جیسا کہ گذشتہ ابواب میں ہم بارہا ذکر کر چکے ہیں کہ اس وقت ملک عزیز پاکستان جس المناک صورت حال سے دوچار ہے اس نے ہر حساس دل کو بے چین اور ہر دردمند انسان کو پریشان کر رکھا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے بچوں، عورتوں، ناتواں بوڑھوں اور مستقبل کے معمار نوجوانوں کا خون جس بے دردی سے بہایا جا رہا ہے اور نجی و قومی املاک کو جس وحشت و بربریت کے ساتھ تباہ کیا جا رہا ہے، اس نے چنگیز اور ہلاکو کے مظالم کی داستانیں بھی بھلا دی ہیں۔
موجودہ قتل و غارت گری کو نہ تو جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے اور نہ جہاد کا کیونکہ نہ صرف اسلام نے بلکہ آج کی متمدن دنیا نے بھی جنگ کے کچھ اصول وضع کر رکھے ہیں جن میں سفاکی، بربریت اور پُرامن شہریوں پر اندھی بم باری کی قطعاً گنجائش نہیں، جب کہ اسلام نے تو جہاد کے ایسے زرّیں اصولوں سے دنیا کو روشناس کرایا ہے جن کی نظیر پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ وہ کیسے انسان ہیں جن کے دل انسانیت سے یکسر خالی ہو چکے ہیں اور انہیں کسی بین الاقوامی اصول اور قانون کی پروا نہیں رہی! یہ کیسے مسلمان ہیں جو نہ صرف اسلامی جہاد کی شرائط اور ضابطوں بلکہ اسلام کی جمیع تعلیمات کو پامال کرتے اور مسلمانوں و دیگر انسانوں کا خون بے دریغ بہاتے جا رہے ہیں لیکن خود کو ’’مسلمان مجاہد‘‘ کہلوانے پر مصر ہیں۔
موجودہ حالات میں اہلِ وطن چکی کے دو پاٹوں میں پِس رہے ہیں۔ ایک طرف یہ انتہا پسند دہشت گرد ہیں جو مخالفین کا خون مباح قرار دے چکے ہیں۔ مساجد کو شہید کرنے، نمازیوں کے خون سے مساجد کے در و دیوار رنگنے، مزارات کی بے حرمتی کرنے اور انہیں شرک کے اڈے قرار دے کر مسمار کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کے باعث سرکاری اسکولوں کو غیر اسلامی تعلیم کے مراکز قرار دے کر انہیں گرانے اور اساتذہ کو قتل کرنے میں لگے ہیں۔ 2006ء سے 2009ء تک سیکڑوں اساتذہ اور طلباء کو قتل کر دیا گیا اور سیکڑوں سکولوں کو جلایا اور گرایا جا چکا ہے۔ حتی کہ سرکاری عمارات اور پبلک مقامات پر خودکش حملوں کے نتیجے میں ہزارہا سرکاری اہلکار اور عام شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس وحشت و بربریت پر ہر محب وطن شہری کا دل فگار اور آنکھیں اشک بار ہیں۔
اس ظلم و ستم اور بربریت کی چکی کا دوسرا پاٹ وہ غیر ملکی طاقتیں ہیں جن کے میزائل دہشت گردوں اور پرامن شہریوں میں فرق روا نہیں رکھتے۔ جہاں گرتے ہیں کئی گھروں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ ان میں بے شمار بچے، عورتیں اور بوڑھے بھی جل جاتے ہیں۔ اس سے مقامی لوگوں میں ان غیر ملکی طاقتوں کے خلاف شدید غم و غصہ کی لہر اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جو آخرکار خودکش حملوں کا جواز بن جاتے ہیں اور ان کا نشانہ بھی یہی عام شہری ہی بنتے ہیں۔ یعنی دہشت گردی خواہ مقامی اور اندرونی ہو یا سامراجی اور عالمی، خون عامۃ الناس کا ہی بہتا ہے۔
درج بالا سطور میں موجودہ خوفناک صورت حال کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اب میں چند گذارشات مسئلے سے متعلق بعض طبقات کی خدمت میں بھی کرنا چاہتا ہوں تاکہ اصلاح احوال کی کوئی واضح صورت نظر آسکے اور اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے ہم اس حساس اور مشکل صورت حال سے چھٹکارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اس سے میرا مقصود صرف حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی خیر و فلاح اور اسلام کے پیغام امن کو عام کرنا ہے۔ میں اسے ایک پاکیزہ فرض سمجھ کر ادا کر رہا ہوں۔ اُمتِ مسلمہ کی موجودہ صورت حال، اس کی زبوں حالی اور بے توقیری دیکھ کر میں سخت کرب و اضطراب کی کیفیت سے گزر رہا ہوں اور اصلاح احوال کے امکانات پر مسلسل غور و فکر کرتا رہا ہوں۔ جن طبقات سے غور و فکر کی درخواست ہے ان میں پہلا فریق حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے ہیں، دوسرا فریق وہ عالمی قوتیں ہیں جو بظاہر دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہیں اور پاکستان ان کا فرنٹ لائن اتحادی ہے۔ میری درخواست کا تیسرا مخاطب طبقۂ علماء و مشائخ ہے جن پر سب سے اہم دینی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ذیل میں بالترتیب ان تمام طبقات کی خدمت میں اخلاصِ قلب کے ساتھ دعوت فکر اور کلمہ ہائے نصیحت و اصلاح گوش گذار کر رہا ہوں۔
سب سے پہلے میں چند باتیں پاکستان کے مقتدر اور پالیسی ساز اداروں سے کرنا چاہتا ہوں۔ میری دانست میں دہشت گردی کا خاتمہ محض بر سرپیکار جنگجوؤں کے قتل اور گرفتاریوں سے نہیں ہوگا۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دہشت گرد باغی گروہوں میں تازہ افرادی قوت کی آمد اور داخلے کے تمام راستے کلیتاً مسدود کر دیئے جائیں گے۔ جس طرح تالاب کو خشک کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اندر موجود پانی کو نکالنے کے ساتھ ساتھ تالاب میں نئے پانی کی آمد کے تمام راستے بھی بند کر دیئے جائیں ورنہ تالاب کبھی خشک نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح دہشت گردی کا مکمل خاتمہ باغی گروہوں میں افرادی قوت کی تازہ کمک روک کر ہی ممکن ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان برسرپیکار دہشت گردوں کو تازہ افرادی قوت کہاں سے ملتی ہے۔
1۔ وہ نوعمر لڑکے اور نوجوان جن کے والدین فوجی کارروائی یا ڈرون حملوں میں مارے گئے ان میں شدید غم و غصہ اور انتقامی جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ انہیں ورغلا کر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی خاطر خودکش حملوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ پاک فوج جس علاقے کو کلیئر کرتی ہے وہاں کے یتیم اور بے سہارا بچوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا مناسب انتظام کرے۔ اس سے نہ صرف ان معصوم بچوں کے غموں اور دکھوں کا کسی حد تک مداوا ہو گا بلکہ حصولِ تعلیم کے بعد برسر روزگار ہو کر وہ امن پسند شہری بھی ثابت ہوں گے ورنہ وہ عسکریت پسندوں کے ہتھے چڑھ کر خودکش بمبار یا فرقہ پرستوں کے اداروں میں جا کر انتہا پسند بن جائیں گے اور بعد ازاں وہی ترقی پا کر دہشت گردی کی منازل پر فائز ہوں گے۔
2۔ بعض دینی اداروں اور مدارس میں طلباء کو دیگر مسالک کے خلاف نفرت، عدم رواداری اور انتہا پسندی پر مبنی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ میرے نزدیک بدقسمتی سے ہمارے سارے مسالک کسی نہ کسی حد تک اس مہلک مرض میں مبتلاء ہیں، وہ ایک دوسرے کو غیر مسلم اور گمراہ سمجھتے ہوئے معصوم ذہنوں میں نفرتوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ تنگ نظری اور فکری مغالطوں کا شکار ہو کر اپنے علاوہ سب کو کافر، مشرک اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے لگتے ہیں۔ بلکہ بعض انتہا پسند تو اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ وہ مخالفین کا خون بہانا نہ صرف جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں۔ یہیں سے شدت پسندی اور دہشت گردی پنپنے لگتی ہے جسے ایک ’’دینی فریضہ (جہاد)‘‘ سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔ اگر ان اداروں میں زیرتعلیم بعض طلباء کے قبائلی علاقوں میں واقع دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں جا کر تربیت لینے کی اطلاعات درست ہیں تو عسکریت پسندوں کے ساتھ ان کے شامل ہونے کے امکانات کو کیسے ردّ کیا جا سکتا ہے؟
ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان سرکاری اساتذہ اور اَئمہ اوقاف کے تربیتی کورسز کی طرح تمام دینی مدارس کے اساتذہ کے لئے بھی کورسز کا اہتمام کرے۔ اس کے لئے ماہرینِ علم اور اعتدال پسند علماء اور دانش وروں کی خدمات و تعاون حاصل کیا جائے۔ ان تربیت گاہوں میں مختلف مسالک کے علماء کے باہمی میل جول، تبادلہ خیال اور مذاکرات کے ذریعے جہاں غلط فہمیوں اور فکری مغالطوں کا ازالہ ہوگا وہاں ان میں تحمل و رواداری اور قلبی و نظری وسعت کو بھی فروغ ملے گا اور اِن کا ذہنی اُفق بھی وسیع ہوگا۔ دینی اداروں کے ان اساتذہ کرام کے مثبت رویوں کا ان شاء اﷲ ان کے تلامذہ پر بھی اثر ہوگا اور وہ تنگ نظری و انتہا پسندی کے خول سے باہر نکل سکیں گے۔
یہاں اس امر پر بھی توجہ ضروری ہے کہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے فروغ میں ایسی کتب، رسائل، کیسٹس اور CDs و DVDs بھی بڑا اہم کردار ادا کر رہی ہیں جو مختلف اشاعتی اداروں کی طرف سے مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ تمام شہروں خصوصاً پشاور، راولپنڈی، لاہور، کراچی اور کوئٹہ میں ایسی کیسٹس اور CDs و DVDs سستے داموں دستیاب ہیں جو مختلف ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مواد پر مبنی ہیں اور جن میں دوسرے مسلمانوں کے نظریات کے خلاف بھی انتہائی اشتعال انگیزی پائی جاتی ہے اور کفر و شرک کے فتوے اور منافرت پیدا کرنے والی تعلیمات ہیں۔ حکومت کو ایسی کتب، رسائل، کیسٹس اور CDs و DVDs کو ضبط کر لینا چاہئے اور ان کی اشاعت اور خرید و فروخت پر مؤثر پابندی عائد کر دینی چاہئے۔
3۔ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : کَادَ الْفَقْرُ أنْ يَّکُوْنَ کُفْرًا یعنی غربت و افلاس انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے۔(1) پاکستان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول مبارک کے عملی مظاہر ہر طرف نظر آتے ہیں۔ غربت و افلاس کے ستائے لوگ اپنے پیارے بچوں کو بیچنے اور رہن رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بعض ظالمانہ کھیلوں میں چند روپوں کے عوض غریب لوگ اپنے دل کے ٹکڑوں کو بیچ دیتے ہیں۔ ان معصوم بچوں پر وہاں جو گزرتی ہے اس کے تصور سے ہی ہر صاحبِ اولاد کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ غربت اور معاشی بدحالی کی بڑھتی ہوئی شرح نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کو پھلنے پھولنے کے لئے سازگار فضا فراہم کی ہے۔ دہشت گرد جانتے ہیں کہ جو لوگ غربت و افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر خودکشی کے ذریعے اپنی جان لے سکتے ہیں، انہیں چند ٹکوں کے عوض دوسروں کی جان لینے پر بھی آمادہ کیا جا سکتا ہے۔
1. بيهقی، شعب الايمان، 5 : 267، رقم : 6612
2. قضاعی، مسند الشهاب، 1 : 342، رقم : 586
یوں تو پاکستان بھر میں غربت اور بے روزگاری کے عفریت نے پنجے گاڑ رکھے ہیں لیکن شمالی علاقہ جات اور جنوبی پنجاب میں اس عفریت نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے ان علاقوں سے افرادی قوت بڑی آسانی سے دستیاب ہو جاتی ہے۔ نیز ان علاقوں کی غریب اکثریت بچوں کی پرورش، فیسوں اور تعلیمی اخراجات کی استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے انہیں سکولوں اور کالجوں کی بجائے دینی مدارس میں داخل کرا دیتی ہے۔ جہاں انہیں مفت دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ بعض مدارس میں انتہا پسندی، فرقہ پرستی اور تنگ نظری کی تعلیم بھی ملتی ہے جس کے نتیجے میں کئی طلباء میں عسکریت پسندی کا رجحان زور پکڑ لیتا ہے۔
حکومت کو ان پسماندہ علاقوں کی معاشی ترقی کے لئے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ وہاں انڈسٹریل زون بنائے جائیں تاکہ غریبوں کو روزگار کے لئے دور دراز شہروں میں نہ جانا پڑے، انہیں وہیں روزگار میسر آ سکے اور وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی خود نگرانی کرکے انہیں عسکریت پسندوں سے بچا سکیں۔
حکومت کے لئے آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے یہ فیصلہ کریں کہ اس جنگ کے بعد آیا یہی ’’یک جہت پالیسی‘‘ دائماً برقرار رہے گی یا پھر سے ’’دو جہتی پالیسی‘‘ کا آغاز ہو جائے گا۔ اگر مؤثر حکومتی ادارے ماضی میں دہشت گردوں کی بالواسطہ یا خفیہ پرورش نہ کرتے تو وہ آج اژدھا کا روپ نہ دھار سکتے۔ وہ اس مقام پر اچانک اور خود بخود نہیں پہنچ گئے۔ وہ اس بھیانک، خطرناک اور طاقت ور حیثیت کے ساتھ ابھرنے تک اپنے پیچھے کئی دہائیوں کی تاریخ رکھتے ہیں۔ پودا یک لخت تناور درخت نہیں بن جاتا، اس کی ابتداء بیج سے ہوتی ہے، مالی اس کی نشو و نما کا سامان کرتا ہے اور اسے رفتہ رفتہ بڑے درخت کی شکل تک لے آتا ہے۔ اگر آپ آئندہ ملک و قوم اور انسانیت کو اس اذیت ناک عذاب سے نجات دلانا چاہتے ہیں اور سوسائٹی کو دائمی امن دینا چاہتے ہیں تو خدارا ’’بیج فروشوں ‘‘ کا خاتمہ کیجئے، دہشت گردی کے پودوں کے لئے پانی اور کھاد وغیرہ کی فراہمی بند کیجئے، مالیوں کی تقرریاں اور ترقیاں ختم کر دیجئے اور نیک نیتی کے ساتھ اس قوم کی آئندہ نسلوں پر رحم فرمائیے! یہ بات کوئی بھی ذی شعور تسلیم نہیں کرسکتا کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے انتہاء پسندی سے دہشت گردی تک پرورش پانے والا یہ فتنہ حکومتی اداروں کی ’’آگاہی و رضامندی‘‘ اور ’’شفقت و عنایت‘‘ کے بغیر اس قدر قوت و طاقت کا حامل بن گیا ہے۔ اس سلسلے میں ’’مؤثر اور طاقت ور اداروں‘‘ کو اپنی آستینوں میں چھپے سانپوں کا بھی جائزہ لینا ہوگا اور دہشت گردوں کے سرکاری مخبروں اور خفیہ محسنوں کے لئے بھی کوئی واضح پالیسی بنانا ہوگی۔ اگر ان خطوط پر کوئی ٹھوس اور مؤثر کام نہ ہوا تو پھر یہ جنگ، ایک رُخ میں تو جنگ رہے گی اور دوسرے رُخ میں ڈرامہ۔ کیونکہ طریقہ یہ رہا ہے کہ ’’پہلے انہیں پیدا کرنا، پھر پالنا، حسب ضرورت کام لینا اورجب مالک کو کاٹنے لگیں تو مار دینا، اور پھر اسی عمل کا دوبارہ اجراء اور ارتقاء جاری رکھنا۔‘‘ اُمید ہے کہ آئندہ ’’چوہے بلی‘‘ کا کھیل ختم ہوگا۔
اب میرا روئے سخن ان عالمی طاقتوں کی طرف ہے جن کے خیال میں پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کا اڈا بن چکی ہے اور دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے والوں کو یہاں سے تربیت اور گائیڈ لائن ملتی ہے۔ لہٰذا وہ عالمی امن کے لئے پاکستان میں ان کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس کے لئے جہاں وہ حکومت پاکستان پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کے لئے do more کہہ کرمسلسل دباؤ ڈالتی رہتی ہیں وہاں وہ خود بھی گاہے بگاہے، ڈرون طیاروں کے ذریعہ بم باری کرکے اپنی دانست میں دہشت گردوں کا صفایا کر رہی ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ ان کی براہ راست کارروائیوں سے دہشت گردی کو مزید فروغ اور انتہا پسندوں کو مزید تقویت مل رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مفسدین کو دہشت گردی کے لئے افرادی قوت بڑی مشکل سے ملتی تھی لیکن اب ہزاروں افراد اس کام کے لئے میسر ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایک مکان پر بمباری سے مزید کئی مکانات بھی تباہ ہو جاتے ہیں جس میں بے گناہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد گنتی سے باہر ہے۔ بے گناہ لوگ جو پل بھر میں بے گھر اور بے آسرا ہو جاتے ہیں اور ان کے عزیز و اقارب موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں تو ان کے دل و دماغ میں اُٹھنے والے انتقام کے شعلے انہیں بعض اوقات ان گروہوں کی طرف دھکیل دیتے ہیں جو بزعم خویش ’’جہاد‘‘ کے نام پر دہشت گردی اور فساد کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ ان ڈرون حملوں سے ذہنوں میں پاکستان کی خودمختاری کی پامالی کا خیال بھی ابھرتا ہے جس سے ان لوگوں میں عالمی طاقتوں کے خلاف نفرت بڑھتی ہے اور دہشت گردوں کو ایسے لوگوں کی مزید ہمدردی ملتی چلی جاتی ہے۔
لہٰذا اگر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے ممالک خلوصِ دل سے دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو کسی بھی ملک پر براہِ راست کارروائی کرنے کی بجائے دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے اُس ریاست کی فوج اور سیکیورٹی اداروں پر اعتماد کریں اور اُنہیں ہر لحاظ سے مضبوط اور مستعد کریں اور معلومات فراہم کریں۔ اِس طرح عوام بھی دہشت گردوں کے خلاف یکسو ہو جائیں گے اور اُنہیں کسی جانب سے بھی ہمدردی میسر نہیں ہوگی۔
اس وقت وطن عزیز ایک آتش فشاں کے دہانے پر ہے۔ جو لوگ ان آتشیں شعلوں کی زد میں ہیں وہ آخرت کو سدھار رہے ہیں، جو بچ رہے ہیں جیتے جی مر رہے ہیں۔ شہر شہر اور قریہ قریہ کربلا کا منظر ہے۔ لوگ اپنے معصوم بچوں، عورتوں اور مَردوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں۔ ان کی نیندیں اڑ چکیں، ان کے کھانے بے لذت ہوگئے کہ جلتے جسموں کے مناظر اور پیاروں کی چیخ و پکار اِن کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ جن پر بیتی ان سے پوچھیں یا جنہوں نے دیکھا ان سے سنیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ یہ سب کچھ دینِ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ وہ دین جس کا معنی ہی امن و سلامتی ہے۔ وہ دین جس کا پیغام حیات بخش ہے نہ کہ حیات کُش، جو دکھ درد بانٹنے کا درس دیتا ہے نہ کہ سکھ چین چھین لینے کا، جو کشت انسانیت میں محبتوں کے پھول اُگانے کی بات کرتا ہے نہ کہ نفرتوں کے کانٹے بچھانے کی۔
تو پھر ہمارے گرد و پیش یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ نفرتوں کے پجاری اور موت کے سوداگر کہاں سے آگئے؟ یہ کس دین کے ماننے والے ہیں؟ ان کے استاد اور رہبر کون ہیں؟ کن لوگوں نے اس راہ سے انہیں جنت کا دروازہ دکھایا؟ کیا یہ اصحاب دانش و بینش اور وارثانِ منبر و محراب کے سوچنے کی بات نہیں؟ انہیں مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث ہونے کا دعوی ہے۔ وہی تو حاملین دعوتِ دینِ متین ہیں۔ وہی معلم ہیں اور وہی مبلغ۔ مدارس بھی ان کے، مساجد بھی ان کی اور تبلیغی مراکز بھی ان کے۔ جب کہ ایوان ہاے اقتدار میں بھی ان کی خصوصی نمائندگی ہے۔ پھر ان کے ہوتے ہوئے وہ کون لوگ ہیں جو ان علماء کو بائی پاس کرکے دین کے نام پر نوجوانوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سبق دے رہے ہیں؟ اسے جہاد سمجھتے ہوئے اپنے ہم وطن بے قصور شہریوں کو بے دریغ قتل کر رہے ہیں۔ جب دین کے سارے تربیتی، دعوتی اور تعلیمی شعبے علماء کرام کے زیر اثر ہیں تو ان باغیوں اور جنونیوں کو جنت کی ’’مخصوص تجارت‘‘ پر کس نے لگا دیا ہے؟
ایسے سوالات جب عوام کی طرف سے اٹھتے ہیں تو ہمارا دینی حلقہ فوراً امریکہ کا نام لے دیتا ہے لیکن لوگ مطمئن نہیں ہوتے۔ وہ پوچھتے ہیں امریکہ کی مداخلت تو 9/11 کے بعد ہوئی، وہ بھی عراق اور افغانستان میں۔ پاکستان میں تو گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی مساجد اور بطورِ خاص امام بارگاہوں پر حملے ہوتے تھے۔ نمازیوں پر بموں اور گولیوں کی بارش جاری تھی۔ ایک دوسرے کے علماء کو قتل کیا جاتا تھا۔ بعد ازاں فقط سمت اور ہدف بدل گیا۔ عمل اور ذہنیت وہی ہے جو آج سے تیس (30) سال قبل (1980ء) سے چلی آرہی ہے۔
اگر یہ سب کچھ غیر ملکی عناصر کرا رہے ہیں تو بھی وہ خود تو جیکٹس پہن کر خودکش حملے نہیں کرتے۔ جتنے لوگ پکڑے گئے اوران سے خود کش جیکٹس برآمد ہوئیں وہ زیادہ تر پاکستانی تھے اور اسلام کے دعوے دار بھی۔ ان کے چہرے مہرے اور وضع قطع بھی دین دار لوگوں کی طرح تھی اور جہاد کی آیتیں اور حدیثیں بھی ان کے ورد زبان تھیں۔
دور نہ جائیے حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں میں اولیاء و صالحین کے مزارات کو بموں اور راکٹوں سے تباہ کس نے کیا؟ ایک مخصوص FM ریڈیو پر اعلانات کئے گئے کہ ہم شرک کے ان اڈوں کو جلد ہی ملیا میٹ کر دیں گے، اور پھر انہوں نے دھمکی پر عمل بھی کر دکھایا۔ درندگی کی انتہا یہ کہ لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، انہیں درختوں پر لٹکایا گیا۔ بعض روحانی خانوادوں کے افراد کو چن چن کر بے دردی سے شہید کیا گیا۔ کس کس کو گنوایا جائے؟ ان ظالموں کی ستم رانیوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اب خوف کی ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ بہت سے روحانی خانوادے آبائی خانقاہیں چھوڑ کر پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور شفٹ ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا عقیدہ رکھنے والوں، اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دم بھرنے والوں اور ذکر الٰہی سے زبانیں تر اور آنکھیں نم رکھنے والوں پر شرک کا فتویٰ لگا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا کون سا جہاد ہے؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ جہاد کے نام پر تخریب کاری اور دہشت گردی کے لئے فکری غذا کہاں سے مہیا کی جاتی رہی ہے؟ فرقہ پرستی سے انتہا پسندی اور انتہا پسندی سے دہشت گردی اور خون ریزی تک کے فاصلے بہت زیادہ طویل نہیں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس سفر کو طے کرنے کے لئے تیاری کہاں ہوتی رہی ہے؟
ہمارے ہاں انتہا پسندی کے سفر کی ابتداء یہ تھی کہ دوسرے مسالک کے لوگوں کو کافر و مشرک قرار دیا جائے۔ پھر اپنے مسلک کے جابرانہ غلبے کی خواہش نے انہیں اسلام کے اجتماعی مفاد اور تحفظ سے یکسر غافل کر دیا۔ وہ اپنے مسلک اور عقائد کے غلبے کو ہی اسلام کے غلبے سے تعبیر کرنے لگے اور اس کی راہ میں حائل ہونے والے ہر عقیدے اور مسلک کو فتویٰ کی مشینوں اور اسلحہ کے زور سے ختم کرنے میں لگ گئے۔ یہی سوچ اور عمل بڑھتے بڑھتے دہشت گردی پر جا کر منتج ہوا۔ طرز فکر و عمل وہی تھا، مگر نئے حالات میں سمت اور اہداف بدل گئے۔ اس وقت مفسدین کی مسلح آویزش، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اسلام کے تحفظ اور ملت اسلامیہ کی سلامتی کو معرض خطر میں ڈال دیا ہے۔ خدا نہ کرے کہ فتنۂ تاتار اور زوالِ بغداد کی تاریخ پھر دہرائی جائے۔ آج ہنستے بستے ملکوں اور شہروں کے کھنڈرات اور اجڑی ویران بستیاں، بے گھر اور لٹے پٹے مکین زبانِ حال سے پکار رہے ہیں :
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ حقیقت نیوش ہو
اسلامی دنیا اور خصوصاً پاکستان میں بعض انتہا پسند اور متشدد گروہوں کے خروج اور اِن کی دہشت گردانہ کارروائیوں نے دنیا بھر میں فروغ اسلام کی تحریک کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ فرقہ پرستوں، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے ساری امیدیں خاک میں ملا دیں۔ ایک وقت تھا کہ یورپ کے غیر متعصب اور سنجیدہ فکر طبقات اسلام کے مطالعے کی طرف راغب ہو رہے تھے۔ وہ مسلمان علماء کے پاس بیٹھنے اور کچھ سمجھنے کے متمنی نظر آتے تھے۔ ان کی پیاس اسلام کے سوا کہیں اور سے بجھتی نظر نہیں آتی تھی۔ چنانچہ بے شمار لوگ گذشتہ صدی میں مشرف بہ اسلام ہوئے لیکن اب تصور اور نقشہ یکسر بدل چکا ہے۔
اے وارثان منبر و محراب! موجودہ صدی میں دعوتِ دین اور فروغِ اسلام کے جس قدر وسیع اِمکانات، سازگار ماحول اور وسائل، قدرت نے آپ کو عطا کر دیئے ہیں اس کی نظیر مسلمانوں کی گذشتہ چودہ سو سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔ دنیا global village بن چکی ہے، زمینی فاصلے سمٹ گئے ہیں۔ لیکن افسوس! بعض عاقبت نااندیشوں کی موجودہ انتہا پسندانہ روش اور شدت پسندی نے مسلمانوں اور دیگر اقوام کے درمیان فاصلے بڑھا دیئے ہیں۔ جس کے نتیجے میں اشاعت و فروغ اسلام کے مواقع محدود سے محدود تر ہوتے جا رہے ہیں۔
خدارا! وقت کے تقاضوں کو سمجھئے اور انتہا پسندانہ فکر وعمل رکھنے والوں کی اصلاح کے لئے سب مل کر اجتماعی کاوشیں بروئے کار لائیے۔ انہیں راہِ راست پر لانے کے لئے اپنا فرض منصبی بلاامتیاز ادا کیجئے، اٹھئے! کچھ کیجئے ورنہ وقت تیزی کے ساتھ گرفت سے نکلتا جا رہا ہے۔
بے دینی، اخلاقی بے راہ روی اور ہوس زر نے پہلے ہی معاشرے کو مضطرب کر رکھا تھا؛ اب فرقہ پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے اس کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یوں تو معاشرے کے تمام ادارے شکست و ریخت کا شکار ہیں لیکن خانقاہوں اور ان سے وابستہ افراد کو دہشت گرد فرقہ پرستوں کی طرف سے جس جارحیت اور بربریت کا سامنا ہے اس سے پورا خانقاہی نظام ہی معرض خطر میں نظر آرہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ پہلے بھی اسلام اور مسلمانوں پر بڑے کٹھن دور آتے رہے لیکن یہ صوفیاء اسلام ہی تھے جن کے نظام فکر و عمل نے دورِ انحطاط میں بھی مسلم معاشرے کی راکھ میں چنگاریوں کو بجھنے سے بچائے رکھا اور جس کا اعتراف غیر مسلموں نے بھی بارہا کیا۔ مشہور مستشرق H. A. R Gibb نے آکسفورڈ یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا :
’’تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع آئے ہیں کہ اسلام کے کلچر کا شدت سے مقابلہ کیا گیا لیکن بایں ہمہ وہ مغلوب نہ ہوسکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تصوف اور صوفیاء کا انداز فکر فوراً اس کی مدد کو آجاتا تھا اور اس کو اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہ کر سکتی تھی۔‘‘
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ صوفیاء نے شکست و ریخت کی آندھیوں میں بھی خانقاہوں کی اوٹ میں اپنے مضبوط کردار اور توفیقِ اِلٰہی کے ساتھ پیغام رسالت کی شمع جلائے رکھی۔ وہ نہایت حوصلے، صبر اور سکون سے کفر کی تہذیب کے سامنے بند باندھے اسلامی تہذیب و افکار کو اگلی نسلوں تک منتقل کرتے رہے۔ لیکن اب صورت حال بالکل مختلف ہو گئی ہے۔ اب خانقاہی نظام کی چولیں ڈھیلی ہوتی نظر آرہی ہیں بلکہ اس کا وجود ہی منتشر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس ادبار و انحطاط اور بے وقعتی کی بنیادی وجہ میری دانست میں یہ ہے کہ موجودہ خانقاہی ماحول میں متقدمین صوفیاء کا وہ مثالی اَخلاق و کردار نظر نہیں آرہا جس سے ماحول جگمگاتا اور بدی کے اندھیرے چھٹتے تھے۔ سلف صالحین کے اَدوار میں خانقاہیں رشد و ہدایت کا مرکز تھیں اور وہاں لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوتی تھی، وہاں غریب اور پسے ہوئے طبقات کی پناہ گاہیں بھی تھیں، وہاں ان کی دل جوئی، غم خواری اور دکھ بانٹنے کے پورے سامان ہوتے تھے۔ تب خانقاہیں عوامی لنگر خانے بھی تھیں جہاں دو لقموں کو ترسنے والے پیٹ بھر کر کھاتے۔ وہ ایسے شفاخانے تھے جہاں بیماروں کو دعا کے ساتھ دوا بھی میسر آتی۔ وہاں نہ صرف ذکر سے سکون قلب کا سامان ہوتا بلکہ قرآن و سنت اور سلوک و تصوف کی تعلیم سے عقل و فکر اور قلب و روح کو جلا بھی ملتی تھی۔ غریبوں کے بچوں کو لباس، خوراک اور رہائش کے ساتھ ساتھ علم و اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنے کا بھی مکمل انتظام ہوتا تھا۔ تب خانقاہ ایک ہمہ گیر فلاحی ادارہ تھی۔
بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ خانقاہ کا وہ روحانی، فلاحی، تعلیمی اور تربیتی کردار فراموش کردیا گیا ہے۔ اب تو لوگوں کا تعلق خانقاہ سے دعا، تعویذ، نذرانہ اور نذر و نیاز تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ بے شمار خانقاہوں کے در و دیوار قَالَ اﷲُ وَقَالَ الرَّسُوْلُ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آوازوں کو ترس گئے ہیں۔ رُشد و ہدایت اور تعلیم و تعلم کی مسندیں ویران ہوگئیں کہ خانقاہ نشینوں کے مشاغل اور ترجیحات بدل گئیں۔ غریبوں، مجبوروں اور بے کسوں کے لئے دست شفقت و تعاون بڑھانے والے بڑے شہروں کی کوٹھیوں اور شاہی ایوانوں میں جا بسے۔ خانقاہ سے لوگوں کی اُمیدیں ٹوٹیں تو وہ لوگ اپنے قریبی شہروں اور دیہاتوں میں قائم ہونے والے دینی مدارس میں اپنے بچوں کو داخل کرانے پر مجبور ہو گئے، جہاں ان کے بچوں کو لباس، خوراک اور تعلیم کے ساتھ وظائف بھی ملتے ہیں اور انہیں ان کے فلاحی اداروں سے کپڑا اور مالی امداد بھی۔ وہ خوش ہیں کہ یہ ادارے ان کا معاشی بوجھ بانٹتے ہیں اور ان کے بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں کہ وہ کیسی تعلیم دیتے ہیں اور انہیں کیا بناتے ہیں۔ وہ اُن اداروں کو اپنا محسن سمجھتے ہوئے ان کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہیں۔
خانقاہ کے مقدس ادارے سے وابستہ تمام اہل فکر و دانش کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ انہیں یہ سوچنا ہے کہ قوم کو موجودہ خطرناک صورت حال تک پہنچانے میں خود ان کا اپنا کتنا کردار ہے۔ دوسروں پر الزام دھرنے کی بجائے اپنے حصے کی کوتاہیوں اور غلطیوں کے ادراک، اعتراف اور ان کی تلافی وقت کا تقاضا ہے اور اسی میں خانقاہی نظام کی بقا کا راز بھی مضمر ہے۔ انہیں خود کو اپنے اسلاف کے اَخلاق و اَوصاف سے مزین کرکے خانقاہوں کے تعلیمی، تربیتی اور فلاحی کردار کا احیاء کرنا ہوگا۔ اس کارِ خیر کے لئے ان کے پاس نہ وسائل کی کمی ہے اور نہ جوہر قابل کی۔ بس احساس زیاں، عزم راسخ اور قوت عمل کی ضرورت ہے۔
اٹھ کہ خورشید کا سامان سفر تازہ کریں
نفس سوختۂ شام و سحر تازہ کریں
(اقبال رحمۃ اللہ علیہ)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved