حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و خصائص کا شمار جس طرح ممکن نہیں اُسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کے فضائل بے شمار ہیں، جن کا تعین ممکن نہیں۔ نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکات بہت ہیں ذیل میں اُن کا ذکر مختصراً کیا جاتا ہے :
1۔ مشہور حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
قال اﷲ تعالي : وعزتي وجلالي! لا أعذب أحداً تسمي باسمک في النار.
’’اﷲ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : مجھے اپنی عزت اور بزرگی کی قسم! (اے حبیب مکرم!) میں کسی ایسے شخص کو آگ کا عذاب نہیں دوں گا جس کا نام آپ کے نام پر ہوگا۔‘‘
حلبي، اِنسان العيون، 1 : 135
اِمام حلبی لکھتے ہیں کہ اس حدیث مبارکہ میں نام سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مشہور نام یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے :
يوقف عبدان بين يدي اﷲ عزوجل، فيقول اﷲ لهما : ادخلا الجنّة، فإنّي آليت علي نفسي أن لا يدخل النار من اسمه محمد ولا أحمد.
’’دو آدمی اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوں گے، تو اﷲ تعالیٰ اُنہیں فرمائے گا : تم جنت میں داخل ہو جاؤ کیونکہ میں نے اپنے اوپر لازم کیا ہے کہ وہ شخص دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جس کا نام ’محمد‘ یا ’احمد‘ رکھا گیا۔‘‘
1۔ مناوی نے ’فیض القدیر (5 : 453)‘ میں کہا ہے کہ اِسے ابنِ سعد نے ’الطبقات
الکبریٰ‘ بیان کیا ہے۔
2۔ شعرانی نے ’کشف الغمۃ (1 : 283)‘ میں کہا ہے کہ اسے محمد بن حنفیہ نے روایت کیا
ہے۔
3. حلبي، إنسان العيون، 1 : 135
3۔ معضل سے مروی حدیثِ مبارکہ میں ہے :
إذا کان يوم القيامة نادي مناد : يا محمد! قم فادخل الجنة بغير حساب، فيقوم کل من اسمه محمد، يتوهّم أن النداء له، فلکرامة محمد صلي الله عليه وآله وسلم.
’’روزِ محشر ایک پکارنے والا پکارے گا : اے محمد! جنت میں داخل ہو جا۔ پس ہر وہ شخص جس کا نام محمد ہوگا یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ نداء اُس کے لئے ہے کھڑا ہو جائے گا۔ پس یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرامت کے سبب ہے۔‘‘
حلبي، إنسان العيون، 1 : 136
4۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إذا سمّيتم محمدًا فلا تضربوا ولا تقبّحوه وأکرموه وأوسعوا له في المجلس.
’’جب تم کسی کا نام محمد رکھو تو نہ اسے مارو اور نہ اس کی برائی بیان کرو بلکہ اس کی تکریم کرو اور مجلس میں اس کے لیے جگہ چھوڑ دو‘‘
1. شعراني، کشف الغمة، 1 : 283
2. مناوي، فيض القدير، 1 : 385
3. عجلوني، کشف الخفا ومزيل الإلباس، 1 : 94، رقم : 239
4. حلبي، إنسان العيون، 1 : 135
5۔ ایک روایت میں ہے کہ محمد نام رکھنے سے انسان میں برکت آجاتی ہے اور جس گھر یا مجلس میں محمد نام کا شخص ہو وہ گھر اور مجلس بابرکت ہو جاتی ہے.
1. شعراني، کشف الغمة، 1 : 283
2. حلبي، إنسان العيون، 1 : 135
6۔ سیدنا اِمام حسین رضی اللہ عنہ کا قول ہے :
من کان له حمل فنوي أن يسميه محمداً حوله اﷲ تعالي ذکراً، وإن کان أنثي.
’’جس کی عورت حمل سے ہو اور وہ نیت کرے کہ (پیدا ہونے والے) بچے کا نام محمد رکھے گا تو اِن شاء اﷲ تعالیٰ لڑکا پیدا ہو گا اگرچہ حمل میں لڑکی ہی ہو۔‘‘
1. حلبي، إنسان العيون، 1 : 136
2. شعراني، کشف الغمة، 1 : 283
7۔ حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ جس نے حمل میں موجود بچہ کا نام محمد رکھا تو لڑکا ہی پیدا ہو گا۔ ابنِ وہب کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے سات بچوں کا نام دورانِ حمل ہی میں محمد رکھنے کی نیت کر لی تھی، جس کی برکت سے سب لڑکے پیدا ہوئے۔
1. شعراني، کشف الغمة، 1 : 283
2۔ حلبی نے ’انسان العیون (1 : 135)‘ میں کہا ہے حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔
8۔ سیدنا علی کرم اﷲ وجھہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما اجتمع قوم قط فی مشورة معهم رجل اسمه محمد، لم يدخلوه في مشورتهم إلا لم يبارک لهم.
’’کوئی قوم مشورہ کے لئے جمع ہو اور محمد نام والا کوئی شخص اُن کے مشورہ میں داخل نہ ہو تو اُن کے کام میں برکت نہیں ہو گی۔‘‘
1. خطيب بغدادي، موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 : 446
2۔ حلبی نے ’انسان العیون (1 : 135)‘ میں کہا ہے حفاظِ حدیث نے اِس روایت کی صحت کا اِقرار کیا ہے۔
9۔ حضرت محمد بن عثمان عمری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما ضر أحدکم لو کان في بيته محمد ومحمدان وثلاثة.
’’تم میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اگر اُس کے گھر کے اِفراد میں ایک یا دو یا تین شخص محمد نام کے ہوں۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 5 : 54
2. مناوي، فيض القدير، 3 : 246
10۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما أطعم طعام علي مائدة، ولا جلس عليها، وفيها اسمي إلا قدسوا کل يوم مرتين.
’’کوئی بھی دستر خوان ایسا نہیں جس پر کھانا کھایا جائے اور وہاں میرا ہم نام بیٹھا ہو تو فرشتے ہر روز دو مرتبہ (اُس دستر خوان کی) تعریف نہ کرتے ہوں۔‘‘
1. خطيب بغدادي، موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 : 446
2. حلبي، إنسان العيون، 1 : 136
11۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے :
ما کان في أهل بيت اسم محمد إلا الغرماء برکته.
’’جس گھر میں بھی محمد نام کا شخص ہو اُس میں برکت پھیل جاتی ہے۔‘‘
مناوي، فيض القدير، 5 : 453
12۔ اِمام حلبی ’اِنسان العیون (1 : 136)‘ میں روایت کرتے ہیں :
من کان له ذو بطن فاجمع أن يسميه محمداً رزقه اﷲ غلاماً، ومن کان لا يعيش له ولد فجعل ﷲ عليه أن يسمي الولد المرزوق محمدا عاش.
’’جس کی بیوی حاملہ ہو اور وہ بچہ کا نام محمد رکھنے کا اِرادہ کر ے تو اﷲ تعالیٰ اُسے بیٹا عطا کرے گا۔ جس کا بچہ زندہ نہ رہتا ہو اور وہ اﷲ تعالیٰ کے بھروسہ پر اِرادہ کرلے کہ وہ ہونے والے بچہ کا نام محمد رکھے گا تو اُس کا بچہ زندہ رہے گا۔‘‘
اِسماعيل حقي، تفسير روح البيان، 7 : 184
13۔ مولائے کائنات سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے مرفوع روایت ہے :
ليس أحد من أهل الجنة إلا يدعي باسمه أي ولا يکني إلا آدم عليه السلام، فإنه يدعي أبا محمد تعظيماً له وتوقيراً للنبي صلي الله عليه وآله وسلم .
’’جنت میں سب کو اُن کے ناموں سے پکارا جائے گا یعنی اُن کی کنیت نہیں ہوگی، سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے۔ اُنہیں تعظیما ’ابو محمد‘ کہہ کر پکارا جائے گا، اور یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توقیر کے سبب ہے۔‘‘
حلبي، انسان العيون، 1 : 136
صحیح بخاری میں حضرت عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری اور نماز پڑھانے کا واقعہ درج ہے۔ جسے ائمہِ حدیث نے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ حضرت محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ، وَ هُوَ مِنْ أَصحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْأَنْصَارِ : أَنَّهُ أَتَي رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَدْ أَنْکَرْتُ بَصَرِي، وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا کَانَتِ الْأَمْطَارُ، سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ، لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِي مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّي بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنَّکَ تَأتِيْنِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي، فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّي، قَالَ : فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اﷲُ). قَالَ عِتْبَانُ : فَغَدَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَبُوبَکْرٍ حِيْنَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّي دَخَلَ البَيْتَ، ثُمَّ قَالَ : (أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِکَ). قَالَ : فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَي نَاحِيَةٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَکَبَّرَ، فَقُمْنَا فَصَفَفْنَا، فَصَلّٰي رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ.
’’حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان انصاری صحابہ میں سے تھے جو غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ وہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں؟۔ جب بارش ہوتی ہے تو وہ نالہ جو میرے اور ان کے درمیان ہے بہنے لگتا ہے جس کے باعث میں ان کی مسجد تک نہیں جاسکتا کہ انہیں نماز پڑھاؤں۔ یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لے چلیں اور وہاں نماز پڑھیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنالوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ میں کسی دن آؤں گا، حضرت عتبان نے بتایا کہ دوسرے دن صبح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دن چڑھنے کے بعد میرے گھر تشریف لائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسبِ معمول اجازت طلب فرمائی میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔ گھر میں تشریف لانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھے نہیں، فرمایا : تم کس جگہ پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے گھر میں نماز پڑھوں۔ میں نے گھر کے ایک گوشے کی طرف اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی، ہم بھی کھڑے ہو گئے اور صف بنائی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی پھر سلام پھیرا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب : المساجد في البيوت، 1 : 164، رقم : 415
شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث پاک کو آثارِ صالحین سے تبرک کے باب میں حجت قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
وسؤاله النّبي صلي الله عليه وآله وسلم أن يصلّي في بيته ليتّخذه مصلّي وإجابة النبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلي ذلک فهو حجّة في التّبرّک بآثار الصّالحين.
’’حضرت عتبان کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرنا کہ ان کے گھر تشریف لا کر نماز ادا کریں تاکہ وہ اس جگہ کو اپنے لئے جائے نماز بنا لیں اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ان کی التجا قبول کرنا آثارِ صالحین سے تبرک کے ثبوت کے لئے بین دلیل ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري شرح صحيح البخاري، 1 : 569
امام ابنِ عبد البر موطا کی شرح التمہید میں لکھتے ہیں :
وفيه التبرّک بالمواضع التي صلّي فيها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و وطئها وقام عليها.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں ان مقامات سے حصولِ برکت کا ثبوت ہے جہاں جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک قدم رکھے اور جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے۔‘‘
ابن عبدالبر، التمهيد، 6 : 228
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دیہاتی حضرت زاہر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں دیہات سے تحفہ لایا کرتے تھے۔ جب وہ واپس جانے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اسے سامان عنایت کرتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زاہر ہمارا دیہاتی ہے اور ہم اس کے شہری ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسد اقدس سے حصول تبرک کا واقعہ ایک حدیث مبارکہ میں یوں ہے :
فَأتَاهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْماً وَهُوَ يَبِيْعُ مَتَاعَهُ فَاحْتَضَنَهُ مِنْ خَلْفِهِ وَلَا يُبْصِرُهُ، فَقَالَ : مَنْ هَذَا؟ ارْسِلْنِي، فَالْتَفَتَ فَعَرَفَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَجَعَلَ لَا يَألُو مَا أَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِصَدْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حِيْنَ عَرَفَهُ.
’’ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور وہ (بازار میں) سامان بیچ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو پیچھے سے اس طرح بغل گیر ہوگئے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہیں دیکھ سکتے تھے، انہوں نے کہا : کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو، پھر جب انہوں نے مڑ کر دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں تو (عقیدت و محبت کے ساتھ) اپنی پیٹھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینۂ اقدس سے حصولِ برکت کے لئے مَلنا شروع کر دیا۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمدية : 396 - 399، رقم : 239
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 161
3. ابن حبان، الصحيح، 13 : 107، رقم : 5790
4. بيهقي، السنن الکبري، 10 : 248
1۔ حضرت ابوجُحَيْفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْءٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّي النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ.
وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَي : دَعَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدْحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَ وَجْهَهُ فِيْهِ، وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا : اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَي وُجُوهِکُمَا وَ نُحُوْرِکُمَا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لے کر اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگایا۔ پس اپنے مبارک ہاتھ اور چہرۂ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوْءِ النَّاسِ، 1 :
80، رقم : 185
2. مسلم الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي موسي وأبي عامر الأشعريين
رضي اﷲ عنهما، 4 : 1943، رقم : 2497
3. أبو يعلي المسند، 13 : 301، رقم : 301
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے :
فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّکُمَا فَأَضْلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً.
’’ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان دونوں کو پردہ کے پیچھے سے آواز دی کہ اس متبرک پانی میں سے اپنی ماں (یعنی حضرت ام سلمہ) کے لئے بھی چھوڑ دینا) پس انہوں نے ان کے لئے بھی کچھ پانی باقی رکھا۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب : غزوة الطائف، 4 : 1573، رقم : 4073
2۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے :
رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَا لًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ. . . الحديث.
’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے تھے جسے کچھ مل گیا اُس نے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة في الثياب، باب : الصلاة في الثَّوبِ الأَحْمَرِ، 1 : 147، رقم : 369
(اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب المناقب رقم : 3373 میں بھی بیان کیا ہے۔)
مذکورہ حدیث کے تحت، شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
وفي الحديث من الفوائد التماس البرکة مما لامسه الصالحون.
’’اس حدیث مبارکہ میں کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک حصولِ برکت کے لئے صالحین کے مس شدہ چیز کو ملنا ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 574
3۔ عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :
وَ إِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم کَادُوا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَي وَضُوْئِهِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایسا لگتا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کے حصول کے لئے آپس میں لڑ مریں گے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : اسْتِعْمالِ فضلِ وَضُوءِ النَّاسِ، 1 : 81، رقم : 186،
(اسے امام بخاری نے کتاب العلم رقم : 77، کتاب الاموات رقم : 3993 میں مختصراً بیان کیا ہے)
2. ابن حبان الصحيح، 11 : 221، رقم : 4872
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 329
4۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ وَ هُوَ بِالْأَبْطَحِ فِيْ قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَآءَ مِنْ آدَمٍ قَالَ فَخَرَجَ بِلَالٌ بِوَضُوْئِهِ فَمِنْ نَّآئِلٍ وَ نَاضِحٍ.
’’میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مقامِ ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں قیام فرما تھے، اس موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے پس لوگوں نے اس پانی کو مل لیا کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب : سُتْرةِ الْمُصَلّٰي، 1 : 360، رقم : 502
2. ابن حبان، الصحيح، 6 : 153، رقم : 2394
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 395، رقم : 1718
صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں :
ففيه التبرک بآثار الصالحين واستعمال فضل طهورهم وطعامهم وشرابهم ولباسهم.
’’پس اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین، ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی ان کے بچے ہوئے کھانے اور استعمال شدہ ملبوسات سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 4 : 219
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی قسمت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھا غنی کر دیا
موج بحرِ سخاوت پہ لاکھوں سلام
احمد رضا خان بريلوي، حدائق بخشش، 2 : 26
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست و بے نوا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے۔ اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں ذیل میں چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کَانَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذَا صَلَّي الْغَدَاةَ جَاءَ خَدَمُ الْمَدِيْنَةِ بِآنِيَتِهِمْ فِيْهَا الْمَاءُ، فَمَا يُؤْتَي بِإنَاءٍ إِلَّا غَمَسَ يَدَهُ فِيْهَا، فَرُبَّمَا جَاءُوْهُ فِي الْغَدَاةِ الْبَارِدَةِ فَيَغْمِسُ يَدَهْ فِيْهَا.
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدّامِ مدینہ پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے آتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات سرد موسم کی صبح بھی ایسا ہی ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ ٹھنڈے پانی والے برتنوں میں بھی ڈبو دیتے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : قرب النبي صلي
الله عليه وآله وسلم من الناس وتبرکهم به، 4 : 1812، رقم : 2324
2. عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1274
3. بيهقي، شعب الإيمان، 2 : 154، رقم : 1429
امام مسلم اس حدیث کو جس باب کے تحت لائے ہیں وہ ایمان افروز ہے جس سے ان کے اہلِ سنت و جماعت کے عقیدۂ راسخہ کا پتہ چلتا ہے۔
باب قُربِ النَّبِیّ عليه السلام مِنَ النَّاسِ وَ تَبَرُّکِهِم بِهِ.
’’لوگوں کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرب اور برکت حاصل کرنا۔‘‘
مسلم، الصحيح، 4 : 1812، رقم : 2324
اس حدیث کے تحت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وفيه التّبرّک بآثار الصّالحين وبيان ما کانت الصّحابة عليه من التّبرّک بآثاره صلي الله عليه وآله وسلم وتبرّکهم بإدخال يده الکريمة في الآنية.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثار صالحین سے تبرک کا بیان ہے اور اس چیز کا بیان کہ صحابہث کس طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار مبارکہ سے برکت حاصل کرتے تھے۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو برتن میں ڈبو کر اس سے تبرک کا بیان ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 15 : 82
2۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ فَمَسَحَ رَأْسِي وَ دَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَي خَاتَمِهِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ.
’’میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لے گئیں اور عرض گزار ہوئیں : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا پانی پیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو دونوں مبارک کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتروں کے انڈے یا حجلۂ عروسی کے جھالر جیسی تھی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الدعوات، باب : الدُّعَاءِ لِلصِّبْيَانِ بِالْبَرَکَةِ، وَمسَحِْ رَؤُوْسِهِمْ، 5 : 2337، رقم : 5991،
(اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب الوضوء، رقم : 187، کتاب المناقب، رقم : 3348 اور کتاب المرضی، رقم : 5346 میں بھی بیان کیا ہے۔ )
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : إثبات خاتَم
النُّبُوَةِ، وصفته، ومحله من جسده صلي الله عليه وآله وسلم ، 4 : 1823، رقم : 2345
3. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 157، رقم : 6682
3۔ حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
فَمَسَحَ رَأسَهُ وَقَالَ : بَارَکَ اﷲُ فِيْکَ.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر پھیرا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
4۔ دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکتیں حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوئیں اس حوالے سے حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فَرَأَيْتُ حَنْظَلَةَ يُوْتَي بِالإِنْسَانِ إِلْوَارِمِ وَجْهُهُ أَوِالْبَهِيْمَةِ الْوَارِمَةِ الضَّرْعُ فَيَتْفُلُ عَلَي يَدَيْهِ وَيَقُوْلُ : بِسْمِ اﷲِ وَيَضَعُ يَدْهُ عَلَي رَأسِهِ وَيَقُولُ عَلَي مَوْضِعِ کَفِّ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَيَمْسَحُهُ عَلَيهِ وَقَالَ ذَيَالٌ فَيَذْهَبُ الْوَرَمُ.
’’میں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا چوپائے کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر بسم اللہ پڑھتے پھر اپنا ہاتھ اپنے سر پر اس جگہ رکھتے جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس لگا تھا خاص اس جگہ کو مس کرتے۔ اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے حضرت ذیال فرماتے ہیں ان کے اس عمل سے ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
3. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 191، رقم : 2896
5۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس واقعہ کو وہ خود روایت کرتے ہیں :
قَالَ لِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ادْنُ مِنِّي، قَالَ : فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلَي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، قَالَ، ثُمَّ قَالَ : اَللّٰهُمَّ جَمِّلْهُ وَأَدِمْ جَمَالَهُ، قَالَ : فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِائَةَ سَنَةٍ، وَمَا فِي رَأسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَيَاضٌ إِلَّا نَبَذٌ يَسِيْرٌ، وَلَقَدْ کَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُهُ حَتَّي مَاتَ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو دوام بخش دے۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادمِ آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 77
2. عسقلانی، الإصابة، 4 : 599، رقم : 5763
6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
أَتَيْتُ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم بِتَمَرَاتٍ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ ادْعُ اﷲَ فِيْهِنَّ بِالبَرَکَةِ فَضَمَّهُنَّ ثُمَّ دَعَا لِي فِيْهِنَّ بِالْبَرَکَةِ. فَقَالَ لِي : خُذْهُنَّ وَاجْعَلْهُنَّ فِي مِزْوَدِکَ هَذَا أَوْ فِي هَذَا المِزْوَدِ، کُلَّمَا أَرَدْتَ أَنْ تَأخُذَ مِنْهُ شَيْئًا فَأَدْخِلْ فِيْهِ يَدَکَ فَخُذْهُ وَلَا تَنْثُرْهُ نَثْرًا، فَقَدْ حَجَلْتُ مِنْ ذٰلِکَ التَمْرِ کَذَا وَکَذَا مِنْ وَسْقٍ فِي سَبِيْلِ اﷲ، فَکُنَّا نَأکُلُ مِنْهُ وَ نُطْعِمُ، وَ کَانَ لَا يُفَارِقُ حِقْوِي حَتَّي کَانَ يَوْمُ قَتْلِ عُثْمَانَ فَإِنَّهُ انْقَطَعَ.
’’میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ کھجوریں لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ سے ان کھجوروں میں برکت کے لئے دعا فرمائیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اکٹھا کیا پھر میرے لئے ان میں برکت کی دعا فرمائی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا انہیں لے لو اور اپنے اس توشہ دان میں بکھیر دو۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) میں نے ان میں سے اتنے اتنے وسق کھجوریں اللہ کے راستے میں خرچ کیں، ہم خود اس سے کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ وہ توشہ دان کبھی بھی میری کمر سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ جس دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو وہ توشہ دان بھی ٹوٹ گیا۔‘‘
1. ترمذي، السنن، أبواب المناقب، باب : مناقب أبي هريرة رضي الله عنه، 5 : 685، رقم
: 3839
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 352
3. ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم : 6532
7۔ بیہقی، ابو نعیم، ابنِ سعد، ابنِ عساکر اور زرقانی نے اس طرح کا ایک واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیا ہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :
اُدْعُ عَشَرَةً، فدعوت عشرةً فأکلوا حتٰي شبعوا ثم کذالک حتٰي أکل الجيش کله وبقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فأدخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها وأکلت منه حياة عمر کلها وأکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان انتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.
’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے دس افراد بلائے۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور پھر بھی کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حتی کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ میں تمہیں کیا بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کتنی کھجوریں کھائی ہوں گی؟ کم و بیش دو سو وسق سے زیادہ۔‘‘
1. ابن کثير، البداية والنهاية، 6 : 117
2. اسحاق بن راهويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
3. بيهقي، الخصائص الکبري، 2 : 85
4. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 631
یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔
جس پتھر پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام قدم مبارک رکھ کر کعبہ تعمیر کرتے رہے وہ آج بھی صحنِ کعبہ میں مقامِ ابراہیم کے اندر محفوظ ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے لگنے سے وہ پتھر نرم ہوگیا اور اُن قدموں کے نقوش اُس پر ثبت ہو گئے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کو بھی یہ معجزہ عطا فرمایا کہ اُن کی وجہ سے پتھر نرم ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدومِ مبارک کے نشان بعض پتھروں پر آج تک محفوظ ہیں۔
1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَنّ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ إذَا مَشَي عَلَي الصَّخر غَاصَتْ قَدَمَاهُ فِيْهِ وَأَثرت.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب پتھروں پر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں مبارک کے نیچے وہ نرم ہو جاتے اور قدم مبارک کے نشان اُن پر لگ جاتے۔‘‘
1. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 482
2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 27، رقم : 9
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین شریفین بڑے ہی بابرکت اور منبعِ فیوضات و برکات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدم مبارک اگر کسی سست رفتار کمزور جانور کو لگ جاتے تو وہ تیز رفتار ہو جاتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آکر اپنی اُونٹنی کی سست رفتاری کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه لَقَدْ رَأَيْتُهَا تسبق القَائِد.
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اس کے بعد وہ ایسی تیز ہو گئی کہ کسی کو آگے بڑھنے نہ دیتی۔‘‘
1. أبو عوانة، المسند، 3 : 45، رقم : 4145
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 7 : 235، رقم : 14132
3. حاکم، المستدرک، 2 : 193، رقم : 2729
3۔ غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک قدموں کی برکت سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اُونٹ بھی تیز رفتار ہو گیا تھا۔ حدیث پاک میں ہے :
فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَ دَعَا لَهُ، فَسَارَ سَيْراً لَمْ يَسْرِمِثْلَهُ.
’’پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پائے مبارک سے اُسے ٹھوکر لگائی اور ساتھ ہی دُعا فرمائی، پس وہ اتنا تیز رفتار ہوا کہ پہلے کبھی نہ تھا۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 299
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساقاة، باب : بيع البعير واستثناء رکوبه، 3 : 1221، رقم :
715
3. نسائي، السنن، کتاب البيوع، باب : البيع يکون فيه الشرطُ فَيَصِحُّ البيعُ
والشرطُ، 7 : 297، رقم : 4637
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیوض و برکات بالخصوص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا سے جو فائدہ ملتا اسے خاص الفاظ برکت کے ساتھ منسوب کرتے ہوئے کبھی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذہنوں میں یہ بات نہ آتی تھی کہ برکت تو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ معاذ اللہ کہیں خلاف توحید نہیں بلکہ اپنے قول و عمل سے اس چیز کا برملا اظہار ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے فلاں فائدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے اس صحابی سے اونٹ کے بارے میں دریافت کیا کہ اب تیرے اُونٹ کا کیا حال ہے تو اُنہوں نے عرض کیا :
بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَکَتُکَ.
’’بالکل ٹھیک ہے، اُسے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی برکت حاصل ہو گئی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب : استئْذان الرجل الإمام، 3 : 1083، رقم
: 2805
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساقاة، باب : بيع البعير واستثناء رکوبه، 3 : 1221، رقم :
715
3. أبو عوانه، المسند، 3 : 249، رقم : 4843
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برکات کو حاصل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دیتے تھے۔ جس چیز کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہو جاتی اسے وہ دنیا و مافیہا سے عزیز تر جانتے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اپنے عمل سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اندر یہ شعور بیدار کر دیا تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کو محفوظ رکھتے اور ان کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔
1۔ امام ابنِ سیرین رحمۃ اﷲ علیہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَمَّا حَلَقَ رَأسَهُ، کَانَ أَبُوْ طَلْحَةَ أَوَّلَ مَنْ أَخَذَ مِنْ شَعْرِهِ.
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر مبارک منڈوایا تو حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک حاصل کئے۔‘‘
بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعر الإنسان، 1 : 75، رقم : 169
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک، وضو کے مبارک پانی سے، لعاب دہن، پسینہ مبارک سے اور جن جن چیزوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مس کیا ہوتا ان سے برکت حاصل کرتے۔
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَتَي مِنًي فَأَتَي الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَي مَنْزِلَهُ بِمِنًي وَ نَحَرَ ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ خُذْ. وَ أَشَارَ إِلَي جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ ثُمَّ الْأَيْسَرِ ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيْهِ النَّاسَ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب منیٰ تشریف لائے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور وہاں کنکریاں ماریں، پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے وہاں قربانی کی اور حجام سے سر مونڈنے کو کہا اور اسی کو دائیں جانب کی طرف اشارہ کیا پھر بائیں جانب اشارہ کیا پھر اپنے مبارک بال لوگوں کو عطا فرمائے۔‘‘
مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر، 2 : 947، رقم : 1305
علامہ شوکانی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :
قوله ثم جعل يعطيه للناس فيه مشروعية التّبرّک بشعر أهل الفضل ونحوه.
’’اس روایت میں صاحبِ فضل شخصیات کے بال اور اس طرح ان کی دیگر اشیاء سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
1. شوکاني، نيل الأوطار، 5، 128
2. شمس الحق عظيم آبادي، عون المعبود، 5 : 317
3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
لَمَّا رَمَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْجَمْرَةَ وَ نَحَرَ نُسُکَهُ وَحَلَقَ نَاوَلَ الْحَالِقُ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ فَأَعْطَاهُ إِيَاهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ، فَقَالَ : احْلِقْ. فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ : اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ.
’’جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقامِ جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرِ انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا۔ اس نے بال مبارک مونڈ دیئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ موئے مبارک عطا کئے، اِس کے بعد حجام کے سامنے بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا کئے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔‘‘
1. مسلم الصحيح، کتاب الحج، باب : بيان أن السنة يوم
النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 : 948، رقم : 1305
2. ترمذي، السنن، کتاب الحج عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء بأي
جانب الرأس يبدأ في الحلق، 3 : 255، رقم : 912
3. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب : الحلق والتقصير، 2 : 203، رقم : 1981
امام ابنِ حجر عسقلانی نے اسی حدیث کو فتح الباری شرح صحیح البخاری میں بحوالہ مسلم ذکر کرکے لکھا ہے کہ وفیہ التبرک بشعرہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ’’اس حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 274
4۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَالْحَلاَّقُ يَحْلِقُهُ وَأَطَافَ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَمَا يُرِيْدُوْنَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلَّا فِي يَدِ رَجُلٍ.
’’میں نے دیکھا : حجام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ اقدس کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گرد گھوم رہے تھے اور ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش تھی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی ایک بال مبارک بھی زمین پر گرنے نہ پائے۔ بلکہ ان میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں آ جائے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : قرب النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الناس
وتبرکهم به، 4 : 1812، رقم : 2325
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 133، 137، رقم : 12423
3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 380، رقم : 1273
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ منیٰ میں حضرت عبداﷲ بن زید کو اپنے موئے مبارک اور ناخن کٹوا کر عطا فرمائے جن کو انہوں نے بطورِ تبرک سنبھال کر رکھا۔ ان کے صاحبزادے حضرت محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں :
فَحَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم رَأسَهُ فِي ثَوْبِهِ فَأَعْطَاهُ فَقَسَمَ مِنْهُ عَلَي رِجَالٍ وَ قَلَّمَ أَظْفَارَهُ فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر میں اپنا سر اقدس منڈوایا اور بال انہیں عطا کر دیئے جس میں سے کچھ انہوں نے لوگوں میں تقسیم کردیئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناخن مبارک کٹوائے اور وہ انہیں اور ان کے ساتھی کو عطا کر دیئے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 42
2. حاکم، المستدرک، 1 : 648، رقم : 1744
امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، (4 : 19) میں لکھا ہے کہ اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں۔
3. شوکاني، نيل الأوطار، 1 : 69
مستند احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیماروں کو دم فرماتے اور اپنا مبارک لعابِ دہن اپنی انگشتِ شہادت سے زمین پر ملتے اور اسے منجمد کر کے بیمار شخص کی تکلیف کی جگہ پر ملتے اور اﷲ تعالیٰ سے اس کی شفایابی کی دعا فرماتے۔
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ جب کسی انسان کو تکلیف ہوتی یا کوئی زخم ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعابِ دہن مٹی کے ساتھ ملا کر لگاتے اور اس کی شفایابی کے لئے یہ مبارک الفاظ دہراتے :
بِسم اﷲِ، تُرْبَةُ أَرضِنَا، بِرِيْقَةِ بَعْضِنَا، يُشفَی سَقِيْمُنا، بِإذْنِ رَبِّنَا.
’’اللہ کے نام سے شفا طلب کر رہا ہوں، ہماری زمین کی مٹی اور ہم میں سے بعض کا لعاب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا دیتا ہے۔‘‘
حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
1. بخاري، الصحيح، کتاب الطب، باب : رقية النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، 5 :
2168، رقم : 5413
2. مسلم، الصحيح، کتاب السلام، باب : استحباب الرقية من العين، 4 : 1724، رقم :
2194
3. أبوداود، السنن، کتاب الطب، باب : کيف الرقي، 4 : 12، رقم : 3895
4. ابن ماجه، السنن، کتاب الطب، باب : ما عَوَّذ به النبي صلي الله عليه وآله وسلم
وما عُوِّذَ بِه، 2 : 1163، رقم : 3521
5. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 93، رقم : 24661
وانّما هذا من باب التّبرّک بأسماء اﷲ تعالي وآثار رسوله صلي الله عليه وآله وسلم .
’’بیشک اس حدیث کا تعلق ان احادیثِ مبارکہ سے ہے جس میں اسماءِ الٰہی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار سے تبرک ثابت ہے۔‘‘
ابن حجر، عسقلاني، فتح الباري، 10 : 208
امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بھی لکھا ہے :
ثم أن الرقي والعزائم لها آثار عجيبة تتقاعد العقول.
’’پھر دم اور اسماءِ مبارکہ وغیرہ کے اثرات اس قدر حیران کن ہیں جن کی حقیقت سے عقل ماؤف ہو جاتی ہے۔‘‘
ابن حجر، عسقلاني، فتح الباري، 10 : 208
مستند ترین کتبِ احادیث میں یہ مثالیں بھی بکثرت ہیں کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اسے گھٹّی دلوانے اور اس کا نام رکھوانے کے لیے بارگاہِ رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس نومولود کے منہ میں اپنا مبارک لعابِ دہن ڈالتے اور یوں اس بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے جو چیز پہنچتی وہ تاجدارِ کائنات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک لعابِ دہن ہوتا۔
1۔ حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما بیان کرتی ہیں :
أَنَّهَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَتْ : فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَيْتُ الْمَدِيْنَةَ فَنَزَلْتُ بِقُبَاءٍ، فَوَلَدْتُهُ بِقُبَاءٍ، ثُمَّ أَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم فَوَضَعْتُهُ فِيْ حِجْرِهِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَةٍ، فَمَضَغَهَا، ثُمَّ تَفَل فِي فِيْهِ، فَکَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ دَخَلَ جَوْفَهُ رِيْقُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ حَنَّکَهُ بِتَمَرَةٍ، ثُمَّ دَعَا لَهُ وَبَرَّکَ عَلَيْهِ.
’’وہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاملہ تھیں۔ انہوں نے کہا : میں مکہ سے (ہجرت کے لئے) اس حالت میں نکلی کہ میرے وضع حمل کے دن پورے تھے میں مدینہ آئی اور قبا میں ٹھہری اور وہیں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئی۔ میں نے اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچے کے منہ میں لعابِ دہن ڈال دیا پس جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لعاب مبارک تھا۔ پھر اس کے تالو میں کھجور لگا دی، اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : هجرة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأصحابه إلي المدينة، 3 : 1422، رقم : 3697
(امام بخاری نے کتاب العقیقۃ، رقم : 5152 میں بھی اسی روایت کو بیان کیا ہے۔ )
2. مسلم، الصحيح، کتاب الآداب، باب : استجاب تحنيک للولود عند ولادته وحمله الي
صالح يحنکه، 3 : 1691، رقم : 2146
3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 347، رقم : 26983
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
ذَهَبْتُ بِعَبْدِ اﷲِ بْنِ أبِی طَلْحَةَ الْأَنْصَارِیِّ إلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حِيْنَ وُلِدَ، وَرَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَبَاءَ ةٍ يَهْنَأُ بَعِيْرًا لَهُ فَقَالَ : هَلْ مَعَکَ تَمْرٌ؟ فَقُلْتُ : نَعَمْ، فَنَاوَلْتُهُ تَمَرَاتٍ، فَأَلْقَاهُنَّ فِيْ فِيْهِ فَلَاکَهُنَّ، ثُمَّ فَغَرَفَا الصَّبِيّ فَمَجَّهُ فِي فِيْهِ، فَجَعَلَ الصَّبِيُ يَتَلَمَّظُهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : حُبُّ الْأَنْصَارِ التَّمْرَ. وَسَمَّاهُ عَبْدَ اﷲِ.
’’جب حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تو میں ان کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک چادر اوڑھے اپنے اونٹ کو روغن مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کھجوریں ہیں؟ میں نے عرض کیا : جی ہاں۔ پھر میں نے کچھ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اپنے منہ میں ڈال کر چبائیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچے کا منہ کھول کر اسے بچے کے منہ میں ڈال دیا اور بچہ اسے چوسنے لگا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انصار کو کھجوروں سے محبت ہے۔ اور اس بچے کا نام عبداللہ رکھا۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الأداب، باب : استحباب تحنيک للولود عند ولادته وحمله إلي
صالح يحنکه، 3 : 1689، رقم : 2144
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب : في تفسير الأسماء، 4 : 288، رقم : 4951
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 175، 212، 287، رقم : 12812، 13233، 14097
مذکورہ احادیث کے لیے امام مسلم نے عنوان باندھا ہے : باب اسْتِحْبَابِ تحْنِيْک الْمَوْلُوْدِ عِنْدَ وِلَادَتِه وَحَمْلِهِ إِلَی صَالِح يُحَنِّکُهُ یعنی ’’بچے کو پیدائش کے وقت گھٹی دینے اور کسی صالح شخص کی بارگاہ میں لے جا کر گھٹی دلوانے کا بیان۔‘‘ باب کے اس عنوان سے امام مسلم کا صحیح عقیدہ اور نظریہ معلوم ہو گیا کہ وہ صالحین سے تبرک کے قائل ہیں کیونکہ اس عنوان کے تحت اصلاً تو وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لا رہے ہیں۔ مگر جب عنوان قائم کیا تو عمومی رکھا اور صحیح عقیدے کی وضاحت بھی کر دی شارحینِ حدیث نے بھی اس حدیث سے آثار صالحین سے تبرک کا جواز ثابت کیا ہے۔
شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت لکھتے ہیں :
وفي هذا الحديث فوائد، منها : تحنيک المولود عند ولادته وهو سنة بالإجماع کما سبق. ومنها : أن يحنکه صالح من رجل أو امرأة ومنها التبرک بآثار الصالحين وريفهم وکل شئ منهم.
’’اس حدیث سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں جس میں سے ایک یہ ہے کہ نومولود بچے کو ولادت کے بعد گھٹی دی جائے اور مسئلہ اجماع سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوا۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ کسی صالح مرد یا صالح خاتون سے اس نومولود کو گھٹی دلوانی چاہیے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آثارِ صالحین ان کا لعاب اور ان سے منسوب ہر چیز سے تبرک حاصل کرنا ثابت اور جائز ہے۔‘‘
نووي، شرح النووي علي صحيح مسلم، 14 : 124
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر سے ہمیشہ پاکیزہ خوشبو آتی تھی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس خوشبو کو مشک و عنبر اور پھول کی خوشبو سے بڑھ کر پایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے، اور شادی بیاہ کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پسینہ مبارک کو حاصل کرتے، اس سے برکت کی امید رکھتے اور بڑے اہتمام کے ساتھ اس متاعِ عزیز کو سنبھال کر رکھتے۔
1۔ حضرت ثمامہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے چمڑے کا ایک گدا بچھایا کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہاں اسی گدے پر قیلولہ فرمایا کرتے تھے۔ (حضرت انس رضی اللہ عنہ کا) بیان ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سونے سے بیدار ہوتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک اور موئے مبارک کو ایک شیشی میں جمع کرتیں پھر ان کو خوشبو کے برتن میں ڈال دیتیں۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا۔ میری والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ پونچھ پونچھ کر ایک شیشی میں ڈالنے لگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، مَا هَذَا الَّذِی تَصْنَعِيْنَ؟ قَالَتْ : هَذَا عَرَقُکَ نَجْعَلُهُ فِی طِيْبِنَا وَهُوَ مِنْ أَطْيَبِ الطَيْبِ.
’’اے ام سلیم! تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ ہے جس کو ہم اپنی خوشبو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوشبو ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : طيب عرق النبي صلي الله عليه وآله وسلم
والتبرک به، 4 : 1815، رقم : 2331
2. نسائي، السنن، کتاب الزينة، باب : ماجاء في الأنطاع، 8 : 218، رقم : 5371
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 136، 287، رقم : 12419، 14091
امام ابنِ حجر عسقلانی نے اس کا ذکر کر کے ان کی تشریح میں لکھا ہے :
ويستفاد من هذه الروايات اطّلاع النبي صلي الله عليه وآله وسلم علي فعل أم سليم وتصويب.
’’اس طرح کی احادیث سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ام سلیم کے عمل پر مطلع ہونا اور اسے درست قرار دینا ثابت ہوتا ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 11 : 72
2۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے گئے اور وہیں آرام فرمایا جب وہ باہر سے آئیں تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے جو چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر ایک بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فَفَزِعَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : مَا تَصْنَعِيْنَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! نَرْجُو بَرَکَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ : أَصَبْتِ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہم اس سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب : طيب عرق النبي صلي الله عليه وآله وسلم ،
والتبرک به، 4 : 1815، رقم : 2331
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 221، رقم : (1334 : 1339)
امام مسلم نے ان روایات کو جمع کرکے باب کا جو عنوان رکھا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ تبرک کے باب میں ان کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعینِ عظام کا تھا۔ عنوان ہے : باب طِيْبِ عَرَقِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والتَّبَرُّکِ بِہ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پسینہ کی خوشبو اور اس سے برکت حاصل کرنا۔‘‘
1۔ مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اﷲ عنھما کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اُوپر کفن لپیٹ دیں.
1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
3. أبونعيم، حلية الاولياء وطبقات الأصفياء، 3 : 121
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں۔
2۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا وصال فرما گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا :
اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذٰلِکَ بِمَآءٍ وَ سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْاٰخِرَةِ کَافُوْرًا اَوْ شَيْئًا مِنْ کَافُوْرٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَاٰذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا اٰذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ.
’’اس کو تین یا پانچ دفعہ یا اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بار بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخر میں کچھ کافور رکھ دینا۔ جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا۔ (وہ فرماتی ہیں) جب ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک چادر عنایت فرمائی اور فرمایا : اس کو کفن کے نیچے پہنانا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : غسل الميت و وضوئه بالماء والسدر، 1 : 422،
رقم : 1195
2. مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : نهي النساء عن اتباع الجنائز، 2 : 646، رقم :
939
اس حدیثِ مبارکہ کو بھی ائمہ و محدّثین نے تبرک بالصالحین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ چند اکابر ائمہ حدیث کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :
1۔ امام ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کو تبرکِ صالحین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهو أصل فی التّبرّک بآثار الصّالحين.
’’یہ حدیثِ پاک آثار صالحین سے تبرک کے ثبوت میں اصل ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 3 : 29، 130
2۔ شارح صحیح مسلم امام نووی نے بھی اس حدیث سے تبرک کا استنباط کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
ففيه التّبرّک بآثار الصّالحين ولباسهم.
’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین اور ان کے استعمال شدہ کپڑوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
نووي، شرح صحيح مسلم، 7 : 3
3۔ علامہ شوکانی نے امام ابنِ حجر عسقلانی کے اِستنباط پر اعتماد کرتے ہوئے انہی کے الفاظ کہ وہو اصل فی التّبرّک بآثار الصّالحین کو نقل کیا ہے۔
شوکاني، نيل الأوطار، 4 : 64
3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إِنِّی وَاﷲِ مَاسَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهَا، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَکُوْنَ کَفَنِی. قَالَ سَهْلٌ : فَکَانَتْ کَفَنَهُ.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : من استعد الکفن في زمن النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم ينکر عليه، 1 : 429، رقم : 1218
(اسی روایت کو امام بخاری نے کتاب البیوع، رقم : 1987، کتاب اللباس، رقم : 5473 اور کتاب الادب، رقم : 5689 میں بھی بیان کیا ہے۔)
2. ابن ماجه، السنن، کتاب اللباس، باب : لباس رسول اﷲ
صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1177، رقم : 3555
3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
یعنی اس خوش بخت صحابی رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک چادر میں کفن دے کر دفنایا گیا۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کے فوائد بیان کیے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے :
وفيه التّبرّک بآثار الصّالحين.
’’اور اس حدیث مبارکہ میں آثار صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3 : 144
4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
1. ابن اثير، أسد الغابة، 3 : 262
2. عسقلاني، الإصابه في تمييز الصّحابة، 4 : 111، رقم : 4715
5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘
1. ابن اثير، أسد الغابة، 3 : 207
2. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 884، رقم : 1496
3. عسقلاني، الإصابه في تمييز الصحابة، 4 : 47، رقم : 4605
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 48
6۔ حضرت عبداﷲ بن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قمیص مبارک میں دفن کیا۔ امام ابنِ حجر عسقلانی الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں بیان کرتے ہیں :
دفنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم في قميصه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی قمیص مبارک میں دفن کیا۔‘‘
عسقلاني، الإصابة في تمييز الصّحابة، 4 : 29، رقم : 4575
ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لباس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی۔ نہ صرف دنیا میں لوگ اس کے اثر سے فیض یاب ہوتے رہے بلکہ بعد از وفات بھی اس کی برکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور پہنچتا رہے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لباس زیب تن فرمایا، نسبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہ بھی عام کپڑا تھا مگر جسدِ اطہر کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے وہ مشرف و متبرک ہوگیا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خواہش رکھتے تھے کہ انہیں کفن کے لئے کوئی ایسا کپڑا میسر آئے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہو۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ایسے با برکت کپڑے عنایت فرما کر خود اپنے عمل سے اُمت کے لیے یہ سنت عطا فرمائی کہ تبرکات صالحین سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع ہے۔
حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب میں گستاخِ رسول سفیان بن خالد الھذلی کو واصل جہنم کر کے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا چہرہ فلاح پائے۔ وہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس (خالد بن سفیان بن ھذلی) کو قتل کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو نے سچ کہا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور اپنے کاشانۂ اقدس میں تشریف لے گئے اور مجھے عصا عطا کیا اور فرمایا : اے عبداللہ بن انیس! اسے اپنے پاس رکھ، پس جب میں یہ عصاء لے کر لوگوں کے سامنے نکلا توانہوں نے کہا کہ یہ عصا (ڈنڈا) کیا ہے؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا : یہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ اسے پاس رکھو۔ لوگوں نے مجھ سے پوچھا : تم اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس نہیں کرو گے؟ عبداللہ بن انیس کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اﷲ علیک وسلم! یہ عصا مبارک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کس لیے عطا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
آيَةٌ بَيْنِی وَ بَيْنَکَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَنَّ أَقَلَّ النَّاسِ الْمُتَخَصِّرُوْنَ يَوْمَئِذٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَقَرَنَهَا عَبْدُاﷲِ بِسَيْفِهِ فَلَمْ تَزَلْ مَعَهُ حَتَّی إِذَا مَاتَ، أَمَرَ بِهَا فَصُبَّتْ مَعَهَ فِی کَفَنِهِ ثُمَّ دُفِنَا جَمِيْعاً.
’’قیامت کے روز یہ تیرے اور میرے درمیان ایک نشانی ہوگی کہ جس دن بہت کم لوگ کسی کے ساتھ تعاون کرنے والے ہوں گے۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) حضرت عبداﷲ بن انیس نے اس عصا کو اپنی تلوار کے ساتھ باندھ لیا اور وہ ہمیشہ ان کے پاس رہتا یہاں تک کہ ان کا وصال ہوگیا۔ انہوں نے عصا کے متعلق وصیت کی تھی کہ اس کو ان کے کفن میں رکھ دیا جائے اور پھر اسے ان کے ساتھ یکجا دفن کر دیا جائے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 496
2. أبو يعلي، المسند، 2 : 202، رقم : 905
3. بيهقي، السنن الکبري، 3 : 256، رقم : 5820
1۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مبارک دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصولِ خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا جیسا کہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنھا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَيْهَا، وَ عِنْدَهَا قِرْبَةٌ مُعَلَّقَةٌ فَشَربَ مِنْهَا وَ هُوَ قَائِمٌ، فَقَطَعَتْ فَمَ الْقِرْبَةِ تَبْتَغِي بَرَکَةَ مَوْضِعَ فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم .
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پانی پیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما تھے، اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے مشکیزے کا منہ حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الأشربة، باب : الشرب قائمآ، 2
: 1132، رقم : 3423
2. ترمذي، السنن، کتاب الأشربة، باب : ما جاء في الرخصة في ذلک، 4 : 306، رقم :
1892
3. ابن حبان، الصحيح، 12 : 138، رقم : 5318
ابن ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے جبکہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔
2۔ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی والدہ محترمہ کا معمول بیان فرماتے ہیں :
أَنَّ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلَي أُمِّ سُلَيْمٍ، وَ فِي الْبَيْتِ قِرْبَةٌ مَعَلَّقَةٌ، فَشَرِبَ مِنْ فِيْهَا وَ هُوَ قَائِمٌ، قَالَ : فَقَطَعَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ فَمَ الْقِرْبَةِ فَهُوَ عِنْدَناَ.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے کھڑے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نے (تبرکاً) اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 119، رقم : 12209
2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 431، رقم : 27468
3. ترمذي، الشمائل المحمدية، باب : صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 :
177، رقم : 215
ان دونوں صحابیات نے مشکیزے کے ٹکڑوں کو اس لئے محفوظ کیا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھا جس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے یعنی محض دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث بن گئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب کسی بھی شے کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرتے اور حتی المقدور اسے ضائع نہ ہونے دیتے حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو دینار بطورِ معاوضہ کسی صحابی کو دیئے تو انہوں نے انہیں بھی باعث خیر و برکت سمجھ کر سنبھال کر رکھے اور آگے خرچ نہیں کئے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں : میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ ایک سست اونٹ پر سوار ہونے کی وجہ سے سب سے پیچھے رہتا تھا۔ جب میرے پاس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے تو پوچھا : کون ہے؟ میں نے عرض کیا : جابر بن عبداللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا : میں ایک سُست اونٹ پر سوار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چھڑی طلب فرمائی تو میں نے چھڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اونٹ کو مارا اور ڈانٹا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے وہی اونٹ سب سے آگے بڑھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے اونٹ کو خریدنا چاہا تو میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! یہ آپ ہی کا ہے، یہ بلا معاوضہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خریدنے پر اصرار کیا اور فرمایا کہ میں نے چار دینار کے عوض اسے تم سے خرید لیا ہے اور مجھے مدینہ منورہ تک اس پر سواری کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ جب ہم مدینہ منورہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يا بلال، اقضِه و زِدهُ.
’’اے بلال! (جابر کو) اس کی قیمت دو اور اس میں اضافہ بھی کرو۔‘‘
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو چار دینار اور ایک قیراط سونا اضافی طور پر دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
لاَ تُفارِقُنِی زِيَادَةُ رَسُولِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. فَلَمْ يَکُنِ الْقِيْرَاطُ يُفارِقُ جِرَابَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ.
’’اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا (ایک قیراط) اضافی سونا مجھ سے کبھی جدا نہ ہوتا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) اور (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عطا کردہ) وہ ایک قیراط (سونا) جابر بن عبداللہ کی تھیلی میں ہمیشہ رہا، کبھی جدا نہ ہوا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الوکالة، باب : إذا وکل رجل رجلاً ان يعطي شيئًا، 2 : 810،
رقم : 2185
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساقاة، باب : من استلف شيئًا فقضي خيراً منه، 3 : 1222،
رقم : 1600
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 314، رقم : 14416
درجِ بالا چودہ موضوعات کے تحت کثیر احادیثِ مبارکہ سے درج ذیل اہم علمی اور اعتقادی نکات ثابت ہوئے :
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved