 3 ہفتوں میں نہ کوئی کمی آئی ہے نہ اضافہ۔ وہی مطالبات ہیں جو اول دن سے کہتے چلے آ رہے ہیں اور چوتھا مطالبہ ان تین مطالبوں کی صحیح عمل داری کے لیے بطور میکنزم ہے، لہٰذا کسی کو یہ مغالطہ نہ رہے کہ جوں جوں مارچ کے شرکاء بڑھتے جا رہے ہیں؛ ملینز کی تعداد میں عوام کا سمندر بڑھتا جا رہا ہے تو ہمارے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں، ایسا ہرگز نہیں۔ میرے مطالبات پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کے مطالبات اور اس لانگ مارچ کے ملینز افراد، شرکاء کے مطالبات وہی تین ہیں جو پہلے دن سے تھے اور چوتھا مطالبہ ان تین مطالبات کی implementation کے لئے میکنزم کا ہے، ہمارے کل مطالبات چار ہیں :

پہلا مطالبہ : انتخابی اصلاحات کا نفاذ

ہم الیکشن سے پہلے ہر صورت ہر صورت ہر صورت آئین اور قانون کے مطابق electoral reforms کا نفاذ چاہتے ہیں۔ ہم الیکشن سابقہ دھاندلی کے نظام کے تحت نہیں چاہتے، ہم الیکشنز آئینِ پاکستان کے تحت چاہتے ہیں، عوامی نمائندگی کے قانون کے تحت چاہتے ہیں، ہمارے electoral reforms before elections. کے مطالبے کی بنیاد تین چیزوں پر ہی :

نمبر 1 : ہم electoral reforms آئینِ پاکستان کے تین آرٹیکلز کے تحت چاہتے ہیں، یہ صرف reforms نہیں ہیں بلکہ (this is just the implementation of the constitution of Paksitan) صرف آئین پاکستان کا نفاذ ہے۔ کوئی نئی amendment اور ترمیم درکار نہیں ہے۔ جو آئین میں لکھا ہے اس کا حقیقی عملی نفاذ چاہتے ہیں۔ 100% in letter and spirit. آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت الیکشن چاہتے ہیں اور امیدواروں کو انتخابی سرگرمیاں شروع کرنے سے پہلے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی چھلنی میں سے گزرنا ہو گا۔ یہ تماشا نہیں ہوگا کہ nomination paper file کریں اور returning officer مخالف امیدواروں کو کہے کہ جس کو اعتراض کرنا ہے آ کے کر دے اور دو گھنٹوں میں معاملہ صاف ہو جائے۔ نہیں، الیکشن کے کم و بیش 90 دن ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان 90 دنوں میں 30 دن کے دوران الیکشن کمیشن Paper کی چھان بین کرے، آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت، جو qualify کریں انہیں اجازت دی جائے، جو qualify نہ کریں ان کو الیکشن کے پراسیس سے نکال کر پھینک دیا جائے۔ اب اس کی implementation details ہیں، جب کوئی بات کرے گا ہمارے ساتھ تو پھر details میں ٹیبل پر بیٹھ کر دوں گا۔ میرا کیرئیر بطور وکیل شروع ہوا تھا، میں lawyer تھا، میں نے ڈسٹرکٹ کورٹ میں پریکٹس کی ہے اور پھر ساری زندگی قانون کے استاد کے طور پر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں لیکچرر آف لاء سے لے کے پروفیسر آف لاء تک میں نے قانون پڑھایا ہے اور ہزار ہا قانون دان اور lawyers میرے شاگرد ہیں جو 16سال میرے پاس پڑھ کر گئے اور آپ کے ملک کی عدلیہ میں بیٹھے ہوئے بے شمار جج میرے شاگرد ہیں جو مجھ سے پڑھ کر جج بنے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کم تعلیم یافتہ کرپٹ سیاسی لیڈروں میں جرات نہیں کہ میرے سامنے آ کر بات کریں۔ انہیں آئین پاکستان پڑھنا نہیں آتا، سمجھنا کب آئے گا۔ آئین پر بحث کرنی کب آئے گی۔ میری زندگی اس قوم کو آئین پڑھاتے ہوئے گزری۔ میں صرف اسلامک لاء کا پروفیسر نہیں رہا بلکہ میں نے (Constiution of Pakistan) پاکستان کا آئین پڑھایا ہے، میں نے American Constitution پڑھایا ہے، پوچھئے میرے شاگردوں سے، میں نے British Constitutional Law پڑھایا ہے۔ میں نے English Jurisprudence پڑھائی ہے۔ میں نے International Law پڑھایا ہے۔ آپ کا مقابلہ کسی مولوی سے نہیں ہے، ایک قانون دان کے ساتھ ہے۔

میں اس قوم کے قانون دانوں کا استاد رہا ہوں اور صرف یہاں نہیں بلکہ میں نے West، امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں لیکچرز دیئے ہیں۔ عمر بھر میں نے ان کو democracy پڑھائی ہے، میں نے لاء پڑھایا ہے، میں نے Washington D.C. کے Institute Brooking کو لیکچر دیئے۔ میں نے United States Institute of Peace کو لیکچرز دیئے۔ میں نے Chicago میں لاء پر لیکچرز دیئے، میں نے لندن یونیورسٹی، افریقہ کی یونیورسٹیز، یورپ کی یونیورسٹیز میں لیکچرز دیئے، آسٹریلیا کی پارلیمنٹ کو address کیا، نیوزی لینڈ میں، شرق سے غرب تک میں نے آئین، قانون، جمہوریت اور امن کا چہرہ لوگوں کو دکھایا اور اسلام پر لگنے والے دھبے سے اسلام کا چہرہ صاف کیا ہے۔

You are not confronting a Mulla or Molvi, you are confronting at this time a Professor of Law,Professor of Internatioanl Affairs.

یہ کسی نے مجھے تیار کر کے نہیں دیئے، یہ میری اپنی study اور research ہے جو میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ ہم چاہتے ہیں کہ

Elections should take place according to the constitution of Pakistan, Article 62 and 63, and we do not allow any body to participate in the process of election, unless, as a pre-clearence process, he is declared to be elligible by the constitution of Pakistan.

ہم 62 اور 63 اور 218 کے تحت الیکشنز کا مطالبہ کرتے ہیں اور آئین کے ان تین آرٹیکلز کے تحت electoral process کو صاف ستھرا بنانا چاہتے ہیں، آرٹیکل 62، 63، اور تیسرا آرٹیکل 218، اس کے سیکشن 3 میں ہے :

It shall be the duty of the Election Commission to organise and conduct the election and to make such arrangements as are necessary to ensure that the election is conducted

پانچ لفظ آگے سنیے :

election is conducted HONESTLY, JUSTLY, FAIRLY, AND IN ACCORADANCE WITH LAW, AND THAT ALL CORRUPT PRACTICES ARE GUARDED AGAINST.

آئین کا آرٹیکل 218 کہتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر صورت ایسے arrangements کرے اور اس کی ضمانت مہیا کرے کہ الیکشنز ایمانداری سے ہوں گے، honestly اور justly ہوں گے صاف اور شفاف طریقے سے ہوں گے، fairly اور سو فیصد جائز طریقے سے ہوں گے اور سو فیصد قانون کے مطابق ہوں گے اور سو فیصد کرپشن، دھن، دھونس، دھاندلی سے پاک ہوں گے۔ کیا پاکستان کے الیکشن اس طریقے سے ہوتے ہیں؟ نہیں ہوتے۔ ہم آئین پاکستان کے آرٹیکل 62, 63 اور 218 آرٹیکل کا مکمل نفاذ چاہتے ہیں اور اسی کے ساتھ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔

آئین نے کہا کہ الیکشن میں کوئی کرپٹ پریکٹس نہیں ہونی چاہیے۔ دھاندلی، بد عنوانی اور ناجائز دخل اندازی کا کوئی معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔

عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں بنا تھا اور آج تک عوامی نمائندگی ایکٹ وہی ہے، جس کے تحت ہر موقع پر الیکشن ہوتے ہیں۔ عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کے سیکشن 77 سے لے کے سیکشن 82 تک، 6 سیکشنز یہ وضاحت کرتے ہیں کہ انتخابی عمل میں کرپٹ پریکٹسز کیا کیا ہیں۔ اب تفصیل کی ضروررت نہیں، ہم انتخابات کو عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 77 سے سیکشن 81 کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ اس ایکٹ کے سیکشن 82 میں سزا درج ہے کہ جو امیدوار یا اس کا نمائندہ یا ایجنٹ یا اس کی پارٹی ان کرپٹ پریکٹسز میں سے کسی کا ارتکاب کرے تو اس کو 3 سال کی سزائے قید there and then دے دی جائے گی۔ اور جب سزائے قید ہوگی الیکشن سے disqualify ہو جائے گا۔ ساٹھ سال میں کسی الیکشن کمیشن نے ان کرپٹ پریکٹسز کے ارتکاب پر کسی ایک امیدوار کو disqualify کر کے جیل بھیجا؟ تو ان انتخابات کو کس طرح مانا جائے، ان جھرلو کرپٹ الیکشنز کو کیسے عوامی مینڈیٹ مانا جائے، یہ جھرلو الیکشن آئین کے خلاف ہیں، قانون کے خلاف ہیں، جمہوریت کے خلاف ہیں۔

Now ther is no more space for these corrupt practices in our electoral process. We want true, pure and honest democracy to be placed in our country.

یہ تین چیزیں آپ کے سامنے آ گئیں؟ یہ پہلی ڈیمانڈ کے اجزاء دے رہا ہوں۔ اس کے بعد اس پہلی ڈیمانڈ کا چوتھا اصول؛ اس پورے پیکج کی تشریح سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 جون 2012 کو پہلے کر دی تھی۔ electoral reforms کا پورا ایجنڈا جو میں قوم کے سامنے آج رکھ رہا ہوں یہ 8 جون 2012 کو سپریم کورٹ آف پاکستان چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب اور ان کا بینچ یہ ساراانتخابی اصلاحات کا پیکج قوم کو دے چکے ہیں جو آج تک حکومت پاکستان اور الیکشن کمیشن نافذ کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ پونے چار کروڑ جعلی ووٹ کی نشاندہی ہوئی تھی، آج تک ان کو خارج کر کے فائنل رپورٹ سپریم کورٹ میں submit نہیں کی جا سکی۔ کیسے یہ الیکشن قابل قبول ہوں گے؟

Constitution Petition No. 87 of 2011 جس کا فیصلہ جون 2012ء کو ہوا۔ یہ فیصلہ میں نے آپ کو quote کر دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 8 جون 2012 کی judgment میں جو کچھ لکھ دیا ہے رب ذوالجلال کی عزت کی قسم سو فیصد یہی ہمارا مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ کی judgement کو نافذ کیا جائے۔ حکومت پاکستان اس میں رکاوٹ ہے اور الیکشن کمیشن نا اہل ہے۔ وہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

میرا چارٹر آف ڈیمانڈ کا پہلا نکتہ مکمل ہوا۔ یہ electoral reforms ہیں۔ آئین کی آرٹیکل 62، 63 اور 218 کا نفاذ اور عوامی نمائندگی ایکٹ کے سیکشن 77 سے سیکشن 82 تک کا نفاذ اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی 8 جون کیjudgment کا in letter and spirit سو فیصد نفاذ۔ اگر سپریم کورٹ کی اس judgment کا نفاذ نہیں ہوگا تو الیکشن خلاف آئین ہوں گے، خلاف قانون ہوں گے اور خلافِ جمہوریت ہوں گے۔ میرا اعلان ہے کہ جمہوریت رہنی چاہیے، جمہوری عمل کا تسلسل رہنا چاہیے، سیاسی عمل کا تسلسل رہنا چاہیے، انتخابات ہونے چاہئیں، نوّے دن میں ہونے چاہئیں categorical کہہ رہا ہوں، مگر ان تین اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ پہلے آئین کا نفاذ ہو، عوامی نمائندگی ایکٹ کا نفاذ ہو اور سپریم کورٹ کی judgment کا نفاذ ہو تب الیکشن کا نام جمہوری عمل اور سیاسی عمل ہوگااس کے بغیر دوبارہ جھرلو پھیرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

دوسرا مطالبہ : الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو

ہمارا دوسرا مطالبہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو تحلیل کیا جائے اور از سر نو مکمل طور پر غیر سیاسی بنیادوں پر (totally on non-political basis)، غیر جانبدارانہ fully empowered, totally impartial and independent، طور پر اس کو دوبارہ تشکیل دیا جائے۔ آپ پوچھ سکتے ہیں اس کی تحلیل کیوں کی جائے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 218، سیکشن 3 میں الیکشن کمیشن کی یہ ذمہ داری ہے، کہ وہ اس طرح انتخابی نظام کو منظم کرے اور انتخابات کو اس طرح منعقد کروائے اور ایسے انتظامات کرے (as are necessary to ensure) جو لازمی، ضروری اور واجب ہیں۔ اس بات کی ضمانت فراہم کرنے کے لیے کہ الیکشن (honestly) ایمانداری سے ہوں گے، انصاف سے ہوں گے، صاف اور شفاف ہوں گے، بہر صورت قانون عوامی نمائندگی ایکٹ کے مطابق ہوں گے اور بہر صورت all kinds of corruption and corrupt practices سے پاک ہوں گے۔

آئین کا آرٹیکل 218 کہتا ہے کہ ان انتخابات میں سیاست نہیں ہو گی شفافیت ہو گی۔ جانبداری نہیں ہو گی غیر جانبداری ہو گی، بد دیانتی نہیں ہو گی، کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکائو نہیں ہو گا، غیر جانبدارانہ ایماندارانہ ہوں گے۔ اب اس کرپٹ لیڈر شپ نے پارلیمنٹ میں جعلی مینڈیٹ کی وجہ سے اپنی اکثریت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے آئین کے اندر جھرلو پھیرا اور اٹھارویں ترمیم کے نام پر ایک نئی شق داخل کی۔ کیونکہ یہ کوئی ترمیم عوام کے لیے تو کرتے نہیں، کوئی ترمیم پاکستان کے لیے نہیں کرتے، کوئی ترمیم دہشتگردی کے خاتمے کے لیے نہیں کرتے، لاء بھی نہیں بناتے۔ کوئی ترمیم اور قانون سازی ملک کے لاء اینڈ آرڈر کے لیے نہیں کرتے۔ کوئی قانون سازی عوام کے حقوق کے لیے نہیں کرتے۔ یہ ترامیم کرتے ہیں تو صرف مک مکا کے لیے، اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے۔ اب یہ آرٹیکل 213 میں 2-A اور 2-B دو ترمیمیں داخل کیں۔

اب اس ترمیم کے ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جو موجودہ شکل ہے۔ اس کے مطابق الیکشن کمیشن اب پانچ ممبروں پر مشتمل ہے؛ چیف الیکشن کمشنر، ان کے بارے میں دو جملے سن لیں، کوئی شک نہیں (he is an honest person) وہ ایماندار شخص ہیں۔ میں appreciate کر رہا ہوں، دیانتدار شخص ہیں، غیر جانبدار ہیں، ان کی امانت پر، ان کی دیانت پر، ان کی غیر جانبداری پر شک نہیں ہے۔

مگر وہ کم و بیش 84 یا 86 سال کی عمرکے بزرگ ہیں، ضعیف العمر ہیں۔ یہ غنڈوں، دہشتگردوں کا الیکشن 86 سال کا عمر رسیدہ دیانتدار ایماندار آدمی جس کے اندر جسمانی طور پر وہ سکت اور طاقت نہیں ہوتی وہ ایسے الیکشن کو manage نہیں کر سکتا۔ اس عمر میں ان کے پاس جسمانی صلاحیت نہیں ہے اور پھر انہیں قیدی بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ ایک آدمی (چیف الیکشن کمشنر) غیر جانبدار اور اس کے نیچے ساتھ چار ممبر ہیں۔ ان سیاستدانوں نے جو amendment کی اس میں یہ لکھا :

The parliamentary committee to be constituted by the speaker shall comprise 50% member from the treasury benches and 50% from the opposition parties based on their strength in parliament to be nominated by the respective parliamentary leader.

اب الیکشن کمیشن میں ایک آدمی پنجاب کی طرف سے نواز شریف اور شہباز شریف کی سفارش پر ممبر بنا ہے۔ ایک ممبر سندھ کی طرف سے محترم زرداری صاحب کی سفارش پر رکھا گیا ہے اور ایک ممبر سرحد خیبر پختونخواہ کی طرف سے محترم اسفند یار ولی اور جو روولنگ پارٹی ہے ان کی سفارش پہ رکھا گیا ہے اور بلوچستان سے بلوچستان کی پولیٹیکل پارٹیز نے رکھوایا ہے۔ چاروں ممبر چاروں صوبوں اور مرکز کی سیاسی جماعتوں کے nominees ہیں اور یہ ان کے سیاسی مفادات کے رکھوالے ہیں۔

پوری دنیا میں جہاں جمہوریتیں ہیں وہاں الیکشن کمیشن کی تشکیل سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے پیش نظر نہیں کرتیں۔ الیکشن کمیشن سیاست سے ہمیشہ ماورا ہوتا ہے جس طرح سپریم کورٹ ماورا ہوتی ہے۔ انہوں نے ایک دیانتدار شخص کو جو86 سال کے ضعیف العمر ہیں شیشے کی الماری میں شو پیس کے طور پر آگے رکھ دیا ہے کہ ہم نے متفقہ طور پر ایک دیانتدار آدمی کو چیف الیکشن کمشنر بنایا ہے اور چار ممبر ان کے ساتھ سیاسی جماعتوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے ہیں؛ یہ پانچ افراد ہوئے۔ یاد رکھ لیں انہوں نے قانون یہ بنایا ہے کہ کوئی فیصلہ کسی کو ڈس کوالیفائی کرنے کا، کسی کو سزا دینے کا، کسی کو الیکشن لڑنے میں inelligible قرار دینے کا، حتیٰ کہ کسی کو پوسٹنگ کرنے کا، کسی کو ٹرانسفر کرنے کا ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کوئی فیصلہ چیف الیکشن کمشنر تنہا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ ہر چھوٹا بڑا فیصلہ یہ پانچ ممبرز مل کے کریں گے۔ ان پانچوں میں ایماندار آدمی تنہا ایک ہے اور چار آدمی سیاسی جماعتوں کے رکھوالے ہیں، الیکشن کیسے غیر جانبدارانہ ہو گا؟ ایک شخص کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ بھی اکیلا چیف الیکشن کمشنر نہیں کر سکتا، ووٹنگ سے فیصلہ ہو گا۔

ووٹ پانچ ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کا بھی ایک ہی ووٹ ہے اور چاروں سیاسی جماعتوں کے جو نمائندے ہیں مقرر کیے گئے from every province ان کا بھی ایک ایک ووٹ ہے۔ so vote of everybody is of eqaul strength. سو جب بھی شکایت ہوئی کہ دھاندلی ہوئی تو وہ چاروں ممبر جو الیکشن کمشن کے ہیں وہ مک مکا کے ممبر ہیں۔ by the word Muk Muka. this is what I meanایک ممبر غیر جانبدار اور دیانتدار ہے، وہ چار کے مقابلے میں اکیلا وہ کیا کر سکتا ہے۔ الیکشن دھاندلی کے ہوں گے، بد عنوانی کے ہوں گے، کرپشن کے ہوں گے، اس الیکشن کمیشن کے تحت بدعنوانی کو روکا ہی نہیں جاسکتا۔ باقی چار ممبرز بھی سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ نہیں ہونے چاہئیں۔

پانچوں کے پانچوں ممبر beyond politics ہونے چاہئیں۔ غیر جانبدار ہونے چاہئیں تا کہ وہ ہر ایک کے حق کا برابر تحفظ کریں۔ اب پنجاب کا نمائندہ نواز شریف اور شہباز شریف صاحب کے اشارے کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟ سندھ کی طرف سے نامزد ممبر زرداری صاحب کے بغیر کیسے چل سکتا ہے، خیبر پختونخواہ کا اسفند یار ولی صاحب کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟ انہوں نے ان کو رکھا ہی اس لیے ہے تاکہ سب کے صوبوں میں ان کے سیاسی مفادات کی حفاظت کی جائے اور ان کے اوپر ایک بے بس ضعیف العمر ایماندار آدمی بٹھا دیئے ہیں with no strenght and power and authority۔ ایمانداری اور غیر جانبداری کے لیے اس پانچ رکنی الیکشن کمیشن کے متعلق لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ غیر جانبدار الیکشن کمیشن ہے، الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں ہے، یہ سیاسی ہے۔ صرف ایک شخص چیف الیکشن کمشنر غیر جانبدار ہے۔

کمیشن میں تمام فیصلے ووٹ کی عددی اکثریت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ لہٰذا چار ممبر already سیاسی لوگوں کے نمائندے ہیں۔ ایک غیر جانبدار ہے۔ ہمیشہ جب اجلاس ہو گا چار ایک طرف ہوں گے یا ممکن ہے مشکل سے کوئی ایک مل جائے چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ تو تین ایک طرف ہوں گے، ہمیشہ ایمانداری شکست کھائے گی اور بدیانتی جیت جائے گی۔

So we want dissolution of election commission and there is no other way to conduct free, fair and honest election without reconstitution of election commission of Pakistan.

تیسرا مطالبہ : نگران حکومتیں دو جماعتوں کے مک مکا سے نہیں ہوں گی

ہمارا تیسرا مطالبہ یہ ہے کہ تمام نگران حکومتیں غیر جانبدار ہوں اور مک مکا سے نہ بنائیں جائیں۔ آئین میں جھرلو پھیر کر ان سیاستدانوں نے یہ ترمیم کی کہ کیئر ٹیکر گورنمنٹ روولنگ پارٹی اور اپوزیشن لیڈر دونوں اپنی مرضی سے مقرر کریں گے۔ اب روولنگ پارٹی اور اپوزیشن لیڈر کا مطلب یہ ہوا کہ اگر راجا پرویز اشرف صاحب جن کو ہتھکڑی لگانے کے حکم کل ہو گئے ہیں، اور چودھری نثار صاحب جو لیڈر آف اپوزیشن ہیں، یہ دو آدمی اگر بیٹھ کر کیئر ٹیکر پرائم منسٹر اپوائنٹ کر دیں تو وہ آپ کے پاکستان کے الیکشن کے لیے کئیر ٹیکر ہو گا، یہ ان کا مک مکا ہے۔ پانچ سال تک کھانے پینے کے لیے اندر سے ایک تھے، اوپر سے لڑتے تھے، اوپر سے گالی گلوچ دیتے تھے تاکہ اپوزیشن نظر آئیں، اب تو یہ کھلم کھلا ایک ہو گئے ہیں۔

میں آپ کے مفادات کا کیئر ٹیکر ہوں ان کی حکومت کا کیئر ٹیکر نہیں ہوں۔ سو مجھے کوئی خوف ہے نہ لالچ۔ میں اس قوم کو غیر جانبدار، ایماندار، دیانتدار کیئر ٹیکر سیٹ اپ دلانے کے لیے آیا ہوں خود بننے کے لیے نہیں آیا۔ میں جب مصلے پہ بیٹھتا ہوں، اﷲ کے حضور سجدہ ریز ہوتا ہوں، اس کی تسبیح کرتا ہوں، قرآن کی تفسیر لکھتا ہوں، حضور a کی حدیث مرتب کرتا ہوں اور اسلام کے دفاع میں سینکڑوں کتابیں لکھتا ہوں اور شرق سے غرب تک اسلام کے نظریے کی دفاع کی جنگ لڑتا ہوں تو خدا کی قسم! مجھے وہ سکون ہوتا ہے جو کروڑ پرائم منسٹروں کو بھی نصیب نہیں ہو سکتا۔ مجھے فقیری میں امیری میسر ہے۔ اور یاد رکھ لیں جو کیئر ٹیکر بننے کے لالچ میں آئیں لاکھوں ملینز افراد اس کے پیچھے لبیک کہہ کر جان و مال قربان کرنے کے لیے نہیں نکلتے۔ یہ لوگ اس لیے میرے ساتھ ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ میری جد و جہد کے پیچھے کوئی ذاتی لالچ و حرص نہیں ہے۔ میری جد و جہد صرف اور صرف ملک و قوم کے لئے ہے۔

جب treasury بنچز اور اپوزیشن بنچز میں فیصلہ نہیں ہو گا تو کیئر ٹیکر پرائم منسٹر اور کیئر ٹیکر کا فیصلہ الیکشن کمیشن کے پاس آئے گا۔ اب الیکشن کمیشن میں پانچ افراد میں سے ایک فرد ایماندار، دیانتدار اور ضعیف العمر ہے، قرآن کہتا ہے القوي الامین۔ کسی بڑے عہدے کے لیے دو شرطیں ہیں : امانتدار بھی ہو اور صاحب قوت و استعداد بھی۔ پہلی شرط پوری کرتے ہیں کہ امانتدار اور دیانتدار ہیں مگر چھیاسی سال عمر ہونے کی وجہ سے وہ صاحب قوت و استعداد نہیں یعنی جسمانی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان غنڈوں اور بدمعاشوں کی دہشتگردی کے لیے ایک طاقتور القوی شخص چاہیے۔

جب کیئر ٹیکرز کے تقرر کا فیصلہ الیکشن کمیشن میں آئے گا تو وہاں چار ممبرز پہلے ہی سیاسی جماعتوں کے nominees ہیں۔ وہ پہلے ہی مک مکا کے ممبرز ہیں۔ صرف ایک ممبر چیف الیکشن کمشنر امانتدار اور دیانتدار ہے۔ اُس کا بھی ووٹ ایک اور چاروں ممبروں میں سے ہر ایک کا ووٹ ایک ہے۔ تو شروع سے ہی ہر معاملے پر چار ووٹ سیاسی جماعتوں کے مفادات کے لیے ہیں اور ایک ووٹ ایمانتداری کا اور وہ minority میں ہے۔ اس وجہ سے نگران وزیر اعظم بھی مک مکا کا نہیں چاہیے۔

وفاق اور چاروں صوبوں میں ایسا غیر جانبدار کیئر ٹیکر سیٹ اپ چاہیے جس کے پیچھے کسی سیاسی جماعت کا ہاتھ نہ ہو، جو سیاسی جماعتوں کے مفادات کا تحفظ نہ کرے، غیر جانبدار، مکمل ایماندار، مکمل honest, trustworthy, independent اور impartial ہو، لہٰذا یہ سسٹم ہم مسترد کرتے ہیں۔ کیئر ٹیکر پرائم منسٹر، وفاق اور چاروں صوبوں کے کیئر ٹیکر سیٹ اپ پوری عوام کے اعتماد کے ساتھ ہوں گے، ان پارٹیوں کے جھرلو کے ساتھ قائم نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔ یہ ہمارا تیسرا مطالبہ ہے۔ وہ کون ہوں گے؟ یہ جب ٹیبل پر کوئی بات کرنے آئے گا اس وقت بات ہو گی، میں نے صرف ایک نقطہ کلیئر کیا ہے کہ

I am not the candidate for any premiership, any caretaker setup.

میری ذات کی برات ہے۔ یہ میری امانت، دیانت اور صدق و اخلاص ہے کہ میں اپنے آپ کو اختیار دلانے نہیں آیا، میں ملک اور ملک کے عوام کو اختیار دلانے کے لیے آیا ہوں۔ باقی فیصلہ موقع پر ہو گا۔ یہ تین مطالبات ہو گئے۔

چوتھا مطالبہ : قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل

یہ چوتھا اور آخری مطالبہ ہے کہ فیڈرل اسمبلی اور چاروں پراوینشل اسمبلیز کو (dissolve) تحلیل کیا جائے۔ اس مطالبے کا تعلق mechanism کے ساتھ ہے؛ basic demands نہیں ہیں۔ اُن تینوں demands کو implementکرنے کا واحد viable mechanism ہے۔ آئین کہتا ہے کہ تقریباً پانچ سال ان کے پورے ہو چکے اور ڈیڑھ یا دو مہینے رہ گئے ہیں۔ پانچ سال انہوں نے enjoy کر لیا اور لوٹ مار کی انتہاء کر دی۔ اب آئین کہتا ہے کہ اگر 16 مارچ کو یا جب بھی ان کی پانچ سال کی مدت پوری ہو جائے تب اسمبلیز تحلیل (dissolve) کریں گے اور کیئر ٹیکر سیٹ اپ لائیں گے تو الیکشن کروانے میں صرف ساٹھ دن لگیں گے اور ساٹھ دن بھی reduce کر کے یہ چاہیں تو چالیس دن کر دیں یا 45 دن کر دیں، یہ ان کی مرضی ہے۔ کیونکہ آئین میں within 60 days کے الفاظ ہیں یعنی ساٹھ دنوں کے اندر۔

اگر یہ اپنے ٹائم پر اسمبلی توڑیں گے تو وقت اتنا تھوڑا ہوگا کہ آئین اور قانون کی رو سے candidates کی ایک شرط بھی انتخاب کے انعقاد سے پہلے determine نہیں ہو سکے گی، proper secrutiny نہیں ہو سکے گی، pre-clearance possible نہیں ہو سکے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ جب یہ کاغذات نامزدگی داخل کریں تو چیک کیا جائے کہ انہوں نے کتنے سالوں سے ٹیکس دیا ہے یا نہیں دیا۔ اس کے لیے ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ لینی ہو گی، صاف ظاہر ہے اس پر کچھ دن لیں گے، ریوینیو ڈیپارٹمنٹ سے رپورٹ چاہیے ہو گی وہ کئی دن لیں گے۔ کتنوں نے آرٹیکل 63 کے تحت پچھلے دس پندرہ بیس سال میں قرضے لیے اور معاف کرائے؛ تمام بینکس سے مصدقہ رپورٹ لینی ہو گی کہ انہوں نے قرضے right off کرائے۔ کون کون لوگ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی میں ڈیفالٹر رہے؛ الیکشن کمیشن کو محکمہ بجلی، گیس، ٹیلی فون تمام محکموں سے according to the Constitution of Pakistan رپورٹ لینی ہوگی۔

اس کے لیے ٹائم چاہیے۔ غور طلب بات ہے کہ آئین کا تو کوئی ایک آرٹیکل بھی اجازت نہیں دیتا کہ ایم این ایز کو کروڑوں اربوں روپے کے فنڈز development کے نام پر دیئے جائیں۔ میرا سوال ہے کہ آئین کے کس آرٹیکل کے تحت یہ سب لوٹ مار ہوتی رہی۔

پاکستان میں جمہوریت کا بابائے آدم جدا ہے۔ لوکل گورنمنٹ کے انتخابات تین سال چار سال پہلے due تھے لیکن انہیں روک دیاگیا۔ تا کہ developmental fund عوام تک نہ پہنچیں اور کروڑوں اربوں روپے کے فنڈز MNAs اور MPAs کو دیے گئے۔ یہ قبل از انتخابات دھاندلی ہے۔ This is pre-poll rigiging۔

صرف دو مہینے بچ گئے ہیں۔ اسمبلیاں پہلے بھی dissolve کی جا سکتی ہیں۔ میرا مطالبہ آئین پاکستان کے خلاف نہیں ہے، اگر پہلے dissolve کرو گے تو کیئر ٹیکر گورنمنٹ کو تین مہینے ملیں گے۔ الیکشن پھر بھی نوے دنوں میں ہونے ہیں، ہم delay نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ان تین چیزوں کا نفاذ امیدواروں کے الیکشن میں کودنے سے پہلے کروانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ٹائم چاہیے 30 دن کا تا کہ proper secrutiny ہو۔ اگر کوئی ٹیکس چور ہے تو وہ پہلے سے نکال دیا جائے۔ سن لیں! اگر کسی کی کرپشن ثابت ہے تو secrutiny pre-clearance کے پراسیس میں پہلے سے نکال دیا جائے۔ اگر کسی نے الیکشن لاء کو پامال کیا ہے، الیکشن لاء کہتے تھے MPA کے لیے خرچہ 10 لاکھ اور MNA کے لیے خرچہ 15 لاکھ۔ ابھی تک قانون وہی ہے۔ نئی proposals ہیں لیکن قانون پاس نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جون 2012 میں بھی اسی کو برقرار رکھا ہے، سو 10 سے 15 لاکھ کے خرچے کی جگہ ہوا 15 سے 20کروڑ کا خرچہ، یہ چیک کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کہتی ہے ہر امیدوار اپنا بینک اکائونٹ کھولے گا اور الیکشن کے سارے خرچے اسی بینک اکائونٹ سے ہوں گے۔ اسے ایک ایک پیسے کے خرچ کی رسید جمع کرانا ہو گی، خواہ خود کرے، الیکشن ایجنٹ کرے، اس کی پارٹی کرے، ووٹرز کریں یا سپورٹرز کریں۔ کہتے ہیں ہمارے سپورٹروں نے خرچ کیا ہے۔ سب فراڈ ہے۔ الیکشن لاء عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کہتا ہے اور سپریم کورٹ کہتی ہے جو بھی خرچ کرے وہ امیدوار کا خرچ تصور کیا جائے گا۔ سو چھان بین ہو گی کہ یہ لوگ آئین اور قانون کے مطابق چلے یا نہیں چلے۔ لہٰذا ان تمام چیزوں کے لیے کرپشن کی یا نہیں کی، ناجائز پلاٹ بانٹے یا نہیں بانٹے، ناجائز جھوٹی نوکریاں میرٹ کے خلاف دیں یا نہیں دیں، رشوت لی یا نہیں لی؟ اس عمل کی چھان بین کے لیے کم سے کم 30 دن چاہئیں۔

Before they are allowed to enter into the process of election, this would be the process of declaring the eligibility of the candidate and only then elections can take place according to the Constitution of Pakistan.

میں کیوں کہہ رہا ہوں یہ mechanism ہے، مطالبے تین ہیں جو پہلے دے چکا، چوتھا مطالبہ mechanism کا ہے۔ ابھی dissolve کرو۔ اب مجھے بتایئے so called وزیر اعظم پاکستان!

Supereme Court has given a judgment to arrest this person, so a person who has been declared to be involved in a very big corruption case and supereme court has already ordered to arrest him, does any kind of political and democratic morality…I am talking of morality, I am talking of democratic tradition, I am talking of human social moral and ethical values…does any democatic morality allow anybody to still maintain the office of Prime Minister?

کیا قائد اعظم نے پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ ملزم اور مجرم یہاں کے وزیر اعظم بنیں اور شریف لوگوں کے خلاف FIR کٹے؟ جس کو ہتھکڑی لگانے کا حکم ہو جائے کیا اس کی گورنمنٹ کی رٹ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں برقرار ہے؟ رٹ تو پہلے سے ہی کوئی نہیں تھی، چار دن ہزارہ قبیلے کے بے گناہ لوگوں کی سوا سو لاشیں پڑی رہیں، رٹ کراچی میں کہاں ہے؟ رٹ سندھ میں کہاں ہے؟ رٹ خیبر پختونخواہ میں کہاں ہے؟ رٹ پنجاب میں کہاں ہے؟ ہر طرف بدامنی اور دھاندلی ہے۔ جو بچی کچی تھی ہتھکڑی لگانے کے حکم کے بعد کوئی ڈیپارٹمنٹ اس کا حکم نہیں مانے گا۔ جس وزیر اعظم اور جن وزراء کو ECL کی لسٹ پر چڑھا دیا جائے اس کی گورنمنٹ کی کیا رٹ رہے گی؟

So now they have to go. Let the people come to ensure a new free, fair, just and honest electoral process for upcoming democracy in its true letter and spirit.

اب ایک اگلا پوائنٹ میں نے کہا کہ as a mechanism اسمبلیز dissolve کرو۔ بڑا important نکتہ ہے یاد کرو لو اور تمام لوگ سن لیں، ہمارے electoral laws اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے laws کہتے ہیں کہ جب اسمبلی dissolve ہو جائے اور کیئر ٹیکر گورنمنٹ possession لے لے، الیکشن کمیشن اُس وقت سے اپنی authority exercise کرنا شروع کرتا ہے۔ It is very important to understand.۔ جب تک اسمبلیز dissolve نہ ہوں اور الیکشن کی date انائونس نہ ہو، نہ کیئر ٹیکر گورنمنٹ install ہو سکتی ہے نہ الیکشن کمیشن مداخلت کر سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن اپنی اتھارٹی exercise ہی نہیں کر سکتا اگرچہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیر نگری ہو۔

ارب ہا روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، صوبائی حکومتیں کروڑوں روپے کے فنڈز development کے نام پر اپنے MPAs کو دے رہی ہیں۔ Pre-poll rigging has started.۔ اگر اسمبلیز (dissolve) تحلیل نہیں ہوں گی، تو چونکہ ماحول اب تپ گیا ہے، یہ رات دن ایک کر کے خزانہ خالی کر دیں گے۔ discretionary funds کے نام پر اتنی بڑی pre-poll rigging جاری رہے گی اور according to law جب تک یہ پاور میں ہیں الیکشن کمیشن ان کو روک نہیں سکتا؛ اس کی authority ہی نہیں ہے۔ سو یہ pre-poll rigging ہو گی اور اربوں روپے کا خرچ اس دورانیے میں ہوتا رہے گا۔ یہ سارا کچھ اس الیکشن کو rigged الیکشن بنا دے گا۔ it would be known as pre-poll rigging جو عرصہ دراز سے شروع ہے۔ پھر یہ حکومتیں اسی عرصے میں اگر آج تحلیل نہیں ہوتیں جو اربوں روپے اپنی publicity پر لگا رہی ہیں جیسا کہ ہر الیکشن سے پہلے ہوتا ہے۔ آدھے آدھے اخبار کے صفحے فرنٹ پیج اور بیک پیج، کروڑوں روپے کا ایک ایک اشتہار ان کی تصویروں کے ساتھ ان کی خدمات اور کارہائے نمایاں کے چھپیں گے۔ وزارتوں کے نام پر pre-poll rigging پر اربوں روپے کا خزانہ برباد ہو گا۔ جلسے سرکاری خرچوں سے شروع ہو چکے ہیں۔ اگر President of Pakistan کہیںجلسے کر رہے ہیں تو کس کے خرچے سے کر رہے ہیں، اگر وزیر اعظم جلسے کر رہے ہیں تو کس کے خرچے سے، وزیر اعلیٰ کر رہے ہیں تو کس کے خرچے سے، گورنر کر رہے ہیں تو کس کے خرچے سے، وفاقی صوبائی وزراء کر رہے ہیں۔ سرکاری خزانہ pre-poll rigging پر خرچ ہو رہا ہے۔ لہٰذا

Now we need dissolution of assemblies. This is the only viable mechanism in order to enforce the elctoral reforms agenda for the country.

تا کہ per-poll rigging کا طریقہ ختم کر دیا جائے اور اربوں روپے کے فنڈز ان کی discretion سے ہٹا لیے جائیں اور ملک کا خزانہ جو بچ گیا ہے وہ اگلے سیاسی انتخابات کی rigging پر خرچ ہونے سے روک لیا جائے۔ ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری (نیب کے چیئرمین) نے کہا کہ دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہو رہی ہے۔ یہ حکومت مخالف اتحاد کا لیڈر نہیں کہہ رہا، یہ نیب کا سرکاری افسر اور سربراہ کہہ رہا ہے کہ دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن اور سالانہ پانچ ہزارارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ اب جتنے آگے چلیںگے یہ کرپشن development fund، پلاٹس کی تقسیم، پبلسٹی، اشتہارات اور خرچے pre-poll rigging پر بے تحاشہ ہوں گے اور الیکشن rigged ہوں گے، engineered ہوں گے، کوئی چانس free, fair, just and honest election کا نہیں رہے گا۔ آپ اپنے سامنے الیکشن کمیشن آف انڈیا کا جائزہ لیں کہ وہ کتنا خود مختار اور بااختیار ادارہ ہے۔

2009 سے لے کے 2012 تک چار سالوں میں- یہ میرے پاس اعداد و شمار ہیں- وہاں الیکشن کمیشن آف انڈیا کو اتنا empowerکر دیا گیا ہے کہ انہوں نے مرکزی اسمبلی سے لے کر سٹیٹ اسمبلی اور لوکل اسمبلیز، جتنے منتخب نمائندے ہیں تینوں levels پر چار سالوں میں 2068 منتخب اراکین اسمبلی کو disqualify کر کے deseat کر دیا ہے۔ اس کو جمہوریت کہتے ہیں۔ شرم کرو، اس لیے کہ وہاں اچھی یا بری جمہوری اصلاحات کا عمل پارلیمنٹ میں جاری رہتا ہے۔ electoral process اور electoral amendments جاری رہتی ہیں۔ کرپشن وہاں بھی ہے یہاں بھی ہے مگر یہاں سو فیصد ہے وہاں سو فیصد نہیں ہے۔ وہاں الیکشن کمیشن آف انڈیا نے تینوں درجوں کی اسمبلیز میں سے نمائندوں کو نا اہل قرار دے کر kick out کر دیا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک کا یہ عالم اور مجھے آپ یہ بتایئے 65 سال میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کسی ایک MNA کو disqualify کر کے kick out کیا؟ جب بھی نکالا سپریم کورٹ آف پاکستان نے نکالا اور تین مہینے کے بعد پلٹ کر اسی الیکشن کمیشن کے ہوتے ہوئے پھر واپس آ گئے۔ لہٰذا یہ mechanism ہے؛ اس mechanism کے تحت اگر اسمبلیز dissolve ہوں اور گورنمنٹس کو چلتا کیا جائے تا کہ مزید pre-poll rigging کا سلسلہ آج سے ختم ہو جائے۔

نمبر 2 : الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دوبارہ تشکیل دیا جائے جو مکمل طور پر غیر سیاسی ہو جیسے چیف الیکشن کمشنر غیر سیاسی اور دیانتدار ہے اسی طرح نچلے چاروں ممبر بھی سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ نہ ہوں، وہ بھی upright, fiar, just, honest اور impartial لوگوں پر مشتمل ہوں تا کہ کسی سیاسی جماعت کے مفادات کو تحفظ نہ دیں اور completely judicial power کے ساتھ جیسے سپریم کورٹ نے اپنی judgment میں کہا ہے، جیسے عوامی نمائندگی ایکٹ نے بھی کہا ہے، مکمل empowerment دی جائے اور ملک کے تمام سرکاری اداروں کو نوّے دنوں کے لیے الیکشن کمیشن کے تابع کیا جائے۔ وہ جس کے بارے میں جو معلومات مانگے وہ within specific time دینے کے پابند ہوں ورنہ الیکشن کمیشن ان کو punishment دے کر جیل بھی بھیج سکے، suspend بھی کر سکے۔

Dissolution of assembly as a mechanism, reconstruction of election commission of Pakistan purely on non-political basis, it should be totally impartial, independent, non-political, completely powerful so that it may ensure free, fair, just and honest elections which may be free from all corrupt practices according to the constitution and law.

Care Taker Government Must not be by Muk Muka formula. Note : caretaker government must be totally impartial, independent and non-political.

نگران حکومت ایسی ہو جو اٹھارہ کروڑ عوام کے مفادات کا سو فیصد خیال کرے، اقتدار میں رہنے والی پارٹیوں کے مفادات کا نہیں عوام کا خیال کرے، ایسی کیئر ٹیکر گورنمنٹ کا قیام ہی ہمارا مطالبہ ہے۔ اور سب سے پہلا مطالبہ جو دہرا رہا ہوں

Electoral reforms in the light of constitution of Pakistan - Article 62, 63 and 218 and strictly in accordance with the law of Pakistan, electoral laws sections 77 to section 82 of the Representation of People Act 1976 and strictly and prefectly 100% enforcement of the judgment of the supereme court of Pakistan which was issued on 8th june 2012.

یہ چار مطالبات ہیں۔ یہ اسلام آباد کا چارٹر آف ڈیمانڈ ہے اور یہی ڈکلیریشن آف اسلام آباد ہوگا۔

14۔ انگلش خطاب

My brothers and sisters belonging to the foreign world!

I want to make clear some basic realities on behalf of the millions of people who have joined this march with me that this march is totally a constitutional march. This is absolutely lawful and democratic march. We are here in front of the parliament house just to save our country from collapse and disaster. We need substantial changes and reforms and we want to put democracy in place in its letter and spirit. We don't want any kind of derailment of democracy. People have only one right left in Pakistan and that is the right to die, the right to commit suicide. The people have no money to treat a sick child. All of us are living a life of pain. We are living a life of agony. We are living a life of mysery. We are living a life of total desperation. Terrorism has become a daily occurrence. Targeted killings and murders have become rampant in our society. There is no protection of life and liberty here. There is no real freedom for the 99% of the poor population of Pakistan. There is no protection of lives, business, wealth and jobs, even a child travelling like Malala, or any other child travelling on a school bus, is no longer safer. But the government and law-enforcing agencies, are completely paralysed. They have collapsed and have become dysfunctional. If the judgments are passed by the Supreme Court of Pakistan and High Courts of Pakistan, Govt. is not ready to execute the judgments. Will any other democratic country be ready to accept this kind of political situation? Judgments are being passed by our great independent judiciary but the Government is not ready to implement it, rather they are criticizing and are challenging politically. It was the responsibility of the Government to provide such atmosphere of law, constitution and democracy but all successive governments have flouted the law and refused to do so. No laws have been made to alleviate the poverty, and, in the same way, no laws have been made to eradicate terrorism. No laws have been made to improve the law and order situation, no laws for the development of social sector, no assurance for health, no education, no economic growth, no human development, no human rights. These kinds of all constitutional and democratic rights are not in the priority of parliamentary process. Their priorities are only to loot the country. Their priorities are looting, corruption and totally ignoring the rights of the poor people of Pakistan. There is no electricity here, no gas availability, no clean water, no jobs, no health, no house, no food to eat. People have been deprived of the basic necessities of life, what kind of society. What kind of government, what kind of law and what kind of democracy we are running here. The parliament is no more democratic parliament, let me say. Every party is in power and they are sharing corruption; they are equally responsible for the whole process of looting. They say why people have come for the march, why this revolution, why the demands of reforms before elections! Why not?. Just elect the new leaders. Why don't they go for elections? People should choose the new leaders and they will be able to create a government through an electoral process. Now I am answering this question. What kind of the right of choosing the people is there? Where does it exist? Where does the right to change the government exist in our society? There is no democratic, true, just, fair and an honest process of democracy in our country. Our constitution of Pakistan, Article 218 says that electoral process should be free and fair and just and honest and totally free from all corrupt processes. This is the demand of the Article No. 218 of the Constitution of Pakistan. The same is the demand of Representation of People's Act 1976, under which the elections take place in Pakistan. The sections 77 to 82 of the People's Representative Act give all details of the corrupt practices that take place in electoral process which are required to be banned. If any person contesting the election commits any of these practices he should be fined, sentenced to jail and should be disqualified for five years. But these articles of constitution were never enforced and these sections of our electoral laws were never enforced and Election Commission of Pakistan has never been really empowered to do all these things. So there is no real democracy, there is no true electoral process to change the Government and let the new people take over. We the millions on march here today just want to rebuild democracy through the implementation of the constitutional principles and nothing else. This millions march wants to re-build democracy. This is a democracy march, this is anti-corruption march, this is restoration of the rule of law march. We want democracy to guarantee the protection of human rights. We want democracy based on the principal of stability of institutions. We want democracy through empowerment of people; we want democracy through the rule of law and social equality by eradication of all kinds of social indiscrimination. We want democracy through the people of transparency and accountability. We want democracy through the principles of justice, fairness and freedom. Unless these basic reforms are executed in the light of the constitution of Pakistan and in the light of the Peoples' Representation Act 1976 and in the light of the law of the land, unless these reforms take place within the society, within political system, within political parties and within electoral process, there would never be any democratic change. No democratic change can ever occur in the society of Pakistan and democracy can never succeed. We want to re-build democracy through the democratic mechanism within parties, through the institutional checks and balances and through the moral and political traditions of society that do not exist in this society, and which were never practiced by the political leaders of Pakistan. There is no such mechanism that have ever existed here. What does exist here for elections? Why are people unable to change their leader through elections? Criminality exists here in the form of the power vested in criminality, power vested in corruption and power vested in lying, dishonesty and fraud. These things are no bar, practically no bar, and they have been elected in Pakistan for the parliament. Although the Constitution of Pakistan bars them practically, whatever is happening in our political and electoral process is totally against the Constitution of Pakistan and totally against the basic principles of democracy of the world. All that is needed in Pakistan to win the elections are money and might…the two Ms. Only these two Ms…Money and Might…are required, rather three Ms, the third one for Manipulation. All these are needed to win elections in Pakistan : Money, Might and Manipulation; the three Ms. The 70% of the members of parliament, do not pay taxes. They are tax evaders. Say : shame, shame. The National Accountability Bureau chairman was appointed by the President of Pakistan and this is not a private institution; this is a governmental institution, a state institution. He clearly says that about 70% of the members of parliament are tax evaders; they even don't bother to file their tax returns. Would any democracy of the Western world allow any person not to file the tax returns, evade taxes conceal the resources of income? Would any democracy allow this kind of criminal to become the member of parliament? If not, then how do we allow? So recall my first slogan for today's address : NO REPRESENTATION WITHOUT TAXATION. And five hundred thousand rupees per anum is a taxable income. If anybody earns forty one thousand rupees per month, his income is taxable. And what a pity! The parliamentarians, the lawmakers, do not fall in the income tax payers category, they don't disclose their income. Is it democracy here? The Supreme Court of Pakistan kicked out 91 of the fake members of parliament sitting in the building behind me, by the judgment because there were dishonest and they had managed fake degrees of education while submitting their nomination papers. Only two institutions are there in Pakistan who are functioning and performing their duties to fulfill the needs of the people; the judiciary of Pakistan and the armed forces of Pakistan . Now where should people go? Where should we go? We are here and we are crying; we are raising our voice in a peaceful democratic way in front of the building, the Parliament House. And in the building, there is no parliament of Pakistan. There is only a group of looters, group of thiefs, group of decoits and a group of corruption masters of Pakistan. This country's leadership is full of Tauqir Sadiqs, the people like Tauqir Sadiq, the head of OGRA that deals with oil and energy. This head was appointed by the President of Pakistan and he ran away from Pakistan after looting 84 million rupees by corruption and he managed to slip away. We don't want to see Tauqir Sadiqs in our parliament and we also don't want to see those who appoint Tauqir Sadiqs in our parliament. We have to become upright and honest; we have to be just; we have to be fair; we have to be trustworthy to deliver the constitutional and legal duties that have come upon us. And those who have been deseated by the Supreme Court of Pakistan, most of them were reselected after three months and they came back as members of parliament. This is our democracy. Is it democracy or mockery? Our lawmakers are lawbreakers. That is the mechanism they follow. This is the basic reason, why this million march has collected over here in front of the Parliament House! We want to take a step further and proceed towards advancement, stability and prosperity in the same way as other democratic societies and countries are marching on to their goals.

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved