تذکرہ فرید ملت رحمۃ اللہ علیہ

حضرت فرید ملت - ایک عظیم شاعر

حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ ایک عدیم المثال خطیب، بلند پایہ مقرر، معتبر عالم دین اور جلیل القدر طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صاحب طرز ادیب اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ اپنے ذوق و صلاحیت کو جلا دینے کے لئے قیامِ لکھنؤ کے دوران آپ امیر مینائی کے شاگرد شکیل مینائی سے اصلاح لیتے رہے۔ آپ کے اندر شعر کہنے کا ملکہ اس قدر راسخ ہوگیا تھا کہ آپ کا فی البدیہہ کلام سن کر بڑے بڑے شعراء انگشت بدنداں رہ جاتے۔ لکھنؤ کا کوئی مشاعرہ ایسا نہ ہوتا جس میں چوٹی کے شعراء شریک ہوں۔ اور اس میں حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ شامل نہ ہوں۔ آپ نے شاعری ہی ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ مشاعرے لوٹے اور دادیں وصول کیں۔ آپ نے اپنے کلام کا ایک مجموعہ دیوان قادری کے نام سے جمع بھی کیا تھا، جو کچھ عرصہ تک ان کے فرزند ارجمند حضرت شیخ الاسلام کے پاس محفوظ رہا لیکن بعد ازاں کہیں کھو گیا، قارئین کے ذوق کے لئے نمونہ کلام کے چند شہ پارے پیش خدمت ہیں۔

سلام بحضور خیر الانام ﷺ

السلام اے مطلع صبح ازل
السلام اے جانِ ہر نثر و غزل

السلام اے قلزمِ جود و سخا
السلام اے مصدرِ حمد و ثناء

السلام اے موجبِ ایجابِ کُن
السلام اے جرأت آموزِ سخن

السلام اے ناظرِ اطوار خلق
السلام اے شاہد کردارِ خلق

السلام اے پرتوِ ذاتِ جلال
السلام اے حلقۂ نور و جمال

السلام اے زبدۂ کون و مکاں
السلام اے شرحِ اسرار و بیاں

السلام اے عقدۂ اندر گلیم
السلام اے موج نور اندر حریم

السلام اے ماورائے قال و قیل
السلام اے برقِ بالِ جبرائیل

تیرے دم سے نظمِ دو عالم مدام
تیرے دم سے کائنات اندر خرام

تیرے دم سے بزمِ ہستی دلفریب
تجھ سے ہے ارکان میں صبر و شکیب

تجھ سے رخشندہ و روشن روئے آب
تجھ سے رقصاں نیل وجیہوں اور چناب

تجھ سے پروانے کے دل میں سوز و ساز
تجھ سے قلب شمع میں ذوقِ گداز

ہاں مگر اے خواجۂ گیتی نواز
درد مندانِ جہاں کے چارہ ساز

چاہتا ہوں مجھ کو جذب اندوز کر
ساز ہوں مجھ کو سراپا سوز کر

چاہتا ہوں آشنائے راہ کر
مجھ کو رازِ زیست سے آگاہ کر

مجھ کو ایسی مستی جاوید دے
جو میری آنکھوں کو تیری دید دے

میرے سینے میں تیری ہی یاد ہو
مری دنیا میں تو ہی آباد ہو

میرا ہر موئے بدن اِک ساز ہو
یا رسول اللہ کی آواز ہو

نفسِ اَمارہ کہے اِنِّی سَقِیْم
منہ کے بل گر جائے شیطان رجیم

----------

بہارِ طب

ساقی محفل چلے پھر بزم میں دورِ شراب
ہے نشاط انگیز بسکہ آج ہر موجِ چناب

گرم کی جن کی کرامت نے زمستاں کی ہوا
ہیں کرفس و زنجبیل و سازج و برگِ سلاب

کرتے ہیں سمیتِ باد خزاں کا تنقیہ
شیرخشت و غاریقون و تربدد عرقِ گلاب

ہیں لیے گلرنگ پیمانوں میں صہبائے بہار
چاندنی و سوسن و صد برگ و گلنار و گلاب

ہیں شراب نو بہاری کے نشے میں سرخرو
زعفران و انجبار و صندل و عود و عناب

چشم نرگس رہ گئی محرومِ سوز آرزو
گیسوئے سنبل نہ ٹوٹا سعد کوفی کا شباب

پھونک ہر ذرّے میں سینائی طلسم زندگی
چھیڑ پاکستاں میں تُو پھر آکے فارابی رباب

وقف کر دے زندگیِ مستعار اپنی فریدؔ
جھوم کر آئے گا آخر رحمتِ حق کا سحاب

----------

ہدیۂ عقیدت بحضور

سلطان العارفین حضرت سلطان باہوؒ
تونے ظلمت کو پھر سحر دی ہے

چشم عالم کو پھر نظر دی ہے
تیرے آنے سے سرزمینِ جھنگ

رشک صد چرخِ لاجوردی ہے
مرے سلطان شب برات ہے آج

مہ و انجم نے یہ خبر دی ہے
جس نے اقصائے دہر میں آکر

گرم بزمِ حیات کر دی ہے
تلخی روزگار کے بارے

جن کے چہروں پہ چھائی زردی ہے
تیرے در پر کھڑے ہیں فریادی

کاغذی جن کی ساری وردی ہے

آج ہر اک پہ ہے نظر تیری
تجھ کو قدرت نے وہ نظر دی ہے

تیرا دستِ عطا ہے دستِ خدا
’’میرِ لولاک‘‘ نے خبر دی ہے

باہو اپنے فرید بے دِل کو
دل عطا ہو اگر نظر دی ہے

----------

ایک رُوح

ڈاکٹر صاحب کے چھوٹے بھائی محمد فرید جو اکیس سال کی عمر میں وصال فرما گئے، ان کے وصال پر غم و اندوہ کی کیفیات اور نالۂ دل اشعار کی صورت میں

جا رہی ہے جسمِ خاکی سے اک افسردہ سی رُوح
دل شکستہ غمزدہ ناشاد پژمردہ سی روح
شومئی قسمت پہ نالاں اور دل آزردہ سی روح

عالم برزخ کی جانب چشم تر کھولے ہوئے
من کی ممٹی پر کھڑی ہے اپنے پَر کھولے ہوئے

اِک طرف اکیسویں سن کی ہمہ سامانیاں
اِک طرف مجبوریاں، لاچاریاں، حیرانیاں
اک طرف قسام قسمت کی قلم جنبانیاں

اک طرف گھبرا کے سوئے منزل لا منتہی
جا رہی ہے حسرتوں کے سیل میں بہتی ہوئی

جا رہی ہے رشتہ تارِ نفس کو توڑ کر
ہم نوا کو شورشِ عالم میں تنہا چھوڑ کر
بستہ فتراک الفت اس طرح منہ موڑ کر

جیسے وہ قیدی جو پہرے دار کی للکار سے
پابجولاں جا رہا ہو تیزیٔ رفتار سے

بجھ گیا بس ایک لمحے میں چراغ زندگی
زندگی کی مے سے خالی ہے ایاغ زندگی
مل نہیں سکتا کہیں بھی اب سراغ زندگی

آنکھ جم کر رہ گئی ایک شمع رعشہ دار پر
جس کی مدھم روشنی ہے سامنے دیوار پر

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved