ذیل میں ہم جائزہ لیں گے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار میں غیر مسلم شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کا انتظام کیسا تھا۔
غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ جس انداز میں عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مواثیق، معاہدات اور فرامین کے ذریعے اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرما دی تھی۔ عہدِ نبوی میں اہلِ نجران سے ہونے والا معاہدہ مذہبی تحفظ اور آزادی کے ساتھ ساتھ جملہ حقوق کی حفاظت کے تصور کی عملی وضاحت کرتا ہے۔ اِسے امام ابو عبید قاسم بن سلام، امام حمید بن زنجویہ، ابن سعد اور بلاذری سب نے روایت کیا ہے۔ اِس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحریری فرمان جاری فرمایا تھا :
وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِيَتِهَا ذِمَّة اﷲِ وَذِمَّة مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُوْلِ اﷲِ، عَلَی دِمَائِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَأَرْضِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَرهبانيتهم وأساقِفَتِهِمْ وَغَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ وَغَيْرِهِمْ وَبَعْثِهِمْ وَأَمْثِلَتِهِمْ، لَا يُغَيَرُ مَا کَانُوْا عَلَيْهِ، وَلَا يُغَيَرُ حَقُّ مِنْ حُقُوقِهِمْ وَأَمْثِلَتِهِمْ، لَا يُفْتَنُ أُسْقُفٌ مِنْ أُسْقُفِيَتِهِ، وَلَا رَاهِبٌ مِنْ رَهْبَانِيَتِهِ، وَلَا واقف مِنْ وقافيته، عَلَی مَا تَحْتَ أَيْدِيْهِمْ مِنْ قَلِيْلٍ أَوْ کَثِيْرٍ، وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ رَهَقُ.
1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 288، 358
2. أبو يوسف، کتاب الخراج : 78
3. أبو عبيد قاسم، کتاب الأموال : 244، 245، رقم : 503
4. ابن زنجويه، کتاب الأموال : 449، 450، رقم : 732
5. بلاذری، فتوح البلدان : 90
’’اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اُن کے خون، ان کی جانوں، ان کے مذہب، ان کی زمینوں، ان کے اموال، ان کے راہبوں اور پادریوں، ان کے موجود اور غیر موجود افراد، ان کے مویشیوں اور قافلوں اور اُن کے استھان (مذہبی ٹھکانے) وغیرہ کے ضامن اور ذمہ دار ہیں۔ جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ نہ کسی پادری کو، نہ کسی راہب کو، نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادت گاہ کے خادم کو۔ خواہ اس کا عہدہ معمولی ہو یا بڑا۔ اس سے نہیں ہٹایا جائے گا، اور ان کو کوئی خوف و خطر نہ ہوگا۔‘‘
امام حمید بن زنجویہ نے بیان کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بھی عہد صدیقی میں یہی معاہدہ نافذ العمل رہا، پھر عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں حالات کی تبدیلی کے پیش نظر کچھ ترامیم کی گئیں مگر غیر مسلموں کے مذکورہ بالا حقوق کی حفاظت و ذمہ داری کا وہی عمل کامل روح کے ساتھ برقرار رہا۔
اِسی طرح حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے موقع پر بھی یہود کے اموال و املاک کے بارے میں اعلان فرمایا، جسے امام احمد، امام ابو داؤد، امام طبرانی اور دیگر ائمہ حدیث و سِيَر نے روایت کیا ہے :
عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ رضی الله عنه، قَالَ : غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم غَزْوَةَ خَيْبَرَ، فَأَسْرَعَ النَّاسُ فِيِحَظَائِرِ يَهُودَ، فَأَمَرَنِي أَنْ أُنَادِيَ الصَّلَاة.... ثُمَّ قَالَ : أَيُهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ قَدْ أَسْرَعْتُمْ فِي حَظَائِرِ يَهُودَ. أَلَا! لَا تَحِلُّ أَمْوَالُ الْمُعَاهَدِينَ إِلَّا بِحَقِّهَا.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 89، رقم : 16862
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب النهی عن أکل السباع، 3 : 356، رقم
: 3806
3. ابن زنجويه، کتاب الأموال : 379، رقم : 618
’’حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوۂ خیبر میں موجود تھے۔ لوگ (مجاہدین) جلدی میں یہود کے بندھے ہوئے جانور بھی لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا۔۔۔۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! تم جلدی میں یہود کے بندھے ہوئے جانور بھی لے گئے ہو۔ خبرادار! سوائے حق کے غیر مسلم شہریوں کے اموال سے لینا حلال نہیں ہے۔‘‘
یہی روایت ان الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے :
أَلَا! وَإِنّيْ أُحَرِّمُ عَلَيْکُمْ أَمْوَالَ الْمُعَاهِدِيْنَ بِغَيْرِ حَقِّهَا.
1. طبرانی، المعجم الکبير، 4 : 111، رقم : 3828
2. ابن زنجويه، کتاب الاموال : 380، رقم : 619
’’خبردار! میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام کرتا ہوں۔‘‘
امام دارقطنی نے ان الفاظ سے اس روایت کو بیان کیا ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
حَرَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ خَيْبَرَ أَمْوَالَ الْمُعَاهَدِينَ.
دارقطنی، السنن، 4 : 287، رقم : 63
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر غیر مسلم شہریوں کے اموال پر قبضہ کرنا حرام قرار دے دیا۔‘‘
دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان معاہدات، دستاویزات اور اعلانات سے اقلیتوں کے حقوق کا درج ذیل خاکہ سامنے آتا ہے :
غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا یہ اہتمام صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :
1۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں غیر مسلم شہریوں کو مسلمانوں ہی کی طرح حقوق اور تحفظ حاصل تھا۔ آپ کے دور میں جب اسلامی لشکر روانہ ہوتا تو آپ سپہ سالار کو حسب ذیل احکام اور ہدایات ارشاد فرماتے :
وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَلَا تَعْصَوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ... وَلَا تَغْرِقُنَّ نَخْلًا وَلَا تُحْرِقُنَّهَا، وَلَا تَعْقِرُوْا بَهِيْمَةً وَلَا شَجَرَةً تُثْمِرُ، وَلَا تَهْدِمُوْا بِيْعَةً، وَلَا تَقْتُلُوا الْوِلْدَانَ وَلَا الشُّيُوْخَ وَلَا النِّسَاءَ. وَسَتَجِدُوْنَ أَقْوَامًا حَبَسُوْا أَنْفُسَهُمْ فِی الصَّوَامِعِ، فَدَعُوْهُمْ، وَمَا حَبَسُوْا أَنْفُسَهُمْ لَه.
1. بيهقی، السنن الکبریٰ، 9 : 85
2. مالک، الموطا، 2 : 448، رقم : 966
3. عبد الرزاق، المصنف، 5 : 199
4. هندی، کنز العمال، 1 : 296
5. ابن قدامه، المغنی، 8 : 451، 452، 477
’’خبردار! زمین میں فساد نہ مچانا اور احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا۔۔۔۔ کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلانا، چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھلدار درختوں کو کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا۔ تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔‘‘
2۔ علامہ حسام الدین ہندی نے ’’کنز العمال‘‘ میں مذکورہ روایت کو نقل کر تے ہوئے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے :
وَلَا مَرِيْضًا وَلَا رَاهِبًا.
هندی، کنز العمال، 4 : 474، رقم : 11409
’’اور نہ کسی مریض کو اور نہ ہی کسی پادری کو قتل کرنا۔‘‘
3۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو شام بھیجتے ہوئے جو احکامات صادر فرمائے، ان میں آپ نے یہ بھی حکم فرمایا تھا :
وَلَا تَهْدِمُوْا بِيْعَةً... وَلَا تَقْتُلُوْا شَيْخًا کَبِيْرًا، وَلَا صَبِيًّا وَلَا صَغِيْرًا وَلَا امْرَأَةً.
حسام الدين هندی، کنز العمال، 4 : 475، رقم : 11411
’’اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو منہدم نہ کرنا۔۔۔ اور نہ بوڑھوں کو قتل کرنا، نہ بچوں کو، نہ چھوٹوں کو اور نہ ہی عورتوں کو (قتل کرنا)۔‘‘
4۔ حضرت ثابت بن الحجاج الکلابی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
أَلَا! لَا يُقْتَلُ الرَّاهِبُ فِی الصومعة.
1. ابن أبی شيبة، المصنف، 6 : 483، رقم : 33127
2. هندی، کنز العمال، 4 : 472
’’خبر دار! کسی گرجا گھر کے پادری کو قتل نہ کیا جائے۔‘‘
5۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جب خلیفۂ اوّل سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر دمشق اور شام کی سرحدوں سے عراق اور ایران کی طرف لوٹے تو راستے میں باشندگان عانات کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ :
أبو يوسف، کتاب الخراج : 158
عہد فاروقی میں بھی غیر مسلم شہریوں کے تحفظ اور حقوق کے ساتھ ساتھ نفسِ انسانی کے احترام اور وقار میں اس قدر اضافہ ہوا کہ مفتوحہ علاقوں کے غیر مسلم شہری اسلامی ریاست میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ اور آزاد سمجھتے تھے۔ اس کا اعتراف مشہور مستشرق (orientalist) منٹگمری واٹ (Montgomery Watt) نے بھی کیا ہے :
The Christians were probably better off as dhimmis under Muslim Arab rulers than they had been under the Byzantine Greeks.
Watt, Islamic Political Thought : The Basic Concepts, p. 51.
’’عیسائی، عرب مسلم حکمرانوں کے دورِ اقتدار میں بطور غیر مسلم شہری اپنے آپ کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی رعیت میں رہنے سے زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھتے تھے۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں غیر مسلم شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا اندازہ ہمیں آپ رضی اللہ عنہ کے حسبِ ذیل ارشادات اور معمولات سے ہوتا ہے :
1۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا اس میں منجملہ دیگر احکام کے ایک یہ بھی درج تھا :
وَامْنَعِ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ ظُلْمِهِمْ وَالْإِضْرَارِ بِهِمْ وَأَکْلِ أَمْوَالِهِمْ إِلَّا بِحِلِّهَا.
أبو يوسف، کتاب الخراج : 152
’’(تم بحیثیت گورنر) مسلمانوں کو غیر مسلم شہریوں پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے سختی کے ساتھ منع کرو۔‘‘
2۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا یہ معمول تھا کہ جب بھی ان کے پاس اسلامی ریاستوں سے کوئی وفد آتا تو آپ اس وفد سے غیر مسلم شہریوں کے اَحوال دریافت فرماتے کہ کہیں کسی مسلمان نے انہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف تو نہیں پہنچائی؟ اس پر وہ کہتے : ہم اور کچھ نہیں جانتے مگر یہ کہ ہر مسلمان نے اس عہد و پیمان کو پورا کیا ہے جو ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان موجود ہے۔
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 503
3۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اقلیتوں کا خیال تھا حالانکہ ایک اقلیتی فرقہ ہی کے فرد نے آپ کو شہید کیا۔ اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا :
أُوْصِی الْخَلِيْفَةَ مِنْ بَعْدِيْ بِذِمَّةِ اﷲِ وَذِمَّةِ رَسُوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْ يُوْفَی لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ، وَأَنْ لَا يُکَلَّفُوْا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی صلی الله عليه وآله
وسلم، 1 : 469، رقم :
1328
2. ابن أبی شيبه، المصنف، 7 : 436، رقم : 37059
3. بيهقی، السنن الکبریٰ، 8 : 150
4. ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 339
’’میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنے والے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے بوقت ضرورت لڑا بھی جائے اور اُن پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔‘‘
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے ماتحت حکام کو غیر مسلم شہریوں سے حسن سلوک کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ ان پر ٹیکس عائد کرنے اور اس کی وصولی میں رعایت کے احکامات جاری فرمائے۔
1۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام حضرت اسلم بیان کرتے ہیں :
إِنَّ عمر کتب إلی أمراء الأجناد : أن لا يضربوا الجزية علی النساء، ولا علی الصبيان.
1. عبد الرزاق، المصنف، 6 : 85، رقم : 10009
2. بيهقی، السنن الکبری، 9 : 195، رقم : 18463
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سپہ سالاروں کو خط لکھا کہ وہ غیر مسلم عورتوں اور بچوں پر ٹیکس نافذ نہ کریں۔‘‘
امام ابن قدامہ بیان کرتے ہیں :
فإن عمر رضی الله عنه أتی بمال کثير، قال أبو عبيد : وأحسبه من الجزية. فقال : إنی لأظنکم قد أهلکتم الناس، قالوا : لا، واﷲ، ما أخذنا إلا عفوا صفوا. قال : بلا سوط ولا بوط. قالوا : نعم. قال : الحمد ﷲ الذی لم يجعل ذلک علی يدی ولا فی سلطانی.
ابن قدامة، المغنی، 9 : 290
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کثیر مال لایا گیا۔ ابو عبید نے کہا : میرا خیال ہے کہ وہ ٹیکس (سے حاصل کردہ مال) تھا۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں خیال کرتا ہوں کہ تم نے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا : نہیں، اللہ کی قسم! ہم نے یہ ٹیکس معافی اور نرمی کے ساتھ ہی وصول کیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : بغیر کسی سختی کے؟ تو انہوں نے جواب دیا : ہاں۔ آپ نے دعا کی : تمام تعریفیں اس اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے میرے ہاتھ سے اور میری حکمرانی میں غیر مسلموں پر یہ زیادتی نہیں ہونے دی۔‘‘
2۔ شام کے سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے عامل ٹیکس وصول کرنے کے لیے غیر مسلم شہریوں کو دھوپ میں کھڑا کر کے سزا دے رہے ہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
فَدَعُوْهُمْ، لَا تُکَلِّفُوْهُمْ مَا لَا يَطِيْقُوْنَ، فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا تُعَذِّبُوا النَّاسَ، فَإِنَّ الَّذِيْنَ يُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِی الدُّنْيَا يُعَذِّبُهُمُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
أبو يوسف، کتاب الخراج : 135
’’ان کو چھوڑ دو، ان کو ہرگز تکلیف نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کو عذاب نہ دو، بے شک جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہ کے حکم پر عامل نے انہیں چھوڑ دیا۔
3۔ ہشام بن حکیم نے حمص کے ایک سرکاری افسر عیاض بن غنم کو دیکھا کہ اُس نے ایک غیر مسلم قبطی کو ٹیکس وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رکھا ہے۔ اس پر انہوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے :
إِنَّ اﷲَ يُعَذِّبُ الَّذِيْنَ يُعَذِّبُوْنَ النَّاسَ فِی الدُّنْيَا.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر، باب الوعيد الشديد، 4 : 2018، رقم : 2613
2. أبو داود، السنن، کتاب الخراج، باب فی التشديد، 3 : 106، رقم : 3045
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 403، 404، 468
4. نسائی، السنن الکبریٰ، 5 : 236، رقم : 8771
’’بے شک اﷲ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورحکومت میں غیر مسلم شہریوں سے حسنِ سلوک کا یہ عالم تھا کہ کمزور، معذور اور بوڑھے غیر مسلم شہریوں کا نہ صرف ٹیکس معاف کر دیا جاتا تھا بلکہ بیت المال سے ان کی اور ان کے اہل و عیال کی کفالت بھی کی جاتی تھی۔
1۔ امام ابو عبید القاسم بن سلام ’’کتاب الاموال‘‘ میں بیان کرتے ہیں :
إن أمير المؤمنين عمر رضی الله عنه مرّ بشيخ من أهل الذمة، يسأل علی أبواب الناس. فقال : ما أنصفناک أن کنا أخذنا منک الجزية فی شبيبتک، ثم ضيعناک فی کبرک. قال : ثم أجری عليه من بيت المال ما يصلحه.
أبو عبيد، کتاب الأموال : 57، رقم : 119
’’امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غیر مسلم شہریوں میں سے ایک بوڑھے شخص کے پاس سے گزرے جو لوگوں کے دروازوں پر بھیک مانگتا تھا۔ آپ نے فرمایا : ’’ہم نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ ہم نے تمہاری جوانی میں تم سے ٹیکس وصول کیا، پھر تمہارے بڑھاپے میں تمہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے اس کی ضروریات کے لیے بیت المال سے وظیفہ کی ادائیگی کا حکم جاری فرمایا۔‘‘
2۔ امام ابو یوسف نے اسی روایت کو ’’کتاب الخراج‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
مرّ عمر بن الخطاب رضی الله عنه بباب قوم وعليه سائل يسأل، شيخ کبير ضرير البصر، فضرب عضده من خلفه، وقال : من أي أهل الکتاب أنت؟ فقال : يهودي. قال : فما ألجاک إلی ما أری؟ قال أسأل الجزية والحاجة والسن. قال : فأخذ عمر بيده وذهب إلی منزله فرضخ له بشيء من المنزل. ثم أرسل إلی خازن بيت المال، فقال : انظر هذا وضربائه، فواﷲ ما أنصفناه إن أکلنا شبيبته، ثم نخذله عند الهرم ﴿اِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآءِ وَالْمَسٰکِيْن﴾(1) والفقراء هم المسلمون، وهذا من المساکين من أهل الکتاب. ووضع عنه الجزية وعن ضربائه.(2)
(1) التوبة، 9 : 60
(2) أبو يوسف، کتاب الخراج : 136
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک قوم کے دروازے کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہاں ایک سائل بھیک مانگ رہا تھا جو نہایت ضعیف اور نابینا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے بازو پر پیچھے سے ہاتھ رکھا اور کہا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے ہو؟ اس نے کہا کہ یہودی ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تجھے اِس اَمر پر کس نے مجبور کیا جو میں دیکھ رہا ہوں؟ اس نے کہا کہ میں ٹیکس کی ادائیگی اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بڑھاپے (میں کما نہ سکنے) کی وجہ سے بھیک مانگتا ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے گھر لے گئے اور اسے اپنے گھر سے کچھ مال دیا۔ پھر اسے بیت المال کے خازن کی طرف بھیجا اور کہا کہ اسے اور اس قبیل کے دوسرے لوگوں کو دیکھو۔ خدا کی قسم! ہم نے اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا کہ اس کی جوانی سے تو ہم نے فائدہ اٹھایا اور بڑھاپے میں اسے رسوا کر دیا۔ (پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :) (بے شک صدقات فقراء اور مساکین کے لئے ہیں)۔ (اور فرمایا : ) فقراء سے مراد مسلمان ہیں اور یہ اہل کتاب (غیر مسلم شہری) مساکین میں سے ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے اور اس جیسے دیگر کمزور لوگوں سے ٹیکس ختم کر دیا۔‘‘
3۔ حضرت عبد اﷲ بن حدرد اسلمی بیان کرتے ہیں :
لما قدمنا مع عمر بن الخطاب الجابية، إذا هو بشيخ من أهل الذمة يستطعم فسأل عنه، فقلنا : يا أمير المؤمنين! هذا رجل من أهل الذمة کبر وضعف. فوضع عنه عمر الجزية التی فی رقبته. وقال : کلفتموه الجزية حتی إذا ضعف ترکتموه يستطعم. فأجری عليه من بيت المال عشرة دراهم، وکان له عيال.
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 27 : 334
’’جب ہم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ جابیہ آئے تو غیر مسلم شہریوں میں سے ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جو کھانا مانگ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں پوچھا تو ہم نے عرض کیا : اے امیر المومنین! یہ شخص غیر مسلم شہری ہے جو بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس کے ذمے ٹیکس کو ختم کر دیا اور فرمایا : تم نے (ساری زندگی) اس سے ٹیکس وصول کیا، اب جبکہ وہ کمزور ہوگیا ہے اسے کھانا مانگنے کے لئے چھوڑ دیا ہے۔ پھر آپ نے بیت المال سے اس کے لئے دس درہم (ماہانہ وظیفہ) مقرر کر دیا کیونکہ اس کے اہل و عیال بھی تھے۔‘‘
1۔ خلافت راشدہ کا تیسرا دور شروع ہی المناک حادثہ سے ہوا کہ ایک غیر مسلم نے خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر قاتلانہ حملہ کیا اور آپ شہید ہو گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ بن عمر نے غصہ میں آ کر قتل کی سازش میں ملوث تین آدمیوں کو قتل کر دیا، جن میں سے ایک مسلمان اور دو غیر مسلم عیسائی تھے۔ حضرت عبید اللہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ خلیفہ ثالث نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے اس معاملہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے لی، تمام صحابہ کی رائے یہ تھی کہ عبید اللہ بن عمر کو قتل کر دیا جائے۔ لہٰذا یہ امر یقینی ہوگیا تھا کہ قصاص میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبید اﷲ بن عمر کو سزائے موت دے دی جاتی لیکن مقتولین کے ورثاء کی اپنی رضامندی سے خون بہا پر مصالحت ہو گئی اور خون بہا (دیت) کی رقم تینوں مقتولین کے لیے برابر تقسیم کردی گئی۔
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 5 : 17
2۔ امام ابو عبید، امام حمید بن زنجویہ اور بلاذری نے غیر مسلموں سے متعلق سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے سرکاری فرمان نامہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں :
إنّی أُوصيک بهم خيراً فإنهم قومٌ لَهُمُ الذِمَّة.
1. ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 360
2. أبو يوسف، کتاب الخراج : 80
3. أبو عبيد قاسم، کتاب الأموال : 246، رقم : 505
4. ابن زنجويه، کتاب الأموال : 451، رقم : 732
5. بلاذری، فتوح البلدان : 91
’’میں تمہیں ان غیر مسلم شہریوں کے ساتھ حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں۔ یہ وہ قوم ہے جنہیں جان و مال، عزت و آبرو اور مذہبی تحفظ کی مکمل امان دی جاچکی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کے خون کی حرمت برابر ہے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی غیر مسلم شہریوں کے حقوق اسی طرح محفوظ و محترم رہے اور انہیں جان و مال اور عزت و آبرو کا مکمل تحفظ حاصل رہا۔
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا۔ ثبوت فراہم ہو جانے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قصاص میں غیر مسلم کے بدلے اس مسلمان کو قتل کئے جانے کا حکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو خون بہا دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے مقتول کے وارث کو فرمایا :
لَعَلَّهُمْ فَزَّعُوْکَ أَوْ هَدَّدُوْکَ.
’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر یہ کہلوایا ہے۔‘‘
اس نے کہا : نہیں، بات دراصل یہ ہے کہ قاتل کے قتل کئے جانے سے میرا بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے اس کی دیت دے رہے ہیں جو پسماندگان کے لئے کسی حد تک کفایت کرے گی۔ اس لئے میں خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے معافی دے رہا ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اچھا تمہاری مرضی۔ تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن بہرحال ہماری شریعت کا اُصول یہی ہے کہ :
مَنْ کَانَ لَه ذِمَّتُنَا، فَدَمُه کَدَمِنَا، وَدِيَتُه کَدِيَتِنَا.
1. بيهقی، السنن الکبریٰ، 8 : 34
2. شافعی، المسند، 1 : 344
3. شيبانی، الحجة، 4 : 355
’’جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہیں اور اس کی دیت بھی ہماری دیت کی طرح ہے۔‘‘
2۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إِذَا قَتَلَ الْمُسْلِمُ النَّصْرَانِيَّ قُتِلَ بِهِ.
1. شيبانی، الحجة، 4 : 349
2. شافعی، الأم، 7 : 320
’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو وہ مسلمان (اُس کے قصاص میں) قتل کیا جائے گا۔‘‘
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے اُسوہء مبارکہ کے مطابق حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ اپنے ماتحت افسران کو حکم دیتے تھے :
أَنْ لَا تَهْدِمُوْا کَنِيْسَةً وَلَا بِيْعَةً وَلَا بَيْتَ نَارٍ.
ابن القيم، أحکام أهل الذمة، 3 : 1200
’’کسی گرجا، کلیسا اور آتش کدہ کو مسمار نہ کرو۔‘‘
2۔ تاریخ اسلام کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کنیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا تھا۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کو خبر پہنچی تو آپ نے مسجد کا وہ حصہ منہدم کروا کے عیسائیوں کو واپس کروا دیا۔ روایت میں ہے :
فَلَمَّا اسْتَخْلَفَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيْزِ رضی الله عنه، شَکَی النَّصَارَی إِلَيْهِ مَا فَعَلَ الْوَلِيْدُ بِهِمْ فِيْ کَنِيْسَتِهِمْ، فَکَتَبَ إِلَی عَامِلِهِ يَأْمُرُهُ بِرَدِّ مَا زَادَهُ فِی الْمَسْجِدِ.
بلاذری، فتوح البلدان : 150
’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے ولید کے کنیسہ پر کئے گئے ظالمانہ قبضہ کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کر کے واپس عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔ سو ایسا کر دیا گیا۔‘‘
3۔ بلکہ ایک موقع پر حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إِنْ کَانَتْ مِنَ الْخَمْسِ عَشَرَةَ کَنِيْسَةً الَّتِيْ فِي عَهْدِهِمْ فَلَا سَبِيْلَ لَکَ إِلَيْهَا.
1. أبو عبيد قاسم، کتاب الأموال : 201، رقم : 426
2. ابن زنجويه، کتاب الأموال : 387، رقم : 635
’’اگر کوئی اور گرجا بھی ان پندرہ گرجوں میں سے ہو جو ان کے زمانہ میں موجود تھے تو تب بھی تم ان میں سے ایک بھی منہدم نہیں کر سکتے۔‘‘
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے ایک گورنر کو اس مسلمان کے بارے میں لکھا جس نے کسی معاہد کو قتل کیا تھا۔ آپ نے اسے حکم دیا کہ اس مسلمان کو مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا جائے۔ اگر ولی چاہے تو اسے قتل کر دے اور چاہے تو معاف کر دے۔ اس گورنر نے قاتل کو مقتول کے ولی کے حوالے کر دیا اور اُسے capital punishment دی گئی۔
عبد الرزاق، المصنف، 10 : 101، رقم : 18518
عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو یا دور صحابہ یا ان کے بعد کے ادوار؛ اسلامی تاریخ غیر مسلم شہریوں سے مثالی حسن سلوک کے ہزاروں واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ دیگر مذاہب اور اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد اسلامی ریاست میں پرسکون زندگی گزارتے تھے، حتی کہ وہ اسلامی دورِ حکومت کو اپنے سابقہ حکمرانوں کے ادوار سے بہتر قرار دیتے تھے۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ تھیں، انہیں اپنے مذہب پر قائم رہنے اور عمل کرنے کی مکمل آزادی تھی، بیت المال سے ان کی تمام معاشی ضروریات پوری کی جاتی تھیں۔ مسلمانوں کا مثالی حسنِ سلوک اور اعلیٰ اخلاقی کردار دیکھ کر لاکھوں افراد نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر لیا تھا۔
تعجب ہے موجودہ دور کے دہشت گرد اور انتہاء پسند نام نہاد مسلمانوں پر جن کی قتل و غارت گری اور فساد فی الارض سے مسلم ریاست کے غیر مسلم تو کجا مسلمان بھی محفوظ نہیں رہے، معاشرے کا امن تباہ ہو چکا ہے اور املاک تباہ ہو رہی ہیں۔ ان کا موجودہ چہرہ اسلام کے چودہ سو سالہ روشن چہرے کو بھی داغ دار بنا رہا ہے۔ یہ دہشت گردی اسلام کی خدمت نہیں بلکہ دنیا بھر میں اسلام کی بدنامی کا باعث ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved