حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے کثیر ارشاداتِ عالیہ میں اولیاء اور صلحاء کے وجود کو اپنی امت کے لئے بابرکت فرمایا ہے۔ یہاں چند احادیثِ مبارکہ درج کی جاتی ہیں جن سے یہ عیاں ہوگا کہ اولیاء اللہ کی ذوات امت کے لئے مختلف مواقع پر فتح و نصرت الٰہی اور رزق کی فراہمی کا باعث بنتی ہیں۔
1۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَأتِي عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يأتِي عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فًيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَأتِي عَلَي النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ : هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ : نَعَمْ فَيُفْتَحُ لَهُمْ.
’’لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے : ہاں (ایسا شخص ہمارے درمیان موجود ہے)۔ تو انہیں (اس صحابی رسول کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے : ہاں۔ پھر انہیں (اس تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے : ہاں، تو انہیں (تبع تابعی کی وجہ سے) فتح عطا کر دی جائے گی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه
وآله وسلم ، 3 : 1335، رقم : 3449
2. مسلم، الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل الصحابة ثم الذين يلونهم ثم
الذين يلونهم، 4 : 1962، رقم : 2532
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 7، رقم : 1056
4. ابن حبان، الصحيح، 11 : 86، رقم : 4768
2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں تھے کہ آپ کے پاس اہلِ شام کا ذکر کیا گیا۔ لوگوں نے کہا : امیر المؤمنین! آپ اہلِ شام پر لعنت بھیجیں۔ آپ نے فرمایا : نہیں، میں لعنت نہیں بھیجتا کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
الأبْدَالُ يَکُوْنُوْنَ بِالشَّامِ وَ هُمْ أرْبَعُوْنَ رَجُلاً، کُلَّمَا مَاتَ رَجُلٌ، أبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ رَجُلًا يُسْقَي بِهِم الْغَيْثُ وَيُنْتَصَرُ بِهِمْ عَلَي الْأعْدَاءِ، وَيُصْرَفُ عَنْ أَهْلِ الشَّامِ بِهِم الْعَذَابُ.
’’شام میں (ہمیشہ) چالیس ابدال موجود رہیں گے، ان میں سے جب بھی کوئی مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے کو ابدال بنا دیتے ہیں۔ ان کی وجہ سے اہلِ شام بارش سے سیراب کیے جاتے ہیں۔ دشمنوں پر ان کو ابدال کے وسیلے سے فتح عطا کی جاتی ہے اور ان کی برکت سے اہلِ شام سے عذاب کو ٹال دیا جاتاہے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 112
2. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 63، رقم : 10390
3. هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوئد، 14 : 211
ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں مذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
أي ببرکتهم أو بسبب وجودهم فيما بهم يدفع البلاء عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ.
’’ابدالوں کی برکت اور ان میں ان کے وجود مسعود کے سبب بارشیں ہوتی ہیں، دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے اُمتِ محمدیہ سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔‘‘
ملا علي قاري، مرقاة المفاتيح شرح مشکوٰة المصابيح، 1 : 460
3۔ حضرت ابوقلابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَزَالُ فِي أُمَّتِي شِيْعَةٌ (وفي رواية : سَبْعَةٌ) لَا يَدْعُوْنَ اﷲَ بِشَيءٍ إِلَّا اسْتَجَابَ لَهُمْ، بِهِمْ تُنْصَرُوْنَ وَبِهِمْ تُمْطَرُوْنَ، وَحَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ : وَبِهِمْ يُدْفَعُ عَنْکُمْ.
’’میری امت میں ہمیشہ کچھ لوگ (ایک روایت میں ہے کہ سات اشخاص) ایسے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ سے جب بھی کوئی چیز مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرما دیتا ہے۔ انہی کے ذریعے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور انہی کے ذریعے تم پر بارش برسائی جاتی ہے۔ اور (راوی بیان کرتے ہیں) میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اور انہی کے ذریعے تم سے مصیبتوں کو ٹالا جاتا ہے۔‘‘
1. أبوداود، مراسيل، 1 : 236، رقم : 309
2. ابن مبارک، الجهاد، 1 : 153، رقم : 195
3. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 250
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَنْ تَخْلُوً الْأرْضُ مِنْ أَرْبَعِيْنَ رَجُلًا مِثْلَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلِ الرَّحْمٰنِ، فَبِهِمْ يُسْقَوْنَ، وَبِهِمْ يُنْصَرُوْنَ، مَا مَاتَ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَبْدَلَ اﷲُ مَکَانَهُ آخَرَ. وَقَالَ قَتَادَةُ : لَسْنَا نَشُکُّ أَنَّ الْحَسَن مِنْهُمْ.
’’زمین کبھی بھی (ایسے) چالیس آدمیوں سے خالی نہیں ہو گی جو خلیل اﷲ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مانند ہوں گے۔ انہی کے تصدق سے لوگوں کو سیراب کیا جائے گا اور انہی کے صدقے ان کی مدد کی جائے گی۔ ان میں سے کوئی آدمی اس دنیا سے پردہ نہیں کرتا مگر یہ کہ اﷲ تعالیٰ اس کی جگہ کسی اور آدمی کو لے آتا ہے۔
1. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 247، رقم : 4101
2۔ ھیثمي، مجمع الزوائد، 10 : 63 (امام ھیثمی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ )
’’حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں ہم اس میں کچھ شک نہیں کرتے کہ حضرت حسن (بصری) ان میں سے ہیں۔‘‘
5۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَزَالُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُوْنَ، بِهِمْ تَقُوْمُ الْأرْضُ، وَبِهِمْ تُمْطَرُوْنَ وَبِهِمْ تُنْصَرُوْنَ.
وَقَالَ قَتَادَةَ : إِنِّي أَرْجُوْ أَنْ يَکُوْنَ الْحَسَنُ مِنْهُمْ.
’’میری امت میں ہمیشہ تیس آدمی (ابدال) رہیں گے جن کے صدقے یہ زمین قائم و دائم رہے گی اور جن کے تصدق سے تم پر بارش برسائی جائے گی اور جن کے ذریعے تمہاری مدد کی جائے گی۔
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 10 : 63
(امام ھيثمي کي تحقيق کے مطابق اس حديث کے رجال صحيح ہیں۔)
2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 304
3. عظيم آبادي، عون المعبود، 8 : 151
’’حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ میں امید کرتا ہوں کہ حضرت حسن بصری بھی ان میں سے ہوں گے۔‘‘
6۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن ﷲ خلقًا خلقهم لحوائج الناس، تفزع الناس إليهم في حوائجهم أولئک الامنون من عذاب اﷲ.
’’بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ خاص بندے ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخلوق کی حاجت روائی کیلئے خاص فرمایا ہے۔ لوگ گھبرائے ہوئے اپنی حاجتیں ان کے پاس لے آتے ہیں۔ یہی وہ بندے ہیں جو عذابِ اِلٰہی سے مامون ہیں۔‘‘
هيثمي، مجمع الزوائد ومنبع الفوئد، 8 : 192
درج بالا احادیثِ مبارکہ سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ امتِ مسلمہ میں ہر زمانہ میں اللہ رب العزت کے کچھ اولیاء، صالحین اور مقرب یافتگان بندے موجود ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل اپنے اِن صالح بندوں کی برکات کے سبب سے امتِ مسلمہ کو فتح و نصرت، بارش اور رزق سے نوازنے کے ساتھ ساتھ اِن سے اپنے عذاب کو بھی رفع فرماتا ہے۔
تاریخ میں ایسے واقعات بے شمار ہیں جن کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ امتِ مسلمہ کے ہر دور میں اکابر اولیاء اور عامۃ الناس اپنے زمانہ کی متبرک اور مقدس شخصیات کے ہاتھ، پاؤں اور سَر چوم کر اُن کے فیوض وبرکات کو سمیٹتے رہے ہیں۔ ذیل میں اسی حوالے سے چند واقعات درج کئے جاتے ہیں۔
1۔ حضرت عبد الرحمن بن رزین روایت کرتے ہیں کہ ہم ربذۃ کے مقام سے گزرے تو ہم سے کہا گیا کہ یہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ ہیں، تو میں اُن کے پاس آیا اور ہم نے ان کو سلام کیا۔ پس انہوں نے اپنے ہاتھ باہر نکال کر کہا :
بايعت بهاتين نبيّ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأخرج کفاله ضخمة کأنها کف بعير فقمنا إليها فقبّلناها.
’’ میں نے ان دونوں ہاتھوں سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے تو انہوں نے اپنی بھاری بھر کم ہتھیلی نکالی گویا کہ وہ اونٹنی کی ہتھیلی کی مانند تھی پس ہم اس کی طرف بڑھے او ر ان کی ہتھیلی کو بوسہ دیا۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، باب تقبيل اليد، رقم : 973
2۔ امام ابو نعیم اصبہانی نے بھی حضرت یونس بن مَيْسَرَہ سے مروی اسی طرح کا ایک واقعہ درج کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک روز یزید بن اسود عائدین کے پاس گئے۔ اُن کے پاس حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ تشریف لائے :
فلما نظر إليه مدّ يده فأخذ يده فمسح بها وجهه وصدره لأنه بايع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’پس جب حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو اپنا ہاتھ آگے کیا، انہوں نے ہاتھ لے کر (حصولِ برکت کے لئے) اپنے چہرے اور سینے پر مَلا کیونکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (اسی ہاتھ سے) بیعت کی تھی۔‘‘
أبو نعيم أصبهاني، حلية الأولياء، 9 : 306
3۔ تابعیء کبیر حضرت ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ
أمسست النبي صلي الله عليه وآله وسلم بيدک؟ قال : نعم! فقبّلها.
’’کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے ہاتھ سے چھوا ہے تو آپ نے کہا کہ ہاں، پھر ثابت رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو چوما۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 338، باب تقبيل اليد، رقم : 974
4۔ یحییٰ بن ذماری فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے مل کر کہا :
بايعت بيدک هذه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ فقال : نعم، قلت : أعطني يدک أقبّلها فأعطانيها فقبّلتها.
’’آپ نے اس ہاتھ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں! تو میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ میری طرف کریں کہ میں اسے بوسہ دوں تو انہوں نے اس کو میری طرف کیا تو میں نے اسے بوسہ دیا۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 94، رقم : 226
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 42
5۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
رأيت عليًا يقبّل يد العباس ورجليه.
’’میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ اور پاؤں کو بوسہ دیا۔‘‘
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 339، باب تقبيل اليد، رقم : 976
سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر افضلیت حاصل ہے مگر چچا اور صالح ہونے کی وجہ سے آپ نے اُن کے ہاتھ اور پاؤں کا بوسہ لیا۔
6۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے امام عالی مقام حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنھم سے ملاقات کی اور اُن سے عرض کیا :
أرني الموضع الذي قبّله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فرفع الحسن ثوبه، فقبّل سرّته.
’’آپ مجھے وہ جگہ دکھائیں جہاں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے بوسہ لیا ہے، امام حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے جسم سے کپڑا سرِکا دیا تو انہوں نے آپ کی ناف کا بوسہ لیا۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 9 : 94، رقم : 4677
ذہن نشین رہے کہ جمیع صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ احادیث کے راوی ہیں، اسقدر عظیم البرکت شخصیت ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اہلِ بیتِ اطہار سے فیض اور برکت حاصل کرنا ضروری سمجھا۔
7۔ صاحب الصحيح امام مسلم نے برکت حاصل کرنے کے لئے امام بخاری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر عرض کیا :
دعني حتي أقبّل رجليک، يا أستاذ الأستاذين وسيد المحدّثين وطبيب الحديث في علله.
’’اے استاذوں کے استاذ، سید المحدّثین اور عللِ حدیث کے طبیب! آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپ کے پاؤں کا بوسہ لے لوں۔‘‘
ابن نقطه، التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد، 1 : 33
8۔ عظیم نقاد محدّث امام ابوحاتم کہتے ہیں کہ جب ابو مسہر عبدالاعلیٰ دمشقی غسانی (متوفی218ھ) مسجد میں تشریف لاتے تو
اصطفّ الناس يسلّمون عليه ويقبّلون يده.
’’لوگ صف در صف اُن کو سلام کرتے اور اُن کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 11 : 73
9۔ علامہ ابنِ جوزی اور امام ذہبی، امام ابوقاسم سعد بن علی بن محمد الزنجانی رحمۃ اللہ علیہ (م 471ھ) کے متعلق لکھتے ہیں :
کان إذا خرج إلي الحرم، يخلون المطاف ويقبّلون يده أکثر من تقبيل الحجر.
’’جب وہ حرم میں تشریف لاتے تو لوگ طواف کو چھوڑ دیتے اور حجرِ اسود کو چومنے سے بھی بڑھ کر اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے۔‘‘
1. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 266، رقم : 224
2. ذهبي، تذکرة الحفاظ، 3 : 1175، رقم : 1026
10۔ حافظ ابنِ کثیر، فقیہ زاہد ابوجعفر شریف حنبلی کے بارے میں درج کرتے ہیں :
يدخل عليه الفقهاء وغيرهم، ويقبلون يده ورأسه.
’’فقہاء اور دیگر حضرات اُن کے پاس آتے تو (برکت کی غرض سے) اُن کے ہاتھ اور سر کا بوسہ لیتے۔‘‘
ابن کثير، البداية والنهاية، 12 : 119
11۔ علامہ ابن العماد حنبلی، زاہد ابوبکر بن عبدالکریم حنبلی (متوفی635ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
کان شيخاً صالحاً متديناً ورعاً، منقطعاً عَن النَّاسِ في قريته يقصده الناس لزيارته والتبرک به.
’’آپ بزرگ، صالح، دیندار اور زاہد شخص تھے، اپنی بستی میں لوگوں سے تنہا رہتے تھے، لوگ اُن کی زیارت کے لئے اور اُن سے برکت حاصل کرنے کی غرض سے اُن کے پاس حاضر ہوتے۔‘‘
ابن العماد، شذرات الذهب، 3 : 171
مندرجہ بالا تمام آثار اور واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ آج بھی اگر کوئی مرید، شاگرد یا سالک اپنے شیخ، مربی اور مرشد کے ہاتھ، پاؤں اور سَر کا بوسہ لے تو وہ شرک نہیں ہو گا بلکہ عین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی سنتِ فعلی اور ائمہ سلف صالحین کی اتباع ہو گی۔ اگر شیخ یا کسی بزرگ و متبرک ہستی کے تبرکاً ہاتھ پاؤں چومنے کی کوئی ممانعت ہوتی یا اس میں کسی شرک کا شائبہ پایا جاتا تو تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانثار صحابہ اور بعد میں آنے والے اُن کے متبعین ائمہ کرام کبھی بھی اس عمل کو بجا لانے کی جرات نہ کرتے۔ اب چونکہ اس پر کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی لہٰذا اگر آج ہم میں سے کوئی بھی حصولِ برکت کی نیت سے اپنے شیخ کے ہاتھ پاؤں چومے گا تو وہ اتباعِ صحابہ ہی پر عمل کر رہا ہوگا۔
مذاہبِ اربعہ کے فقہاء ائمہ نے اولیاء اور صالحین کے ہاتھوں اور پاؤں کو برکت حاصل کرنے کی غرض سے چومنے کو جائز، مستحب اور مسنون قرار دیاہے۔ اس پر درج ذیل اقوالِ فقہاء ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ امام ابنِ نجیم حنفی (متوفی 970ھ) لکھتے ہیں :
رخّص السرخسي وبعض المتأخرين في تقبيل يد العالم المتورع والزاهد علي وجه التبرک.
’’امام سرخسی اور بعض متاخرین ائمہ نے حصولِ برکت کے لئے عالم، متقی اور زاہد شخص کے ہاتھوں کو چومنے کی رخصت دی ہے۔‘‘
ابن نجيم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، 8 : 226
2۔ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی (1088ھ) رقمطراز ہیں :
لا بأس بتقبيل يد الرجل العالم والمتورع علي سبيل التبرک.
’’حصولِ برکت کی غرض سے عالم اور زاہد شخص کا ہاتھ چومنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
حصکفي، الدر المختار، 6 : 383
3۔ علامہ ابنِ بطال بکری قرطبی نے تقبیلِ ید پر امام مالک کا فتویٰ بیان کیا ہے :
إنما کرهها مالک إذا کانت علي وجه التکبر والتعظم، وأما إذا کانت علي وجه القربة إلي اﷲ لدينه أو لعلمه أو لشرفه فإن ذلک جائز.
’’اگر تکبر اور بڑائی کے پیشِ نظر کسی کا ہاتھ چوما جائے تو امام مالک نے اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہے لیکن اگر یہ عمل کسی شخص کے دین، علم اور شرف کے باعث اللہ رب العزت کے ہاں قربت چاہنے کی وجہ سے ہو تو جائز ہے۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 11 : 57
4۔ شارحِ صحیح مسلم امام محیی الدین نووی شافعی (متوفی 676ھ) فرماتے ہیں :
(الرابعة) يستحبّ تقبيل يد الرجل الصالح والزاهد والعالم ونحوهم من أهل الآخرة.
’’ (چوتھا مسئلہ) صالح، زاہد، عالم اور ان جیسے دیگر آخرت کی فکر رکھنے والے اشخاص کا ہاتھ چومنا مستحب ہے۔‘‘
نووي، المجموع شرح المهذب، 4 : 516
5۔ علامہ محمد شربینی شافعی لکھتے ہیں :
ويسنّ تقبيل يد الحي لصلاح ونحوه من الأمور الدينية کعلم وزهد.
’’امورِ دینیہ مثلاً زہد اور علم سے تعلق رکھنے والے زندہ صالح شخص کا ہاتھ چومنا سنت سے ثابت ہے۔‘‘
شربيني، الإ قناع في حل ألفاظ أبي شجاع، 2 : 408
6۔ علامہ شروانی شافعی کہتے ہیں :
قد تقرّر أنه يسنّ تقبيل يد الصالح بل ورجله.
’’یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ صالح شخص کے ہاتھ اور پاؤں کو چومنا مسنون عمل ہے۔‘‘
شروانی، حواشی الشروانی، 4 : 84
7۔ علامہ منصور بن یونس بن ادریس البھوتی حنبلی (متوفی 1051ھ) صالحین کے ہاتھوں کو چومنے کے بارے لکھتے ہیں :
ولا بأس بتقبيل الرأس واليد لأهل العلم والدين ونحوهم.
’’اہلِ علم و دین اور اِن جیسی دیگر شخصیات کا سَر اور ہاتھ چومنے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
بهوتي، کشاف القناع عن متن الإقناع، 2 : 156
8۔ اسی بحث کو جاری رکھتے ہوئی علامہ بہوتی آگے لکھتے ہیں :
يباح تقبيل اليد والرأس تديناً وإکراماً واحتراماً مع أمن الشهوة.
’’کسی کی دینداری، اکرام اور احترام کے سبب سَر اور ہاتھ چومنا مباح ہے بشرطیکہ شہوتِ نفسانی سے محفوظ ہو۔‘‘
بهوتي، کشاف القناع عن متن الإقناع، 2 : 157
مذاہبِ اربعہ کے اَجل ائمہ کی درج بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ امتِ مسلمہ کے کسی صالح، متقی، پرہیزگار، زاہد، عالم اور دیندار شخص کے ہاتھ، پاؤں اور سر کو حصولِ برکت کے لئے چومنا مسنون، مستحب اور مباح ہے۔ کسی بھی شخص کے ہاتھ پاؤں چومنے کو اُس صورت مکروہ اور ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے جبکہ اس کے باعث غرور، تکبر، بڑائی اور نفسانی خواہشات کی رو میں بہکنے کا اندیشہ ہو لیکن اگر کوئی مرید یا شاگرد محض تبرک کی نیت سے اپنے شیخ اور استاذ کا ہاتھ پیر چومتا ہے تو وہ جائز ہے۔
1۔ (امام شافعی کے تلمیذ) ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ امام شافعی مصر تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے کہا : میرا یہ خط سلامتی سے ابو عبداﷲ احمد بن حنبل تک پہنچا دو اور مجھے جواب لا کر دو۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں وہ خط لے کر بغداد پہنچا تو نمازِ فجر کے وقت امام احمد بن حنبل سے میری ملاقات ہوئی پس جب وہ حجرہ سے باہر تشریف لائے تو میں نے خط اُن کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط آپ کے بھائی شافعی نے آپ کو مصر سے بھیجا ہے۔ امام احمد نے مجھ سے کہا : کیا تو نے اسے پڑھا ہے؟ میں نے کہا : نہیں! انہوں نے مہر توڑ کر اسے پڑھا تو ان کی آنکھیں بھر آئیں، میں نے پوچھا : ابو عبداﷲ کیا ہوا، اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا : امام شافعی نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ہے کہ ابو عبداﷲ کو خط لکھو، اسے سلام لکھ کر کہو کہ تمہیں عنقریب آزمایا جائے گا اور تمہیں خلقِ قرآن (کے باطل عقیدہ) کی دعوت دی جائے گی سو تم اسے قبول نہ کرنا، اﷲ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز باعزت عالم دین کے طور پر اٹھائے گا۔ اس کے بعد ربیع بیان کرتے ہیں :
فقلت له : البشارة يا أبا عبداﷲ، فخلع أحد قميصه الذي يلي جلده فأعطانيه، فأخذت الجواب، فخرجت إلي مصر وسلمته إلي الشافعي. فقال : أيش الذي أعطاک. فقلت : قميصه. فقال الشافعي : ليس نفجعک به، ولکن بلّه وادفع إلي الماء لأ تبرک به.
’’میں نے اُن سے کہا : ابو عبد اﷲ! آپ کو تو خوشخبری ملی ہے۔ انہوں نے اپنے جسم سے مَس کردہ قمیص اتار کر مجھے عنایت کی، میں اُن سے جواب لے کر مصر میں امام شافعی کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : انہوں نے تمہیں کوئی چیز عطا کی ہے؟ میں نے کہا : اپنی قمیص، امام شافعی نے فرمایا : ہم تمہیں اس کے بارے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے، مگر اتنا کردو کہ اسے گیلا کرکے ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم اس سے برکت حاصل کریں۔‘‘
تاج الدين سبکي، طبقات الشافعية الکبري، 2 : 36
2۔ امیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان ثوری (متوفی 161ھ) اپنے زمانہ کے اولیاء کے پاس تبرک کے لئے حاضر ہوئے، امام احمد بن عبداﷲ عجلی نے کوفہ کے ایک عبادت گزار محدّث عمرو بن قیس الملائی کوفی کے ترجمہ میں لکھا ہے :
کان سفيان يأتيه يسلّم عليه يتبرک به.
’’سفیان ثوری اُن کے پاس حاضر ہوتے، انہیں سلام کہتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘
عجلي، معرفة الثقات، 2 : 182
3۔ سلطان محمود غزنوی کو سومنات کی جنگ میں حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے جبے کی برکت سے اﷲتعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت عطا فرمائی تھی۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تذکرۃ الاولیاء کے صفحہ نمبر 344 پر بیان کرتے ہیں :
’’سلطان محمود غزنوی کے پاس حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا جبہّ مبارک تھا۔ سومنات کی جنگ میں ایک موقع پر خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے گی، سلطان محمود غزنوی اچانک گھوڑے سے اتر کر ایک گوشے میں چلے گئے اور وہ جبّہ ہاتھ میں لے کر سجدے میں گر گئے اور دعا مانگی :
اللّهم، انصرنا علي هؤلاء الکفّار ببرکة صاحب هذه الخرقة، وکل ما يحصل لي من أموال الغنيمة فهو صدقة علي الفقراء.
’’یا اللہ! اس جبّے والے کی برکت سے ہمیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما اور جو کچھ مال غنیمت ہاتھ آئے گا وہ سب درویشوں پر صدقہ ہوگا۔‘‘
فريد الدين عطار رحمة الله عليه ، تذکرة الأولياء : 344
اس کے بعد شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
’’اچانک دشمن کی طرف سے شور اُٹھا اور تاریکی چھا گئی اور کافر آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے اور مختلف حصوں میں بٹ گئے۔ لشکرِ اسلام کو فتح حاصل ہو گئی۔ اس رات محمود غزنوی نے حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا :
يا محمود، لم تعرف مکانة خرقتنا في حضرة اﷲ سبحانه وتعالیٰ، لو سألت اﷲ د في تلک السّاعة إسلام جميع الکفار لأسلموا.
’’اے محمود! تم نے دربار الٰہی میں ہمارے جبّے کی قدر نہ کی۔ اگر تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اُس لمحے تمام کافروں کے لیے قبولیتِ اسلام کی درخواست کرتے تو (اس کی برکت سے) وہ سب اِسلام قبول کر لیتے۔‘‘
فريد الدين عطار رحمة الله عليه ، تذکرة الأولياء : 345
جمہور امتِ مسلمہ میں حصولِ برکت کا ایک ذریعہ قبورِ اولیاء و صالحین پر حاضری بھی رہا ہے۔ تاریخِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسی بابرکت ہستی گزری ہوگی جس کی قبر مبارک پر عامۃ الناس اور اکابرینِ امت نے حاضری نہ دی ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام سے لے کر اہلِ بیتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، صالحین، زاہدین، محدّثین اور اولیاء رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم کی قبور پر حاضری امتِ مسلمہ کی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ سطورِ ذیل میں اسی حوالے سے دلیل کے طور پر چند صالحین کی قبور پر عامۃ الناس اور ائمہ کی حاضری کے واقعات درج کئے جاتے ہیں۔
امام شمس الدین سخاوی (متوفی 902ھ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
وجعل علي قبره قبة فهو يزار ويتبرک به.
’’اُن کی قبر مبارک پر قبہ بنایا گیا، اس کی زیارت کی جاتی ہے اور اس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
شمس الدين سخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، 1 : 307
امام ابنِ عبد البر الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے تھے۔ معرکۂ قسطنطنیہ میں آپ شریک جہاد ہوئے۔ دشمن کی سرحد کے قریب آپ رضی اللہ عنہ بیمار پڑگئے۔ مرض نے شدت اختیارکی تو وصیت فرمائی :
إذا أنا متّ فاحملوني، فإذا صاففتم العدو فادفنوني تحت أقدامکم.
’’جب میں فوت ہوجاؤں تو میری میت ساتھ اُٹھا لینا، پھر جب دشمن کے سامنے صف آرا ہوجاؤ تو مجھے اپنے قدموں میں دفن کر دینا۔‘‘
ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 404 - 405
چنانچہ آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدینِ اسلام نے آپ کو قلعہ کے دامن میں دفن کردیا اور دشمنوں کو متنبہ کیا کہ اگر اس جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی بے حرمتی کی گئی توبلادِ اسلامیہ میں اُن کا کوئی گرجا محفوظ نہ رہے گا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کا دشمن بھی احترام کرنے پر مجبور ہوگئے اور بہت جلد اس کے فیوض و برکات کا لوگوں کوپتہ چل گیا کہ یہاں کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ علامہ ابنِ عبد البر مزید فرماتے ہیں :
وقبر أبي أيوب قرب سورها معلوم. . . يستسقون به، فيسقون.
’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر قلعہ کی فصیل کے قریب ہے، سب کو معلوم ہے کہ وہاں پہنچ کر لوگ اس کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘
ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 405
حضرت مجاہد بن جبیر فرماتے ہیں :
کانوا إذا أمحلوا کشفوا عن قبره، فمطروا.
’’جب بھی قحط پڑ جائے تو (حصولِ برکت کے لئے) لوگ قبر کھول دیتے ہیں، تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘
ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4 : 6
خطيب بغدادی (م 463ھ) اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے۔ خطيب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
إنّي لأتبرّک بأبي حنيفة، وأجيء إلي قبره في کلّ يوم. يعني زائرًا. فإذا عُرضت لي حاجة صلّيت رکعتين، وجئتُ إلي قبره، و سألت اﷲ تعالي الحاجة عنده، فما تبعد عنّي حتي تقضي.
’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔‘‘
1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123
2. ابن حجر هيتمي، الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم : 94
3. ابن عابدين شامي، رد المحتار علي الدر المختار، 1 : 41
4. زاهد الکوثري، مقالات الکوثري :
381
امام موسیٰ بن جعفر کاظم (متوفی 183ھ) کی قبر مبارک کے بارے میں ابو علی الخلال کہتے ہیں :
ما همّني أمر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت به إلا سهل اﷲ تعالي لي ما أحب.
’’جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں امام موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جا کر اُن کو وسیلہ بناتا تو جیسے میں چاہتا اﷲ تعالیٰ ویسے ہی میرے لئے راستہ نکال دیتا۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 120
امام المحدّثین شاہ عبد الحق محدّث دہلوی (م 1052ھ) اشعۃ اللّمعات میں حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور کے حوالے سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا درج ذیل قول نقل کرتے ہیں :
’’حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور قبولیتِ دعا کے لیے تریاقِ مجرّب ہے۔‘‘
عبدالحق محدّث دهلوي، أشعة اللمعات شرح مشکوٰة المصابيح، 2 : 923
مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) حضرت امام علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قد زرته مراراً کثيرة، وما حلّت بي شدّة في وقت مقامي بطوس، وزرت قبر علي بن موسي الرضا صلوات اﷲ علي جده وعليه، ودعوت اﷲ تعاليٰ إزالتها عنّي إلا استجيب لي، وزالت عنّي تلک الشدّة وهذا شئ جرّبته مراراً فوجدته کذلک، أماتنا اﷲ علي محبة المصطفيٰ وأهل بيته صلي اﷲ وسلم عليه وعليهم أجمعين.
’’میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم اور آپ کے اہلِ بیت صلی اﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے۔‘‘
ابن أبي حاتم رازي، کتاب الثقات، 8 : 457، رقم : 14411
امام ذہبی (م 748ھ) نے امیر المؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (م 256ھ) کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے :
ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی۔ اسی اثناء اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا :
أري أن تخرج ويخرج الناس معک إلي قبر الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، وقبره بخرتنک، ونستسقي عنده فعسي اﷲ أن يسقينا. قال : فقال القاضي : نعم، ما رأيت. فخرج القاضي والناس معه، واستسقي القاضي بالناس، وبکي الناس عند القبر وتشفعوا بصاحبه. فأرسل اﷲ تعالي السماء بماء عظيم غزير، أقام الناس من أجله بخرتنک سبعة أيام أو نحوها لا يستطيع أحد الوصول إلي سمرقند من کثرة المطر وغزارته، وبين خرتنک وسمرقند نحو ثلاثة أميال.
’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کردے۔ قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے قاضی نے لوگوں کے ساتھ مل کر بارش کے لئے دعا کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 12 : 469
علامہ ابنِ جوزی اولیاء کرام کی سوانح پر اپنی کتاب صفۃ الصفوۃ میں امام ابراہیم بن اسحاق حربی کے بارے میں لکھتے ہیں :
و قبره ظاهر يتبرّک به النّاس.
’’اور ان کی قبر (اپنے فیوض و برکات کے اعتبار سے) ظاہر ہے۔ لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘
ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 266
امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر صوفیہ و محدّثین میں ہوتا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں آپ کی ذات مرجعء اہلِ علم تھی۔ آپ مشہور بزرگ اور ولی کامل حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
کان من المشائخ الکبار، مجاب الدعوة، يستشفي بقبره. يقول البغداديون : قبر معروف ترياق مجرّب.
’’آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے۔ اہلِ بغداد کہتے ہیں : حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب اکسیر ہے۔‘‘
1. قشيري، الرسالة القشيرية : 41
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 122
3. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 214
حضرت معروف کرخی کی قبر مبارک کے بارے میں عبدالرحمٰن بن محمد الزاہری فرماتے ہیں :
قبر معروف الکرخي مجرّب لقضاء الحوائج، ويقال : إنّه من قرأ عنده مائة مرّة : قُلْ هُوَ اﷲُ أحَدٌ، وسأل اﷲ تعالي ما يريد، قضي اﷲ له حاجته.
’’قضائے حاجات کے لئے حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب ہے، کہا جاتا ہے کہ جو شخص اس کے پاس سو مرتبہ سورۃ اخلاص (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) پڑھ کر اﷲتعالیٰ سے جو چاہے طلب کرے، اﷲتعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔‘‘
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123
علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی (متوفی 521ھ) ’’طبقات الحنابلۃ‘‘ (2 : 63) میں صوفی زاہد علی بن محمد بن بشار کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ جب اُن کاوصال ہوا تو
دفن بالعقبة قريباً من النجمي، وقبره الآن ظاهر يتبرک الناس بزيارته.
’’انہیں نجمی کے قریب گھاٹی میں دفن کیاگیا، اب وہاں اُن کی قبر مشہور و معروف ہے، لوگ اس کی زیارت سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘
علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی ہی ایک اور فقیہ زاہد ابو الحسن علی بن محمد بن عبدالرحمٰن بغدادی کے ترجمہ میں درج کرتے ہیں :
مات بآمد سنة سبع أو ثمان وستين وأربعمائة، وقبره هناک، يقصد و يتبرک به.
’’آپ کا 467ھ / 468ھ میں آمد کے مقام پر وصال ہوا، یہی آپ کی قبر ہے جس کا قصد کیا جاتا اور برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
ابن ابي يعلي حنبلي، طبقات الحنابلة، 2 : 234
علامہ ابنِ نقطہ حنبلی (م 629ھ) نے حافظِ حدیث عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی کے ترجمہ میں درج کیا ہے :
بلغنا أنه توفي بمصر في بيع الأوّل من سنة ستمائة في يوم الإثنين الرابع والعشرين من الشهر، وقبره بالقرافة يتبرک به.
’’ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ پیر کے روز ربیع الاوّل کے مہینہ 624ھ میں مصر میں اُن کا وصال ہوا، اُن کی قبر قرافہ میں واقع ہے جس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘
ابن نقطه، التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد، 1 : 370
امام ابنِ رجب حنبلی (م 795ھ) حضرت عثمان بن موسیٰ طائی کے تعارف میں لکھتے ہیں :
ويقال : إن الدعاء يستجاب عند قبره.
’’کہا جاتا ہے کہ ان کی قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘
ابن رجب، ذيل طبقات الحنابلة، 4 : 287
معتبر کتب سے درج بالا تحقیقات سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، اولیاء عظام اور محدّثینِ کبار کی قبورِ مبارکہ پر حاضری دینا، زیارت کرنا اور اُن سے برکت حاصل کرنا عام مسلمانوں اور اکابرینِ امت کا طریقہ رہا ہے۔ جلیل القدر محدّثین، فقہاء اور صالحین اپنے زمانہ کے اور ما قبل زمانہ کے اکابر شیوخ و صوفیاء کی قبور پر حصولِ برکت کے لئے اور حلِ مشکلات کے لئے حاضر ہونے کو اپنی خوش بختی سمجھتے تھے۔ عامۃ الناس اور اکابر اِن بابرکت قبور کو مستجاب الدعاء ٹھہراتے تھے اور وہاں پہنچ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اُن کی برکت کے سبب سے بارش، شفایابی اور دیگر مشکلات کا حل طلب کرتے تھے۔
سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ وہ ائمہ جو امت کے لئے اصولِ دین مرتب کرتے رہے ان کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ صالحین کی قبروں سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے تھے۔ صاف ظاہر ہے اگر اس عمل میں ذرا بھر بھی شرک و بدعت کا شائبہ ہوتا تو یہ ہرگز اس پر کاربند نہ ہوتے۔
قبورِ صالحین سے تبرک کو اطراف واکناف کے علماء کی طرف سے جواز کی سند حاصل ہے۔ اس پر چند ائمہ کرام کے درج ذیل اقوال ہیں۔
1۔ اس حدیث کے تحت ابنِ عبدالبر نے شرح مؤطا التمہید میں لکھا ہے :
وفي هذا الحديث دليل علي التّبرّک بمواضع الأنبياء والصّالحين ومقامهم ومساکنهم.
’’اس حدیث میں انبیاء اور صالحین کے رہنے والی جگہوں، مقامات اور ان کی رہائش گاہوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 66
حجۃ الاسلام امام ابوحامد محمد غزالی (م 505ھ) احیاء علوم الدین میں آداب السفر کے ضمن میں فرماتے ہیں :
ويدخل في جملته زيارة قبور الأنبياء عليهم السلام، وزيارة قبور الصحابة والتابعين وسائر العلماء والأولياء، وکل من يتبرک بمشاهدته في حياته يتبرک بزيارته بعد وفاته.
’’سفر کی دوسری قسم میں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ، تابعین اور دیگر علماء و اولیاء کے مزارات کی زیارت بھی داخل ہے۔ ہر وہ شخص کہ جس کی زندگی میں زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے، وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘
غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 247
امام ابن الحاج فاسی (م 737ھ) نے اپنی کتاب المدخل میں مزاراتِ اولیاء سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے :
وما زال النّاس من العلماء والأکابر کابرًا عن کابر مشرقاً ومغرباً يتبرّکون بزيارة قبورهم ويجدون برکة ذلک حسًا ومعني.
’’مشرق و مغرب کے علماء اور اکابر مزاراتِ اولیاء کی زیارت سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں اور حسی اور معنوی طور پر اس کی برکت پاتے رہے ہیں۔‘‘
ابن الحاج، المدخل، 1 : 249
اِمام ابن الحاج الفاسی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو عبداﷲ بن نعمان کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اولیاء کرام کی قبروں کے پاس برکت کی غرض سے دعا کرنا اور ان کو وسیلہ بنانا ہمارے علماء محققین، ائمہِ دین کا معمول ہے۔ امام ابو عبداﷲ بن نعمان فرماتے ہیں :
تحقق لذوي البصائر والاعتبار أن زيارة قبور الصّالحين محبوبة لأجل التبرّک مع الاعتبار فإنّ برکة الصّالحين جارية بعد مماتهم کما کانت في حياتهم والدعاء عند قبور الصّالحين والتشفّع بهم معمول به عند علمائنا المحققين من أئمة الدّين.
’’اربابِ بصیرت و اعتبار کے نزدیک ثابت ہے کہ اولیائے کرام کے مزارات کی زیارت برکت اور عبرت حاصل کرنے کے لیے محبوب عمل ہے، کیونکہ اولیائے کرام کی برکت ان کی (ظاہری) زندگی کی طرح وصال کے بعد بھی جاری ہے، اولیائے کرام کی قبروں کے پاس دعا کرنا اور ان کو وسیلہ بنانا ہمارے علماء محققین، ائمہ دین کا معمول ہے۔‘‘
ابن الحاج، المدخل، 1 : 249
علامہ ابنِ جزی الکلبی المالکی (م 741 ھ) نے انبیاء کرام علیھم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی قبور سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے :
ومن المواضع التي ينبغي قصدها تبرکاً قبر إسماعيل عليه السلام وأمه هاجر و هما في الحجر، وقبر آدم عليه السلام في جبل أبي قبيس، والغار المذکور في القرآن وهو في جبل أبي ثور، والغار الذي في جبل حراء حيث ابتداء نزول الوحي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وزيارة قبور من بمکة والمدينة من الصحابة والتابعين والأئمة.
’’وہ مقامات جن سے برکت حاصل کرنے کے لئے جانا چاہئے ان میں مقامِ حجر میں واقع حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیھما السلام کی قبور ہیں، جبلِ ابی قبیس پر حضرت آدم علیہ السلام کی قبر ہے، قرآن میں مذکور غار جبلِ ابی ثور پر واقع ہے، وہ غار جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء ہوئی جبلِ حراء میں واقع ہے، اسی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ کی قبور مشہور زیارت گاہیں ہیں۔‘‘
ابن جزي، القوانين الفقهية، 1 : 96
علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ زیارتِ قبور کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے قبورِ اولیاء کے بارے میں لکھتے ہیں :
وأما الأولياء فإنهم متفاوتون في القرب من اﷲ تعالٰي، ونفع الزائرين بحسب معارفهم وأسرارهم.
’’اولیاء کو اللہ رب العزت کے ہاں قربت کے لحاظ سے مختلف مقام حاصل ہوتے ہیں، (اس وجہ سے) زائرین کو (اُن کی قبور کی زیارت کے وقت) اُن کے معارف اور اسرار کے حسبِ حال نفع حاصل ہوتا ہے۔‘‘
ابن عابدين، حاشية رد المحتار علي الدر المختار، 2 : 242
علامہ سلیمان بن عمر بن محمد البجیرمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1221ھ) قبورِ صالحین سے تبرک پر لکھتے ہیں :
إن قصد بتقبيل أضرحتهم أي وأعتابهم التبرک لم يکره.
’’اگر اولیاء کی قبور یا اُن کے دروازوں کی چوکھٹ کو بطور تبرک چوما جائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔‘‘
بجيرمي، حاشية البجيرمي علي شرح منهج الطلاب، 1 : 495 - 496
علامہ عبدالحمید شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1301ھ) نے قبورِ اولیاء سے تبرک پر تحریر کیا ہے :
إن قصد بتقبيل أضرحتهم التبرک لم يکره.
’’اولیاء کی قبور کو حصولِ برکت کے لئے چومنا مکروہ نہیں۔‘‘
شرواني، حواشي الشرواني علي تحفة المنهاج بشرح المنهاج، 3 : 175
کیمیا پیدا کن اَز مشتِ گلے
بوسہ زن بر آستانِ کاملے
ہم نے گذشتہ ابواب میں برکت اور تبرک کا صحیح تصور قرآن و حدیث اور ائمہ و محدثین کے اقوال و معمولات کی روشنی میں بیان کیا۔ جس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اﷲ رب العزت کی فضل اور عطاء سے بعض ہستیاں، ان کے آثار اور مقامات فیض رساں اور بابرکت ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہل ایمان نہ صرف یہ کہ آثارِ انبیاء و اولیاء سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے ہیں بلکہ کسی صالح بزرگ ہستی، متبرک مقام اور آثار سے حصولِ فیض اور برکت کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ جسے وہ منافی توحید نہیں سمجھتے تھے او نہ کسی نے اس عمل خیر کو شرک بدعت قرار دیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved