گزشتہ سطور میں بیان کی گئی تعریفات اور علامات کی روشنی میں یہ واضح ہوگیا کہ مسلم حکومت اور مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کے خلاف مسلح بغاوت اور دہشت گردی کرنے والے لوگ کسی رعایت کے مستحق نہیں کیونکہ کسی بھی ملک و قوم کی قوت و طاقت اور اِستحکام و دوام کا انحصار اجتماعیت اور مرکزیت پر ہوتا ہے۔
مسلم ریاست اور اجتماعی نظم کے خلاف مسلح بغاوت کس قدر شدید جرم ہے؟ اِس کے بارے میں اللہ تعاليٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْامِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo
المائدة، 5 : 33
’’بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز راہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یا قید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo‘‘
اِس آیت مبارکہ سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ پرامن معاشرے کو مسلح دہشت گردی کے ذریعے خوف زدہ کرنے والوں کا خاتمہ ریاست کے لیے ضروری ہے خواہ ایسے لوگوں کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو۔ اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
من شهر السلاح في فئة الإسلام وأخاف السبيل، ثم ظفر به وقدر عليه، فإمام المسلمين فيه بالخيار إن شاء قتله وإن شاء صلبه وإن شاء قطع يده ورجله.
1. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 51
2. طبری، جامع البيان في تفسير القرآن، 6 : 214
’’جس نے مسلمانوں کی آبادی پر ہتھیار اٹھائے اور راستے کو اپنی دہشت گردی کے ذریعے غیر محفوظ بنایا اور اس پر کنٹرول حاصل کرکے لوگوں کا پرامن طریقے سے گزرنا دشوار کر دیا، تو مسلمانوں کے حاکم کو اختیار ہے کہ چاہے اسے قتل کرے، پھانسی دے یا چاہے تو اس کے ہاتھ، پاؤں کاٹ دے (اور یوں ان کی قوت کو کلیتاً ختم کر دے)۔‘‘
امام طبری اور حافظ ابن کثیر نے مزید لکھا ہے کہ سعید بن مسیب، مجاہد، عطاء، حسن بصری، ابراہیم النخعی اور ضحاک نے بھی اسی معنی کو روایت کیا ہے۔
اسی کو امام سیوطی نے بھی ’’الدر المنثور (3 : 68)‘‘ میں روایت کیا ہے۔
امام قرطبی نے ’’الجامع لاحکام القرآن (6 : 148)‘‘ میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک ایسے گروہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مدینہ منورہ کے باہر دہشت گردی کا ارتکاب کیا، قتل ناحق اور املاک لوٹنے کے اقدامات کیے جس پر انہیں سخت عبرت ناک سزا دی گئی۔
اِس آیت سے یہ مفہوم بھی اخذ ہوتا ہے کہ راہزنی کرنے والوں کو سزائے موت دینا جائز ہے۔ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی لکھتے ہیں :
أجمعوا علی أن المراد بالمحاربين المفسدين فی هذه الآية قطاع الطريق سواء کانوا مسلمين أو من أهل الذمة. واتفقوا علی أن من برز وشهر السلاح مخيفا مغيرا خارج المصر بحيث لا يدرکه الغوث، فهو محارب قاطع للطريق جارية عليه أحکام هذه الآية.... وقال البغوی : المکابرون فی الأمصار داخلون فی حکم هذه الآية.
قاضی ثناء اﷲ، تفسير المظهری، 3 : 86
’’اس پر تمام مفسرین کا اجماع ہے کہ اس آیت میں محاربین سے مراد فساد بپا کرنے والے راہزن ہیں؛ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، سب کے لئے حکم برابر ہے۔ اس پر بھی اتفاق ہے کہ جو کھل کر ہتھیار اٹھالیں، شہر سے باہر لوگوں کو خوفزدہ کریں اور غارت گری کریں جہاں کوئی مددگار بھی نہ پہنچ سکے، ایسا شخص دہشت گرد، جنگجو (terrorist & militant) اور راہزن ہے۔ اُس پر اس آیت کے احکام جاری ہوں گے۔۔۔۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ : شہری آبادیوں میں دہشت گردی کرنے والے بھی اس آیت کے حکم میں شامل ہیں۔‘‘
علامہ زمخشری نے اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے :
يُحَارِبُون رسُول اﷲ، ومحاربة المُسْلِمِين فی حکم مُحَارَبَتِه.
زمحشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1 : 661
’’ يُحَارِبُون رسُول اﷲِ (یعنی) مسلمانوں کے ساتھ جنگ بپا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرنے کے حکم میں ہے۔‘‘
علامہ ابو حفص حنبلی، علامہ زمخشری کی مذکورہ بالا عبارت تحریر کرنے کے بعد مزید لکھتے ہیں :
أنَّ المقصود أنَّهم يُحَارِبون رَسُول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وإنما ذکر اسْم اﷲ. تبارک وتعالی. تَعْظِيماً وتَفْخِيماً لمن يُحَارَبُ، کقوله تعالی : ﴿إِنَّ الذین يُبَايِعُونَکَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اﷲِ﴾(1) - (2)
(1) الفتح، 48 : 10
(2) أبو حفص الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب، 7 : 303
’’مقصد یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں اور (اس آیت میں) اللہ تعاليٰ کا اسم مبارک جنگ کا نشانہ بننے والوں کی عظمت اور قدر و منزلت بڑھانے کے لئے مذکور ہوا ہے جیسا کہ ﴿إِنَّ الذين يُبَايِعُونَکَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اﷲِ﴾ میں بھی یہی انداز بیان اختیار کیا گیا ہے۔‘‘
امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے آیت مذکورہ سے استنباط کرتے ہوئے دہشت گردی کو اﷲ تعاليٰ، اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عام مسلمانوں کے خلاف جنگ کے مترادف قرار دیا ہے :
سمی قاطع الطريق محاربا ﷲ لأن المسافر معتمد علی اﷲ تعالی. فالذی يزيل أمنه محارب لمن اعتمد عليه فی تحصيل الأمن. وأما محاربته لرسوله صلی الله عليه وآله وسلم فإما باعتبار عصيان أمره وإما باعتبار أن الرسول هو الحافظ لطريق المسلمين والخلفاء والملوک بعده نوابه. فإذا قطع الطريق التی تولی حفظها بنفسه ونائبه فقد حاربه. أو هو علی حذف مضاف أي يحاربون عباد اﷲ.
ابن همام، فتح القدير، 5 : 177
’’آیت مذکورہ بالا میں راہزن کو بھی اﷲ تعاليٰ کے ساتھ جنگ کرنے والا کہا گیا ہے کیونکہ مسافر اﷲ تعاليٰ کی ذات پر بھروسہ کئے ہوئے ہوتا ہے۔ اور وہ شخص جو اس کا امن برباد کرتا ہے گویا وہ اس ذات کے ساتھ بر سرپیکار ہوتاہے جس پر وہ مسافر حصولِ امن کی خاطر اعتماد کئے ہوئے تھا اور رہا اس کا رسول معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ برسرِپیکار ہونا تو وہ اس لئے ہے کہ اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کی ہے۔ یا اس لئے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے راستوں کے محافظ و نگہبان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ کے خلفاء اور مسلمان حکمران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب ہیں۔ پس جب وہ راستہ روکا گیا جس کی حفاظت کا ذمہ خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اٹھایا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائبین یعنی مسلم حکومتوں نے تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا۔ یا یہاں عبارت حذفِ مضاف کے ساتھ ہے اور اصل عبارت میں ’’یحاربون عباد اﷲ‘‘ ہے یعنی وہ اللہ تعاليٰ، اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعاليٰ کے بندوں کے ساتھ جنگ کرتے ہیں۔‘‘
مذکورہ بالا نصوص سے صراحت کے ساتھ ثابت ہوگیا کہ دہشت گرد اللہ تعاليٰ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جملہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بغاوت کا جرم ایک سنگین اور ناقابلِ تلافی جرم کہلاتا ہے۔
آیت مبارکہ اور اس کے ذیل میں کی گئی تشریحات میں قاطع الطریق یعنی راہزن اور ڈاکو کو بھی باغی اور واجب القتل قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ راستوں پر قبضہ کر کے مخلوق خدا کو پریشان کرتا ہے۔ موجودہ حالات میں اس جرم کا اطلاق ان کارروائیوں پر بھی ہوتا ہے جن میں دہشت گرد کسی شارع، کسی علاقے، کسی مسجد، سکول یا عمارت پر قبضہ کر کے وہاں کے لوگوں کو یرغمال بنالیتے ہیں۔
دہشت گردی، فساد انگیزی کی ایسی شکل ہے جس کی وجہ سے عامۃ الناس اذیت کی موت سے دو چار ہوتے ہیں اور بہت سے خوف و ہراس اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسا فتنہ ہے جو پورے معاشرے کو خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ دہشت گرد چونکہ غلط اور بے بنیاد تاویل کے سہارے عوام الناس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے ان کے یہ جملہ اقدامات فتنے کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعاليٰ نے ان فتنہ گر دہشت گردوں کو انسانیت کا قاتل بلکہ اس سے بھی بڑے گناہ کا مرتکب قرار دیا ہے، ارشاد باری تعالی بڑا واضح اور صریح ہے :
وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ.
البقرة، 2 : 191
’’اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت (جرم) ہے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرکز گریز قوتوں کی سخت حوصلہ شکنی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملک و ریاست کے خلاف خروج و بغاوت اور افرادِ معاشرہ کو بلاامتیاز قتل کرنے والوں کو مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً کہہ کر گمراہ (misguided) اور فَلَيْسَ مِنِّی فرما کر اُمت سے خارج کر دیا ہے۔ ایسے باغی دہشت گردوں اور فسادیوں کی سزا خود شارع علیہ السلام نے متعین فرمائی ہے اور ائمہ دین نے اپنے اپنے ادوار میں فتاويٰ بھی جاری کیے ہیں۔
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باغی کے لئے بڑی سخت وعید سنائی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ، مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً، وَمَنْ قَاتَلَ تَحْتَ رَايَةٍ عِمِّيَّةٍ يَغْضَبُ لِعَصَبَةٍ أَوْ يَدْعُوْ إِلَی عَصَبَةٍ أَوْ يَنْصُرُ عَصَبَةً فَقُتِلَ فَقِتْلَةٌ جَاهِلِيَّةٌ، وَمَنْ خَرَجَ عَلَی أُمَّتِي يَضْرِبُ بَرَّهَا وَفَاجِرَهَا وَلَا يَتَحَاشَی مِنْ مُؤْمِنِهَا وَلَا يَفِي لِذِي عَهْدٍ عَهْدَهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَلَسْتُ مِنْهُ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن،
3 : 1476، 1477، رقم : 1848
2. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب التغليظ فيمن
قاتل تحت راية عميه،
7 : 123، رقم : 4114
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 296، 488
’’جو شخص مسلم ریاست کے نظم اجتماعی سے نکل جائے (یعنی اس کی اتھارٹی کو چیلنج کرے) اور اجتماعیت کو چھوڑ کر الگ گروہ بنالے۔ پھر مر جائے تو (سمجھ لیجیے کہ) وہ جاہلیت کی موت مرا۔ اور جو شخص اندھی تقلید میں کسی کی زیر قیادت جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بناء پر غضب ناک ہو یا عصبیت کی طرف دعوت دے یا عصبیت کی خاطر جنگ کرے اور مارا جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ اور جس شخص نے میری اُمت پر خروج کیا اور (ریاست سے بغاوت کرکے الگ لشکر اور جتھے بنا کر بِلا اِمتیاز) نیک اور برے سب لوگوں کو قتل کیا، کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی سے کیا ہوا عہد پورا کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی میرا اُس سے کوئی تعلق ہے (یعنی وہ میری اُمت سے نہیں اور نہ ہی میں اس کے لیے رحیم وشفیع ہوں گا)۔‘‘
اِس حدیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ و جدال میں اندھی تقلید اور عصبیت کو قومی وحدت کے لئے نہایت مہلک قرار دیا ہے۔ اِس تعصب اور انتہا پسندی کی بنا پر اگر کوئی امت مسلمہ کی اکثریت (large majority) سے جنگ کرے یا مسلمانوں پر اسلحہ اُٹھائے تو اُسے نہ صرف جاہلیت کی موت مرنے والا قرار دیا بلکہ اُسے اپنی اُمت سے بھی خارج کر دیا ہے۔
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ لَقِيَ اﷲَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن،
3 : 1478، رقم : 1851
2. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 156
’’جس شخص نے مسلمان حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم نہ کیا (اور بلاعذر شرعی) باغی ہو گیا تو وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس حال میں آئے گا کہ اس کے پاس (اس بغاوت پر) کوئی قابلِ قبول دلیل نہ ہو گی اور جو شخص اس حال میں فوت ہوگیا کہ وہ مسلم ریاست کا باغی تھا سو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘
3۔ بغاوت کس قدر ناپسندیدہ فعل ہے، اس حوالے سے امام بیہقی نے شعب الایمان میں درج ذیل منفرد نوعیت کی روایت بیان کی ہے جو سیدنا عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
لَوْ بَغَی جَبَلٌ عَلی جَبَلٍ لَجَعَلَ اﷲ عزوجل البَاغِيَ مِنْهُمَا دَکًّا.
1. بيهقی، شعب الإيمان، 5 : 291، رقم : 6693
2. ذهبی، الکبائر، 1 : 603
3. سيوطی، الدر المنثور، 4 : 353
’’اگر ایک پہاڑ کسی پہاڑ پر بغاوت کرے تو اﷲ رب العزت بغاوت کرنے والے پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کر د ے گا۔‘‘
امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’بدائع الصنائع‘‘ میں ایسے باغی گروہوں کی سزا کا تعین کرتے ہوئے بڑی صراحت کے ساتھ لکھا ہے :
إن علم الإمام أن الخوارج يشهرون السلاح ويتأهبون للقتال، فينبغی له أن يأخذهم ويحبسهم حتی يقلعوا عن ذلک ويحدثوا توبة. لأنه لو ترکهم لسعوا فی الأرض بالفساد فيأخذهم علی أيديهم. ولا يبدؤهم الإمام بالقتال حتی يبدؤه لأن قتالهم لدفع شرهم لا لشر شرکهم. لأنهم مسلمون فما لم يتوجه الشرمنهم لا يقاتلهم. وإن لم يعلم الإمام بذلک حتی تعسکروا و تأهبوا للقتال، فينبغی له أن يدعوهم إلی العدل والرجوع إلی رأی الجماعة أولا لرجاء الإجابة وقبول الدعوة کما في حق أهل الحرب. وکذا روی أن سيدنا عليا رضی الله عنه لما خرج عليه أهل حروراء ندب إليهم عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنهما ليدعوهم إلی العدل. فدعاهم وناظرهم فان أجابوا کف عنهم وإن أبوا قاتلهم لقوله تعالی : ﴿فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰهُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰی تَفِيْئَ اِلٰی اَمْرِ اﷲِ﴾(1) وکذا قاتل سيدنا علی رضی الله عنه أهل حروراء بالنهروان بحضرة الصحابة رضی الله عنهم.(2)
(1) الحجرات، 49 : 9
(2) کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 140
’’اگر حکومت کو یہ معلوم ہو جائے کہ شرپسندوں نے مسلح جد و جہد شروع کر دی ہے اور وہ جنگ کے لیے تیاری کر رہے ہیں تو ہیئتِ مقتدرہ پر لازم ہے کہ ان کو گرفتار کرے اور قید کرے یہاں تک کہ وہ اس باغیانہ عمل سے باز آجائیں اور توبہ کریں کہ وہ دوبارہ اس طرح کا عمل نہیں کریں گے۔ اگر حکومت نے انہیں ڈھیل دی تو وہ مزید دہشت گردی کے مرتکب ہوں گے۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ بروقت انہیں روکے۔ اور حکومت خود جنگ کا آغاز نہ کرے یہاں تک کہ وہ جنگ میں پہل کریں کیونکہ ان کے ساتھ جنگ ان کے شر کو ختم کرنے کے لئے ہوگی۔ ہاں اگر ان سے شر کا خطرہ نہ ہو تو ان کے ساتھ جنگ نہ کی جائے اور اگر حکومت کو ان کی ریشہ دوانیوں کا علم نہ ہو یہاں تک کہ وہ (تخریبی کارروائیوں کے لئے) اپنے ٹھکانے بنا لیں، جنگ کی تیاری کر لیں اور افرادی قوت جمع کر لیں تو حکومت کو چاہیے کہ انہیں سب سے پہلے راہ راست کی طرف بلائے اور انہیں اجتماعی رائے کی طرف لوٹنے کی دعوت دے، جیسا کہ اہلِ حرب کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ جس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اہلِ حروراء (خوارج) کی بغاوت کے خلاف کارروائی کرنے سے پہلے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کو مندوب بنا کر بھیجا تاکہ وہ انہیں عدل و انصاف کی دعوت دیں۔ پس حکومت اسی طرح انہیں دعوت دے اور ان کے ساتھ مذاکرات کرے۔ اگر وہ مثبت جواب دیں تو ان کے ساتھ جنگ کرنے سے رک جائے اور اگر وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کریں تو ان کے ساتھ کھلی جنگ کرے۔ اس کی جنگ اﷲ تعاليٰ کے اس قول کے مطابق درست ہوگی جس میں فرمایا گیا : (اور اگر مسلمانوں کے دوگروہ آپس میں جنگ کریں تو اُن کے درمیان صلح کرا دیا کرو، پھر اگر ان میں سے ایک (گروہ) دوسرے پر زیادتی اور سرکشی کرے تو اس (گروہ) سے لڑو جو زیادتی کا مرتکب ہورہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ تعاليٰ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔) اِسی طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں نہروان کے مقام پر اہلِ حروراء کے ساتھ جنگ کی۔‘‘
جن لوگوں کو موجودہ حالات میں مسلح دہشت گردوں کی ملک دشمن کارروائیوں کے پس پردہ ’’جہاد‘‘ کا شائبہ ہوتا ہے انہیں اطمینان قلب ہو جانا چاہئے کہ کلمہ گو اور پرامن لوگوں کی جانیں لینا کوئی جہاد نہیں بلکہ یہ جہاد جیسے اعليٰ دینی تصور کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ تاریخ اسلام میں جس طرح بغاوت کو قطعی جرم کے طور پر ممنوع سمجھا گیا آج بھی مسلح باغیوں کو ملک و قوم کا دشمن سمجھنا ہی دِین داری ہے۔
ایک مسلمان کو کسی بھی صورت میں مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کے خلاف بغاوت کی اجازت نہیں۔ جو لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں مسلم ریاست اور ہیئتِ اجتماعی کے خلاف کسی بھی قسم کی پرتشدد، فساد انگیز اور مسلح کارروائیاں کرتے ہیں وہ باغی اور دہشت گرد ہیں۔ ان سے عام مسلمانوں کو حتی المقدور الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے، اس ضمن میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں جلیل القدر صحابی رسول حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کَانَ النَّاسُ يَسْأَلُوْنَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ الْخَيْرِ، وَکُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِکَنِي. فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّا کُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَاءَ نَا اﷲُ بِهٰذَا الْخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هٰذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ : نَعَمْ. فَقُلْتُ : هَلْ بَعْدَ ذَالِکَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَفِيْهِ دَخَنٌ. قُلْتُ : وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ : قَوْمٌ يَسْتَنُّوْنَ بِغَيْرِ سُنَّتِي وَيَهْدُوْنَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْکِرُ. فَقُلْتُ : هَلْ بَعْدَ ذَالِکَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ؟ قَالَ : نَعَمْ، دُعَاةٌ عَلَی أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوْهُ فِيْهَا. فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، صِفْهُمْ لَنَا. قَالَ : نَعَمْ قَوْمٌ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَکَلَّمُوْنَ بِأَلْسِنَتِنَا. قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَمَا تَرَی إِنْ أَدْرَکَنِي ذَالِکَ؟ قَالَ : تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْنَ وَإِمَامَهُمْ. فَقُلْتُ : فَإِنْ لَمْ تَکُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ؟ قَالَ : فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّهَا، وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَی أَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّی يُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَی ذَالِکَ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام،
3 : 1319، رقم : 3411
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن،
3 : 1475، رقم : 1847
’’لوگ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (حصول علم کے لئے) شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، اس خوف سے کہ کہیں میں اس شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہم زمانہ جاہلیت میں میں مبتلاء تھے، پھر اﷲ تعاليٰ (آپ کے توسط سے) ہمارے پاس اس خیر کو لے آیا، کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! میں نے عرض کیا : کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، لیکن اس خیر میں کچھ کدورت اور ملاوٹ ہو گی۔ میں نے عرض کیا : وہ کدورت کیسی ہوگی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اکثر لوگ میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میری ہدایت کے خلاف عمل کریں گے۔ ان میں اچھی اور بری دونوں باتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا : کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں کچھ لوگ خود جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہوں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی اسی طرف بلائیں گے، جو ان کی دعوت پر لبیک کہے گا وہ اس کو جہنم میں ڈال دیں گے! میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی صفت بیان کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان لوگوں کا رنگ ڈھنگ، جلد اور چہرہ وغیرہ ہماری طرح ہوگا اور وہ ہماری ہی زبان (یعنی مسلمانوں والی زبان) بولتے ہوں گے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اگر میں ان کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم مسلمانوں کی حکومت اور مسلمانوں کی ہیئت اِجتماعی کے ساتھ وابستہ رہنا، میں نے عرض کیا : اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت اور حکمران صالح نہ ہوں (تو پھر کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر بھی تم ان تمام (باغی) گروہوں سے الگ رہنا خواہ تمہیں تاحیات درخت کی جڑیں چبا کر ہی گزارا کرنا پڑے اور تمہیں اسی حال میں موت آجائے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے چند امور بطور خاص مستنبط ہوتے ہیں جن کا تعلق براہ راست موضوع زیربحث سے ہے :
مذکورہ بالا حدیث مبارکہ اور اس جیسی دیگر احادیث کے حوالے سے قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
وأحاديث مسلم التی أدخل فی الباب کلها حجة فی منع الخروج علی الأمراء الجورة ولزوم طاعتهم.
قاضی عياض، إکمال المعلم بفوائد مسلم، 6 : 256، 257
’’اس مسئلہ میں وارد ہونے والی صحیح مسلم کی تمام احادیث مسلمان حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی ممانعت اور اُس کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے پر حجت ہیں خواہ وہ حکومت خود غیر منصفانہ ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کے ظلم و جبر اور ناانصافی کے خلاف تمام پُراَمن آئینی، جمہوری اور شرعی و قانونی طریقے بروئے کار لائے جانے چاہئیں مگر جو طریقہ ممنوع ہے وہ صرف بغاوت، مسلح جدوجہد اور دہشت گردی کا طریقہ ہے۔
یہ امر سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور مسلح جدوجہد کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے باقاعدہ ضابطے شریعت نے وضع کر دیے ہیں۔ ابو البختری سے روایت ہے کہ حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا :
أَلاَ نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَنَنْهَی عَنِ الْمُنْکَرِ؟ قَالَ : إِنَّهُ لَحَسَنٌ وَلَکِنْ لَيْسَ مِنَ السُّنَّةِ أَنْ تَرْفَعَ السِّلَاحَ عَلٰی إِمَامِکَ.
1. ابن ابی شيبة، المصنف، 7 : 508، رقم : 37613
2. بيهقی، شعب الإيمان، 6 : 62، 63
’’کیا ہم نیکی کا حکم نہ دیں اور برائی سے منع نہ کریں؟ انہوں نے فرمایا : میں اس کام سے کب روک رہا ہوں، یہ تو بہت اچھی بات ہے، مگر تیرا اپنی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانا تو سنت نہیں ہے (یعنی یہ دہشت گردی اور بغاوت ہے نہ کہ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر)۔‘‘
گویا ’’اَمر بالمعروف‘‘ اور ’’نہی عن المنکر‘‘ کا سارا کام مکمل طور پر پرامن ہے، اس میں کہیں بھی تشدد کی گنجائش نہیں ہے۔
فقہاء نے کسی مخصوص عصبیتی نعرہ کی بنیاد پر قتل و غارت گری کرنے والے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کو حکومت کا فرض قرار دیا ہے۔ فتاويٰ تاتارخانیۃ میں عالم بن علاء الاندریتی نے لکھا ہے :
إذا أظهرت جماعة من أهل القبلة رأيًا ودعت إليه، وقاتلت عليه وصارت لهم منعة وشوکة وقوة. فإن کان ذلک لظلم السلطان في حقهم، فينبغي أن لا يظلمهم. فإن کان لا يمتنع من الظلم فقاتلت تلک الطائفة السلطان. فلا ينبغي للناس أن يعينوهم ولا أن يعينوا السلطان وإن لم يکن لأجل أنه ظلمهم ولکنهم قالوا : ’’الحق معنا‘‘ وادعوا الولاية : فللسطان أن يقاتلهم وللناس أن يعينوه.
اندريتي، الفتاوی التاتارخانية، 4 : 172
’’اہلِ قبلہ یعنی مسلمانوں میں سے جب کوئی گروہ کوئی مخصوص نعرہ بلند کرے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے اور اس کی خاطر جنگ کرے اور انہیں قوت و طاقت بھی حاصل ہو۔ اگر ان کا یہ عمل حکومت کی طرف سے ان پر کئے جانے والے ظلم و زیادتی کی وجہ سے ہو تو چاہئے کہ حکومت ان پر ظلم و زیادتی نہ کرے۔ پس اگر حکومت ان پر ظلم سے باز نہ آئے اور وہ حکومت کے ساتھ نبرد آزما ہوں تو عام لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ باغی دہشت گردوں کی مدد کریں اور نہ ہی حکومت کی مدد کریں اور اگر باغیوں کا یہ عمل اس سبب سے نہ ہو کہ حکومت نے ان پر پہلے سے کوئی ظلم و زیادتی کی ہے بلکہ ان کا اقدام اس نظریہ کے تحت ہو کہ ’’حق صرف ہمارے ساتھ ہے (یعنی ہم ہی حق اور دین پر ہیں)‘‘ اور وہ طاقت سے حکومت یا غلبہ حاصل کرنا چاہیں تو حکومت کا یہ حق ہے کہ وہ اپنا نظم اور اتھارٹی بحال کرنے کے لئے ان سے جنگ کرے اور عوام کو بھی چاہئے کہ وہ اس صورت میں حکومت کا ساتھ دیں۔‘‘
درج بالا فتاويٰ میں باغیوں کی غلط تاویلات میں ایک بڑا دعويٰ یہ بھی ہے کہ وہ صرف خود کو حق کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اپنے اقدامات کو شرعی رنگ دینے کے لئے الحق معنا کا نعرہ لگاتے ہیں۔ الحق معنا کا معنی یہ ہے کہ حق پر صرف ہم ہی ہیں، ہمارے علاوہ سب لوگ کافر، مشرک اور گمراہ ہیں۔ آج کل انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کا نظریہ بلکہ عقیدہ ہی یہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنے موقف کو عین اسلام، عین قرآن و سنت، عین شریعت اور عین حق سمجھتے ہیں جبکہ بقیہ تمام مسلمانوں کو۔ جو ان کے نظریات سے متفق نہیں ہیں۔ اور سب مسلمان حکمرانوں اور حکومتوں کو۔ جو کاملاً قرآن و سنت کے مطابق نظام نہیں چلا رہے اور ان کے نظام ہائے حکومت خیر و شر کا مجموعہ ہیں۔ کافر و مشرک اور کم از کم گمراہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نظام ہاے حکومت کو، جمہوری اداروں کو، انتخابات اور جمہوری نظام کو الغرض ہر شے کو علی الاطلاق کفر سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف مسلح جدوجہد اور بغاوت کو جہاد قرار دیتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ حکومتی نمائندوں کا قتل عام جائز اور عوام کا خون مباح گردانتے ہیں۔ پھر اپنے مقاصد کے حصول کی جد و جہد کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لوٹ مار، اغواء برائے تاوان اور ڈاکہ زنی کو بھی جائز سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ ’’کفر اور کفار کے خلاف حالت جنگ‘‘ میں ہیں۔ لہٰذا اس میں ہر عمل جائز ہے خواہ وہ خودکش حملہ ہو یا مساجد و مکانات کی تباہی، انسانی خون ہو یا املاک و اموال کا لوٹنا۔ حالاں کہ یہ سب کچھ صریح گمراہی و ضلالت اور دہشت گردی و بغاوت ہے۔ ان کے اس عمل اور رویے پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درج ذیل ارشادِ گرامی بنیادی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إنما أتخوف عليکم رجلٌ قرأ القرآن حتی إذا رئيت عليه بهجته عليه. وکان رداء الإسلام غيره إلی ماَ شاء اﷲ، فانسلخ منهُ ونبذه وراء ظهره. وسعی علی جاره بالسيف ورماه بالشرک، قال : قلتُ : يا نبی اﷲ! أَيُّهُمَا أَوْلَی بالشرک؟ المرمِيُّ أم الرَّامِي؟ قَالَ : بل الرامي.
1. ابن حبان، الصحيح، 1 : 282، رقم : 81
2. بزار، المسند، 7 : 220، رقم : 2793
’’بے شک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسا آدمی ہوگا جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ اس پر قرآن کا جمال دیکھا گیا اور وہ اس وقت تک جب تک اﷲتعالی نے چاہا اسلام کی پشت پناہی بھی کرتا تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ اس کا خول اتر گیا اور اس نے قرآن کو بھی پس پشت ڈال دیا۔ پھر وہ اپنے پڑوسی یعنی دوسرے مسلمان پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا اور اس پر شرک کا الزام لگانے لگا۔ (راوی بیان کرتے ہیں : ) میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ان دونوں میں سے کون شرک سے زیادہ قریب ہے؛ شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلکہ شرک کا الزام لگانے والا (خود شرک کے قریب ہو گا)۔‘‘
عالم اسلام کو اس وقت جس تفرقہ پرستی کا سامنا ہے اور مسلمان کم و بیش دنیا کے ہر خطے میں جس مسئلے کی وجہ سے پریشان اور منقسم ہیں وہ بنیادی مسئلہ شرک کی الزام تراشی کا رجحان ہے۔ وطن عزیز سمیت یورپ، امریکہ اور مشرق وسطيٰ کے بیشتر مسلمانوں کو مخصوص انتہاء پسندوں کی طرف سے اسی شورش کا سامنا ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہر دوسرے مسلمان کو مشرک اور کافر قرار دے رہے ہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک 1400 سالہ تاریخ اسلام میں دین کی مخلصانہ خدمات سرانجام دینے والے صوفیاء، اولیاء اور بزرگان دین سب کے سب اسلام کی خدمت نہیں بلکہ شرک سازی کرتے رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ ہدایت یافتہ ہیں اور پچھلی نسلوں کے بزرگ جاہل، مشرک اور بدعتی تھے۔ حالاں کہ ان کا اپنا عمل یہ ہے کہ ان کی انتہا پسندانہ کارروائیوں کی وجہ سے دوسری اقوام اسلام سے متنفر ہو رہی ہیں اور مسلمان آپس میں دست و گریبان ہو کر امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر رہے ہیں۔ یہ حدیث مبارکہ ان کی زعمِ باطل اور گمراہانہ رعونت کی بہت خوب تشریح کر رہی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved