ہر صحابیء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوشش ہوتی کہ ہر اس چیز سے نسبت جوڑی جائے جس کا کسی نہ کسی طرح آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تعلق رہا ہو۔ ائمہِ حدیث نے اس حوالے سے سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کا خصوصی طور پر تذکرہ کیا ہے کہ وہ کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اداؤں کو اپناتے تھے۔ انہیں تو بس اتنی سی بات معلوم ہونے کی دیر ہوتی کہ یہ عمل پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے پھر وہ عمر بھر یہی عمل بار بار دھراتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ مقامِ ذو الحلیفہ میں بجریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھایا اور پھر نماز ادا کی۔ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے بھی تبرکاً یہی دو عمل اپنا معمول بنا لیئے۔ چند روایات درجہ ذیل ہیں۔
1۔ حضرت نافع رضی اللہ عنہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَاخَ بِالْبَطْحَآءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَصَلّٰي بِهَا، قَالَ : وَکَانَ عَبْدُاﷲِ بْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَفْعَلُ ذَلِکَ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی (بجریلی) زمین میں اپنا اونٹ بٹھایا اور وہاں نماز پڑھی حضرت نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمر رضی اﷲ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : استحباب نزول ببطحاء ذي الحليفة والصلاة بها. .
. ، 2 : 981، رقم : 1347
2. أبوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب : زيارة القبور، 2 : 219، رقم : 2044
2۔ حضرت نافع سے صحیح مسلم کی دوسری روایت اس طرح مروی ہے :
کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يُنِيْخُ بِالْبَطْحَآءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ الَّتِي کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُنِيْخُ بِهَا وَيُصَلِّي بِهَا.
’’حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما ذوالحلیفہ کی اس کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھاتے تھے جہاں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا اونٹ بٹھاتے تھے اور اسی جگہ نماز پڑھتے تھے (جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز پڑھی تھی)۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : استحباب نزول ببطحاء ذي الحليفة والصلاة بها. . . ، 2 : 981، رقم : 1347
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قال القاضي والنزول بالبطحاء بذي الحليفة في رجوع الحاج ليس من مناسک الحج وإنما فعله من فعله من أهل المدينة تبرّکاً بآثار النبي صلي الله عليه وآله وسلم ولأنها بطحاء مبارکة.
’’قاضی نے کہا حاجیوں کا ذوالحلیفہ پر ٹھہرنا مناسکِ حج میں سے نہیں یہ بعض اہلِ مدینہ کا عمل ہے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارک سے تبرک حاصل کرتے ہوئے کیا کیونکہ یہ مبارک وادی ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 9 : 114
3۔ حضرت محمد بن عمران انصاری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا :
عَدَلَ إِلَيَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ عَمَرَ وَأَنَا نَازِلٌ تَحْتَ سَرْحَةٍ بِطَرِيْقِ مَکَّةَ فَقَالَ : مَا أَنْزَلَکَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَقُلْةُ أَنْزَلَنِي ظِلُّهَا قَالَ عَبْدُاﷲِ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِذَا کُنْتَ بَيْنَ الْأَخْشَبَيْنِ مِنْ مِنًي وَنَفَخَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ فَإِنَّ هُنَاکَ وَادِيًا يُقَالُ لَه السُّرَّبَةُ وَفِي حَدِيْثِ الْحَارِثِ يُقَالُ لَهُ السُّرَرُ بِهِ سَرْحَةٌ سُرَّ تَحْتَهَا سَبْعُوْنَ نَبِيًّا.
’’میں مکۃ المکرمہ کے راستے میں ایک بڑے درخت کے نیچے ٹھہر گیا۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر مجھ سے مخاطب ہوئے آپ نے دریافت فرمایا آپ اس درخت کے نیچے کیوں ٹھہرے ہوئے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس کے سایہ کی وجہ سے۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جب آپ منیٰ کے ان دو پہاڑوں کے درمیان ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا تو وہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک وادی ہے جس کو سُرَّبَہ یا سُرَرْ کہتے ہیں وہاں ایک درخت ہے جس کے نیچے ستر انبیاء علیہم السلام کی ناف کاٹی گئی (یعنی وہاں ان کی ولادت باسعادت ہوئی)۔‘‘
1. نسائي، السنن، کتاب مناسب الحج، باب : ما ذکر في مني، 5 : 248، رقم : 2995
2. مالک، الموطأ، 1 : 423، رقم : 949
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 138، رقم : 6232
1۔ اس حدیث کے تحت ابنِ عبدالبر نے شرح مؤطا التمہید میں لکھا ہے :
وفي هذا الحديث دليل علي التّبرّک بمواضع الأنبياء والصّالحين ومقامهم ومساکنهم.
’’اس حدیث میں انبیاء اور صالحین کے رہنے والی جگہوں، مقامات اور ان کی رہائش گاہوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 66
2۔ اسی طرح شارحِ مؤطا محمد بن عبدالباقی بن یوسف الزرقانی (م 1122ھ) نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے :
وفيه التّبرّک بمواضع النبيّين.
’’پس اس حدیث میں انبیاء کے قیام گاہوں سے تبرک کا ثبوت بھی ہے۔‘‘
زرقاني، شرح الزرقاني، 2 : 530
3۔ امام سیوطی نے نسائی کی شرح میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے :
يعني أنهم ولدوا تحتها فهو يصف برکتها.
’’اس سے مراد یہ ہے کہ اس درخت کے نیچے انبیاء کی ولادتِ مبارکہ ہوئی پس انہوں نے اس درخت کی برکت کو بیان کیا۔‘‘
سيوطي، شرح السيوطي، 5 : 249
4۔ حضرت موسیٰ بن عقبہ بیان کرتے ہیں :
رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِاﷲِ يَتَحَرَّي أَمَاکِنَ مِنَ الطَّرِيْقِ فَيُصَلِّي فِيْهَا وَيُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاهُ کَانَ يُصَلِّي فِيْهَا وَأنَّهٌ رَأَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يُصَلِّي فِي تِلْکَ الْأَمْکِنَةِ.
’’میں نے حضرت سالم بن عبداللہ کو دیکھا کہ وہ (حرمین کے) راستے میں کچھ جگہوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہاں نماز پڑھا کرتے تھے اور وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ان کے والدِ گرامی (حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما) ان مقامات میں نمازیں پڑھا کرتے تھے اور انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب : المساجد التي علي طرق المدينة والمواضع التي صلي فيها النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 183، رقم : 469
اس روایت میں اماکنِ مقدسہ سے تبرک کا ثبوت ہے۔ شارحِ صحیح بخاری حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
ومحصل ذلک أن ابن عمر کان يتبرّک بتلک الأماکن.
’’اس روایت کا ماحصل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمران اماکنِ مقدسہ سے تبرک حاصل کرتے تھے۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 569
1۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا کے پاس وہ کمبل محفوظ تھا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا۔ آپ رضی اﷲ عنھا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حسبِ ضرورت و خواہش اس کی زیارت کرایا کرتی تھیں۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ رضي اﷲ عنها کِسَاءً مُلَبَّدًا وَقَالَتْ : فِيْ هَذَا نُزِعَ رُوْحُ النَّبِيِ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھانے ایک موٹا کمبل نکال کر ہمیں دکھایا اور فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک اس مبارک کمبل میں ہوا تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الخمس، باب : ما ذکر عن درع النبي صلي الله عليه وآله
وسلم ، 3 : 1131، رقم : 2941
2. عسقلاني، تغليق التعليق، 3 : 468
2۔ دوسرے طریق سے حضرت ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہے :
فَأَخْرَجَتْ إِلَيْنَا عَائِشَةُ إِزَارًا غَلِيْظًا مِمَّا يَصْنَعُ بِالْيَمَنِ، وَکَسَاءً مِنْ هَذِهِ الّتِي يَدْعُوْنَهَا الْمُلَبَّدَةَ.
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس گیا انہوں نے یمن کا بنا ہوا ایک موٹے کپڑے کا تہبند نکالا اور ایک چادر نکالی جس کو مُلَبَّدہ (پیوند لگی ہوئی) کہا جاتا ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الخمس، باب : من درع النبي صلي الله عليه وآله وسلم
وعصاه، 3 : 1131، رقم : 2941
2. مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : التواضع في اللباس، 3 : 1649، رقم : 2080
3. أبوداود، السنن، کتاب اللباس : باب : لباس الغليظ، 4 : 45، رقم : 4036
3۔ صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ ہے :
قَالَ : فَأَقْسَمَتْ بِاﷲِ، إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قُبِضَ فِي هٰذَيْنِ الثَّوْبَيْنِ.
’’انہوں نے اﷲ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی دو کپڑوں میں وصال فرمایا تھا۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : التواضع في اللباس، 3 : 1649، رقم : 2080
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ، صحیح بخاری میں ’’کتاب الخمس‘‘ کے جس باب کے تحت مذکورہ بالا حدیث لائے ہیں اس کا عنوان قائم کر کے انہوں نے لفظِ تبرک استعمال کیا ہے :
بَابُ مَا ذُکِرَ مِنْ دِرْعِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَعَصَاهُ وَسَيْفِهِ وَقَدْحِهِ وَخَاتَمِهِ وَمَا اسْتَعْمَلَ الْخُلَفَاءُ بَعْدَهُ مِنْ ذَلِکَ مِمَّا لَمْ يُذْکَرْ قِسْمَتُه وَمِنْ شَعَرِهِ وَنَعْلِهِ وَآنِيَتِهِ مِمَّا يَتَبَرَّکُ بِهِ أَصْحَابُهُ وَغَيْرُهُمْ بَعْدَ وَفَاتِه صلي الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات مثلاً زرہ، عصا، تلوار، پیالہ اور انگوٹھی اور ان میں سے جن چیزوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد خلفاء نے استعمال کیا جنہیں تقسیم نہیں کیا گیا، اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک اور نعل مبارک اور برتن کا بیان جن سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور دیگر لوگ برکت حاصل کرتے تھے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب فرض الخمس، باب : 5
امام بخاری کا اس عنوان سے باب باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استعمال کردہ مقدس اشیاء سے حصولِ برکت خلفاءِ راشدین اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔
صاحبِ ’’قصیدہ بردہ شریف‘‘ امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق اَدیب تھے۔ اللہ گ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جنکی بناء پر اُمراء اور سلاطینِ وقت ان کی بہت قدر و منزلت کرتے تھے۔ ایک روز وہ کہیں جارہے تھے کہ سرِ راہ اللہ تعالیٰ کے ایک نیک بندے سے آپ کی ملاقات ہوئی، انہوں نے آپ سے پوچھا : بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ اس کا آپ نے نفی میں جواب دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہتے اور اسی دوران کچھ نعتیہ اشعار بھی کہے۔
پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہو گیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضے میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لا دوا کے لئے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس کلام سے اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور پورے بدن پر اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور آپ فوراً شفایاب ہوگئے۔ اگلے دن صبح صبح آپ اپنے گھر سے نکلے اور سب سے پہلے جس سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابوالرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے مجھے بھی سنا دیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کونسا قصیدہ؟ انہوں نے کہا : وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے۔
أَمِنْ تَذَکُّرِ جِيْرَانٍ بِذِيِ سَلَم
مَزَجْتَ دَمْعًا جَرٰي مِنْ مَقْلَةٍ بِدَمِ
’’کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون میں ملا دیا ہے؟‘‘
آپ کو تعجب ہوا اور پوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ جس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔
1. خرپوتي، عصيدة الشهدة شرح قصيدة البردة : 3
2. تهانوي، نشر الطيب في ذکر النبي الحبيب، 299 - 300
چونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی تھی اور پھر اپنا دست شفاء بھی پھیرا تھا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوئے لہٰذا اس چادرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔
برکاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج بھی جاری و ساری ہیں اور جس نے بھی اس قصیدہ کو درمان طلبی کا ذریعہ اور وسیلہ بنایا، اللہ رب العزت نے اسے بامراد کیا۔ اس کی برکت سے بہت سوں کو فالج سے صحت یابی اور آشوبِ چشم کی شدت سے نجات ملی اس طرح بہت سے دیگر پریشان حال لوگوں کے دینی و دنیاوی اُمور آسان ہوئے۔
1۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح پروانہ وار موئے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تبرکًا حاصل کرتے تھے اس حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَالْحَلَّاقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِيْ يَدِ رَجُلٍ.
’’میں نے دیکھا کہ حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک مونڈ رہا تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے ان کی شدید خواہش تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : قرب النبي صلي الله
عليه وآله وسلم من
الناس وتبرکهم به، 4 : 1812، رقم : 2325
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12386 - 12423
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 5 : 189
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کو تبرکًا حاصل کیا بعد میں خصوصی اہتمام کے ساتھ انہیں محفوظ کیا اور نسلاً بعد نسلٍ اُمت میں موئے مبارک محفوظ چلے آ رہے ہیں۔
2۔ حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَرْسَلًنِي أَهْلِي إِلَي أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ، وَقَبَضَ إِسْرَائِيْلُ ثَلَاثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ فِيْهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيئٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ فَاطَّلَعْتُ فِي الْجُلْجُلِ فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.
’’مجھے میرے گھر والوں نے حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس (چاندی سے بنا ہوا) پانی کا ایک پیالہ دے کر بھیجا۔ (اسرائیل نے تین انگلیاں پکڑ کر اس پیالے کی طرح بنائیں) جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا موئے مبارک تھا، اور جب کبھی کسی کو نظر لگ جاتی یا کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ حضرت اُم سلمۃ رضی اﷲ عنہا کے پاس (پانی کا) برتن بھیج دیتا۔ پس میں نے برتن میں جھانک کر دیکھا تو میں نے چند سرخ بال دیکھے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب اللباس، باب : ما يذکر في الثيب، 5 : 2210، رقم : 5557
2. ابن راهويه، المسند، 1 : 173، رقم : 145
3. ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 21
حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
والمراد أنه کان من اشتکي أرسل إناء إلي أم سلمة فتجعل فيه تلک الشعرات وتغسلها فيه وتعيره فبشربه صاحب الإناء أو يغسل بهِ استشفاء بها فتحصل له برکتها.
’’اس حدیثِ مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو وہ کوئی برتن حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں بھیجتا۔ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں کو اس میں رکھ دیتیں اور اس میں بار بار دھوتیں پھر وہ بیمار شخص اپنے اس برتن سے پانی پیتا یا مرض کی شفاء کے لئے غسل کرتا اور اسے ان موئے مبارک کی برکت حاصل ہو جاتی (یعنی وہ شفایاب ہو جاتا)۔‘‘
عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 10 : 353
علامہ بدر الدین عینی فرماتے ہیں :
أنّ أم سلمة کان عندها شعرات من شعر النبي صلي الله عليه وآله وسلم حمر في شئ مثل الجلجل وکان الناس عند مرضهم يتبرکون بها ويستشفون من برکتها.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک چاندی کی بوتل میں تھے۔ جب لوگ بیمار ہوتے تو وہ ان بالوں سے تبرک حاصل کرتے اور ان کی برکت سے شفا پاتے۔‘‘
عيني، عمدة القاري، 22 : 49
3۔ حضرت یحییٰ بن عباد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :
کان لنا جلجل من ذهب فکان الناس يغسلونه، وفيه شعر رسول اﷲ، قال : فتخرج منه شعرات قد غيرت بالحناء والکتم.
’’ہمارے پاس سونے کا ایک برتن (جلجل) تھا جس کو لوگ دھوتے تھے، اس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے۔ چند بال نکالے جاتے تھے جن کا رنگ حنا اور نیل سے بدل دیا گیا تھا۔‘‘
ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 437
اکابر ائمہ موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسقدر قدر و قیمت کرتے تھے کہ انہیں دنیا و مافیہا کے خزانوں سے پڑھ کر موئے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت تھی۔
امام ابنِ سیرین بیان کرتے ہیں :
قُلْتُ لِعَبِيْدَةَ : عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ، أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ، فَقَالَ : لَأَنْ تَکُوْنَ عنِْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِليَّ مِنْ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا.
’’میں نے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا : ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک ہیں جن کو ہم نے انس رضی اللہ عنہ یا ان کے اہلِ خانہ سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان مبارک بالوں میں سے ایک بال بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعر الإنسان، 1 : 75، رقم
: 168
2. بيهقي، السنن الکبري، 7 : 67، رقم : 13188
3. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 201
ایک اور روایت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَأَنْ يَکُوْنَ عِنْدِي مِنْهُ شَعَرَةٌ أَحَبُّ إِلَيَ مِنْ کُلِّ صَفْرَاءَ وَبَيْضَاءَ أَصْبَحَتْ عَلَي وَجْهِ الْأَرْضِ وَفِي بَطْنِهَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک بالوں میں سے ایک بال کا میرے پاس ہونا مجھے روئے زمین کے تمام ظاہری اور پوشیدہ خزانوں، سونے اور چاندی کے حصول سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 256، رقم : 13710
2. بيهقي، السنن الکبري، 2 : 427، رقم : 4032
حضرت ثابت البنانی بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
هَذِهِ شَعَرَةٌ مِنْ شَعَرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَضَعْهَا تَحْتَ لِسَانِي، قَالَ : فَوَضَعْتُهَا تَحْتَ لِسَانِهِ، فَدُفِنَ وَهِيَ تَحْتَ لِسَانِهِ.
’’یہ اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بال مبارک ہے، پس تم اسے میری (تدفین کے وقت) اسے زبان کے نیچے رکھ دینا۔ وہ کہتے ہیں : میں نے وہ بال مبارک آپ رضی اللہ عنہ کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور انہیں اس حال میں دفنایا گیا کہ وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔‘‘
عسقلاني، الإصابة في تمييز الصحابة، 1 : 127
حضرت صفیہ بنتِ نجدہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند موئے مبارک تھے۔ ایک دفعہ دورانِ جہاد وہ ٹوپی گر پڑی وہ اس کو لینے کے لئے تیزی سے دوڑے جبکہ اس معرکے میں بکثرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم شہید ہوئے۔؟ اس پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
لم أفعلْها بسبب القَلَنْسُوة، بل لما تضَمَّنَتْه من شَعرِه صلي الله عليه وآله وسلم لئلا أُسْلَب برکتها وتقع في أيدي المشرکين.
’’میں نے صرف ٹوپی کے حاصل کرنے کیلئے اتنی تگ و دو نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کہ اس ٹوپی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک تھے۔ مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤں اور دوسرا یہ کہ یہ کفار و مشرکین کے ہاتھ نہ لگ جائے۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفيٰ، 2 : 619
2. عيني، عمدة القاري، 3 : 37
موئے مبارک کی کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میں ملتا ہے۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی کتاب الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین اور انفاس العارفین میں اپنے والدِ گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیزکی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو)! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کر دیں بس اسی لمحے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیف حالک یا ابنی؟ بیٹے عبدالرحیم! تمہارا کیا حال ہے؟ بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اوراپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر (ایک کی بجائے) دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا (فکر نہ کر) یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صحتِ کلی اور درازیء عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھ دیا ہے وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی۔ انہی موئے مبارک کے خواص میں سے ذیل میں تین کا ذکر کیا جاتاہے۔
1۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے۔
2۔ ایک مرتبہ تین منکرین نے امتحان لینا چاہا اور ان موئے مبارک کو دھوپ میں لے گئے۔ غیب سے فوراً بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا جس نے ان موئے مبارک پر سایہ کر لیا حالانکہ اس وقت چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ان میں سے ایک تائب ہوگیا۔ جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو باقی دونوں بھی تائب ہوگئے۔
3۔ ایک مرتبہ کئی لوگ موئے مبارک کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے ہر چند کوشش کی مگر تالا نہ کھلا۔ اس پر شاہ صاحب نے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک شخص جنابت کی حالت میں ہے۔ شاہ صاحب نے پردہ پوشی کرتے ہوئے سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جنبی کے دل میں چور تھا، جوں ہی وہ مجمع میں سے نکلا فوراً قفل کھل گیا اور سب نے موئے مبارک کی زیارت کر لی پھر والد بزرگوار نے عمر کے آخری حصے میں ان کو بانٹ دیا جن میں ایک مجھے بھی مرحمت فرمایا جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔
شاه ولي الله، أنفاس العارفين : 40 - 41
حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنتِ ابی بکر رضی اﷲ عنھما نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکال کر دکھایا جس کے گریبان اور آستینوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ پس آپ رضی اﷲ عنھا فرمانے لگیں :
هَذِهِ کَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ حَتَّي قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا وَکَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَلْبَسُهَا، فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَي يُسْتَشْفَي بِهَا.
’’یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تو اسے میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زیبِ تن فرماتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی (تبرکًا) بیماروں کو شفاء یابی کے لئے پلاتے ہیں۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة
علي الرجال، 3 : 1641، رقم : 2069
2. أبوداود، السنن، کتاب اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4
: 49، رقم : 4054
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 423، رقم : 4010
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :
وفي هذا الحديث دليل علي استحباب التبرک بآثار الصالحين وثيابهم.
’’اس حدیث میں آثارِ صالحین اور ان کے ملبوسات سے حصولِ تبرک کے جائز و پسندیدہ ہونے کی دلیل ہے۔‘‘
نووي، شرح علي صحيح مسلم، 14 : 44
لبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس برتن کو مس کیا وہ بھی بڑا بابرکت ہو گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایسے برتنوں کو بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور پینے پلانے کے ایسے برتنوں کا استعمال باعثِ برکت و سعادت گردانتے تھے۔
1۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ایسے مبارک برتن میں پانی پلانے کی پیشکش کی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا اور انہوں نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا تھا۔ انہوں نے کہا :
أَلَا أَسْقِيْکَ فِيْ قَدَحٍ شَرِبَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْهِ؟
’’کیا میں آپ کو اس مبارک پیالے میں (پانی) نہ پلاؤں جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا؟
بخاري، الصحيح، کتاب الأشربة، باب : الشرب من قدح النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 : 2134
2۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے الفاظ اس طرح مروی ہیں کہ میں مدینہ طيبہ حاضر ہوا تو مجھے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور ا نہوں نے کہا :
اِنْطَلِقَ إلَي الْمَنْزِلِ فَأَسْقِيَکَ فِي قَدَحٍ شَرِبَ فِيْهِ رَسُوْلُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب : ما ذکر النبي صلي الله عليه وآله وسلم وحض علي النفاق
أهل العلم، 6 : 2673، رقم : 6910
2. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 349، رقم : 10708
3. عسقلاني، فتح الباري، 7 : 131، رقم : 3603
3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
فَأَقْبَلَ النَّبِيُ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَئِذٍ حَتَّي جَلَسَ فِِيْ سَقِيْفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ، ثُمَّ قَالَ : اسْقِنَا، يَا سَهْلُ : فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا الْقَدَحِ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيْهِ. (قال أبو حازم : ) فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذٰلِکَ الْقَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيْزِ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَوَهَبَهُ لَه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا : اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں (پانی) پلایا۔ (ابو حازم نے کہا : ) سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الأشربة، باب : من قدح النبي صلي الله عليه وآله وسلم
وآنيته، 5 : 2134، رقم : 5314
2َ مسلم، الصحيح، کتاب الأشربة، باب : إباحة النبيذ التي لم يشتروا لم يصر
مسکراً، 3 : 1591، رقم : 2007
3. بيهقي، السنن الکبري، 1 : 31، رقم : 123
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ایسا پیالہ بھی محفوظ تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا۔ سوئے اتفاق سے جب وہ ٹوٹ گیا تو انہوں نے اس کی مرمت کا جس قدر اہتمام کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب مبارک اشیاء کو کس قدر حرزِ جاں بنائے ہوئے تھے۔
حضرت عاصم امام ابنِ سیرین سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّ قَدْحَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم انْکَسَرَ فَاتَّخَذَ مَکَانَ الشَّعْبِ سِلْسَلَةً مِنْ فِضَّةٍ. قَالَ عَاصِمٌ : رَأَيْتُ الْقَدَحَ وَشَرِبْتُ فِيْهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے (اسے جوڑنے کے لئے عام چیز کی بجائے جوڑ پر چاندی کے تار لگا دیئے۔ عاصم (راوی ) کہتے ہیں : خود میں نے اس پیالے کی زیارت کی ہے اور اس میں پیا ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الخمس، باب : ما ذکر من درع النبي صلي الله عليه وآله
وسلم ، 3 : 1131، رقم : 2942
2. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 87، رقم : 8050
3. بيهقي، السنن الکبري، 1 : 29، رقم : 111 - 113
حضرت حجاج بن حسان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کُنَّا عِنْدَ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ، فَدَعَا بِإنَاءِ وَفِيْهِ ثَلاَثُ ضِبَابٍ حَدِيْدٍ وَحَلْقَةٌ مِنْ حَدَيْدٍ، فَأَخْرِجَ مَنْ غِلَافٍ أَسْوَدَ وَهُوَ دُوْنَ الرُّبُعِ وَفَوْقَ نِصْفِ الرُّبُعِ، فَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ فَجُعِلَ لَنَا فِيهِ مَاءٌ فَأُتِيْنَا بِه فَشَرِبْنَا وَصَبَبْنَا عَلَي رُؤُوْسِنَا وَوُجُوْهِنَا وَصَلَّيْنَا عَلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 187، رقم : 12971
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 7
3. مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 216، رقم : 1845
1۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت امِ سلیم کے پاس ایک شیشی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک پسینہ اور چند موئے مبارک محفوظ تھے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے کفن میں اسی عرق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بطورِ خوشبو لگانے کی وصیت کی، حضرت ثمامہ کا بیان ہے :
فلما حضر أنس بن مالک الوفاةُ أوصي إلي أن يُجْعل في حنوطه من ذالک السُّکِ، قال : فجُعل في حنوطه.
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے وصیت فرمائی کہ ان کے حنوط(٭) میں اس خوشبو کو ملایا جائے۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے حنوط میں وہ خوشبو ملائی گئی۔‘‘
(٭) حنوط : وہ خوشبو جو کافور اور صندل ملا کر میت اور کفن کے لئے تیار کی جاتی ہے۔
1. بخاري، الصحيح، کتاب الاستئذان، باب : من زار قوماً فقال عندهم، 5 : 2316، رقم :
5925
2. شوکاني، نيل الأوطار، 1 : 69
2۔ حضرت حمید سے روایت ہے کہ
توفي أنس بن مالک فجعل في حنوطه سکة أو سک ومسکة فيها من عرق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’جب حضرت انس رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو ان کے حنوط میں ایسی خوشبو ملائی گئی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینے کی خوشبو تھی۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 1 : 249، رقم : 715
2. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 406، رقم : 6500
3۔ ہیثمی، مجمع الزوائد، 3 : 21 (امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں)
امام بیضاوی کہتے ہیں کہ کسی شخص کا صالحین کے قبروں کے ساتھ تبرک کی خاطر اپنی قبر بنانا جائز ہے۔ علامہ شوکانی نے اس بات پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے قول کو اپنی کتاب نیل الاوطار میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے :
واستنبط البيضاوي من علة التعظيم جواز اتّخاذ القبور في جوار الصلحاء لقصد التبرک دون التعظيم و ردّ بأن قصد التبرک تعظيم.
’’امام بیضاوی نے علت تعظیم سے استنباط کرتے ہوئے صلحاء کے قرب میں تبرکاً قبر بنانا جائز قرار دیا ہے نہ کہ تعظیماً۔ اور انہوں نے اس بات کو رد کیا ہے کہ تبرک بھی تعظیم (عبادت) ہے۔‘‘
شوکاني، نيل الأوطار، 2 : 140
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے حضرات شیخین سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہما کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ اُنہیں قربِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں دفن ہونا نصیب ہو، تاکہ عالمِ برزخ میں بھی قرب و وصالِ محبوب کے لمحات سے ان کی روحوں کو تسکین ملے۔ یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس نیک خواہش کے بارے میں مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي : يا علي! إذا أنا مت فاغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ وحنطوني واذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده. قال : فغسل وکفن وکنت أول من يأذن إلي الباب فقلت : يا رسول اﷲ! هذا أبوبکر مستأذن، فرأيت الباب قد يفتح، وسمعت قائلا يقول : أدخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.
’’جب حضرت ابوبکر صديق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا : اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لاکر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں، پھر میں نے دیکھا کہ روضۂ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘
1. حلبي، السيرة الحلبية، 3 : 493
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 492
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 436
اسی طرح امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی اپنے آقائے کریم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کے بہت ہی زیادہ خواہاں تھے۔ جب قاتلانہ حملے کے نتیجے میں آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا تو آپ نے اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کوسیدہ عائشہ رضی اﷲ عہنا کے پاس اجازت لینے کے لئے بھیجا اگرچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا خود یہ خواہش رکھتی تھیں اور انہوں نے فرمایا ہوا تھا کہ وہ اس جگہ کو اپنی تدفین کے لئے پسندکرتی ہیں مگر وہ فرمانے لگیں کہ اب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے اوپر ترجیح دیتی ہوں۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ واپس آئے اور اپنے والد کو خوشخبری سنائی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
مَا کَانَ شَيئٌ أَهَمَّ إِليَّ مِنْ ذَالِکَ الْمَضْجَعِ فَإِذَا قُبِضْتُ فَاحْمِلُوْنِي ثُمَّ سَلِّمُوْا، ثُمَّ قُلْ : يَسْتَأذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَادْفِنُوْنِي، وَإِلَّا فَرُدُّوْنِي إِلَي مَقَابِرِ الْمُسْلِمِيْنَ.
’’میرے نزدیک اس آرام گاہ سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہے۔ جب میں انتقال کرجاؤں تو مجھے اٹھا کر (اس جگہ پر) لے جانا، سلام عرض کرنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب اجازت چاہتا ہے اگر وہ (سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا) اجازت دے دیں تو دفن کر دینا ورنہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : ماجاء في قبر النبي صلي الله عليه وآله
وسلم وأبي بکر وعمر رضي اﷲ عنهما، 1 : 469، رقم : 1328
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 353
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 4 : 58
4. ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 290
یہ روایت حاکم نے’ المستدرک (3 : 99، رقم : 4519 )‘ میں ابنِ ابی شیبہ نے’ المصنف (7 : 440، رقم : 37074)‘ میں اور ابنِ سعدنے الطبقات الکبريٰ (3 : 363) میں بھی رُواۃ اور الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ بیان کی ہے۔ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی اس خواہش کی توجیہ صرف یہی ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب دفن ہونا باعثِ برکت سمجھتے تھے۔
جن پاپوش کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پھولوں سے نرم و نازک تلووں نے مس کیا اور جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدمین شریفین سے نسبت ہوگئی وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے ان نعلینِ مبارک کو تبرکاً محفوظ رکھا اور ہمیشہ ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے۔ عشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تاج شاہی سے بڑھ کرتعظیم کیکیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے پناہ عشق و محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اشیاء کی تعظیم و تکریم ہی ایک بندہ مؤمن کی زندگی کا حقیقی سرمایہ ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ علماء متقدمین و متاخرین نے نعلینِ پاک کے متعلق متعدد کتب تالیف کی ہیں مثلاً :
1۔ مولانا شہاب الدین احمد مقری نے ’فتح المتعال فی مدح النعال‘ نامی کتاب لکھی۔
2۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے نیل الشفاء بنعال المصطفیٰ رسالہ لکھا جو کہ ان کی کتاب ’زاد السعید‘ میں پایا جاتا ہے۔
ان بابرکت نعلین مبارک کے حوالے سے چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ مبارک بھی محفوظ تھے اس حوالے سے حضرت عیسیٰ بن طہمان بیان کرتے ہیں :
أَخْرَجَ إِلَيْنَا أَنَسٌ نَعْلَيْنِ جَرْدَاوَيْنِ، لَهُمَا قِبَالَانِ، فَحَدَّثَنِي ثَابِتٌ الْبُنَانِيُ بَعْدُ عَنْ أَنَسٍ : أَنَّهُمَا نَعَلَا النَّبِيّ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ہمیں بغیر بال کے چمڑے کے دو نعلین مبارک نکال کر دکھائے جن کے دو تسمے تھے۔ بعد میں ثابت بُنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے یہ حدیث بیان کی کہ یہ دونوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نعلین ہیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الخمس، باب : ما ذکر من درع النبي صلي الله عليه وآله
وسلم وعصاه، 3 : 1131، رقم : 2940
2. بخاري، الصحيح، کتاب اللباس، باب : قبالان في نعل. .
. ، 5 : 2200، رقم : 5520
3. ترمذي، الشمائل المحمدية، باب : في نعل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ،
1 : 83، رقم : 78
2۔ ایک دفعہ حضرت عبید بن جُریح نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے پوچھا کہ میں آپ کو بالوں سے صاف کی ہوئی کھال کی جوتی پہنے ہوئے دیکھتا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
فَإِنِّی رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَلْبَسُ النَّعْلَ الَّتِي لَيْسَ فِيْهَا شَعَرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيْهَا فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا.
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی جوتیاں پہنے ہوئے دیکھا ہے جس میں بال نہیں ہوتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں وضو فرماتے تھے لہٰذا میں ایسی جوتیاں پہننا پسند کرتا ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : غسل الرجلين في الغلين ولا يمسح علي
النعلين، 1 : 73، رقم : 164
2. مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : الاهلال من حيث تنبعث الراجِلة، 2
: 844، رقم : 1187
3. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب : في وقت الإحرام، 2 : 150، رقم : 1772
3۔ امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب المواہب اللدنیۃ (2 : 118۔ 119) میں لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدام میں سے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں تکیہ، مسواک، نعلینِ مبارک اور وضو کے لیے پانی لے کر حاضر رہتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعلینِ مبارک پہنا دیتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف رکھتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین اٹھا کر بغل میں دبالیتے تھے۔ اسی وجہ سے انہیں صاحب نعل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک جوڑوں کو اٹھانے والے صحابی کہا جاتا ہے۔
1. مزي، تهذيب الکمال، 16 : 112
2. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 6 : 25
نقشِ نعلین مبارک کے حوالے سے امام ابنِ فہد مکی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ کی ایک کثیر تعداد نے اپنا اپنا یہ تجربہ بیان کیا کہ یہ جس لشکر میں ہو گا وہ فتح یاب ہو گا۔ جس قافلے میں ہو گا وہ بحفاظت اپنی منزل پر پہنچے گا۔ جس کشتی میں ہو گا وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی، جس گھر میں ہو گا وہ جلنے سے محفوظ رہے گا، جس مال و متاع میں ہو گا، وہ چوری سے محفوظ رہے گا اور کسی بھی حاجت کے لئے صاحبِ نعلین (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے توسل کیا جائے تو وہ پوری ہو کر رہے گی اور اس توسل سے ہر تنگی فراخی میں تبدیل ہو گی۔
نقشِ نعلین پاک کی آزمائی ہوئی فوائد و برکات میں سے یہ بھی ہے کہ جو شخص اس کو حصولِ برکت کی نیت سے اپنے پاس محفوظ رکھے تو اس کی برکت سے وہ شخص ظالم کے ظلم سے، دشمنوں کے غلبہ سے، شیاطین کے شر اورہر حاسد کی نظرِ بد سے حفاظت میں رہے گا۔ اسی طرح اگر کوئی حاملہ عورت شدت دردِ زہ میں اس کو اپنے دائیں پہلو پر رکھے تو اللہ تعالیٰ اپنی قدرت و مشیت سے اس خاتون پر آسانی فرمائے گا۔ اس نقشِ مقدس کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ نظرِ بد اور جادو ٹونے سے آدمی امان میں رہتا ہے۔ برکاتِ نعلینِ پاک کے حوالے سے بعض واقعات و مشاہدات جن کو امام مقری نے اپنی کتاب ’’فتح المتعال فی مدح النعال‘‘ میں بیان کیا ہے، درج ذیل ہیں :
ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جو کہ بہت بڑے عالم با عمل اور متقی و پرہیزگار شخص تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک طالبِ علم کو نعلین مبارک کا نقش بنوا دیا۔ ایک دن وہ میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں نے گذشتہ رات اس نقش کی ایک حیران کن برکت کا مشاہدہ کیا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو نے کونسی ایسی عجیب برکت دیکھی ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری اہلیہ کو اچانک اتنا شدید درد ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھی پس میں نے نعلین پاک کا یہ نقش اس کے درد والی جگہ پر رکھا اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگی :
’’اللّٰهُمَّ أرِنَا بَرکَة صاحب هٰذا النَعلِ‘‘
’’اے اللہ! آج ہم پر صاحبِ نعل (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی برکت و کرامت ظاہر فرما دے۔‘‘
اس طالبِ علم نے بیان کیا کہ پس اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے میری اہلیہ کو فوراً شفا عطا فرمائی۔
1. قسطلاني، المواهب اللدنية، 2 : 466، 467
2. مقري، فتح المتعال في مدح النعال : 469
شہرِ فاس کے مفتی شیخ محمد قصار کے بچپن کا واقعہ ہے جس کو ثقہ اہلِ علم نے بیان کیا ہے : بچپن میں مفتی صاحب اپنے بعض رشتہ داروں کے ساتھ اپنے گھر کی نچلی منزل میں بیٹھے تھے۔ یہ بھی شہرِ فاس کی دیگر عام عمارتوں کی طرح ایک بڑی عمارت تھی جس کی بڑی بڑی دیواریں اور اونچے کمرے تھے۔ ان لوگوں کے سروں کے عین اوپر دیوار پر نقشِ نعلین مبارک اس قدر بلندی پرلگا ہوا تھا کہ اگر کوئی شخص کھڑاہو تو وہ سر کے برابر ہو۔ اللہ کی شان اوپر والی منزل نچلی منزل پر گر گئی اور پوری عمارت منہدم ہوگئی۔ لوگوں نے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کی موت کا یقین کر لیا اور ایک دن سے زائد وہ ملبے تلے دے رہے۔ ایک دن کے بعد لوگ کفن دفن کی غرض سے ملبہ ہٹاتے ہٹاتے ان تک پہنچے تو یہ دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نیچے دبے ہوئے جملہ افراد نقشِ نعلینِ پاک کی برکت سے زندہ و سلامت ہیں اور انہیں کوئی گزند تک نہیں پہنچی۔
یہ اللہ تعالیٰ کا خاص لطف و احسان اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلینِ پاک کا صدقہ تھا کہ وہ اس جان لیوا حادثہ میں بال بال بچ گئے۔ ہوا یوں کہ جب اوپر والی دیوار گرگئی تو وہ ان پر مانند خیمہ ٹھہر گئی۔ دیوار کا اوپر والا حصہ اس جگہ سے جا لگا جس کے نیچے نعلین پاک تھا اور نچلا حصہ زمین میں کھڑا ہو گیا جس کے بعد مٹی پتھر وغیرہ پہاڑ کی طرح اوپر سے نیچے گرتے رہے۔ یہ لوگ اس کے نیچے محفوظ رہے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے نعلینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے ان کو ہر قسم کی تکلیف اور نقصان سے اپنی حفاظت میں رکھا.
مقري، فتح المتعال في مدح النعال : 470 - 471
1۔ شیخ عبدالخالق بن حب النبی مالکی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سال نصف رمضان کو مجھے ایک پھوڑا نکل آیا اور کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیا ہے اس کی وجہ سے مجھے سخت تکلیف لاحق ہوئی۔ میں اس مرض کے ماہر اطباء اور جراح کے پاس گیا مگر کوئی بھی اس تکلیف کو سمجھ سکا اور نہ کوئی اس کا علاج تجویز کر سکا۔ مجھے شدت تکلیف نے بے چین کیا ہوا تھا۔ پھر جب اچانک مجھے اس نقشِ نعلِ مبارک کے فضائل و برکات یاد آئے تو میں نے اس نقش کو جائے تکلیف پر رکھا اور دعا کی :
اللّٰهُمَّ إنِّي أسأَلُکَ بِحَقِّ نَبِيّکَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم مَن مشي بالنعل أن تُعَافِيني مِن هٰذا المرض يا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ.
’’اے اللہ! تجھ سے تیرے محبوب نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ دیتے ہوئے سوال کرتا ہوں جو کہ اس نعل مبارک میں چلتے رہے ہیں جس کا یہ نقش ہے۔ اے سب سے زیادہ رحم فرمانے والے پروردگار! مجھے اس بیماری سے شفا عطا فرما۔‘‘
مقري، فتح المتعال في مدح النعال : 470، 471
وہ فرماتے ہیں خدا کی قسم مجھے ایک دن کے اندر ایسا افاقہ ہوا گویا کہ تکلیف تھی ہی نہیں۔‘‘
2۔ اسی طرح ان کی ایک بچی تھی جس کی آنکھیں ایسی خراب ہوئیں کہ اطباء اسکے علاج سے عاجز آگئے ایک دن اس بچی نے ان سے کہا : میں نے سنا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعل پاک کے نقش کے بہت زیادہ فوائد و برکات ہیں مجھے بھی لاکر دیں، پس انہوں نے اس کو نقش مبارک دیا، اس بچی نے نقش کو اپنے آنکھوں پر رکھا تو نقشِ نعلین پاک کی برکت سے اس کی آنکھوں کی بیماری ختم ہوگئی۔
1۔ صاحبِ فتح المتعال امام مقری رحمۃ اللہ علیہ خود اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں :
اس نقشِ مبارک کے فوائد و برکات کا میں نے خود اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہے۔ ہوا یوں کہ میں ذیقعدہ شریف 1027ھ کو غرب جزائر میں ایک بحری جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ سخت سردی کا موسم تھا۔ دریا خوب طغیانی پر تھا۔ سیلاب کے ایک تیز ریلے کے ساتھ جہاز کے کئی تختے ٹوٹ گئے، ہم سب ہلاکت کے قریب پہنچ گئے اور تمام لوگ اپنی زندگی سے مایو س ہوگئے اور موت کا سامنا کرنے کے لئے تیار تھے کہ میں نے جہاز کے کپتان کے پاس نقشِ نعلین بھیجا کہ اس کی برکت سے خیر کی امید رکھے چنانچہ اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ہم سب پر کرم فرمایا اور ہمیں صحیح و سلامت پار لگا دیا اور اسے سمندری سفر کے ماہرین نے بڑی کرامت کی نشانی شمار کیا.
مقري، فتح المتعال في مدح النعال : 472
2۔ اسی سفر کے دوران راستے میں ایک مقام پر ڈاکوؤں کا قبضہ تھا جو لوگوں کو لوٹتے تھے ان کے پاس بہت سارا اسلحہ اور کثیر لوگ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس نقشِ پاک کی برکت سے ان کی آنکھوں سے چھپائے رکھا اور ہم مدینہ منورہ میں صحیح سالم پہنچ گئے۔
3۔ اسی طرح ایک دن ہم دریا میں سفر پر تھے کہ سامنے ایک بہت بڑا پتھر ظاہر ہوا کہ اگر ہماری کشتی اس سے ٹکرا جاتی تو پاش پاش ہو جاتی۔ ہماری کشتی اس پہاڑی نما غار میں گھس گئی۔ اس پتھر نے ہمیں آگے پیچھے دائیں بائیں سے اس طرح گھیر لیا کہ اس پتھر اورہماری کشتی کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔ اس وقت دریا کی موجیں پورے جوبن پر تھیں۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اب تو ہماری کشتی ضرور ٹکڑے ٹکڑے ہو کر تباہ ہو جائے گی۔ پس ہم نے نقشِ نعلین کے ساتھ توسل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس مشکل سے رہائی عطا فرمائی۔
4۔ اسی طرح مجھ سے ایک ثقہ شخص نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ اسے ایک شدید مرض لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ قریب المرگ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا کہ نقشِ نعلین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے توسّل کرو، اس نے ایسا ہی کیا تو اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم فرمایا اور وہ اس کی برکت سے شفایاب ہوگیا۔
5۔ اسی طرح یہ بھی مجھے بعض قابلِ اعتماد احباب نے بتایا کہ انہوں نے کئی دفعہ ایسے ممالک کا سفر کیا جن کے راستوں پر چوروں، رہزنوں کا ہر وقت خوف رہتا تھا اور عام طور پر ان کی لوٹ مار سے کوئی بھی مسافر نہیں بچتا تھا مگر چونکہ ان کے پاس نقشِ نعلینِ پاک تھا کئی مرتبہ ان کاسامنا چوروں کے ساتھ ہوا لیکن اس نقش کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے شر سے محفوظ رکھا.
مقري، فتح المتعال في مدح النعال : 474 - 475
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
أنه کانت عنده عصية لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فمات فدفنت معه بين جنبه وبين قميصه.
’’حضرت عبداﷲ بن انیس کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک چھوٹی سی چھڑی تھی، جب وہ فوت ہوئے تو وہ (چھڑی) ان کے ساتھ ان کی قمیص اور پہلو کے درمیان دفن کی گئی۔‘‘
1. ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 6
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 3 : 45
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر مبارک پر بیٹھ کر اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منبر شریف کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے حصولِ برکت کا ذریعہ بنا لیا، وہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اور اس سے برکت حاصل کرتے۔
امام ابنِ حبان، ابنِ سعد اور قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ جیسے معتبر ائمہ حدیث نے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر مبارک کو تبرکاً مسح کرکے اپنے چہرہ پر ہاتھ مَل لیتے۔ ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عبدالقاری بیان کرتے ہیں :
رأيت ابن عمر وضع يدَه علي مَقْعَدِ النبي صلي الله عليه وآله وسلم من المِنبَر، ثم وضعها علي وَجْهه.
’’میں نے حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھویا اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیا۔‘‘
1. ابن حبان، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606
2. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 254
3. قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفيٰ، 2 : 620
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر تبرک اور توسل کے لئے حاضر ہوتے۔ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے معمولات درج ذیل ہیں :
1۔ جب حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے خط پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو شام کی طرف کوچ کرنے کے لیے شہر سے باہر نکلنے کو کہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے مسجد نبوی میں حاضر ہوکر چار رکعت نماز ادا کی، پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس پر حاضری دی اور (بارگاہِ نبوت میں) سلام عرض کیا.
واقدي، فتوح الشام، 1 : 306، 307
2۔ کعب الاحبار کے قبولِ اسلام کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کہا : ’’کیا آپ حضور نبی اکرم ا کے روضۂ اقدس کی زیارت اور فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے میرے ساتھ مدینہ منورہ چلیں گے؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’جی! امیر المؤمنین۔‘‘ پھر جب کعب الاحبار اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ آئے تو سب سے پہلے بارگاہِ سرورِ کونین ا میں حاضری دی اور سلام عرض کیا، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مدفن مبارک پر کھڑے ہوکر اُن کی خدمت میں سلام عرض کیا اور دو رکعت نماز ادا فرمائی.
1. واقدي، فتوح الشام، 1 : 318
2. هيتمي، الجوهر المنظم : 27، 28
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس ظاہری دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد اکثر روضہ مبارک پر حاضر ہوا کرتی تھیں.
(امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اسے احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رِجال صحیح ہیں۔ )
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اہلِ مدینہ کو قحط سالی کے خاتمے کے لئے قبرِ انور پر حاضر ہو کر توسل کرنے کی تلقین فرمائی۔ امام دارِمی صحیح اسناد کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 202
2. حاکم، المستدرک، 3 : 61، رقم : 4402
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 26
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 37
قحط أهل المدينة قحطًا شديدًا فشکوا إلي عائشة، فقالت : انظروا قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم فاجعلوا منه کُواً إلي السماء، حتي لا يکون بينه و بين السماء سقف، قال : ففعلوا فمطروا مطراً حتي نبت العشب، و سمنت الإبل حتي تفتقت من الشحم، فسمي ’عام الفتق‘.
’’مدینہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہوگئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے (اپنی دگرگوں حالت کی) شکایت کی۔ آپ نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس جاؤ اور اس سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ ایسا کرنے کی دیر تھی کہ بہت زیادہ بارش ہوئی حتی کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ اتنے موٹے ہوگئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اُس سال کا نام ہی ’عامُ الفتق (سبزہ و کشادگی کا سال)‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
1. دارمي، السنن، 1 : 56، رقم : 92
2. ابن جوزي، الوفا بأحوال المصطفيٰ : 817، 818، رقم : 1534
3. سبکي، شفاء السقام في زيارت خير الأنام : 128
4. مقريزي، إمتاع الأسماع، 14 : 615
5. قسطلاني، المواهب اللدنية، 4 : 276
6. سمهودي، وفاء الوفا، 2 : 560
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے مدینہ کے لوگوں کو رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک کو وسیلہ بنانے کی ہدایت فرمائی، جس سے اہلِ مدینہ پر طاری شدید قحط ختم ہوگیا، اور موسلادھار بارش نے ہر طرف بہار کا سماں پیدا کر دیا۔ جہاں انسانوں کو غذا ملی وہاں جانوروں کو چارا ملا، اِس بارش نے اہل مدینہ کو اتنا پر بہار بنا دیا کہ انہوں نے اس پورے سال کو ’عام الفتق (سبزہ اور کشادگی کا سال)‘ کے نام سے یاد کیا۔
محمد بن منکدر روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب روتے ہوئے دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے :
هٰهنا تسکب العبرات، سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ما بين قبري و منبري روضة من رياض الجنة.
’’یہی وہ جگہ ہے جہاں (فراقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : میری قبر اور منبر کے درمیان والی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔‘‘
1. بيهقي، شعب الإيمان، 3 : 491، رقم : 4163
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 389
3. أبو يعلي، المسند، 2 : 190، رقم : 1778
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 8
عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وِصال مبارک کے بعد یہ خیال کرکے شہرِ دلبر۔ ۔ ۔ مدینہ منورہ۔ ۔ ۔ سے شام چلے گئے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نہ رہے تو پھر اِس شہر میں کیا رہنا! حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس فتح کیا تو سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے خواب میں آئے اور فرمایا :
ما هذه الجفوة، يا بلال؟ أما آن لک أن تزورني؟ يا بلال!
’’اے بلال! یہ فرقت کیوںہے؟ اے بلال! کیا تو ہم سے ملاقات نہیں چاہتا؟‘‘
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ اَشک بار ہو گئے۔ انہوں نے مدینے کی طرف رختِ سفر باندھا، روضۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دی اور بے چین ہوکر غمِ فراق میں رونے اور تبرکاً اپنے چہرے کو روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ملنے لگے.
1. سبکي، شفاء السقام في زيارت خيرالأنام : 39
2. ابن حجر مکي، الجوهر المنظم : 27
حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز خلیفہ مروان بن الحکم آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ہے تو مروان نے اسے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ تو یہ کیا کررہا ہے؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ ہیں، انہوں نے جواب دیا :
نعم، جئت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و لم آت الحجر.
’’ہاں (میں جانتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں)، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہوں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 422
2. حاکم، المستدرک، 4 : 515، رقم : 8571
3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 158، رقم : 3999
4. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 199، 200، رقم : 286
5. أيضاً، 10 : 169، رقم : 9362
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی اِسناد صحیح ہیں۔ حاکم نے اسے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط پر صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجآء رجل إلي قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : يارسول اﷲ! استسق لأمتک فإنهم قد هلکوا، فأتي الرجل في المنام، فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام وأخبره أنکم مسقيون، و قل له : عليک الکيس! عليک الکيس! فأتي عمر فأخبره فبکي عمر، ثم قال : يا رب! لا آلو إلا ما عجزت عنه.
’’حضرت عمر (بن خطاب) رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اطہر پر آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ پھر خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے۔ اور عمر سے کہہ دو : عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو۔ پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کو خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ فرمایا : اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہوجاؤں۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 356، رقم : 32002
2. بيهقي، دلائل النبوة، 7 : 47
3. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3 : 1149
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 130
5. هندي، کنز العمال، 8 : 431، رقم : 23535
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب و احترام واجباتِ ایمان میں سے ہے۔ ادب و احترام کا یہی تقاضا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سننِ مقدسہ، احادیثِ مبارکہ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر مبارک کے باب میں بھی ملحوظ رہنا چاہئے۔ اس طرح اہلِ بیتِ اطہار، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سب کی محبت و ادب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک نسبت سے ضروری ہے۔ ایسے امور کے ملحوظ رکھنے سے اﷲ تعالیٰ اہلِ ایمان کو بہت سی ظاہری و باطنی برکات سے نوازتا ہے۔ اس کے برعکس ان کی بے ادبی کرنے سے بہت سی آفات و بلیات نازل ہوتی ہیں جن کاعام لوگوں کو ادراک نہیں ہوتا۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ الشفا میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
أن جَهْجَاهَا الغفَارِيَ أخَذَ قضيبَ النبيّ صلي الله عليه وآله وسلم من يد عثمان رضی الله عنه، و تناوله لِيکسِره علي رُکبته، فصاح به الناسُ، فأخذته الأکِلَة في رُکبته فقطعها، وَمَاتَ قَبْل الْحَولِ.
’’جھجاھا غفاری نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عصا مبارک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑنے کی (مذموم) کوشش۔ لوگوں نے شور مچا کر اسے روک دیا۔ پھر (اس کو اس بے ادبی کی غیبی سزا اس طرح ملی کہ) اس کے گھٹنے پر پھوڑا نکلا جو ناسور بن گیا جس کی وجہ سے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی اور وہ ایک سال سے کم عرصہ میں مر گیا۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفيٰ، 2 : 621
2. بخاري، التاريخ الصغير، 1 : 79، رقم : 311
3. عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 1 : 519
مذکورہ تمام روایات جو احادیثِ مبارکہ کی معتبر ترین کتب سے ماخوذ اور صحیح ہیں، اس بات کا بيّن ثبوت ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعینِ عظام و ائمہ کبار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد از وصال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کرتے رہے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہر شے کی اسی طرح بے حد تعظیم کی جس طرح وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں اِن کی تکریم کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جو تبرکاتِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا اس قدر اہتمام فرماتے اس سے ان کا مقصد انہیں برائے نمائش محفوظ رکھنا نہیں تھا بلکہ وہ انہیں منبعِ فیوض و برکات اور دافعِ آفات و بلیات سمجھتے تھے۔ ان کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرتے۔ ان رِوایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور دیگر اکابرینِ اُمت نے ان آثار و تبرکات سے نہ صرف یہ کہ فیوض و برکات حاصل کئے بلکہ مقاصدِ جلیلہ بھی پورے کئے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved