اپنے گھناؤنے اور ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے عام شہریوں اور پُراَمن انسانوں کو بے دریغ قتل کرنے والے کیسے دینِ امن و سلامتی کے علم بردار بنتے ہیں؟ وہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ہزاروں مسلمانوں کی قتل و غارت گری میں مصروف ہیں جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ایک مومن کے قتل کو بھی پوری دنیا کے تباہ ہونے سے بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ اِس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :
1. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَزَوَالُ الدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلَی اﷲِ مِنْ قَتْلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ.
1. ترمذي، السنن، کتاب الديات، باب ما جاء في تشديد قتل المؤمن،
4 : 16، رقم : 1395
2. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7 : 82، رقم : 3987
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم ظلما، 2 : 874، رقم : 2619
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید (اور تباہ) ہو جانا ہلکا (واقعہ) ہے۔‘‘
2. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَتْلُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا.
1. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7 : 82،
83، رقم : 3988 - 3990
2. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 355، رقم : 594
3. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 22، رقم : 15647
امام طبرانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
’’حضرت عبد اﷲ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘
3۔ ایک روایت میں کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا حادثہ قرار دیا گیا ہے۔
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَزَوَالُ الدُّنْيَا جَمِيْعًا أَهْوَنُ عِنْدَ اﷲِ مِنْ سَفْکِ دَمٍ بِغَيْرِ حَقٍّ.
1. ابن أبي الدنيا، الأهوال : 190، رقم : 183
2. ابن أبي عاصم، الديات : 2، رقم : 2
3. بيهقي، شعب الإيمان، 4 : 345، رقم : 5344
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہو جانا بھی کسی شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے۔‘‘
عقائد میں اہل سنت کے اِمام ابو منصور ماتریدی آیت مبارکہ۔ مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ. کے ذیل میں انسانی قتل کو کفر قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں :
من استحل قتل نفس حَرَّمَ اﷲ قتلها بغير حق، فکأنّما استحل قتل الناس جميعًا، لأنه يکفر باستحلاله قتل نفس محرم قتلها، فکان کاستحلال قتل الناس جميعًا، لأن من کفر بآية من کتاب اﷲ يصير کافرًا بالکل....
وتحتمل الآية وجهًا آخر، وهو ما قيل : إنه يجب عليه من القتل مثل ما أنه لو قتل الناس جميعًا.
ووجه آخر : أنه يلزم الناس جميعا دفع ذلک عن نفسه ومعونته له، فإذا قتلها أو سعي عليها بالفساد، فکأنما سعي بذلک علي الناس کافة.... وهذا يدل أن الآية نزلت بالحکم في أهل الکفر وأهل الإسلام جميعاً، إذا سعوا في الأرض بالفساد.
أبومنصور الماتُريدي، تأويلات أهل السنة، 3 : 501
’’جس نے کسی ایسی جان کا قتل حلال جانا جس کا ناحق قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر رکھا ہے، تو گویا اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ ایسی جان جس کا قتل حرام ہے، وہ شخص اس کے قتل کو حلال سمجھ کر کفر کا مرتکب ہوا ہے، وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کے قتل کو حلال جانا، کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی ایک آیت کا انکار کرتا ہے وہ پوری کتاب کا انکار کرنے والا ہے۔۔۔۔
’’یہ آیت ایک اور توجیہ کی بھی حامل ہے اور وہ یہ کہ کہا گیا ہے کہ کسی جان کے قتل کو حلال جاننے والے پر تمام لوگوں کے قتل کا گناہ لازم آئے گا (کیونکہ عالم انسانیت کے ایک فرد کو قتل کرکے گویا اس نے پوری انسانیت پر حملہ کیا ہے)۔
’’ایک توجیہ یہ بھی ہے کہ تمام لوگوں پر لازم ہے کہ اجتماعی کوشش کے ساتھ اس جان کو قتل سے بچائیں اور اس کی مدد کریں۔ پس جب وہ اس کو قتل کر کے فساد بپا کرنے کی کوشش کرے گا تو گویا وہ پوری انسانیت پر فساد بپا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ اور یہ چیز دلالت کرتی ہے کہ یہ آیت اس حکم کے ساتھ تمام اہل کفر اور اہل اسلام کے لئے نازل ہوئی ہے جبکہ وہ فساد فی الارض کے لئے سرگرداں ہو۔‘‘
علامہ ابوحفص الحنبلی اپنی تفسیر اللباب في علوم الکتاب میں اللہ تعالیٰ کے فرمان فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا کی تفسیر میں ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتے ہوئے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
1. قال مُجَاهِد : من قتل نَفْساً محرَّمة يَصْلَی النَّار بقتلها، کما يصلاها لو قتل النَّاس جميعاً،
2. وقال قتادة : أعْظَم اﷲ أجرَهَا وعظَّم وزرَها، معناه : من استَحَلَّ قتل مُسْلِمٍ بغير حَقّه، فکأنّما قتل النَّاس جميعاً،
3. وقال الحسن : ﴿فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا﴾، يعني : أنّه يَجِبُ عليه من القِصَاص بِقَتْلِهِا، مثل الذي يجب عليه لو قتل النَّاسَ جَمِيعًا.
قوله تعالی : ﴿اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْامِنَ الاَرْضِط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْج فَاعْلَمُوْا اَنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌo﴾
المائدة، 5 : 33، 34
وقوله : ﴿يُحَارِبُون اﷲ﴾، أي : يُحَارِبُون أولِيَاء ه کذا قدَّرَه الجمهور.
وقال الزَّمَخْشَريُّ : ’’يُحَارِبُون رسول اﷲ، ومحاربة المُسْلِمِين في حکم مُحَارَبَتِه.‘‘
نزلت هذه الآية في قطَّاع الطَّريِق من المُسْلِمين (وهذا قول) أکثر الفقهاء.
1. بغوی، معالم التنزيل، 2 : 33
2. رازی، التفسير الکبير، 11 : 169
أنَّ قوله تعالی : ﴿الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا﴾ يتناول کل من يُوصَف بهذه سواءً کان مُسْلِمًا أو کافراً، ولا يُقالَ : الآية نزلت في الکُفَّار، لأن العبرة بعُمُوم اللَّفْظ لا خُصوص السَّبَب، فإن قيل : المُحَارِبُون هم الذين يَجْتَمِعُون ولهم مَنَعَة، ويَقصدون المُسْلِمِين في أرواحهم ودِمَائهم، واتَّفَقُوا علی أنّ هذه الصِّفَة إذا حصلت في الصَّحراء کانوا قُطَّاع الطَّريق، وأما إن حصلت في الأمصار، فقال الأوزَاعِيُّ ومالِکٌ واللَّيْثُ بن سَعْد والشَّافِعِيُّ : هم أيضاً قُطُّاع الطَّريق، هذا الحدُّ عليهم، قالوا : وإنّهم في المُدُن يکونون أعظَم ذَنْباً فلا أقَلّ من المساواة، واحتجوا بالآية وعمومها، ولأنّ هذا حدّ فلا يختلف کسائر الحدود.
أبو حفص الحنبلي، اللباب في علوم الکتاب، 7 : 301
’’1۔ حضرت مجاہد نے فرمایا : جس شخص نے ایک جان کو بھی نا حق قتل کیا تو وہ اس قتل کے سبب دوزخ میں جائے گا، جیسا کہ وہ تب دوزخ میں جاتا اگر وہ ساری انسانیت کو قتل کر دیتا (یعنی اس کا عذابِ دوزخ ایسا ہو گا جیسے اس نے پوری انسانیت کو قتل کردیا ہو)۔
2۔ حضرت قتادہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا بڑھا دی ہے اور اس کا بوجھ عظیم کردیا ہے یعنی جو شخص ناحق کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھتا ہے گویا وہ تمام لوگوں کو قتل کرتا ہے۔
3۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ﴿فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا﴾ کی تفسیر میں فرمایا کہ (جس نے ناحق ایک جان کو قتل کیا) اس پر اس کے قتل کا قصاص واجب ہوگا، اس شخص کی مثل جس پر تمام انسانیت کو قتل کرنے کا قصاص واجب ہو۔ ارشاد باری تعالی ہے : (بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی سو جان لو کہ اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہےo)
’’اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿يُحَارِبُونَ اﷲَ﴾ سے مراد ہے : یحاربون اولیاء ہ (وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء سے جنگ کرتے ہیں)۔ یہی معنی جمہور نے بیان کیا ہے۔ اور علامہ زمخشری نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں؛ اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنا دراصل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ساتھ جنگ کے حکم میں ہے۔
’’یہ آیت۔ ﴿اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ﴾. مسلمان راہزنوں کے بارے میں اتری ہے، اور یہ اکثر فقہاء کا قول ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہر وہ شخص شامل ہے جو ان صفات سے متصف ہو خواہ وہ مسلم ہو یا کافر۔ یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ اعتبار لفظ کے عموم کا ہوگا نہ سبب کے خاص ہونے کا۔ اور اگر کہا جائے کہ محاربون وہ ہیں جو مجتمع ہوتے ہیں اور ان کے پاس طاقت و قوت بھی ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی جانوں کا قصد کرتے ہیں تو فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر یہ وصف صحراء میں پایا جائے تو ایسے لوگ راہزن کہلائیں گے، اور اگر دہشت گردی و قتل و غارت گری کا یہ عمل شہروں میں پایا جائے تو امام اوزاعی، مالک، لیث بن سعد اور شافعی کا قول ہے کہ وہ (قاتل ہونے کے علاوہ) راہزن اور ڈاکو بھی ہیں، ان پر بھی یہی حد ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ شہروں میں ہوں تو ان کا گناہ بہت ہی زیادہ ہو جائے گا۔‘‘
کسی ایک مومن کو قصداً قتل کرنے والے کی ذلت آمیز سزا کا اندازہ یہاں سے لگا لیں کہ اﷲ (سبحانہ و تعالیٰ) نے ایک ہی آیت میں نہ صرف ایسے قاتل کے لیے دوزخ کی سزا کا ذکر کیا ہے بلکہ خَالِدًا، غَضِبَ، لَعَنَہ اورعَذَابًا عَظِيْمًا فرما کر اس کی شدّت و حدّت میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اﷲُ عَلَيْهِ وَلَعَنَه وَاَعَدَّ لَه عَذَابًا عَظِيْمًاo
النساء، 4 : 93
’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لیے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہےo‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کا خون بہانے، اُنہیں قتل کرنے اور فتنہ و فساد برپا کرنے کو نہ صرف کفر قرار دیا ہے بلکہ اسلام سے واپس کفر کی طرف پلٹ جانا قرار دیا ہے۔ اسے اصطلاحِ شرع میں اِرتداد کہتے ہیں۔
امام بخاری حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا تَرْتَدُّوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه
وآله وسلم : لا ترجعوا بعدي کفارا يضرب بعضکم رقاب بعض، 6 : 2594، رقم : 6668
2. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 269، رقم : 4166
’’تم میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کرنے کے سبب کفر کی طرف نہ لوٹ جانا۔‘‘
گویا کلمہ گو مسلمانوں کا آپس میں قتل عام صریح کفریہ عمل ہے جسے ارتداد سے لفظی مماثلت دی گئی ہے۔
حافظ ابن کثیر (م774ھ) آیت وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا(1) کی تفسیر میں قتلِ عمد کو گناہ عظیم اور معصیتِ کبریٰ قرار دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اﷲ عزوجل نے اسے شرک جیسے ظلمِ عظیم کے ساتھ ملا کر بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :
(1) النساء، 4 : 93
وهذا تهديد شديد ووعيد أکيد لمن تعاطي هذا الذنب العظيم، الذي هو مقرون بالشرک باﷲ في غير ما آية فی کتاب اﷲ، حيث يقول سبحانه فی سورة الفرقان : ﴿وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اﷲِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اﷲُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ﴾.(1) وقال تعالی : ﴿قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَيْکُمْ أَلَّا تُشْرِکُوْا بِه شَيْئًا﴾ إلی أن قال : ﴿وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِی حَرَّمَ اﷲُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِه لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ.﴾ (2)(3)
(1) الفرقان، 25 : 68
(2) الأنعام، 6 : 151
(3) ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 535
’’اس (قتل عمد جیسے) گناہ عظیم کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے یہ شدید دھمکی اور مؤکد وعید ہے کہ قتل عمد کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ شرک جیسے گناہ کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے۔ اﷲ (سبحانہ و تعالیٰ) نے سورۂ فرقان میں ارشاد فرمایا ہے : (اور یہ وہ لوگ ہیں جو اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیر حق مارنا اﷲ نے حرام فرمایا ہے اور نہ ہی بدکاری کرتے ہیں۔) اور ارشاد فرمایا : (فرما دیجئے! آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ۔۔۔ اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے (قتل کرنا) اﷲ نے حرام کیا ہے بجز حق (شرعی) کے۔ یہی وہ امور ہیں جن کا اس نے تمہیں تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لو۔)‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر انسانی جان ومال کے تلف کرنے اور قتل و غارت گری کی خرابی و ممانعت سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
إِنَّ دِمَائَکُمْ وَأَمْوَالَکُمْ وأعْرَاضَکُمْ عَلَيْکُمْ حَرَامٌ، کَحُرْمَةِ يَوْمِکُمْ هذَا، فِی شَهْرِکُمْ هٰذَا، فِی بَلَدِکُمْ هٰذَا، إِلَی يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّکُمْ. أَلَا، هَلْ بَلَّغْتُ؟ قَالُوْا : نَعَمْ. قَالَ : اَللّٰهُمَّ اشْهَدْ، فَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ، فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰی مِنْ سَامِعٍ، فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی، 2 : 620،
رقم : 1654
2. بخاري، کتاب العلم، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : رب مبلغ أوعی من سامع،
1 : 37، رقم : 67
3. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب تغليظ تحريم الدماء
والأعراض والأموال، 3 : 1305، 1306، رقم : 1679
’’بے شک تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں تم پر اِسی طرح حرام ہیں جیسے تمہارے اِس دن کی حرمت تمہارے اِس مہینے میں اور تمہارے اِس شہر میں (مقرر کی گئی)ہے اُس دن تک جب تم اپنے رب سے ملو گے۔ سنو! کیا میں نے تم تک (اپنے رب کا) پیغام پہنچا دیا؟ لوگ عرض گزار ہوئے : جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! گواہ رہنا۔ اب چاہیے کہ (تم میں سے ہر) موجود شخص اِسے غائب تک پہنچا دے کیونکہ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ جن تک بات پہنچائی جائے تو وہ سننے والے سے زیادہ یاد رکھتے ہیں (اور سنو!) میرے بعد ایک دوسرے کو قتل کر کے کافر نہ ہو جانا۔‘‘
اس متفق علیہ حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحتاً یہ فیصلہ صادر فرما دیا کہ جو لوگ آپس میں خون خرابہ کریں گے، فتنہ و فساد اور دہشت گردی کی وجہ سے ایک دوسرے پر اسلحہ اٹھا ئیں گے اور مسلمانوں کا خون بہائیں گے وہ مسلمان نہیں بلکہ کفر کے مرتکب ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے جبر و تشدد کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فَلاَ تَرْجِعُوْا بَعْدِي کُفَّارًا فرما کر کفر قرار دے دیا۔
حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کے قاتل کی سزا جہنم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ وَأَهْلَ الْأَرْضِ اشْتَرَکُوْا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ لَأَکَبَّهُمُ اﷲُ فِي النَّارِ.
1. ترمذی، السنن، کتاب الديات، باب الحکم في الدماء، 4 : 17،
رقم : 1398
2. ربيع، المسند، 1 : 292، رقم : 757
3. ديلمی، مسند الفردوس، 3 : 361، رقم : 5089
’’اگر تمام آسمانوں و زمین والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تب بھی یقینا اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘
قتل و غارت گری، خون خرابہ، فتنہ و فساد اور نا حق خون بہانا اِتنا بڑا جرم ہے کہ قیامت کے دن اللہ عزوجل ایسے مجرموں کو سب سے پہلے بے نقاب کرکے کیفرِ کردار تک پہنچائے گا۔
1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خونریزی کی شدت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
أَوَّلُ مَا يُقْضَی بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاءِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن يقتل مؤمنا متعمدا،
6 : 2517، رقم : 6471
2. مسلم، الصحيح، کتاب القسامة والمحاربين والقصاص والديات، باب المجازاة بالدماء في
الآخرة وأنها أول ما يقضی فيه بين الناس يوم القيامة، 3 : 1304، رقم : 1678
3. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7 : 83، رقم : 3994
4. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 442
’’قیامت کے دن لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خون ریزی کا فیصلہ سنایا جائے گا۔‘‘
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم نے باہمی خون خرابہ اور لڑائی جھگڑے کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا کہ قتل وغارت گری اتنا بڑا جرم ہے کہ اگر کوئی فرد یا طبقہ اس میں ایک مرتبہ ملوث ہو جائے تو پھر اسے اس سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا۔ امام بخاری کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُوْرِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ، فِيْهَا سَفْکَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الديات، باب ومن قتل مؤمنا متعمدًا
فجزاؤه جهنم، 6 : 2517، رقم : 6470
2. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 21، رقم : 15637
’’ہلاک کرنے والے وہ اُمور ہیں جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کی کوئی سبیل نہ ہو۔ اِن میں سے ایک بغیر کسی جواز کے حرمت والا خون بہانا بھی ہے۔‘‘
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ و فساد کے ظہور، خون خرابہ اور کثرت سے قتل و غارت گری سے لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
يَتَقَارَبُ الزَّمَانُ وَيَنْقُصُ العِلمُ وَيُلْقَی الشُّحُّ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ وَيَکْثُرُ الْهَرْجُ. قَالُوا : يَا رَسُولَ اﷲِ، أَيُمَا هُوَ؟ قَالَ : الْقَتْلُ، الْقَتْلُ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب ظهور الفتن، 6 : 2590، رقم
: 6652
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب إذا تواجه المسلمان بسيفيهما،4 : 2215،
رقم : 157
’’زمانہ قریب ہوتا جائے گا، علم گھٹتا جائے گا، بخل پیدا ہو جائے گا، فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج کی کثرت ہو جائے گی۔ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! ہرج کیا ہے؟ فرمایا کہ قتل، قتل (یعنی ہرج سے مراد ہے : کثرت سے قتل عام)۔‘‘
4۔ جب ایک مرتبہ پرامن شہریوں اور سول آبادیوں کو ظلم و ستم، جبرو تشدد اور وحشت و بربریت کا نشانا بنایا جائے اور معاشرے کی دیگر مذہبی و سیاسی شخصیات کی محض فکری و نظریاتی اختلاف کی بنا پر target killing کی جائے تو اس دہشت گردی کا منظقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سماج افراتفری، نفسا نفسی، بد امنی اور لڑائی جھگڑے کی آماج گاہ بن جاتا ہے۔ انہی گھمبیر اور خطرناک حالات کی طرف امام ابو داؤد سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ اشارہ کرتی ہے :
عَنْ عَبْد اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا قُعُودًا عِنْدَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ الْفِتَنَ، فَأَکْثَرَ فِي ذِکْرِهَا حَتَّی ذَکَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ. فَقَالَ قَائِلٌ : يَا رَسُولَ اﷲِ! وَمَا فِتْنَة الْأَحْلَاسِ؟ قَالَ : هِيَ هَرَبٌ وَحَرْبٌ.
أبوداود، السنن،کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن، 4 : 94، رقم : 4242
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر فرمایا۔ پس کثرت سے ان کا ذکر کرتے ہوئے فتنہ اَحلاس کا ذکر فرمایا۔ کسی نے سوال کیا کہ یارسول اﷲ! فتنہ احلاس کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ افرا تفری، فساد انگیزی اور قتل و غارت گری ہے۔‘‘
سورۃ البروج کی آیت نمبر دس (10)۔ اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِo (بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo)۔ کی تفسیر میں بعض مفسرین نے فتنے میں مبتلا کرنے سے آگ میں جلانا بھی مراد لیا ہے۔ اس معنی کی رُو سے خود کش حملوں، بم دھماکوں اور بارود سے عامۃ الناس کو خاکستر کر دینے والے فتنہ پرور لوگ عذاب جہنم کے مستحق ہیں۔ مفسرین کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :
1. وقال ابن عباس ومقاتل : ﴿فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ حرقوهم بالنار.
رازی، التفسير الکبير، 31 : 111
’’حضرت ابن عباس اور مقاتل نے فرمایا : فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ کا مطلب ہے : (ان فتنہ پروروں نے) انہیں (یعنی مومنین کو) آگ سے جلا ڈالا۔‘‘
2. وأخرج عبد بن حميد وابن المنذر عن قتادة ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ﴾ قال : حرقوا.
سيوطي، الدر المنثور، 8 : 466
’’عبد بن حمید اور ابن منذر حضرت قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ﴾ کا معنی آگ سے جلا کر ہلاک کر دینا ہے۔‘‘
3۔ اسی معنی کو امام قرطبی اور ابو حفص الحنبلي نے بھی روایت کیا ہے۔
1. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 19 : 295
2. أبو حفص الحنبلی، اللباب فی علوم الکتاب، 20 : 253
مسلمان کے قتل کو جائز سمجھنے اور انہیں جلانے والے نص قرآنی کے تحت نہ صرف دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں بلکہ عذاب حریق کے مستحق بھی ٹھہرتے ہیں۔ حضرت عبد اﷲ بن بسر سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومنوں کو اذیت دینے والوں کو اپنی اُمت سے خارج کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَيْسَ مِنِّی ذُوْ حَسَدٍ وَلَا نَمِيْمَةٍ وَلَا کَهَانَةٍ وَلَا أَنَا مِنْهُ. ثُمَّ تَلا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم هَذِهِ الآيَة : ﴿وَالَّذِيْن يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَااکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا﴾(1)-(2)
(1) الأحزاب، 33 : 58
(2) 1. منذری، الترغيب والترهيب، 3 : 324، رقم : 4275
2. ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 21 : 334
’’حسد کرنے والا، چغلی کھانے والا اور کہانت والا مجھ سے نہیں (یعنی میری امت سے نہیں) اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دیتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بے شک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سر) لے لیا)۔‘‘
امام فخر الدین رازی رقم طراز ہیں :
أن کلا العذابين يحصلان فی الآخرة إلا أن عذاب جهنم وهو العذاب الحاصل بسبب کفرهم، وعذاب الحريق هو العذاب الزائد علی عذاب الکفر بسبب أنهم أحرقوا المؤمنين.
رازی، التفسير الکبير، 31 : 111
’’بے شک دونوں عذاب (عذابِ جہنم اور عذاب حریق) آخرت میں واقع ہوں گے، مگر فرق یہ ہے کہ عذابِ جہنم ان کے کفر کے سبب ہوگا، اور عذاب حریق عذاب کفر پر وہ زائد عذاب ہے جو انہیں مسلمانوں کو جلانے کے سبب ملے گا۔‘‘
اسی مفہوم کو صاحبِ جلالین نے بھی رقم کیا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ﴾ بالإحراق ﴿ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ﴾ بکفرهم ﴿وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْق﴾ أی عذاب إحراقهم المؤمنين فی الآخرة.
تفسير الجلالين، 1 : 801
’’یعنی وہ لوگ جنہوں نے مومن مرد و زن کو آگ میں جلا کر اذیت میں مبتلا کیا، پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کے لئے ان کے کفر کی وجہ سے مومنین کو جلانے کی پاداش میں عذابِ حریق (جلائے جانے کا عذاب) ہوگا۔‘‘
مسلمانوں کو قتل کرنے والے کی نفلی اور فرض عبادت بھی قبول نہیں ہوگی۔ حضرت عبد اﷲ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا فَاعْتَبَطَ بِقَتْلِهِ لَمْ يَقْبَلِ اﷲُ مِنْهُ صَرْفًا وَلَا عَدْلًا.
1. أبو داود، السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب تعظيم قتل المؤمن،
4 : 103، رقم : 4270
2. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 266، رقم : 1311
3. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 203، رقم : 3691
4. عسقلاني، الدراية، 2 : 259
5. شوکاني، نيل الأوطار، 7 : 197
’’جس شخص نے کسی مومن کو ظلم سے ناحق قتل کیا تو اﷲ تعالیٰ اس کی کوئی نفلی اور فرض عبادت قبول نہیں فرمائے گا۔‘‘
عبادت و ریاضت اور قتل و غارت گری کو ساتھ ساتھ چلانے والے اور انسانی حرمت و تقدس کو پامال کرکے اپنے اعمال و عبادات کو ذریعہ نجات سمجھنے والے ایسے انتہا پسندوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ صرف ان کی عبادت ردّ کر دی جائے گی بلکہ ان کے لئے فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْق(1) (تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے) کی دردناک وعید بھی ہے۔
البروج، 85 : 10
مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کرنا اور انہیں جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کا شکار کرنا سخت منع ہے۔ اﷲ (سبحانہ و تعالیٰ) نے ایسے لوگوں کو جہنم اور آگ کی درد ناک سزا دینے کا اعلان فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
ِانَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيْقِo
البروج، 85 : 10
’’بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہےo‘‘
حضرت ہشام بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب دے گا جو اس کی مخلوق کو اذیت دیتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے :
إِنَّ اﷲَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا.
مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق، 4 : 2018، رقم : 2613
’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں۔‘‘
جملہ اَئمہ تفسیر نے اس آیت کے تحت یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کو ظلم وجبر اور فتنہ و فساد کا نشانہ بنانے والوں کی سزا جہنم اور آگ ہے۔ امام فخر الدین رازی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
کل من فعل ذلک وهذا أولی لأن اللفظ عام والحکم عام، فالتخصيص ترک للظاهر من غير دليل.
رازی، التفسير الکبير، 31 : 111
’’جو بھی مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیف میں مبتلا کرے (خواہ ایسا کرنے والا خود اصلاً مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کے لیے عذاب جہنم ہے) یہ معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ لفظ عام ہے اور اس کا حکم بھی عام ہے اور اگر خاص کیا جائے تو یہ بغیر دلیل کے عام حکم کو خاص کرنا ہوگا۔‘‘
اس لحاظ سے حکم الآیت کا اِطلاق زمانہ قدیم کے اَصْحَابُ الْاُخْدُوْد(1) وغیرہ کی طرح کلمہ گو دہشت گردوں پر بھی یکساں ہوگا۔
(1) البروج، 85 : 4 - 10
اَصْحَابُ الْاُخْدُوْد سے مُراد زمانہ قدیم کا ایک بادشاہ اور اس کے کارندے ہیں جنہوں نے اہل ایمان کو صرف اِس لیے خندقوں میں ڈال کر جلا دیا تھا کہ وہ ایک رب پر ایمان لے آئے تھے۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الزهد، باب قصة أصحاب الأخدود، 4 : 2299، رقم : 3005)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved