بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
یہ ہماری قومی اور معاشرتی و سماجی بد قسمتی ہے کہ یہاں ہم ہر بات کو شک سے سننے کا آغاز کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ کہنے والا کتنے اخلاص اور دردِ دل سے بات کہہ رہا ہے، ہر بات کو شک و شبہ سے ہی سنا جاتا ہے۔ میں آج قوم کے سامنے نظام کی اصلاح کا جو ایجنڈا رکھ رہا ہوں میں نہیں چاہتا کہ یہ بھی کسی شک و شبے یا غلط فہمی کی نظر ہو جائے۔ اس لئے میںاپنی گفتگو کا آغاز تین حلفوں سے کروں گا۔
آج کے اجتماع میں بڑے فیصلے ہوں گے۔ یہ فیصلے ملک کے مستقبل کو سنوارنے، اس کی تقدیر کو بدلنے۔ غریبوں کے چہروں پر خوشیاں لوٹانے اور تاریکی کو روشنی میں بدلنے کے لیے ہوں گے۔ اس لیے میں خطاب سے قبل چاہتا ہوں کہ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ختم ہو جائیں۔ اس کے بعد لوگ میرے ایجنڈے، منشور اور بات کو سنیں۔ اتفاق کریں یا اختلاف وہ merits پہ کریں، دلیل کے ساتھ کریں مگر نیت میں شک و شبہ نہ رہے۔
تو یہ کہ آج 23 دسمبر کے اجتماع میں آپ شریک ہیں؛ میں نے جس اجتماع کا اعلان کیا اور خود حاضر ہوں، میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر، اللہ کے حضور قرآن کا حلف دے رہا ہوں اور شفاعتِ محمدی کا حلف دے رہا ہوں کہ اس اجتماع کے منعقد کرنے کے پیچھے دنیا کا کوئی ملک، کوئی ادارہ، کوئی اندرونی یا بیرونی ایجنسی نہیں ہے یہ نہ کسی کی خواہش ہے، نہ کسی کا ارادہ ہے اور نہ اس کی کسی کو خبر تھی۔ میں اللہ کی ذات کو گواہ بنا کر یوں سمجھیں جیسے تاجدارِ گنبد خضریٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک غلام کے طور پر کھڑا ہو کر قسم کھا رہا ہوں کہ میرا آج کا پروگرام کسی ملک کی خارجی اور داخلی ایجنسی کا ایجنڈا نہیں ہے۔ مسلمان کلمہ گو کے لیے میرا یہ حلف بحیثیت مسلمان کافی ہے۔
میں اللہ رب العزت کو گواہ بنا کر اس کے حضور اس کی مقدس کتاب قرآنِ مجید کا حلف دے رہا ہوں کہ اس پورے اجتماع - جس میں آپ کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں - کے جملہ انتظامات، لوگوں کا بسوں اور ریل گاڑیوں پر آنا، اس پروگرام کی دنیا بھر میں تشہیر اور دیگر مدّات پر کیے گئے جتنے اخراجات بھی ہوئے ان میں دنیا کے کسی ملک کا، کسی ادارے کا، کسی بیرونی یا اندرونی ایجنسی کا، یا کسی کے نمائندے کا بالواسطہ یا بلا واسطہ کسی بھی شکل میں ایک پیسہ بھی شامل نہیں۔ تمام انتظامات کی مالی قربانی سو فیصد تحریک منہاج القرآن کے کارکنان نے دی ہے اور ان کے ساتھ پاکستان کے عوام، تاجر، علمائ، عامۃ الناس جو اس ملک کی تقدیر کو بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں انہوں نے حسبِ توفیق ان کارکنان کے ساتھ معاونت کی ہے۔ اس کے سوا روئے زمین کی کسی طاقت کا ایک پیسہ اس پورے انتظام میں شامل نہیں۔ اس پر میرا اللہ گواہ ہے۔
اللہ کو گواہ بنا کر کہہ رہا ہوں کہ اس اجتماع کی غرض و غایت ہر گز ہر گز آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی نہیں ہے، نہ جمہوریت کا خاتمہ ہے۔ ان ساری بدگمانیوں کو ذہن سے نکال دیں اور مسلمان ہو کر مسلمان بھائی کی بات کو میرٹ پر سنیں، دلیل سے قبول کریں اور دلیل سے رد کریں۔ اور اس پوری جد و جہد اور آج کے اجتماع اور اس تحریک کے مقصد میں اللہ رب العزت گواہ ہے، اس پر قطعی طور پر کسی فوجی اقتدار و قبضے کی طرف کوئی ارادہ نہیںہے۔ رب ذوالجلال گواہ ہے کہ کسی فوجی اقتدار و قبضے کا راستہ ہموار کرنا ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے۔ اور اگر آرمی نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو میں سیاسی لیڈروں سے پہلے اس دھرتی میں اس غیر آئینی کارروائی کو روکنے کے لیے آگے بڑھوں گا۔
آج کے اس اجتماع کا مقصد اس ملک میں سیاسی عمل کی بساط کو لپیٹنا نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد ملک کو جمہوریت سے ہٹانا ہے بلکہ اس اجتماع کا مقصود سیاست کو غلاظت سے پاک کرنا ہے۔ سیاست کو اجارہ داریوں سے پاک کرنا ہے۔ سیاست کو جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں، ظالموں اور جابروں کے ظلم سے، استحصال سے اور جبر کے نظام سے پاک کرنا ہے۔ سیاست میں اٹھارہ کروڑ غریبوں کو اُن کا حق دلانا ہے۔ ملک کے نظامِ انتخاب اور نظامِ سیاست کی درستگی ہے۔ اس ملک سے سیاسی اور معاشی استحصال کا خاتمہ ہے اور خطرات میں گھری ریاستِ پاکستان کو گرداب سے نکال کر محفوظ و مامون کرنا ہے۔
اے لاکھوں کی تعداد میں اس ارضِ مقدس کے فرزندو! بھائیو اور بیٹیو! آؤ اب میرے ساتھ مل کر تم بھی ایک حلف اٹھاؤ۔ آؤ ہم سب حلف اٹھائیں، دایاں ہاتھ اونچا کر کے :
اگلی بات، میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ آج کے اجتماع میں شریک لوگوں کو MNAs نہیں لائے، MPAs نہیں لائے، LDA کے ملازم نہیں لائے، تھانیدار اور پٹواری نہیں لائے، پولیس والے نہیں لائے؛ اسکولز، کالجز، یونی ورسٹیاں بند کر کے بچوں کو نہیں لایا گیا، اس پر سرکار کے، ریاستوں کے یا حکومتوں کے پیسے خرچ نہیں ہوئے۔ یہ لوگ اپنے گھروں کے زیور بیچ کے آئے ہیں۔ اپنے سائیکل، موٹرسائیکل، گاڑیاں بیچ کے آئے ہیں۔ اپنے پلاٹ بیچ کے آئے ہیں۔ اللہ کی عزت کی قسم! مجھے علم ہے۔ یہ غریب لوگ جن کے پاس کھانے کا لقمہ نہ تھا، انہوں نے بھوک برداشت کی ہے مگر اس وطن سے بھوک کو ختم کرنے کے لیے قربانیاں دے کر آئے ہیں۔ میں پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کو سلام کرتا ہوں اور لاکھوں کی تعداد میں آج کے اتنے بڑے اجتماع نے میرے سوال کا جواب دے دیا کہ ہم نے سیاست کو بچانا ہے یا ریاست کو۔ آج کا اجتماع بتا چکا ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام ریاست کو بچانا چاہتے ہیں، لوٹ کھسوٹ اور بددیانتی کی سیاست کو نہیں بچانا چاہتے۔
اس موقع پر اپنی گفتگو اور ایجنڈا شروع کرنے سے پہلے آپ سے دو باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا آج آپ صرف میرے استقبال کے لیے اور میرا خطاب سننے کے لیے آئے ہیں یا اس ملک کے استحصالی نظام کو بدلنے کے لیے آئے ہیں؟ جواب دیں۔ کیا آپ صرف خطاب سن کر جانا چاہتے ہیں یا اس ملک کے استحصالی نظام کو بدلنا چاہتے ہیں؟ پوری قوم ہاتھ اٹھا کر جواب دے۔ (عوام یک زبان ہو کر نعرے بلند کرتے ہیں : We want change)
سنیے :
If you want Change I am also here to bring the Change.
سنیں! مقدر بدلنے کے لیے، قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے، ریاستوں اور ملکوں کا مستقبل اور تاریخ بدلنے کے لیے جد و جہد پھولوں کی سیج نہیں ہوتی اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔
ایک بات ذہن میں رکھ لیں کہ یہ میری جد و جہد - جس کا آج آغاز ہو رہا ہے - اول دن سے آخر دن تک پُرامن رہے گی۔ آؤ! ہاتھ اٹھا کر میرے ساتھ عہد کرو کہ ہم تشدد کو مسترد کرتے ہیں، ہم توڑ پھوڑ کو مسترد کرتے ہیں۔ میں گوارا نہیں کر سکتا کہ میرے وطن کی ایک کھڑکی کا شیشہ بھی پتھر سے ٹوٹ جائے۔ اس سے بہتر ہے کہ پتھر سے میرا سر پھوڑ دو۔ میرے وطن کا گھر نہ ٹوٹے۔ ـتشدد نہیں ہوگا، دہشت گردی نہیں ہوگی، گولی نہیں چلے گی، پتھر نہیں چلے گا۔ پر امن جد و جہد کے ذ ریعے نظام کو بدلیں گے۔
میرے عظیم کارکنو! اگر آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں تو مجھے دو سوالوں کا جواب دیں۔ اگر آپ نظام بدلنا چاہتے ہیں تو جو فیصلہ میں کروں گا میرا ساتھ دیں گے؟ سوچ کر جواب دیں۔ پچیس پچیس میل تک اجتماع میں ساؤنڈ سسٹم جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ اس استحصالی نظام کے بدلنے تک یہ بیس لاکھ افراد کا اجتماع جہاں جہاں تک پھیلا ہوا ہے، تمام لوگ نظام بدلنے تک مینار پاکستان کے سبزہ زار میں بیٹھے رہیں گے اور یہ ساری دھرتی بلاک رہے گی، گھر نہیں جائیں گے۔ عمل کریں گے؟ بھوک آئے گی، پیاس آئے گی، سردی کی سخت راتیں آئیں گی؛ بیٹھے رہیں گے، جب تک کہوں؟
(شرکاء اجتماع یک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں : آپ کی بات پر عمل کریں گے اور یہیں بیٹھے رہیں گے۔ )
اب میرے اگلے سوال کا جواب دیں : نظام کو بدلنے کے لیے ایک اور راستہ بھی میرے پاس ہے۔ اگر میں اپنے خطاب کے آخر میں آپ سے یہ کہوں کہ گھر نہیں جائیں گے بلکہ اسلام آباد کی طرف مارچ ہو گا اور میں سب سے آگے چلوں گا، تو کیا تم سب میرے ساتھ اسلام آباد چلو گے؟ مریدکے سے لے کر گوجرانوالہ، گجرات، دینہ، راولپنڈی تک کے لوگ سنیں! کہ انہیں ان لاکھوں لوگوں کے لیے راستے میں کھانا دینا ہو گا، پانی دینا ہو گا، استقبال کرنے ہوں گے، مارچ پرامن ہو گا۔ جاپان سے لے کے امریکہ تک دنیا دیکھے گی کہ لاکھوں کا مارچ ایک پتھر چلائے بغیر جا رہا ہے۔ چلو گے یا پلٹ کے واپس گھر چلے جائیں گے؟ جن کے گھر بچے رہ گئے، مشکلات ہیں، چھٹی تھوڑی ہے، گھر کے مسائل ہیں، جنہوں نے واپس چلے جانا ہے ان کو اجازت ہے وہ ہاتھ کھڑا کریں۔ امام عالی مقام امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں عاشورہ کی رات چراغ بجھا کے فرمایا تھا کہ صبح معرکہ شروع ہونے والا ہے، جو لوگ جانا چاہتے ہیں میں چراغ بجھاتا ہوں وہ چلے جائیں۔ میں قیامت کے دن اپنے نانا کو شکایت نہیں کروں گا۔ خدا کی عزت کی قسم! جن کے گھروں کی مجبوری ہے، ان کو اجازت ہے کہ چلے جائیں میں شکوہ نہیں کروں گا، جنہوں نے گھر واپس جانا ہے ہاتھ کھڑے کریں۔ اور اگر میں آخر میں کہوں کہ جنہوں نے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا ہے تو وہ ہاتھ کھڑے کر کے بتائیں۔
(شرکاء اجتماع یک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں : ہم نظام بدلنے کے لیے مارچ کریں گے۔ )
اب انتظار کریں۔ اب میں اپنا کیس سمجھانا چاہتا ہوں اور انتظار کریں، گفتگو کے آخر پر کیا اعلان ہوتا ہے۔ اب اس اعلان کا انتظار کریں اور جو بات اور کیس سمجھانا چاہتا ہوں پوری توجہ سے اسے سنیں اور سمجھیں اور اس فیصلے کا اعلان اپنی گفتگو کے آخر پراٹھنے سے پہلے کر دوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ہماری جد و جہد کا مقصد معاشرے کے ہر فرد کی عزتِ نفس کی بحالی ہے۔ میں پولیس کے افسروں کو بھی سیاسی لیڈروں کی قید سے نجات دلانا چاہتا ہوں۔ میں ہر ایک کی عزت و غیرت بحال کرانا چاہتا ہوں۔ ہر غریب کے چہرے پر مسکراہٹ اور مسرت کا چراغ جلتا دیکھنا چاہتا ہوں۔ ہر غریب کے منہ میں لقمہ دیکھنا چاہتا ہوں اور نہیں چاہتا کہ کوئی ماں اپنے بچے کی میت کو لے کر آئے کہ اسے علاج کے لیے پیسے میسر نہ تھے۔ یہ پاکستان چند ہزار یا چند سو وڈیروں اور لٹیروں کے لیے نہیں بنا تھا بلکہ یہ اٹھارہ کروڑ غریبوں کے لیے بنا تھا۔ ہم پاکستان غاصبوں اور لٹیروں سے چھین کر غریبوں کو دیں گے۔ یہ ایجنڈا اس لیے دے رہا ہوں کہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ :
حاکم شہر کی اس بند گلی کے پیچھے
آج اک شخص کو ہے خون اُگلتے دیکھا
تم تو کہتے تھے کہ ہوتے ہیں درندے ظالم
میں نے انسان کو انسان نگلتے دیکھا
حاضرینِ محترم! اب میرا ایجنڈا شروع ہو گیا ہے، فیصلے کا انتظار کریں اور گفتگو سنیں۔ ہم اس ملک میں آئینیت کی، صاف ستھرے سیاسی عمل کی اور حقیقی جمہوریت کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس ملک میں عدلیہ کی آزادی، اس کی خودمختاری اور عدالتی انصاف کی قوت اور اس کے آئینی کردار کی حمایت کرتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ عدل و انصاف کے مضبوط، اعلیٰ اور وسیع نظام کے بغیر ریاست پرامن طریقے سے نہیں چل سکتی اور عوام بھی ترقی نہیں کرسکتے۔ جدید جمہوری دور میں عدلیہ کا مضبوط، مستحکم اور آزاد ہونا ریاست کے بچاؤ کے لیے اشد ضروری ہے۔
اسی طرح ہم پاکستان کی سلامتی کے لیے، پاکستان کی بقا کے لیے، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے، اس کی آزادی اور خودمختاری کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ پاکستان سے بڑی اس ملک میں کوئی اور شے نہیں، اس ملک کی خاطر اس دھرتی کا بچہ بچہ اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کو تیار ہے۔ ہم پاکستان کو اس خطے کا اہم ترین ملک سمجھتے ہیں، ہمیں اپنے نظام کو درست کرنا ہو گا، ہمیں اپنے قومی کردار کو مثبت بنا کر مستقبل کی قومی، علاقائی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانا ہو گا۔ ہمیں اپنے معاشرے سے بدامنی، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہو گا۔
جو لوگ انتہا پسندی کی راہ پہ غلط فہمی کی بنا پہ چل نکلے ہیں میں ان سے خطاب کر رہا ہوں۔ جو انتہا پسندی کی راہ پہ چل پڑے اور انہوں نے گولہ بارود اٹھا لیا ہے وہ میری اسی دھرتی کے بیٹے ہیں، ہمارے بھائی ہیں۔ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر اس ملک میں عدل و انصاف کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہوں گا۔ اگر اس ملک میں ناانصافی کے خاتمے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر اس ملک میں قومی، آئینی، معاشرتی آزادیوں کی بات ہو گی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر اس ملک میں حقیقی اسلامی اَقدار کی بحالی کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر اس ملک سے ڈرون حملوں کے خاتمے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر غیر ملکی مداخلت کو ختم کرنے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر غیر ملکی آقاؤں کی غلامی سے نجات پانے کی بات ہوگی تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر نہتے، معصوم، بے گناہ انسانوں کی جان بچانے کی بات ہو گی تو تم میرے ساتھ ہوگے؟ مسجدوں، امام بارگاہوں کی حفاظت کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دو گے؟ اس ملک کو پرامن معاشرہ بنانے کی بات ہوگی تو تم میرا ساتھ دو گے؟ اس ملک میں خیر، ترقی اور خوش حالی لانے کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دینے کی بات کرو۔ اس ملک کے غریبوں کے حقوق واپس دلانے کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دو۔ اس ملک کو غیر ملکی طاقتوں کے ایجنڈے اور ان کی زنجیر سے آزادی دلانے کی بات ہو گی تو تم میرا ساتھ دو، میں تمہارا ساتھ دوں گا۔
آؤ! ہم سب مل کر اس دھرتی کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری سے پاک کر دیں اور اس دھرتی کو ڈرون حملوں سے پاک کر دیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے ملک کی سرحدوں میں داخلے کی جرات نہ کر سکے۔ دنیا کی کوئی طاقت ہماری سرزمین میں مداخلت کا تصور نہ کرے۔ یہ ملک بے حساب قدرتی اور افرادی وسائل سے مالا مال ہے مگر اس کی معاشی بربادی کا سبب کرپشن ہے، نا اہل لیڈرشپ ہے اور استحصالی و کرپٹ انتخابی و سیاسی نظام ہے، جسے ہم نے بدلنا ہے۔ ہم اپنے وطن کی معیشت کو تباہ نہیں ہونے دیں گے۔ اس ملک کی صلاحیت کو ختم نہیں ہونے دیں گے اور ہم اس ملک کی آزادی کو اپنی ذاتی آزادی سمجھیں گے۔
یہ بھی واضح کر دوں کہ بعض لوگوں کو ’سیاست نہیں … ریاست بچاؤ‘ کے نعرہ سے یہ بھی غلط فہمی ہوئی کہ شاید میری جد و جہد سیاست کے خاتمے کے لیے ہے۔ … نہیں! میں سیاست پہ ایمان رکھتا ہوں۔ ریاستِ مدینہ کا قیام سیاستِ محمدی کا نتیجہ تھا۔ یہود اور مسلمانوں کو ملا کر ریاستِ مدینہ کا آئین تیار کیا گیا۔ میں ہر قسم کی آمریت کے خلاف ہوں، ہر قسم کی بادشاہت کے خلاف ہوں، فوجی ہو یا سیاسی، خاندانی ہو یا انتخابی ہر غیر جمہوری اور آمرانہ طرزِ حکومت کو اسلام کے خلاف سمجھتا ہوں۔ ہر قسم کی آمریت کو میں اپنے عقیدے کی بنیاد پہ مسترد کرتا ہوں۔ میں اول تا آخر صاف ستھرے سیاسی عمل اور حقیقی جمہوریت اور جمہوری نظام کا قائل ہوں اور اسی کی بحالی کی جنگ لڑ رہا ہوں۔
مگر جس سیاست کا میں قائل ہوں یہ وہ سیاست ہے جو اصولوں پر قائم ہو۔ ہم جس سیاست کو اس مقدس سرزمین پاکستان میں رواج دینا چاہتے ہیں وہ سیاست ان اصولوں پر قائم ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عہدِ خلافت تھا اور سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اس دور کے چیف جسٹس تھے۔ ایک صحابی کو ایک غیر آباد زمین کا قطعہ دیا کیا گیا اور آقا علیہ السلام کا فرمان تھاکہ جو مقررہ وقت میں زمین کو آباد نہ کر سکے اس کی الاٹمنٹمنسوخ کر دی جائے۔
سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جو کہ ریاست کے چیف جسٹس تھے، ان کی عدالت میں درخواست دائر کی گئی۔ انہوں نے اس الاٹمنٹ کو منسوخ کر دیا کہ مقررہ مدت میں زمین آباد نہیں ہو سکی۔ وہ صحابی خلیفہ وقت اور خلیفۃ الرسول سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس چیف جسٹس کے خلاف اپیل لے کر گئے۔ آپ نے فرمایا :
وَاﷲِ! لَا أُجَدِّدُ شَيْئاً رَدَّه’ عُمَرُ.
بخدا! جس کیس کو (چیف جسٹس حضرت) عمر نے ردّ کر دیا ہے، خلیفہ وقت اس کی سماعت کا اختیار نہیں رکھتا۔
1. ابو عبید القاسم بن سلام، کتاب الأموال : 352، رقم : 688
2. ابن قدامة، المغنی، 5 : 337
3. هندی، کنز العمال، 12 : 245، رقم : 35737
عہد فاروقی ہے۔ ایک جنگ کے نتیجے میں مالِ غنیمت میں چادریں آئیں، ہر ایک کو ایک چادر ملی۔ اس سے بڑا جبہ اور قمیض نہیں بن سکتا تھا۔ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے مالِ غنیمت کی دو چادروں سے جبہ سلوایا، پارلیمنٹ میں آئے تو عام صحابی کھڑا ہو گیا۔ اس نے سربراہِ مملکت کا محاسبہ کیا اور کہا کہ اس چادر سے ہمارا قمیض نہیں سلا، آپ کا کس طرح سل گیا؟ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دفاع میں اُن کے بیٹے عبد اللہ بن عمر k کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنی چادر بھی بابا کو دے دی تھے۔ ہم اصولوں پر مبنی اس سیاست کو پاکستان کے معاشرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ (1)
1. ابن جوزی، صفة الصفوة، 1 : 535
2. ابن قیم، اعلام الموقعین، 2 : 180
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین ہیں۔ ان کی زِرہ ایک یہودی نے چوری کر لی، بحیثیتِ سربراہِ مملکت اُسے گرفتار کر کے اپنی زِرہ واپس نہیں لی بلکہ عدالت میں گئے۔ قاضی شریح جج تھے، انہوں نے گواہی مانگی تو ان کے پاس گواہی نہیں تھی۔ یا ایک روایت کے مطابق سیدنا حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ کی گواہی تھی۔ جج نے کہا کہ بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں۔ مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا کیس مسترد ہو گیا، یہودی کے حق میں عدالت نے فیصلہ کر دیا۔ جب یہودی باہر نکلا تو اس نے کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کیا اور کہا کہ میں اسلام کا نظامِ عدل دیکھنا چاہتا تھا۔ زِرہ مولیٰ علی کی ہے لے لیں۔ فرمایا : نہیں جو فیصلہ عدالت نے کیا، اس پر عمل ہوگا میں زرہ واپس نہیں لوں گا۔ (1)
(1) أبو نعیم، حلیة الأولیاء ،4 : 139
میں اس ملک میں اِن اصولوں پر مبنی نظامِ سیاست و حکومت دیکھنا چاہتا ہوں۔ اگر ہمارا نظامِ سیاست اور نظامِ انتخاب ان اصولوں پر قائم ہو جائے تو یہ سیاست ریاست کو بچا سکتی ہے۔ مگر جس لوٹ مار، کرپشن، اجارہ داری، دھن، دھونس اور دھاندلی کا نام ہم نے سیاست بنا رکھا ہے، اس سیاست سے ریاست کو نہیں بچایا جا سکتا، آج ریاست کمزوری کے آخری مقام تک جا پہنچی ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا سیاست اس عمل کا نام ہے کہ اس ملک کے کروڑوں غریب بھوک، غربت اور افلاس کی آگ میں جلیں اور پانچ پانچ سال تک پارلیمنٹ میں بیٹھنے والی سیاسی حکومتیں ان کی غربت و اَفلاس کے خاتمے کا ایجنڈا تیار نہ کر سکیں۔ کیا یہ سیاست ہے؟ کیا یہ سیاست ہے کہ خود تو سیاسی لیڈر سیکڑوں کنال پر مشتمل گھروں اور محلات میں رہیں اور اربوں کھربوں روپے روزانہ ان کے محلات پر خرچ ہوں اور کروڑوں غریبوں کو اس ملک میں کھانے کے لیے لقمہ نہ ملے؟ تن ڈھانپنے کے لیے لباس نہ ملے اور سر چھپانے کے لیے گھر نہ ملے، کیا اس کا نام سیاست ہے؟ میں اس کو مسترد کرتا ہوں۔ ہم اُس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس نے ملک پاکستان کی ترقی و استحکام کا کوئی منصوبہ نہیں دیا۔ ہم اُس سیاست کو مسترد کرتے ہیں جس میں ملک کی سا لمیت، آزادی اور خودمختاری کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی۔ جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پانچ سال تک پارلیمنٹ میں کوئی قانون نہیں بنایا جا سکا۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جو پاکستان کی شہ رگ کراچی - جو امن و آشتی کا گہوارہ تھا - وہاں ہر روز لاشیں گر رہی ہیں، مگر اُس شہر کو امن نہ مل سکا۔ ہم اُس سیاست کو مسترد کرتے ہیں۔
ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں قتل و غارت گری ہو۔ جس میں اغوا ہو، دہشت گردی ہو اور لوگ خود تاوان دے کر اغواء کاروں سے چھوٹ کر آئیں اور انہیں ملک میں کوئی تحفظ دینے والا نہ ہو۔ ہم اِس سیاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں کروڑوں لوگوں کو پانی، بجلی، سوئی گیس کی فراہمی کا بندوبست نہ کیا جا سکے۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں بھوک کے مارے ہوئے لوگوں کو خودکُشیوں اور تن سوزیوں سے روکنے کی گنجائش نہ ہو۔ ہم اس سیاست کو نہیں مانتے جس میں لوگ اپنی بیٹیوں کی عزت بیچ کر کھانا حرام کا کھا رہے ہوں۔ ہم اُس سیاست کو نہیں مانتے جس میں نوجوان نسل کا مستقبل تاریک ہو رہا ہو۔
میں جب کہتا ہوں کہ ’سیاست نہیں … ریاست بچاؤ‘ تو سیاست کے لفظ سے میری مراد یہ گھناؤنا کھیل ہے جو اٹھارہ کروڑ غریبوں کی غربت کے ساـتھ کھیلا جا رہا ہے۔ اور میں بھی ایک سیاست کو بچانا چاہتا ہوں، اُس سیاست کو جو ریاست کو بچاتی ہے اور وہ سیاست قائد اعظم کی سیاست ہے جو اتحاد کی سیاست ہے، جو یقین کی سیاست ہے، جو تنظیم کی سیاست ہے، جو محبت کی سیاست ہے، جو اُخوت کی سیاست ہے، جو وحدت کی سیاست ہے۔ میں اُس سیاست کو بچانا چاہتا ہوں جو ملک سے نفرتوں کو ختم کر دے اور جو ملک کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی بجائے ایک اکائی بنا دے۔
ہمیں ضرورت ہے کہ اس وقت ہم اصل مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرا ایجنڈا پاکستان سے انتخابات کو ختم کروانا نہیں ہے۔ کسی کو یہ مغالطہ ہے تو خدا کے لیے نکال دیں۔ میری بات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرا ایجنڈا انتخابات ختم کروانا نہیں بلکہ انتخابات کو درست کروانا ہے، نظامِ انتخابات کی اصلاح کروانا ہے تا کہ وہ انتخابات اس ملک کو صحیح قیادت دے سکیں۔ وہ انتخابات لانا ہے جس میں پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ پارٹیاں ٹکٹ نہ بیچ سکیں۔ میں اُن پارٹیوں کے ہاتھ کاٹنا چاہتا ہوں جو پانچ پانچ کروڑ کے ساتھ ٹکٹیں بیچتی ہیں۔ میں دیکھوں گا جب عوام کھڑے ہوں گے تو کون سی پارٹی پانچ دس کروڑ کے ساتھ نمائندوں کو ٹکٹ بیچتی ہے، یہ قوم ان کے گریبانوں پرہاتھ ڈالے گی۔ اِس نظامِ سیاست میں اور نظامِ انتخاب میں آئینیت اور دستوریت کا فقدان ہو چکا ہے، اس کو بحال کروانا چاہتے ہیں۔ آئین کی بالادستی نہیں رہی، قانون کی بالادستی نہیں رہی، ہم اُس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔
اِس ملک سے قانون کی حکمرانی (rule of law) ختم ہو چکی ہے، ہم اُس کو بحال کرانا چاہتے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلوں کا نفاذ ختم ہو گیا ہے، ہم اُس کی بحالی آئین کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔ اِس ملک کا طرزِ حکمرانی کرپشن پر مبنی ہو گیا ہے، گورننس مایوس کُن حد تک معطل ہے، ہم اُسے اچھی حکومت میں بدلنا چاہتے ہیں۔ ہماری معیشت تباہ ہو رہی ہے، ہم معیشت کو سنبھالا دینا چاہتے ہیں۔ ہر سطح سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا اِس ملک میں کوئی تھانیدار اور کانسٹیبل کسی غریب سے پیسے مانگے۔ میں پولیس کی تنخواہوں کو دو گنا یا چار گنا بھی کرنا پڑے تو کرنا چاہتا ہوں تا کہ غریب کا کام رشوت کے بغیر ہو۔
میں اِس ملک میں امن و امان کو بحال دیکھنا چاہتا ہوں۔ اِس ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتا ہوں۔ ہم نہ صرف خود غیر محفوظ ہو گئے ہیں بلکہ دہشت گردی کے ایکسپورٹر بھی بن گئے ہیں۔ دنیا کو ہم سے خوف اور عدم تحفظ لاحق ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ انڈونیشیا کا پالی بامبر بھی پاکستان سے پکڑا جاتا ہے۔ انتہا ہے! چار دن پہلے پشاور ایئربیس پر حملہ کرنے والے غیر ملکی نظر آتے ہیں، جن کے جسم پر tattoos بنے ہوئے ہیں۔ اور آپ کیا سمجھتے ہیں جو کھیل کراچی میں کھیلا جا رہا ہے اُس میں غیر ملکی ہاتھ نہیں ہیں؟ جو اس ملک کو توڑنا چاہتے ہیں۔ میرا اِس ملک کی سیاسی جماعتوں اور عدالتوں سے اور اَفواجِ پاکستان سے، پارلیمنٹ سے، میڈیا سے اور اٹھارہ کروڑ عوام سے سوال ہے کہ اگر حکومتیں منتخب ہو کر اپنے ملک کے عوام کی جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ نہیں دے سکتیں، اگر اپنے ملک کے شہروں کا امن بحال نہیں کر سکتیں، لوگوں کو اغوا ہونے سے بچا نہیں سکتیں، اُن کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج، صحت، تعلیم، روزگار مہیا نہیں کر سکتیں، لاء اینڈ آرڈر بحال نہیں کر سکتیں تو یہ حکومتیں اور نظام غیر آئینی بھی ہے، غیر قانونی بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ ہم ایسے نظام کو ہرگز قبول کرنے کو تیار نہیں۔
خیبر پختونخواہ وہ خطہ ہے جس کا امن دنیا میں مثالی تھا، اس کے بالائی سرحدی علاقوں پر حکومتِ پاکستان کی رِٹ ختم ہو چکی ہے۔ پھر اس بات کا کیا جواز ہے کہ آپ کہیں کہ ہماری حکومت آئینی حکومت ہے، ہمارے پاس آئینی اتھارٹی ہے؟
بلوچستان کے حالات سنبھالنے میں اور سنوارنے میں حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ آپ خود کہہ رہے ہیں کہ بیرونی عناصر خون کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ آپ کا اقتدار میں رہنے کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے اور ایسے بیرونی عناصر کیوں نہیں آئیں گے۔ جب ریاست اندر سے خود کمزور ہو جائے تو باہر سے دشمن مداخلت ضرور کرے گا۔ دشمن تو ہماری حفاظت نہیں کرے گا۔ اگر ہم کمزور ہیں تو دشمن تو آئے گا۔ اگر ہم اندر سے طاقت ور ہوں تو کسی کو مداخلت کی جرات نہیں ہوگی۔
ایک وقت تھا کہ پوری اُمتِ مسلمہ کی واحد نیوکلیئر پاور ہونے کے ناطے ہم دنیائے اسلام کا فخر تھے، مگر اب ہم اپنوں اور بیگانوں سب کے ہاں نشانِ تضحیک بن گئے ہیں۔ ہر جگہ اپنا وقار کھو چکے ہیں۔ دنیا ہمیں کرپٹ اور ناکام ریاست کے طور پر دیکھتی ہے، ہمارا طرزِ حکمرانی ناکام، ہماری سیاست ناکام، معیشت ناکام، ملکی استحکام کمزور، تعلیم پسماندہ، صحت ناکام، سالمیت خطرے میں، آزادی خطرے میں، خود مختاری خطرے میں، عوام کی اخلاقی، سماجی حالت تباہ کُن، نظام کے اندر شفافیت ختم، میرٹ کا نظام ختم۔ کسی غریب کے بچے کو MBBS یا انجنیئرنگ کرنے کے باوجود رشوت کے بغیر جاب نہیں ملتا۔ انسانی حقوق ختم، امن و سلامتی ختم، لوگوں کی بنیادی ضروریات ختم، جان و مال کی حفاظت ختم، مستقبل ہمارا ختم، علم اور ہنر مندی کا مستقبل ختم، مجھے کوئی ایک شعبہ گِن کر بتائیے جس کا کوئی پہلو قابلِ تعریف ہو، حوصلہ افزاء ہو، رُوبہ ترقی ہو، اس میں روشنی کی کرن نظر آئے، عوام مطمئن ہوں اور ہمارا ضمیر مطمئن ہو۔
آج ہم اجتماعی طور پر ناکام ہو رہے ہیں، سسٹم تباہ ہو رہا ہے۔ ہماری سیاست نام ہے صرف جوڑ توڑ کا، گالی گلوچ کا، اگلا الیکشن جیتنے کا، سازشی منصوبہ بندی کا، اس کے سوا ہماری کوئی ترجیح قومی سطح پر نہیں رہی۔ اگر سیاسی لیڈر اور حکمران ان کاموں میں مصروف ہیں اور اٹھارہ کروڑ عوام کی مدد کرنے اور ان کو حق پہنچانے کی فرصت اُن کے پاس نہیں تو سن لو میں اب اختتام پر اعلان کرنے والا ہوں کہ اٹھارہ کروڑ عوام اپنا حق لینے کے لیے خود اٹھیں گے اور میرا پیغام ہے کہ زندگی بھیک سے نہیں ملتی، زندگی بڑھ کے چھینی جاتی ہے اور لوگو !
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار ہلا دو
سلطانیِ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
اس ملک میں غریب کے لئے کبھی کسی نے فکر کیا؟ جاؤ کراچی کی چھوٹی آبادیوں میں، ایک چھوٹے گھر میں کتنے درجنوں لوگ جانوروں کی طرح رہ رہے ہیں۔ سندھ میں جا کے دیکھئے، بلوچستان میں جا کے دیکھئے، پنجاب میں، لاہور کی بڑی شاہراہیں نہ لیں۔ پنجاب کے اندر جائیے، جنوبی پنجاب میں جائیے، خیبرپختونخواہ میں جائیے، غربت کی آگ میں لوگ جل رہے ہیں، عزتیں بیچ رہے ہیں، ایمان بیچ رہے ہیں، ضمیر بیچ رہے ہیں، ووٹ بیچ رہے ہیں، اس حالت میں ہونے والے انتخابات آپ سمجھتے ہیں کہ آزادی رائے ہے؟ یہ جمہوریت ہے؟ یہ آئینی انتخاب ہے؟ ہمیں اس کا جائزہ لینا ہے کہ غریب مزدور کو تو مال دار کھا گئے، ان کو نظام سے نکال دیا گیا، وہ خود کو کیسے بچائیں، کسی نے کہا تھا :
ملیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اُس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
پانچ سال لُوٹ مار کا بازار گرم رہتا ہے، ادارے ٹکراتے ہیں، لاشیں گرتی ہیں، خون بہتا ہے، لوگ جلتے مرتے ہیں، کوئی کسی کا پرسانِ حال نہیں۔ جب پانچ سال ختم ہونے کو آتے ہیں تو پھر ایک نیا سیاست کا بازار گرم کرنے کا شور مچتا ہے کہ نہیں، اِس ٹائم کے اندر پھر الیکشن ہونے چاہئیں۔ اب action replay نہیں ہوگا۔ استحصال، کرپشن اور دھاندلی کا الیکشن نہیں ہو گا۔ الیکشن ہوگا، ضرور ہوگا مگر عدل و انصاف کا، آزادیِ رائے کا، استحصال سے پاک کرنے کے بعد۔ اب یہ بات جو میں نے کہی، ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ نظام deliver نہیں کر رہا، کرپشن تیزی سے بڑھ رہی ہے، شفافیت ختم ہے، خود احتسابی نظام میں موجود نہیں، آئین کی پاس داری نہیں، دستوریت کا وجود نہیں، حکومت کی کارکردگی گرتی جا رہی ہے اور پاکستان کرپشن میں 139ویں پر چلا گیا ہے اور ورلڈ اکنامک فورم کے انڈیکس کے مطابق صرف چار سال کے اندر پاکستان کی ریاستی صلاحیت 22 ڈگری گر گئی ہے۔ پاکستان کی بقاء خطرے میں ہے۔
اگر یہ صورتحال رہے تو پھر ہم کہتے ہیں کہ فوج مداخلت نہ کرے! ہم بھی فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ فوج کا یہ کام نہیں۔ اس کا کام ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے، اگر فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو ہمیں اپنی حکومت آئین کے مطابق چلانا ہوگی۔
فوج کی مداخلت کو روکنا ہے تو ہمیں قانون کی حکمرانی (rule of law) لانا ہوگا، ہمیں پارلیمنٹ کو مؤثر بنانا ہوگا۔ انتخابی نظام کو صاف و شفاف بنانا ہوگا، حکومت کی کارکردگی کو بہتر کرنا ہو گا، جمہوریت کا صحیح کلچر لانا ہوگا، عدل و انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ اگر نظام از خود صحیح چلے تو اس ملک میں فوج کبھی مداخلت کی جرات نہیں کر سکتی اور جب آپ کا نظام مکمل طورپر تباہ ہوچکا ہو تو پھر آپ فوج کی مداخلت کو روک نہیں سکتے۔
اب میں آئین کی طرف آرہا ہوں۔ یہ میری گفتگو کا بڑا اہم حصہ ہے اور فیصلہ کُن حصہ ہے۔ میں جو agenda، proposal اور plan دینے جا رہا ہوں وہ آئینِ پاکستان کے مطابق ہے اور پاکستان کے آئین کی ایک شق بھی اس سے الگ نہیں۔ اب میں پاکستان کا آئین آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ انتخابات کی بات ہوتی ہے مگر بتانا چاہتا ہوں کہ آئینِ پاکستان کس طرح کے انتخابات چاہتا ہے۔
میرا آج کا پورا ایجنڈا پاکستان کے آئین کے مطابق ہے۔ میں خود بھی پابند ہوں۔ یہ آئینِ پاکستان میرے ہاتھ میں ہے اور اب یہ فیصلہ ہو گا کہ اس آئین کے خلاف کسی کو چلنے نہیں دیں گے۔ اب ملک کی سیاست کو اس آئین کے تابع کریں گے، ملک کے نظامِ انتخاب کو اس آئین کے تابع کریں گے۔ اس آئین کو حکمران بنائیں گے اور اس آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اٹھا کر سمندر میں ڈبو کے رکھ دیں گے۔
سنیے! آئین کیا چاہتا ہے، الیکشن کے لیے آئین کا آرٹیکل نمبر 3۔ یاد رکھیں میں آپ کو آئین کا حافظ بنانا چاہتا ہوں آئین کا آرٹیکل 3 کہتا ہے کہ :
The State shall ensure the elimination of all forms of exploitation.
یہ دستور کا آرٹیکل نمبر 3 ہے۔
آپ الیکشن میں جا رہے ہیں، آئین کہتا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ ہر قسم کا استحصال ختم کرے۔ میں عدالتِ عظمیٰ سے پوچھتا ہوں، میں افواجِ پاکستان سے پوچھتا ہوں، میں پاکستان کے چیف الیکشن کمشنر سے پوچھتا ہوں، میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ سے پوچھتا ہوں اور میں عوامِ پاکستان سے پوچھتا ہوں کہ نئے انتخابات میں جا رہے ہیں، کیا انتخابی عمل میں جو استحصال ہوتا ہے غریبوں کی غربت کا، تھانے اور کچہری کا، دھن، دھونس، دھاندلی کا، پوری برادریوں کا سودا ہوتا ہے۔ یہ جو استحصال کے سارے طریقے ہیں، جھوٹے مقدمے، غنڈہ گردی، دہشت گردی، جیل۔ استحصال کے یہ سارے طریقے، کیا آپ نے الیکشن سے پہلے ان کے ختم کرنے کی ضمانت حاصل کر لی ہے؟
ایک طرف نہتا غریب، ہاری، مزارع اور دوسری طرف اس کا جاگیردار۔ وہ الیکشن استحصال کا الیکشن ہوگا یا آزادیِ رائے کا ہوگا؟ آئین کہتا ہے کہ
Every form of exploitation should be eliminated. This is the responsibility of the state.
میں آئین کے آرٹیکل 3 پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتا ہوں۔
آگے آئین کا آرٹیکل نمبر نو security of person کے بارے میں کہتا ہے کہ کسی شخص کی جان کو خطرہ ہوگا نہ آزادی کو خطرہ ہوگا۔ اب مجھے بتائیے موجودہ نظام کے تحت الیکشن میں لوگ جائیں تو کمزور مخالف امیدوار اور ان کے سپورٹرز کی جان اور آزادی کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا؟ انہیں arrest نہیں کیا جائے گا؟ ان پر مقدمے نہیں ہوں گے؟ الیکشن کمشنر کے پاس قانون سازی کی اتھارٹی ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے الیکشن کمیشن کو آزاد بنا دیا، ایک چیف الیکشن کمشنر دیانت دار شخص مقرر کیا۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ بڑا قابل سرجن متعین کر دیں اور آپریشن تھیٹر میں اس کے پاس آپریشن کا سرے سے سامان ہی کوئی نہ ہو، تو وہ سرجری کیا کرے گا۔ ہسپتال کا MS لگا دیں اور عملے کو ردّ و بدل کرنے کا اس کے پاس قانونی اختیار ہی نہ ہو۔ قانون بنانے کا اختیار پارلیمنٹ میں ہے اور چیف الیکشن کمشنر ایماندار بندہ تنہا بٹھا دیا ہے۔ بے بس، بے یار و مددگار۔ ان کے پاس اپنا عملہ بھی کوئی نہیں۔ وہ کس طرح لوگوں کی جان و مال اور آزادی رائے کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرے گا۔ جہاں بھتے بھی چل رہے ہوں، تاوان بھی چل رہے ہوں، مقدمے بھی چل رہے ہوں۔
آئین کا آرٹیکل نمبر 37 کہتا ہے :
Promotion of social justice and eradication of social evils.
The State shall ... do this.
ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو معاشرتی انصاف مہیا کرے اور ہر قسم کی ایسی برائیاں جو آزادیِ رائے پہ اثر انداز ہو سکتی ہیں، جو الیکشن میں لوگوں کے فیصلے کو متاثر کر سکتی ہیں، ان ساری خرابیوں کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔
میں قومی اداروں اور سیاسی جماعتوں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ان برائیوں کے خاتمے کی سو فیصد ضمانت مہیا کر لی گئی ہے؟ کیا جواب ہے؟ نہیں۔ جب یہ مہیا نہیں کی گئی تو وہ الیکشن کس اعتبار سے آئینِ پاکستان کے مطابق ہے؟ ان میں سے ایک شق پر عمل نہیں ہو رہا تو کیا یہ حکومت آئینی ہے؟ صرف 90 دن کے اندر الیکشن ہونا چاہیے۔ آئین کا صرف ایک آرٹیکل سب کو یاد ہے جب کہ آئین کے دیگر پچاس آرٹیکل بھی اتنے ہی محترم ہیں لیکن وہ کسی کو یاد نہیں۔ ان پر عمل کون کرائے گا؟
آئین کا یہی آرٹیکل 38 کہتا ہے :
The State shall secure the well-being of the people.
یعنی ریاست پر فرض اور لازم ہے کہ لوگوں کی زندگی اور معاشی حالات کو بہتر بنائے تاکہ طاقت ور لوگ عوام کا استحصال نہ کر سکیں اور وہ بغیر خوف اور ڈر کے اپنی رائے کو آزادانہ استعمال کر سکے۔ کیا یہ well-being لوگوں کو مہیا کر دی گئی ہے؟
اے اٹھارہ کروڑ عوام! آپ کا بھی پاکستان ہے۔ میرے میڈیا کے معزز بھائیو! آپ کا بھی پاکستان ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈرو اور کارکنو! آپ کا بھی پاکستان ہے۔ ملک کو عدل فراہم کرنے والے ادارو! آپ کا بھی پاکستان ہے اور پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والو! آپ کا بھی پاکستان ہے۔ میرا سوال سب سے ہے کہ کیا آئین کے آرٹیکل 38 کے تحت یہ ضمانت مہیا کر دی گئی ہے کہ غریب و امیر کے اس فرق کو اتنا مٹا دیا جائے گا کہ کوئی امیر اور طاقت ور غریب اور کمزور کی رائے لینے میں اس پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
آئین کا آرٹیکل 38 (a) کہتا ہے کہ :
By preventing the concentration of wealth and means of production and distribution in the hands of a few to the detriment of general interest and by ensuring equitable adjustment of rights between employers and employees, and landlords and tenants.
آئین کہتا ہے کہ زمیندار اور کسانوں کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ سرمایہ دار اور مزدور کی آمدن کے درمیان توازن قائم کیا جائے۔ خدا کا نام لے کر بتاؤ! اس دھرتی پہ توازن نظر آ رہا ہے آپ کو؟ فیکٹری کا مالک کھڑا ہو تو مزدور آزادی رائے سے ووٹ دے سکے گا؟ جاگیردار کا بیٹا کھڑا ہو تو وہاں ہاری اور کسان آزادی رائے سے ووٹ دے گا؟ مجھے بتائیے : کہ اگر اس آئین کی ایک شق پر بھی عمل نہ ہو اور رٹ لگائی جائے صرف 90 دن کی، تو یہ الیکشن آئینی الیکشن نہیں ہوگا۔
اس کے بعد آرٹیکل 38 کی clause - d دیکھیں۔ وہ کہتا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں پر دباؤ نہ پڑے، استحصال نہ ہو، بلیک میل نہ ہوں، influence نہ ہو، ان کی آزادی رائے پر طاقت ور لوگ دباؤ نہ ڈالیں۔ تو کیا کریں؟ آئین کہتا ہے :
Provide basic necessities of life, such as food, clothing, housing, education and medical relief, for all such citizens.
آئین کے آرٹیکل 38 کی clause - d کہتی ہے کہ ہر شہری کو خوراک، روٹی دی جائے۔ کیا یہ ہر شہری کو میسر ہے؟ آئین کہتا ہے کہ ہر شہری کو لباس مہیا ہو، ہر شہری کے پاس گھر ہو، ہر شہری کے پاس تعلیم ہو اور ہر شہری کے پاس بنیادی علاج کی سہولت ہو۔ اور اگر وہ بے روزگار ہے، بیمار ہے یا کمزور ہے تو اسے اتنا بہتر کیا جائے کہ اس کے نتیجے میں کوئی اس پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
آئین تو یہ شرط عائد کرتا ہے۔ اگر یہ شرائط پوری کی جائیں تو انتخابات آئینی ہوں گے اور اگر یہ شرائط پوری نہ کی جائیں تو ہونے والا الیکشن کبھی آئینی نہیں ہو گا اور یہ قوم غیر آئینی الیکشن کو مسترد کر دے گی۔
اور پھر آئین کے آرٹیکل 38 کی clause - e کہتی ہے :
To reduce disparity in the income and earnings of individuals.
لوگوں کی آمدنی، ذرائع اور وسائل میں غیر معمولی فرق کو ختم کیا جائے۔ کیوں ختم کیا جائے؟ اس لیے کہ اگر بے پناہ غربت ہو گی اور بے پناہ جہالت ہو گی تو اس صورت میں لوگ آزادانہ ووٹ کا استعمال نہیں کر سکیں گے۔ ان پر طاقت ور لوگ اثر انداز ہوں گے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ چند مہینوں میں اور تھوڑے عرصے میں یہ سارے حالات تو نہیں بدل سکتے تو اس کا جواب یہ ہے لوگ کمزور ہوں اور خود اگر اپنے گھر کی حفاظت نہ کر سکیں تو کم سے کم Law Enforcing Agencies انہیں ڈاکوؤں اور چوروں سے تو بچا سکتی ہیں۔ اگر لوگ خود اتنے طاقتور نہیں بنے تو الیکشن سے پہلے یہ نظام وضع کیا جائے کہ کوئی جاگیردار اور کوئی زمیندار اپنے مزارع کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کے اپنے حق میں ووٹ نہ ڈلوا سکے۔ کوئی سرمایہ دار اور کوئی غنڈہ اور کوئی طاقتور غریب لوگوں کو اور برادریوں کو ہانک کے ووٹ نہ ڈلوا سکے۔ پولیس کے ذریعے، فوج کے ذریعے، Law Enforcing Agencies کے ذریعے، جب تک لوگوں کو کامل تحفظ اور ان کی آزادیِ رائے کے تحفظ کی ضمانت نہ ہو وہ الیکشن غیر آئینی الیکشن ہوگا۔ اس کے لیے Legal Arrangements کرنے ہوں گے اور وہ چند مہینوں کی بات ہے۔ اس عمل کے لیے چند مہینے کافی ہیں مگر اس کا کوئی اہتمام نہ ہوا ہے نہ ہوگا۔ دو پارٹیاں صرف اکیلے بیٹھ کر مک مکا کرنا چاہتی ہیں تاکہ وہ آپس میں دھاندلی نہ کر سکیں۔ وہ اپنی دھاندلی کو بچا رہی ہیں مگر اٹھارہ کروڑ عوام سے جو دھاندلی ہو رہی ہے اس کو کون بچائے گا۔
پھر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218 کی تیسری شق الیکشن کمیشن کے لیے بہت خاص ہے۔ اس کے مطابق :
It shall be the duty of the Election Commission constituted in relation to an election to organize and conduct the election and to make such arrangements as are necessary to ensure that the election is conducted Honestly, Justly, Fairly and in Accordance with law, and that Corrupt practices are guarded against.
آئین نے الیکشن کے لیے پانچ شرائط لگائی ہیں کہ الیکشن کلیتاً اس طریقے سے ہوں کہ ہر لحاظ سے وہ الیکشن دیانت دارانہ ہوں۔ دوسری شرط کہ وہ الیکشن سو فیصد منصفانہ ہوں، پھر آئین کہتا ہے کہ اس میں کوئی نا جائز طریقہ استعمال نہ کیا جائے اور ساری corrupt practices اور طریقے ختم کر دیے جائیں اور کرپشن کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
آرٹیکل 218 کی clause 3 کے تحت یہ پانچ شرائط اگر پوری ہوں تو الیکشن آئینِ پاکستان کے مطابق ہوں گے اور اب تک ان پانچوں شرائط میں سے کسی ایک شرط کے پورا کرنے کی ضمانت فراہم نہیں کی گئی۔ آئین چیخ رہا ہے، مگر قانون بنانے والے مفادات کی خاطر اس طرح کا الیکشن نہیں کروانا چاہتے۔ وہ صرف دھن دھونس دھاندلی سے پرچیاں ڈلوانا چاہتے ہیں، وہ ووٹ خریدنا چاہتے ہیں اور دوبارہ منتخب ہو کر جلدی اسمبلیوں میں پہنچنا چاہتے ہیں تا کہ لوٹ مار کا بازار جلد ہی گرم کیا جا سکے۔ ہم لوٹ مار کا بازار گرم نہیں ہونے دیں گے اور وہ الیکشن قبول کریں گے جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218 کی کلاز 3 کے تحت ہوں گے۔
میرا مطالبہ صرف آئین پاکستان ہے۔ ہم آئین پر عمل درآمد چاہتے ہیں اور جو آئین کو پامال کر کے آئین کے خلاف الیکشن کروانا چاہے گا، اٹھارہ کروڑ عوام اس کے راستے میں رکاوٹ بن جائیں گے۔ بولو : بنو گے یا نہیں؟
(شرکاء اجتماع یک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں : بنیں گے۔)
آج اس ملک کی طرزِ حکمرانی تباہی کے دھانے پر ہے۔ ہم جب 90 دن کی بات کرتے ہیں تو آئین یاد آتا ہے اور یہ سارا آئین جو میں پڑھ کے سنا رہا ہوں، کیا یہ شقیں معتبر اور محترم نہیں؟ جو شرائط عائد کی گئی ہیں کہ یہ پوری نہ ہوں تو الیکشن آئینی نہیں ہو گا۔
اب عدلیہ کی طرف آئیے۔ سپریم کورٹ نے بلوچستان کیس میں law and order کیس میں فیصلہ دیا، صرف میں لفظ بول رہا ہوں، پڑھ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ بلوچستان گورنمنٹ لوگوں کی جان اور مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئی لہٰذا It had lost its constitutional authority to govern the province۔ لہٰذا اس کے پاس آئینی جواز نہیں رہا کہ وہ صوبے پر حکومت کرے۔ یہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی judgment ہے۔
میں سوال کرتا ہوں : اگر ایک صوبے کی گورنمنٹ لوگوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی تو ان کے پاس آئینی جواز نہیں رہا اور اگر سارے ملک یا چاروں صوبوں میں حکومت لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی فراہمی میں ناکام ہو گئی تو ان کا جواز آئینی طور پہ کیسے باقی رہ گیا ہے؟ اس کے بعد کراچی killing cases میں بھی سپریم کورٹ نے کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ ساتھ فیڈرل گورنمنٹ بھی لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ Provincial government and executive authority and this failure has made the lives and property of the citizens insecure as much as the federal government has also not protected the province.۔ وفاقی حکومت بھی ناکام ہو گئی۔ تو جب سپریم کورٹ آف پاکستان یہ کہہ رہی ہے کہ وفاقی حکومت بھی ناکام ہو گئی اور constitutional authority نہیں رہی تو کیا جواز ہے انہیں آئینی طاقت دینے کا؟
اِس طرح اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ نے کہا کہ صدرِ پاکستان کسی کے ساتھ سیاسی ہمدردی نہیں رکھیں گے، لیکن اگر وہ تمام لوگوں اور پارٹیوں سے یکساں سلوک کرنے میں ناکام رہے تو آئین کہتا ہے کہ پھر وہ اپنے منصب سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ آئین کی وضاحت میں دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر ملک کے ادارے صدر پاکستان یا آرمی چیف یا DG ISI اور ملک کے دیگر ادارے اگر سیاسی طور پر کسی کو سپورٹ کریں اور کسی کے ساتھ تعاون کریں تو پھر یہ الیکشن honest, free اور fair نہیں ہوسکتے۔ اور یہ constitutional mandate کو negate کرنے کے مترادف ہوگا، آئین کی نفی ہوگی۔ میں سوال کرتا ہوں کہ کیا سپریم کورٹ کے ان سارے فیصلوں پر عملدرآمد ہوا ہے؟ جب عملدرآمد نہیں ہوا تو کیا اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہے؟ کیا نظامِ حکومت آئین کے مطابق چل رہا ہے؟ حکومت کے اپنے ادارے NAB میں گورنمنٹ کے اپنے appoint کیے ہوئے افسر نے بیان دیا کہ ہر روز پاکستان میں دس سے بارہ ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے اور پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن سالانہ ہو رہی ہے۔
یہ حکومت پاکستان کا اپنا مقرر کردہ چیئرمین NAB ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کہتا ہے کہ پانچ ہزار ارب روپے کی سالانہ direct اور indirect کرپشن ہو رہی ہے۔ گویا دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہو رہی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ اس کرپشن میں ہر MNA شریک ہے، ایسی بات نہیں ہے۔ جو ایسا کہے گا وہ غلط ہے، ہر جگہ اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ مگر میرا سوال ہے کہ ان کی بھاری اکثریت ان لوگوں کی ہے یا نہیں؟
فصیح بخاری کے مطابق پاکستان میں روزانہ 10 سے 12 ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جو 5 ہزار ارب روپے سالانہ بنتی ہے۔
ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ملک کے قانون بنانے والوں کی اکثریت نے خود اس پاکستان کو ٹیکس ادا نہیں کیا۔ نیشنل اسمبلی کے 342 اراکین میں سے صرف 90 افراد نے tax returns فائل کئے ہیں اور تقریباً 70 فیصد MNAs نے اپنی tax returns فائل تک نہیں کیں۔ اور قانون یہ ہے کہ آمدنی اگر 42,000 یا اس سے زیادہ ہو یا پانچ لاکھ سالانہ ہو تو انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنا واجب ہوتا ہے۔
Updated Laws of Income Tax Ordinance برائے 2010-2011ء کے مطابق جو آدمی اپنی income چھپائے اور بیان نہ کرے اسے دو سال تک کی سزائے قید ہے۔ Income Tax Act 2011 تک updated ہے، اس کی کلاز 192-A کہتی ہے کہ اگر اس کی انکم سال کی پانچ لاکھ یا اس سے زیادہ یعنی مہینے کی 42 ہزار تھی اور وہ چھپا دے تو اس کی دو سال تک سزائے قید ہے یا جرمانہ ہے، یا دونوں چیزیں ہیں۔ اب میں یہ سوال کرتا ہوں، مجھے جواب دیجئے کہ یہ جو Law Maker ہیں، Are these law makers or law beakers? یہ قانون بنانے والے خود قانون توڑ رہے ہیں۔ جب یہ ٹیکس جمع نہیں کروائیں گے توکیا انہیں حق پہنچتا ہے پاکستان کی پارلیمنٹ کا ممبر ہو کر بیٹھنے کا؟ ہاتھ اٹھا کر جواب دو۔
(شرکاء اجتماع یک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں : نہیں۔ )
کیا یہ کھلی کرپشن نہیں ہے؟ کیا یہ کھلا جرم نہیں ہے؟ کیا یہ punishable crime نہیں ہے؟ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق نمبر 1 کے مطابق : وہ شخص MNA یا سینیٹر اور ممبر پارلیمنٹ بننے کے لیے اہل نہیں ہے جو اپنی بجلی کے بل ادا نہ کرے، گیس کے بل ادا نہ کرے، پانی کے بل ادا نہ کرے، یوٹیلٹی بلز ادا نہ کرے۔ یہ بلز اگر دس ہزار روپے سے بڑھ جائیں اور nomination papers فائل کرنے تک اگر چھ ماہ تک کے پانی، سوئی گیس اور بجلی کے بل ادا نہ کئے ہوں۔ وہ شخص پارلیمنٹ کا الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے۔
اب میں قومی اداروں سے سوال کرتا ہوں۔ اب میں پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ سے سوال کرتا ہوں، اب میں پاکستان کی سرحدوں کے محافظوں سے سوال کرتا ہوں، اب میں پاکستان کے میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کے بھائیوں سے جن کی آزادی خدا کی قسم اس ملک کو بچائے ہوئے ہے، اس میڈیا سے سوال کرتا ہوں، اٹھارہ کروڑ عوام سے سوال کرتا ہوں کہ آئین تو یہ کہے کہ اگر پیپر فائل کرنے سے قبل چھ ماہ تک پانی، بجلی، سوئی گیس کا بل ادا نہ کیا ہو، تو وہ ایم۔ این۔ اے کا الیکشن لڑنے کا اہل نہیں ہے۔ اور یہاں تم سارے کے سارے اس پاکستان کا ٹیکس ادا نہیں کرتے، کہاں اہل ہیں یہ الیکشن لڑنے کے؟ جواب دیں اور میں سوال کرتا ہوں کہ اگر اس ایجنڈے پر عمل کئے بغیر، جو پوری قوم کا ایجنڈا ہے، اٹھارہ کروڑ عوام کے ایجنڈے پر عمل کئے بغیر انتخابی نظام کو بدلے بغیر اور آئین پاکستان پر عمل کئے بغیر، میں پھر کہہ رہا ہوں پاکستان کا آئین میرے ہاتھ میں ہے، اس آئین پر عمل کئے بغیر یہ جو کہتا ہے کہ پانی، بجلی، سوئی گیس کے بل ادا نہ کرنے والا MNA نہیں بن سکتا تو ٹیکس ادا نہ کرنے والا کیسے MNA بن سکتا ہے؟ اگر اس آئین پر عمل کئے بغیر الیکشن کرائے گئے تو یہ آئین کو توڑنا ہو گا، آئین کی خلاف ورزی ہو گی، اٹھارہ کروڑ عوام ا س کو مسترد کر دیں گے اور ہم ایسے لٹیروں کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ابھی کل کی بات ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان نے 91 ایسے ممبر پارلیمنٹ MNAs، MPAs اور Senators پکڑے جنہوں نے مدرسوں اور مختلف علاقوں سے جعلی ڈگریاں لے لیں۔ جنہیں اَلْحَمْد پڑھنا نہیں آتی تھی وہ دورہ حدیث کی ڈگریاں لے کر MNA بنے۔ (شرکاء اجتماع بھی بزبان واحد کہتے ہیں : shame, shame۔ ) ان ڈگریاں لینے والوں پر بھی افسوس اور ان کو ڈگریاں دینے والے مدرسوں پر بھی جو دین بیچتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے 91 MNAs، MPAs اور سینیٹرز کی ڈگریاں جعلی پکڑیں، انہوں نے اقرار کیا، سپریم کورٹ نے ان کو برطرف کر دیا، برطرف ہو گئے تو اس دوران BA کی ڈگری والی شرط پارلیمنٹ نے ختم کر دی تھی۔ پارلیمنٹ ہر وہ کام کرتی ہے جو ان کے مفاد میں ہے اور ہر وہ کام نہیں کرتی جو اٹھارہ کروڑ عوام کے مفاد میں ہو۔ ڈگری کی شرط ختم ہو گئی تھی۔ جنہیں بددیانتی اور جھوٹی جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر خائن اور بددیانت ثابت کر کے نکال دیا گیا وہ تین مہینے کے اندر ضمنی الیکشن لڑ کے پھر پاکستان کی اسمبلی میں آگئے۔ آئے یا نہیں آئے؟ بولئے۔ (شرکاء اجتماع یک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں : آئے۔ ) کیا آپ اسی مذاق کو جاری رکھنا چاہتے ہیں؟ اس اجتماع میں بیس لاکھ افراد، بیس کروڑ کے نمائندہ بیٹھے ہیں، آپ چاہتے ہیں کہ ایسے خائن، بددیانت، جھوٹے، عیار، مکار، چور اور لٹیرے پھر آپ کے لیڈر بن کے اسمبلیوں میں بیٹھیں؟ اور قانون توڑنے والے پھر قانون بنائیں؟ میں ایک سوال کرتا ہوں۔ سیاسی لوگ اس کا جواب دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جی کوئی بات نہیں، انہوں نے ڈگریاں لی تھیں اس وقت BA کی شرط پرویز مشرف نے لگائی تھی۔ جب وہ نکال دئیے گئے تو نئی پارلیمنٹ نے BA کی شرط ختم کر دی تھی، لہٰذا اب پابندی نہیں تھی۔ میں مانتا ہوں کہ پابندی نہیں رہی، پابندی تو ختم ہو گئی مگر کیا خیانت بھی ختم ہو گئی؟ میرا سوال پابندی کے ہونے یا نہ ہونے پر نہیں ہے، میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص اَن پڑھ ہے، تعلیم پوری نہیں اور جھوٹی ڈگری لے کر خیانت کر کے MNA بنتا ہے، اس خائن اور بددیانت شخص کو پاکستان کا آئین MNA بننے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر یہ ان انقلابی تبدیلیوں کے بغیر الیکشن ہوئے تو سیاسی جماعتوں نے پھر انہی گھوڑوں کو الیکشن کی سیٹیں دینی ہیں، وہی گھوڑے تیار ہیں، ان پر سیٹیں رکھی ہوئی ہیں وہ Elect ہو کے آئیں گے اور اس طرح اٹھارہ کروڑ عوام کی تقدیر کے ساتھ مذاق چلتا رہے گا۔ ارے لاکھوں لوگوں کا سمندر جمع ہے، آج فیصلہ کرو۔ کیا خائن، بددیانت لوگوں اور کرپٹ لٹیروں سے اس ملک کی جان چھڑانی ہے یا ملک انہی کے ہاتھ میں گروی رکھنا ہے؟
اب میں آپ کی توجہ آئین کے اس آرٹیکل کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو اس بات کی تفصیل اور وضاحت پیش کرتا ہے کہ کوئی شخص رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل ہے۔ ایم این اے بننے کی شرائط کیا ہیں جنہیں پورا کیے بغیر کوئی بھی فرد اس منصب کے لئے اہل نہیں۔
آئین کا آرٹیکل 62 اور اس کی کلاز F کے مطابق He is sagacious, righteous and non-profligate, honest and 'ameen'.۔ یہ پانچ شرائط اگر پوری نہ ہوں تو کوئی شخص پاکستان کی اسمبلی اور سینٹ کا ممبر نہیں بن سکتا، یہ پاکستان کا آئین ہے۔ اس کا آرٹیکل 62 کہتا ہے :
میں اب آپ سے سوال کرتا ہوں، یہ پانچ شرائط الیکشن میں کھڑے ہونے کے لیے آئین نے عائد کی ہیں کہ اگر یہ پوری نہ ہوں تو کوئی امیدوار MNA کا ٹکٹ بھی نہیں لے سکتا، contest نہیں کر سکتا، وہ نا اہل ہے۔ اب ایمان سے کہیے الا ماشاء اللہ کچھ لوگوں کو چھوڑ کر، آنے والے انتخابات میں ان خوبیوں والے کسی ایک شخص کو بھی ٹکٹ ملے گا؟ اگر الیکشن نظامِ انتخاب کی تبدیلی کے بغیر ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، وہی لوگ پلٹ کر آئیں گے۔ لہٰذا میرا مطالبہ فقط یہ ہے الیکشن ہوں مگر آئین کی شرائط کے مطابق ہوں۔ سن لو! لوگوں کو مغالطہ تھا کہ میں الیکشن ملتوی کروانے آ رہا ہوں، میں elections منسوخ کروانے آ رہا ہوں۔ نہیں! میں الیکشن کو پاکستان کے آئین کے تابع کرانے آیا ہوں۔
الیکشن ضرور ہوں مگر ان سے پہلے جتنا بھی وقت لگے، آئین کی شرائط پوری کی جائیں۔ چاہے یہ شرائط 90 دنوں میں پوری کر لی جائیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ آئین کہتا ہے اگر 90 دنوں سے زیادہ وقت بھی لگ جائے تو تب بھی کوئی اعتراض نہیں۔ یاد رکھیں! صرف 90 دن کا نام ہی سارا آئین پاکستان نہیں۔ اور بھی شرائط ہیں۔ میرا مطالبہ الیکشن ملتوی کروانا نہیں ہے، الیکشن کو آئین کے مطابق کروانا ہے، الیکشن کو غنڈہ گردی اور دھاندلی سے پاک کروانا ہے۔ الیکشن سے لٹیروں کو نکلوانا، نیک سیرت اور آئین کی شرائط کے مطابق اہل لوگوں کو لانا ہے۔ خواہ 90 دن میں کرا لیں خواہ اس سے وقت زیادہ لگ جائے، چونکہ آئین اجازت دیتا ہے۔
میڈیا خاص طور پر توجہ کرے۔ ایک نئی بات کہہ رہا ہوں۔ آج جو آرٹیکل پڑھ کر سنا رہا ہوں کسی نے discuss ہی نہیں کیے، نہ کسی کالم نگار نے، نہ کسی anchor نے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے پڑھا، کانوں سے سنا۔ اس ایجنڈے اور اس تقریر میں بیان کی جانے والی آئین کی ان ساری شرائط کو پورا کرنے کی خاطر اگر 90 دن سے کچھ زائد عرصہ بھی لگ جائے تو آئین اجازت دیتا ہے۔ آپ پوچھیں گے : کہاں؟ نوٹ کر لیجئے : میں دو بار پڑھوں گا تا کہ مغالطہ نہ رہے۔
آرٹیکل 254 کے الفاظ ہیں :
When any act or thing is required by the Constitution to be done within a particular period and it is not done within that period, the doing of the act or thing shall not be invalid or otherwise ineffective by reason only that it was not done within that period.
آئین کہتا ہے کہ اگر کوئی کام اتنی مدت کے اندر اندر ہونا چاہئے جیسے اسمبلیوں کے خاتمے کے بعد 90 دنوں میں interim government اور elections ہوتے ہیں۔ آئین کہتا ہے کہ کوئی کام جس کے لئے آئین تقاضا کرے کہ مقررہ ٹائم کے اندر اندر اسے ہونا چاہئے یعنی within a particular period and it is not done within that period اور کسی وجہ سے وہ اس period کے اندر نہ ہو سکے تو آئین کے الفاظ ہیں کہ the doing of the act or thing shall not be invalid۔ تب بھی وہ act خلافِ قانون اور خلافِ آئین نہیں ہو گا۔
آئین کی شرائط کو پورا کرنے اور انتخابات کو شفاف بنانے کی خاطر اگر اس پیریڈ سے زیادہ عرصہ بھی لگ جائے اور 90 دن سے زائد وقت بھی گزر جائے تو آئین کہتا ہے کہ the doing of the act or thing shall not be invalid، وہ کام غیر آئینی اور غیر قانونی نہیں ہوگا۔ only that it was not done within that period۔ اور یہ وجہ قابل قبول نہیں ہو گی کہ یہ مقررہ مدت کے اندر نہیں کرایا گیا۔ میں پھر کہتا ہوں کہ انتخابات 90 دن میں ہوں۔ لیکن اگر کسی ضروری امور کی انجام دہی کی وجہ سے 90 دن کے اس عرصے میں انتخابات نہ ہو سکیں اور کچھ عرصے کے بعد ہو جائیں تب بھی یہ اقدام آئینی اور قانونی ہو گا۔
آئین کے آرٹیکل 254 کو پڑھیں، میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ سے سوال کرتا ہوں، میں میڈیا سے سوال کرتا ہوں، میں پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے سوال کرتا ہوں، پارلیمنٹ سے سوال کرتا ہوں کہ جب آئین خود انتخابات کے لیے ایک جگہ 90 دن کا عرصہ مقرر کرتا ہے اور دوسری جگہ خود کہتا ہے کہ اگر بوجوہ اس عرصے میں نہ ہو سکیں اور بعد میں ہوں تو تب بھی وہ آئینی اور قانونی ہیں، آئین خود بتا رہا ہے۔ تو پھر بتائیے، فقط 90 دن کی رٹ لگانا ضروری ہے یا پورے آئین کی شرائط پر عمل کرنا ضروری ہے؟ میری اس بات کو تھوڑی دیر صبر سے سنئے، ممکن ہے بین الاقوامی طور پر بھی بعض قوتیں غلط فہمی میں مبتلا ہوں کہ میں شاید جمہوریت کے خلاف بات کر رہا ہوں اور میرا ایجنڈا آئین اور جمہوریت کے منافی ہے۔ میں پوری بین الاقوامی برادری کا ذہن بھی کلیئر کرنا چاہتا ہوں۔
I want to make it very clear. I would like to make it clear that where we stand? Pakistan is a sinking ship now and we want to save it. I am not here to derail Pakistan from the democracy. In order to save our state, in order to save democracy, in order to save our political process from collapse, we need world class structural renewel and we need Change. It is too late for patch work and peace reforms. Incrementalism is no longer an option now because Pakistan has already come within a desaster zone. Our country, our democracy, our state, our economy, our entire political and govermental system has become derailed. We need a legal procedure to bring about electroral reforms according to the demands of the Constitution of Pakistan. We want to bring substantial reforms and Change and through reforms we need to create an environment condusive to sustainable economic growth and socail development. Through change and reforms, we need to remove the opportunities for corruption to occur in electroral process and political process of our state. Through reforms and change, we need to empower and enable the people to become true democratic citizens and through change and reforms, we need to fight against terrorism and extremism and we want to bring back peace and scurity. And through change and reforms we need to create an atmosphere of safety, stability and prosperity and through change and reforms we need to restrucure our political and electroral system for the sake of true democracy. Now is the true time to change and now is the true real time for reforms. Otherwise nothing would be left to change.
And I would like to say : O my brother political leaders! How long will we deprive our country or nations and our people and other people of Pakistan from a prosperous and peaceful future? How long will we deprive them from civil liberties and freedom? How long will we deprive them from basic necessities of life? How long will we deprive them from the rule of low? How long will we deprive them from speedy justice and social equality? How long will we deprive them from real education and health facilities? How long will we deprive them from job opportunities? We are already living in desprate times. Millions of people of Pakistan are living in the chains of poverty. They have no meal and clean water. They have no food to eat. Their clothes are torn. They have no homes to live. Millions of the people of Pakistan are destitute. They have no jobs, no business, no money to support themselves and they have no money to treat their sick children and they die in the arms and laps of their mothers. They cannot get their children to the hospital and get medical treatment. We are living, by God, a life of pain. We are living a life of anguish. We are living a life of misery. We are living a life of deprivation. We want to come out of the state of fear and terror. We want to develope our future sustainabl, peaceful, progessive, developmental and peaceful and democratic. We want terrorism to eliminate from our country. We want killings to eliminate. We want to provide protection to the citizens of Pakistan. There is no protection, no life, no liberty, no business, no job. Even people going to school in school busess like Malala, nobody is safe in this country. And the govt has totally failed to provide protection to the life of their people, to the job of their people, to the freedom of their people, to the liberties of their people. They have failed to provide them job opportunities. They have failed to eliminate the opportunities of corruption from society. They are just looting Pakistan. The poor are becoming poorer and the rich becoming richer. At this stage and in this condition, it is absolutely impossible to sustain. For the last four five years, our socio-economic conditions and society is facing survival situation. The divide between the rich and the poor and the powerful and the weak and the divide between the ruler and the ruled and between the leaders and the citizens is rapidly increasing. I want to tell international community right from west to east. They should know what is our position and what are our conditions. There is no political will to eliminate and minimize this situation. We want real democracy.
ہم حقیقی جمہوریت چاہتے ہیں۔ وہ حقیقی جمہوریت کیا ہے؟ حقیقی جمہوریت جن ملکوں میں ہے وہاں حقیقی جمہوریت اس نظام کا نام ہے جہاں ایک MNA یا MPA اگر کرائے کا فارم غلط پُر کر دے تو اس کی رکنیت ختم کر دی جاتی ہے اور وہ اٹھارہ مہینے جیل جاتا ہے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے کہ کوئی رکن پارلیمنٹ سٹیشنری، قلم اور کاپیوں کا بل اگر غلط جمع کروا دے تو سولہ مہینے قید کر دیا جاتا ہے۔ اس کی رکنیت ختم ہو جاتی ہے، جمہوریت اس نظام کا نام ہے کہ کوئی شخص چالیس پیسے اگر غلط دعویٰ کر دے تو گورنمنٹ پکڑ کر اس سے چالیس پیسے واپس لے۔ جمہوری ملکوں میں لوگ طاقتور ہیں، وہاں ادارے ہیں۔ اگر کوئی MNA ہو تو انٹرنیٹ پر ہر ایک کی ویب سائٹ پر اس کی ساری کارکردگی ملکی ہوتی ہے۔ ہر شخص کو پتہ ہے کہ میرا منتخب ممبر کیا کر رہا ہے۔ پاکستان میں کچھ نہیں ہے، لوگ جل جائیں، لوگ مر جائیں، خود سوزی کر لیں یا زہر کھا لیں، قتل ہو جائیں، غصے سے باہر نکل آئیں، ٹائر جلائیں، سینہ کوبی کریں، یہاں کوئی شخص استعفیٰ نہیں دیتا۔ Millions روپے ہڑپ ہو جاتے ہیں، لوگ اپنے نمائندے کو تبدیل کرنے میں بے بس ہیں۔ Millions ووٹ جعلی ڈالے جاتے ہیں، بلیک میلنگ، قتل و غارت، غنڈہ گردی، فائرنگ، فیملی پریشر اور غربت کی وجہ سے کوئی کیسے آزادانہ رائے دہی کا حق استعمال کر سکتا ہے۔ I just want to ask, can anybody have honest, fair and free elections in this atmosphere? یہاں الیکشن کے نام پر عوام سے ایک مذاق برپا ہے۔ یہاں تو لوٹ مار مچی ہے۔ کسی غریب کو حق نہیں ہے کہ وہ اپنے MNA کا محاسبہ کر سکے۔ ایران میں لوگ اٹھے تھے وہاں ایک شہنشاہ تھا۔ مصر میں لوگ اٹھے تھے وہاں ایک فوجی آمر تھا۔ لیبیا میں لوگ اٹھے تھے ایک آمر تھا یہاں تو ہر حلقے میں آمریت ہے الا ما شاء اللہ کچھ کو چھوڑ کر میں بار بار کہتا ہوں کہ میں ہر ایک کو تہمت نہیں دیتا، اچھے لائق لوگ بھی میری نظر میں ہیں مگر اکثریت کا حال آپ کے سامنے ہے۔ یہاں تو ہر شخص بادشاہ ہے، شہنشاہ ہے، غریبوں کی جان کا مالک ہے، ان کی بیٹی اٹھوا لے، ان کی عزت لوٹ لے، گھر مسمار کر دے، جو چاہے کرے، کسی کو حق نہیں کہ اس کے خلاف آواز بلند کرے۔ اس معاشرے میں غریب کے پاس طاقتور کے خلاف آزادی سے رائے دینے کا اختیار کب ہے؟
یہ تمام خرافات اس کرپٹ نظام کی پیداوار ہیں۔ اگر پاکستان میں حقیقی جمہوریت چاہتے ہو تو اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہو گی اور اس کو اٹھا کر پھینکنا ہو گا۔ ارے نظام بدلو، تب پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔
اب آخری حصے کی طرف آ رہا ہوں۔ ہم اس ملک میں ایسا نظام چاہتے ہیں جس سے غریب کے حالات بدلیں، اور یہ نا ممکن نہیں ہے، میں نے پاکستان کے مسائل کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ میں مبالغہ کرنے والا آدمی نہیں ہوں، مطالعہ کر کے بتا رہا ہوں کہ ہمارے ملک کے بہت سے مسائل ہیں، لیکن ان مسائل کا حل بھی ہے۔ اگر ہم کرپشن کے پانچ ہزار ارب روپے بچا لیں تو پاکستان کے ہر غریب کو گھر مل جائے گا۔ ہم ہر غریب شخص کو گھر دینا چاہتے ہیں۔ ہر ضرورت مند کو خوراک دینا چاہتے ہیں، ہر ایک کو لباس دینا ہمارا فرض ہے، بنیادی ضروری علاج مفت فراہم کرنا چاہتے ہیں، مفت بنیادی تعلیم دینا چاہتے ہیں، یکساں نظام تعلیم فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر ایک کو روزگار دینا چاہتے ہیں اور عدل و انصاف سستا کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب کس طرح ممکن ہے؟ میں پوری ذمہ داری سے بتا رہا ہوں، خدا کی قسم! یہ سب کچھ ممکن ہے۔ اس ملک میں عدلیہ اور عدالتوں کا یہ حال ہے کہ بیس بیس سال تک لوگوں کے مقدموں کے فیصلے نہیں ہوتے۔ ہم وہ نظام چاہتے ہیں کہ جس کے ذریعے دیوانی مقدمات کا فیصلہ صرف ایک مہینے میں ہو جائے اور فوجداری مقدموں کا فیصلہ پندرہ دنوں یا مہینے میں ہو جائے۔ پندرہ دنوں، ایک مہینے میں یا زیادہ سے زیادہ دو مہینوں میں ہر مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جائے۔ مزید اپیل کا فیصلہ ایک ماہ میں ہو جائے۔ اس طرح لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مل سکے گا۔ ہاری اور کسان با اختیار ہوں۔ حضور نبی اکرم a نے فرمایا : ’جو شخص مردہ زمین آباد کرے وہی اس کا مالک ہے‘۔ ہم ہاریوں اور کسانوں میں اراضی کی تقسیم چاہتے ہیں کہ جو آباد کرتے ہیں وہ مالک بنیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں، ڈرون حملوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، آئین اور جمہوریت اور اسلامی اخلاق و روایات کا فروع چاہتے ہیں۔ تمام طبقات مسلمان ہوں یا غیر مسلم انہیں یکساں تحفظ دینا چاہتے ہیں اور پاکستان کے سارے بیرونی قرضے ختم کرنا چاہتے ہیں۔
آج لاکھوں لوگ کسی سے کوئی پیسہ لیے بغیر ملک کا نظام بدلنے کے لیے خود قربانی دے کر یہاں آئے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں اگر پاکستانی قوم سے اور بیرون ملک، جاپان سے امریکہ تک آباد پاکستانیوں سے اپیل کروں تو پاکستانی قوم اتنی غیور، اتنی جانثار، اتنی قربانی دینے والی ہے کہ تین مہینے یا چھ مہینے محنت کر کے پاکستان کا IMF اور ورلڈ بینک کا سارا قرضہ اتار سکتی ہے۔ میں پاکستانی قوم کے ذریعے پاکستان کا سارا قرض تین ماہ سے چھ ماہ کے عرصے میں ادا کروا سکتا ہوں۔ پاکستان قدموں پر کھڑا ہو سکتا ہے، ہم بے غیرتی کی زندگی نہیں چاہتے، ہم غیرت و حمیت کی زندگی چاہتے ہیں۔ نظام انتخاب کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تابع کرنا چاہتے ہیں۔ ایسا شفاف پارٹی سسٹم لانا چاہتے ہیں کہ غلط کردار کے لوگوں کے لیے کوئی موقع نہ رہے۔ صنعتکاروں، تاجروں، زمیندراوں، کسانوں، قانون دانوں، ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی الغرض ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے لیے کوٹا مقرر کرنا چاہتے ہیں تاکہ کسان بھی خود منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں بیٹھے۔ مزدور بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے، زمیندار، تاجر، پارلیمنٹ میں بیٹھے، صحافی، قانون دان بھی پارلیمنٹ میں بیٹھے۔ میری قوم کے پڑھے لکھے جوانوں کا جرم کیا ہے، یہ کیوں نہ پارلیمنٹ میں جائیں؟ اعلیٰ ذہن کیوں نہ پارلیمنٹ میں جائیں؟ یہ کوٹہ سسٹم ہوگا۔ ہم ٹکٹوں کا بیچنا ختم کرنا چاہتے ہیں۔ الیکشن اور الیکشن مہم میں بڑے بڑے جلسوں اور ریلیوں پر پابندی لگانا چاہتے ہیں، الیکشن مہم صرف کارنر میٹنگز تک محدود ہو گی، پولنگ اسٹیشن پر امیدواروں اور ان کے نمائندوں کو جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان کے کیمپ نہیں لگیں گے۔ تھانہ کچہری کا داخلہ ختم ہو جائے گا اور تین مہینے کے لیے پولیس افسران کو دوسرے اضلاع میں ٹرانسفر کر دیا جائے گا۔ گولی اور بندوق کلچر کا خاتمہ ہوگا۔ برادریوں کا دباؤ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے یورپ نے ایک قدم اٹھایا ہے جو ہمارے لئے ایک مثال بن سکتا ہے۔
جب یورپ کی عدالت انصاف (European Court of Justice) نے اٹلی میں ہونے والی کرپشن کا نوٹس لیا، ان کے بجٹ میں خسارے کی وجہ سے معاشی حالات سنور نہیں رہے تھے، بگاڑ تھا، گورننس اچھی نہیں تھی تو یورپین سنٹرل بینک نے اصلاحات کا مطالبہ کیا۔ اس پر یورپ نے Treaty on Stability Coordination and Governance قائم کی۔ اس کے آرٹیکل 8 کے تحت یورپ کی عدالت عظمیٰ (European Court of Justice) نے آرڈر کر کے اٹلی کی منتخب حکومت کو بر طرف کر دیا۔ پھر یورپ کی کورٹ آف جسٹس نے ان لوگوں کو حکومت دی کہ وہ ملک کو خسارے سے نکالیں، کرپشن ختم کریں اور ملک کو مضبوط معاشی استحکام (sustainable economic growth) پر لے آئیں۔ انہوں نے دو سال کا وقت دیا مگر انہوں نے ایک سال میں کام ختم کر دیا اور پرسوں اس وزیر اعظم نے استعفیٰ دے دیا ہے اور نئے الیکشن کا عمل شروع کیا ہے۔
یورپ جمہوریت کا گڑھ ہے۔ اگر وہ اپنے احوال کو درست کرنے کے لیے یہ اقدام کر سکتا ہے تو ہم اپنے احوال کو درست کرنے کے لیے ایسے اقدامات کیوں نہ کریں۔ ہم نے تو آج تک اپنے نتخابی عمل میں تبدیلیاں نہیں کیں۔
میری گفتگو کے آخری جملے دھیان سے سن لیں اب میرے اعلان کا وقت آرہا ہے۔ ہمہ تن گوش ہو جائیں۔ میرا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ الیکشن منسوخ کئے جائیں۔ مجھے اس سے غرض نہیں، مجھے غرض ہے تو بس آئین پاکستان کے ساتھ۔ میری غرض ہے کہ الیکشن جب بھی ہوں آئین پاکستان کے مطابق ہوں۔ آئین کی ساری شرائط پر عمل ہو اور آئین پاکستان کے مطابق نمائندے منتخب کیے جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق انتخابی نظام کا ماحول دیا جائے اور آئین پاکستان کے مطابق دیانتدارانہ، ایمان دارانہ، منصفانہ اور حقیقی الیکشن کی ضمانت مہیا کی جائے۔ مجھے آئین پاکستان سے غرض ہے، نظام انتخاب بدلے بغیر اور انتخابی اصلاحات (electoral reforms) کے بغیر اگر اگلے انتخابات کرا دیے گئے تو عوام ان غیر آئینی انتخابات کو قبول نہیں کریں گے۔ وہ انتخابات آئین کے خلاف ہوں گے۔ اگر پھر وہی خائن، جعلی ڈگریوں والے اور آئین کو پامال کرنے والے لوگ الیکشن میں گئے تو قوم اس الیکشن کو قبول نہیں کرے گی۔ قوم فوجی مارشل لاء کے خلاف لڑتی رہی ہے تو قوم سیاسی مارشل لاء کے خلاف بھی لڑے گی۔ ہم ڈرائنگ رومز کے اندر دو پارٹیوں کا آپس کا مک مکا قبول نہیں کریں گے۔ نگران حکومت کی تشکیل کے حوالے سے دو پارٹیاں بیٹھ کر فیصلہ نہیں کر سکتیں۔ درست ہے کہ آئین کی بیسویں ترمیم کے مطابق وہ بیٹھیں اور معاہدہ کریں مگر آئین یہ تو منع نہیں کرتا کہ اور نہ بیٹھیں۔
نگران حکومت کی تشکیل میں پاکستان کی عدلیہ بھی بیٹھے کہ جنہوں نے عدل فراہم کرنا ہے، اس میں افواج پاکستان بھی بیٹھے کہ جنہوں نے امن و امان کی ضمانت فراہم کرنی ہے، اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر سارے سٹیک ہولڈرز بیٹھیں اور مل کر ایسے لوگوں کو مقرر کریں جو انتخابات صرف کروائیں ہی نہیں بلکہ پہلے آئین کے مطابق نظام درست کریں اور پھر آئین کے مطابق انتخابات کرائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام ایسی سازش کو مسترد کر دے گی اور ایسے الیکشن کو غیر آئینی سمجھا جائے گا۔
اب سن لیجئے : میں نے پوری قوم کی آواز میڈیا کو بھی سنا دی، مقتدر حلقوں کو بھی سنا دی، عدلیہ کو بھی سنا دی، اٹھارہ کروڑ عوام کو بھی سنا دی اور پوری عالمی برادری کو بھی سنا دی کہ ہم الیکشن صرف آئین کے مطابق ان شرائط کے تحت چاہتے ہیں۔ آئین کی خلاف ورزی کا الیکشن قبول نہیں ہو گا۔ اس نظام کو درست کرنے کے لیے میں اسلام آباد کو صرف 10 جنوری 2013ء بروز جمعرات تک کی مہلت دیتا ہوں۔ میں تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ آج 23 دسمبر ہے، 10 جنوری تک مہلت دے رہا ہوں۔ یہ کوئی 18 دن بن جاتے ہیں۔ تین ہفتوں کی مہلت دے رہا ہوں۔ 10 جنوری جمعرات کو مہلت ختم ہو جائے گی۔ اگر 10 جنوری سے پہلے آئین کے مطابق اس سارے نظام کو درست نہ کیا گیا اور دو پارٹیوں کے مک مکا کو روک کر تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملا کر ایک متفقہ طریقے سے اچھے لوگوں کو نہ لایا گیا، جن کے اندر یہ جرات ہو، طاقت ہو، قابلیت ہو، political will ہو اور اہلیت ہو کہ وہ اس نظام کو آئین کے مطابق بنا سکیں؛ اگر ایسے لوگوں کو نہ لایا گیا تو 14 جنوری کو پیر کے دن یہ دو ملین کا اجتماع اسلام آباد میں چار ملین کا اجتماع بن جائے گا۔ 14 جنوری کو پاکستان بھر کے عوام اسلام آباد پہنچیں گے۔ بولیے : چلو گے؟ چلو گے یا بے وفائی کرو گے؟ ہر شخص چلے گا؟ (شرکاء اجتماع یک زبان ہوکر جواب دیتے ہیں : ہم سب چلیں گے، ضرور چلیں گے۔)
زندگی تمہیں بھیک میں کوئی نہیں دے گا۔ اگر تبدیلی چاہتے ہیں تو نکلنا ہوگا اور اپنا حق چھیننا ہو گا۔ باقی ملکوں میں لوگوں نے جانیں دی ہیں، خون بہائے ہیں، مگر ہم خون خرابہ نہیں چاہتے، ہم بدامنی نہیں چاہتے۔ یہ اجتماع بھی پُر امن ہے اور اسلام آباد کا مارچ بھی پر امن ہوگا۔ 14 جنوری کو میں نے اسلام آباد میں پاکستانی عوام کی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا ہے۔ اسلام آباد میں عوامی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا اور فیصلے پھر اسلام آباد میں 14 جنوری کو ہوں گے۔ اس سے پہلے اس ملک کے اٹھارہ کروڑ لوگوں کی بہتری کا سامان کر لیا جائے۔ اللہ آپ کا، ہمارا اور پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ جو لوگ گھروں میں ٹی وی پر سن رہے ہیں وہ بھی لانگ مارچ میں شرکت کے لیے گھروں سے نکل پڑیں۔ آپ کو مزید کسی اعلان کی ضرورت نہیں۔ گھروں کو بیچنا پڑے تب بھی نکلو۔ کپڑے بیچ کر بھی آنا پڑے تو آؤ۔ اٹھارہ کروڑ غریبوں کا مقدر سنوارنا ہے۔ 14 جنوری کو اسلام آباد میں عوام کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہوگا۔ اس دن سارے فیصلے اسلام آباد میں عوام کی پارلیمنٹ کا اجلاس میں ہوں گے۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved