گزشتہ ابواب میں ہم توبہ سے متعلق جملہ پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کے بعد کہ ندامت ہی توبہ ہے، احساسِ گناہ کے بعد دل کی اتھاہ گہرایوں میں ندامت اور شرمندگی کا جنم لینا ہی دراصل توبہ ہے لیکن اگر ندامت اور شرمندگی کو لفظوں کی زبان دی جائے تو یہ الله تعالیٰ کے حضور دعا کہلاتی ہے۔
ایک مسلمان کے لئے رشد و ہدایت کا اولین مرکز اور منبع صرف قرآن حکیم ہے۔ یہی وہ ہدایت کا الوہی سرچشمہ ہے جس میں دنیوی اور اُخروی زندگی کے تمام پہلوؤں کا اجمالی طور پر احاطہ کیا گیا ہے۔ جب دعا کے حوالے سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے توبہ کے سلسلے میں خود اپنے بندوں کو دعا کا طریقہ سکھایا ہے۔
1۔ ارشاد فرمایا گیا:
وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَo
المومنون، 23: 118
اور آپ عرض کیجیے: اے میرے رب! تو بخش دے اور رحم فرما اور تو (ہی) سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔
2۔ دعا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
الأعراف، 7: 55
تم اپنے رب سے گِڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
3۔ پھر ارشاد فرمایا:
قُلِ ادْعُوا اللهَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی ج وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْـلًاo
الإسراء، 17: 110
فرما دیجئے کہ الله کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرأت) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص بندوں کی دعاؤں کا ذکر بھی کیا ہے جو انہوں نے توبہ کے حوالے سے اظہار بندگی کرتے ہوئے حق تعالیٰ کے حضور پیش کیں۔
4۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِهَا وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰهُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْنَo
النمل، 27: 19
تو وہ (یعنی سلیمان علیہ السلام ) اس (چیونٹی) کی بات سے ہنسی کے ساتھ مسکرائے اور عرض کیا: اے پروردگار! مجھے اپنی توفیق سے اس بات پر قائم رکھ کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاتا رہوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر انعام فرمائی ہے اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو راضی ہوتا ہے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے خاص قرب والے نیکوکار بندوں میں داخل فرمالے۔
5۔ اسی طرح قرآنِ حکیم میں ارشادِ رب العزت ہے:
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْط اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَاخِرِیْنَo
المومن، 40: 60
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے تم لوگ مجھ سے دعا کیا کرو میں ضرور قبول کروں گا، بے شک جو لوگ میری بندگی سے سرکشی کرتے ہیں وہ عنقریب دوزخ میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔
6۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے:
وَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo
البقرۃ، 2: 201
اور انہی میں سے ایسے بھی ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔
7۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کو یوں بیان کیا گیا:
ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا رَبَّهٗ ج قَالَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّـبَۃً ج اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo
آل عمران، 3: 38
اسی جگہ زکریا ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے دعا کی، عرض کیا: میرے مولا! مجھے اپنی جناب سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا ہے۔
8۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کو ان الفاظ میں بیان کیا:
قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗ ط اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo
القصص، 28: 16
(موسیٰ علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرمادے، پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بے شک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
ان آیات مبارکہ میں نہ صرف دعا مانگنے کا حکم ہے بلکہ دعا نہ مانگنے کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی سے سرکشی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی دعائیں اس قدر پسند ہیں کہ اس کے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں ان کی دعاؤں کے الفاظ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرۃ مطہرہ کا مطالعہ کریں تو یہ امر سامنے آتا ہے کہ حضور نبی اکرم s نے بندگی کے مقام پر نہ صرف خود الله تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں بلکہ اپنے امتیوں کو بھی تلقین فرمائی۔ ان سب کا ذخیرہ کتب حدیث میں محفوظ ہے۔ ان میں سے بعض معروف اور منتخب دعاؤں کو بیان کرنے سے قبل دعا کی اہمیت بیان کی جاتی ہے۔ آپ ﷺ نے امت کو دعا کے آدب اور طریقہ بھی سکھایا۔
1۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلْیَعْزِمْ فِي الدُّعَاءِ وَلَا یَقُلْ: اَللّٰهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي فَإِنَّ اللهَ لَا مُسْتَکْرِهَ لَهٗ.
جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو دعا میں اصرار کرے اور یہ نہ کہے: اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے دے دے، کیونکہ خدا کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔
2۔ دعا بذاتِ خود مغزِ عبادت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ.
دعا عبادت کا بھی مغز (یعنی خلاصہ اور جوہر) ہے۔
3۔ دوسری حدیث مبارکہ جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے میں ارشاد فرمایا گیا:
لَیْسَ شَيئٌ أَکْرَمَ عَلَی اللهِ تَعَالٰی مِنَ الدُّعَاءِ.
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ محترم و مکرم کوئی شے نہیں ہے۔
4۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا یَرُدُّ الْقَضَاءَ إِلَّا الدُّعَاءُ، وَلَا یَزِیْدُ فِي الْعُمْرِ إِلَّا الْبِرُّ.
دعا کے علاوہ کوئی چیز تقدیر کو نہیں بدل سکتی اور نیکی کے علاوہ کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کر سکتی۔
5۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے حدیث قدسی روایت کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے فرمایا:
یَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ مَا دَعَوْتَنِي وَرَجَوْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ عَلٰی مَا کَانَ فِیْکَ وَلَا أُبَالِي. یَا ابْنَ آدَمَ، لَوْ بَلَغَتْ ذُنُوْبُکَ عَنَانَ السَّمَائِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِي غَفَرْتُ لَکَ وَلَا أُبَالِي. یَا ابْنَ آدَمَ، إِنَّکَ لَوْ أَتَیْتَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِي لَا تُشْرِکُ بِي شَیْئًا لَأَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً.
اے ابن آدم! جب تک تو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور(قبولیت کی) اُمید رکھے گا جو کچھ بھی تو کرتا رہے میں تجھے بخشتا رہوں گا اور مجھے کوئی پروا نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کے بادلوں تک پہنچ جائیں پھر بھی تو بخشش مانگے تو میں بخش دوں گا اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ اے ابن آدم! اگر تو زمین بھر کے برابر گناہ بھی لے کر میرے پاس آئے پھر مجھے اس حالت میں ملے کہ تو نے میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو یقینا میں زمین بھر کے برابر تجھے بخشش عطا کروں گا۔
6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اُدْعُوا اللهَ وَأَنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بِالإِجَابَۃِ، وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللهَ لَا یَسْتَجِیْبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ۔
اللہ تعالیٰ سے قبولیت کے یقین کے ساتھ دعا مانگا کرو اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔
7۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یَدْعُوْ بِدَعْوَةٍ لَیْسَ فِیْهَا إِثْمٌ وَلَا قَطِیْعَۃُ رَحِمٍ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ بِهَا إِحْدٰی ثَـلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهٗ، وَإِمَّا أَنْ یَدَّخِرَهَا لَهُ فِي الْآخِرَۃِ، وَإِمَّا أَنَّ یُصْرَفَ عَنْهُ مِنَ السُّوْئِ مِثْلَهَا. قَالُوْا: إِذَا نُکْثِرُ. قَالَ: اللهُ أَکْثَرُ.
جب کوئی مسلمان کوئی دعا کرتا ہے بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ یا قطع رحمی نہ ہو، تو الله تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا فرماتا ہے: یا تو اس کی دعا کو فوراً قبول فرما لیتا ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ بنا دیتا ہے یا اس سے اس قسم کی کوئی تکلیف دور کر دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا : (یا رسول الله!) پھر تو ہم زیادہ سے زیادہ دعا کریں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: الله تعالیٰ بھی زیادہ (سے زیادہ قبول فرمانے والا) ہے۔
8۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ سَرَّهُ أَنْ یَسْتَجِیْبَ اللهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْکَرْبِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَائَ فِي الرَّخَاءِ.
جسے پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ مشکلات اور تکالیف کے وقت اس کی دعا قبول کرے، وہ خوشحالی کے اوقات میں بھی زیادہ سے زیادہ دعا کیا کرے۔
9۔ حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ، وَمَا سُئِلَ اللهُ شَیْئًا یُعْطَی أَحَبَّ إِلَیْهِ مِنْ أَنْ یُسْأَلَ الْعَافِیَةَ. وَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنَّ الدُّعَائَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللهِ، بِالدُّعَاءِ.
تم میں سے جس کے لئے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لئے رحمت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے اسے عافیت (مانگنا) زیادہ پسند ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے مزید فرمایا: دعا اس مصیبت کے لئے بھی نافع ہے جو اترچکی ہے اور اس کے لئے بھی جو ابھی تک نہیں اُتری۔ سو اے اللہ کے بندو! دعا کو (اپنے اوپر) لازم کر لو۔
10۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلدُّعَاءُ سِـلَاحُ الْمُؤْمِنِ، وَعِمَادُ الدِّیْنِ، وَنُوْرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
11۔ ایک روایت میں حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَلَا أَدُلُّکُمْ عَلَی مَا یُنْجِیْکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ وَیُدِرُّ لَکُمْ أَرْزَاقَکُمْ، تَدْعُوْنَ اللهَ فِي لَیْلِکُمْ وَنَهَارِکُمْ، فَإِنَّ الدُّعَائَ سِـلَاحُ الْمُؤْمِنِ.
أبو یعلی، المسند، 3: 346، رقم: 1812
کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو تمہیں دشمن سے بچائے اور تمہارے رزق میں اضافہ کر دے؟(وہ چیز دعا ہے سو تم) الله تعالیٰ سے دن رات دعا کرتے رہا کرو، کیونکہ دعا مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘ اسے امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
12۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ، إِنَّ الْعَبْدَ لَیَدْعُو اللهَ تَعَالَی وَهُوَ عَلَیْهِ غَضْبَانُ، فَیُعْرِضُ عَنْهُ، ثُمَّ یَدْعُوْهُ، فَیَقُوْلُ اللهُ تَعَالَی لِمَلَائِکَتِهٖ: أَبٰی عَبْدِي أَنْ یَدْعُوَ غَیْرِي یَدْعُوْنِي فَأُعْرِضَ عَنْهُ أُشْهِدُکُمْ أَنِّي قَدِ اسْتَجَبْتُ لَهٗ.
قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! بندہ الله تعالیٰ کو پکارتا ہے اور الله تعالیٰ اس پر ناراض ہونے کی وجہ سے اس سے منہ موڑ لیتا ہے۔ وہ بندہ پھر(الله تعالیٰ کو) پکارتا ہے، تو الله تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتاہے: میرے بندے نے میرے سوا کسی اور کو پکارنے سے انکار کر دیا۔ وہ مجھے ہی پکارتا رہا حالانکہ میں نے اس سے منہ موڑ لیا تھا۔ لهٰذا میں تمہیں گواہ بنا کر (کہتا ہوں) کہ میں نے اس کی دعا قبول کرلی ہے۔
دعا کا اثر انگیزی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ طلبِ توبہ کا احساس جس قدر شدید ہو گا دعا اسی قدر رقت آمیز ہو گی۔ اس کی سب سے بہترین شکل یہ ہے کہ بندہ خشیت اور محبت کے خودکار نظام کے تحت اظہار مدعا میں سراپا دعا بن جائے۔۔
یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ غم کی ایک جیسی شدت پر مختلف لوگوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ بعض بے اختیار ہو کر بے خود اور بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ کچھ چیختے، چلاتے، روتے اور آنسو بہاتے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ ان کے آنسو بھی رواں نہیں ہوتے۔ قلبی کیفیات کی نسبت سے عرفاء نے اثر انگیزی کے حوالے سے اللهتبارک و تعالیٰ کے حضور دعا کرنے کے مختلف اسلوب اور طریقے خود بھی اختیار کئے اور تلقین بھی فرمائی۔
بعض اذہان دعا کے وقت بہ تکلف کوشش کو مناسب نہیں سمجھتے۔ یہ معاملہ دراصل نیت پر منحصر ہے۔ اگر ریاکاری پیش نظر نہ ہو اور بندہ اخلاص کے مقام پر الله تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے توبہ کا خواستگار ہو تو اپنی طبیعت کے پیش نظر دل گرفتگی کے لئے کوشش اور اہتمام بھی کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حضورنبی اکرم ﷺ کی وہ مشہور حدیث مبارک بڑی واضح ہے جس کا مطالعہ آپ خشیت کے باب میں کر چکے ہیں، جب سرکارِ دو عالم ﷺ نے خود اپنے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سورہ التکاثر تلاوت فرماتے وقت رونے کی اور رو نہ سکنے کی صورت میں رونے جیسی شکل بنانے کی تلقین فرمائی۔
الله تعالیٰ کی بارگاہ میں بناوٹ اختیار کرنے کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ماسوائے اس کے کہ اگر اس کے حضور گناہوں کو تسلیم کرتے ہوئے رونا نہ آسکے تو کوشش سے کم از کم رونے والی شکل بنا لے۔ الله تعالیٰ کو یہ بھی پسند ہے۔
دعا وہ نقطۂ اتصال ہے جو بندے کی التجا اور الله تعالیٰ کی عطا کو ایک جگہ جمع کر دیتا ہے۔ بارگاهِ ایزدی میں دستِ سوال بندے کو شرمسار نہیں ہونے دیتا حالانکہ دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں مانگنے والے کو اپنی عزتِ نفس مجروح کرنا پڑتی ہے، بلکہ بعض مواقع پر تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہتا۔ اس کے برعکس اللہ رب العزت کے حضور اظہارِ مدعا سے ایک طرح کا اطمینان اور قلبی راحت میسر آتی ہے۔
یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ مشکل وقت میں دوست، احباب، رشتہ دار اور سخی لوگ کام آتے ہیں کہ یہ اسباب کی دنیا ہے لیکن ان میں سے اکثر مختلف عنوانات سے اپنی عنایات پر احسان جتلاتے اور کسی نہ کسی حوالے سے اپنی اس سخاوت کا دوسروں پر اظہار بھی ضرور کرتے ہیں خواہ اسے وہ اظہار تشکر ہی کا نام کیوں نہ دیں، لیکن الله رب العزت تو بن مانگے ہی عطا فرماتا ہے اور اگر بندہ دست سوال دراز کرے تو پھر عطاؤں کی بارش کر دیتا ہے اور سوال نہ کرے تو ناراض ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّهُ مَنْ لَمْ یَسْأَلِ اللهَ ل یَغْضَبْ عَلَیْهِ.
جو آدمی اللہ تعالیٰ سے سوال نہ کرے اس پر اللہ تعالیٰ غضب فرماتا ہے۔
بظاہر مانگنا اور سوال کرنا دنیاوی نقطہ نظر سے بڑا تکلیف دہ، اذیت ناک اور پشیمان کر دینے والا عمل ہے۔ سوال کرنے کا احساس انسان کو بے وقعت اور بے نام کر دیتا ہے اور اگر مانگنے پر دھتکار دیا جائے تو وہ جیتے جی مر جاتا ہے لیکن جب کوئی اپنے گناہوں کی گٹھٹری اٹھائے الله تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے، روتا ہے، گریہ و بکا کرتا ہے تو یہاں الٹا دل کا غبار دھل جاتا ہے۔ سارا بوجھ اُتر جاتا ہے۔ وہ جس قدر اپنی پیشانی کو مولیٰ کے حضور خاک آلود کرتا ہے اسی قدر غفور الرحیم رب اس کے قریب آ جاتا ہے۔ چنانچہ دعا رب العزت کی عطا اور قرب کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بقول شاعر:
کیسے مزے کے دن تھے کہ راتوں کو صبح تک
میں تھا، تری جناب تھی، دستِ سوال تھا
الله تعالیٰ کے حضور توبہ کے لئے کمیّت سے زیادہ کیفیت درکار ہے۔ مانگنے کے لئے کسی مخصوص زبان دانی کی ضرورت نہیں حتیٰ کہ نہ بول سکنے والے شخص کی اشاروں کی زبان میں کی گئی دعا اور لا بلد کی بے ربط مگر اخلاص سے بھری التجا ایک صاحب علم کی دعا جس میں اس کی نیت شامل نہیں، زیادہ مقبول ہے۔
جس طرح ایک ماہر طبیب یا ڈاکٹر کی ساری توجہ مریض کے لئے ہوتی ہے، ماں کی رحمت و شفقت روتے بلبلاتے بچے کے لئے جوش مارتی ہے، سخی کا در بدحالوں کے لئے وا ہوتا ہے، مولیٰ کریم کی ذات ان سے کہیں بڑھ کر معافی مانگنے والے گنہگاروں کی طرف توجہ فرماتی ہے۔
دعا میں جب تک درد نہ ہو، یہ لذت کے سانچے میں نہ ڈھلے اور قلب میں امید کی خوشبو بن کے نہ مہکے تو پھر یہ دعا نہ ہوئی بلکہ ایک رسم ٹھہری۔ جب بندہ مجسم دعا بن جاتا ہے تو مولیٰ کریم عرش سے آسمانِ دنیا پر، اپنی شان کے لائق، اتر آتا ہے۔ ارشادِ محبوبِ رب العالمین ﷺ ہے:
یَنْزِلُ رَبُّنَا ل کُلَّ لَیْلَةٍ إِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا حِیْنَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرُ یَقُوْلُ: مَنْ یَدْعُوْنِي، فَأَسْتَجِیْبَ لَهٗ؟ مَنْ یَسْأَلُنِي، فَأُعْطِیَهٗ؟ مَنْ یَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهٗ؟
ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات (اپنی حسب شان) آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتا ہے۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ میں اسے بخش دوں؟
ان لمحات میں اگر وقتِ دعا میں بے چارگی اور مفلسی کا احساس انتہا کو پہنچ جائے، الفاظ بھول جائیں اور زبان ساتھ چھوڑ دے یعنی کچھ بھی میسر نہ ہو تو گناہوں کا اعتراف ہی قبولیت کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ گویا آقا و بندہ کا باہم ہم کلام ہونا ہی دعا ہے۔
جیسے سب انسان برابر ہیں لیکن متقی و پرہیز گار بندے کا مقام بلند تر ہے، اسی طرح سب دعائیں اگرچہ اخلاص کے مقام پر قابلِ قبول ہیں لیکن وہ دعائیں جن کے کرنے کا حکم خود رب العالمین نے دیا یا جو محبوب رب العالمین ﷺ کی زبانِ حق ترجمان سے ادا ہوئیں یا جن کے کرنے کا حکم آپ ﷺ سے ثابت ہے، وہ قبولیت کے حوالے سے مقبول ترین ٹھہریں۔ جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس طرح سکھاتے جس طرح قرآنِ حکیم کی کوئی سورت سکھاتے تھے۔
1۔ آپ ﷺ نے درج ذیل دعا کی تلقین فرمائی:
اَللّٰھُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ.
یا اللہ! میں عذابِ جہنم، عذابِ قبر، فتنۂ دجال اور زندگی و موت کے فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
یاد رہے کہ توبہ کا تعلق انسان کی باطنی کیفیت سے ہے۔ اگر ظاہراً خشیت و خوفِ الٰہی کا اظہار ہو اور باطن اس حال سے خالی ہو تو ایسی دعا ریا کاری کے سوا کوئی مقام نہیں رکھتی۔ اور اظہارِ مدعا میں الله تعالیٰ کے حضور ریاکاری ناقابل معافی جرم ہے۔
2۔ حضرت جندب بن عبد اللہ بن ابن سفیان سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللهُ بِهٖ، وَمَنْ یُرَائِي یُرَائِي اللهُ بِهٖ.
جو شہرت کے لیے کام کرے تو اللہ تعالیٰ اسے مشہور کر دے گا اور جو دکھاوے کے لیے کام کرے اللہ تعالیٰ اُسے دکھا دے گا۔
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تَعَوَّذُوا بِاللهِ مِنْ جُبِّ الْحَزَنِ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَا جُبُّ الْحَزَنِ؟ قَالَ: وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ کُلَّ یَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللهِ، وَمَنْ یَدْخُلُهُ؟ قَالَ: الْقُرَّائُ الْمُرَائُونَ بِأَعْمَالِهِمْ.
غم کے کنویں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! غم کا کنواں کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جہنم میں ایک وادی ہے جس سے (خود) جہنم بھی دن میں سو مرتبہ پناہ مانگتی ہے۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! اس میں کون داخل ہوگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ریاکاری سے قرآن مجید پڑھنے والے۔
بسا اوقات خوف و خشیت الٰہی اور عذاب کی ہولناکیوں کے بیان سے انسان پر وقتی طور پر آہ و بکا کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایسے مواقع پر زبان سے ادا کئے ہوئے توبہ کے الفاظ احوالِ حیات کو نہیں بدل سکتے۔ یہ ایک وقتی تاثر ہوتا ہے۔ جیسے آتا ہے ویسے ہی چلا جاتا ہے۔ حقیقی توبہ کے لئے عمومی طور پر جدوجہد کے باب میں بندگی کے حوالے سے باقاعدہ ایک نصاب ہے جس کا ذکر آپ گزشتہ ابواب میں پڑھ چکے ہیں۔ اس پر عمل پیرا ہو کر ہی بندہ حقیقی توبہ کا حامل ہو سکتا ہے۔ تاہم استثنیٰ کا معاملہ جدا ہے۔ اور وہ بندے کا حق نہیں۔ یہ اللہ رب العزت کی اپنی منشاء ہے جس پر نہ کوئی سوال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی خبر ہے۔
ہر کام کرنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہی اس کے جملہ فوائد سے کماحقہ استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ دعا کے بھی چند آداب ہیں جن کو بجا لانے سے کی اثرانگیزی کمال تک پہنچ جاتی ہے۔
پہلا ادب ظاہری اور باطنی طہارت ہے۔ ظاہری طہارت سے مراد انسان کے جسم اور لباس کا پاک اور صاف ہونا ہے۔ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کی نیت سے انسان باقاعدہ غسل کرے اور پاک صاف لباس پہنے۔
باطنی طہارت سے مراد ہر قسم کی دنیاوی و نفسانی خواہشات و ترغیبات سے کنارہ کش ہو کر طلبِ کامل اور مکمل یکسوئی کے ساتھ الله تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کا تصور کرنا ہے۔
اخلاص دعا میں سب سے اہم ترین ادب ہے۔ جیسا کہ خود الله تبارک و تعالیٰ نے میں جو کہ خود عبادت ہے اخلاص کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ رب العزت ہے:
1. قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ قف وَاَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ط کَمَا بَدَاَکُمْ تَعُوْدُوْنَo
الأعراف، 7: 29
فرما دیجئے: میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اور تم ہر سجدہ کے وقت و مقام پر اپنے رُخ (کعبہ کی طرف) سیدھے کر لیا کرو اور تمام تر فرمانبرداری اس کے لیے خالص کرتے ہوئے اس کی عبادت کیا کرو۔ جس طرح اس نے تمہاری (خلق و حیات کی) ابتداء کی تم اسی طرح (اس کی طرف) پلٹو گے۔
2۔ فَادْعُوا اللهَ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِهَ الْکٰفِرُوْنَo
المومن، 40: 14
پس تم اللہ کی عبادت اس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو، اگرچہ کافروں کو ناگوار ہی ہو۔
3۔ فَادْعُوْهُ مُخْلِصِیْنَ لَهُ الدِّیْنَ ط اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo
المومن، 40: 65
پس تم اس کی عبادت اُس کے لیے طاعت و بندگی کو خالص رکھتے ہوئے کیا کرو، تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پروردگار ہے۔
دعا میں اخلاص کا یہ مقام ہے کہ دعا کرنے والا سائل دل کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ پختہ اعتقاد اور یقین رکھتا ہو کہ الله تعالیٰ کے سوا نہ کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی کوئی اس کے سوال کو پورا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور ہر چیز اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ چنانچہ جب کوئی بندہ سچے دل سے اپنی حاجت اور مشکل الله تعالیٰ کے حضور پیش کرتا ہے تو اسے اپنی دعا کی قبولیت کا کامل یقین ہوتا ہے۔ یعنی اس کا سبب، اس امر پر کامل اعتقاد ہے کہ الله تبارک تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی سخی نہیں اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی عطا کرنے والا ہے۔
اس لیے توبہ کرنے والے کے لئے لازم ہے کہ اخلاص اور سچے اعتقاد سے الله تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرے کیونکہ قبولیتِ دعا کی یہ بنیادی شرط ہے۔ دعا کی روح اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پورے وثوق سے دعا مانگی جائے اور کسی قسم کے شک کو درمیان میں نہ آنے دیا جائے۔
معروف اور مقبول دعاؤں (جن کا ذکر آئندہ صفحات میں کیا جارہا ہے) کے معانی اور مفہوم سے آگاہی اشد ضروری ہے۔ یہ دعا کی اثر آفرینی کے ضمن میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہر دعا کے معنیٰ خوب یاد ہوں تاکہ وقتِ دعا قلب اور ذہن یکسوئی اور توجہ کے ساتھ الله تعالیٰ کے حضور کی جانے والی دعا کے ساتھ شامل ہوں۔
عوام میں سے اکثر معانی و مفہوم سمجھے بغیر ساری عمر بعض معروف (عربی زبان میں) دعائیں کرتے گزار دیتے ہیں۔ کیا یہ قابل افسوس بات نہیں کہ بندہ جن الفاظ سے توبہ کا خواستگار ہو، وہ سرے سے ان کے معانی و مفہوم سے نابلد ہو۔ یعنی وہ یہ بھی نہ جانتا ہو کہ وہ الله تعالیٰ کے حضور کیا عرض کر رہا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا تَمَنّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَنْظُرْ مَا یَتَمَنّٰی، فَإِنَّهٗ لَا یَدْرِی مَا یُکْتَبُ لَهٗ مِنْ أُمْنِیَّتِهٖ.
جب تم میں سے کوئی تمنا کرے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ وہ کیا تمنا کر رہا ہے؟ کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی تمناؤں میں سے کیا لکھ دیا جاتا ہے۔
دعا سے قبل الله تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے۔ قرآن حکیم کی پہلی سورہ مبارکہ الفاتحہ بھی ہمیں یہی ادب سکھاتی ہے کہ اپنی عرض اور حاجت پیش کرنے سے پہلے الله تعالیٰ کی خوب حمد کی جائے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سنتِ مبارکہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ دعا سے قبل الله تعالیٰ کی خوب لمبی حمد کرتے اور پھر بعد میں دعا فرماتے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے یہ خط حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے مجھ سے لکھوایا کہ نبی مکرم ﷺ ہر فرض نماز کے بعد یوں فرمایا کرتے:
1. لَا إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِیْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَھُوَ عَلَی کُلِّ شَيئٍ قَدِیْرٌ۔ اَللَّھُمَّ، لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ.
الله تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کی بادشاہی ہے اور اسی کے لئے سب تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے الله! جسے تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو روکے اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی دولت مند کو تیرے مقابلے میں دولت نفع نہیں دے گی۔
2۔ ایک اور روایت میں ہے جسے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا جبکہ نہ اس نے الله تعالیٰ کی تعریف کی اور نہ حضورنبی اکرم ﷺ پر درود بھیجا، تو رسول الله ﷺ نے فرمایا:
عَجِلَ هٰذَا، ثُمَّ دَعَاهُ فَقَالَ لَهُ أَوْ لِغَیْرِهٖ: إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ، فَلْیَبْدَأْ بِتَحْمِیْدِ اللهِ وَالثَّنَاءِ عَلَیْهِ ثُمَّ لِیُصَلِّ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ثُمَّ لِیَدْعُ بَعْدُ بِمَا شَاءَ.
اس شخص نے عجلت سے کام لیا پھر آپ ﷺ نے اسے اپنے پاس بلایا اور اسے یا اس کے علاوہ کسی اور کو (از رهِ تلقین) فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بزرگی بیان کرے پھر حضور نبی اکرم ﷺ (یعنی مجھ) پر درود بھیجے پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے، تو اس کی دعا قبول ہو گی۔
3۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے اس امر کی مزید تصدیق ہو جاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں:
کُنْتُ أُصَلِّي وَالنَّبِيُّ ﷺ ، وَأَبُو بَکْرٍ، وَعُمَرُ مَعَهٗ، فَلَمَّا جَلَسْتُ بَدَأْتُ بِالثَّنَائِ عَلَی اللهِ، ثُمَّ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ ، ثُمَّ دَعَوْتُ لِنَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : سَلْ تُعْطَہْ، سَلْ تُعْطَہْ.
میں نماز پڑھ رہا تھا، حضور نبی اکرم ﷺ ، حضرت ابو بکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہما بھی وہاں موجود تھے۔ جب میں بیٹھا تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی، پھر بارگاهِ رسالت میں ہدیہ درود بھیجا اور اس کے بعد اپنے لیے دعا مانگی، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مانگو تمہیں دیا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا۔
4۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الدُّعَاءَ مَوْقُوْفٌ بَیْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، لَا یَصْعَدُ مِنْهُ شَيئٌ حَتّٰی تُصَلِّيَ عَلَی نَبِیِّکَ ﷺ.
دعا زمین و آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اوپر کی طرف نہیں جاتی (یعنی قبول نہیں ہوتی) جب تک تو اپنے نبی ﷺ پر درود شریف نہ بھیجے۔
جب بندہ الله تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ اے رب العزت! تو اپنے حبیب مکرم ﷺ پر رحمتیں نازل فرما، تو یہ دراصل ایک حقیر و کمتر بندے کا اس عظیم بارگاہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ اختیار کرنا ہے۔ بلاشبہ الله تعالیٰ کو اپنی ساری مخلوقات میں سب سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت ہے۔ اس لیے اپنے حبیب مکرم ﷺ کی تعریف سن کر اللہ تبارک و تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور یہی خوشی قبولیت دعا کا سب سے بڑا سبب اور واسطہ بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں درود شریف پڑھنا خود بھی ایک دعا ہے جس کے نتیجے میں الله تعالیٰ ایسے شخص پر دس مرتبہ رحمتیں بھیجتا ہے۔ لهٰذا دعا سے قبل درود شریف کے پڑھنے سے رحمتِ حق کا نزول قبولیت دعا کے لئے کنجی کا کردار ادا کرتا ہے۔
دعائے توبہ کے لئے انتظار نہیں کرنا چاہیے کہ یہ ٹال مٹول کے زمرے میں آتا ہے۔ موت کے وقتِ معین کا کسی بشر کو علم نہیں، یہ کسی لمحے بھی وارد ہو سکتی ہے۔ چنانچہ لمحۂ موجود کو غنیمت سمجھتے ہوئے الله تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ بندہ ابدی پچھتاوے سے محفوظ ہو جائے۔
توبہ کو کل پر ٹالنے والا شخص دو بڑے خطرات کے درمیان گھِرا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کے دل پر گناہ کی تاریکی مسلسل جمع ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ وہ زنگ اور مہر کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور وہ پھر زائل نہیں ہو سکتی۔ دوسرا خطرہ یہ کہ بیماری یا موت اچانک آجائے تو اُسے گناہ کے ازالے کی مہلت نہیں ملتی۔ لهٰذا بندے پر لازم ہے کہ اگر گناہ کر بیٹھے تو فوراً مولیٰ کی طرف بھاگے۔
گناہ مثل آگ ہے اور آگ کی جانب قدم اٹھانے پر اصرار کرنے والے بد ترین ہلاکت میں جا پڑتے ہیں۔ چنانچہ جس شخص نے توبہ کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا اور الله تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کو کل پر ٹالتا رہا کہ توبہ کے لئے بڑی عمر پڑی ہے، تو اس نے گویا الله تعالیٰ کو ناراض کر کے اُس کے قہر و غضب کو دعوت دی ہے۔ یہی ہمارا بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم توبہ کرنے کے عمل کو ساری زندگی مؤخر کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ موت اچانک آ کر توبہ کئے بغیر ہمیں الله تعالیٰ کے حضور پیش کر دیتی ہے۔ ہم الله رب العزت سے ایسی موت پر اس کی پناہ کے خواستگار ہیں۔
دعا سے قبل طبیعت کو خشوع و خضوع کی طرف راغب کرنے کے لئے عاجزی و مسکینی جیسے جذبات کو خود پر طاری کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس ضمن میں حضور نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ مبارکہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ، صلحاء اور اولیاء کے وقتِ دعا اختیار کئے گئے پاکیزہ طریقوں پر عمل کرنا قبولیت کے حوالے سے زیادہ خیر و برکت کا باعث ہے جس کا ذکر قارئین توبہ و خشیت کے ابواب میں مطالعہ کر چکے ہیں۔ خشوع و خضوع دراصل دعا کی روح ہے۔
1۔ ارشادِ رب العزت ہے:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ط اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
الأعراف، 7: 55
تم اپنے رب سے گِڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
اس آیتِ مبارکہ میں خشوع و خضوع کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ دعا میں تذلل، مسکینی اور عاجزی اختیار کرنا عین منشائے ایزدی ہے کیونکہ الله تعالیٰ بندے کو مصیبت میں اس لئے مبتلا کرتے ہیں کہ وہ اس کی بارگاہ میں رجوع کرے، معافی مانگے اور عاجزی ظاہر کرے۔ وقتِ دعا دل جمعی، رغبت اور عاجزی کی اہمیت کا اندازہ خود قرآن مجید میں کئی جگہ ملتا ہے، یہاں تک کہ کفار جو منکر خدا ہیں، جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے تو پوری رغبت اور عاجزی سے الله تعالیٰ کے حضور دعا کرتے۔
2۔ قرآن حکیم اس کا ذکر یوں فرماتا ہے:
قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً ج لَئِنْ اَنْجٰنَا مِنْ ھٰذِهٖ لَنَکُونَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَo
الأنعام، 6: 63
آپ (ان سے دریافت) فرمائیں کہ بیابان اور دریا کی تاریکیوں سے تمہیں کون نجات دیتا ہے؟ (اس وقت تو) تم گِڑگِڑا کر (بھی) اور چپکے چپکے (بھی) اسی کو پکارتے ہو کہ اگر وہ ہمیں اس (مصیبت) سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر گزاروں میں سے ہو جائیں گے۔
3۔ ایک دوسرے مقام پر حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کے اہل و عیال کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ امید اور خوف سے دعا کرتے تھے۔ ارشاد ربانی ہے:
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ وَ وَهَبْنَا لَهٗ یَحْیٰی وَاَصْلَحْنَا لَهٗ زَوْجَهٗ ط اِنَّهُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَهَبًا ط وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo
الأنبیاء، 21: 90
تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور ہم نے انہیں یحییٰ ( علیہ السلام ) عطا فرمایا اور ان کی خاطر ان کی زوجہ کو (بھی) درست (قابلِ اولاد) بنا دیا۔ بے شک یہ (سب) نیکی کے کاموں (کی انجام دہی) میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں شوق و رغبت اور خوف و خشیّت (کی کیفیتوں) کے ساتھ پکارا کرتے تھے، اور ہمارے حضور بڑے عجزو نیاز کے ساتھ گڑگڑاتے تھے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی دعاؤں کے مطالعہ سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ تکرار کے ساتھ الله تعالیٰ کے حضور دعا مانگتے تھے۔ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو یہ بات پسند تھی کہ تین تین مرتبہ دعا کی جائے اور تین تین بار استغفار کیا جائے۔
1۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ یہ ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ کَانَ یُعْجِبُهُ أَنْ یَدْعُوَ ثَـلَاثًا وَیَسْتَغْفِرَ ثَـلَاثًا.
حضورنبی اکرم ﷺ تین دفعہ دعا اور تین دفعہ استغفار کرنا پسند کرتے۔
جب عجز و انکساری سے ایک دعا کو تین بار دہرایا جائے تو اس سے رقت اور گریہ و زاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
2۔ ایک اور حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
دَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ، ثُمَّ دَعَا، ثُمَّ دَعَا.
الله کے رسول ﷺ نے دعا کی، پھر دعا کی، پھر دعا کی۔
جس قدر عاجزی، گریہ و زاری اور تکرار سے دعا کی جائے اسی قدر افضل ہے۔ مخلوق سے بار بار مانگا یا سوال کیا جائے تو وہ تنگ آ جاتی ہے جبکہ الله رب العزت کے حضور جس قدر تکرار سے مانگا جائے وہ اسی قدر خوشی کا اظہار فرماتا ہے۔
3۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
کَانَ یُعَدُّ لِرَسُولِ اللهِ ﷺ فِي الْمَجْلِسِ الْوَاحِدِ مِائَۃُ مَرَّةٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَقُومَ: رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُورُ.
حضور نبی اکرم ﷺ سے مجلس کے اٹھنے سے پہلے یہ دعا سو بار گنی جاتی تھی؛ ’اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے‘۔
حضور نبی اکرم ﷺ بالکل واضح الفاظ میں طوالت کے ساتھ دعا مانگتے تھے۔ درج ذیل حدیثِ مبارکہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا بارگاهِ نبوی میں غلام مانگنے حاضر ہوئیں تو رسول اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا کہ یہ کلمات کہو:
4. اللّٰهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ وَرَبَّ الْأَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّویٰ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیْلِ وَالْفُرْقَانِ. أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهٖ. اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ، وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ، وَأَنْتَ الظَّاهِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ، وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ، اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنَ الْفَقْرِ.
اے اللہ، اے ساتوں آسمانوں کے رب، عرش عظیم کے رب، ہمارے اور ہر شے کے رب، اے دانے اور گھٹلی کو چیرنے والے، اے تورات، انجیل اور قرآن کو نازل فرمانے والے، میں ہر اس چیز کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں جس کی پیشانی تیرے قبضہ میں ہے۔ ، اے اللہ تو ہی اول ہے کہ تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں ہے اور اے اللہ تو آخر ہے کہ تیرے بعد کوئی چیز نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ تیرے اوپر کوئی شے نہیں ہے، اور تو باطن ہے کہ تیرے سوا کوئی شے نہیں ہے۔ مجھ سے قرض کو دور کر دے اور مجھے فقر سے مستثنی کر دے۔
سلف صالحین نے رونے کے باب میں اس امر سے پناہ مانگی ہے کہ بندہ وقتِ دعا کئی کئی طریقوں سے روئے مگر خشوع و خضوع کا دروازہ اس پر بند ہو۔ جس شخص کو آنکھ کا رونا تو ملا لیکن قلب خشوع سے محروم رہا وہ سراسر فریب میں مبتلا ہے۔ ہاں! جس کو خشوع ملا مگر آنکھ سے آنسو نہ بہہ سکے اسے کوئی ضرر نہیں، اور اگر خشوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسوؤں کی توفیق بھی مل گئی تو یہ بڑی فضیلت کی بات ہے۔ خشوع کی کسوٹی یہ ہے کہ اگر رونے کے باوجود غرور و تکبر بڑھے تو ایسے شخص کا رونا نفس کی باطنی آفات میں سے ہے یعنی یہ تصنع و بناوٹ کا رونا ہے، یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے۔
دعا پورے اعتماد، وثوق اور شک و تردد سے پاک ہو کر مانگی جائے۔ یہ بھی دعا کے آداب میں سے ایک اہم ادب ہے مثلاً دعا کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ یا الله! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، اگر تو چاہے تو میرے گناہوں سے در گزر فرما۔
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
إِذَا دَعَا أَحَدُکُمْ فَلْیَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ وَلَا یَقُولَنَّ: اَللّٰهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي، فَإِنَّهٗ لَا مُسْتَکْرِهَ لَهٗ.
جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو دعا میں اصرار کرے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے دیدے، کیونکہ خدا کو کوئی مجبور کرنے والا نہیں ہے۔
2۔ یہی مضمون حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص دعا کرے تو یہ ہرگز نہ کہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، وَلَکِنْ لِیَعْزِمِ الْمَسْأَلَةَ وَلْیُعَظِّمِ الرَّغْبَةَ، فَإِنَّ اللهَ لَا یَتَعَاظَمُهٗ شَیْئٌ أَعْطَاهُ.
اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے بخش دے، لیکن وہ اصرار سے سوال کرے اور بہت رغبت کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز دینا مشکل نہیں ہے۔
کسی بھی شخص کے گناہ اس کی دعا میں رکاوٹ نہیں بننے چاہئیں اور اسے اس امید سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ضرور قبول ہو گی، ہمیشہ اچھا گمان رکھنا چاہیے کیونکہ متعدد احادیث مبارکہ میں نیک گمان کی تلقین کی گئی ہے۔
3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَقُوْلُ اللهُ تعالیٰ: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهٗ حِیْنَ یَذْکُرُنِي.
الله تعالیٰ فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے اس گمان کے مطابق ہوتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے۔
تاہم صالحین نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ایسے اُمور جن کی حکمت و مصلحت سائل سے پوشیدہ ہو مثلاً دعائے استخارہ وغیرہ، اس میں استثنا ہے۔ ایسی صورت میں معلق دعا کی اجازت ہے۔ توبہ کے باب میں بہرحال دعا کی حقیقت یہی ہے کہ اسے کامل یقین کے ساتھ مانگا جائے کیونکہ ایسے میں اگر دل میں شکوک جنم لینے لگیں تو پھر بندے نے خود ہی بدگمانی کو راہ دی جو سوئے ادب ہے اور ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved