خوارج کے باب میں وارد ہونے والی احادیث و آثار اس قدر کثرت سے ہیں کہ ان کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ تاہم اِس موضوع پر راقم کی کتاب الإنتباه للخوارج والحروراء کا مطالعہ بھی مفید ہوگا۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ ایسے خیالات، رجحانات، معتقدات اور اقدامات کرنے والوں سے کوئی دور خالی نہ ہوگا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس امر کی قطعیت کے ساتھ وضاحت فرما دی ہے کہ ایسے گروہ میں ناپختہ ذہن اور کم عمر لڑکے کثرت سے ہوں گے کیوں کہ ایسے لڑکوں کو آسانی سے ورغلایا جاسکتا ہے اور ان کی ذہن سازی (brain washing) کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ گروہ کسی ایک دور کے ساتھ مختص نہیں ہوگا بلکہ یہ لوگ خروج دجال کے زمانے تک پیدا ہوتے رہیں گے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ سے بھی یہی ثابت ہے کہ یہ فرقہ کئی بار ظہور کرے گا:
عن ابن عمرو رضی الله عنه قال: قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : يخرج قوم من قبل المشرق يقرؤون القرآن، لا يجاوز تراقيهم کلما قطع قرن نشأ قرن، حتی يخرج فی بقيتهم الدجال.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 209، رقم: 6952
2. طبرانی، المعجم الأوسط، 7: 41، رقم: 6791
3. حاکم، المستدرک، 4: 556، رقم: 8558
4. طيالسی، المسند: 302، رقم: 2293
5. أبو نعيم، حلية الأولياء و طبقات الأصفياء، 6: 54
’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کئی لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے، وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن اُن کے حلق سے نیچے نہ اترے گا۔ جب ایک گروہ (شیطانی سینگ) کاٹا جائے گا تو دوسرا نکلے گا (یعنی جب ایک ایسے گروہ کا خاتمہ کر دیا جائے گا تو کچھ عرصہ کے بعد دوسرا گروہ پیدا ہو جائے گا) یہاں تک کہ ان کے آخری گروہ کے دور میں ہی دجال نکلے گا۔‘‘
حدیث مبارکہ کا نفس مضمون بتارہا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کے ظہور اور اُن کے مظالم کے تسلسل کے بارے میں خبر دی کہ یہ دہشت گرد گروہ فتنہ دجال تک علاقے اور شکلیں بدل بدل کر آتا رہے گا۔ یاد رہے کہ دجال کا ظہور قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں سے ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث میں واضح الفاظ میں یہ پیشین گوئی بھی فرما دی تھی کہ اُمت کے آخری زمانے میں ایک ایسا گروہ نکلے گا جن کے چہرے انسانوں کے اور دل شیطانوں کے ہوں گے۔ وہ خونخوار بھیڑیوں کی طرح ہوں گے اور ان کے دلوں میں رحم نام کی کوئی شے نہ ہوگی۔ وہ کثرت سے خون بہائیں گے۔ امام ترمذی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يخرج في آخر الزمان رجال يختلون الدنيا بالدين، يلبسون للناس جلود الضأن من اللين، ألسنتهم أحلی من السکر، وقلوب الذئاب، يقول اﷲ: أبي يغترون أم علي يجترء ون؟ فبي حلفت لأبعثن علی أولئک منهم فتنة تدع الحليم منهم حيرانا.
ترمذی، السنن، کتاب الزهد، 4: 604، رقم: 2404
’’آخری زمانے میں ایسے لوگ سامنے آئیں گے جو دھوکہ و فریب کے ساتھ دین کے نام پر دنیا کمائیں گے۔ وہ لوگوں کو اپنی نرم مزاجی ظاہر کرتے ہوئے (دنیا کے سامنے) بھیڑ کی کھال پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی (یعنی وہ مؤثر نعرے لگائیں گے اور مؤثر باتیں کریں گے) مگر ان کے دل بھیڑیوں کے ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا میرے نام پر دھوکہ کرتے ہو یا مجھ پر جرات کرتے ہو؟ مجھے اپنی ذات کی قسم! میں ان لوگوں پر ضرور ایک فتنہ (آزمائش و مصیبت) بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران و پریشان کر دے گا۔‘‘
امام طبرانی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سيجيء في آخر الزمان أقوام، يکون وجوههم وجوه الآدميين، وقلوبهم قلوب الشياطين، أمثال الذئاب الضواري، ليس في قلوبهم شيء من الرحمة، سفاکون الدماء، لا يرعون عن قبيع إن تابعتهم واربوک، وإن تواريت عنهم اغتابوک، وإن حدثوک کذبوک، وإن ائتمنتهم خانوک، صبيهم عامر، وشابهم شاطر، وشيخهم لا يأمر بمعروف ولا ينتهی عن منکر، الاعتزاز بهم ذل، وطلب ما في أيديهم فقر، الحليم فيهم غاو، والآمر بالمعروف فيهم متهم، المؤمن فيهم متضعف، والفاسق فيهم مشرف، السنة بدعة، والبدعة فيهم سنة، فعند ذلک يسلط عليهم شرارهم، ويدعوا خيارهم، فلا يستجاب لهم.
1. طبراني، المعجم الکبير، 11: 99، رقم: 11169
2. طبراني، المعجم الصغير، 2: 111، رقم: 869
’’آخری زمانہ میں ایسے گروہ آئیں گے جن کے چہرے انسانوں کے اور دل شیطانوں کے ہوں گے۔ وہ خونخوار بھیڑیوں کی طرح ہوں گے۔ ان کے دلوں میں رحم نام کی کوئی چیز نہ ہوگی۔ وہ اپنی سفاکانہ کارروائیوں سے کثرت کے ساتھ خون بہائیں گے۔ کسی برے کام یعنی ظلم و زیادتی کی پروا نہیں کریں گے۔ اگر تو ان کی بات مانے گا تو تجھے دھوکہ دیں گے۔ اگر تو ان سے چھپے گا تو تیری برائی اور مذمت کریں گے اگر وہ تمہارے ساتھ مذاکرات (dialogue) کریں گے تو جھوٹ بولیں گے۔ اگر تم ان کے پاس امانت رکھو گے تو وہ خیانت کریں گے۔ ان کے بچے گھر کا نظام چلائیں گے (اور بڑے برسرپیکار ہوں گے) اور ان کے جوان شاطر ہوں گے۔ ان کا سردار انہیں نہ تو بھلائی کا حکم دے گا اور نہ ہی غلط کام سے روکے گا، ان کے ذریعے عزت اور غلبے کی طلب ذلت کا باعث ہو گی اور ان کے ہاتھوں میں جو کچھ ہوگا (یعنی ان کے نظریات اور اسلحہ وغیرہ) اس کی خواہش کرنا سراسر افلاس (معیشت کی تباہی) ہوگا۔ ان میں بردبار اور ٹھنڈے مزاج کا دکھائی دینے والا شخص (بھی) دھوکے باز ہوگا۔ انہیں بھلائی کا حکم دینے والے پر تہمت لگائی جائے گی۔ صاحبِ ایمان ان میں کمزور شمار ہوگا اور فاسق معزز ہوگا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اصل سنت ان کے ہاں بدعت اور بدعت سنت قرار پائے گی۔ اس وقت ان پر بدترین شرپسند مسلط کر دیے جائیں گے (تب) ان کے اچھے لوگ دعا کریں گے لیکن ان کی دعائیں قبول نہ ہوں گی۔‘‘
امام ترمذی اور امام طبرانی کی روایت کردہ مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں آج کے دور میں پائے جانے والے دہشت گردوں کی تمام صفات بیان کر دی گئی ہیں۔ درحقیقت یہی شرپسند اور جنگجو گروہ موجودہ دور کے وہ دہشت گرد اور خوارج ہیں جن کے دل درندوں کے ہیں اور چہرے انسانوں کے ہیں۔ ان کے دلوں میں رحم نام کی کوئی شے نہیں۔ وہ مخلوق خدا کا انتہائی سفاکانہ طریقے سے نہ صرف خون بہاتے ہیں اور اپنے عقائد و نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کو مشرک اور کافر قرار دے کر ذبح کرتے ہیں بلکہ ان خونین مناظر کی ویڈیو فلمیں تیار کر کے مخلوقِ خدا کو دہشت زدہ اور اسلام کو بدنام بھی کرتے ہیں۔
خوارج کے بارے میں علامہ ابن تیمیہ کے کئی اقوال ہم نے گزشتہ صفحات میں بیان کیے ہیں، جن سے خوارج کے بارے میں ان کا عقیدہ مترشح ہوتا ہے۔ اب ہم علامہ ابن تیمیہ کے الفاظ میں یہ واضح کریں گے کہ خوارج کا وجود ہر دور میں رہا ہے اور یہ آج کے دور میں بھی موجود ہیں مگر لوگوں کو ان کی پہچان نہیں ہے۔
علامہ ابن تیمیہ اپنی کتاب النبوات میں بیان کرتے ہیں:
وکذلک الخوارج: لما کانوا أهل سيف وقتال، ظهرت مخالفتهم للجماعة؛ حين کانوا يقاتلون الناس وأما اليوم فلا يعرفهم أکثر الناس.
ابن تيمية، النبوات: 222
’’اور اسی طرح خوارج ہیں کہ جب انہوں نے اسلحہ اٹھا لیا اور بغاوت کرتے ہوئے (مسلمانوں سے) جنگ کی اور لوگوں سے قتال کرنے لگے تو اُن کی جماعتِ مسلمہ سے مخالفت و عداوت ظاہر ہوگئی تاہم عصر حاضر میں بھی (بظاہر دین کا لبادہ اوڑھنے کی وجہ سے) لوگوں کی اکثریت انہیں پہچان نہیں پاتی۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خوارج پہلے مخفی تھے تو ان کا علم کیسے ہوا؟ اس کا جواب علامہ ابن تیمیہ یوں دیتے ہیں:
وهاتان البدعتان ظهرتا لما قتل عثمان رضی الله عنه في الفتنة؛ في خلافة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضی الله عنه؛ وظهرت الخوارج بمفارقة أهل الجماعة، واستحلال دمائهم وأموالهم؛ حتی قاتلهم أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضی الله عنه متبعا في ذالک لأمر النبي صلی الله عليه وآله وسلم. قال الإمام أحمد بن حنبل: صح الحديث في الخوارج من عشرة أوجه. وهذه قد رواها صاحبه مسلم بن الحجاج فی صحيحه، وروی البخاری قطعة منها. واتفقت الصحابة علی قتال الخوارج حتی أن ابن عمر . . . قال عند الموت: ما آسی علی شیء إلا علی أني لم أقاتل الطائفة الباغية مع علي، يريد بذلک قتال الخوارج. . . . وإنما أراد المارقة التي قال فيها النبي صلی الله عليه وآله وسلم : تمرق مارقة علی حين فرقة من الناس، يقتلهم أدنی الطائفتين إلی الحق. وهذا حدّث به أبو سعيد. فلما بلغ ابن عمر قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم فی الخوارج، وأمره بقتالهم، تحسر علی ترک قتالهم.
ابن تيمية، النبوات: 222، 223
’’اور خوارج کی طرف سے (مسلمانوں کو کافر قرار دینے اور ان کے جان و مال کو حلال سمجھنے کی) دو بدعتیں اُس وقت منظر عام پر آئیں جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کر کے فتنہ بپا کیا گیا۔ امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں خوارج کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی جماعت سے مفارقت اور ان کے جان و مال کو حلال قرار دینے کی صورت میں ظاہر ہوئی، یہاں تک کہ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں (نہروان کے مقام پر ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی معیت میں) ان خارجیوں سے جنگ کی (اور اُنہیں چن چن کر قتل کیا)۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ خوارج کے بارے میں حدیث دس طرق سے ثابت ہے اور اسے آپ کے ہم عصر امام مسلم بن الحجاج نے اپنی الصحیح میں روایت کیا ہے اور امام بخاری نے اسے مختصراً روایت کیا ہے۔ خوارج سے جہاد پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اتفاق ہے؛ یہاں تک کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے وصال کے وقت فرمایا: مجھے کسی بات پر افسوس نہیں سوائے اس کے کہ میں (حضرت) علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر باغی گروہ کے ساتھ قتال نہ کر سکا۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ کی مراد تو صرف اُس باغی گروہ سے تھی جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ’’اور یہ گروہ اُس وقت خروج کرے گا جب لوگوں میں تفرقہ و انتشار پیدا ہوگا؛ اسے دونوں گروہوں میں سے حق کے قریب ترین گروہ قتل کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خوارج اور ان سے قتال کے متعلق یہ ارشاد گرامی جب عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو وہ قتال ترک کرنے پر حسرت زدہ ہوگئے۔‘‘
گزشتہ صفحات میں بیان کی گئی احادیث مبارکہ سے بھی وضاحت ہوتی ہے کہ بالعموم لوگوں کو خوارج کی ظاہری دین داری اور پرہیزگاری کی بنا پر مغالطہ لاحق ہوجاتا ہے اور وہ انہیں طبقہ مسلمین میں شامل سمجھنے لگتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیوں کہ خوارج کا پتہ ہی اُس وقت چلتا ہے جب وہ مسلح ہوکر قتل عام شروع کرتے ہیں۔ دہشت گردوں کے ماتھے پر نہیں لکھا ہوتا کہ وہ خوارج ہیں۔ ان کا وحشت و بربریت اور درندگی و قتل عام پر مبنی عمل ہی انہیں expose کرتا ہے۔ یہ خودساختہ باطل مذہبی نظریات کی بنا پر عام انسانوں اور مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں۔ یہ ہر دور میں آتے رہیں گے۔ قرب قیامت کی علامات میں خوارج میں دجال کے خروج کی روایات بھی کتبِ احادیث میں موجود ہیں جو ہم نے گزشتہ صفحات میں درج کی ہیں۔
بعض لوگ خوارج کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اور انہیں برا نہیں جانتے، جب کہ بعض لوگ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے خوارج کی پشت پناہی اور support کرتے ہیں اور اپنے طرز عمل سے شرپسندوں اور دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اُن کے لیے ماسٹر مائنڈ (master mind) کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں اور ان کی مالی و اخلاقی معاونت (financial & moral support) کرکے انہیں مزید دہشت پھیلانے کی شہ دیتے ہیں، یہ عمل بھی انتہائی مذموم ہے۔
خوارج کی پشت پناہی کرنے والوں کے لیے قَعْدِيَۃ (عملاً بغاوت میں شریک نہ ہونے والے کی) اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
’’والقعدية‘‘ قوم من الخوارج، کانوا يقولون بقولهم، ولا يرون الخروج بل يزينونه.
عسقلاني، مقدمة فتح الباري: 432
’’اور قَعْدِيَۃ خوارج کا ہی ایک گروہ ہے۔ یہ لوگ خوارج جیسے عقائد تو رکھتے تھے مگر خود مسلح بغاوت نہیں کرتے تھے بلکہ (وہ خوارج کی پشت پناہی کرتے ہوئے) اسے سراہتے تھے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی مقدمۃ فتح الباری میں ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
والخوارج الذين أنکروا علی علي رضی الله عنه التحکيم وتبرء وا منه ومن عثمان رضی الله عنه وذريته وقاتلوهم فإن أطلقوا تکفيرهم فهم الغلاة منهم والقعدية الذين يزينون الخروج علی الأئمة ولا يباشرون ذلک.
عسقلاني، مقدمة فتح الباري: 459
’’اور خوارج وہ ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فیصلۂ تحکیم (arbitration) پر اعتراض کیا اور آپ رضی اللہ عنہ سے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اور ان کی اولاد و اَصحاب سے برات کا اظہار کیا اور ان کے ساتھ جنگ کی۔ اگر یہ مطلق تکفیر کے قائل ہوں تو یہی ان میں سے حد سے بڑھ جانے والا گروہ ہے جبکہ قَعْدِيَۃ وہ لوگ ہیں جو مسلم حکومتوں کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج کو سراہتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، لیکن خود براہ راست اس میں شامل نہیں ہوتے۔‘‘
اِسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی اپنی ایک اور کتاب ’’تھذیب التھذیب‘‘ میں خوارج کی پشت پناہی کرنے والوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’والقعد‘‘ الخوارج کانوا لا يرون بالحرب، بل ينکرون علی أمراء الجور حسب الطاقة، ويدعون إلی رأيهم، ويزينون مع ذالک الخروج، ويحسنونه.
عسقلاني، تهذيب التهذيب، 8: 114
’’اور قَعْدِيَۃ (خوارج کی پشت پناہی کرنے والے) وہ لوگ ہیں جو بظاہر خود مسلح جنگ نہیں کرتے بلکہ حسبِ طاقت ظالم حکمرانوں کا انکار کرتے ہیں اور دوسروں کو اپنی فکر و رائے کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلح بغاوت اور خروج کو (مذہب کا لبادہ اوڑھا کر) سراہتے ہیں اور دہشت گرد باغیوں کو اِس کی مزید ترغیب دیتے ہیں۔‘‘
شارح صحیح البخاری حافظ ابن حجر عسقلانی کے درج بالا اقتباسات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ قَعْدِيَۃ بھی خوارج میں سے ہی ہیں۔(1) لیکن یہ گروہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا اور پسِ پردہ رہ کر خوارج کی باغیانہ اور سازشی سرگرمیوں کے لیے منصوبہ بندی (planning) کرتا ہے۔ گویا یہ گروہ ماسٹر مائنڈ کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ اِس گروہ کا کام دلوں میں بغاوت اور خروج کے بیج بونا ہے، خاص طور پر جب یہ گفتگو کسی ایسے فصیح و بلیغ شخص کی طرف سے ہو جو لوگوں کو اپنی چرب زبانی سے دھوکہ دینے اور اسے سنتِ مطہرہ کے ساتھ گڈ مڈ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔
(1) ہم نے اِس باب کے آغاز میں بھی ذکر کیا تھا کہ خوارج کے تقریباً بیس فرقے ہیں۔ ’’قعدیہ‘‘ بھی اُنہی میں سے ایک فرقہ ہے۔
موجودہ دور میں دہشت گردی اور قتل و غارت گری کرنے والے لوگ خوارج ہی کا تسلسل ہیں۔ اِس امر کا اطلاق اجتہادی نہیں اور نہ ہی تشریحی ہے بلکہ یہ اطلاق منصوص ہے۔ خوارج سے مراد صرف سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے عہد میں نکلنے والا گروہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ خوارج کا پہلا گروہ تھا۔ خوارج ایک ایسا فتنہ ہے جو گروہ در گروہ ظاہر ہوتا رہا اور اس کے لوگ دجال کے زمانے تک ظاہر ہوتے رہیں گے اور قیامت تک وقتاً فوقتاً نکلتے رہیں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جن کا ظہور ہوا وہ فتنہ خوارج کے بانی تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی واضح نشانیاں بیان فرما دی ہیں، جن میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ ہر دور میں نکلتے رہیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوارج کا آخری گروہ دجال کے ساتھ اس کی حمایت میں نکلے گا۔ حضرت شریک بن شہاب سے مروی روایت میں خوارج کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً فرمایا:
يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.
1. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس،
7: 119، رقم: 4103
2. نسائي، السنن الکبری، 2: 312، رقم: 3566
3. بزار، المسند، 9: 294، رقم: 3846
4. طيالسي، المسند، 1: 124، رقم: 923
’’آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے گویا یہ شخص بھی انہی میں سے ہے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘
اسی طرح امام احمد بن حنبل اور امام ابنِ ابی شیبہ کی بیان کردہ روایت میں ہے:
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ، فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، قَالَهَا ثَلَاثًا. شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. قَالَهَا ثَلَاثًا.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4: 421، رقم: 19798
2. ابن ابی شيبة، المصنف، 7: 559، رقم: 37917
3. رويانی، المسند، 2: 26، رقم: 766
’’یہ خوارج ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا جب تم (میدانِ جنگ میں) ان کو دیکھو تو انہیں قتل کر دو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہیں۔ مزید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔‘‘
امام حاکم کی روایت کردہ حدیث میں ہے:
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ. قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ قَالَهَا حَمَّادٌ ثَلَاثًا. وَقَالَ: قَالَ أَيْضًا: لَا يَرْجِعُوْنَ فِيْهِ.
1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2: 160، رقم: 2647
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 6: 229
’’خوارج کے یہ گروہ مسلسل پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ (دجال کے ساتھ) نکلے گا۔ جب تم (میدانِ جنگ میں) ان سے سامنا کرو تو انہیں قتل کر دو۔ (اس حدیث کے ایک راوی) حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے: ’’وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘ حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ اور حضرت حماد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے عقائد و نظریات سے رجوع نہیں کریں گے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی تصریح فرما دی ہے کہ قیامت تک اِس طرح کے مسلح اور باغی گروہ مسلمانوں کی ریاستوں اور معاشروں میں نکلتے رہیں گے۔ لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ کا واضح معنی یہ ہے کہ وہ سارے گروہ خوارج ہی ہوں گے اور یہ بغیر انقطاع کے تسلسل کے ساتھ پیدا ہوتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ قیامت سے قبل دجال کے ساتھ نکلے گا۔
خوارج کی صفات و علامات اور ان کی پہچان کو واضح کرنے والی اِس طویل بحث سے ثابت ہوجاتا ہے کہ عصر حاضر کے دہشت گرد ہی خوارج ہیں۔ ہمارا دینی و ملی فریضہ ہے کہ ہم قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اقوال ائمہ کی روشنی میں ان انسانیت دشمن خونخوار بھیڑیوں کے گھناؤنے چہروں کوپہچانیں اور معاشرے کے سامنے انہیں بے نقاب کریں۔ انہوں نے اپنے مکروہ چہروں پر مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، لیکن اس سے کوئی مغالطہ لاحق نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اپنے سیاہ کارناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ جو روپ بھی چاہیں اپنا لیں، ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ وہ اسلام سے اس طرح نکل چکے ہیں جیسے تیر یا گولی تیز رفتاری کے ساتھ شکار سے نکل جاتی ہے۔ ان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو اسلام اور امت مسلمہ کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔
یاد رہے کہ متقدمین و متاخرین اَئمہ اور اکابر علماء کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ آیات و احادیث کی روشنی میں سفاک و خونخوار دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ باغی ہیں۔ اس لئے ریاستی مشینری پر ان کی بیخ کنی واجب ہے۔ تاہم یہ اَمر واضح رہے کہ ریاستی سطح سے ہٹ کر کسی فرد یا جماعت کو نجی حیثیت میں اِس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنے تئیں امن و امان قائم کرنے کے لیے قانون اپنے ہاتھ میں لے یا ان خوارج کے مقابلے میں خود مسلح ہوکر میدان میں اتر آئے، چاہے ان کی نیت کتنی ہی صاف کیوں نہ ہو۔ اس کے نتائج نہایت بھیانک اور ناقابل تصور ہوں گے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کو قیامت تک ہر دور میں خوارج کے ظاہر ہوتے رہنے اور منظم و مسلح گروہوں کی شکل میں نکلتے رہنے کی اطلاع اپنی پیغمبرانہ پیشین گوئی کے طور پر اسی لئے دے دی تھی کہ ہر زمانے میں مسلمان انہیں پہچان سکیں۔ اور جب ان کا خروج ہو تو سادہ لوح مسلمان ان کی شکلوں، نعروں (slogans) اور شریعت کی ظاہری پابندی کو دیکھ کر دھوکے میں نہ آجائیں اور ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کی کہ ان کی بیخ کنی کی جائے تاکہ خلق خدا ان کے شر سے محفوظ ہو جائے۔ اِسی لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت ریاستی سطح (state level) پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے ان کا قلع قمع کیا تھا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved