تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم

علماء کرام سے سیکھنے کی فضیلت

فَضْلُ صُحْبَةِ الْعُلَمَاءِ وَاتِّبَاعِهِمْ وَالتَّعَلُّمِ مِنْهُم

اَلْقُرْآن

  1. فَسْئَلُوْٓا اَهْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo

(النحل، 16/ 43)

سو تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو۔

  1. فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ اٰتَيْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًاo قَالَ لَهُ مُوْسٰی هَلْ اَتَّبِعُکَ عَلٰٓی اَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًاo

(الکهف، 18/ 65-66)

تو دونوں نے (وہاں) ہمارے بندوں میں سے ایک (خاص) بندے (خضر علیہ السلام ) کو پا لیا جسے ہم نے اپنی بارگاہ سے (خصوصی) رحمت عطا کی تھی اور ہم نے اسے اپنا علم لدّنی (یعنی اسرار و معارف کا الہامی علم) سکھایا تھا۔ اس سے موسيٰ( علیہ السلام ) نے کہا: کیا میں آپ کے ساتھ اس (شرط) پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے (بھی) اس علم میں سے کچھ سکھائیں گے جو آپ کو بغرضِ ارشاد سکھایا گیا ہے۔

  1. وَاذْ کُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰهِيْمَ ط اِنَّهُ کَانَ صِدِّيْقًا نَّبِيًّاo اِذْ قَالَ لِاَبِيْهِ يٰٓاَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِيْ عَنْکَ شَيْئًاoيٰـٓاَبَتِ اِنِّيْ قَدْ جَآئَنِيْ مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ يَاْتِکَ فَاتَّبِعْنِيْٓ اَهْدِکَ صِرَاطًا سَوِيًّاo

(مريم، 19/ 41-43)

اور آپ کتاب (قرآن مجید) میں ابراہیم ( علیہ السلام ) کا ذکر کیجیے، بے شک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے۔ جب انہوں نے اپنے باپ (یعنی چچا آزر سے جس نے آپ کے والد تارخ کے انتقال کے بعد آپ کو پالا تھا) سے کہا: اے میرے باپ! تم ان (بتوں) کی پرستش کیوں کرتے ہو جو نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اور نہ تم سے کوئی (تکلیف دہ) چیز دور کرسکتے ہیں۔ اے ابّا! بیشک میرے پاس (بارگاہِ الٰہی سے) وہ علم آ چکا ہے جو تمہارے پاس نہیں آیا تم میری پیروی کرو میں تمہیں سیدھی راہ دکھاؤں گا۔

اَلْحَدِيْثُ

  1. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: إِنَّ لُقْمَانَ قَالَ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ، عَلَيْکَ بِمُجَالَسَةِ الْعُلَمَاءِ، وَاسْتَمِعْ کَلَامَ الْحُکَمَاءِ، فَإِنَّ اللہَ يُحْيِي الْقَلْبَ الْمَيِّتَ بِنُوْرِ الْحِکْمَةِ کَمَا يُحْيِي الأَرْضَ الْمَیِّتَةَ بِوَابِلِ الْمَطَرِ.

رَوَاهُ مَالِکٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه مالک في الموطأ، 2/ 1002، الرقم/ 1821، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 199، الرقم/ 7810، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 196، الرقم/ 4550، وذکره ابن عبد البر في الاستذکار، 8/ 616، الرقم/ 1891.

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو (نصیحت کرتے ہوئے) کہا: میرے بیٹے! علماء کے پاس لازمی بیٹھنا اورحکماء کی گفتگو غور سے سننا کیونکہ اللہ تعاليٰ مردہ دل کو نورِ حکمت سے زندہ فرما دیتا ہے جس طرح کہ وہ مردہ زمین کو موسلادھار بارش سے زندہ کر دیتا ہے۔

اسے امام مالک اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور الفاظ بھی انہی کے ہیں۔

وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ عليه السلام قَالَ: إِنَّمَا الْأُمُوْرُ ثَـلَاثَةٌ: أَمْرٌ يَتَبَيَنُ لَکَ رُشْدُهُ فَاتَّبِعْهُ، وَأَمْرٌ يَتَبَيَنُ لَکَ غَيُهُ فَاجْتَنِبْهُ، وَأَمْرٌ اخْتُلِفَ فِيْهِ فَرُدَّهُ إِلَی عَالِمِهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10/ 318، الرقم/ 10774، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3/ 219، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 79، الرقم/ 238، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 157.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عیسيٰ بن مریم علیہ السلام نے فرمایا: (زندگی میں پیش آنے والے) معاملات تین ہی ہیں: ایک معاملہ وہ ہے جس کی ہدایت تمہارے لیے واضح ہے پس تم اس کی اتباع کرو۔ دوسرا معاملہ وہ ہے جس کی گمراہی تمہارے لیے واضح ہے، پس تم اس سے بچو۔ تیسرا معاملہ وہ ہے جس میں اختلاف ہے (یعنی جو متشابہ ہے) پس تم اسے اس معاملہ کو راسخ عالم کے پاس لے جاؤ۔

اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

وَفِي رِوَايَةِ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مِنْ أَخْلَاقِ الْمُؤْمِنِ حُسْنُ الْحَدِيْثِ إِذَا حَدَّثَ، وَحُسْنُ الْاِسْتِمَاعِ إِذَا حُدِّثَ، وَحُسْنُ الْبِشْرِ إِذَا لَقِيَ، وَوَفَاءُ الْوَعْدِ إِذَا وَعَدَ.

رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 3/ 637، الرقم/ 5997، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1/ 194، الرقم/ 328، وذکره العسقلاني في لسان الميزان، 5/ 438، الرقم/ 1435، والذهبي في ميزان الإعتدال، 6/ 378.

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: یہ مومن کے حُسنِ اخلاق میں سے ہے کہ جب وہ بات کرے تو اچھی بات کرے، اور جب اس سے بات کی جائے تو اس کو غور سے سنے، اور جب کسی سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے، اور جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے۔

اِسے امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، أَيُّ جُلَسَائِنَا خَيْرٌ؟ قَالَ: مَنْ ذَکَّرَکُمُ اللہَ رُؤْيَتُهُ، وَزَادَ فِي عِلْمِکُمْ مَنْطِقُهُ وَذَکَّرَکُمْ بِالْآخِرَةِ عَمَلُهُ.

رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ.

أخرجه أبو يعلی في المسند، 4/ 326، الرقم/ 2437، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 213، الرقم/ 631، والبيهقي في شعب الإيمان، 7/ 57، الرقم/ 9446، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2/ 39، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 63، الرقم/ 163، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10/ 262.

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! ہمارے بہترین ہم نشیں کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کا دیکھنا تمہیں اللہ کی یاد دلادے، جس کا بولنا تمہارے علم میںاضافہ کرے اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے۔

اسے امام ابویعلی اور عبد بن حمید نے روایت کیا۔

وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوْا. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: مَجَالِسُ الْعِلْمِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُِّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11/ 95، الرقم/ 11158، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 63، الرقم/ 161، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126، والمناوي في فيض القدير، 1/ 442.

ایک اور روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنت کے باغوں کے پاس سے گزرو تو (وہاں) بیٹھ کر فراخی کے ساتھ کھایا پیا کرو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! جنت کے باغات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم کی مجالس۔

اس کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

مَا رُوِيَ عَنِ الأَئِمَّةِ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِيْنَ

قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيْرِيْنَ، وَمَالِکٌ، وَابْنُ الْمُبَارَکِ، وَخَلَائِقٌ مِنَ السَّلَفِ: إِنَّ هٰذَا الْعِلْمَ دِينٌ فَانْظُرُوا عَمَّنْ تَأْخُذُونَ دِينَکُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالدَّارِمِيُّ وَابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالْخَطِيْبُ.

أخرجه مسلم في الصحيح، المقدمة، باب بَيَانِ أَنَّ الْإِسْنَادَ مِنَ الدِّينِ وَأَنَّ الرِّوَايَةَ لَا تَکُونُ إِلَّا عَنَ الثِّقَاتِ، 1/ 14، والدارمي في السنن، باب في الحديث عن الثقات، 1/ 124، الرقم/ 424، وابن عبد البر في التمهيد، 1/ 47، والخطیب البغدادي في الکفاية في علم الرواية/ 122، 159.

امام محمد بن سیرین، امام مالک، امام عبد اللہ بن مبارک اور کثیر علمائے سلف نے کہا ہے: یہ علم (حدیث) دین کا ایک حصہ ہے، لهٰذا تمہیں غور کرنا چاہیے کہ تم کس شخص سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو۔

اِسے امام مسلم، دارمی، ابن عبد البر اور خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه: مِنْ حَقِّ الْعَالِمِ أَنْ لَا تُکْثِرَ عَلَيْهِ السُّؤَالَ، وَلَا تُعَنِّتُهُ فِي الْجَوَابِ، وَلَا تُلِحُّ عَلَيْهِ إِذَا کَسِلَ، وَلَا تَأْخُذُ بِثَوْبِهِ إِذَا نَهَضَ، وَلَا تُفْشِي لَهُ سِرًّا، وَلَا تَغْتَابُ عِنْدَهُ أَحَدًا، وَأَنْ تَجْلِسَ أَمَامَهُ، وَإِذَا أَتَيْتَهُ خَصَصْتَهُ بِالتَّحِيَةِ وَسَلَّمْتَ عَلَی الْقَوْمِ عَامَّةً، وَأَنْ تَحْفَظَ سِرَّهُ وَمَغِيْبَهُ مَا حَفِظَ أَمْرَ اللہِ، فَإِنَّمَا الْعَالِمُ بِمَنْزِلَةِ النَّخْلَةِ تَنْتَظِرُ مَتٰی يَسْقُطُ عَلَيْکَ مِنْهَا شَيْئٌ.

رَوَاهُ الْخَطِيْبُ.

أخرجه الخطيب البغدادي في الفقيه والمتفقه، 2/ 198، وذکره الغزالي في إحياء علوم الدين، 1/ 51، والهندي في کنز العمال، 10/ 134، الرقم/ 29520.

حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک عالم کا تجھ پر یہ حق ہے کہ تو اس سے کثرت کے ساتھ سوال نہ کرے اور جواب دینے میں اسے مشقت میں نہ ڈالے، اور جب وہ تھکا ہوا ہو تو کسی چیز کے لیے اس سے اصرار نہ کرے، جب وہ نشست سے کھڑا ہو تو تُو اُس کے کپڑے نہ پکڑے، اور نہ ہی تو اُس کے کسی راز کو فاش کرے، اور نہ ہی اس کے پاس کسی کی غیبت کرے اور نہ اس کے سامنے بیٹھے، اور جب تو اس کے پاس آئے تو اسے خصوصی طور پر اور باقی لوگوں کو عمومی طور پر سلام کرے، اور یہ کہ تو اس کے راز اور پوشیدہ باتوں کی حفاظت کرے جب تک وہ اللہتعاليٰ کے دین کی محافظت کرنے والا ہے۔ بے شک عالم کھجور کے پودے کی طرح ہے، جس کا تو انتظار کرتا ہے کہ اس میں سے تمہارے اوپر کوئی چیز گرے۔

اسے خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے۔

کَانَ الإِمَامُ سُفْيَانُ بْنُ سَعِيْدٍ الثَّوْرِيُّ يَقُوْلُ: لَا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يَطْلُبَ الْعِلْمَ وَالْحَدِيْثَ حَتّٰی يَعْمَلَ فِي الْأَدَبِ عِشْرِيْنَ سَنَةً.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 70.

امام سفیان بن سعید ثوری نے فرمایا: کسی شخص کو علم اور حدیث مبارک حاصل کرنے سے پہلے بیس سال تک آداب (و اخلاق) سیکھنے چاہئیں۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

عَنِ الإِمَامِ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ قَالَ: إِنَّ أَحَدَکُمْ إِلَی أَدَبٍ حَسَنٍ أَحْوَجُ مِنْهُ إِلَی خَمْسِيْنَ حَدِيْثًا.

أخرجه الخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1/ 201، الرقم/ 355.

امام حجاج بن ارطاۃ بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے ہر کوئی پچاس احادیث (سیکھنے) سے بھی زیادہ حسنِ ادب کا محتاج ہے۔

کَانَ الإِمَامُ ذُوالنُّوْنِ الْمِصْرِيُّ يَقُوْلُ: يَا مَعْشَرَ الْمُرِيْدِيْنَ، مَنْ أَرَادَ مِنْکُمُ الطِّرِيْقَ فَلْيَلْقَ الْعُلَمَاءَ بِإِظْهَارِ الْجَهْلِ، وَالزُّهَادَ بِإِظْهَارِ الرُّغْبَةِ، وَالْعَارِفِيْنَ بِالصَّمْتِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 106.

امام ذوالنون مصری فرمایا کرتے تھے: اے گروہِ مریدین! تم میں سے جو شخص (اللہ کی) راہ کا ارادہ رکھتا ہے اسے علماء سے اپنی لا علمی کے اظہار کے ساتھ، زاہدوں سے رغبت و چاہت کے اظہار کے ساتھ اور عارفین سے خاموشی کے ساتھ ملنا چاہیے۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: ضَحِکَ رَجُلٌ فِي مَجْلِسِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ مَهْدِيٍّ فَقَالَ: مَنْ ضَحِکَ؟ فَأَشَارُوْا إِلَی رَجُلٍ فَقَالَ: تَطْلُبُ الْعِلْمَ وَأَنْتَ تَضْحَکُ۔ لَا حَدَّثْتُکُمْ شَهْرًا.

أخرجه الخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1/ 193، الرقم/ 325.

حضرت عبد الرحمن بن عمر بیان کرتے ہیں: ایک شخص عبد الرحمن بن مہدی کی مجلس میں ہنسا۔ انہوں نے پوچھا: کون ہنسا ہے؟ لوگوں نے اس کی طرف اشارہ کیا تو آپ نے فرمایا: تو علم کا طالب ہے اور (درس میں بیٹھ کر) ہنستا ہے، میں ایک ماہ تک تمہیں نہیں پڑھاؤں گا۔

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النَّضْرِ الْحَارِثِيِّ قَالَ: کَانَ يُقَالُ: أَوَّلُ الْعِلْمِ الْإِنْصَاتُ لَهُ، ثُمَّ الْاِسْتِمَاعُ لَهُ، ثُمَّ حِفْظُهُ، ثُمَّ الْعَمَلُ بِهِ ثُمَّ بَثُّهُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في العلل ومعرفة الرجال، 1/ 204، الرقم/ 209، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 288، الرقم: 1796، والخطيب البغدادي في الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع، 1/ 194، الرقم/ 327.

محمد بن نضر الحارثی بیان کرتے ہیں: مشہور یہ ہے کہ علم کی ابتداء اس کے لیے خاموشی اختیار کرنا ہے، پھر اس کو غور سے سننا، پھر اس کو یاد کرنا ہے، پھر اس پر عمل کرنا اور اسے پھیلانا ہے۔

قَالَ الإِمَامُ أَبُوْ عِصْمَةَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ أَحْمَدَ فَجَائَنِي بِمَاءٍ فَوَضَعَهُ. فَلَمَّا أَصْبَحَ نَظَرَ إِلَی الْمَاءِ کَمَا هُوَ. فَقَالَ: يَا سُبْحَانَ اللہِ، رَجُلٌ يَطْلُبُ الْعِلْمَ وَلَا يَکُوْنُ لَهُ وِرْدٌ مِنَ اللَّيْلِ.

ذَکَرَهُ الشَّعْرَانِيُّ فِي الطَّبَقَاتِ.

الشعراني، الطبقات الکبری/ 83.

امام ابو عصمہ نے بیان کیا: میں نے (دورانِ طالب علمی) امام احمد بن حنبل کے ہاں ایک رات بسر کی۔ آپ نے پانی لا کر میرے پاس رکھ دیا۔ صبح کے وقت دیکھا کہ پانی اسی طرح پڑا ہے۔ فرمانے لگے: تعجب ہے کہ ایک شخص علم دین حاصل کرے اور رات (کے پچھلے پہر) میں اس کا کوئی ورد (عبادت وغیرہ) نہ ہو۔

اسے امام شعرانی نے ’الطبقات الکبريٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved