تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم

علم رکھتے ہوئے اپنے کہنے پر عمل نہ کرنے پر تنبیہ

اَلتَّرْهِيْبُ مِنْ أَنْ يَعْلَمَ الإِنْسَانُ وَأَلَّا يَفْعَلَ مَا يَقُوْلُ

اَلْقُرْآن

  1. يٰٓـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَo کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَo

(الصف، 61/ 2-3)

اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔

  1. مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرٰةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا ط بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ کَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ اللہِ ط وَاللہُ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَo

(الجمعة، 62/ 5)

اُن لوگوں کا حال جن پر تورات (کے احکام و تعلیمات) کا بوجھ ڈالا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا (یعنی اس میں اِس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ذکر موجود تھا مگر وہ اِن پر ایمان نہ لائے) گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو، اُن لوگوں کی مثال کیا ہی بُری ہے جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا ہے، اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔

اَلْحَدِيْثُ

  1. عَنْ أُسَامَةَ رضی الله عنه قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: يُجَاءَ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَی فِي النَّارِ فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ. فَيَدُوْرُ کَمَا يَدُوْرُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ. فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ فَيَقُوْلُوْنَ: أَي فُلاَنُ، مَا شَأْنُکَ؟ أَلَيْسَ کُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْکَرِ؟ قَالَ: کُنْتُ آمُرُکُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيْهِ وَأَنْهَاکُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِيْهِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة النار وأنها مخلوقة، 3/ 1191، الرقم/ 3094، ومسلم في الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب عقوبة من يأمر بالمعروف ولا يفعله وينهی عن المنکر ويفعله، 4/ 2290، الرقم/ 2989، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 205، الرقم/ 21832، والبيهقي في السنن الکبری، 10/ 94، الرقم/ 19996.

حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یوں فرماتے ہوئے سنا: روزِ قیامت ایک شخص کو لا کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ (شدتِ عذاب کی وجہ سے) اس کے پیٹ کی آنتیں باہر گر پڑیں گی۔ پھر وہ اس طرح گردش کرے گا جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اہلِ دوزخ اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے: اے فلاں شخص! تمہاری یہ حالت کیوں کر ہے؟ کیا تم ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتے تھے اور برائی سے منع نہیں کرتے تھے؟ وہ شخص جواب دے گا: ہاں میں تمہیں تو نیکی کا حکم دیتا تھا لیکن خود نیکی نہیں کرتا تھا اور میں تمہیں تو برائی سے روکتا تھا لیکن خود برے کام کرتا تھا۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُولُ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَةٍ لَا يُسْتَجَابُ لَهَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب التعوذ من شر ما عمل ومن شر ما لم يعمل، 4/ 2088، الرقم/ 2722، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 371، الرقم/ 19327، والنسائي في السنن، کتاب الاستعاذة، باب الاستعاذة من دعاء لا يستجاب، 8/ 285، الرقم/ 5538، وابن ماجه عن أبي هريرة رضي الله عنه في السنن، المقدمة، باب الانتفاع بالعلم والعمل به، 1/ 92، الرقم/ 250.

ایک دوسری روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو، اس نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔

اسے امام مسلم، احمد، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ: رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَرْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي عَلَی قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيْضِ مِنْ نَارٍ. قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَؤلَاءِ؟ قَالُوْا: خُطَبَاءُ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا. کَانُوْا يَأْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ وَهُمْ يَتْلُوْنَ الْکِتَابَ. أَفَـلَا يَعْقِلُوْنَ؟

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُوْ يَعْلٰی.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 120، الرقم/ 12232، وأبو يعلی في المسند، 7/ 69، الرقم/ 3992، والطيالسي في المسند، 1/ 274، الرقم/ 2060، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 367، الرقم/ 1222، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 283، الرقم/ 1773، وذکره المنذري في الترغيب والترھيب، 3/ 165، الرقم/ 3508.

ایک اور روایت میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ فرشتوں نے جواب دیا: یہ دنیا دار (پیشہ ور) خطباء ہیں جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے حالانکہ وہ کتابِ (الہٰی) کی تلاوت کرتے تھے۔ کیا وہ عقل نہیں رکھتے؟

اسے امام احمد اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ الْوَلِيْدِ بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَنْطَلِقُوْنَ إِلٰی أُنَاسٍ مِنْ أَهْلِ النَّارِ. فَيَقُوْلُوْنَ: بِمَ دَخَلْتُمُ النَّارَ؟ فَوَاللہِ، مَا دَخَلْنَا الْجَنَّةَ إِلَّا بِمَا تَعَلَّمْنَا مِنْکُمْ. فَيَقُولُوْنَ: إِنَّا کُنَّا نَقُوْلُ وَلَا نَفْعَلُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22/ 150، الرقم/ 405، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 74، الرقم/ 212، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 185، والمناوي في فيض القدير، 2/ 432، 433.

ایک اور روایت میں حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: چند جنتی لوگ بعض دوزخیوں کے پاس چل کر جائیں گے تو ان سے پوچھیں گے: تم کس وجہ سے دوزخ میں چلے گئے، بخدا ہم تو تم ہی سے (بھلائی اور نیکی کے کام) سیکھ کرجنت میں داخل ہوئے ہیں؟ اہلِ دوزخ جواب دیں گے: ہم جو کچھ کہتے تھے (اس پر خود) عمل نہیں کرتے تھے۔

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ جُنْدُبٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: مَثَلُ الْعَالِمِ الَّذِي يُعَلِّمُ النَّاسَ الْخَيْرَ وَيَنْسَی نَفْسَهُ کَمَثَلِ السِّرَاجِ يُضِيئُ لِلنَّاسِ وَيَحْرِقُ نَفْسَهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2/ 165، الرقم/ 1681، الشيباني في الأحاد والمثاني، 4/ 293، الرقم/ 2314، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 74، الرقم/ 217، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 184، والمناوي في فيض القدير، 5/ 510.

حضرت جندب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو عالم لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اس کی مثال اس چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتا ہے لیکن خود کو جلاتا ہے۔

یہ حدیث امام طبرانی سے مروی ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: أَشَدُّ النَّاسِ عَذَاباً يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَالِمٌ لَمْ يَنْفَعْهُ عِلْمُهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْقُضَاعِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1/ 305، الرقم/ 507، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 285، الرقم/ 1778، والقضاعي في مسند الشهاب، 2/ 171، الرقم/ 1122، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 75، الرقم/ 219.

ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت لوگوں میں سب سے شدید عذاب میں مبتلا وہ عالم ہو گا جسے اُس کے علم نے نفع نہ دیا ہو گا۔

اس حدیث کو امام طبرانی، بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الأَئِمَّةِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

کَانَ الإِمَامُ مَالِکُ بْنُ دِيْنَارٍ يَقُوْلُ: إِذَا تَعَلَّمَ الْعَبْدُ الْعِلْمَ لِيَعْمَلَ بِهِ کَثُرَ عِلْمُهُ وَإِذَا تَعَلَّمَهُ لِغَيْرِ الْعَمَلِ زَادَهُ فُجُوْراً وَتَکَبُّراً وَاحْتِقَاراً لِلْعَامَّةِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 58.

امام مالک بن دینار فرمایا کرتے تھے: جب آدمی عمل کرنے کی نیت سے علم حاصل کرے تو اس کا علم زیادہ ہو جاتا ہے اور جب عمل کی نیت کے بغیر علم حاصل کرے تو نافرمانی، تکبر اور عام لوگوں کو حقیر جاننے جیسے بُرے اعمال میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

سُؤِلَ الإِمَامُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَنِ الْغَوْغَاءِ فَقَالَ: الَّذِيْنَ يَطْلُبُوْنَ بِعِلْمِهِمُ الدُّنْيَا. وَکَانَ يَقُوْلُ: أَوَّلُ الْعِلْمِ طَلَبُهُ، ثُمَّ الْعَمَلُ بِهِ، ثُمَّ الصَّمْتُ ثُمَّ نَظَرُهُ. وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْعِلْمِ أَخْلَصُوْا فِيْهِ مَا کَانَ مِنْ عَمَلٍ أَفْضَلُ مِنْهُ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 75.

امام سفیان ثوری سے نچلے درجہ کے لوگوں کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے علم کے ساتھ دنیا طلب کرتے ہیں۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے: علم کا آغاز اس کی طلب ہے، پھر اس پر عمل کرنا، پھر خاموشی، پھر اس میں غور و فکر کرنا اور اگر اہل علم اس میں مخلص ہوں تو اس سے افضل کوئی عمل نہیں۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ يُوْسُفُ بْنُ أَسْبَاطٍ يَقُوْلُ: اَلْعَالِمُ يَخْشَی أَنْ يَکُوْنَ خَيْرُ أَعْمَالِهِ أَضَرَّ عَلِيْهِ مِنْ ذُنُوْبِهِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 93.

امام یوسف بن اسباط فرمایا کرتے تھے: عالم (ربانی) کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے (کہ کہیں ایسا نہ ہو)کہ اس کا بہترین عمل اسے اس کے گناہوں سے بھی زیادہ نقصان پہنچانے والا ہو جائے۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ ذُوْ النُّوْنِ الْمِصْرِيُّ يَقُوْلُ: لَيْسَ بِعَاقِلٍ مَنْ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ فَعُرِفَ بِهِ، ثُمَّ آثَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ هَوَاهُ عَلٰی عَمَلِهِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 107.

امام ذوالنون مصری فرمایا کرتے تھے: وہ شخص عقل مند نہیں جس نے علم پڑھا اور اس کے ذریعے شہرت پائی پھر اس کے بعد اس نے اپنے علم پر عمل کرنے کی بجائے اپنی خواہش نفس کو ترجیح دی۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ دَاؤدُ الطَّائِيُّ يَقُوْلُ: إِنَّمَا يُطْلَبُ الْعِلْمُ لِلْعَمَلِ بِهِ أَوَّلًا فَأَوَّلًا. وَإِذَا أَفْنَی الطَّالِبُ عُمْرَهُ فِي جَمْعِهِ، فَمَتَی يَعْمَلُ بِهِ؟

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 114.

امام داؤد طائی فرمایا کرتے تھے: یقینا علم تو صرف اسکے مطابق عمل کے لیے حاصل کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے حاصل ہوتا جائے (اس پر عمل بھی کرتے چلے جائیں)، جب طالب علم اپنی ساری زندگی علم جمع کرنے میں ہی بسر کر دے تو اس پر عمل کب کرے گا؟

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ أَبُوْ زَکَرِيَا الْرَّازِيُّ يَقُوْلُ: اَلْعُلَمَاءُ الْعَامِلُوْنَ أَرْأَفُ بِأُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَشْفَقُ عَلَيْهِمْ مِنْ آبَائِهِمْ وَأُمَّهَاتِهِمْ. قِيْلَ لَهُ: کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ: لِأَنَّ آبَائَهُمْ وَأُمَّهَاتِهِمْ يَحْفَظُوْنَهُمْ مِنْ نَارِ الدُّنْيَا، وَالْعُلَمَاءَ يَحْفَظُوْنَهُمْ مِنْ نَارِ الْآخِرَةِ وَأَهْوَالِهَا.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 122.

امام ابو زکریا رازی فرمایا کرتے تھے: با عمل علماء، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت پر، اُن کے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان اور شفیق ہوتے ہیں۔ آپ سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: کیونکہ ان کے والدین تو انہیں دنیا کی آگ سے بچاتے ہیں، جبکہ (باعمل) علماء انہیں جہنم کی آگ اور اس کی ہولناکیوں سے بچاتے ہیں۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يَقُوْلُ: إِذَا کَانَ نَهَارِي نَهَارَ سَفِيْهٍ، وَلَيْلِي لَيْلَ جَاهِلٍ، فَمَاذَا أَصْنَعُ بِالْعِلْمِ الَّذِي کَتَبْتُ؟

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 86.

امام سفیان بن عیینہ فرمایا کرتے تھے: جب میرا دن ایک بے وقوف شخص کے دن جیسا ہو، اور میری رات ایک جاہل شخص کی رات جیسی ہو تو میں اس علم کو کیا کروں جسے میں نے (کاغذوں میں) لکھ رکھا ہے!

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يَقُوْلُ: اَلْعِلْمُ إِنْ لَمْ يَنْفَعْکَ ضَرَّکَ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 86.

امام سفیان بن عیینہ بیان کیا کرتے تھے: اگر علم تجھے (حسنِ عمل کی صورت میں) نفع نہ دے تو (بے عملی کا) نقصان دے گا۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يَقُوْلُ: لَا يَکُوْنُ طَالِبُ الْعِلْمِ عَاقِلًا حَتّٰی يَرَی نَفْسَهُ دُوْنَ کُلَّ الْمُسْلِمِيْنَ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 86.

امام سفیان بن عیینہ فرمایاکرتے تھے: طالب علم اس وقت تک عقل مند نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے آپ کو سب مسلمانوں سے کمتر نہ سمجھے۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved