آداب سے مراد نیک طور طریقوں اور حقوق کا بجالانا ہے۔ جب ہم توبہ کے آداب کا نام لیتے ہیں تو اس سے مراد وہ اعمال اور حقوق ہیں جن کو بجالانے سے حق تعالیٰ کی جانب سے توبہ کی توفیق کے میسر آنے کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری فرماتے ہیں کہ توبہ تائید ربانی کے بغیر ممکن ہی نہیں کیونکہ انسان کا وجود ہی جب حق تعالیٰ کے حضور گناہ کا درجہ رکھتا ہے تو پھر اس کے ذاتی وصف کی کیا قدر ہو سکتی ہے لیکن الله تعالیٰ نے مخلوق پر راضی ہونے کا سلیقہ بھی خود ہی بتا دیا ہے کہ اگر وہ توبہ کے لئے رجوع کریں تو اُسے معاف کر دینے والا پائیں گے۔ حضرت علی بن عثمان ہجویری کشف المحجوب میں اس ضمن میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے گناہ سے توبہ کی پھر اُسی گناہ کا مرتکب ہوا۔ پھر نادم ہوا۔ ایک روز اس نے اپنے جی میں کہا کہ اگر میں پھر توبہ کر کے جاؤں تو میرا کیا حال ہو گا؟ تو اس کے کان میں ہاتف غیبی کی آواز آئیا:
أَطَعْتَنَا، فَشَکَرْنَاکَ، ثُمَّ تَرَکْتَنَا، فَأَمْهَلْنَاکَ، فَإِنْ عُدْتَ إِلَیْنَا قَبِلْنَاکَ.
ہجویری، کشف المحجوب، 433
تو نے ہماری اطاعت کی ہم نے تجھے پسند کیا۔ پھرتو نے بے وفائی کی اور ہمیں چھوڑ دیا۔ ہم نے تجھے مہلت دی اگر پھر توبہ کرے تو ہم تجھے قبول کریں گے۔
انسان کو آدابِ توبہ سے صرفِ نظر نہیں کرناچاہیے۔ نفسِ انسانی میں خیر و شر دونوں کی استعداد رکھی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا گیا:
وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
الشمس، 91: 7-10
اور انسانی جان کی قَسم اور اسے ہمہ پہلو توازن و درستگی دینے والے کی قَسم۔ پھر اس نے اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری (کی تمیز) سمجھا دی۔ بے شک وہ شخص فلاح پا گیا جس نے اس (نفس) کو (رذائل سے) پاک کر لیا (اور اس میں نیکی کی نشوونما کی)۔ اور بے شک وہ شخص نامراد ہوگیا جس نے اسے (گناہوں میں) ملوث کر لیا (اور نیکی کو دبا دیا)۔
اس آیت کریمہ میں اس حقیقت کو واضح کر دیا گیا ہے کہ انسان کے اندر اصلاح اور برائی کا داعیہ برابر برابر ہے تاہم جس نے نفس کی اصلاح کی طرف توجہ دی وہ فضل خداوندی سے بہرہ یاب کر دیا گیا۔ نفس کی اصلاح کا پہلا قدم توبہ ہے، اسے سیدھے راستے میں داخل ہونے کا دروازہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں داخلے کے لئے عارفوں نے چند آداب بیان کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
پہلا ادب جس کے بجا لانے سے بندہ توبہ جیسی عظیم نعمت کا مستحق ٹھہرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی برکات بےحد و حساب ہیں، ذکر الٰہی ایسی عبادت ہے جو بندے کو فکر سے ہم کنار کرتا ہے۔ اسی فکر سے بندے کے قلب میں خوف و امید پیدا ہوتے ہیں جس کے باعث وہ برے اعمال سے تائب ہو کر پرہیزگاری احتیار کر لیتا ہے۔
1۔ سورۂ بقرہ میں فرمایا گیا:
وَاذْکُرُوْا مَا فِیْهِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرة، 2: 63
جو کچھ اس (کتاب تورات) میں (لکھا) ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
2۔ آل عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ.
آل عمران، 3: 135
اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں اور الله کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے۔
یہاں الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں اور برائی کرتے ہوئے گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں انہیں چاہیے کہ الله تعالیٰ کا ذکر کریں۔ یہ اس لئے کہ گناہ کا ارتکاب ہمیشہ الله کی یاد کو بھولنے کا باعث ہوتا ہے چنانچہ توبہ سب سے پہلے جس ادب کا تقاضا کرتی ہے وہ ہے الله تعالیٰ کو یاد کرنا۔ خدا کی یاد کی طرف دل کو راغب کر لینا اس بات کی علامت ہے کہ بندے کا دل اپنے کئے گئے گناہ پر نادم اور شرمندہ ہے۔ اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ بندہ اپنے الله کو یاد کرے۔ اس کے نتیجے میں شرمندگی اور ندامت کا احساس پیدا ہو گا جو اسے معافی مانگنے کی طرف مائل کرے گا۔ جونہی معافی طلب کرنے کا ارادہ اس کے دل میں جنم لیتا ہے تو الله تعالیٰ جو معافی مانگنے والے بندے کا خود منتظر ہوتا ہے، اس کو توبہ کی توفیق بھی دے دیتا ہے اور معاف بھی کر دیتا ہے، کیونکہ اس کے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں۔
3۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَا اللهُ.
آل عمران، 3: 135
اور الله کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے۔
بندے! میری طرف لوٹ کر آنے اور مایوس ہونے سے مت گھبرا کیونکہ تیرے رب کی بارگاہ کے سوا کون ہے جو تیرے گناہ معاف کر سکے؟ الله تعالیٰ کی صفتِ رحمت اس کی باقی ہر صفت پر غالب ہے۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا:
4۔ رَحْمَتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیئٍ.
الاعراف، 7: 156
میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔
یہ آیت کریمہ بندوں کے لئے عام معافی کا عظیم اعلان ہے کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے بندو! میری رحمت سے مایوس نہ ہو جانا۔ میری رحمت و مغفرت کی امید رکھتے ہوئے میری طرف بڑھو۔ میری مغفرت تمہاری برسنے والی آنکھوں اور دعا کے لئے اٹھنے والوں ہاتھوں کی ہمیشہ منتظر رہتی ہے۔
5۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللهِ ط اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّهٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo
الزمر، 39: 53
آپ فرما دیجئے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔
الله تعالیٰ اپنی صفات میں جبار اور قہار بھی ہے اور روزِ جزا و سزا کا مالک بھی۔ اوراق قرآنی پہلی ظالم قوموں پر اُس کے قہر و غضب کے شاہد ہیں۔ چنانچہ وہ گنہگار جو اس کی اطاعت و بندگی کو پس پشت ڈال چکے، اپنے خالق و مالک کے ہر حکم کو نظر انداز کرتے رہے اور نافرمانی کرتے ہوئے اسے یکسر بھلا بیٹھے اب اپنے گناہوں کے باعث دل شکستہ اور مایوس ہو کر اس کے حضور حاضر ہونے کا حوصلہ نہیں کر پائیں گے۔ ایسے مقام پر حق تعالیٰ گنہگاروں سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے انہیں ’’میرے بندو‘‘ کہہ کر خطا ب فرماتا ہے تاکہ ذرا سا خوف بھی انہیں مالک حقیقی کے حضور حاضر ہونے میں رکاوٹ نہ بن سکے اور بندے بلا جھجک اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اپنے رحمن و رحیم مالک کے حضور معافی مانگنے کے لئے حاضر ہو جائیں جس نے انہیں بخشنے کے لئے خود پر اپنی رحمت کو لازم کر رکھا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے:
6۔ کَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَۃَ.
الأنعام، 6: 12
اُس نے اپنی ذات (کے ذِمّہ کرم) پر رحمت لازم فرما لی ہے۔
بلاشبہ الله کا ذکر اور اس کی یاد بندے کو توبہ کی طرف رجوع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور سب سے بڑا سبب ہے۔ دوسرے مقام پر الله تعالیٰ نے بندوں کو صبح و شام درد و سوز کے ساتھ اپنے ذکر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
7۔ وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَةً وَّدُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰـفِلِیْنَo
الأعراف، 7: 205
اور اپنے رب کا اپنے دل میں ذکر کیا کرو عاجزی و زاری اور خوف و خستگی سے اور میانہ آواز سے پکار کر بھی، صبح و شام (یادِ حق جاری رکھو) اور غافلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔
چنانچہ بڑے بڑے مقام و مرتبہ کے حامل اولیاء و کاملین جن کی زندگی توبہ سے قبل الله تعالیٰ سے دوری میں بسر ہوتی تھیں، درد و سوز سے ادا کئے ہوئے الله کے ذکر کے کلمات نے ان کو یوں انقلاب آشنا کیا کہ اپنے اپنے وقت میں امام کے درجے پر فائز ہوئے۔ اُن میں سے حضرت فضیل بن عیاض جو راهِ طریقت میں اہلِ تقویٰ و ورع کے امام و پیشوا ہو گزرے ہیں ان کی توبہ کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے تاکہ قارئین اس سے تحریک پا کر اپنی زندگیوں کو سنوارنے کا اہتمام کر سکیں۔
آپ ابتدائی زندگی میں ایک ڈاکو کے طور پر مشہور تھے۔ روایت ہے کہ آپ بامروّت اور باہمت بھی تھے۔ ڈاکہ زنی کے ساتھ ساتھ صوم و صلوٰۃ بھی جاری رکھتے۔ ڈاکوؤں کا ایک گروہ آپ کی سرکردگی میں قافلوں کو لوٹتا تھا۔ ایک رات حسبِ معمول لوٹ مار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اپنے گروہ کے ہمراہ ایک قافلے پر حملہ آور ہوئے۔ رات کے اندھیرے میں صحرا میں مقیم قافلے کے ایک خیمے سے آپ کو قرآن حکیم کی تلاوت کی آواز سنائی دی۔ پڑھنے والا قرآن مجید کی یہ آیت مبارکہ تلاوت کر رہا تھ: ـ
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اللهِ.
الحدید، 57: 16
کیا ایمان والوں کے لیے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں۔
آیت کریمہ کی یہ آواز کان میںگونجی تو اس کا اثر تیر بن کر دل کے آر پار ہو گیا۔ دل کی گہرائیوں سے یہ آواز آئی : اے رب ذوالجلال! ہاں تیرے فضیل کے لئے وہ گھڑی آن پہنچی۔ میں لوٹ مار سے توبہ کرتا ہوں۔ اپنی زندگی تیر ے حضور پیش کرتا ہوں۔ وہیں کانوں نے سنا کہ مسافر آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ یہاں سے جلدی کوچ کرو، کہیںایسا نہ ہو کہ فضیل بن عیاض ڈاکو تمہیں لوٹ کر تباہ و برباد کر دے۔ یہ سن کر فضیل کی آنکھوںمیں آنسو آ گئے۔ آپ تڑپ اٹھے اور پکارنے لگے: اے اہل قافلہ! اب قطعاً بے خوف ہو جاؤ۔ فضیل نے رہزنی سے توبہ کر لی ہے۔ اس توبہ کے بعد فضیل بن عیاض کی پوری زندگی کا رخ بدل گیا۔ ان کے شب و روز الله کے حضور آہ و بکا اور گریہ زاری میں بسر ہونے لگے۔ الله تعالیٰ کے ہاں ان کی توبہ ایسی قبول ہوئی کہ مشائخ کے پیشوا زہد و ورع کے امام، ولایت و ہدایت کے مہرِ منیر اور ریاضت و کرامت کے اعتبار سے اپنے دور کے شیخِ کامل قرار پائے۔
علی بن عثمان ہجویری، کشف المحجوب: 133
حضرت سید علی بن عثمان ہجویری کشف المحجوب میں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید حج کرنے گیا۔ قیام مکہ کے دوران فضل برمکی سے کہا کہ کسی الله والے کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ وہ انہیں حضرت عبد الرزاق صنعائی کے پاس لے گئے۔ تھوڑی دیر اُن سے باتیں ہوتی رہیں۔ جب رخصت ہونے لگے تو ہارون الرشید نے دریافت کیا کہ اگر آپ پر کچھ قرض ہے تو فرمائیں تاکہ ادا کر دیا جائے۔ آپ نے فرمایا: ہاں، کچھ مقروض ہوں۔ چنانچہ خلیفہ ہارون الرشید کے حکم سے وہ قرض ادا کر دیا گیا۔
جب باہر آئے تو خلیفہ نے کہ: فضل! ابھی میرا دل ان سے زیادہ کسی مقرب بارگاہ الٰہی کی زیارت کا خواہاں ہے۔ وہ انہیں حضرت سفیان بن عینیہ کے پاس لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو خلیفہ نے حسبِ سابق قرض کی ادائیگی کے بارے میں پوچھا۔ حضرت سفیان نے بھی اپنا مقروض ہونا ظاہر کیا اور وہ بھی حکمِ شاہی کے مطابق ادا کردیا گیا۔
باہر آکر خلیفہ نے پھر کہا کہ ابھی میرے دل کا مقصد حل نہیں ہوا، کسی اور کے پاس لے چلو تو فضل برمکی انہیں حضرت فضیل بن عیاض کے پاس لے گیا۔ آپ مکان کے اندر تلاوتِ قرآن میں مصروف تھے۔ فضل برمکی نے دروازے پر دستک دی تو اندر سے آواز آئیا: کون ہے؟ فضل نے کہ: امیر المؤمنین ملنے آئے ہیں۔ آپ نے اندر سے جواب دیا: مجھ سے امیر المؤمنین کا کیا تعلق اور میرا امیر المؤمنین سے کیا سروکار؟ فضل نے کہ: دروازہ تو کھولیے۔ آپ بالاخانے سے نیچے تشریف لائے، دروازہ کھول کر چراغ بجھا دیا اور ایک گوشے میں تشریف فرما ہو گئے۔ ہارون الرشید اندھیرے میں آپ کو ڈھونڈنے لگا۔ اسی دوران خلیفہ کا ہاتھ حضرت فضیل کے ہاتھ سے جا لگا۔ حضرت فضیل نے فرمایا: اس سے زیادہ نرم ہاتھ میں نے نہیں دیکھا۔ اگر عذابِ الٰہی سے نجات پا جائے تو بہت اچھا ہے۔ خلیفہ یہ سن کر رو پڑا اور روتے روتے بے ہوش ہو گیا۔ جب ہوش آیا تو کہنے لگ: مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: اے خلیفہ! تمہارے باپ حضور ﷺ کے چچا تھے۔ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے درخواست کیا: یارسول الله! مجھے اپنی قوم کا امیر مقرر فرما دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: چچا، میں تجھے تمہاری جان (نفس) پر امیر مقرر کرتا ہوں۔ ایک سانس جو اطاعت الٰہی میں گزرے وہ مخلوقات کی امارت سے بہتر ہے کیونکہ امارت سے قیامت کے روز ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
ہارون نے کہ: کچھ اور فرمائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ کا حسین چہرہ دوزخ کی آگ میں نہ جھلسے، لهٰذا ہمیشہ خوفِ الٰہی میں رہیں اور اس کے احکام کے حقوق کو ادا کریں۔ اس کے بعدخلیفہ نے عرض کیا: آپ پر کچھ لوگوں کا قرض تو نہیں۔ آپ نے فرمایا: ہاں، مجھ پر الله کے احکام اور اس کی پیروی کا قرض ہے۔ اگر اس قرضہ میں پکڑا گیا تو مجھ پر افسوس ہی افسوس ہے۔ خلیفہ نے کہ: میں لوگوں کے قرض کی بات کر رہا ہوں تو آپ نے فرمایا: الله تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے۔ مجھے ہرگز اپنے رزاقِ حقیقی کا شکوہ نہیں کہ بندوں سے مانگتا پھروں۔ ہارون الرشید نے پھر بھی ایک ہزار دینار پیش کئے کہ قبول فرمائیں۔ حضرت فضیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری کوئی نصیحت تم پر کارگر نہیں ہوئی، میں نے تجھے نجات کی طرف بلانا چاہا تو مجھے تونے دنیا کی بلا میں پھانسے کا ارادہ کیا۔ تب دونوں روتے ہوئے رخصت ہوئے۔ باہر آکر خلیفہ نے کہ: اگر کوئی دنیا میں صوفی ہے تو یہ ہیں، یہ شانِ بے نیازی اور رعب و دبدبہ کی ادائیں ان کے کمال کی دلیل ہیں۔ زینتِ دنیا سے نفرت اور اہلِ دنیا سے اعراض اور بے نیازی جو میں نے ان میں پائی اس کی مثال بھی وہ خود ہی ہیں۔
ہجویری، کشف المحجوب: 136
پہلے ادب میں اللهکی یاد معافی کا ذریعہ بنی۔ اب دوسرے مقام پر باقاعدہ استغفار کی غرض سے الله کے حضور رجوع کرنا ضروری قرار پایا۔
2۔ الله تعالیٰ نے خود بندوں کو التجا کرنے کے آداب اور سلیقہ ان الفاظ میں سکھایا:
اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَةً ط اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo
الأعراف، 7: 55
تم اپنے رب سے گِڑگڑا کر اور آہستہ (دونوں طریقوں سے) دعا کیا کرو، بے شک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
2۔ ایک دوسرے مقام پر الله تعالیٰ نے اپنے بندوں کی طلب مغفرت کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓی اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْکُمْ فِیْٓ اُخْرٰکُمْ فَاَثَابَکُمْ غَمًّام بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَآ اَصَابَکُمْ ط وَاللهُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo
آل عمران، 3: 153
جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (ﷺ) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمہارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمہیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمہیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی، رنج نہ کرو، اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
سابقہ انبیائے اکرام اور ان پر ایمان لانے والے اہل ایمان نے الله کی راہ میں مختلف مصائب و آلام کو استقامت کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے بس ایک ہی التجا کی کہ ان کے گناہوں سے درگزر فرماتے ہوئے انہیں معاف کر دیا جائے۔ الله تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ان کی التجا کا ذکر یوں فرمایا ہے:
3۔ وَمَا کَانَ قَوْلَهُمْ اِلَّآ اَنْ قَالُوْا رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَo
آل عمران، 3: 147
اور ان کا کہنا کچھ نہ تھا سوائے اس التجا کے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہمارے کام میں ہم سے ہونے والی زیادتیوں سے درگزر فرما اور ہمیں (اپنی راہ میں) ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافروں پر غلبہ عطا فرما۔
قرآن مجید کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور بخشش و استغفار طلب کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔
1۔ فرمانِ رسالت مآب ﷺ ہے:
یَا أَیُّھَا النَّاسُ! تُوْبُوْا إِلَی اللهِ فَإِنِّی أَتُوْبُ فِي الْیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ.
اے لوگو! تم الله کی بارگاہ میں توبہ کیا کرو اور بخشش چاہو میں ہر روز ایک دن میں سو مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔
2۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضورنبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
خَیْرُ الدُّعَاءِ الْإِسْتِغْفَارُ.
دیلمی، مسند الفردوس، 2: 179، رقم: 2897
الله کی بارگاہ میں استغفار سے بہتر کوئی دعا نہیں۔
3۔ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ اگر مجھے خوش قسمتی سے لیلۃ القدر کی ساعتیں نصیب ہو جائیں تو میں اپنے ربّ سے کیا مانگوں؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر الله تعالیٰ تجھے لیلۃ القدر نصیب فرمادے تو پھر الله تعالیٰ کے حضور یہ عرض کرن:
اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.
اے الله! تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی کو پسند فرماتا ہے پس تو مجھے معاف فرما۔
4۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کے وصال مبارک کا وقت آیا تو آپ ﷺ رو رو کر الله تعالیٰ سے کثرت کے ساتھ معافی مانگتے۔ یہ آپ ﷺ کا الله کے حضور اظہار بندگی تھا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: حضورنبی اکرم ﷺ کے وصال کے دن قریب آگئے تو کثرت سے یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔
سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ أَسْتَغْفِرُاللهَ وَأَتُوْبُ إِلَیْهِ.
الله (کی ذات) پاک ہے اور ساری تعریفیں اُسی کے لئے ہیں میں الله کے حضور گناہوں کی معافی مانگتا ہوں اور اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔
5۔ توبہ کے بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا تَابَ الْعَبْدُ مِنْ ذُنُوْبِهٖ أَنْسَی اللهُ تعالیٰ الْحَفِظَۃَ ذُنُوْبَهٗ، وَأَنْسَی ذَالِکَ جَوَارِحَهٗ، وَمَعَالِمَهٗ مِنَ الْأَرْضِ، حَتَّی یَلْقَی اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَیْسَ عَلَیْهِ شَاهِدٌ مِنَ اللهِ بِذَنْبٍ.
جب بندہ توبہ کرتا ہے تو الله تعالیٰ محافظ فرشتوں کو اس کے سابقہ گناہ بھلا دیتا ہے۔ اس کے (اپنے) اعضائے جسمانی کو اس کی خطائیں بھلا دیتا ہے۔ زمین کا وہ ٹکڑا جس پر اُس نے گناہ کیا ہے اور آسمان کا وہ حصہ جس کے نیچے اس نے گناہ کیا وہ اس کے گناہوں کو بھول جاتے ہیں۔ جب قیامت آئے گی تو اس کے گناہوں پر گواہی دینے والا کوئی نہیں ہو گا۔
توبہ کے آداب میں الله کے حضور استغفار کا مقام بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔ اظہارِ بندگی میں بندے کا یہ شب و روز وظیفہ ہونا چاہیے۔ لیکن یاد رہے کہ توبہ کا اصل مقام بندے کا دل ہے، زبان تو اس توبہ کا ظاہری اظہار ہے۔
الله تعالیٰ کی بارگاہ میں معافی طلب کرنے کے سلسلے میں حضور سرکارِ دو عالم ﷺ کا توسّل اختیار کرنا تیسرا ادب ہے۔
اس میں شک نہیں کہ حق تعالیٰ ہر کسی کی التجا ہر وقت اور ہر جگہ سے سنتا ہے۔ وہ بے نیاز بھی ہے۔ اگر رد کر دے تو کوئی پوچھ نہیں سکتا۔ وہ خالق و مالک چاہے تو کرم کر دے اور چاہے تو رد کر دے اور گناہوں پر سزا دے کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دنیا میں یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی کسی بڑے حاکم کے پاس اپنے کسی کام کی غرض سے جاتا ہے تو اس حاکم کے کسی انتہائی قریبی تعلق والے کی سفارش ڈھونڈتا ہے کہ اگر اس کے کسی غلط رویے کی وجہ سے اُسے سخت سزا دینے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہو تو وہ حاکم اپنے قریبی دوست کی سفارش کا لحاظ کرتے ہوئے معاف کردے گا۔ چنانچہ قبولیت توبہ کا تیسرا ادب حضور نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ ہے۔
1۔ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:
وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاO
النساء، 4: 64
اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
یہاں سرکارِ دو عالم ﷺ کا توسّل اختیار کرنا نص قرآنی سے ثابت ہے۔ الله تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اپنے طور پر بندے کی توبہ قبول ہوتی یا نہ ہوتی لیکن جب بارگاهِ مصطفی ﷺ سے اس کی سفارش ہو گئی تو اب معاملہ ظنی نہ رہا۔ اب گناہگار الله تعالیٰ کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔
توسّل رسالت مآب ﷺ کے اہمیت کے حوالے سے سورہ محمد میں اس سے بھی عجیب تر مضمون بیان ہوا ہے جہاں الله تعالیٰ نے خود حضور نبی اکرم ﷺ کو بلاتفریق مرد و زن اپنے گنہگار امتیوں کے لئے معافی مانگتے رہنے کی تلقین فرمائی۔ ارشاد ہو:
2۔ فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ط وَاللهُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْo
محمد، 47: 19
پس جان لیجیے کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ (اظہارِ عبودیت اور تعلیمِ امت کی خاطر الله سے) معافی مانگتے رہا کریں کہ کہیں آپ سے خلافِ اولیٰ (یعنی آپ کے مرتبہ عالیہ سے کم درجہ کا) فعل صادر نہ ہو جائے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی طلبِ مغفرت (یعنی ان کی شفاعت) فرماتے رہا کریں (یہی ان کا سامان بخشش ہے)، اور (اے لوگو!) الله (دنیا میں) تمہارے چلنے پھرنے کے ٹھکانے اور (آخرت میں) تمہارے ٹھہرنے کی منزلیں (سب) جانتا ہے۔
اس سے بڑھ کر توسّل من الرسول کی اہمیت و فضیلت کا اور کیا بیان ہوسکتا ہے جب اللہ تبارک و تعالیٰ خود حضور نبی اکرم ﷺ کو امت مصطفوی کی بخشش کا ذریعہ بتا دیتے ہیں۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلے سے معافی طلب کرنا مقبول ترین عمل تو ہے ہی لیکن اس سے بندے کا اپنے آقا و مولیٰ سے محبت کا اظہار بھی ہوتا ہے چنانچہ حضورنبی اکرم ﷺ کی سفارش سے صَرفِ نظر کرنا منافقانہ طرزِ عمل ہے۔ الله تعالیٰ منافقین کے اس طرزِ عمل کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
3۔ وَاِذَا قِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللهُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰـفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًاo
النساء، 4: 61
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کے نازل کردہ (قرآن) کی طرف اور رسول (ﷺ) کی طرف آجاؤ تو آپ منافقوں کو دیکھیں گے کہ وہ آپ (کی طرف رجوع کرنے) سے گریزاں رہتے ہیں۔
یعنی جو ظاہراً مسلمان ہو کر بھی حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہونا اپنی ہتک سمجھتے ہیں اور آپ ﷺ کے توسّل کو ضروری خیال نہیں کرتے۔ الله تعالیٰ نے ان کی اس سوچ پر اپنے غضب کا اظہار فرمایا ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ وہ غضب یافتہ لوگ ہیں کہ اگر آپ ﷺ نے خود (اپنی صفت رحمت العالمین کے باعث) ستر بار بھی ان کو معاف کرنے کے لئے کہا تو انہیں ہرگز معاف نہیں کروں گا کیونکہ یہ تو آپ کی شفاعت اور توسّل کے ہی منکر ہیں اور رب العزت کے حکم کے باوجود تیری سفارش سے اعراض کرتے رہے۔
4۔ ارشاد ربانی ہے:
اِسْتَغْفِرْ لَھُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ط اِنْ تَسْتَغْفِرْ لَھُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَنْ یَّغْفِرَ اللهُ لَھُمْ ط ذٰلِکَ بِاَ نَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِهٖ ط وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo
التوبة، 9: 80
آپ خواہ ان (بدبخت، گستاخ اور آپ کی شان میں طعنہ زنی کرنے والے منافقوں) کے لیے بخشش طلب کریں یا ان کے لیے بخشش طلب نہ کریں، اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادتِ کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لیے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں فرماتا۔
حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی رحمت و بخشش اورمغفرت کے دروازے ہر اس شخص کے لئے بند کر دیئے ہیں جو اس کے حبیب ﷺ کے وسیلے کا انکار کرے۔ یہ دراصل خارجیت کا فتنہ ہے جو امت محمدی کے بدن سے روحِ محمد ﷺ نکالنے کی سازش ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے شعر میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روحِ محمد ﷺ اس کے بدن سے نکال دو
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان دین کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے اسلام کی نظریاتی سرحدوں پر کیے جانے والے حملوں سے کبھی بے خبر نہ ہوں۔ اگر ایک بار خدانخواستہ امت کا رشتہ سرکارِ دو عالم ﷺ سے کٹ گیا تو غضب الٰہی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہماری بقا کا واحد آسرا حضورنبی اکرم ﷺ کا وسیلہ ہے۔
ذہن میں خیال آسکتا ہے کہ یہ توسّل تو آپ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں صرف صحابہ کرام ث کو میسر تھا، اب آپ ﷺ کے وصال مبارک کے بعد یہ کیوں کر ممکن ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ آقا ﷺ قبر انور میں زندہ ہیں۔ یہ جمیع مسلمانوں کاعقیدہ ہے۔ ظاہری حیات مبارکہ میں تو ہر کسی کو نظر آتے تھے لیکن اب آپ ﷺ کا چہرہ مقدس صرف ان کے لئے بے نقاب ہے جو دلِ بینا رکھتے ہیں۔ اور جن کے نفوس تزکیہ کے باعث راضیہ و مرضیہ کے مقام کے حامل ہیں۔ بقول شاعر:
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
کہ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
ایسی بصارت حضور نبی اکرم ﷺ کے بے شمار عاشقوں کو حاصل رہی ہے۔ حضرت ابو العباس مرسی فرماتے ہیں:
لَوْ حُجِبَ عَنِّیْ رَسُوُل اللهِ ﷺ طَرْفَۃَ عَیْنٍ مَا عَدَدْتُّ نَفْسِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.
اگر پلک جھپکنے کی مدت کے لیے بھی میں رسول اللہ ﷺ کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں تو میں خود کو مسلمان تصور نہیں کرتا۔
شیخ ابو العباس مرسی کا یہ قول ان الفاظ کے ساتھ بھی منقول ہے:
لِيْ أَرْبَعَۃُ سَنَۃٍ مَا حُجِبْتُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَلَوْ حُجِبْتُ طَرْفَۃَ عَیْنٍ مَا عَدَدْتُّ نَفْسِيْ مِنْ زُمْرَۃِ الْمُسْلِمِیْنَ.
شعرانی، الطبقات الکبری، 2: 13
چالیس سال سے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوا، اگر پلک جھپکنے کی مدت کے لیے بھی میں اللہ کے محبوب رسول ﷺ کی نظروں سے اوجھل ہو جاؤں تو میں خود کو مسلمان تصور نہیں کرتا۔
امام جلال الدین سیوطی نے 75 مرتبہ حالتِ بیداری میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت فرمائی ہے۔ بے شمار ائمہ مجتہدین اور اولیائے کاملین ایسے گزرے ہیں جنہیں حضوری کا درجہ حاصل تھا ہر ایک کی روح سرکارِ دو عالم ﷺ کی روحانی بارگاہ میں حاضر ہوتی اور جس چیز کے بارے میں انہیں کچھ تردد ہوتا آپ ﷺ کی بارگاہ عالیہ میں سوال کرتے کہ یارسول الله ! کیا یہ آپ کا ارشاد ہے یا نہیں؟ پھر بسا اوقات یہ بھی عرض کرتے کہ یارسول الله! ہمیں فلاں آیت سے یہ مسئلہ سمجھ میں آیا ہے اور فلاں حدیث مبارک سے ہمیں یہ مسئلہ معلوم ہوا ہے آپ اُسے پسند فرماتے ہیں یا نہیں؟ پھر سرکار ﷺ کے ارشاد یا اشارہ کے مطابق عمل کرتے۔ طبقات کبریٰ میں امام شعرانی نے بعض ایسی نابغہ روزگار شخصیات کے نام درج کئے ہیں جن پر آقا ﷺ اس سلسلے میں شفقت فرماتے تھے اور یہ آقا ﷺ کی نعمت و شفقت قیامت تک جاری و ساری رہے گی۔
حافظ ابن کثیر سے منقول ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں سفارش کی غرض سے روانہ ہوا۔ جب فاصلہ طے کر کے مدینہ منورہ پہنچا تو وہاں اسے معلوم ہوا کہ سرکارِ دوعالم ﷺ تو وصال فرما چکے ہیں۔ وہ شخص حضور ﷺ کے روضہ اقدس کے سامنے کھڑا ہوا اور زار و قطار رویا۔ عرض کرنے لگ: یا رسول الله ﷺ : میں تو آپ کے حضور الله سے اپنے گناہوں کی معافی دلوانے کی غرض سے حاضر خدمت ہوا تھا۔ اب یہ بدنصیب کہاں جائے کہ آپ ﷺ تو وصال فرما گئے ہیں اور میری سفارش نہ ہو سکی۔ اس طرح وہ آہ و زاری کرتا روتا ہوا گھر کو واپس چل دیا۔ پھر (راوی حضرت عتبی بیان کرتے ہیں کہ) انہیں اونگھ آئی تو خواب میں سرکارِ دوعالم ﷺ تشریف لائے اور فرمایا:
یَا عُتْبِيْ! إلْحَقِ الْأَعْرَابِي فَبَشِّرْهُ أَنَّ اللهَ قَدْ غَفَرَلَهٗ.
اے عتبی! اٹھو(اور فلاں شخص کو جو بخشش کے لئے حاضر ہوا تھا اور مایوس واپس جا رہا ہے) اسے یہ مژدہ جاں فزا سنا دو کہ الله تعالیٰ نے اسے بخش دیا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی شفاعت اور سفارش آج بھی حیاتِ ظاہری کی طرح اپنے امّتیوں کے لئے عام ہے۔ جو امتی ظاہری طور پر مدینہ منورہ سے دور بیٹھ کر بھی الله تعالیٰ کی بارگاہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کو وسیلہ بنا کر معافی کا طلب گار ہوتا ہے اسے بلاشبہ سرکار دو عالم ﷺ کی شفاعت اپنی آغوشِ کرم میں لے لیتی ہے۔ اب اگر اُمت ہی غفلت کا شکار ہو جائے تو پھر دوسری بات ہے:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہروِ منزل ہی نہیں
حضرت امام شعرانی نے وسیلہ سرکار دوعالم ﷺ پر کیا عمدہ کلام کیا ہے، فرماتے ہیں:
وَمِمَّا أَنْعَمَ اللهُ تعالیٰ بِهٖ عَلَيَّ: جَعْلِيْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَاسِطَةً بَیْنِيْ وَبَیْنَ اللهِ تعالیٰ فِيْ کُلِّ حَاجَۃٍ طَلَبْتُهَا، لِأَنَّهٗ ﷺ کَبِیْرُ الْحَضْرَۃِ الْإِلٰهِیَّۃِ. فَسُؤَالُنَا رَبُنَا تعالیٰ بِلَا وَاسِطَتِهٖ سُوْئُ أَدَبٍ مَعَهٗ ﷺ، وَلِأَنَا لَا نَعْرِفُ الْأَدَبَ مَعَ اللهِ تعالیٰ لِعَدَمِ إِحَاطَتِنَا بِهٖ تعالیٰ بِخِلَافِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
شعرانی، لطائف المنن، 1: 106
اور مجھ پر اللہ تعالیٰ کا یہ بھی انعام ہے کہ جو حاجت بھی طلب کرتا ہوں اس میں اپنے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان رسول اللہ ﷺ کو واسطہ بناتا ہوں۔ سرکار ﷺ دربارِ الهٰیہ کے منتظم اعلیٰ ہیں۔ پس آپ ﷺ کے واسطہ کے بغیر رب العزت سے مانگنا حضور ﷺ کی بے ادبی ہے۔ یہ ا س لئے بھی ضروری ہے کہ ہم الله سبحان و تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتے چنانچہ ہمیں اس کی بارگاہ کے ادب کا عرفان نہیں جب کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ عرفان حاصل ہے۔
شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:
إِیَّاکَ أَنْ تَحْذَفَ وَاسِطَۃَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وتَکَلَّمَ اللهَ تعالیٰ بِلَا وَاسِطَتِهٖ، فَإِنَّکَ تَکُوْنُ إِذً ذَاکَ مُبْتَدِعًا لَا مُتَّبِعًا، وَالْکَامِلُ لَا یَطَأُ مَکَانًا لَا یَرٰی فِیْهِ قَدَمَ الْاِتِّبَاعِ لِنَبِیِّهٖ ﷺ فِیْهِ أَبَدًا.
شعرانی، لطائف المنن، 1: 106
اس سے پرہیز کر کہ تو حضور ﷺ کا وسیلہ حذف کر کے الله تعالیٰ سے بلاواسطہ کلام کرے کیونکہ اس وقت تو بدعتی ہو گا اور بندئہ کامل اس جگہ قدم نہیں رکھتا جہاں اسے اپنے نبی پاک ﷺ کی اتباع کا قدم نظر نہیں آتا۔
بلاشبہ حضورنبی اکرم ﷺ واسطہ عظمیٰ ہیں۔ سعادت مند ہیں وہ لوگ جنہوںنے حضورنبی اکرم ﷺ کی رسالت کو رحمۃ اللعالمین کے عنوان سے پہچانا اور ساری کائنات سے ممتاز سمجھا اور نجات والوں میں سے ہوگئے۔
توبہ کے آداب میں سے اہم ترین ادب یقین محکم کے ساتھ الله تعالیٰ کی رحمت و بخشش کا امیدوار ہونا ہے جبکہ خود رب العزت کا فرمان ہے:
لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللهِ ط اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاo
الزمر، 39: 53
تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
الله تعالیٰ سے ہمیشہ رحمت اور بخشش کی امید رکھنے سے انسان کے اندر مناجات کا داعیہ پیدا ہوتا ہے اور وہ اس کے حضور مانگنے میں لذت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کی یہ رغبت اس میں عمل کرنے کی تحریک پیدا کرتی ہے۔ بندوں کو الله تعالیٰ سے امید اور حسنِ ظن کی بڑی ترغیب دی گئی ہے۔
1۔ سرکارِ دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا یَمُوتَنَّ أَحَدَکُمْ اِلَّا وَھُوَ یُحْسِنُ بِاللهِ تَعَالٰی الظَّنَّ.
تم میں سے کسی کو ہرگز موت نہ آئے مگر اس حالت میں کہ وہ الله تعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھتا ہو۔
2۔ آپ ﷺ نے اس ضمن میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي فَلْیَظُنَّ بِي مَا شَاءَ.
بندہ مجھے اپنے گمان کے مطابق پاتا ہے تو میرے بارے میں جو چاہے گمان کرے (یعنی اچھا گمان کرے)۔
3۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص موت کی حالت میں مبتلا تھا۔ آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے اور پوچھ: اپنے آپ کو کیسا پاتے ہو؟ اس شخص نے عرض کیا: میں اپنے آپ کو یوں پاتا ہوں کہ مجھے اپنے گناہوں کا خوف ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:
لَا یَجْتَمِعَانِ فِی قَلْبِ عَبْدٍ فِی مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ مَا یَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا یَخَافُ.
اس وقت (یعنی مرنے کے وقت) کسی بندے کے دل میں یہ دو باتیں (امید اور خوف) جمع نہیں ہوتیں مگر الله تعالیٰ اسے اس کی امید کے مطابق عطا فرماتا ہے اور جس سے اس کو خوف ہوتا ہے اس سے محفوظ رکھتا ہے۔
بندہ اپنے احوال پر غور کرے تو اس پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ اس کے بیشتر شب و روز تو معصیت میں بسر ہو رہے ہیں۔ الله تعالیٰ قلب سلیم عطا فرمائے تو بندہ معافی مانگنے کی طرف راغب ہوتا ہے اور عزم کرتا ہے کہ آئندہ وہ ان گناہوں سے باز رہے گا لیکن بتقضائے بشریت پھر انہی غلط کاموں میں ملوث ہو جاتا ہے اور توبہ پر قائم رہ سکنے کو محال جانتے ہوئے دوبارہ توبہ کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ وہ اس بات سے بے خبر ہے کہ اس کا رب اس کے توبہ پر قائم نہ رہ سکنے کے باوجود اس کا منتظر رہتا ہے کہ کب بندہ دوبارہ معافی کے لئے اس کے حضور رجوع کرتا ہے۔
پس چاہئے کہ بندہ اپنے گناہوں کی کثرت کی طرف نہ دیکھے بلکہ قادر مطلق کی رحمت کاملہ کو ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھے اور ہر گناہ پر صدقِ دل سے معافی کا طلبگار رہے۔ درج ذیل دو احادیث مبارکہ الله تعالیٰ کی اسی رحمتِ کاملہ کو بیان کر رہی ہیں:
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَذْنَبَ عَبْدٌ ذَنْبًا فَقَالَ: اللّٰھُمَّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي. فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیا: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ، ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي، فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیا: عَبْدِي، أَذْنَبَ ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ، وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ عَادَ فَأَذْنَبَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، اغْفِرْ لِي ذَنْبِي. فَقَالَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیا: أَذْنَبَ عَبْدِي ذَنْبًا فَعَلِمَ أَنَّ لَهٗ رَبًّا یَغْفِرُ الذَّنْبَ وَیَأْخُذُ بِالذَّنْبِ. اعْمَلْ مَا شِئْتَ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ. قَالَ عَبْدُ الْأَعْلٰیا: لَا أَدْرِي أَقَالَ فِي الثَّالِثَۃِ أَوِ الرَّابِعَۃِ: اعْمَلْ مَا شِئْتَ.
ایک بندے نے گناہ کیا اور کہ: اے اللہ! میرے گناہ بخش دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ پھر دوبارہ وہ بندہ گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرا گناہ معاف کر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر گرفت بھی کرتا ہے۔ وہ بندہ پھر گناہ کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے رب! میرے گناہ کو معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندے نے گناہ کیا ہے اور اس کو یقین ہے کہ اس کا رب گناہ معاف بھی کرتا ہے اور گناہ پر مواخذہ بھی کرتا ہے۔ تم جو چاہو عمل کرو، میں نے تمہاری مغفرت کر دی۔ (راویِ حدیث) عبد الاعلیٰ نے کہ: مجھے یاد نہیں کہ آپ ﷺ نے تیسری یا چوتھی بار یہ فرمایا تھ: تم جو چاہو کرو۔
5۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب تعالیٰ سے روایت کرتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ اللهَ کَتَبَ الْحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ، ثُمَّ بَیَّنَ ذَلِکَ، فَمَنْ هَمَّ بِحَسَنَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْهَا کَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً کَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا کَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ عَشْرَ حَسَنَاتٍ إِلَی سَبْعِ مِائَۃِ ضِعْفٍ إِلَی أَضْعَافٍ کَثِیرَۃٍ، وَمَنْ هَمَّ بِسَیِّئَۃٍ فَلَمْ یَعْمَلْهَا کَتَبَهَا اللهُ لَهُ عِنْدَهُ حَسَنَةً کَامِلَةً، فَإِنْ هُوَ هَمَّ بِهَا فَعَمِلَهَا کَتَبَهَا اللهُ لَهُ سَیِّئَةً وَاحِدَةً.
بخاری، الصحیح، کتاب الرقاق، باب من ھم بحسنۃ أو بسیئۃ، 5: 2380، رقم: 6126
اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور بدیاں لکھ دیں اور انہیں واضح فرما دیا ہے۔ پس جس نے نیک کام کا ارادہ کیا اور اسے کر نہ سکے تب بھی اللہ تعالیٰ اُس کے لیے پوری نیکی کا ثواب لکھ دیتا ہے اور اگر اس نے ارادہ کیا اور پھر اسے کر بھی لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دس نیکیوں سے سات سو تک یعنی کئی گنا کر کے لکھ دیتا ہے اور جس نے برائی کا ارادہ کیا اور پھر اسے نہ کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک کامل نیکی لکھ دیتا ہے اور اگر ارادہ کیا اور اسے کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک برائی لکھتا ہے۔
حضرت ابان بن ابی عیاش رضی اللہ عنہ امید کا ذکر زیادہ فرماتے تھے کسی نے ان کو بعد وفات خواب میں دیکھا تو انہوں نے فرمایا: الله تعالیٰ نے مجھے اپنے سامنے کھڑا کر کے پوچھ:
مَا الَّذِيْ حَمَلَکَ عَلٰی ذٰلِکَ؟ فَقُلْتُ: أَرَدْتُّ أَنْ أُحْبِبَکَ إِلٰی خَلْقِکَ، فَقَالَ: قَدْ غَفَرْتُ لَکَ.
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 145
تم ایسا کیوں کرتے تھے؟ انہوں نے عرض کیا: یا الله! میں چاہتا تھا کہ تیری مخلوق کے دل میں تیری محبت ڈالوں تو الله تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تجھے بخش دیا۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بندہ کوئی خطا کر بیٹھے اور اس پر وہ نادم بھی ہو تو اسے چاہیے کہ فوراً اپنے رب کی رحمت کی طرف رجوع کرے اور اس سے معافی طلب کرے۔ بار بار گناہ سرزد ہونے پر بار بار توبہ کرے کیوں کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع اور اس کی ذات بڑی بے نیاز ہے۔
امام غزالی احیاء علوم الدین میں فضیلت رجا کے باب کے تحت نقل کرتے ہیں کہ ایک نہایت ہی عظیم بشارت حضرت یحییٰ بن اکثم رضی اللہ عنہ سے ان کی وفات کے بعد امت تک پہنچی۔ حضرت یحییٰ بن اکثم رضی اللہ عنہ کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا کہ الله تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے الله تعالیٰ نے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا: اے بوڑھے! تو نے فلاں فلاں کام کئے؟ کہنے لگے کہ یہ سن کر مجھ پر اس قدر رعب طاری ہو گیا کہ الله ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر میں نے عرض کیا: اے میرے رب! حدیث شریف کے ذریعے مجھے تیرا یہ حال نہیں بتایا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تیرے سامنے میرے بارے میں کیا بیان کیا گیا؟ میں نے عرض کیا: مجھ سے حضرت عبدالرزاق نے بیان کیا وہ حضرت معمر سے وہ حضرت زہری سے وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور وہ تیرے نبی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے اور آپ ﷺ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ تو نے فرمایا کہ بندہ میرے بارے میں جو گمان کرتا ہے مجھے اسی طرح پاتا ہے۔ پس وہ جو چاہے گمان کرے۔ اور میرا گمان یہ تھا کہ تو مجھے عذاب نہیں دے گا۔ تو الله تعالیٰ نے فرمایا: حضرت جبرئیل نے سچ کہا، میرے نبی نے بھی سچ کہا، انس، زہری، معمر اور عبد الرزاق نے بھی سچ کہا ہے۔ حضرت یحییٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: پھر مجھے لباس پہنایا گیا اور جنت تک میرے آگے آگے غلام چلے۔ ہمارے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلے سے الله تعالیٰ کے لطف و کرم کا سوال کرتے ہیں۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 145
ایک آدمی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے دو اشخاص کے بارے میں آپ کی رائے درکار ہے؛ ایک آدمی خوب سرگرمی اور محنت سے عبادت کرتا ہے، کثرت سے اعمال صالحہ بجا لاتا ہے، گناہ بھی کم کرتا ہے مگر اُس کا یقین کمزور ہے اور وہ اپنے معاملات میں کبھی کبھی شبہ کا شکار ہو جاتاہے۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کا شک اس کے اعمال کو برباد کردے گا۔ اس نے پھر عرض کیا کہ اس آدمی کے بارے میں بتائیے جس کا عمل کم ہے مگر اس کا یقین قوی ہے اور اس کے گناہ بھی زیادہ ہیں (یعنی وہ الله تعالیٰ سے بخشش کی قوی امید رکھتا ہے)۔ راوی بتاتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ وہ آدمی کہنے لگ: الله کی قسم! اگر پہلے آدمی کے شک نے اُس کے نیک اعمال برباد کر دیے تو دوسرے آدمی کا یقین اس کے تمام گناہوں کو مٹا دے گا۔ راوی بتاتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اٹھ کھڑے ہوئے، پھر فرمایا:
مَا رَأَیْتُ الَّذِیْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْ هَذَا.
أبو طالب مکی، قوت القلوب، 1: 276
میں نے اس سے زیادہ صاحب فقاہت کوئی نہیں دیکھا۔
حجۃ الاسلام امام غزالی نے مکاشفۃ القلوب میں امانت اور توبہ کے باب میں یہ واقعہ نقل کیا ہے:
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص توبہ کرتا لیکن ثابت قدم نہ رہتا یہاں تک کہ بیس سال گزر گئے الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ میرے اس بندے کو کہہ دو کہ میں تجھ سے سخت ناراض ہوں۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے اس شخص کو الله تعالیٰ کا پیغام دیا تو وہ بہت پریشان ہو گیا۔ جنگل بیابان کا رخ کیا، وہاں جا کر رب العزت کے حضور عرض کیا: اے رب ذوالجلال! تیری رحمت جاتی رہی یا میرے گناہ نے تجھے دکھ دیا۔ تیری بخشش کے خزانے ختم ہو گئے یا بندوں پرتیری نگاہ کرم نہیں رہی؟ تو کریم ہے میں بخیل ہوں۔ کیا میرا بخل تیرے کرم پر غالب آگیا ہے؟ اگر تو نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت سے محروم کر دیا تو وہ کس کے دروازے پر جائیں گے۔ اگر تو نے انہیں راندہ درگاہ کر دیا تو وہ کہاں جائیں گے؟ اے رب قادر و قہار! اگر تیری بخشش جاتی رہی اور میرے لئے عذاب ہی رہ گیا ہے تو تمام گناہ گاروں کا عذاب مجھے دے دے۔ میں ان پر اپنی جان قربان کرتا ہوں۔ الله تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا: ’میرے بندے سے کہہ دو کہ تم نے میری کمالِ قدرت اور عفو و درگزر کی حقیقت کو سمجھ لیا ہے۔ اگر تیرے گناہ زمین کے برابر ہوں تب بھی میں بخشش دوں گا‘۔
غزالی، مکاشفۃ القلوب: 56
چنانچہ یہ ادبِ توبہ بندے کو ہمیشہ الله رب العزت کی عفو و درگزر کی عظیم صفت کا امیدوار رکھتا ہے، اور وہ کبھی مایوسی کا شکار ہو کر الله کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتا۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَاللهِ، لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْـلًا وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا، وَمَا تَلَذَّذْتُمْ بِالنساء عَلَی الْفُرُشِ، وَلَخَرَجْتُمْ إِلَی الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُونَ إِلَی اللهِ لَوَدِدْتُ أَنِّی کُنْتُ شَجَرَةً تُعْضَدُ.
اللہ کی قسم! جو کچھ مجھے معلوم ہے اگر تم جان لیتے تو کم ہنستے اور زیادہ روتے اور بستروں پر عورتوں سے لذت نہ حاصل کرتے، جنگلوں کی طرف نکل جاتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں ایک درخت ہوتا جو کبھی کٹ جاتا۔
جب آپ نے یہ حقیقت حال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بتائی تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور عرض کیا کہ آپ ﷺ کا ربّ فرماتا ہے کہ آپ میرے بندوں کو کیوں ناامید کرتے ہیں۔ چنانچہ حضورنبی اکرم ﷺ باہر تشریف لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو امید اور شوق دلایا۔
اس حدیث مبارکہ کے فوائد میں سے ایک اہم ترین بات یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی نعمتوں اور احسانات کا ذکر مقابلتاً زیادہ کیا جائے۔ گویا ایسا لگے کہ بندے مولیٰ کریم کو احسان فرمانے کی صفت سے ہی جانتے ہیں۔
اہلِ محبت کے نزدیک حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں شب و روز ہدیہ درود و سلام پیش کرنا آدابِ توبہ میں سے اہم ترین ادب ہے۔ درود و سلام کی کثرت حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کی علامت ہے۔ اس محبت کے طفیل انسان توبہ جیسی عظیم نعمت کا سزاوار ٹھہرتا ہے۔
یہ وہ مبارک فعل ہے جسے الله تعالیٰ اور اس کے فرشتے خود کرتے ہیں اور ہمیں بھی ایسا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللهَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo
الأحزاب، 33: 56
بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرم ﷺ ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔
یہاں درود و سلام کے معانی و مطالب اور معارف بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ توبہ کے ادب کے عنوان کے تحت اس پاک اور بابرکت عمل کی افادیت بیان کی جارہی ہے۔
درود و سلام ایسا مبارک فعل ہے کہ اس سے امتی کے دل میں حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کا سمندر موجزن ہو جاتا ہے۔ یہ محبت یک طرفہ نہیں رہتی بلکہ اس کے نتیجے میں امتی پر سرکارِ دو عالم ﷺ کی عنایات و نوازشات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور گناہگار امتی حق تعالیٰ کی طرف سے ایسے ایسے لطف و انعامات کا حامل ہو جاتا ہے جس کا وہ اپنے اعمال کے باعث مستحق نہیں ہوتا۔ سیرتِ مطہرہ پر لکھی گئی کتب میں تواتر کے ساتھ نوازشاتِ الٰہیہ کے ایسے واقعات بکثرت موجود ہیں کہ بظاہر اعمالِ بد کے باعث جہنم ان کا ٹھکانا تھا لیکن حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں مداومت کے ساتھ ہدیۂ درود و سلام بھیجنے کے عمل نے انہیں بد بختی سے بچالیا۔
قبل اس بیان کے کہ اعمال کی کمی کے باوجود گناہ گار کیسے بخشے گئے ہم روزمرّہ کی ایک سادہ مثال سے اس امر کو واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محض سلام عرض کرنے سے دو طرفہ محبت کیسے جنم لیتی ہے!
کسی صاحبِ ثروت کا گزر ایک ایسی جگہ سے ہوتا تھا جہاں ایک غریب پھلوں کی ایک معمولی سے ریڑھی لئے کھڑا ہوتا۔ جیسے ہی اس امیر آدمی کی گاڑی وہاں سے گزری اس غریب آدمی نے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر سلام کیا۔ امیر آدمی کو ایسے سلام نہ جانے کتنے لوگ کرتے تھے، اس نے اس کی طرف دیکھا تک بھی نہیں۔ وہ امیر آدمی اگرچہ اس پر کوئی توجہ نہ دیتا لیکن غریب ریڑھی بان نے پہلے دن کی طرح بڑے ادب سے سلام کرنے کا انداز جاری رکھا۔ دو تین ماہ بعد اتنا فرق پڑ گیا کہ جب وہ سلام کرتا تو وہ امیر شخص گاڑی کے شیشے سے اُدھر دیکھ لیتا کہ کوئی اُسے سلام کرتا ہے۔ رفتہ رفتہ اب امیر شخص نے سر ہلا کر پھر ہاتھ ہلا کر جواب دینا شروع کر دیا۔ جب چھ ماہ گزر گئے تو محض سلام کرنے کے مسلسل عمل سے اب امیر شخص گاڑی کے اُس جگہ پہنچنے سے پہلے ہی ادھر دیکھنا شروع کر دیتا بلکہ شیشے نیچے کر کے اس کو مسکرا کر دیکھتا اور ہاتھ ہلا کر شکریہ بھی ادا کرتا۔ ایک دن جب وہ نظر نہ آیا تو اس امیر شخص نے اس کی کمی کو محسوس کیا۔ جب مسلسل تیسرے دن موجود نہ پایا تو گاڑی رکوائی اور کسی سے پوچھا کہ وہ ریڑھی والا کدھر گیا۔ پتہ چلا کہ بیمار ہے، وہ مزاج پرسی کے لئے اس نادار غریب کے گھر پہنچ گیا۔ ایک امیر آدمی کا نادار مستحق کے گھر تیمار داری کے لئے پہنچ جانا اُس نادار شخص کی سب پریشانیوں کا مداوا بن گیا، کس طرح ممکن ہوا؟ یہ اولاً یک طرفہ سلام سے شروع ہوا تھا۔ یہ مثال محض سمجھانے کی غرض سے بیان کی گئی، وگرنہ کہاں آقا علیہ السلام کہ جو دونوں جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے اور کہاں ایک بندۂ خطا کار!
کِتھے مہر علی، کِتھے تیری ثناء
گستاخ اَکھیاں کِتھے جا اڑیاں
امام سفیان ثوری نے طواف کعبہ کرتے ہوئے ایک ایسے جوان کو دیکھا جو قدم قدم پر درود شریف پڑھ رہا تھا۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ میں نے کہ: اے نوجوان! تم تسبیح وتہلیل چھوڑ کر صرف درود شریف ہی پڑھ رہے ہو، کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟ جوان نے پوچھ: آپ کون ہیں؟ میں نے کہ: سفیان ثوری، تو اس نے کہ: اگر آپ کا شمار الله کے خاص بندوں میں نہ ہوتا تو کبھی بھی یہ راز آپ کو نہ بتاتا۔ ہوا یوں کہ میں اپنے بھائی کے ہمراہ حج کے ارادے سے نکلا۔ راستہ میں ایک جگہ میرا بھائی سخت بیمار ہو گیا۔ میںنے بہت علاج کیا لیکن اُس کی موت واقعہ ہو گئی۔ موت کے بعد اس کا چہرہ سخت سیاہ ہوگیا۔ اِس غم سے میری آنکھیں بوجھل ہو گئیں۔ اسی اثناء میں ایک شخص میرے بھائی کے پاس آیا جس کا چہرہ چراغ کی طرح روشن تھا، اس نے میرے بھائی کے چہرہ سے کپڑا ہٹا کر چہرے پر ہاتھ پھیرا، تو میرے بھائی کا چہرہ سفید ہو گیا۔ جب وہ واپس تشریف لے جانے لگا تو میںنے دامن تھام کے عرض کیا: اس غریب الوطنی میں میرے بھائی کی آبرو رکھنے والے آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے کہ:
أَنَا مَلَکٌ مُوَکَّلٌ بِمَنْ یُصَلِّيْ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ، أَفْعَلُ بِهٖ هَکَذَا، وَقَدْ کَانَ أَخُوْکَ یَکْثُرُ مِنَ الصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِ ﷺ وَکَانَ قَدْ حَصَلَتْ لَهٗ مِحْنَۃٌ، فَعُوْقِبَ بِسَوَادِ الْوَجْهِ، ثُمَّ أَدْرَکَهُ اللهُ تعالیٰ بِبَرَکَۃِ صَلَاتِهٖ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ، فَأَزَالَ عَنْهُ ذَلِکَ السَّوَادَ، وَکَسَاهُ هَذَا الضِّیَاءَ.
نبہانی، سعادۃ الدارین: 138
میں وہ فرشتہ ہوں جس کو اسی کام پر مقرر کیا گیا ہے کہ جو کوئی حضور نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجے اس کے اِسی طرح کام آؤں۔ تمہار بھائی حضور نبی اکرم ﷺ پر کثرت سے درود بھیجا کرتا تھا۔ اب اس کو سیاہ رو ہونے کی سزا دی گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے درود سلام کے تصدق سے اس کی دستگیری فرمائی، پس اس کے چہرے کی سیاہی ختم فرما دی اور اسے روشن و منور کر دیا۔
امام نبہانی نے عبد الواحد بن زید سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں ہے کہ جب اس نوجوان کا والد مر گیا، اس کا چہرہ سیاہ ہو گیا تو اس پر ہیبت طاری ہو گئی۔ اور وہ کہتا ہے کہ میں اسی رنج و الم میں مبتلا تھا کہ مجھ پر نیند طاری ہو گئی۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے باپ کے پاس چار حبشی کھڑے ہیں، ان کے ہاتھوں میں لوہے کے ستون ہیں، ایک سرہانے کی طرف، ایک پاؤں کی طرف، ایک دائیں اور ایک بائیں طرف۔ اچانک ایک حسین و جمیل بزرگ سبز کپڑوں میں ملبوس اس طرف آ نکلے۔ ان لوگوں سے فرمایا:
تَنَحُّوْا، فَرَفَعَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهٖ، فَمَسَحَ وَجْهَهٗ بِیَدَیْهِ، ثُمَّ أَتِانِي فَقَالَ: قُمْ، فَقَدْ بَیَّضَ اللهُ وَجْهَهٗ أَبِیْکَ، فَقُلْتُ مَنْ أَنْتَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ رَسُوْلُ اللهِ. فَکَشَفْتُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِ أَبِي فَإِذَا هُوَ أَبْیَضُ الْوَجْهِ، فَأَصْلَحَتْ مِنْ شَأْنِهٖ وَدَفَنْتُهٗ.
نبہانی، سعادۃ الدارین: 126
ہٹ جاؤ! میرے باپ کے چہرے سے کپڑا سرکایا، اس پر دونوں ہاتھ پھیرے، پھر میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اٹھو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کا چہرہ سفید کر دیا۔ میںنے عرض کیا: آپ پر میرے ماں باپ قربان! آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں محمد رسول اللہ (ﷺ) ہوں۔ میں نے اپنے باپ کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو چہرہ نور سے چمک رہا تھا، ان کی حالت مکمل طور پر درست ہو چکی تھی، میں نے ان کو دفن کر دیا۔
اس کے بعد امام نبہانی فرماتے ہیں:
فِي مِصْبَاحُ الظِّلَامِ: وَکَانَ هٰذَا الرَّجُلُ یَکْثُرُ الصَّلَاۃَ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ.
نبہانی، سعادۃ الدارین: 126
کتاب مصباح الظلام میںہے کہ یہ (مرنے والا) شخص نبی اکرم ﷺ پر بکثرت درود و سلام پڑھا کرتا تھا۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ درود و سلام کی کثرت نے مرنے کے بعد لوگوں کو تکلیف سے نجات دلائی۔
امام شمس الدین محمد بن عبد الرحمن نے القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع میں ایک حکایت درج فرمائی ہے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص انتہائی گناہگار تھا۔ جب وہ مر گیا تو لوگوں نے بغیر کفن دفن کے باہر پھینک دیا۔ الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اُسے غسل دو، نمازِ جنازہ پڑھو، میں نے اسے بخش دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھ: یا ربّ! تو نے اُسے کس عمل کی وجہ سے بخش دیا ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّهٗ فَتَحَ التَّوْرَاۃَ یَوْمًا فَوَجَدَ فِیْهَا اسْمَ مُحَمّدٍ ﷺ، فَصَلَّی عَلَیْهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَهٗ بِذَلِکَ.
اس نے ایک دن تورات کو کھولا اور اس میں اسم محمد ﷺ لکھا ہوا پایا۔ تو اس نے آپ ﷺ پر درود پڑھا اس لئے میں نے اس کو معاف فرما دیا ہے۔
ایک صوفی نے بیان کیا کہ میں نے مسطح نامی ایک شخص کو وفات کے بعد خواب میں دیکھا جو اپنی زندگی میں مزاحیہ طبیعت کے لئے بڑے مشہور تھے۔ میں نے پوچھا کہ الله تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ انہوں نے کہ: الله تعالیٰ نے مجھے معاف فرما دیا ہے۔ میں نے پوچھا کس عمل کے سبب؟ اس نے بتایا:
اسْتَمْلَیْتُ عَلَی بَعْضِ الْمُحَدِّثِیْنَ حَدِیْثًا مُسْنِدًا، فَصَلَّی الشَّیْخُ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ وَصَلَّیْتُ أَنَا مَعَهٗ، وَرَفَعْتُ صَوْتِيْ بِالصَّلَاۃِ عَلَی النَّبِيِّ ﷺ. فَسَمِعَ أَھْلُ الْمَجْلِسِ، فَصَلُّوا عَلَیْهِ، فَغُفِرَلَنَا فِي ذَلِکَ الْیَوْمِ.
نبہانی، سعادۃ الدارین، 1: 119
میں نے کسی محدث سے ایک مسند حدیث لکھوائی۔ میرے شیخ نے حضورنبی اکرم ﷺ پر درود شریف پڑھا تو میں نے بھی اُن کے ساتھ درود پڑھا اور میں نے بآوازِ بلند پڑھا تاکہ اہل مجلس بھی سن لیں۔ پھر انہوں نے بھی آپ ﷺ پر درود و سلام پڑھا۔ پس اُسی دن سے ہم سب کو بخش دیا گیا ہے۔
علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی ’سعادۃ الدارین‘ کے حصہ اوّل میں ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جسے عبدالواحد بن زید نے روایت کیا ہے کہ ہمارا پڑوسی جو بادشاہ کا خدمت گار تھا، الله کی یاد سے نہایت ہی غافل اور فتنہ و فساد پھیلانے میں مشہور تھا۔ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ اس کا ہاتھ حضور نبی اکرم ﷺ کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے عرض کیا: حضور! یہ برا شخص تو ان لوگوں میں سے ہے جو الله سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس اُس کے ہاتھ میں کیوں دے رکھا ہے؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے اس کا علم ہے اور سنو کہ میں الله کی بارگاہ میں اس کی سفارش کرنے جا رہا ہوں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول الله! یہ اس مقام پر کس وسیلے سے پہنچا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
بِکَثْرَۃِ صَلَاتِهٖ عَلَيَّ، فَإِنَّهٗ فِيْ کُلِّ لَیْلَۃٍ حِیْنَ یَأْوِيْ إِلٰی فِرَاشِهٖ یُصَلِّي عَليَّ أَلْفَ مَرَّةً، وَإِنِّيْ لَأَرْجُوْ أَنَّ اللهَ تَعَالٰی یَقْبَلُ شَفَاعَتِيْ فِیْهِ.
نبہانی، سعادۃ الدارین: 135
مجھ پر کثرت سے درود و سلام پڑھنے کی وجہ سے، یہ شخص ہر رات سونے سے پہلے مجھ پر ہزار مرتبہ درود و سلام بھیجا کرتا ہے اور مجھے امید ہے کہ الله تعالیٰ اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرمائے گا۔
عبد الواحد کا بیان ہے کہ جب صبح کے وقت مسجد میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی نوجوان روتا ہوا مسجد میں داخل ہو رہا ہے۔ اس وقت میں اپنے دوستوں کے سامنے وہ سب کچھ بیان کررہا تھا جو میں نے خواب میں اس کے متعلق دیکھا تھا۔ مسجد میں آکر اُس نے مجھے سلام کیا، میرے سامنے بیٹھ گیا اور بول: اے عبدالواحد! اپنا ہاتھ بڑھاؤ تاکہ میں تمہارے ہاتھ پر تائب ہو جاؤں۔ اس مقصد کے لئے حضور اقدس ﷺ نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور آپ نے مجھ سے اس مذاکرے کا ذکر فرمایا ہے جو گزشتہ رات تمہارے اور حضور انور ﷺ کے درمیان میرے متعلق ہوا ہے۔ جب اس نے توبہ کر لی تو خواب کے بارے میں میرے استفسار پر بتایا کہ ’میرے پاس آقا علیہ السلام تشریف لائے تھے۔ آپ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ جو درود و سلام تم مجھ پر بھیجتے ہو اس کی وجہ سے میں اپنے ربّ کے ہاں ضرور تمہاری سفارش کروں گا۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے میری شفاعت فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ صبح سویرے عبد الواحد کے پاس جانا اور اس کے ہاتھ پر توبہ کرنا اور مضبوطی سے قائم رہنا۔
نبهانی، سعادة الدارین: 135
الله تعالیٰ ہمیں استقامت کے ساتھ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں ہدیہ درود و سلام پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ یہ مبارک عمل قبر میں ہمارے لئے شفاعت کا وسیلہ بن سکے۔ (آمین) دعا کی قبولیت کے لیے درود و سلام کلیدی حیثیت کا حامل ہے۔ اس لیے استغفار کے آداب میں سے درود و سلام کی کثرت بھی شامل ہے۔
توبہ و استغفار کے آداب پر ہم نے اجمالی گفتگو کی ہے۔ توبہ کی قبولیت کے لیے ضروری ہے کہ ان آداب کا لحاظ رکھا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ ذکر الٰہی کو اپنا معمول بناتے ہوئے کثرت سے استغفار کریں، حضور نبی اکرم ﷺ کے وسیلہ اور آپ ﷺ پر درود و سلام کے توسل سے اللہ رب العزت کی رحمت کی امید رکھیں۔ ان آداب سے مزین توبہ اللہ کی بارگاہ میں شرفِ قبولیت حاصل کرتی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved