کسی چیز سے برکت حاصل کرنے کے عمل کو لغتًا (تَفَعُّل کے وزن پر) تَبَرُّک کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ لفظ غلط العام ہے اور اسم کے طور پر اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو پاکیزہ ہو اور کسی بزرگ شخصیت یا مقدس مقام سے منسوب ہو۔ برکت اور فیض دو ایسے الفاظ ہیں جن کی تفہیم اس ماری دنیا اور اس کے موجودہ سیاسی، معاشی، ثقافتی اور تہذیبی پس منظر میں خاصی دور از افکار محسوس ہوتی ہے۔ یہ دراصل ایسی کیفیات ہیں جنہیں چھوا اور دیکھا نہیں جاسکتا صرف احساس و شعور کی لطیف پنہائیوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان میں کمی بیشی کا تعلق کسی علم اور میزان کے ساتھ نہیں بلکہ صرف اور صرف وجدان اور ایمان کے ساتھ منسلک ہے۔
اللہ عزوجل جو قادر و قیوم اور تمام برکتوں کا مالک ہے اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف دنیا جہاں کی برکتوں سے نوازا بلکہ جو چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب ہوئیں وہ بھی بابرکت ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار کو بطورِ تبرک محفوظ رکھنا اور ان سے برکت حاصل کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعینِ عظام کا معمول تھا۔ دورِ صحابہ و تابعین کے بعد نسل در نسل ہر زمانے میں اکابر ائمہ و مشائخ کے علاوہ خلفاء و سلاطین بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و تبرکات کی حفاظت کا بڑے ادب و احترام کے ساتھ خصوصی اہتمام کرتے رہے۔ کتبِ تواریخ و سیر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خاص مواقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ مسلمانوں کو ان تبرکات کی زیارت کروائی جاتی تھی۔ آج بھی اہلِ محبت ان تبرکاتِ مقدسہ کو حصولِ فیض و برکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور ان کی حرمت کے تحفظ کے لئے جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ’’تبرک‘‘ کی اسی حیثیت کو قرآن و حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے آثار و احوال کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اَنبیاء اور صالحین علیہم السلام سے منسوب چیزیں بڑی با برکت اور فیض رساں ہوتی ہیں۔ نصوصِ شرعیہ سے ائمہِ حدیث و تفسیر نے آثارِ رسول، انبیاء اور صالحین علی نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام سے حصولِ برکت کا شرعی جواز قوی دلائل سے ثابت کیا ہے۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ کسی چیز کے اندر خیر و برکت کا ہونا ہرگز بھی منافیء توحید نہیں۔ کوئی بھی مؤمن جب کسی چیز سے برکت حاصل کرتا ہے تو عقیدہ صحیحہ کے مطابق وہ مؤثرِ حقیقی اس ذاتِ وحدہ لا شریک اللہ رب العزت کو مانتا ہے جس کے قبضۂ قدرت میں تمام سعادتیں اور برکتیں ہیں۔ وہی ذات جب کسی کو برکت سے نواز دیتی ہے تو پھر وہ شخصیت ہو یا کوئی جگہ یا کوئی شئے سب بابرکت اور مبارک ہو جاتی ہیں۔ کسی کو منبعِ فیوض و برکات اور باسعادت بنانے کا اختیار اسی کے پاس ہے۔
فی زمانہ جہاں بعض اساسی ایمانی اور سادہ شرعی اعمال افراط و تفریط کا شکار ہوچکے ہیں وہاں حصولِ فیض اور حصول برکت کی مختلف شکلیں بھی ہمارے ہاں متنازعہ ہوچکی ہیں۔ مذہبی حلقوں میں شرک کا لفظ اتنا عام ہوگیا ہے کہ اس کے دائرے سے شاید ہی کسی کلمہ گو کا عمل خالی تصور کیا جاتا ہو۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی سوچ کا حامل رویہ ہے جس نے شرق تا غرب مسلمانوں میں باہمی موانست کی بجائے نفرت و کدورت کے اثرات کو جنم دیا ہے۔ اس ناپسندیدہ صورتحال کی شدت میں کمی پیدا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ایسے تمام تصورات اور احکامات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تاکہ حقیقت حال سمجھنے میں آسانی ہو اور کفر و شرک کے فتوؤں کا دائرہ سکیڑا جاسکے۔ نیز باہمی افتراق و انتشار کی فضاء ختم کرکے مسلمانوں کو اپنے حقیقی مسائل سے نبٹنے کا شعور پیدا ہو۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کی ان مجددانہ مساعی کے اثرات الحمد للہ وطن عزیز کی فضاؤں سے نکل کر دنیا بھر کے مسلمانوں تک پہنچنا شروع ہوگئے ہیں۔ تبرک کی شرعی حیثیت سمیت ’’سلسلۂ عقیدۂ توحید‘‘کی اشاعت بھی اسی کامیاب علمی کاوش کا ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں تصورات دین کے صحیح فہم سے نوازے اور عالم اسلام کے لئے باہم متحد و متفق ہو کر اظہار دین کے مواقع پیدا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
(ڈاکٹر علی اَکبر قادری)
ڈائریکٹر، فریدِ ملّت رحمۃ اللہ علیہ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved