ڈاکٹر علی اکبر قادری
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو حصول تعلیم کی تڑپ برصغیر پاک و ہند کی بلند پایہ علمی شخصیات کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک کے عظیم علماء کے علم و عرفان کے چشموں پر کشاں کشاں لئے پھری۔ آپ نے انتھک جدوجہد اور محنت شاقہ کو بروئے کار لا کر نہ صرف دینی علوم کے حصول میں کمال حاصل کیا بلکہ علم طب یعنی اسلامی اور یونانی طب میں بھی کمال دسترس اور نبض شناسی میں محیر العقول حد تک ملکہ حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اعلیٰ پایہ کی ذہانت و فطانت، فہم و ادراک، نکتہ سنجی، استخراج و استنباط اور کمال درجے کا حافظہ عطا کیا گیا تھا۔ بقول حضرت شیخ الاسلام ’’آج تک میںنے معاصرین میں سے ان جیسا نباض نہیں دیکھا‘‘ آپ کو تشخیص اور تجویز دونوں پر پورا عبور حاصل تھا۔ بڑے بڑے ماہر اطباء آپ کی علمی و فنی اور عملی استعداد و مہارت تامہ کے معترف اور گواہ ہیں۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے والد گرامی حضرت میاں خدا بخش رحمہ اللّٰہ ایک خدا رسیدہ اور درویش منش انسان تھے۔ وہ اپنے ہونہار فرزند کو ایک کامیاب طبیب اور حکیم حاذق دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے آٹھویں جماعت ہی میں آپ کا سلسلہ تعلیم منقطع کرا کے آپ کو جھنگ صدر کے ایک حکیم صاحب کی شاگردی میں دے دیا۔ مگر چند ہی روز میں حضرت فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے محسوس کیا کہ ان کا حکیم صاحب کے پاس بیٹھنا سراسر وقت کا ضیاع ہے۔ لہٰذا آپ نے ان کے پاس جانا بند کر دیا۔ اور والد ماجد سے سلسلہ تعلیم کو جاری رکھنے کا اصرار کیا۔ تاہم حکیم صاحب کی صحبت میں گذارے گئے ان ابتدائی ایام نے آپ کے ذہن میں دین اور طب کی تعلیم اور اس کے ذریعے خلق خدا کی خدمت کا داعیہ پوری طرح بیدار کر دیا۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ دینی اور سکول کی تعلیم کے حصول کے لئے سیالکوٹ کے معروف عالم دین مولانا محمد یوسف سیالکوٹی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت مولانا محمد یوسف سیالکوٹی عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے طبیب بھی تھے۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ نے طب کی کچھ ابتدائی کتب اور نصاب ان سے پڑھا۔ بعد ازاں میٹرک کرنے کے بعد انہی کی ترغیب پر لکھنؤ تشریف لے گئے۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ سیالکوٹ سے میٹرک، درس نظامی کی اعلیٰ کتب اور طب کی ابتدائی کتب اور نصاب کے مطالعہ کے بعد لکھنؤ میں فرنگی محل جیسے ایشیا کے معروف ترین علمی و فنی مرکز میں داخل ہوگئے۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے آپ نے منبع الطب کالج میں بھی داخلہ لے لیا۔ یہاں آپ کو ڈاکٹر عبدالعزیز لکھنوی رحمہ اللّٰہ (ایم آر اے ایس لندن) پرنسپل منبع الطب کالج لکھنؤ مولانا حکیم محمد ہادی رضا لکھنوی رحمہ اللّٰہ اور مولانا حکیم محمد حسین رضا لکھنوی رحمہ اللّٰہ جیسے اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ اور آپ نے کچھ عرصہ میں 3 فروری 1964ء بمطابق 21 شوال 1352ھ کو طب میں ابتدائی ڈپلومہ حاصل کر لیا۔
فرنگی محل میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے تکمیل الطب کالج جھوائی ٹولہ لکھنؤ میں بھی داخلہ لے لیا اس طبیہ کالج کے پرنسل شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی تھے۔ آپ حضرت حکیم عبدالعزیز لکھنوی رحمہ اللّٰہ کے صاحبزادے تھے۔ اور متحدہ ہندوستان کے دور آواخر کے بہت بلند پایہ حکماء اور اطباء حکیم محمد اجمل خان دہلوی اور حکیم نابینا انصاری وغیرہ کے ہم پایہ تھے۔
لکھنؤ میں تعلیم کے دوران حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو طب قدیم اور طب جدید کے دو بہت بڑے اداروں سے اکتساب علم کا ایک بہت ہی حسین موقع میسر آیا۔ یہاں پر قائم طبیہ کالج اور کنگ جارج میڈیکل کالج کے بعض طلباء کو یہ سہولت تھی کہ دونوں کالجوں سے بعض مضامین میں اکتساب علم کر سکیں۔ طبیہ کالج کے نہایت ہی ذہین طلباء کنگ جارج میڈیکل کالج سے میڈیکل سائنس کے بعض مضامین کی کلاسز میں بیٹھتے اور میڈیکل کالج کے بعض طلباء طبیہ کالج کی بعض کلاسوں میں شامل ہوتے۔ اس طرح حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو طب کی قدیم اور جدید تعلیم کے حصول کا بہترین موقع میسر آیا، چنانچہ کنگ جارج میڈیکل کالج سے بھی میڈیکل کی ڈگری لی اور طبیہ کالج لکھنؤ طب یونانی میں تخصص حاصل کیا اور فاضل طب و الجراح کی سند (Qualified degree of physician and surgeon) اوّل پوزیشن کے ساتھ حاصل کی۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ چونکہ بہت ذہین وفطین اور محنتی طالب علم تھے۔ اس لئے آپ کے اُستاد محترم شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی آپ پر خصوصی توجہ اور کمال شفقت فرماتے تھے۔ بسا اوقات آپ کو ایک لائق طالب علم ہونے کے ناطے گھر بلا کر بھی سبق پڑھایا کرتے تھے۔ ایک روز حکیم صاحب نے حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو فرمایا ’’اپنی رہائش گاہ چھوڑ کر میرے گھر منتقل ہو جائو۔ آج سے تم میرے بیٹے ہو۔‘‘ حکیم صاحب نے آپ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی رحمہ اللّٰہ کا صرف ایک بیٹا تھا جسے وہ متین بابو کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ سے بہت مانوس ہوگیا۔ اور وہ آپ کا منہ بولا بھائی بھی بن گیا۔ اس طرح آپ اپنی تعلیم کے تمام سال وہیں مقیم رہے۔
دور قدیم میں مرض کی تشخیص کے سلسلہ میں نبض شناسی کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ طبی تعلیم میں حکماء کے لئے اس مہارت کا حصول بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ اور قدیم حکماء کی نبض شناسی سے متعلق ایسی ایسی محیر العقول مثالیں سامنے آئی ہیں جن کے مقابل جدید طب کے تمام تکنیکی اور کمپیوٹرائزڈ و سائل بہت ہیچ نظر آتے ہیں۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے اُستاد محترم جناب شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی طبی تعلیم کے اس فن میں بھی آپ کو اعلیٰ مقام پر فائز دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ نے نبض شناسی میں تخصص کے لئے ڈاکٹر صاحب کو اس دور کے ایک عظیم نباض حکیم عبدالوہاب المعروف حکیم نابینا انصاری کے پاس ایک خصوصی تعارفی خط کے ساتھ بھیجا۔ اس خط میں تحریر فرمایا کہ ’’جناب حکیم انصاری صاحب یہ ایک طالب علم جس کی نظر آج تک ہمارے ادارے نے نہیں دیکھی۔ اس کو آپ کے پاس نبض میں تخصص کے لئے بھیج رہا ہوں اس پر خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔‘‘
حکیم نابینا انصاری رحمہ اللّٰہ دہلی کے رہنے والے تھے۔ لیکن نظام حیدر آباد دکن کے پاس ان دنوں افسر الاطباء کے عہدہ جلیلہ پر فائز تھے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب آپ کے پاس حیدر آباد دکن تشریف لے گئے۔ وہاں پہنچنے پر حکیم نابینا انصاری رحمہ اللّٰہ نے آپ کا انٹر ویو اور ٹیسٹ لیا۔ جس میں آپ نے قابل رشک حد تک کامیابی حاصل کی۔ حکیم صاحب نے آپ کی استعداد اور صلاحیت کو دیکھ کر آپ کو اپنے ان خاص طلباء میں شامل کر لیا جنہیں وہ سالوں کی تعلیم کے بعد مطب میں اپنے دائیں اور بائیں بٹھاتے تھے۔
حکیم انصاری رحمہ اللّٰہ کا مریض کے دیکھنے کا طریقہ یہ تھا کہ بیک وقت دو مریضوں کو دیکھتے اور نبض پر ہاتھ رکھ کر دونوں مریضوں کا جو مرض ہوتا بول دیتے۔ پہلے علامات بولتے جاتے۔ بعد میں ادویات اور نسخہ جات تجویز کرتے جاتے۔ اور شاگردوں کو یہ ہرگز نہ بتاتے کہ دونوں مریضوں میں سے یہ نسخہ کس کے لئے ہے۔ بلکہ یہ کام شاگردوں پر چھوڑے دیتے۔ جب مریض کو دیکھ کر فارغ ہو جاتے تو حکیم صاحب شاگردوں سے پوچھتے کہ انہوں نے کس مریض کے لئے کونسی دوا تجویز کی ہے۔ شاگرد اپنے اپنے نوٹس کے مطابق بتاتے اور اس میں کوئی غلطی ہوتی تو اصلاح فرما دیتے۔ اس طرح شاگردوں کو خود محنت کرنا پڑتی۔ اور انہیں تشخیص اور تجویز میں زیادہ درک حاصل ہوتا چلا جاتا۔ حکیم نابینا انصاری رحمہ اللّٰہ جب حیدر آباد دکن سے دہلی واپس آئے تو ڈاکٹر صاحب بھی ان کے ہمراہ دہلی آگئے۔ اس طرح آپ پورا ایک سال حکیم انصاری رحمہ اللّٰہ کے ساتھ رہے۔ اس طرح ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو نبض میں وہ مہارت حاصل ہوئی کہ آج کے حکماء و اطباء میں ان جیسا نباض ان کے معاصرین میں نہیں دیکھا گیا۔ حکیم نابینا انصاری کی تربیت اور صحبت نے آپ کو فرید العصر بنا دیا۔ آپ دہلی سے 1941ء میں جھنگ واپس تشریف لائے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے اساتذہ اور ہم عصر اکابرین جن سے انہوں نے اکتساب فیض کیا، میں بڑے بڑے علمائ، فقہائ، جلیل القدر صوفیائ، مجذوبین، اطبائ، اور ڈاکٹرز کے نام ملتے ہیں۔ لکھنؤ میں جب طبِ قدیم و جدید کی تحصیل سے فراغت حاصل کی تو شفاء الملک حکیم عبدالحلیم رحمہ اللّٰہ پرنسپل طبیہ کالج لکھنؤ نے نبض شناسی میں تخصص کے لئے انہیں اس دور کے ایک عظیم حکیم نابینا انصاری رحمہ اللّٰہ کے پاس ایک خصوصی تعارفی خط دے کر بھیجا۔ حکیم صاحب کا پورا نام حکیم عبدالوہاب انصاری رحمہ اللّٰہ تھا۔ یہ وہی حکیم ہیں جو حضرت علامہ اقبال رحمہ اللّٰہ کے معالج رہے۔
دورِ قدیم میں نبض شناسی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ قدیم اطباء نہ صرف حکیم و نبض شناس ہوتے بلکہ صاحبِ زہد و تقویٰ بھی ہوتے۔ طبی بصیرت کے ساتھ ساتھ قلبی بصیرت کا امتزاج ہوتا تو نبض شناسی کے ایسے باب کھل کر سامنے آتے کہ عقل و خرد کے تمام پیمانے یکسر ٹوٹ جاتے۔ اسی نوعیت کا ایک محیر العقول واقعہ حکیم نابینا انصاری رحمہ اللّٰہ سے متعلق ہے جس کے راوی خود ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ ہیں اور ان کی موجودگی میں یہ وقعہ پیش آیا۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی زبانی قائد انقلاب بیان فرماتے ہیں:
’’ہم حکیم نابینا انصاری صاحب کے دائیں بائیں معمول کے مطابق بیٹھتے تھے۔ مطب کا وقت تھا لوگ آتے اور حکیم صاحب بیک وقت دو دو مریضوں کو دیکھتے جاتے جیسا کہ ان کا معمول تھا۔ ایک دن ایک میاں بیوی حکیم صاحب کے مطب پر آئے۔ اُن کے ساتھ نو دس سال کا ایک بچہ بھی تھا۔ شوہر نے حکیم صاحب کو نبض دکھائی حکیم صاحب نے نبض دیکھ کر اس کے لئے دوا تجویز کر دی۔ وہ شخص نبض دکھا چکا تو کہنے لگا حکیم صاحب میرا بیٹا بھی میرے ساتھ ہے اس کی طبیعت بھی دیکھ لیں۔ حکیم صاحب نے اس شخص کی بات سنی تو چونک اُٹھے اور کہنے لگے بھئی آپ کا بیٹا کیسا؟ یہ تدبر ہمارے ’’ایم بی بی ایس‘‘ ڈاکٹرز حضرات کے تصور سے بھی بالا تر ہے۔ کیونکہ انہیں نبض کا علم پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نبض صرف سرکولیشن آف بلڈ کو ٹیسٹ کرنے کے لئے ہوتی ہے۔ حکیم نابینا انصاری رحمہ اللّٰہ نے اس آدمی کو نبض تو محض کسی دوسری تکلیف کو جاننے کے لئے دیکھی تھی لیکن نبض پر ہاتھ رکھنے سے اس کی فطرت و جبلت اور صلاحیت ہر چیز آشکار ہوگئی تھی۔ جب اس شخص نے اپنے بیٹے کا ذکر کیا تو انصاری صاحب نے کہاکہ بھئی تمہارا بیٹا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ اس نے کہا جناب میرا ہی بیٹا ہے جبکہ حکیم صاحب ماننے سے انکاری تھے۔ اسی اصرار و انکار میں لوگوں کا ایک اژدھام اکٹھا ہوگیا۔ تلامذہ جمع تھے۔ عجب تماشا ہوا۔ مریض کا اصرار ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ حکیم صاحب کا اصرار ہے کہ آپ کا بیٹا ہو ہی نہیں سکتا۔ حکیم صاحب نے آخری اور فیصلہ کن بات کہہ دی کہ اگر یہ آپ کا بیٹا ہے تو مَیں ساری عمر کے لئے حکمت و طبابت چھوڑدوں گا۔ بیوی اس کے ساتھ تھی اس سے پوچھا تو اُس نے حلفاً کہا کہ جناب؛ انہی کا بیٹا ہے۔ حکیم صاحب نے کہا کہیں ایسا تو نہیں کہ اس خاتون کی پہلے کہیں اور شادی ہوئی ہو اور یہ بیٹا پہلے شوہر سے ہو اور آپ نے اس کی پرورش کی ہو۔ انہوں نے انکار کیا اور کہا یہ بیٹا ہمارا ہی ہے۔ حکیم انصاری رحمہ اللّٰہ نے قلم رکھ دیا اور فرمایا میں بھی حلفاً کہتا ہوں کہ آپ کے ہاں بیٹا نہیں ہو سکتا۔ مجھے سچ سچ بتائیں اصل ماجرا کیا ہے؟عجیب صورتحال پیدا ہوگئی۔ بیوی کی عصمت و کردار پر بھی حرف آنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ بالآخر شوہر بول اُٹھا کہ آپ کی تشخیص درست ہے بابا! آپ بھی سچے ہیں اور ہم بھی سچے ہیں۔ حکیم صاحب کہنے لگے کیسے؟ اس پر اُس شخص نے اپنی کہانی کچھ ان الفاظ میں سنائی۔
ہماری شادی کو بارہ سال ہوگئے تھے لیکن اولاد سے محروم تھے۔ بڑے علاج کروائے۔ بڑے بڑے طبیبوں اور ڈاکٹروں سے رابطہ کیا لیکن مایوسی ہوئی۔ دوا دارو کا سلسلہ چلتا رہا لیکن اولاد سے محروم ہی رہے (یہ واقعہ حیدر آباد دکن کا ہے)۔ ہم بالکل مایوس ہوگئے۔ حیدر آباد دکن جہاں ہمارا گھر ہے اس گلی میں ایک مجذوب آکر بیٹھا کرتے تھے۔ روزانہ صبح آٹھ ساڑھے آٹھ بجے کے قریب۔ دو تین گھنٹے مسلسل بیٹھے رہتے مراقبے کی حالت میں۔ اس کے بعد اُٹھ کر کہیں اور چلے جاتے۔ میری اہلیہ نے جب دیکھا کہ یہ مجذوب روزانہ یہاں آکر بیٹھ جاتے ہیں تو وہ کوئی کھانا وغیرہ پکا کر ان کی خدمت میں پیش کر دیتی۔ کبھی وہ کھا لیتے اور اگر طبیعت نہ ہوتی تو انکار میں سر ہلا دیتے۔ اس طرح خدمت کرتے کرتے ایک عرصہ گزر گیا۔ ایک روز جب میری بیوی نے ان کی خدمت میں کھانا پیش کیا تو انہوں نے سر اُٹھا کر دیکھا اور پوچھا کہ بیٹی ہر روز تم ہی کھانا لاتی ہو؟ اہلیہ نے کہا جی ہاں! مجذوب نے کہا کیوں تکلیف کرتی ہو؟ اس وقت میری اہلیہ کے دل میں اولاد کی خواہش مچل اُٹھی اور وہ اولاد کی محرومی کے احساس سے رو پڑی۔ ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اللہ والے کے دل میں رحم آیا اور انہوں نے پوچھا بیٹی کیوں روتی ہو؟ تو اس نے کہا حضرت میری شادی کو بارہ سال ہوگئے ہیں۔ سنا ہے بارہ سال تو اللہ تعالیٰ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کی بھی سن لیتا ہے لیکن میں ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔ ہم نے بہت علاج کروائے لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ سب کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کے محبوب اور مقرب و مکرم بندے ہیں۔ اگر آپ نے پوچھ ہی لیا ہے تو عرض یہ ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں وہ تقدیریں بدلنے والا ہے، قادرِ مطلق ہے اگر ہماری تقدیر بدل جائے تو اس سے کون پوچھنے والا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں بیٹا یا بیٹی عطا کردے۔ یہ سن کر مجذوب صاحب مراقبہ میں چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد سر اُٹھا کر کہنے لگے بیٹی! یہ معاملہ ہمارے بس سے باہر ہے۔ البتہ ہم نے تمہارا کام کر دیا ہے۔ یہ معاملہ حضرت بابا فرید گنج شکررحمہ اللّٰہ کے بس کا ہے۔ اور ہم نے ان سے عرض کر دی ہے۔ آپ لوگ پاکپتن شریف چلے جائیں۔ بابا حضور رحمہ اللّٰہ کے دربار عالیہ پر، وہاں چالیس روز قیام کریں اگر اللہ کو منظور ہوا تو تمہارا کام بن جائے گا۔
چنانچہ ہم دونوں میاں بیوی پاک پتن شریف چلے گئے اور مزار شریف پر حسبِ حکم چالیس روز تک اعتکاف کیا۔ اور یہ گھڑیاں مسلسل عبادت و ریاضت میں گزاریں۔ تہجد کے وقت ہم اللہ تعالیٰ کے حضور رو روکر التجا کرتے۔ اور ان التجائوں میں بابا حضور کووسیلہ بناتے۔ آخر چالیس راتیں پوری ہوئیں۔ آخری رات تھی جس کی صبح ہمیں واپس چلے جانا تھا۔ میری اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت بابا فرید گنج شکررحمہ اللّٰہ تشریف لائے اور میری اہلیہ سے فرمایا بیٹی اُٹھو! تمہیں مبارک ہو اور اس کے ساتھ ہی اس کے ہاتھ میں گلاب کا ایک پھول رکھ دیا۔ حضرت بابا فرید گنج شکر رحمہ اللّٰہ کا میری اہلیہ کے ہاتھ پر گلاب کا پھول رکھنا تھا کہ اہلیہ کی آنکھ کھل گئی اس نے فوراً مجھے بیدار کیا اور خواب بتلایا۔ ہم نے فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور سجدۂ شکر ادا کیا، بابا حضو رحمہ اللّٰہ ر کا شکریہ ادا کیا اور نمازِ فجر کے فوراً بعد واپس روانہ ہوگئے۔ آتے ہی میری اہلیہ اُمید سے ہوگئیں اور اس کے نو ماہ بعد یعنی ہماری شادی کے تیرھویں سال یہ بیٹا پیدا ہوا۔ اب پھر نو سال گزر گئے ہیں لیکن اس بیٹے کے بعد دوبارہ ہمارے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ آپ نے نبض دیکھ کر جو کچھ ارشاد فرمایا ہے وہ بالکل درست ہے اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ یہ بیٹا بھی ہمارا ہی ہے۔ الحمد للہ آپ بھی سچے ہیں اورہم بھی۔ یہ بیٹا ہمارا ہی ہے لیکن ہوا ہے ایک مجذوب اور بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللّٰہ کے توسط سے۔‘‘ نبض شناسی کا یہ حیرت انگیز واقعہ ایک حقیقت ہے۔ اس تشخیص کا انداز آج کے حکماء اور ڈاکٹروں کے ہاں مفقود ہے لیکن کہیں کہیں سلف صالحین کی نشانیاں موجود ہیں اور ان کے ہاں آج بھی یہ جھلک نظر آجاتی ہے:
دار الشفاء حوالی بطحا میں چاہئے
نبضِ مریض پنجۂ عیسیٰ میں چاہیے
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے خلق خدا کی خدمت کے لئے طب کو بطور پیشہ پسند فرمایا۔ اور گورنمنٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت اختیار کر لی۔ آپ کا دل خلق خدا کی خدمت کے جذبہ سے سرشار تھا۔ آپ کے پاس جتنے بھی مریض آتے ان کو بڑی تسلی اور اطمینان سے دیکھتے۔مریض کی نفسیات میں آپ کو پوری مہارت حاصل تھی۔ مریض کی اس درجہ حسن سلوک کی وجہ سے تشفی ہو جاتی اور اس کی آدھی بیماری پہلی ملاقات ہی میں دور ہو جاتی۔
1948ء میں جب ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے کیمپوں میں ہیضہ کی وباء پھیلی تو حکومت نے حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو بیماری کے علاج کے لئے ان کیمپوں کا انچارج مقرر کیا۔ آپ نے اس بیماری کے علاج کے لئے اپنا تیار کردہ نسخہ استعمال کروایا جس سے یہ وباء فوری طور پر ختم ہوگئی۔ صدر ایوب کے دور میں حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ طبی سلیکشن بورڈ کے رُکن بھی رہے اور آپ نے یونانی اطباء کی سلیکشن بھی کی۔
ڈاکٹر صاحب کے طریقہ علاج سے جو بات سامنے آتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف طبی علم کے ماہر تھے بلکہ فن طبابت میں ان کا درجہ محقق اور مجتہد کا تھا۔ آپ نے علمی تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں متعدد فروعات ایجاد کیں اور کئی نہایت اہم اور کیمیا اثر نسخہ جات مرتب کئے۔
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے لکھنؤ سے لاہور آتے ہی حمایت اسلام طبیہ کالج لاہور سے زبدۃ الحکماء کا امتحان بطور پرائیویٹ اُمیدوار کے دیا۔ اس وقت یہ امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام ہوتا تھا۔ اس امتحان میں آپ نے پہلی پوزیشن حاصل کی اور اس طرح پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے 1941ء میں آپ کو گولڈ میڈل کا اعزاز ملا۔
مذکورہ امتحان میں آپ نے فن نبض شناسی پر چالیس صفحات پر مشتمل عربی زبان میں ایک فی البدیہ مقالہ لکھا جس میں اس فن پر مبسوط بحث کی۔ مقالہ میں آپ نے اقسام نبض، ان کی علامات، اخذ نتائج، ان کے انطباقات اور تشخیص کی اساسیات پر اتنی سیر حاصل گفتگو کی کہ ممتحن حضرات یہ مقالہ پڑھ کر متحیر ہوگئے۔ انہوں نے لکھا کہ یہ یقین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ کسی طالب علم کا مقالہ ہے یا اس فن کے کسی ماہر یا امام کی کتاب۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے فن طب پر چار کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ ان میں پہلی کتاب ’’شفاء الناس‘‘ (زمانہ طالب علمی کے فوراً بعد لکھی) دوسری ’’بیاض فریدی‘‘ تیسری ’’زبدۃ المجربات‘‘چوتھی ’’تفرید الفرید‘‘ ہے۔ یہ کتابیں آپ کے فرزند جلیل شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے پاس محظوطات کی صورت میں موجود ہیں۔
جھنگ میں حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے ایک ہم عصر حکیم حافظ سلطان محمود صاحب فرماتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ طبیب تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم ان کی طبی گفتگو سمجھنے سے قاصر رہتے۔ وہ ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عرصہ دراز پہلے شیخ اکرام الحق اے ڈی ایم و چیئرمین بلدیہ جھنگ کی اہلیہ کسی پیچیدہ مرض میں مبتلا تھی۔ ڈاکٹر صاحب مجھے ہمراہ لے کر مریضہ کے معائنے کے لئے گئے۔ مریضہ کا دماغی توازن درست نہ تھا۔ میں تو اس مریض کو دیکھ کر پریشان ہوگیا اور نا اُمید ہوکر ایک طرف کھڑا ہوگیا لیکن حضرت ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کو دیکھ فرمایا کہ پرسوں انشاء اللہ آپ کا مریض صحت یاب ہو جائے گا۔ آپ نے مریضہ کے لئے دوا دی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا جب دو روز بعد میں ان کے ہمراہ مریضہ کے معائنہ کے لئے گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ آپ کے علاج سے صحت یاب ہو چکی تھی۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کچھ عرصہ ڈی ایس ہسپتال لالیاں تحصیل چنیوٹ میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ لالیاں میں ایک بڑے زمیندار مہر غلام عباس (بی اے۔ ایل ایل بی و آنریری مجسٹریٹ درجہ اوّل چنیوٹ) اپنا زیادہ وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس ہی گذارتے تھے۔ حضرت ڈاکٹر صاحب کی طبی مہارت کا ذکر کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں کہ میرے چچا مہر مراد بخش سخت بیمار ہوگئے۔ ہر جگہ سے کافی علاج کروایا مگر افاقہ نہ ہوا۔ آخر کار میرے والد مہر محمد محسن لالی انہیں حکیم اجمل خان کے پاس دہلی لے گئے۔ وہاں دو ماہ علاج کرانے کے بعد کچھ افاقہ محسوس ہوا تو انہوں نے حکیم صاحب سے کہا کہ آپ اس مریض کے لئے نسخہ تجویز فرما دیں۔ ہم اپنے گائوں میں نسخہ تیار کروا لیں گے اس پر حکیم اجمل خان صاحب نے کہا کہ موسم بدلنے کے ساتھ یہ مرض دوبارہ ظاہر ہو جائے گا۔ اور مجھے نسخہ کے اجزاء میں کمی بیشی کرنا پڑے گی۔ مریض اگر میرے پاس رہا تو اس کا علاج جاری رہ سکتا ہے کوئی دوسرا شخص اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ مہر صاحب بتاتے ہیں کہ چند مجبوریوں کے باعث وہ دہلی سے گائوں آگئے کچھ عرصہ بعد حکیم اجمل صاحب کا کہا سچ ثابت ہوا۔ اور موسم تبدیل ہونے کے بعد مرض بڑھ گیا۔ اب ہم مریض کو حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ کے پاس لے گئے آپ نے مریض کا علاج کیا تو چند روز بعد مرض ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا۔
مہر غلام عباس لالی صاحب بیان کرتے ہیں کہ خودمیرے والد مہر محمد محسن لالی بیمار ہوئے تو ہم نے متعدد حکماء کو آپ کی نبض دکھائی، سب نے کہا کہ ان کا جگر خراب ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب کو دکھایا تو انہوں نے فرمایا کہ ان کو کینسر کی ایک قسم کا مرض لاحق ہے۔ ہم نے اس وقت زیادہ توجہ نہ دی۔ کئی برسوں بعد جب مہر صاحب کو دوبارہ تکلیف ہوئی تو ہم نے لاہور کے ایک مشہور و معروف ڈاکٹر الٰہی بخش سے علاج شروع کروایا لیکن بیماری جوں کی توں رہی۔ آخر کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر الٰہی بخش نے بتایا کہ مہر صاحب کو کینسر ہے۔ اس طرح ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے جو بات ہمیں برسوں پہلے بتا دی تھی وہ سچ ثابت ہوئی۔
قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری چند واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم والد صاحب کے ہمراہ جھنگ کے دوست سید الطاف حسین شاہ کی پھوپھی محترمہ آفتاب بی بی کے انتقال پر ان کی تدفین کے لئے قبرستان گئے تھے۔ قبرستان ہی میں ایک مریض آیا۔ اس مریض کا کئی سالوں سے خونی بواسیر کا علاج کیا جا رہا تھا۔ آپ نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا اور مسکرائے۔ فرمانے لگے نہ تمہیں خونی بواسیر ہے نہ علاج درست ہوا ہے۔ بلکہ تمہاری انتڑیوں میں ورم ہے اور 15 دِن کے علاج سے افاقہ ہو جائے گا، لیکن تین ماہ تک علاج کرنا پڑے گا۔ چنانچہ مریض نے علاج جاری رکھا اور وہ مکمل صحت یاب ہوگیا۔
ایک مرتبہ ہماری رہائش گاہ جھنگ پر میری موجودگی میں ایک مریض آیا۔ اس نے کہا کہ مجھے بہت زیادہ تکلیف ہے مگر زبان سے اور کچھ نہ بتایا۔ آپ نے نبض پر ہاتھ رکھتے ہی مجھے فرمایا کہ آپ بیٹے ذرا اندر جائیں۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں اندر جانے کے لئے اُٹھا کہ ابھی دروازے ہی میں تھا کہ مریض سے فرمانے لگے کہ آپ نے اتنی زیادہ لواطت کی ہے کہ آپ کو یہ تکلیف ہوئی اور بیماری بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اس پر مریض کہنے لگا کہ آپ کی نبض شناسی نے مجھے ننگا کر دیا ہے۔ تاہم آپ نے اس کا علاج کیا۔
سرزمینِ عرب پر لا علاج مریضوں کا علاج
شاہ ابن مسعود کے بھائی کا علاج
1948ء میں ڈاکٹرفرید الدین قادریؒ جب بغداد شریف سے ایک قافلہ کے ہمراہ سرزمین حجاز پہنچے تو اس زمانہ کے سعودی بادشاہ ابن المسعود کے کارندے بندرگاہ پر قافلہ کے ایک ایک فرد سے پوچھ رہے تھے تم میں کوئی ڈاکٹر ہے؟ ماجرا یہ تھا کہ شاہ ابن المسعود کے بھائی کو کوئی ایسا مرض لاحق تھا کہ یورپ تک علاج کروانے کے باوجود صحت یاب نہ ہو سکا تھا۔ اور اب وہ زندگی کی آخر گھڑیاں گذار رہا تھا۔ لیکن بادشاہ نے ہمت نہ ہاری اور مسلسل کوشش میں لگا رہا کہ کسی طور اس کا بھائی صحت یاب ہوجائے۔
جب قافلہ سرزمین حجاز کی سرحد پر پہنچا تو بادشاہ کے کارندے فرداً فرداً پوچھنے کے بعد حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کو اپنے ساتھ ریاض لے گئے۔ اور شاہی محل میں مریض کے پاس پہنچا دیا۔ آپ نے مریض کی نبض دیکھی تو فرمایا کہ انہیں چند گھنٹوں میں افاقہ ہو جائے گا۔ اس پر تمام لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ چنانچہ آپ فوراً بازار گئے اور دوا کے لئے چند چیزیں خریدیں اور واپس محل میں آکر ایک ٹب گرم پانی سے بھروایا اور اس میں متعلقہ دوال ٹال دی۔ اور ملازموں سے فرمایا کہ مریض کو علیحدہ کمرے میں کپڑے اتروا کر اس ٹپ میں بٹھا دیا جائے اور جب پانی ٹھنڈا ہو جائے تو نئے سرے سے پانی گرم کر کے اس میں یہ دوائی ملا کر دوبارہ اس مریض کو بٹھا دیا جائے۔ اور اس عمل کو بار بار دہرایا جائے۔ چنانچہ ملازموں نے اس ہدایت پر عمل کیا۔ اور صرف دو گھنٹوں کے بعد ایک نادار کمزور اور زندگی سے مایوس مریض صحت یاب ہو کر اپنے پائوں پر چلتا ہوا کمرے سے ہشاش بشاش آگیا اس پر شاہی خاندان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔
1963ء میں جب حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ حج پر گئے تو حج سے واپسی پر بحرین میں آپ کے پاس کچھ لوگ آئے۔ اور ایک ایسے مریض کو دیکھنے کے لئے ان کی رہائش گاہ پر جانے کے لئے کہا جس کی حالت بہت تشویشناک ہو چکی تھی۔ اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا۔ چنانچہ آپ اس وقت ان لوگوں کے ساتھ چل دئیے اور مریض کو دیکھ کر دوا دی اور رات بھر میں 3/4 ماہ سے صاحب فراش مریض کو اللہ تعالیٰ نے فی الفور شفا دی اور آپ کو مسیحا بنا دیا۔
1963ء میں قیام حرمین شریفین کا واقعہ ہے کہ ان دنوں حضرت قبلہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ کے سجادہ نشین حضرت خواجہ غلام محی الدین المعروف بابوجیؒ سرکار بھی وہیں قیام پذیرتھے۔ حضرت بابوجیؒ نے حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری سے فرمایا کہ قبلہ پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے کچھ مریدین یہاں مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب سخت علیل ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو وہ مریض دیکھ لیں۔ چنانچہ آپ نے مریض کو دیکھا پھر خود بازار سے دوائیں لا کر مریض کو نسخہ بنا کر دیا، جس کے استعمال سے مریض بفضلہ تعالیٰ کچھ ہی وقت میں شفا یاب ہوگیا۔
اسی سال مدینہ منورہ میں نیروبی سے آئی ہوئی کینسر کی ایک مریضہ پڑی ہوئی تھی۔ جسے کینسر کا مرض بڑی ایڈوانس صورت میں لاحق تھا۔ وہ یورپ سے علاج کروانے کے باوجود بھی صحت یاب نہ ہو سکی تھی۔ جب ان کی تکلیف بہت بڑھ گئی تو وہ لوگ مدینہ پاک میں اس آرزو کے ساتھ آئے کہ اب موت تو یقینی ہے تاہم دفنانے کے لئے مدینہ پاک میں جگہ ہی مل جائے تو غنیمت ہے۔ ان کے اس قیام کے دوران کسی نے انہیں ڈاکٹر صاحب کا تعارف کروادیا۔ وہ آپ کے پاس ان کی رہائش گاہ پرپہنچ گئے۔ آپ نے مریض کی حالت دیکھ تشویش کا اظہار فرمایا۔ لیکن مریض اور اس کے لواحقین بضد رہے کہ اب جبکہ ہم مدینہ پاک آگئے ہیں تو اُمید ہے اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے تصدق سے ضرور شفا عطا فرمائے گا۔ اب ہم زندگی کے دن تو پورے کر ہی رہے ہیں آپ علاج شروع کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ آپ کل تشریف لائیں میں سوچ کر آپ کو بتائوں گا۔ اسی رات ڈاکٹر صاحب کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ اور آپ ﷺ نے مدینہ پاک شہر کے باہر ایک جگہ دکھائی اور دوا بنانے کے کچھ اجزاء دکھائے گئے جو وہاں میسر تھے۔ یہ اجزاء پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں بھی میسر ہیں۔ ان اجزاء کو ملا کر دوا بنانے کا طریقہ بھی بتایا گیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ دوا بنا کر مریض کو استعمال کروائو۔
جب اگلے روز مریضہ آئی تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں مبارکباد دی۔ اور فرمایا مبارک ہو حضور ﷺ کی بارگاہ سے علاج کا اذن مل گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ہدایت کے مطابق اجزاء کی دوا تیار کر کے مریض کا علاج شروع کیا۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب کا مدینہ شریف میں چھ ماہ کا قیام تھا۔ آپ نے 2 یا 3 ماہ علاج جاری رکھا اور وہ خاتون مکمل شفایاب ہوگئی۔ مریضہ کے لواحقین نے علاج کے اخراجات کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کو اس وقت تقریباً 4000 ریال بطور انعام پیش کئے۔ حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ اباجی قبلہ اُسی وقت بازار گئے اور حضور ﷺ کی شانِ اقدس، شمائل اور سیرتِ طیبہ پر جس قدر کتب دستیاب تھیں اِن پیسوںسے خرید لائے۔ ایک دن میں نے عرض کیا کہ ابا جی اِس دوائی کو عام کر دیا جائے۔ قومی سطح پر اسے متعارف کرایا جائے۔ لیکن انہوں نے فرمایا معلوم نہیں اِس اِفشا میں حضور ﷺ کی منشاء ہے بھی یا نہیں، اس لئے بیٹا خاموشی بہتر ہے۔بعد ازاں پاکستان آکر بھی کئی ایسے مریضوں کا علاج کیا اور وہ شفایاب ہوتے رہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved